Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

خورشید طالب

 یوم پیدائش 25 اگست 1967


جس کو دیکھو وہی بیکار میں الجھا ہوا ہے

ہر گریبان کسی تار میں الجھا ہوا ہے


دشت بے چین ہے وحشت کی پذیرائی کو

دل وحشی در و دیوار میں الجھا ہوا ہے


جنگ دستک لیے آ پہنچی ہے دروازے تک

شاہزادہ لب و رخسار میں الجھا ہوا ہے


اک حکایت لب اظہار پہ ہے سوختہ جاں

ایک قصہ ابھی کردار میں الجھا ہوا ہے


سر کی قیمت مجھے معلوم نہیں ہے لیکن

آسماں تک مری دستار میں الجھا ہوا ہے


آئیے بیچ کی دیوار گرا دیتے ہیں

کب سے اک مسئلہ بے کار میں الجھا ہوا ہے


خورشید طلب


احمد کمال ہاشمی

 یوم پیدائش 24 اگست 1964


خبردار! میں حق نوا آدمی ہوں

مرے پاس مت آ، برا آدمی ہوں


ہر اک درد سے ماورا آدمی ہوں

بتاؤ میں پتھر ہوں یا آدمی ہوں


مرے دل کو تم نے دھڑکنا سکھایا

مجھے اب یہ لگنے لگا آدمی ہوں


کبھی میں رہا کرتا تھا اپنے گھر میں

میں اب گھر میں رکّھا ہوا آدمی ہوں


سمجھتا رہا دیوتا کوئی مجھ کو

میں کہتا رہا بارہا، آدمی ہوں


تری یاد اور میرے غم ہمسفر ہیں

میں تنہا نہیں قافلہ آدمی ہوں


جو قیس اور فرہاد کا سلسلہ ہے

اسی زمرے کا تیسرا آدمی ہوں


مجھے منتروں کی ضرورت نہیں ہے

کئی سانپوں کا میں ڈسا آدمی ہوں


میں اب ہوگیا ہوں کماؔل اتنا چھوٹا

مجھے لگتا ہے میں بڑا آدمی ہوں


احمد کمال حشمی


ضیا رشیدی

 یہی ہے آرزو سب کو ترے رستے پہ لائیں گے 

زمانہ لاکھ روکے ہم قدم آگے بڑھائیں گے


کوئی کتنا بھی راہوں میں ہمارے بوئے کاٹا اب 

سبھی کے راہوں میں ہم تو فقط اب گل بچھائیں گے 


چمن ویران ہوجائے گا مت کاٹو درختوں کو 

ہنر سب کو شجر کاری کا اب ہر دم سکھائیں گے 


چمن میں باغبانی کا عمل کیسے کیا جاتا 

زمانے کو عمر فاروق کا قصہ سنائیں گے 


سدا ہم نے لہو سے گلستاں کو اپنے سینچا ہے 

یہ غدارِ وطن ہم کو بھلا کیسے بھگائیں گے 


سبھی خوشبو ہماری ہے سبھی گل بھی ہمارے ہیں

جو ہم روٹھے تو خوشبو اور گل سب روٹھ جائیں گے


ضیاء سارے زمانے کو یہی پیغام دے دینا 

وفائیں بانٹ کر نفرت جہاں سے ہم مٹائیں گے

   

ضیاء رشیدی


جیلانی کامران

 یوم پیدائش 24 اگست 1926

نظم قسمت کا پڑھنے والے


میرے ہاتھ پہ لکھا کیا ہے 

عمر کے اوپر برق کا گہرا سایہ کیا ہے 

کون خفا ہے 

راہ کا بوڑھا پیڑ جھکا ہے چڑیاں ہیں چپ چاپ 

آتی جاتی رت کے بدلے گرد کی گہری چھاپ 

گرد کے پیچھے آنے والے دور کی دھیمی تھاپ 

رستہ کیا ہے منزل کیا ہے 

میرے ساتھ سفر پر آتے جاتے لوگو محشر کیا ہے 

ماضی حال کا بدلا بدلا منظر کیا ہے 

میں اور تو کیا چیز ہیں تنکے پتے ایک نشان 

عکس کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ظاہر میں انسان 

کب کے ڈھونڈ رہے ہیں ہم سب اپنا نخلستان 

ناقہ کیا ہے محمل کیا ہے 

شہر سے آتے جاتے لوگو دیکھو راہ سے کون گیا ہے 

جلتے کاغذ کی خوشبو میں غرق فضا ہے 

چاروں سمت سے لوگ بڑھے ہیں اونچے شہر کے پاس 

آج اندھیری رات میں اپنا کون ہے راہ شناس 

خواب کی ہر تعبیر میں گم ہے اچھی شے کی آس 

دن کیا شے ہے سایہ کیا ہے 

گھٹتے بڑھتے چاند کے اندر دنیا کیا ہے 

فرش پہ گر کر دل کا شیشہ ٹوٹ گیا ہے 


جیلانی کامران


نسیم امروہوی

 یوم پیدائش 24 اگست 1908


یہ انتظار نہ ٹھہرا کوئی بلا ٹھہری 

کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری 


نسیم امروہوی


محمد الیاس کرگلی

 مل کے پھر چھوڑ گیا آج ہمارا کوئی 

اس سے بہتر تھا نہ بنتاتھا سہارا کوئی


درد ہو یا نہ ہو لینی ہی پڑے گی یہ دوا

عشق میں اس کے بغیر اور ہے چارہ کوئی؟


شہر بھر میں تیری ہی بات رہی ایسے میں

بھاگ نکلا ہے یہاں سے ہی بیچارا کوئی 


اک شکستہ مجھے کشتی کا سفر ہے درپیش 

ڈوبتی بھی نہیں، دیکھا نہ کنارہ کوئی 


محمد الیاس کرگلی


نور محمد یاس

 قد یوں بھی کم کہاں ہے جو اب تن پہ سر نہیں

اس حادثے کا مجھ پہ زیادہ اثر نہیں


کس کس طرف سفر پہ گۓ ہیں ہمارے خواب

اب تک کہیں سے کوئی بھی خیر و خبر نہیں


لو سینہ داغ داغ ہوا کائنات کا

سورج بھی اب تو چشم و چراغِ نظر نہیں


اس نے بھری تھی جست مرے ساتھ اور اب

میں کن بلندیوں پہ ہوں شاید خبر نہیں


وہ بد گماں کہ ذات ہے اُس کی مرا ہدف

میں مطمئن کہ بات مری بے اثر نہیں


لائی سفر سے کھینچ کے جب مجھکو گھر کی یاد

کیا دیکھتا ہوں کوئی مرا منتظر نہیں


کم ہیں مرے سخن میں پُراسرار باب یاسؔ

پڑھ لو کُھلی کتاب ہوں میں بند گھر نہیں


نور محمد یاس


ہارون علی ماجد عادل آبادی

 مانا نہیں کسی کا مقدر پہ اختیار

اعمال اور دعاؤں سے تقدیر کو سنوار


ایذا رساں ملیں گے ہر اک موڑ پر مگر

ملتا نہیں ہے کوئی بھی غمخوار وغمگسار


کوٸی دوا بتا یا کوئی حل مرے طبیب

بڑھتا ہی جارہا ہے مرا نفسی خلفشار


جب تک کہ زندگی میں تغیر نہ لاؤ گے

ہونگے نہیں اے دوستو حالات ساز گار


دھوکہ ضرور کھاتے ہیں اک روز دوستو

دورنگی دنیا پر وہ جو کرتے ہیں اعتبار


ہوں پاک ذہن ودل ترے بغض وعناد سے

ہو ذکر مدتوں ترا یوں زندگی گزار


سادہ مزاج ہوتے ہیں ماجد جو واقعی

وہ لوگ ہی جہان میں ہوتے ہیں ذی وقار


ہارون علی 

ماجدؔ عادل آبادی


ہوش نعمانی

 یوم وفات 22 اگست 2014


ایسا ہنر کہ سارا زمانہ مثال دے

یارب جسے زوال نہ ہو وہ کمال دے


عیبوں کو اپنے دن کے اجالے میں کر شمار

ہوتے ہی شام نیکیاں دریا میں ڈال دے


اے میری پیاس اس کا تو امکان ہی نہیں

دریا خود اپنے آپ کو مجھ پر اچھال دے


یہ بھی نہیں کہ اینٹ کا پتھر سے دے جواب

یہ بھی نہیں کہ ظلم سہے اور ٹال دے


اےمیری پیاس اس کا تو امکان ہی نہیں

دریا خود اپنے آپ کو مجھ پر اچھال دے


ساری امیدیں ٹوٹ چکی ہیں جواب کی

میرا سوال ہی مری جھولی میں ڈال دے


اے ہوش احتیاط رہے ایسے شخص سے

جو اپنی گفتگو سے کسی کو ملال دے


ہوش نعمانی


زین احترام

 یوم پیدائش 22 اگست


دوستوں کا یہ بہانہ عام ہے

آ نہیں سکتے ضروری کام ہے


دل دکھانے میں قریبی تھے مرے

دشمنی تو نام سے بدنام ہے


کچھ نہیں تو یومِ پیدائش سہی

سال کا اک دن ہمارے نام ہے


کیا کہا مجھ میں وفا شامل نہیں

یہ سراسر آپ کا الزام ہے


اپنے اپنے راستے سب چل دئیے

بس کہانی کا یہی انجام ہے


یار کوئی ڈھونڈ کر لاۓ مجھے

زین ہو کر بھی کہیں گمنام ہے


زین احترام


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...