ذوق نظر بڑھائیے گلزار دیکھ کر
الفت کا سودا کیجئے بازار دیکھ کر
میں نے جنون عشق سے دامن بچا لیا
ہر بوالہوس کو تیرا پرستار دیکھ کر
میرے ہی در پہ تھا کوئی سائل کے روپ میں
حیرت زدہ رہا مجھے نادار دیکھ کر
نغمہ سرا نہ ہو سکا گلشن میں عندلیب
طوفان و برق و باد کے آثار دیکھ کر
بیتاب دل کو اور ترستی نگاہ کو
بہلا سکا نہ میں گل و گلزار دیکھ کر
دل گفتگو کی سمت جھکا شعر بن گئے
اظہار غم کو روح کا غم خوار دیکھ کر
ہوش و ہوس کی جنگ میں حیرت زدہ رہا
جذبوں کا شور عقل کے افکار دیکھ کر
آنکھوں سے کائنات کے آنسو ٹپک پڑے
شافی کو اس جہان میں بیمار دیکھ کر
یاد آ گئیں خرد کو وہ جنت کی لغزشیں
دل کا جنون و شوق شرر بار دیکھ کر
ہاتھوں میں دل کے پرچم افکار دے دیا
انسانیت کو برسر پیکار دیکھ کر
اختر حسین شافی