Urdu Deccan

Sunday, January 24, 2021

کبیر بنارسی

 یوم پیدائش 24 جنوری 1957


دُشواریوں کی دھوپ ہر اِک رہگزر میں ہے

اِک چھاؤں عزم کی ہے جو راہِ سفر میں ہے۔


مانا اُمیدو یاس بھی خُوئے بشر میں ہے

لیکن عجیب وحشتِ تنہائی گھر میں ہے


بُجھنے لگے کبیر اُمیدوں کے سب چراغ

طوفاں اُداسیوں کا وہ پچھلے پہر میں ہے


کبیر بنارسی


Saturday, January 23, 2021

صغیر انصاری

 یوم پیدائش 24 جنوری 1962


 وہ لفظ کے پتھر سے جو گھائل نہیں ہوتا

  پھر کرنا غلط کام بھی مشکل نہیں ہوتا


لوگوں کے دل و جان میں شامل نہیں ہوتا 

کیوں رہنما وسواس کے قابل نہیں ہوتا


تم چاہتے ہو جس کو بنا دیتے ہو مجرم

یوں ٹی وی کے پردے پہ ٹرائل نہیں ہوتا


حساس ہوں باتوں کا اثر ہوتا ہے مجھ پر

پتھر کسی بھی حال میں گھائل نہیں ہوتا


جو تیر مری پشت پہ تم دیکھ رہے ہو

بچ جاتا میں یاروں سے جو غافل نہیں ہوتا


اسکول یہ بازار یہ اخبار یہ ٹی وی

 سب ہاتھ میں ہوتے جو تو جاہل نہیں ہوتا

 

صغیر انصاری


غلام مصطفےٰ زار

 یوم پیدائش 23 جنوری 1979


خودی کا خود سے سُراغ پایا

چراغ اندر چراغ پایا


وہیں سے کرنیں نکل رہی ہیں

بدن میں دل سا جو داغ پایا


کلی کلی پُر بہار دیکھی

پروں میں تتلی کے باغ پایا


نظر بھی اب تو نظر ہوئی ہے

نظر سے ایسا ایاغ پایا


کہیں کی باتیں کہیں سُنائیں

بلا کا ہم نے دماغ پایا 


غلام مصطفےٰ رازؔ 


سمن دھنگرا دگل

 یوم پیدائش 23 جنوری


نہ روک پائیں گئے دل کو خوشی منانے سے

ہماری خاک یہاں لگ گئی ٹھکانے سے


حضور آپ کے ہسنے سے مسکرانے سے

چمن میں پھول کھلے ہیں اسی بہانے سے


خوشی بہار سکون و قرار اور نیندیں

یہ ہم سے روٹھ گئے تیرے روٹھ جانے سے


میں عشق ہوں مجھے سب سے چھپا کے تم رکھنا

میری زمانے سے ان بن ہے اک زمانے سے


میں آج برق سے اتنا ضرور پوچھوں گی

کہ تیری کون سی رنجش ہے آشیانے سے


وطن پرستی کی یہ بھی تو ایک ضمانت ہے 

کہ ہم کو پیار ہے اقبال کے ترانے سے


سمن اگر یہ محبت نہیں تو پھر کیا ہے

میں اس کو آج بھی خاصر ہوں بھول جانے سے


سمن دھنگرا دگل


Friday, January 22, 2021

عارش نظام

 نظر جھکا کے ادب سے کلام کرتا ہوں

میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں


وہاں کے لوگ ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں 

ذرا سی دیر جہاں پر قیام کرتا ہوں


یہاں کے لوگ مرے اس لئے بھی دشمن ہیں 

میں تیرگی کو مٹانے کا کام کرتا ہوں


یہ میرے شعر یہ غزلیں یہ حُسن کی باتیں 

وہ جانتی ہے کہ میں کس کے نام کرتا ہوں


سنا ہے تم کو محبت کی اب ضرورت ہے 

ذرا کٹھِن ہے مگر انتظام کرتا ہوں


سوال کرتے ہوئے لب گلاب لگتے ہیں 

سو لوٹنے میں ہمیشہ ہی شام کرتا ہوں


یہاں کی ساری حسینائیں مجھ سے واقف ہیں 

میں بچپنے سے محبت کو عام کرتا ہوں


پھر اس کے بعد بہت درد ہے کہانی میں 

جو تاب لا نہ سکو اختتام کرتا ہوں


عارش نظام


نائلہ شعور

 یوم پیدائش 22 جنوری


میرے احساس شکستہ کرکے 

دن گیا ہے مجھے پسپا کرکے 


اک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں 

خواب آنکھوں میں بسیرا کرکے 


یہ بتاؤ تمہیں ملتا کیا ہے 

اس طرح روز تماشا کر کے 


وہ جو پہلے سے ہی شرمندہ ہیں 

کیا ملے گا انہیں رسوا کرکے 


ہر طرف شور ہے تنہائی کا

یوں گیا کون پرایا کرکے 


مجھ میں رکھ جاتا ہے اکثر کوئی 

نائلہ زخم کو گہرا کرکے 


نائلہ شعور


مظہر قریشی

 یوم پیدائش 22 جنوری 1958


ہم سے نظریں جو ملاؤ تو غزل ہو جائے

اپنی پلکوں کو اٹھاؤ تو غزل ہو جائے


 سوئے احساس جگاؤ تو غزل ہو جائے

  آگ پانی میں لگاؤ تو غزل ہو جائے


میرے اشعار کو میٹھا سا ترنم دے کر 

اپنے ہونٹوں پہ سجاؤ تو غزل ہو جائے


اب تلک ہجر کی راتوں نے جلایا ہے مجھے 

وصل کی شمعیں جلاؤ تو غزل ہو جائے


شبِ تاباں کو ذرا اور نکھر جانے دو 

حوصلے اور بڑھاؤ تو غزل ہو جائے


حرف سے لفظ بنو ،لفظ سے اشعار بنو 

یوں تخیل کو سجاؤ تو غزل ہو جائے


مظہر قریشی


رہی شباہی

 یوم پیدائش 22 جنوری 1934


دل والے ہیں ہم رسم وفا ہم سے ملی ہے 

دنیا میں محبت کو بقا ہم سے ملی ہے 


وہ خندہ بہ لب ذکر گلستاں پہ یہ بولے 

غنچوں کو تبسم کی ادا ہم سے ملی ہے 


صدیوں سے ترستے ہوئے کانوں میں جو پہنچی 

تاریخ سے پوچھو وہ صدا ہم سے ملی ہے 


ہم وہ ہیں کہ خود پھونک دیئے اپنے نشیمن 

گلشن کے اندھیروں کو ضیا ہم سے ملی ہے 


کیا ایک ہی محور پہ ہے ٹھہری ہوئی دنیا 

وہ جب بھی ملی ہے تو خفا ہم سے ملی ہے 


وہ بت جو خدا آج بنے بیٹھے ہیں ان کو 

یہ شان خدائی بہ خدا ہم سے ملی ہے 


ہم ٹھہرے ہیں طوفان حوادث کے مقابل 

بڑھ بڑھ کے گلے موج بلا ہم سے ملی ہے 


سیکھا ہے جلانے کا چلن شمع نے تم سے 

پروانوں کو جلنے کی ادا ہم سے ملی ہے 


ہم اہل محبت ہیں لہو دیتے ہیں راہیؔ 

بے نور چراغوں کو ضیا ہم سے ملی ہے 


راہی شہابی


سکندر علی وجد

 یوم پیدائش 22جنوری 1914


خوش جمالوں کی یاد آتی ہے 

بے مثالوں کی یاد آتی ہے 


باعثِ رشک مہر و ماہ تھے جو 

ان ہلالوں کی یاد آتی ہے 


جن کی آنکھوں میں تھا سرورِ غزل 

ان غزالوں کی یاد آتی ہے 


جن سے دنیائے دل منّور تھی

ان اُجالوں کی یاد آتی ہے


سادگی لا جواب ہے جن کی 

ان سوالوں کی یاد آتی ہے 


ذکر سنتے ہی نوجوانی کا

کچھ خیالوں کی یاد آتی ہے


جانے والے کبھی نہیں آتے 

جانے والوں کی یاد آتی ہے 


وجدؔ لطفِ سخن مبارک ہو 

با کمالوں کی یاد آتی ہے


سکندر علی وجد


Wednesday, January 20, 2021

شرافت حسین

 یوم پیدائش 21 جنوری 1948


خلاصہ ہے گلوں کی داستاں کا

 رہا قبضہ بہاروں پر خزاں کا


مخالف سمت رہبر چل رہے ہیں

خدا حافظ ہمارے کارواں کا


ہمارے سر پہ جو سایہ فگن ہے

 یہ بادل ہے تعصب کے دھواں کا


وہ شعلوں کی زبانیں بولتا ہے

دہانہ ہے کسی آتش فشاں کا


ذرا سوچو یہ کیسا فاصلہ ہے

 ہمارے اور تمھارے درمیاں کا


اڑا کر لے گئیں دشمن ہوائیں 

ہر اک تنکا ہمارے آشیاں کا


شرافت حسین


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...