Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

جاوید عارف

 رہنما دوست معمار استاد ہے

قوم و ملت کو درکار استاد ہے


منزلوں سے کیا جس نے ہے آشنا

درحقیقت وہ سالار استاد ہے


زندگی کو نکالا ہے ظلمات سے 

ماہ و انجم سے ضوبار استاد ہے


ماں سے بڑھ کر کیا پیار اطفال کو

شفقتوں کا وہ گلزار استاد ہے

 

توڑ ڈالا جہالت کی زنجیر کو

علم کی ڈھال تلوار استاد ہے


درسِ اخلاص اب مکتبوں میں نہیں 

قوم سے آج بیزار استاد ہے


جاوید عارف


نہال جالب

 خود تو گمنامی میں رہتا ہے مگر بچوں کو

ایک استاد بلندی پہ بٹھا دیتا ہے


نہال جالب


سالم سلیم

 یوم پیدائش 05 سپتمبر 1985


مرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے 

اب مجھے خود سے نکلنے کی اجازت دی جائے 


موت سے مل لیں کسی گوشۂ تنہائی میں 

زندگی سے جو کسی دن ہمیں فرصت دی جائے 


بے خدوخال سا اک چہرا لیے پھرتا ہوں 

چاہتا ہوں کہ مجھے شکل و شباہت دی جائے 


بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود 

شرط یہ ہے کہ مری خاک کی قیمت دی جائے 


بس کہ دنیا مری آنکھوں میں سما جائے گی 

کوئی دن اور مرے خواب کو مہلت دی جائے 


سالم سلیم


چراغ بریلوی

 یوم پیدائش 05 سپتمبر 1988


طے ہوا دن کہ کھلے شام کے بستر چلیے 

پاؤں کو حکم تھکن کا ہے کہ اب گھر چلیے 


پہلے پہلے تو کسی چیز سے ٹکراؤگے 

تب کہیں ذہن کہے گا کہ سنبھل کر چلیے 


چوٹ دیکھیں گے تو منزل پہ نہیں پہنچیں گے 

لگ گئی پاؤں کو جو لگنی تھی ٹھوکر چلیے 


ایسے کتنے ہی ملیں گے تمہیں منزل تک سو 

دیکھنا چھوڑیئے بھی میل کے پتھر چلیے 


راہ میں بھیڑ ڈراتی ہے تو گھر جاتے ہیں اور 

گھر کی تنہائی یہ کہتی ہے کہ باہر چلیے 


چراغ بریلوی


احمد علی برقی اعظمی

 موضوعاتی نظم:- یومِ اساتذہ


آیئے مِل کر منائیں آج ہے ٹیچرس ڈے

سب کو جاکر یہ بتائیں آج ہے ٹیچرس ڈے


ہیں یہی ٹیچر دکھاتے ہیں جو راہِ زندگی

راہ یہ سب کو دکھائیں آج ہے ٹیچرس ڈے


ہے ترقی کی ضمانت اُن کا ہی نقشِ قدم

اس پہ چل کر آزمائیں آج ہے ٹیچرس ڈے


یاد میں رادھا کریشنن کی مناتے ہیں اسے

داستاں ان کی سنائیں آج ہے ٹیچرس ڈے


ٹیچروں کی ہی بدولت چل رہاہے یہ نظام

خود سنیں سب کو سنائیں آج ہے ٹیچرس ڈے


ٹیچروں کے دم سے ہے قایم بہارِ زندگی

اِس میں ہم بھی گل کھلائیں آج ہے ٹیچرس ڈے


باعثِ پسماندگی ہے یہ جہالت اس لئے

اس جہالت کو مٹائیں آج ہے ٹیچرس ڈے


ڈاکٹر احمد علی برقیؔ نے لکھا ہے جسے

وہ ترانہ مِل کے گائیں آج ہے ٹیچرس ڈے


احمد علی برقیؔ اعظمی


 یوم اساتذہ جو مناتے ہیں لوگ آج

اپنے اساتذہ کا ہے ان کو یہ اک خراج


تعلیم سے جو کرتے ہیں لوگوں کو روشناس

تعلیم ہی سے بنتا ہے آدرش اک سماج


تعلیم ہی سکھاتی ہے آدابِ زندگی

دیتے ہیں یہ اساتذہ تعلیم کو رواج


تعلیم کے فروغ میں ان کا اہم ہے رول

تعلیم سے سمجھتے ہیں سب وقت کا مزاج


ہیں ذہن ساز بچوں کے اُن کے اساتذہ

بہتر نہیں ہے اس سے کوئی آج کام کاج


اپنے حقوق کے لئے جو لڑ رہے ہیں آج

کوشش کریں نہ کرنا پڑے ان کو احتجاج


اپنے اساتذہ کا ہے برقی بھی مدح خواں

وہ اب جہاں ہے ان کی بدولت وہاں ہے آج


احمد علی برقیؔ اعظمی


ندیم اعجاز

 عقل بیمار دل دوانہ ہے

بحث کا سلسلہ پرانا ہے


اک سلگتی ہوئی حقیقت ہے

زندگی کب کوئی فسانہ ہے


جو ہواوں کی زد پہ ہے ہر دم

ایسی ٹہنی پہ آشیانہ ہے


چاندنی گو بدن جلاتی ہے

چاند سے پھر بھی عاشقانہ ہے


تُو فلک سے اتر کے آ تو کبھی

دل تجھے کھول کر دکھانا ہے


جب ملے ڈولتے ہیں دونوں جہاں

چشمِ جاں اک شراب خانہ ہے


خود سے روٹھے ہیں خود ہی مانیں گے

کس نے آ کر ہمیں منانا ہے


کون دے گا مری گواہی ندیم

اس کی جانب تو اک زمانہ ہے


ندیم اعجاز


بلقیس ظفیر الحسن

 یوم پیدائش 01 سپتمبر 1936


زخم کو پھول کہیں نوحے کو نغمہ سمجھیں

اتنے سادہ بھی نہیں ہم کہ نہ اتنا سمجھیں


زخم کا اپنے مداوا کسے منظور نہیں

ہاں مگر کیوں کسی قاتل کو مسیحا سمجھیں


شعبدہ بازی کسی کی نہ چلے گی ہم پر

طنز و دشنام کو کہتے ہو لطیفہ سمجھیں


خود پہ یہ ظلم گوارا نہیں ہوگا ہم سے

ہم تو شعلوں سے نہ گزریں گے نہ سیتا سمجھیں


چھوڑیئے پیروں میں کیا لکڑیاں باندھے پھرنا

اپنے قد سے مرا قد، شوق سے چھوٹا سمجھیں


کوئی اچھا ہے تو اچھا ہی کہیں گے ہم بھی

لوگ بھی کیا ہیں ذرا دیکھیے کیا کیا سمجھیں


ہم تو بیگانے سے خود کو بھی ملے ہیں بلقیسؔ

کس توقع پہ کسی شخص کو اپنا سمجھیں


بلقیس ظفیر الحسن


ہاشم اسد لبیدپوری

 اپنے دل سے غبار صاف کیا

ہم نے دشمن کو بھی معاف کیا


خود کو بستر بنا لیا ہم نے 

اور اسے عمر بھر لحاف کیا 


جس جگہ ہم نے تم کو کھویا تھا

زندگی بھر وہیں طواف کیا


ایک ٹکڑا ملا تھا روٹی کا 

ماں نے بچوں میں ہاف ہاف کیا 


دل کے کعبے میں کیسی خوشبو ہے

کون ہے کس نے اعتکاف کیا


میں نے چھوڑی انا تو اس نے بھی

اپنی لغزش کا اعتراف کیا


اس کو جب چھوڑنا ہی تھا ہاشم

اس سے کیوں عین شین قاف کیا


ہاشم اسد لبیدپوری


خوشبیر سنگھ شاد

 یوم پیدائش 04 سپتمبر 1954


میں اپنے روبرو ہوں اور کچھ حیرت زدہ ہوں میں

نہ جانے عکس ہوں چہرہ ہوں یا پھر آئنہ ہوں میں


مری مجبوریاں دیکھو کہ یکجائی کے پیکر میں

کسی بکھرے ہوئے احساس میں سمٹا ہوا ہوں میں


مرے اندر کے موسم ہی مجھے تعمیر کرتے ہیں

کبھی سیراب ہوتا ہوں کبھی صحرا نما ہوں میں


جو ہے وہ کیوں ہے آخر جو نہیں ہے کیوں نہیں ہے وہ

اسی گتھی کو سلجھانے ہی میں الجھا ہوا ہوں میں


یہ بات اب کیسے سمجھاؤں میں ان معصوم جھرنوں کو

گزر کر کن مراحل سے سمندر سے ملا ہوں میں


تبھی تو شادؔ میں ہوں معتبر اپنی نگاہوں میں

مناظر کو بڑی سنجیدگی سے سوچتا ہوں میں


خوشبیر سنگھ شادؔ


غلام محمد قاصر

 یوم پیدائش 04 سپتمبر 1941


بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو

اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو


ہر پتا نا آسودہ ہے ماحول چمن آلودہ ہے

رہ جائیں لرزتی شاخوں پر دو چار گلاب تو اچھا ہو


یوں شور کا دریا بپھرا ہے چڑیوں نے چہکنا چھوڑ دیا

خطرے کے نشان سے نیچے اب اترے سیلاب تو اچھا ہو


ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اڑ جاتے ہیں

اب اور نہ بکھرے رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو


ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا

دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو 


غلام محمد قاصر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...