Urdu Deccan

Monday, May 24, 2021

ایس ڈی عابد

 مری زبان کو پاؤں کو بھی شکایت ہے

کہ مجھ سے میری نگاہوں کو بھی شکایت ہے 


میں چھوڑ کیوں نہیں دیتا انہیں سدا کے لیئے 

یہ مجھ سے میرے گناہوں کو بھی شکایت ہے 

 

وبائیں کر رہی ہیں قتلِ عام دنیا میں 

کوئی نہ کوئی وباؤں کو بھی شکایت ہے 


وبا کا ساتھ ہوائیں بھی دے رہی ہوں جہاں 

میں سوچتا ہوں ہواؤں کو بھی شکایت ہے


ہر ایک سمت ہے آلودگی سے آلودہ 

ہر ایک شہر کو گاؤں کو بھی شکایت ہے 


ملے گی اُسکو نہ جنت کبھی کوئی جس سے

گلہ ہے باپ کو ماؤں کو بھی شکایت ہے 


خدا کے نام پہ دیتے نہیں ہیں سِکہ بھی

امیر سے یہ گداؤں کو بھی شکایت ہے


وہ سوکھ جایا ہی کرتا ہے ایک دن عابدؔ

کہ جس درخت سے چھاؤں کو بھی شکایت ہے 


 ایس،ڈی،عابدؔ


بشیر فاروقی

 یوم پیدائش 20 مئی 1939


لوگو ہم چھان چکے جا کے سمندر سارے

اس نے مٹھی میں چھپا رکھے ہیں گوہر سارے


زخم دل جاگ اٹھے پھر وہی دن یار آئے

پھر تصور پہ ابھر آئے وہ منظر سارے


تشنگی میری عجب ریت کا منظر نکلی

میرے ہونٹوں پہ ہوئے خشک سمندر سارے


اس کو غمگین جو پایا تو میں کچھ کہہ نہ سکا

بجھ گئے میرے دہکتے ہوئے تیور سارے


آگہی کرب وفا صبر تمنا احساس

میرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے


دوستو تم نے جو پھینکے تھے مرے آنگن میں

لگ گئے گھر کی فصیلوں میں وہ پتھر سارے


خون دل اور نہیں رنگ حنا اور نہیں

ایک ہی رنگ میں ہیں شہر کے منظر سارے


قتل گہہ میں یہ چراغاں ہے مرے دم سے بشیرؔ

مجھ کو دیکھا تو چمکنے لگے خنجر سارے


بشیر فاروقی


ذوالفقار علی نقوی

 میری رہائی ہے یہاں اب کِس کے ہاتھ میں

جو قید ہو چکا ہوں میں اپنی ہی ذات میں


کرتا ہوں بات یوں تو بہت سوچ کر مگر

پھر نقص ڈھونڈتا ہوں میں اپنی ہی بات میں


سورج تلاش کرتا ہے دن بھر یہاں وہاں

جگنو بھی ڈھونڈتے ہیں اُسے رات رات میں


اُس نے دغا دیا تو نئی بات کیا ہوئی

اِک واقعہ ہے یہ بھی کئی واقعات میں


بازی لگا دی جان کی یہ جانتے ہوئے

مِلنی ہے مجھ کو جیت بھی اب میری مات میں


ذُلفی نہیں ہے تُو بھی مِرے مسئلے کا حل

تیرے سِوا ہیں اور بھی کچھ غم حیات میں


ذوالفقار علی ذُلفی


کرم حسین بزدار

 یوم پیدائش 19 مئی


یہ کیوں پوچھتے ہو کہ کیا ہے محبت

محبت خدا ہے خدا ہے محبّت


جو دشمن ہے جاں کا اسے جان سمجھے

زمانے سے بِالکل جدا ہے محبت


جگا دے نصیبوں کو جس کو ملے یہ

جو مل نہ سکے تو سزا ہے محبت


یہی درد دیتی ہے دنیا میں سب کو

ہر اک درد کی بس دوا ہے محبت


بھٹک کیسے جاتا جہاں میں بھلا میں

مری رہبر و رہنما ہے محبت


محبت کہ چکر میں جو بھی پڑا ہے

یہی کہہ رہا ہے بلا ہے محبت


کرم کرنے والا کبھی تو سنے گا

مرے دل کی تشنہ صدا ہے محبت


کرم حسین بزدار


شارق ریاض

 یوم پیدائش 19 مئی


وہ اچانک آ گیا جو مسکرا کے سامنے

ہو گیا کافور غم پھر غم رسا کے سامنے


تھا ارادہ ان سے میرا برملا اظہار کا 

لب نہ کھل پائے مگر اس دلربا کے سامنے


بے وفائی مجھ میں یا تیری وفا میں نقص تھا

فیصلہ ہو جائے گا اک دن خدا کے سامنے


موت ایسی شئے ہے جس پر زور کچھ چلتا نہیں 

سرنگوں ذی روح ہوتے ہیں فنا کے سامنے


کس قدر ظالم ہے شارق اس کا یہ انداز بھی

مہرباں ہے غیر پہ مجھکو بٹھا کے سامنے


شارق ریاض 


خورشید رضوی

 یوم پیدائش 19مئی 1942


یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے

یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے


کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی

وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے


میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں

یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے


وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی

یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے


یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں

کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے


وہ نگیں جو خاتم زندگی سے پھسل گیا

تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے


میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا

پہ جو وسوسے تہہ دام تھے مجھے کھا گئے


جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں

یہ جو زہر خندہ سلام تھے مجھے کھا گئے


خورشید رضوی


ہینسن ریحانی

 یوم پیدائش 19مئی 1922


رنگ یہ ہے اب ہمارے عشق کی تاثیر کا

حسن آئینہ بنا ہے درد کی تصویر کا


ایک عرصہ ہو گیا فرہاد کو گزرے ہوئے

آؤ پھر تازہ کریں افسانہ جوئے شیر کا


گلستاں کا ذرہ ذرہ جاگ اٹھے عندلیب

لطف ہے اس وقت تیرے نالۂ شب گیر کا


لیجئے اے شیخ پہلے اپنے ایماں کی خبر

دیجئے پھر شوق سے فتویٰ مری تکفیر کا


خواب ہستی کو سمجھنے کے لیے بے چین ہوں

اعتبار آتا نہیں مجھ کو کسی تعبیر کا


جس نے دی آخر غرور حسن یوسف کو شکست

اللہ اللہ حوصلہ اس دست دامن گیر کا


توڑ کر نکلے قفس تو گم تھی راہ آشیاں

وہ عمل تدبیر کا تھا یہ عمل تقدیر کا


گو زمانہ ہو گیا گلزار سے نکلے ہوئے

ہے مزاج اب تک وہی ریحانئ دلگیر کا


ہینسن ریحانی


وزیر آغا

 یوم پیدائش 18 مئی 1922


دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا

اب کہاں آئے گا وہ لوٹ کے آنے والا


ریت پر چھوڑ گیا نقش ہزاروں اپنے

کسی پاگل کی طرح نقش مٹانے والا


سبز شاخیں کبھی ایسے تو نہیں چیختی ہیں

کون آیا ہے پرندوں کو ڈرانے والا


عارض شام کی سرخی نے کیا فاش اسے

پردۂ ابر میں تھا آگ لگانے والا


سفر شب کا تقاضا ہے مرے ساتھ رہو

دشت پر ہول ہے طوفان ہے آنے والا


مجھ کو در پردہ سناتا رہا قصہ اپنا

اگلے وقتوں کی حکایات سنانے والا


شبنمی گھاس گھنے پھول لرزتی کرنیں

کون آیا ہے خزانوں کو لٹانے والا


اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری

رات کا آخری تارا بھی ہے جانے والا


وزیر آغا


عادل منصور

 عشق سےجب آشنا حسنِ زلیخا ہو گیا

مصر کے بازار میں یوسف کا سودا ہو گیا


عشق کی رعنایئوں سے آپ کیا واقِف ہوئے

گُفتگو میں آپ کی انداز پیدا ہو گیا


چاند تاروں سے نہ مٹ پایا اندھیرے کا وجود

ایک جُگنو کے چمکنے سے اُجالا ہو گیا


یہ کرشمہ ہم نے دیکھا بزمِ فتنہ ساز میں

جو تماشہ کرنے آیا خود تماشہ ہو گیا


کم نہ تھیں یوں بھی تو 'خالد' عشق کی نیرنگیاں

آپ کے آنے سے موسم اور سُہانا ہو گیا


خالد ندیم بدایونی


خالد ندیم بدایونی

 عشق سےجب آشنا حسنِ زلیخا ہو گیا

مصر کے بازار میں یوسف کا سودا ہو گیا


عشق کی رعنایئوں سے آپ کیا واقِف ہوئے

گُفتگو میں آپ کی انداز پیدا ہو گیا


چاند تاروں سے نہ مٹ پایا اندھیرے کا وجود

ایک جُگنو کے چمکنے سے اُجالا ہو گیا


یہ کرشمہ ہم نے دیکھا بزمِ فتنہ ساز میں

جو تماشہ کرنے آیا خود تماشہ ہو گیا


کم نہ تھیں یوں بھی تو 'خالد' عشق کی نیرنگیاں

آپ کے آنے سے موسم اور سُہانا ہو گیا


خالد ندیم بدایونی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...