یوم پیدائش 25 اگست 1967
جس کو دیکھو وہی بیکار میں الجھا ہوا ہے
ہر گریبان کسی تار میں الجھا ہوا ہے
دشت بے چین ہے وحشت کی پذیرائی کو
دل وحشی در و دیوار میں الجھا ہوا ہے
جنگ دستک لیے آ پہنچی ہے دروازے تک
شاہزادہ لب و رخسار میں الجھا ہوا ہے
اک حکایت لب اظہار پہ ہے سوختہ جاں
ایک قصہ ابھی کردار میں الجھا ہوا ہے
سر کی قیمت مجھے معلوم نہیں ہے لیکن
آسماں تک مری دستار میں الجھا ہوا ہے
آئیے بیچ کی دیوار گرا دیتے ہیں
کب سے اک مسئلہ بے کار میں الجھا ہوا ہے
خورشید طلب