Urdu Deccan

Friday, July 16, 2021

روش صدیقی

 یوم پیدائش 10 جولائی 1909


وہ نکہت گیسو پھر اے ہم نفساں آئی

اب دم میں دم آیا ہے اب جان میں جاں آئی


ہر طنز پہ رندوں نے سر اپنا جھکایا ہے

اس پر بھی نہ واعظ کو تہذیب مغاں آئی


جب بھی یہ خیال آیا کیا دیر ہے کیا کعبہ

ناقوس برہمن سے آواز اذاں آئی


اس شوخ کی باتوں کو دشوار ہے دہرانا

جب باد صبا آئی آشفتہ بیاں آئی


اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے

وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی


یہ خندۂ گل کیا ہے ہم نے تو یہ دیکھا ہے

کلیوں کے تبسم میں چھپ چھپ کے فغاں آئی


آباد خیال اس کا شاداں رہے یاد اس کی

اک دشمن دل آیا اک آفت جاں آئی


اشعار روشؔ سن کر توصیف و ستائش کو 

سعدیؔ کا بیاں آیا حافظؔ کی زباں آئی


روش صدیقی


انور زاہدی

 یوم پیدائش 09 جولائی 1946


ملو تو صحرا سے دریا نکال لائیں ہم

چلو جو ساتھ تو رستہ نکال لائیں ہم


نجوم شمس و قمر سبکے سب ہمارے ہیں

کہو تو کوئی ستارہ نکال لائیں ہم


پلٹ کے آتے نہیں دن گزر گئے جو بھی

سنو تو عہد جو گزرا نکال لائیں ہم


وہ ایک شھر جہاں رہ گیا ہے جان و دل

کہاں گیا وہ نگر کیا نکال لائیں ہم


گزشتہ عہد وہ دریا کا خواب سا انور

بتاو خواب سے قصہ نکال لائیں ہم


انور زاہدی


اقبال خورشید

 نبیؐ کی شان میں ہر دم کلام ہو جائے

نبیؐ کی آل کی مدحت میں شام ہو جائے


مراد دل میں لئے ہیں کھڑے زیارت کی

حضورؐ آپؐ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے 


تمھاری آل سے نسبت ہے مجھکو اے آقاؐ

تمہارے در کے غلاموں میں نام ہو جائے


نظر کے سامنے میری ہو آپؐ کی تربت

مری حیات کا یوں اختتام ہو جائے


قرار پائے گا مولا مرا دلِ مضطر

اگر مدینے میں حاضر غلام ہو جائے


عطا ہے تجھ کو یہ خورشید شاعری تیری

تو کیوں نہ روز نبیؐ پر سلام ہو جائے


 اقبال خورشید


شاعر فتح پوری

 یوم پیدائش 09 جولائی 1939


گل بداماں حیات کیا ہوگی

اب خزاں سے نجات کیا ہوگی


کیف جاوید چاہئے مجھ کو

مستیء بے ثبات کیا ہوگی


ہر طرف چھا گئی ہے تیرہ شبی

دن جو یہ ہے تو رات کیا ہوگی


جب وہ آئیں گئے سامنے میرے

سوچتا ہوں کہ بات کیا ہوگی


لب پہ اللہ دل ہوس آلود

زاہدوں کی نجات کیا ہوگی


دیکھ کر ان کو ہوش اڑتے ہیں

حسن والوں سے بات کیا ہوگی


شاعر اس شوخ کی نگاہ کرم 

مائل التفات کیا ہوگی


شاعر فتح پوری


علامہ رشید ترابی

 یوم پیدائش 09 جولائی 1908

نظم تہنیت جوبلی


حسن خودار بنا عشق کو بیخود کر کے

مضطرب اسکو کیا کیف کے نغمہ بھر کے

اختیار اسکو ملا جبر کے پردہ سر کے

پھر تو عالم ہی بنا صدقے میں صورت گر کے


دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق بین 

ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبین


حسن خود بین نے بنائی ہے یہ پیاری دنیا

کیف و کم عشق کا تھا جس نے سنواری دنیا

سبق آموز محبت ہے یہ ساری دنیا

ہم ہوئے حسن کے اور ہے یہ ہماری دنیا


نگہ جلوہ شناس آج ہے عالم تیرا

ذرہ ذرہ ہے یہاں راز کا محرم تیرا


بزم ہستی میں ہیں باطن کبھی ظاہر جلوے

جلوہ میں عقل کو ہر وقت ہیں حاضر جلوے

سب یہ تنویر محبت کی ہیں خاطر جلوے 

ہائے خاکم بدہن کیسے ہیں کافر جلوے 


کیف آگین قد محبوب کی رعنائیاں ہیں

عشق کی گود میں اب حسن کی انگرائیاں ہیں


(نظم نا مکمل ہے )

علامہ رشید ترابی


جاوید عارف

 وقت کے آلام میں ہر شخص ہے الجھا ہوا

میں اکیلے ہی نہیں وحشت زدہ ٹوٹا ہوا


اے مسیحا چھوڑ دے اب حال پر اپنے مجھے 

زخمِ دل چارہ گر ی سے اور بھی گہرا ہوا 


آگ گلشن میں لگائی سرکشوں نے ہی مگر

سر کسی معصوم کا ہے دار پر لٹکا ہوا 


موت کی دہلیز کے آگے کھڑی ہے زندگی 

میں ابھی ہوں مال و زر کی حرص میں الجھا ہوا


برق سے پہلے ہوا نے سازشیں کی اس قدر

راکھ کی صورت نشیمن ہے مرا،بکھرا ہوا


دیکھ کر وحشت زدہ ہوں میں چمن کے حال پر

شاخِ گل ہے باغباں کے خوف سے سہما ہوا 


لاکھ تدبیریں کی عارف کچھ نہیں بدلا مگر

جو مقدر میں خدا نے تھا مرے لکھا ہوا


  جاوید عارف


شوزیب کاشر

 سفر پسند کبھی تھا نہ ہوں کہ چلتا رہوں

وہ بے گھری ہے مگر جوں کی توں کہ چلتا رہوں


تمہارے ساتھ سے مطلب ہے منزلوں سے نہیں

قدم قدم پہ ہے ایسا سکوں کہ چلتا رہوں


نہ رنجِ آبلہ پائی نہ خوفِ دربدری

الگ ہی دُھن ہے کوئی ان دنوں کہ چلتا رہوں


کہیں پہنچنا بھی ہے اور چلنا بھی مشکل 

عجیب مخمصے میں ہوں رکوں کہ چلتا رہوں


یہ گمرہی تو کبھی ختم ہونے والی نہیں 

سو زہزنوں سے بھی ملتا چلوں کہ چلتا رہوں


پتے کی بات کھڑے پانیوں سے سیکھی ہے

طرف کوئی بھی ہو بہتا رہوں کہ چلتا رہوں


نہ رہبروں سے شکایت نہ رہزنوں سے گلہ

مری تو اپنی بھی چاہت تھی یوں کہ چلتا رہوں


نہ سنگِ میل ، نہ نقشِ قدم ، نہ قطب نما

نہ ضو فگن ہے فلک نیلگوں کہ چلتا رہوں


کٹھن ضرور ہے مانا یہ زندگی کا سفر

شکستہ پا ہوں پر اتنا تو ہوں کہ چلتا رہوں


تلاشِ ذات بھی کاشر عجب مصیبت ہے

تھکن سے چور ہوں لیکن جنوں کہ چلتا رہوں


شوزیب کاشر


دلاور فگار

 یوم پیدائش 08 جولائی 1929


وطن والو! یہ مصنوعی گرانی دیکھتے جاؤ

کہ سستا ہے لہو، مہنگا ہے پانی دیکھتے جاؤ


وہ شے جسکے لئے جنت کو ٹھکرایا تھا آدم نے

وہ شئے پھر ہو گئی خلد آشینائی دیکھتے جاؤ


جنہیں روٹی نہیں ملتی وہ دس بچوں کے والد ہیں

یہ افلاس اور یہ جوش جوانی دیکھتے جاؤ


ہر اک والد یہاں مثلِ مصور ہم سے کہتا ہے

کہ بعد نقشِ اول نقشِ ثانی دیکھتے جاؤ


غریبوں کے لئے راشن امیروں کے لئے خرمن

مگر مارے گئے ہم درمیانی دیکھتے جاؤ


فگار اس دور میں بھی طنزیہ اشعار کہتا ہے

تم اس شاعر کی آشفتہ بیانی دیکھتے جاؤ


دلاور فگار


منور لکھنوی

 یوم پیدائش 08 جولائی 1897


ہزار کفر ہیں اک چشم پارسا میں تری

بھری ہوئی ہے شرارت ادا ادا میں تری


بقا کو اپنی مشیت تری سمجھتا ہوں

مری حیات‌ قضا کار ہے رضا میں تری


مرے حبیب مری آخرت کے اے ضامن

مرے نصیب کی جنت ہے خاک پا میں تری


یہ کس مقام سے تو نے خطاب فرمایا

سنی گئی مری آواز بھی صدا میں تری


یہ سوچ کر نہ منورؔ نے کچھ کیا شکوہ

وفا کی داد کا پہلو بھی ہے جفا میں تری


منور لکھنوی


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 نظم حیدرآباد دکن


حیدرآباد ہے سرچشمہ تہذیب کہن

جس کی عظمت کے نشاں اس کے ہیں آبنائے وطن


ضوفگن اس میں تھے ہر دور میں حکمت کے چراغ

ہے یہ تہذیب و تمدن کا تر و تازہ چمن


چارمینار ہی اس کی نہیں عظمت کا نشاں

قابل دید ہیں اس کے سبھی آثار کہن


میوزیم اس کا ہے اقصائے جہاں میں مشہور

ہے جو تہذیب و ثقافت کا ہماری درپن


بہمنی اور قطب شاہی زمانے سے یہاں

علم و عرفان کی ہے شمع فروزاں روشن


زیب تاریخ ہیں اسمائے گرامی جن کے

ہے یہ صدیوں سے مشاہیر ادب کا مدفن


مجتبی مغنی و مخدوم کے افکار سے ہے

نام اس شہر کا دنیائے ادب میں روشن


تھا یہ ہر دور میں گہوارہ اردو برقی

صوفگن آج بھی اس شہر میں ہے شمع سخن


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...