Urdu Deccan

Thursday, December 2, 2021

شہرت بخاری

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1925


وہم ثابت ہوئے سب خواب سہانے تیرے

یاد کرتے ہیں مگر لوگ فسانے تیرے


کاش وہ دن نہ کبھی آئے کہ تو آ جائے

راس آتے ہیں مرے جی کو بہانے تیرے


ایسی افتاد پڑی اپنی خبر بھی نہ رہی

ہم تو آئے تھے یہاں رنگ جمانے تیرے


کل چھپا رکھتے تھے خود سے بھی محبت اپنی

آج آئے ہیں تجھے داغ دکھانے تیرے


خلق کا دھیان ہٹاتے رہے کانٹے کیا کیا

راز افشا کیے سب باد صبا نے تیرے


درد کیا کیا نہ ملے شوق طلب سے اپنے

زخم کیا کیا نہ دیے ذوق حیا نے تیرے


جز ترے چاہنے والا تھا نہ ان کا کوئی

لوٹ کر آئے نہ شہرتؔ وہ زمانے تیرے


شہرت بخاری


حرمت الااکرام

 یوم پیدائش 02 دسمبر 1928


اس کے سوا کیا اپنی دولت

سوز تمنا درد بصیرت


اپنے علاوہ کون ملے گا

کس سے کرنے جائیں عداوت


سکوں کا بازار ہے دنیا

ملتی کیا احساس کی قیمت


ناخن دوراں اور غضب تھا

بھرتا بھی کیا زخم فراست


ہر دھڑکن افسانہ بن کر

کھول رہی ہے دل کی حقیقت


زخموں پھولوں کی یہ دنیا

دل کا جہنم آنکھ کی جنت


کتنے تجربے ایک تمنا

کتنے خواب اور ایک محبت


بتکدۂ فن تیری خاطر

گڑھتا ہوں تخئیل کی مورت


کرتے حرمتؔ کی غم خواری

غم نے کہاں دی اتنی مہلت


حرمت الااکرام


تاشی ظہیر

 یوم پیدائش 02 دسمبر 1947


حق پرستی کے سزاوار ہوا کرتے تھے

ہم کبھی صاحب کردار ہوا کرتے تھے


کوئی مذہب ہو کوئی رنگ ہو مل بیٹھتے تھے

دیس میں ایسے بھی تہوار ہوا کرتے تھے


پاس تہذیب تھا اک وہ بھی زمانہ تھا کبھی

میرے دشمن بھی مرے یار ہوا کرتے تھے


اس طرح تھک کے تو بیٹھا نہیں کرتے تھے ہم

راستے پہلے بھی دشوار ہوا کرتے تھے


اب تو سوکھے ہوئے پتوں کا بھرم رکھتے ہیں

ہم کبھی شاخ ثمر دار ہوا کرتے تھے


پگڑیاں قدموں میں رکھنے کا ہنر سیکھ گئے

ہم وہی ہیں جو سر دار ہوا کرتے تھے


تاشی ظہیر


کاشف احسن کاش قنوجی

 خود میں احساس ہمیشہ یہی زندہ رکّھا 

ہو گئے اس کے مگر خود کو پرایا رکّھا 


کسی کم ظرف سے مانگی نہیں امدار کبھی

ہم نے غربت میں بھی معیار کو اعلٰی رکّھا


جس کو بھی چاہا اسے ٹوٹ کہ چاہا ہر دم 

جس کو بھولے نہ اسے یاد دوبارہ رکّھا


عشق ہم نے بھی نبھایا ہے بڑی شدّت سے  

اس سے بچھڑے تو سدا خود کو اکیلا رکّھا 

  

  کاشف احسن "کاش قنّوجی




افسر ماہ پوری

 یوم پیدائش 01 دسمبر 1918


میرے لیے ساحل کا نظارا بھی بہت ہے

گرداب میں تنکے کا سہارا بھی بہت ہے


دم ساز ملا کوئی نہ صحرائے جنوں میں

ڈھونڈا بھی بہت ہم نے پکارا بھی بہت ہے


اپنی روش لطف پہ کچھ وہ بھی مصر ہیں

کچھ تلخئ غم ہم کو گوارا بھی بہت ہے


انجام وفا دیکھ لیں کچھ اور بھی جی کے

سنتے ہیں خیال ان کو ہمارا بھی بہت ہے


کچھ راس بھی آتی نہیں افسرؔ کو مسرت

کچھ یہ کہ وہ حالات کا مارا بھی بہت ہے


افسر ماہ پوری


ادیب ہزاروی

 یوم پیدائش 01 دسمبر 1985


کچھ بھی نہ رہا ! اور ہوا کچھ بھی نہیں

سب کچھ ہے مگر تیرے سِوا کچھ بھی نہیں


دل اُن کی محبت میں ہے بے چین بہت

بس غم کے سِوا جن سے ملا کچھ بھی نہیں 


اک دل ہے کہ جو جل کے ہوا راکھ مرا

سینے سے مگر اُٹھتا دُھواں کچھ بھی نہیں


ناکردہ خٙطا کی بھی سزا ہم کو ملی

کہتے ہی رہے ہم سے ہوا کچھ بھی نہیں 


وہ جن کے لیے خود کو بھی نیلام کیا 

شکوہ ہی رہا ! ہم نے دیا کچھ بھی نہیں


ادِیب ہزاروی


عمران عاشر

 یوم پیدائش 01 دسمبر 


بند کر اِک نام کی ہر روز تھاپ

بس دلا اب اور نہ اُس کو الاپ


اُس نے میرا ہاتھ پکڑا اور لکھا

تم مرے ہو اور آگے فُل سٹاپ


اب تو صحرا ہے یہاں دریا بھی تھا

دیکھ لے آنکھوں سے اب اٹھتی یہ بھاپ


ایک کتے کی بجھائی پیاس اور

ایک پُن سے دھل گئے سارے ہی پاپ


زیست کے کُرتے کا کالر اور ہے

اور مری گردن کا عاشر اور ناپ


  عمران عاشر


رفیق سندیلوی

 یوم پیدائش 01 دسمبر 1961


مَیں تیری آگ کے اندر اُتر کے دیکھوں گا

جَلوں گا اور کرشمے ہُنر کے دیکھوں گا


تُجھے پتا چلے آبِ رواں کو کیا دُکھ ہے

مَیں ایک دن تُجھے چھاگل میں بھر کے دیکھوں گا


مِلاؤں گا نئے اجزا ترے مُرکّب میں

دوبارہ حُسن کی تشکیل کر کے دیکھوں گا


مرا مزاج کُہستانی ہے مگر پھر بھی

 ہَوا میں ریت کی صورت بکھر کے دیکھوں گا


ہمیشہ مَیں نے تُجھے سَرسَری ہی دیکھا ہے

حجاب اُٹھاؤں گا اور آنکھ بھر کے دیکھوں گا


 تری تہوں میں پڑا ہی نہیں رہوں گا مَیں

بس ایک جست بھروں گا، اُبھر کے دیکھوں گا 


ہمیشہ متن کا کچھ حصّہ چھوٹ جاتا ہے 

سو آج شب تری تلخیص کر کے دیکھوں گا


رفیق سندیلوی


یوسف ظفر

 یوم پیدائش 01 دسمبر 1914


صبح نو مغرب میں ہے بیدار بیداروں کے ساتھ

اور ہم گردش میں ہیں بے نور سیاروں کے ساتھ


چیختی کرنیں فضا کی دل کشی کو لے اڑیں

دھوپ سایوں سے لگی ہے سائے دیواروں کے ساتھ


دوش پر قابیل کے ہے لاش پھر ہابیل کی

لمحے قبریں کھودتے ہیں اپنی منقاروں کے ساتھ


نار نمرود اور گلزار براہیم ایک ہے

پھول بھی لو دے رہے ہیں آج انگاروں کے ساتھ


دیکھ اے چشم زلیخا قدر اپنے پیار کی

آج پھر یوسف کے بھائی ہیں خریداروں کے ساتھ


آل موسیٰ نے کیا عیسیٰ کو پھر بالائے دار

ہیں حواری بھی یہودی سنگ دل یاروں کے ساتھ


قبلۂ اول صلاح الدین ایوبی کو ڈھونڈ

آ ملی دیوار گریہ تیری دیواروں کے ساتھ


اے مسیحا زہر دے لیکن نہ دست غیر سے

یہ ستم اللہ اکبر اپنے بیماروں کے ساتھ


اس سیاست کی فضا میں سانس لینا ہے عذاب

دشمن اپنے ساتھ ہیں اغیار ہیں یاروں کے ساتھ


کربلا میں یکہ و تنہا حسین ابن علی

تعزیے شہروں میں ہیں لاکھوں عزاداروں کے ساتھ


دوستی کا حشر دیکھا تو کھلا ہم پر ظفرؔ

حشر میں کھل کر کریں گے دشمنی پیاروں کے ساتھ


یوسف ظفر


تابش رامپوری

 اک پیکرِجمال کی تنویر دیکھ کر

تصویر ہوگیا ہوں میں تصویر دیکھ کر


دل چاہتا ہے زلفِ گرہ گیر ہی رہوں 

اے شوخ تیر ے زلف کی زنجیر دیکھ کر


جنت کو دیکھنے کی تمنا جواں ہوئی

لوٹے ہیں جب سے وادئِ کشمیر دیکھ کر


صنفِ ادب میں نثر کو بھی اہمیت ملی

شبلی , حسین , حالی کی تحریر دیکھ کر


سپنے ہمارے پاس ہیں اور نیند اس کے پاس

شرمندہ ہم ہیں خواب کی تعبیر دیکھ کر


کیف و سرور پر ہے اجارہ امیر کا

پروائیاں بھی چلتی ہیں جاگیر دیکھ کر


عالم تمام حلقۂ احباب ہو گیا

تابش ترے کلام کی توقیر دیکھ کر


تابشِ رامپوری 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...