Urdu Deccan

Thursday, March 31, 2022

ناز مرادآبادی

 یوم پیدائش 31 مارچ 1936


غنچے غنچے پہ گلستاں کے نکھار آ جائے 

جس طرف سے وہ گزر جائیں بہار آ جائے 


ہر نفس حشر بہ داماں ہے جنون غم میں 

کس طرح اہل محبت کو قرار آ جائے 


وہ کوئی جام پلا دیں تو نہ جانے کیا ہو 

جن کے دیکھے ہی سے آنکھوں میں خمار آ جائے 


غیر ہی سے سہی پیہم یہ کدورت کیوں ہو 

کہیں آئینۂ دل پر نہ غبار آ جائے 


کچھ اس انداز سے ہے حسن پشیمان جفا 

کوئی مایوس وفا دیکھے تو پیار آ جائے 


نازؔ گھر سے لئے جاتا ہے سوئے دشت مجھے 

وہ جنوں جس سے بیاباں کو بھی عار آ جائے


ناز مرادآبادی


سرفراز چاند

 یوم پیدائش 30 مارچ 1976


بہت سازش ہوئی پھر بھی مری پہچان باقی ہے

 خدا کا شکر ہےاٗردو زباں کی شان باقی ہے


خدا کے واسطے چلمن سے تم باہر نکل آؤ

ابھی تک دل ميں میرے ديد کا ارمان باقی ہے


میں اکثر سوچتا ہوں چھوڑ دوں اٍس شہر کو ليکن

مرے اسلاف سے وابستہ ہر پہچان باقی ہے


کبھی ہم راہٍ ایماں سے بھٹک سکتے نہیں لوگو

ہماری رہبری کے واسطے قرآن باقی ہے


سنو اے نا خداؤ کشتياں ساحل پہ لے آؤ

”ابھی موجوں کے دٍل ميں حشر کا طوفان باقی ہے“


ہر اک طوفان سے اے چاند گزروں گا میں ہنس ہنس کر

 مری ماں کی دعاوں کا ابھی فیضان باقی ہے


سرفراز چاند



ہارون ایاز قادری

 یوم پیدائش 30 مارچ 1953


بنامِ عشق ترا غم شناس رہتے ہوئے

میں مطمئن بھی بہت ہوں اداس رہتے ہوئے


کبھی تو کھل کے ملو اور ٹوٹ کر برسو

ہو کتنی دور مرے آس پاس رہتے ہوئے


وہ راز مجھ پہ مری بیخودی نے کھول دیا

جو جان پایا نہ ہوش وحواس رہتے ہوئے


یہ انتظار مجھے کیوں گراں گزرتا ہے

رفیقِ جاں ترے ملنے کی آس رہتے ہوئے


دمک رہی ہے جوانی ، چمک رہا ہے شباب

برہنگی ہے یہ کیسی لباس رہتے ہوئے


ایاز میرے لیے حسنِ آگہی تھا بہت

خدا شناس رہا خود شناس رہتے ہوئے


ہارون ایاز قادری



احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں بیاد شفیع الرحمں شفیع مرحوم

تاریخ وفات : 28 مارچ 2022


ہے شفیع الرحمں کی رحلت نہایت دلفگار

ان کے غم میں آج دنیائے ادب ہے سوگوار


ان سے تھا ہر وقت میرا اک خصوصی رابطہ

یہ خبر سن کر مری آنکھیں ہیں پیہم اشکبار


جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کے بلند

ان پہ نازل ہو ہمیشہ رحمت پروردگار


فرط رنج و غم سے ان کے اہل خانہ ہیں نڈھال

آتے آتے آئے گا اس بیقراری کو قرار


کرتے تھے آیات قرآں کا وہ اردو ترجمہ

ان کی تاریخ ادب میں ہے جو زریں یادگار


اپنے حسن خلق سے تھے وہ دلوں پر پر حکمراں

مرجع اہل نظر ہیں ان کے ادبی شاہکار


ان کے ہیں اشعار عصری حسیت کے ترجماں

ان کی غزلوں سے عیاں ہے سرد وگرم روزگار


تھی منور ان سے پٹنہ کی ہر ادبی انجمن

ان کے ادبی ذوق کی برقی ہے جو آئینہ دار


احمد علی برقی اعظمی



 #شعراء #اردو #اردوشاعری #اردوغزل #اردودکن #urdudeccan #poetrylovers #urduadab #urdu #urdupoetry #urdugazal

شفیع الرحمن شفیع

 یوم وفات 28 مارچ 2022

انا الیہ وانا الیہ راجعون


جو ہے خو گرِضبط، اس کو پتا ہے 

نہاں درد ہی میں خود اس کی دوا ہے 


نہ شکوہ ہے کوئی، نہ ذکرِجفا ہے 

پسند آپ کی مجھ کو اک اک ادا ہے 


سرِ راہ پتلا بنا جو کھڑا ہے 

وہ اپنے ہر آک ہم سفر سے لٹا ہے 


بدن سے یہ جس کے دھواں اٹھ رہا ہے 

کسی دل شکن کا بڑا دل جلا ہے

 

اسی پر سدا لوگ برسائیں پتھر 

شجر جو ہرا ہے، پھلوں سے لدا ہے 


ادب سیکھ لے گا یہی رفتہ رفتہ 

ابھی پختہ کاروں میں بالکل نیا ہے


ڈھلے سارے الفاظ آہ و فغاں میں 

معانی سے بھر پور دل کی نوا ہے

 

کرن چاند کی چھن کے من موہ لیتی 

لطافت نواز اس نے اوڑھی نوا ہے

 

ہمیں بدر و خندق کے، خیبر کے وارث 

شفیع آج کل ہر طرف کربلا ہے


شفیع الرحمن شفیع


سائل دہلوی

 یوم پیدائش 29 مارچ 1867


جتاتے رہتے ہیں یہ حادثے زمانے کے

کہ تنکے جمع کریں پھر نہ آشیانے کے


سبب یہ ہوتے ہیں ہر صبح باغ جانے کے

سبق پڑھاتے ہیں کلیوں کو مسکرانے کے


ہزاروں عشق جنوں خیز کے بنے قصے

ورق ہوے جو پریشاں مرے فسانے کے


ہیں اعتبار سے کتنے گرے ہوے دیکھا

اسی زمانے میں قصے اسی زمانے کے


قرار جلوہ نمائی ہوا ہے فردا پر

یہ طول دیکھیے اک مختصر زمانے کے


نہ پھول مرغ چمن اپنی خوشنوائی پر

جواب ہیں مرے نالے ترے ترانے کے


اسی کی خاک ہے ماتھے کی زیب بندہ نواز

جبیں پہ نقش پڑے ہیں جس آستانے کے


سائل دہلوی


سید حامد

 یوم پیدائش 20 مارچ 1920


بات وہ بات نہیں ہے جو زباں تک پہنچے 

آنکھ وہ آنکھ ہے جو سر نہاں تک پہنچے 


قدر تعظیم کشش شوق محبت اظہار 

روکئے دل کو نہ جانے یہ کہاں تک پہنچے 


دل یہ ہر گام پہ کہتا ہے ٹھہر گھر ہے یہی 

فرق سے تا بہ قدم آنکھ جہاں تک پہنچے 


کس کو فرصت ہے سنے درد بھری ہے روداد 

کون بے چارگیٔ خستہ دلاں تک پہنچے 


جان لینا یہ اسی لمحہ کہ دل ٹوٹ گیا 

بات جب ضبط سے بڑھ جائے فغاں تک پہنچے 


مڑ کے دیکھا بھی نہیں دل کے لہو کی جانب 

شعر کی داد یہ دی حسن بیاں تک پہنچے


سید حامد


Sunday, March 27, 2022

نواب دہلوی

 یوم وفات 26 مارچ 1988


مشتاقِ نظارہ ہو کر بھی گستاخ نہ تھی ، بیباک نہ تھی

یہ پاسِ ادب سے اٹھ نہ سکی وہ سمجھے نظر کو تاب نہیں


نواب دہلوی


ارفع کنول

 پاس آ تو بھی دل میں اتر بے خبر

دے کبھی مجھ کو اپنی خبر بے خبر


مجھ کومٹھی میں اپنی تو بھر ریت سا 

میں نہ جاوں کہیں یوں بکھر بے خبر


چھوڑ آئینے کو جھا نک آنکھوں میں تو

عکس یاں دیکھ تُو بن سنور بے خبر


موت کا بھی ہوا ہے کبھی کوئی ڈر

ڈرنا ہے زندگی سے تُو ڈر بے خبر


زندگی کی یہ تصویر دل کش لگے

رنگ ایسا تو اک شوخ بھر بے خبر


چھوڑ تنہا محبت کی رہ میں نہ یوں

دیکھ رستے جدا اب نہ کر بے خبر


عمر بھر خود سے ملنے کی چا ہت رہی

میں بھٹکتا رہا در بدر بے خبر


ارفع کنول


شہزاد مغل عجمی

 یوم پیدائش 27 مارچ 1980


دعا کرو مرے حق میں کہ میرے یار ملے 

مجھے بھی اب کوئی اچھا سا کاروبار ملے


انا پہ بوجھ ہے غیروں کی چاکری کرنا

ہو میرا اپنا خدایا جو روزگار ملے


کئی برس کی تھکن دور ہو گئی میری 

گلے میں ڈال کے باہوں کا جب وہ ہار ملے


تمہارے حسن کا صدقہ نکالنا ہے مجھے

یہ انتظار ہے کوئی رفیقِ کار ملے


بھروسہ آج بھی میرا تمہی پہ قائم ہے

کہ دھوکے تم سے اگرچہ ہیں بے شمار ملے


 ہم آگئے ہیں بڑے تنگ اِس حکومت سے 

 یہ حکمراں تو خدایا نہ بار بار ملے


امیرِ وقت جو مہنگا کرے نہ نان و نمک

غریبِ شہر کو شاید ذرا قرار ملے


کہ چاہ کر بھی مَیں شہزاد مسکرا نہ سکا

مَیں کیا کروں کہ مجھے لوگ سوگوار ملے


شہزاد مغل عجمی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...