یوم پیدائش 01مارچ 1919
نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی
کب التفات تھا کہ جو خوئے ستم گئی
پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے
یہ چال ہے خزاں کی جو رک رک کے تھم گئی
شاید کوئی اسیر ابھی تک قفس میں ہے
پھر موج گل چمن سے جو با چشم نم گئی
قبضہ میں جوش گل نہ خزاں دسترس میں ہے
راحت بھی کب ملی ہے اگر وجہ غم گئی
ہاں طرح آشیاں بھی انہیں خار و خس میں ہے
بجلی جہاں پہ خاص بہ رنگ کرم گئی
ہاں شائبہ گریز کا بھی پیش و پس میں ہے
وہ بے رخی کہ ناز کا تھی جو بھرم گئی
اب کائنات اور خداؤں کے بس میں ہے
اب رہبری میں قدرت دیر و حرم گئی
جادو غزل کا جذب تمنا کے رس میں ہے
یعنی وہ دل کی بات دلوں میں جو دم گئی
مختار صدیقی