Urdu Deccan

Monday, November 29, 2021

احمد علی برقی اعظمی

 بیاد پروین شاکر بمناسبت یوم تولد

نسائی احساسات و جذبات کی ترجمان شہرۂ آفاق شاعرہ پروین شاکر کی نذر


بجھی ناوقت شمعِ زندگی پروین شاکر کی

مگر باقی ہے اب تک روشنی پروین شاکر کی


غزلخواں ہے عروسِ فکر و فن اشعار میں اُس کے

نہایت دلنشیں ہے شاعری پروین شاکر کی


غزل بن کر دھڑکتی ہے دلوں میں اہل دل کے وہ

نہ کم ہوگی کبھی بھی دلکشی پروین شاکر کی


بنالیتی ہے اپنے فکر و فن کا سب کو گرویدہ

غزل میں ہے جو عصری آگہی پروین شاکر کی


ترو تازہ ہیں گلہائے مضامیں آج بھی اُس کے

یونہی قایم رہے گی تازگی پروین شاکر کی


علمبردار تھی وہ جذبۂ احساسِ نسواں کی

نمایاں ہے کتابِ زندگی پروین شاکر کی


دلوں پر نقش ہیں برقیؔ نقوشِ جاوداں اُس کے

ہے عصری معنویت آج بھی پروین شاکر کی


احمد علی برقیؔ اعظمی


اسحاق وردگ

 یوم پیدائش 24 نومبر 1977


مری ہستی سزا ہونے سے پہلے 

میں مر جاتا بڑا ہونے سے پہلے 


وہ قبلہ اس گلی سے جا چکا تھا 

نماز دل ادا ہونے سے پہلے 


محبت اک مسلسل حادثہ تھی 

ہمارے بے وفا ہونے سے پہلے 


میں اپنی ذات سے نا آشنا تھا 

خدا سے آشنا ہونے سے پہلے 


خزاں میں پھول سا لگتا تھا مجھ کو 

وہ پتھر آئینہ ہونے سے پہلے 


بہت مضبوط سی دیوار تھا میں 

کسی کا راستا ہونے سے پہلے


اسحاق وردگ


حمیرا رحمان

 یوم پیدائش 24 نومبر 1957


حروف چند مری شاعری کے چاروں طرف

کہ جیسے پانی ہو تشنہ لبی کے چاروں طرف


ہزار بار بجھی آنکھ پھر ہوئی روشن

کچھ آئینے بھی تھے بے چہرگی کے چاروں طرف


بہت سے خواب تھے رنگین اس کے تھیلے میں

سو لوگ بیٹھ گئے اجنبی کے چاروں طرف 


ہوا بدلنے کی آنے لگی ہے خوش خبری

بہت دھواں تھا گزرتی گھڑی کے چاروں طرف


ہم آنے والے زمانوں سے دور کیوں نہ رکھیں

جو الجھنیں ہیں ہماری صدی کے چاروں طرف 


یہ کھیل آنکھ مچولی کا دادا پوتے میں

ہنسی کا ہالہ ہے سنجیدگی کے چاروں طرف


جزیرے چھوٹے بڑے ہیں کسی تسلی کے

مری نگاہ میں ٹہری نمی کے چاروں طرف


مکان کھولا گیا گھر میں آنے والوں پر

شجر لگائے گئے بے گھری کے چاروں طرف


چلو حمیراؔ کوئی نیک کام کرتے ہیں

امنگ بوتے ہیں مردہ دلی کے چاروں طرف


حمیرا رحمان


شاہدہ حسن

 یوم پیدائش 24 نومبر 1953


سلیقہ عشق میں میرا بڑے کمال کا تھا

کہ اختیار بھی دل پر عجب مثال کا تھا


میں اپنے نقش بناتی تھی جس میں بچپن سے

وہ آئینہ تو کسی اور خط و خال کا تھا


رفو میں کرتی رہی پیرہن کو اور ادھر

گماں اسے مرے زخموں کے اندمال کا تھا


یہ اور بات کہ اب چشم پوش ہو جائے

کبھی تو علم اسے بھی ہمارے حال کا تھا


محبتوں میں میں قائل تھی لب نہ کھلنے کی

جواب ورنہ مرے پاس ہر سوال کا تھا


درخت جڑ سے اکھڑنے کے موسموں میں بھی

ہوا کا پیار شجر سے عجب کمال کا تھا


کتاب کس کی مسافت کی لکھ رہی ہے ہوا

یہ قرض اس کی طرف کس کے ماہ و سال کا تھا


شاہدہ حسن


پروین شاکر

 یوم پیدائش 24 نومبر 1952


دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا


قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا

کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا


جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں

بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا


میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا


انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے

وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا


سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ

سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا


اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم

سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا


مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی

تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا


پروین شاکر


عبداللہ خالد

 ماحولِ دلِ زار ابھی کیا تھا ابھی کیا ہے

یہ شہر بھی حیرت کدہء ہوش ربا ہے


اک وہ ہیں کہ اسبابِ زمانہ ہیں ملازم

اک ہم کہ میسر نہ دوا ہے نہ دعا ہے


سب کام دلیلوں سے نہیں چلتے جہاں میں

گر ہم کو یقیں ہے کہ خدا ہے تو خدا ہے


تصویر مکمل ہوں مگر میرا مصور

لگتا ہے یہاں رکھ کے مجھے بھول گیا ہے


بیکار ہے دیواروں سے سر پھوڑنا خالد

کچھ داد رسی ہو تو شکایت بھی بجا ہے


عبداللہ خالد


پرتو روہیلہ

 یوم پیدائش 23 نومبر 1932


اس دشت‌ ہلاکت سے گزر کون کرے گا

بے امن خرابوں میں سفر کون کرے گا


خورشید جو ڈوبیں گے ابھرنے ہی سے پہلے

اس تیرگیٔ شب کی سحر کون کرے گا


چھن جائیں سر راہ جہاں چادریں سر کی

اس ظلم کی نگری میں بسر کون کرے گا


جس دور میں ہو بے ہنری وجہ سیادت

اس دور میں تشہیر ہنر کون کرے گا


اڑ جائیں گے جنگل کی طرف سارے پرندے

مینارۂ لرزاں پہ بسر کون کرے گا


اس خوف مسلسل میں گزر ہوگی تو کیوں کر

سولی پہ ہر اک رات بسر کون کرے گا


مژدہ مجھے جینے کا بھلا کس نے دیا تھا

مجھ کو مرے مرنے کی خبر کون کرے گا


پرتو روہیلہ


سلطان سکون

 یوم پیدائش 23 نومبر 1932


ہوا نہیں ہے ابھی منحرف زبان سے وہ

ستارے توڑ کے لائے گا آسمان سے وہ


نہ ہم کو پار اتارا نہ آپ ہی اترا

لپٹ کے بیٹھا ہے پتوار و بادبان سے وہ


ہماری خیر ہے عادی ہیں دھوپ سہنے کے ہم

ہوا ہے آپ بھی محروم سائبان سے وہ


تمام بزم پہ چھایا ہوا ہے سناٹا

اٹھا ہے شخص کوئی اپنے درمیان سے وہ


ابھی تو رفعتیں کیا کیا تھیں منتظر اس کی

ابھی پلٹ کے بھی آیا نہ تھا اڑان سے وہ


ہزار میلا کیا دل کو اس کی جانب سے

کسی بھی طور اترتا نہیں ہے دھیان سے وہ


اب اس کی یاد اب اس کا ملال کیسا ہے

نکل گیا جو پرے سرحد گمان سے وہ


وہ جس سکونؔ کا اب آپ پوچھنے آئے

چلا گیا ہے کہیں اٹھ کے اس مکان سے وہ


سلطان سکون


شازیہ نیازی

 وحشت جب التجاؤں کے حصے میں آگئی

زاری پھٹی رداؤں کے حصے میں آگئی


اک شہر تیرے نام سے منسوب ہوگیا

تہذیب میرے گاؤں کے حصے میں آگئی


ایڑی رگڑ کے ہار گئے آج کے عوام

اور جیت رہمناؤں کے حصے میں آگئی


عشق و وفا کی راہ تباہی شعار ہے

میں کس طرح بلاؤں کے حصے میں آگئی


ناداں سپاہی جنگ میں دل ہار کر گیا

تلوار میرے پاؤں کے حصے میں آگئی


اک بیج کی، شکم میں جو بنیاد پڑگئی

دولت وفا کی ، ماؤں کے حصے میں آگئی


شازیہ نیازی


ضیاء المصطفیٰ ترک

 یوم پیدائش 29 اگست 1976


آئنہ اس کو اور خیال مجھے

عیب جیسا ہے یہ کمال مجھے


نام لے کر پکارتے ہیں رنگ 

روک لیتی ہے ڈال ڈال مجھے 


یاد ہو کوئی دن بھلا کیسے 

بھول جاتے ہیں ماہ و سال مجھے


جانے پھر کس طرف نکل جاؤں

ارے آزردگی! سنبھال مجھے 


یہی میں ہوں اگر بفرض ِ محال

خوش نہیں آئے خدّو خال مجھے


دیکھ تو کتنا تنگ ہے مجھ کو 

اس بدن سے کہیں نکال مجھے 


اوڑھ رکھا ہے مجھ کو گدڑی نے

ہے بچھائے ہوئے پیال مجھے 


کہیں بارش میں رکھ گھڑی بھر کو

دھوپ میں تھوڑی دیر ڈال مجھے


ماند پڑنے لگی ہے میری چمک 

اپنے ہاتھوں میں رکھ ، اُجال مجھ


ضیاء المصطفیٰ ترک


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...