Urdu Deccan

Saturday, December 4, 2021

ذوالفقار علی ذلفی

 سامنے تم کو بِٹھا کر یار لِکھوں گا کبھی

میں تمہارے حُسن پر اَشعار لِکھوں گا کبھی


اپنی غزلوں میں تمہارا رنگ بھرنے کے لیے

شعر تم کو دیکھ کر دو چار لِکھوں گا کبھی


بات دل کی تم سے کوئی بھی چُھپاؤں گا نہیں

جس قدر تم سے ہُوا ہے پیار لِکھوں گا کبھی


میں کبھی لِکھوں گا تم کو چاند تاروں کا بدل

اور پُھولوں کی تمہیں مہکار لِکھوں گا کبھی


اِک نظر میں ہی تمہاری مسکراہٹ جس طرح

چھیڑ دیتی ہے دِلوں کے تار لِکھوں گا کبھی


رو پڑیں گے پڑھ کے اُس کو پھر دریدہ دل سبھی

داستانِ ہِجر یوں اِک بار لِکھوں گا کبھی


چاہے ذُلفی جو مِلے مجھ کو محبت کی سزا

نام تیرا اب سرِِ دیوار لِکھوں گا کبھی


ذوالفقار علی ذُلفی


سرور جہاں آبادی

 یوم پیدائش 03 دسمبر 1973


بہ خدا عشق کا آزار برا ہوتا ہے

روگ چاہت کا برا پیار برا ہوتا ہے


جاں پہ آ بنتی ہے جب کوئی حسیں بنتا ہے

ہائے معشوق طرحدار برا ہوتا ہے


یہ وہ کانٹا ہے نکلتا نہیں چبھ کر دل سے

خلش عشق کا آزار برا ہوتا ہے


ٹوٹ پڑتا ہے فلک سر پہ شب فرقت میں

شکوۂ چرخ ستم گار برا ہوتا ہے


آ ہی جاتی ہے حسینوں پہ طبیعت ناصح

سچ تو یہ ہے کہ دلِ زار برا ہوتا ہے


سرور جہاں آبادی


حضرت ابو الفضل سید محمود قادری

 یوم پیدائش 03 دسمبر 1911


شانِ در محبوبِ خدا اور ہی کچھ ہے

دربارِ محمد بخدا اور ہی کچھ ہے


چھائی ہوئی ہیں رحمتِ باری کی گھٹائیں

اس شہرِ محبت کی فضا اور ہی کچھ ہے


دے دیتے ہیں سائل کو زباں کھلنے سے پہلے

سرکار کا اندازِ عطا اور ہی کچھ ہے


جب ان پہ نظر پڑتی ہے یاد آتے ہیں آقا

عشاقِ محمد کی ادا اور ہی کچھ ہے


ہیں دونوں جہاں اس کی تجلیّ سے منوّر

خورشیدِ نبوت کی ضیا اور ہی کچھ ہے


جابر نے کہا دیکھا جو حسنِ مہِ کامل

حسنِ شہہِ لُولاک لما اور ہی کچھ ہے


جنت تو جزا ہے عملِ نیک کی لیکن

عشقِ شہہِ طیبہ کا صلہ اور ہی کچھ ہے


دم ٹوٹے تو انؐ کے قدمِ ناز پہ ٹوٹے

یوں مرنے کا محمود مزا اور ہی کچھ ہے


حضرت ابو الفضل سید محمود قادری


Thursday, December 2, 2021

نصیر پرواز

 یوم پیدائش 01 دسمبر 1940


صدیوں کو راستے دکھا لمحوں کو سازگار کر

دل کو بنا چراغِ شب سورج کو شرمسار کر


 شکر ، سکوں نصیبِ جاں ، صبر، حیات رائیگاں

 سوزِ طریق زندگی لمحوں یہ اختیار کر

 

 ان کے بغیر روح کو کیسے ملے کھلی فضا

 آگ کو ہم زباں بنا دریا کو راز دار کر

 

 مل جاؤں راہ میں اگر یہ بھی ترا نصیب ہے

 میں نے یہ تجھ سے کب کہا تو میرا انتظار کر

 

 دیکھ یہیں کہیں ہوں میں سوچ کہیں نہیں ہوں میں

 اچھا ہے اپنے ذہن سے رکھ دے مجھے اتار کر

 

 یادیں کبھی بھلا چکے، نقشِ وفا مٹا چکے

 اب تو شکستہ دائرے فکر کے بے حصار کر

 

 ایسا نہ ہو کہ راستے سارا حساب پوچھ لیں

 راز ِشکستِ آرزو سب پر نہ آشکار کر

 

 کربِ تلاشِ ذات کو تازہ ہوا سے دور رکھ 

 آیا ہوں تیرے سامنے سارے سوال ہار کر

 

 اتریں گی آسمان سے اک دن زمیں پہ راحتیں

 دن کو بھی رکھ نگاہ میں شب پر بھی اعتبار کر

 

نصیر پرواز


انشا اللہ خاں انشا


 یوم پیدائش 01 دسمبر 1752


کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں

بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں


نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی

تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں


خیال ان کا پرے ہے عرش اعظم سے کہیں ساقی

غرض کچھ اور دھن میں اس گھڑی مے خوار بیٹھے ہیں


بسان نقش پائے رہرواں کوئے تمنا میں

نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں


یہ اپنی چال ہے افتادگی سے ان دنوں پہروں

نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں


کہیں ہیں صبر کس کو آہ ننگ و نام ہے کیا شے

غرض رو پیٹ کر ان سب کو ہم یک بار بیٹھے ہیں


کہیں بوسے کی مت جرأت دلا کر بیٹھیو ان سے

ابھی اس حد کو وہ کیفی نہیں ہشیار بیٹھے ہیں


نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو

جسے پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں


نئی یہ وضع شرمانے کی سیکھی آج ہے تم نے

ہمارے پاس صاحب ورنہ یوں سو بار بیٹھے ہیں


کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے سنا انشاؔ

غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں


انشا اللہ خاں انشا

ڈاکٹر ضمیر اترولی

 یوم پیدائش 02 دسمبر 1959


ایک انجان مسافر کی طرح رہتا ہوں

جسم میں جاں کے عناصر کی طرح رہتا ہوں


دیکھتا ہے جو مجھے مجھ میں ہی کھو جاتا ہے

میں کہ رنگین مناظر کی طرح رہتا ہوں


میرے باطن کا کوئی راز کبھی بھی نہ کھلا

میں نہاں ہو کہ بھی ظاہر کی طرح رہتا ہوں


اڑ کے جانا ہے کسی روز مجھے گھر اپنے

نور کی بوند ہوں طائر کی طرح رہتا ہوں


سادگی سے میں کیا کرتا ہوں حالات کو خوش

وقت کی نبض کے ماہر کی طرح رہتا ہوں


شعر کہنے کا سلیقہ تو نہیں آتا ضمیر

لوگ کہتے ہیں کہ شاعر کی طرح رہتا ہوں


ڈاکٹر ضمیر اترولی


منور بدایونی

 یوم پیدائش 02 دسمبر 1908


داورِحشر کے حضور


 ہے حشر کا دن حاضرِ دربار ہیں بندے

  یارب تری رحمت کے طلبگار ہیں بندے

  

 تو خالقِ عالم ہے سزا دے کہ جزا دے

  مجبور ہیں مجرم ہیں گنہگار ہیں بندے

  

 تو مالک و مختار ہے بخشے کہ نہ بخشے

  شرمندہ ہیں نادم ہیں خطاوار ہیں بندے

  

 ستّار ہے غفّار ہے تو خالقِ کل ہے

  مایوس ہیں معذور ہیں لاچار ہیں بندے

  

 اک جنس گرانمایہ ہے مولا تری رحمت

  بے زر ہیں بڑے مفلس و نادار ہیں بندے

  

 بندوں کا خدا تیرے سوا کون ہے یارب

  انصاف کے تجھ سے ہی طلبگار ہیں بندے

  

 حقّا ترا ہمدم ہے نہ ثانی ہے نہ ہمسر

  کرتے ہیں تری توحید کا اقرار ہیں بندے

  

 دامن میں گناہوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

  لیکن تری رحمت کے طلبگار ہیں بندے

  

 لاریب کے تو وعدہ فراموش نہیں ہے

  جو حکم ہو تعمیل کو تیار ہیں بندے

  

 بندوں کو بھی درکار ہے مولا تری رحمت

  رحمت کو بھی مولا تری درکار ہیں بندے

  

 مایوس منّور ہے ترے رحم کا طالب

  ہے حشر کا دن حاضرِ دربار ہیں بندے

  

منور بدایونی


عاصم قریشی

 یوم پیدائش 02 دسمبر


نعت

ذکرِ احمدؐ پہ بات ہو جائے

تا کہ راضی وہ ذات ہو جائے


اب نہیں توبہ کی سکت مجھ میں

اب تو میری نجات ہو جائے


پہنچ جاؤں گا میں مدینے میں

میری قسمت جو ساتھ ہو جائے


جب وہؐ وللیل زلف لہرائیں

دن ڈھلے اور رات ہو جائے


اُس پسینےؐ میں بات ایسی ہے

سارے پھولوں کو مات ہو جائے


آپؐ ہم پر جو اک نظر کر دیں

ہم سے اندھوں سے نعت ہو جائے


نام انؐ کا ہو میرے ہونٹوں پر

پھر جو ہو میرے ساتھ ہو جائے


  عاصم قریشی


شیزا جلالپوری

 یوم پیدائش 02 دسمبر


اک بار کی نہیں ، ہے یہ ہر بار کی سزا 

تا عمر اب ملے گی مجھے پیار کی سزا 


جلنے لگا ہے طور کی مانند سارا جسم

کتنی حسین ہے ترے دیدار کی سزا 


سینچا ہے ہم نے اپنے لہو سے وطن کاباغ

اوردے رہے ہیں وہ ہمیں غدّار کی سزا 


جھوٹی محبتوں کا یہ انجام دیکھئے 

کچرے میں پھینک آئے ہیں وه پیارکی سزا 


معصوم تتلیوں کو مسلتے ہیں جو یہاں 

انکو تو ہونی چاہیئے بس دار کی سزا 


اے کاش مرے پاس چلا آئے چارہ گر

شیزا ہو کچھ تو کم دلِ بیمار کی سزا 


شیزا جلالپوری


امتیاز الحق امتیاز

 یوم پیدائش 02 دسمبر 1962


ہے کون میرے سامنے روپوش کون ہے 

گر تو نہیں تو مجھ سے ہم آغوش کون ہے 


پوچھا نہیں ہے یہ بھی کسی راہگیر نے 

یہ راہ میں پڑا ہوا بے ہوش کون ہے 


پہچان میری یہ ہے کہ محفل میں دیکھنا 

آواز کے ہجوم میں خاموش کون ہے 


دریا کو ایک قطرہ سمجھ کر جو پی گیا 

اس شہر میں یہ مجھ سا بلا نوش کون ہے


میں چیختا ہوں اور وہ سنتا نہیں مجھے 

اس کی شبیہ میں یہ گراں گوش کون ہے


کس نے یہ میری چاندنی راتیں خراب کیں

ڈھانپا ہے چاند کس نے سیہ پوش کون ہے


یہ کون امتیاز محبت پرست ہے

یہ صاحبِ غبار تن و توش کون ہے


امتیازالحق امتیاز


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...