Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

ادیب دموہی

 یوم پیدائش 10 اگست 1978 


گلوں میں رنگ بھلے موسمِ بہار کا ہے

مگر یہ رنگ حقیقت میں وصلِ یار کا ہے


شکست کھا کے محبت میں غم نہیں کرنا

وہ جانثار نہیں جس کو رنج ہار کا ہے


طلب میں پھولوں کے ہاتھوں کو کر لیا زخمی

سمجھ رہے ہیں کہ یہ بھی قصور خار کا ہے 


عمل کو دیکھو نہ زر خار پیراہن دیکھو 

مدارِ حسن عمل پر ہی ذی وقار کا ہے


نہ وصلِ یار نہ دنیا کی رونقوں میں ہے وہ

جو لطف دوستو الفت میں انتظار کا ہے


بہانا کر نہیں پایا میں چاہ کر بھی ادیب

کہ حکم پینے کا مجھ کو نگاہ یار کا ہے 


ادیب دموہی


Wednesday, September 15, 2021

عقیل عباس جعفری

 یوم پیدائش 10 اگست 1957


رہیے احباب سے کٹ کر کہ وبا کے دن ہیں

سانس بھی لیجیے ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


وہ جنہیں خود سے بھی ملنے کی نہیں تھی فرصت

رہ گئے خود میں سمٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


رونق بزم جہاں خود کو سمجھنے والے

آ گئے گھر کو پلٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


کیا کسی اور سے اب حرف تسلی کہیے

روئیے خود سے لپٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


ایک جھٹکے میں ہوئے شاہ و گدا زیر و زبر

رہ گئی دنیا الٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


سب کو معلوم ہے تعبیر تو یکساں ہوگی

خواب ہی دیکھ لیں ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


ایک کمرے میں سمٹ آئی ہے ساری دنیا

رہ گئے خانوں میں بٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


یہ مرا رنگ تغزل تو نہیں ہے لیکن

اک غزل لکھی ہے ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


عقیل عباس جعفری


اشتیاق احمد یار

 یوم پیدائش 10 اگست


دیارِ عشق میں محشر بپا تھا

کسی کی آنکھ سے آنسو گِرا تھا


لگی تھی آگ سارے پانیوں میں

کلی نے قطرہء شبنم چُھوا تھا


نہیں ایسا کسی کی شاعری میں

جو میں نے آنکھ میں اُس کی پڑھا تھا


گِرا طوفاں کے آگے بے بسی سے

ضرورت سے شجر اونچا ہُوا تھا


کہاں اب لوٹ کے آئے گا وہ دن

کسی نے جب مجھے اپنا کہا تھا


قدم رنجا ہوئے صحرا میں جب وہ

گلستاں جا کے صحرا میں بسا تھا


میں زنداں میں مقیّد تھا ولیکن

خیالِ یار کا روزن کُھلا تھا


جہاں پر لوگ مَنّت مانگتے تھے

وہ میرے دلبراں کا نقشِ پا تھا


میسّر تھا نہیں پانی کہیں پر

کہ دریا آنکھ میں اُترا ہوا تھا


اشتیاق احمد یاد


پاپولر میرٹھی

 یوم پیدائش 09 اگست 1956


ایک بیوی کئی سالے ہیں خدا خیر کرے

کھال سب کھینچنے والے ہیں خدا خیر کرے


تن کے وہ اجلے نظر آتے ہیں جتنے یارو

من کے وہ اتنے ہی کالے ہیں خدا خیر کرے


کوچۂ یار کا طے ہوگا سفر اب کیسے

پاؤں میں چھالے ہی چھالے ہیں خدا خیر کرے


میرا سسرال میں کوئی بھی طرفدار نہیں

ان کے ہونٹوں پہ بھی تالے ہیں خدا خیر کرے


کیا تعجب ہے کسی روز ہمیں بھی ڈس لیں

سانپ کچھ ہم نے بھی پالے ہیں خدا خیر کرے


ایسی تبدیلی تو ہم نے کبھی دیکھی نہ سنی

اب اندھیرے نہ اجالے ہیں خدا خیر کرے


ہر ورق پر ہے چھپی غیر مہذب تصویر

کتنے بیہودہ رسالے ہیں خدا خیر کرے


پاپولرؔ ہاتھ میں کٹا ہے تو بستے میں ہیں بم

بچے بھی کتنے جیالے ہیں خدا خیر کرے


پاپولر میرٹھی


Monday, August 9, 2021

شگفتہ شفیق

 یوم پیدائش 08 اگست


دل سے پیغام الفت مٹانے کے بعد

کھو دیا پھر تجھے ہم نے پانے کے بعد


وہ سلگتے رہے دل جلانے کے بعد

ہم تو پھر ہنس پڑے ٹوٹ جانے کے بعد


اب تو رستے بھی اپنے جدا ہو گئے

بات بنتی نہیں چوٹ کھانے کے بعد


جائیں جائیں ہمیں کچھ نہیں واسطہ

دل لگی نہ کریں دل جلانے کے بعد


ہم کو اس سے کہاں کوئی انکار ہے

گھر بنا ہے مکاں تیرے جانے کے بعد


جانتی ہوں کہ اس کا ہے شیوہ یہی

وہ رلائے گا ہم کو ہنسانے کے بعد


شادماں وہ نظر آ رہے تھے بہت

کیفیت اپنی غم کی چھپا نے کے بعد


سوچتی ہوں شگفتہؔ عجب بات ہے

ہم نے پایا ہے اس کو گنوانے کے بعد


شگفتہ شفیق


صدام حسین

 ہر ایک لمحہ جنوں میں اپنی مثال ہو گا یہ طے ہوا تھا

بدن کے زخموں سے خون رسنا خیال ہو گا یہ طے ہوا تھا


یہاں جدا ہونے والوں کے درمیان رنجش تو عام شے ہے

مرا تمہارا مگر تعلق مثال ہوگا یہ طے ہوا تھا


تُو عہد کو توڑ کر بھی چاہے ہے کچھ نہ پوچھوں میں اِس کی بابت

کوئی بھی پیچھے ہٹا تو اُس سے سوال ہوگا یہ طے ہوا تھا


تو کیوں مری جاں اداس ہوں میں اگر تُو مسرور لگ رہا ہے

بچھڑ کے دونوں کا ایک جیسا ہی حال ہوگا یہ طے ہوا تھا


کسی کے دل میں بس ایک لمحے کو بھی خیالِ جفا گر آئے

تو رہتی سانسوں تک اُس گھڑی کا ملال ہوگا یہ طے ہوا تھا


جو پھر سے اب ربط جڑ رہے ہیں تو بیچ میں یہ خلا سا کیوں ہے

جہاں سے ٹوٹا وہیں سے رشتہ بحال ہوگا یہ طے ہوا تھا


وہ زخم در زخم دے رہے ہیں تو کوئی پوچھے حسیؔن اُن سے

پرانے زخموں کا پہلے کچھ اندمال ہوگا یہ طے ہوا تھا


صدام حسیٙن


نوشاد اشہر اعظمی

 یوم پیدائش 09 اگست 1968


کھینچے ہے اس طرح سے جنونِ سفر مجھے

وحشت سے تک رہی ہیں سبھی رہگزر مجھے


ہجراں نصیب شب نے کیا ہے یوں بے اماں

"تاروں کی چھاؤں لگتی ہے اب دوپہر مجھے" 


بے اعتبار کرنے لگا ہے جہانِ شوق

آ اے غمِ حیات بنا معتبر مجھے


وہ حالِ بے خیالیء حالت ہے کیا کہوں

ملتی ہے دوسروں سے اب اپنی خبر مجھے


دستارِ عز و جاہ بچا لوں گا ہے یقیں 

دینا مگر پڑے گا بدل میں یہ سر مجھے


آلامِ روزگارِ جہاں سے بچا اگر 

زنجیرِ پا کرینگے یہ دیوار و در مجھے


زخموں نے میرے بخشا عروجِ کمالِ فن

ڈھونڈیں گے میرے بعد سبھی چارہ گر مجھے


آنکھوں میں ان کی میرا اجالا ہے آج بھی

جو کہہ رہے تھے دودِ چراغِ سحر مجھے


نوشاد اشہر اعظمی


اقبال خاور

 یوم پیدائش 09 اگست


کیا برا ہے اگر برا ہوں میں 

آدمی ہوں کوئی خدا ہوں میں


اپنے بارے میں بات کر کوئی 

ہاں مجھے چھوڑ مسئلہ ہوں میں


دل تقاضے تو ایسے کرتا ہے 

جیسے دنیا کا ہوگیا ہوں میں

 

اس کو چھوکر ہوا ہے اندازہ 

خواب سچے بھی دیکھتا ہوں میں


وہی منظر وہی ہے ویرانی 

خود سے باہر بھی آگیا ہوں میں


تو مرا کل ہے آنے والا کل 

خود کو اب تجھ میں دیکھتا ہوں میں


مجھ پہ شاید نظر پڑے کوئی 

بھیڑ سے بچ کے چل رہا ہوں میں


تم نے آنے میں دیر کردی ہے 

اب تو خود میں الجھ گیا ہوں میں


وہ ضروری تھا کس قدر خاور 

وہ نہیں ہے تو سوچتا ہوں میں 


اقبال خاور


فضل الرحمن اعظمی

 یوم پیدائش 09 اگست 1927


بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا

نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا نکلا


نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی

جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا


ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی

کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا


ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر

نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ نکلا


ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں

پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا


اب اپنے آپ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں جا کر

عدم سے تا بہ عدم اپنا نقش پا نکلا


خلیل الرحمن اعظمی


راشید شئینٹر راشد

 یوم پیدائش 08 اگست


آدمی کا غرور بیجا ہے

جو کرے یہ قصور بیجا ہے

    

 میں ہی دنیا سنوار سکتا ہوں

یہ دماغی فطور بیجا ہے

    

 شاعری کو جو کھیل سمجھے ہیں,

  انکا سارا شعور بیجا ہے

    

لالی پؤڈر پسند ہے جنکی

اُنکے چہرے کا نور بیجا ہے


مسخری میں یہ زندگی گزری

ماننا اب قصور بیجا ہے


شکریہ دوست تیرے احساں کا

اس کرم کا ظہور بیجا ہے


 ذرے ذرے میں ہے وہ جلوہ گر

میری خواہش کا طور بیجا ہے


جو شریکِ حیات ہے "راشد"

 اُ سکے آ گے تو حور بیجا ہے

 

راشد پئینٹر "راشد"


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...