Urdu Deccan

Thursday, June 3, 2021

اسد جعفری

 یوم پیدائش 03 جون 1935


خیال یار مجھے جب لہو رلانے لگا

تو زخم زخم مرے دل کا مسکرانے لگا


مجھے خود اپنی وفا پر بھی اعتماد نہیں

میں کیوں تمہاری محبت کو آزمانے لگا


کیا ہے یاد مجھے میرے بعد دنیا نے

ہوا جو غرق تو ساحل قریب آنے لگا


نہ چھین مجھ سے سرور شب فراق نہ چھین

قرار دل کو نہ دستک کے تازیانے لگا


مثال اپنی تو ہے اس درخت کی کہ جسے

لگا جو سنگ تو بدلے میں پھل گرانے لگا


ہر ایک سمت ریا کی تمازتیں ہیں اسدؔ

جو ہو سکے تو محبت کے شامیانے لگا


اسد جعفری


شبلی نعمانی

 یوم پیدائش 03 جون 1857


پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا

رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا


شب فرقت میں دل غمزدہ بھی پاس نہ تھا

وہ بھی کیا رات تھی کیا عالم تنہائی تھا


میں تھا یا دیدۂ خوننابہ فشانی شب ہجر

ان کو واں مشغلۂ انجمن آرائی تھا


پارہ ہائے دل خونیں کی طلب تھی پیہم

شب جو آنکھوں میں مری ذوق خود آرائی تھا


رحم تو ایک طرف پایہ شناسی دیکھو

قیس کو کہتے ہیں مجنون تھا صحرائی تھا


آنکھیں قاتل سہی پر زندہ جو کرنا ہوتا

لب پہ اے جان تو اعجاز مسیحائی تھا


خون رو رو دیے بس دو ہی قدم میں چھالے

یاں وہی حوصلۂ بادیہ پیمائی تھا


دشمن جاں تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج

اور ادھر ایک اکیلا ترا شیدائی تھا


انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رخ پیہم

جس طرف بزم میں وہ کافر ترسائی تھا


کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقش قدم

چشم عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا


خوب وقت آئے نکیرین جزا دے گا خدا

لحد تیرہ میں بھی کیا عالم تنہائی تھا


ہم نے بھی حضرت شبلیؔ کی زیارت کی تھی

یوں تو ظاہر میں مقدس تھا پہ شیدائی تھا


شبلی نعمانی


ریاض خازم

 پیٹھ پیچھے سے وار کرتے ہیں

ایسا کیوں میرے یار کرتے ہیں 


کیسے دن آ گئے مرے پیارے

مجھ سے ملنے سے عار کرتے ہیں


دشمنوں کا تو نام فرضی ہے

جو بھی اپنے ہیں خوار کرتے ہیں


گرچہ نفرت مرا مقدر ہے

آؤ ہم سب سے پیار کرتے ہیں


بیٹھ کر قیس کی گلی میں ہم

عشق کو بے قرار کرتے ہیں


شعر ایسے ہی میرے ہوتے ہیں

سب کو ہی سوگوار کرتے ہیں


عشق میں ہار کے یہ بچے کیوں

موت خود پر سوار کرتے ہیں


آپ کیوں چھیڑتے ہیں ماضی کو

کیوں مجھے تار تار کرتے ہیں


ریاض حازم


Wednesday, June 2, 2021

طاہر خیال

 یوم پیدائش 01 جون 1974


میں رو کر جو مانگوں دعا رو پڑے گی

مرے ساتھ خلق خدا رو پڑے گی


خزاں میں پریشاں پرندوں کو پاکر

چمن رو پڑے گا صبا رو پڑے گی


مرے جسم کی سلوٹیں دیکھتے ہی

مجھے لینے آئی قضا رو پڑے گی


اگر داغ دل کے عیاں کر دیے تو

لپٹ کر کسی سے وفا رو پڑے گی


سنو آدمیت کی غفلت سے ظاہر

عطا رو پڑے گی انا رو پڑے گی


طاہر خیال


شفیق محسن

 یوم پیدائش 01 جون 1964


ترے دل نے جہاں دھوکا دہی کی

وہیں آنکھوں نے تیری مخبری کی


کوئی مخلص بھی ہو قائد ہمارا

ضرورت ہے مناسب رہبری کی


سنبھالو قوم کے بچوں کو دیکھو

دکانیں کھل چکی ہیں گمرہی کی


جہاں انصاف سولی پر چڑھے گا

وہاں حالت رہے گی ابتری کی


زمانے کی زرا رفتار دیکھو

چلی ہے اسکے آگے کب کسی کی


کسی کے حال پر او ہنسنے والے

چکانی پڑتی ہے قیمت ہنسی کی


قدم نقار خانے میں جو رکھا ہے

کھلی محسن حقیقت خامسی کی


شفیق محسن


رفیق سرور

 یوم پیدائش 01 جون 1970


فلک سے کوئی ستارہ گرے تو رک جاؤں

اداس پیڑ کا پتہ ہلے تو رک جاؤں


تھکن سے چور ہوں جاری ہے زندگی کا سفر

زرا سی دیر کو رستہ رکے تو رک جاؤں


کسی کے ساتھ میں چلنا ہے میرا طئے لیکن

کسی کے واسطے رکنا پڑے تو رک جاؤں


قدم سے لپٹا ہوا ہے مسافرت کا جنوں

یہ کیسے ہو کوئی روکے مجھے تو رک جاؤں


میں بزم یار سے نکلا تو سوچ کر نکلا

کوئی خلوص سے آواز دے تو رک جاؤں


وہ جھولے میلے وہ بچپن کی یاد تازہ ہو

کہیں پہ راہ میں سرور ملے تو رک جاؤں


رفیق سرور


اشفاق انصاری

 یوم پیدائش 01 جون 1966


ایسی تسکین جو کھو کر ملے پاکر دیکھو

دولتِ مہر و مّروت کو لٹا کر دیکھو


یورشِ غم نے بنایا ہے نشانِ عبرت

میں ہو معتوبِ محبت مجھے آکر دیکھو


دیکھنا تم پہ بھی رحمت کی گھٹا برسے گی

غم کے ماروں کے لئے اشک بہا کر دیکھو


پھر یہ ہوگا کہ تمہیں میں ہی دکھائی دوں گا

تم نظر اپنی زمانے سے ہٹا کر دیکھو


مل ہی جائے گا ہر اک شئے میں نشانِ قدرت

تم کبھی چشم بصیرت تو اٹھا کر دیکھو


پھر سمجھ جاؤگے کہتے ہیں کسے قہرِخدا

منظرِ رقصِ اجل شہر میں جاکر دیکھو


اشفاق انصاری


خورشید قمرؔ

 یوم پیدائش 02 جون 1993


حق کی جانب میں جب سےکھڑا ہو گیا

ہر کسی کے لیے مسئلہ ہوگیا


عیب سارے مرے مجھ کو دکھنے لگے

میں جو خود کے لیے آئینہ ہو گیا


 ساری دنیا مرے پیچھے کیوں پڑ گئی

 الفتیں بانٹ کر میں! بُرا ہوگیا

 

 قدر و قیمت نہیں اصل کی اب کوئی

 کھوٹا سکہ جو ہرسو کھرا ہو گیا

 

 تتلیاں اور بھنورے بھی بیکل ہوے

 شاخ سے پھول جس دم جدا ہو گیا

 

 مال و دولت کی اب کیا ضرورت تجھے

 جب سراپا میں جاناں ترا ہوگیا

 

 پیار الفت کے چھیڑو قمر راگ اب

 نفرتوں کا یہاں دبدبہ ہوگیا

 

  خورشید قمرؔ


شہاب جعفری

 یوم پیدائش 02 جون 1930


دل پر وفا کا بوجھ اٹھاتے رہے ہیں ہم

اپنا ہر امتیاز مٹاتے رہے ہیں ہم


منہ پر جو یہ جلے ہوئے دامن کی راکھ ہے

شعلوں میں زندگی کے نہاتے رہے ہیں ہم


اتنا نہ کھل سکا کہ ہوا کس طرف کی ہے

سارے جہاں کی خاک اڑاتے رہے ہیں ہم


آنکھوں سے دل تک ایک جہان سکوت ہے

سنتے ہیں اس دیار سے جاتے رہے ہیں ہم


تیرا خیال مانع عرض ہنر ہوا

کس کس طرح سے جی کو جلاتے رہے ہیں ہم


کس کی صدا سنی تھی کہ چپ لگ گئی شہابؔ

ساتوں سروں کا بھید گنواتے رہے ہیں ہم


شہاب جعفری


Tuesday, June 1, 2021

جاوید وششٹ

 یوم پیدائش 01 جون 1920


ہر دل جو ہے بیتاب تو ہر اک آنکھ بھری ہے

انسان پہ سچ مچ کوئی افتاد پڑی ہے


رہ رو بھی وہی اور وہی راہبری بھی

منزل کا پتہ ہے نہ کہیں راہ ملی ہے


مدت سے رہی فرش تری راہ گزر میں

تب جا کے ستاروں سے کہیں آنکھ لڑی ہے


ایسا بھی کہیں دیکھا ہے مے خانے کا دستور

ہر چشم ہے لبریز ہر اک جام تہی ہے


رخسار بہاراں پہ چمکتی ہوئی سرخی

کہتی ہے کہ گلشن میں ابھی صبح ہوئی ہے


سمجھا ہے تو ذرے کو فقط ذرۂ ناچیز

چھوٹی سی یہ دنیا ہے جو سورج سے بڑی ہے


دنیا میں کوئی اہل نظر ہی نہیں باقی

کوتاہ نگاہی ہے تری کم نظری ہے


مدہوش فضا مست ہوا ہوش کی مت پوچھ

وارفتگئ شوق ہے اک گم شدگی ہے


کانٹوں پہ چلے ہیں تو کہیں پھول کھلے ہیں

پھولوں سے ملے ہیں تو بڑی چوٹ لگی ہے


پھر سوچ لو اک بار ابھی وقت ہے جاویدؔ

شکوے میں کچھ اندیشۂ خاطر شکنی ہے


جاوید وششٹ


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...