Urdu Deccan

Saturday, April 24, 2021

احمد عاری

 جتنے میٹھے ہو اُتنے کھارے ہو

کون سے شہر کے دلارے ہو


کون دیکھے گا اب محبت سے

کون بولے گا تم ہمارے ہو

 

کس لیے ہم یقیں دلائیں تمہیں

تم ہمارے تھے تم ہمارے ہو


ساری جھیلیں تمہارے واسطے ہیں

اور سمندر کے تم کنارے ہو


معصومانہ تیری ادائیں ہیں 

اور سچ مچ میں کتنے پیارے ہو 


تم زمانے کی بھوک ہو مری جاں

اور غریبوں کے تم سہارے ہو


 احمد عاری


حنیف مانوس

 یوم پیدائش 22 اپریل 1952


تو میرا ہی ہوا نہیں

میں اتنا بھی برا نہیں


بہار ہے صبا بھی ہے

تو اک نہیں مزا نہیں


تو کائنات ہے فقط

خدا کی ہے، خدا نہیں


زمین میرے دل میں تھا

وہ آسماں دکھا نہیں


بلا کا رد ہے چپ مری

خموش ہوں برا نہیں


مرے نصیب کا دے تو

تو سیٹھ ہے خدا نہیں


یہ عشق کا تقاضا ہے

ترا نہیں مرا نہیں


بھرا ہے دفترِ گناہ

یہ دل مگر بھرا نہیں


وہ چاک پر خیال ہے

جو شعر میں ڈھلا نہیں


حنیف مانوس


ناوک حمزہ پوری

 یوم پیدائش 21 اپریل 1933


منکر کہتے ہیں اتفاقی ہے خدا

مذہب والوں کی خوش مذاقی ہے خدا

موت آئے گی سامنے تو ہوگا معلوم 

فانی ہر ایک چیز باقی ہے خدا

ناوک حمزہ پوری


بس ایک خدا سب کا خدا ہے بخدا

بس ایک وہی ہے لائق حمد و ثنا

دامن پھیلائیے اسی کے آگے

دینے والا نہیں کوئی اس کے سوا

ناوک حمزہ پوری


سورج کی شعاعوں میں ہے تیرا جلوہ

مہتاب میں عکس تجلی تیرا

کوئی نہیں ہاں کوئی نہیں تیرا شریک

اے خالق جن و بشر و ارض و سما

ناوک حمزہ پوری


بے صوت و صدا ہوئی نوائے مسلم

اللہ سے کٹ گئی ادائے مسلم

یورپ ہو کہ ایشیاء عرب ہو کہ عجم

بے وجہ نہیں اکھڑی ہوائے مسلم 

ناوک حمزہ پوری


سید احتشام حسین

 یوم پیدائش 21 اپریل 1912


کچھ مرے شوق نے در پردہ کہا ہو جیسے

آج تم اور ہی تصویر حیا ہو جیسے


یوں گزرتا ہے تری یاد کی وادی میں خیال

خارزاروں میں کوئی برہنہ پا ہو جیسے


ساز نفرت کے ترانوں سے بہلتے نہیں کیوں

یہ بھی کچھ اہل محبت کی خطا ہو جیسے


وقت کے شور میں یوں چیخ رہے ہیں لمحے

بہتے پانی میں کوئی ڈوب رہا ہو جیسے


کیسی گل رنگ ہے مشرق کا افق دیکھ ندیم

ندی کا خوں رات کی چوکھٹ پہ بہا ہو جیسے


یا مجھے وہم ہے سنتا نہیں کوئی میری

یا یہ دنیا ہی کوئی کوہ ندا ہو جیسے


بحر ظلمات جنوں میں بھی نکل آئی ہے راہ

عشق کے ہاتھ میں موسیٰ کا عصا ہو جیسے


دل نے چپکے سے کہا کوشش ناکام کے بعد

زہر ہی درد محبت کی دوا ہو جیسے


دیکھیں بچ جاتی ہے یا ڈوبتی ہے کشتئ شوق

ساحل فکر پہ اک حشر بپا ہو جیسے


سیداحتشام حسین


عارف امام

 یوم پیدائش 21 اپریل 1956


کیا کیجیے سخن یہاں سجدہ کیے بغیر

مانا گیا ہمیں کوئی دعویٰ کیے بغیر


یکتائی اُس سے پوچھ کہ اک عمر تک جسے

تنہا رکھا گیا ہو اکیلا کیے بغیر


پل بھر کو بھی نظر نہ ہٹی چارہ ساز سے

اُس نے بھی آنکھ پھیری نہ اچّھا کیے بغیر


رقصِ نشاطِ دید میں جاں سے گزر گیے

برسوں پڑے رہے تھے تماشا کیے بغیر


اُس نے بھی کب نگاہ میں تولا تھا کوئی اور

ہم بھی غلام ہوگیے سودا کیے بغیر


وحشت میں بھی لحاظ ہے تہذیبِ عشق کا

مَیلے ہوئے ہیں داغ کو دھبّا کیے بغیر


بہتا رہے لہو تو اُکھڑتا نہیں ہے دم

جیتے نہیں ہیں زخم کو گہرا کیے بغیر


اونچا ہوئے بغیر بریدہ نہیں ہے سر

بجھتا نہیں چراغ اجالا کیے بغیر


کس خارِ نوک دار سے پھوڑا نہ آبلہ؟

چھوڑا کوئی ببول نہ غنچہ کیے بغیر


مردِ نبرد ہے وہ علم دارِ موزُوں قد

لڑتا نہیں کفن کو پھریرا کیے بغیر


دربار میں خطاب یہ کس بے ردا کا تھا؟

سنتے تھے سب نگاہ کو اونچا کیے بغیر


سینچی نہ وہ زمیں جو ہماری نہ ہوسکی

باندھا کوئی خیال نہ اپنا کیے بغیر


پلٹی ہے جانماز نہ پھیرا کبھی سلام

شکرِ خدا بغیر نہ گریہ کیے بغیر


 عارف امام


جمال احسانی

 وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے

گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے


نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے

وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے


یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی

کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے


ہزار مجھ سے وہ پیمان وصل کرتا رہا

پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے


تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے


تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں

وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے


اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں

وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے


جمال احسانی


ایس ڈی عابد

 صبحِ مغرور کو ہے شام بھی ہوتے دیکھا

نامور شخص کو گمنام بھی ہوتے دیکھا


حُسن سے آنکھ ملانے کی حماقت کر کے

ہم نے انسان کو نیلام بھی ہوتے دیکھا 


جس کی امید کبھی تھی ہی نہیں ہونے کی

اپنی آنکھوں سے وہی کام بھی ہوتے دیکھا


جو زمانے میں کبھی خاص ہوئے پھرتے تھے

پھر زمانے نے اُنہیں عام بھی ہوتے دیکھا 


جو سمجھتے تھے کہ ناکام نہیں ہو سکتے

شہر بھر نے انہیں ناکام بھی ہوتے دیکھا 


کتنا دلکش تھا یہ آغازِ محبت لیکن  

اے محبت ترا انجام بھی ہوتے دیکھا 


اک زمانے میں جو انمول تھے عابدؔ میں نے  

ایسے اشخاص کو بے دام بھی ہوتے دیکھا 


 ایس،ڈی،عابدؔ


پیر اسد کمال

 یوم پیدائش 20 اپریل 1982

 

کہانی کار کہتا ہے سبھی کردار بکتے ہیں 

سبھی کردار بکتے ہیں کہانی کار بکتے ہیں 


فقط اتنا بتا دیجے کہ صاحب کیا خریدیں گے

یہاں مضمون بکتے ہیں یہاں اشعار بکتے ہیں


میں اپنے اشک پیتا ہوں بہت مشکل سے جیتا ہوں 

محبت ظلم ڈھاتی ہے مرے اعزار بکتے ہیں 


اگر فن روگ بن جائے بدن کا سوگ بن جائے 

تو پھر حالات کے ہاتھوں سبھی فنکار بکتے ہیں 


ہمارے عکس حیرت کی نئی تعبیر ہیں صاحب

ہمارے آئنہ خانے پسِ زنگار بکتے ہیں 


میں کس جنگل کا باسی ہوں اسد ہوں یا میں آسی ہوں 

کہ میرے سامنے اکثر میرے اشجار بکتے ہیں


پیر اسد کمال


جاوید جدون

 یوم پیدائش 20 اپریل 1977


کہ جیسے ایک چنگاری جلائے راکھ ہونے تک

نہیں جھکتی یوں ہی گردن ہماری خاک ہونے تک


ابھی ہوں اس قدر سادہ محبت کر نہیں سکتا

تو میری سادگی پہ مر مرے چالاک ہونے تک


نہ جانے رو پڑا وہ کیوں لہو میرا جو ٹپکا تو

ستم جس نے کیے مجھ پر جگر کے چاک ہونے تک


بہا کر لے گئے آنسو تجھے تیرے ٹھکانے سے

بسا تھا تو ان آنکھوں میں مگر نمناک ہونے تک


جو مجھ کو کاٹنے میں ہر گھڑی مصروف تھے ان کو

دیا ہے سائباں میں نے خس و خاشاک ہونے تک


ابھی روشن تو ہیں لیکن اُجالے ہم نہ لے پائے

یہ شمعیں بجھ چکی ہوں گی ہمیں ادراک ہونے تک


دعاٶں میں اثر ہو تو پہنچتی ہیں وہاں فوراً

نہیں لگتا انہیں اک پل پسِ افلاک ہونے تک


تجھے پہنائی ہے بیٹی تو اِس کی لاج بھی رکھنا

یہ میرے سر کی پگڑی تھی تری پوشاک ہونے تک


جاویدجدون


اختر ہوشیارپوری

 منزلوں کے فاصلے دیوار و در میں رہ گئے

کیا سفر تھا میرے سارے خواب گھر میں رہ گئے


اب کوئی تصویر بھی اپنی جگہ قائم نہیں

اب ہوا کے رنگ ہی میری نظر میں رہ گئے


جتنے منظر تھے مرے ہمراہ گھر تک آئے ہیں

اور پس منظر سواد رہ گزر میں رہ گئے


اپنے قدموں کے نشاں بھی بند کمروں میں رہے

طاقچوں پر بھی دیئے خالی نگر میں رہ گئے


کر گئی ہے نام سے غافل ہمیں اپنی شناخت

صرف آوازوں کے سائے ہی خبر میں رہ گئے


ناخداؤں نے پلٹ کر جانے کیوں دیکھا نہیں

کشتیوں کے تو کئی تختے بھنور میں رہ گئے


کیسی کیسی آہٹیں الفاظ کا پیکر بنیں

کیسے کیسے عکس میری چشم تر میں رہ گئے


ہاتھ کی ساری لکیریں پاؤں کے تلووں میں تھیں

اور میرے ہم سفر گرد سفر میں رہ گئے


کیا ہجوم رنگ اخترؔ کیا فروغ بوئے گل

موسموں کے ذائقے بوڑھے شجر میں رہ گئے


اختر ہوشیارپوری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...