یوم پیدائش 03 جون 1935
خیال یار مجھے جب لہو رلانے لگا
تو زخم زخم مرے دل کا مسکرانے لگا
مجھے خود اپنی وفا پر بھی اعتماد نہیں
میں کیوں تمہاری محبت کو آزمانے لگا
کیا ہے یاد مجھے میرے بعد دنیا نے
ہوا جو غرق تو ساحل قریب آنے لگا
نہ چھین مجھ سے سرور شب فراق نہ چھین
قرار دل کو نہ دستک کے تازیانے لگا
مثال اپنی تو ہے اس درخت کی کہ جسے
لگا جو سنگ تو بدلے میں پھل گرانے لگا
ہر ایک سمت ریا کی تمازتیں ہیں اسدؔ
جو ہو سکے تو محبت کے شامیانے لگا
اسد جعفری