Urdu Deccan

Monday, March 1, 2021

مختار صدیقی

 یوم پیدائش 01مارچ 1919


نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی

کب التفات تھا کہ جو خوئے ستم گئی


پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے

یہ چال ہے خزاں کی جو رک رک کے تھم گئی


شاید کوئی اسیر ابھی تک قفس میں ہے

پھر موج گل چمن سے جو با چشم نم گئی


قبضہ میں جوش گل نہ خزاں دسترس میں ہے

راحت بھی کب ملی ہے اگر وجہ غم گئی


ہاں طرح آشیاں بھی انہیں خار و خس میں ہے

بجلی جہاں پہ خاص بہ رنگ کرم گئی


ہاں شائبہ گریز کا بھی پیش و پس میں ہے

وہ بے رخی کہ ناز کا تھی جو بھرم گئی


اب کائنات اور خداؤں کے بس میں ہے

اب رہبری میں قدرت دیر و حرم گئی


جادو غزل کا جذب تمنا کے رس میں ہے

یعنی وہ دل کی بات دلوں میں جو دم گئی


مختار صدیقی


نثار اٹاوی

 یوم پیدائش 01 مارچ 1914


لے کے دل کہتے ہو الفت کیا ہے

حسن والو یہ شرارت کیا ہے


اک اچٹتی سی تغافل کی نگاہ

حیلہ عرض محبت کیا ہے


خود ہی نادم ہوں وفا پر اپنی

اس تبسم کی ضرورت کیا ہے


مجھ کو بہتان‌‌ ہوس بھی منظور

کون سمجھے گا حقیقت کیا ہے


نکہت و نور کے سانسوں کا کماں

ورنہ تو کیا مری صورت کیا ہے


قامت یار کی بگڑی ہوئی شکل

فتنۂ روز قیامت کیا ہے


کس کی ہمت کہ تجھے ساتھ لگائے

تو بجز موج لطافت کیا ہے


ربط محسوس کی الجھن کے سوا

آپ کا جذبۂ نفرت کیا ہے


اشک غم بوند ہے پانی کی مگر

یہ بھی معلوم ہے قیمت کیا ہے


دامن ناز کی جھاڑی ہوئی گرد

اور انساں کی حقیقت کیا ہے


میں کہ اک گوہر‌ آلودۂ خاک

کچھ نہ سمجھا مری قیمت کیا ہے


طالب داد سخن کیوں ہو نثارؔ

آپ کے شعر میں جدت کیا ہے


نثار اٹاوی 


عندلیب شادانی

 یوم پیدائش 01 مارچ 1904


دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو

آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو


شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول

اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو


چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ دیں اپنی مرضی تک

کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو


کیوں یہ مہرانگیز تبسم مد نظر جب کچھ بھی نہیں

ہائے کوئی انجان اگر اس دھوکے میں آ جائے تو


سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے

پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو


جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے

اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو


نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو

اک بے بس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آ جائے تو


عندلیب شادانی


اصغر گونڈوی

 یوم پیدائش 01 مارچ 1884


وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے

کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے


نظر وہ ہے جو اس کون و مکاں سے پار ہو جائے

مگر جب روئے تاباں پر پڑے بے کار ہو جائے


تبسم کی ادا سے زندگی بیدار ہو جائے

نظر سے چھیڑ دے رگ رگ مری ہشیار ہو جائے


تجلی چہرۂ زیبا کی ہو کچھ جام رنگیں کی

زمیں سے آسماں تک عالم انوار ہو جائے


تم اس کافر کا ذوق بندگی اب پوچھتے کیا ہو

جسے طاق حرم بھی ابروئے خم دار ہو جائے


سحر لائے گی کیا پیغام بیداری شبستاں میں

نقاب رخ الٹ دو خود سحر بیدار ہو جائے


یہ اقرار خودی ہے دعوئ ایمان و دیں کیسا

ترا اقرار جب ہے خود سے بھی انکار ہو جائے


نظر اس حسن پر ٹھہرے تو آخر کس طرح ٹھہرے

کبھی خود پھول بن جائے کبھی رخسار ہو جائے


کچھ ایسا دیکھ کر چپ ہوں بہار عالم امکاں

کوئی اک جام پی کر جس طرح سرشار ہو جائے


چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے


اصغر گونڈوی


شیامل مترا

 اترا کے نہ چل خاک پہ یوں پاؤں جمائے

بیٹھی ہے تری آس میں یہ گھات لگائے


ہے تجھ کو پتا وہ کبھی کرتا ہے تجھے یاد

رہتا تُو جسے یاد کئے سب کو بھلائے


رہتا ہے پڑا بے خبری میں تو مسلسل

اب آکے قضأ پیچھا ترا اِس سے چھڑائے


اے دل بتا اِس شہر میں رہتا بھی کہیں وہ

یاں ہم تو چلے آئے ہیں بس تیرے بتائے


ملنے سے پری چہروں کے رسوائی لگی ہاتھ

اب پھریؤ نظر نیچی کئے چہرہ چھپائے


رہتا ہے پھرے شہر شہر صورت درویش

ٹھہرا نہ کہیں پاؤں تو اپنے یہ ٹکائے


ہے بھاگ میں در در کا بھٹکنا ترا شِیامل

یہ در بہ دری مولیٰ کِسی کو نہ دکھائے


شِیامَل مِترا


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902


غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں

کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں


عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں

عشق کی راہ میں ایسے بھی مقام آتے ہیں


اب مرے عشق پہ تہمت ہے ہوس کاری کی

مسکراتے ہوئے اب وہ لبِ بام آتے ہیں


واعظِ شہر کی محفل ہے کہ ہے بزمِ نشاط

حوضِ کوثر سے چھلکتے ہوئے جام آتے ہیں


یہ رہِ شوق رہِ عشق ہے اے اہلِ ہوس

منزلیں آتی ہیں اس میں نہ مقام آتے ہیں


اب نئے رنگ کے صیاد ہیں اس گلشن میں

صید کے ساتھ جو بڑھ کر تہِ دام آتے ہیں


داورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں


جن کو خلوت میں بھی تاثیرؔ نہ دیکھا تھا کبھی

محفلِ غیر میں اب وہ سرِ عام آتے ہیں


محمد دین تاثر


عبد الرحمان واصف

 بچھائے گی لکیریں اور حدیں تشکیل دے گی

ہماری آنکھ غم کی صورتیں تشکیل دے گی 


یہ دل اتنی ہی بے انداز وحشت میں جلے گا

محبت جس قدر گنجائشیں تشکیل دے گی


اذیت حرف سب دھندلا کے رکھ دے گی وفا کے

اداسی بے محابا ظلمتیں تشکیل دے گی 


میں تیرے واسطے جس درجہ آسانی کروں گا

مرے حق میں تُو اتنی مشکلیں تشکیل دے گی 


یہ بے کاری بڑھائے گی بہت سے درد دل کے

یہ بے چینی بہت سی الجھنیں تشکیل دے گی


فقط اس آس پر تم سے اجازت چاہتے ہیں 

محبت پھر سے دوبارہ ہمیں تشکیل دےگی


عبدالرحمان واصف


رحمان فارس

 یوم پیدائش 27 فروری 1976


جب خزاں آئے تو پتّے نہ ثَمَر بچتا ہے

خالی جھولی لیے ویران شجَر بچتا ہے


نُکتہ چِیں ! شوق سے دن رات مِرے عَیب نکال

کیونکہ جب عَیب نکل جائیں، ہنَر بچتا ہے 


سارے ڈر بس اِسی ڈر سے ہیں کہ کھو جائے نہ یار

یار کھو جائے تو پھر کونسا ڈر بچتا ہے


روز پتھراؤ بہت کرتے ہیں دُنیا والے

روز مَر مَر کے مِرا خواب نگر بچتا ہے


غم وہ رستہ ہے کہ شب بھر اِسے طَے کرنے کے بعد

صُبحدم دیکھیں تو اُتنا ہی سفر بچتا ہے


بس یہی سوچ کے آیا ہوں تری چوکھٹ پر

دربدر ہونے کے بعد اک یہی در بچتا ہے


اب مرے عیب زدہ شہر کے شر سے، صاحب ! 

شاذ و نادر ہی کوئی اہلِ ہنر بچتا ہے


عشق وہ علمِ ریاضی ہے کہ جس میں فارس

دو سے جب ایک نکالیں تو صفر بچتا ہے 


رحمان فارس


زبدہ خان

 یوم پیدائش 27 فروری


اپنی قبا کو اپنے بدن سے اتار کر

تتلی کے رنگ اوڑھ کے سولہ سنگھار کر


رکھتا ہے پھول نیند کی انگڑائیوں میں وہ

ہر روز میرے خواب کی پلکیں سنوار کر


کر قید آرزو کے جزیروں کو ہاتھ میں 

گہرے سمندروں میں سفینے اتار کر


رگ رگ ادھیڑ دی مرے اجلے وجود کی

دستِ جنوں نے نوچا ہے مجھ کو پکار کر


تیرہِ شبی مٹا دے جبینِ سحر سے پھر

سورج کے رخ سے رات کی چادر اتار کر


پہلے تُو گزرے وقت کی وسعت میں ڈھل ذرا

پھر میرے انتظار کے لمحے شمار کر


اے باغبان دیکھ تو فصل خزاں کا رنگ

گلشن کی خاک کو بھی شناسا بہار کر


زبدہ نہ کر تو غم جو زمانہ خلاف ہے

کچے گھڑے کی آس پہ دریا کو پار کر


زبدہ خان


انجم خلیق

 یوم پیدائش 26 فروری 1950


بیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا

مرجھائے ہوئے پھول بھی گلدان میں رکھنا


کیا جانیں سفر خیر سے گزرے کہ نہ گزرے 

تم گھر کا پتہ بھی مرے سامان میں رکھنا


کیا دن تھے مجھے شوق سے مہمان بلانا

اور خود کو مگر خدمت مہمان میں رکھنا


کیا وقت تھا کیا وقت ہے اس سوچ سے حاصل

چھوڑو جو ہوا کیا اسے میزان میں رکھنا


انسان کی نیت کا بھروسہ نہیں کوئی

ملتے ہو تو اس بات کو امکان میں رکھنا


پرسش ہے بہت سخت وہاں فرد عمل کی

کچھ نعت کے اشعار بھی دیوان میں رکھنا


مخلص ہو رہو ٹوکا ہے کس نے تمہیں انجمؔ

رفتار زمانہ بھی مگر دھیان میں رکھنا


انجم خلیق


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...