Urdu Deccan

Tuesday, April 12, 2022

سعدیہ بشیر

 یوم پیدائش 01 اپریل


ہم نہ چندا رہے اور نہ تارا ہوئے

ہم گزارا کیے , ہم گوارا ہوئے


جو میسر تھے وہ سارے روندے گئے

جو تہ خاک ہیں وہ ستارہ ہوئے


چپ کی بکل میں غم کی تھی صورت سوا

  جب شنیدن ہوئے پارا پارا ہوئے


 آنکھ میں ریت کی تابناکی رہی

  جو نہیں.جھک سکے , بے سہارا ہوئے


 میری مٹھی میں جگنو کی کچھ راکھ تھی

پربتوں کے محل بھی اسارا ہوئے


 جن کے الفاظ تھے قند کی ڈوریاں

اپنے لہجوں سے کیا آشکارا ہوئے


 قید گہ میں دیواروں کی جا در ہوئے

ہم اسیری کے لائق دوبارا ہوئے


سعدیہ بشیر 



نسرین سید

 یوم پیدائش 01 اپریل 


تب دیکھنا ، جب معجزہ گر بات کرے گا

اب تم سے یہ پلکوں کا گہر بات کرے گا


خیرات وہ درکار ہے، اُس دستِ عطا سے

کشکول نہیں ، کاسہء سر بات کرے گا


ہیں اور ، جو چپ رہتے ہیں دنیا کے مقابل

یہ عشق ہے، بے خوف و خطر بات کرے گا


کتنا رفو درکار ہے، عجلت میں نہ سُنیو

فرصت سے مرا زخمِ جگر بات کرے گا


جاتے ہوئے رسوا تجھے کر دے، نہیں ممکن

مت سوچ ، ترا شہر بدر بات کرے گا


اس بار اٹھائیں گے نہ احسانِ سماعت

اس بار فقط حُسنِ نظر بات کرے گا


کافی ہے، جو ڈالے گا اچٹتی سی نظر وہ

کافی ہے ، اگر ثانیہ بھر بات کرے گا


سوچا نہ تھا رشوت، نئی تہذیب بنے گی

مشکل ہو کوئی ، لقمہء تر بات کرے گا


مت کرنا کوئی راز ، زمانے کے حوالے

سُن لے گا اِدھر، جا کے اُدھر، بات کرے گا


نسرینؔ اسے رکھ تو سہی لا کے دکاں میں

ہے قدر جنہیں ، اُن سے ہنر بات کرے گا


    نسرین سید



کاملؔ بہزادی

 یوم پیدائش 01 اپریل 1934


آکاش کی حسین فضاؤں میں کھو گیا

میں اس قدر اڑا کہ خلاؤں میں کھو گیا


کترا رہے ہیں آج کے سقراط زہر سے

انسان مصلحت کی اداؤں میں کھو گیا


شاید مرا ضمیر کسی روز جاگ اٹھے

یہ سوچ کے میں اپنی صداؤں میں کھو گیا


لہرا رہا ہے سانپ سا سایہ زمین پر

سورج نکل کے دور گھٹاؤں میں کھو گیا


موتی سمیٹ لائے سمندر سے اہل دل

وہ شخص بے عمل تھا دعاؤں میں کھو گیا


ٹھہرے ہوئے تھے جس کے تلے ہم شکستہ پا

وہ سائباں بھی تیز ہواؤں میں کھو گیا


کاملؔ بہزادی



افروز عالم

 یوم پیدائش 01 اپریل 1975


ہمیشہ ہجرتوں کے سلسلے اچھے نہیں لگتے

ہمیں اب روکھے پھیکے ذائقے اچھے نہیں لگتے


ستارے ان کی منزل کا کبھی عنواں نہیں بنتے

جنھیں پُرخار تنہا راستے اچھے نہیں لگتے


مجھے اڑجانے دے تاکہ فضا کا جائزہ لے لوں

سنہری پٹیوں سے پر بندھے اچھے نہیں لگتے


ستاروں کو کہاں آرام ملتا ہے اندھیرے میں

جبھی تو مجھ کو یہ جلتے دیئے اچھے نہیں لگتے


کبھی وہ بات بھی کہہ دے کہ جو دل میں اتر جائے

بنا سر پیر کے کچھ فلسفے اچھے نہیں لگتے


اگر بہہ جائیں آنسو تو کھلے رخسار کی رنگت

رکے پلکوں پہ تو یہ قافلے اچھے نہیں لگتے


میں اپنے ہی جنوں سے ایک نیا عالم بناؤں گا

مجھے پابند کرتے دائرے اچھے نہیں لگتے


افروز عالم



محمد افضل شیر

 یوم پیدائش 01 اپریل 1964


زندگی تو ہے جستجو کرنا

کوئی خواہش نہ آرزو کرنا


عشق تو کربلا مسلسل ہے

لمحہ لمحہ لہو لہو کرنا


کام ہے آج کل، گریباں کو

چاک کرنا کبھی رفُو! کرنا


شیر آنکھوں سے ہم نے جانا ہے

ہمیں آیا نہیں وضو کرنا


  محمد افضل شیر



عاطف جاوید عاطف

 یوم پیدائش 01 اپریل


سگنل پر وہ چالیس لمحے برسوں ہم کو یاد رہے

گجرے والا بولا تھا جب، صاحب !! جوڑی شاد رہے


چوراہے پر یاد ہے کیسے دیتا تھا مجذوب دعا 

تیرے گھر کا چولہا چوکا صدیوں تک آباد رہے


عقل و دانش، فہم ، فراست، ایک نظر میں ڈھیر ہوۓ 

اُن کی پلکیں اُٹھنے تک بس، ہم اُن کے استاد رہے 


شب کی ہر سلوٹ سے پوچھو کیسے جاگے چاند اور میں 

سُونی رات کے اک بستر پر کیسے دو افراد رہے 


پریم نگر میں گارے مٹی سے بھی گھر بن جاتے ہیں 

بنیادوں میں سچ کی پُختہ اینٹیں ہوں بس یاد رہے


خود پر اسمِ اعظم پڑھ کے خود کو ہی تسخیر کریں 

 کب تک اِس آسیب نگر میں تنہا یہ ہمزاد رہے 


 عاطف جاوید عاطف



الیاس عباسی

 یوم پیدائش 01 اپریل 1985


جسے بھی دیکھو اڑاتا ہے اب ہنسی میری

تماشا بن گئی گویا کہ سادگی میری


یہ اور بات کہ روشن کیا زمانے کو

مگر مجھی کو نہ مل پائی روشنی میری


دعا کرو کہ پھڑک جائے یہ رگِ احساس

بجا رہا ہے کوئی اور بانسری میری


میں اک حقیر سا جگنو ہوں ذات میں اپنی

مگر چراغ کو چبھتی ہے روشنی میری


یہ سوچ کر بھی گناہوں سے باز رہتا ہوں

نہ جانے کون سی ہو سانس آخری میری


ہمیشہ ساتھ جو سائے کی طرح رہتا ہے

قبول کرتا نہیں وہ بھی برتری میری


گلہ میں غیر سے کرتا نہیں کبھی الیاس

ہمیشہ اپنے ہی کرتے ہیں جب نفی میری


الیاس عباسی



ارشد کاکوی

 یوم پیدائش 01 اپریل 1928


ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول 

ڈوب جاتے ہیں ستارے اور بکھر جاتے ہیں پھول 


اک نظر کی کیا حقیقت ہے مگر اے دوستو 

عمر بھر کی موت بن جاتی ہے اک لمحے کی بھول

 

ہم تو ہیں ان محفلوں کے آج تک مارے ہوئے 

جن میں نغموں کی ہے شورش جن میں زلفوں کی ہے دھول 


اور جو کچھ بھی ہے ان کے درمیاں وہ ہے گراں 

زندگی ارزاں ہے اور ہے موت بھی سہل الحصول 


آج تک دہکی ہوئی سینے میں ہے عارض کی آگ 

دل میں اب تک چبھ رہے ہیں ان کی پلکوں کے ببول

 

دے رہے ہیں اس طرح وہ کاکویؔ صاحب کی داد 

پوچھتے ہیں آپ کے اشعار کی شان نزول 


ارشد کاکوی



مشتاق عاجز

 یوم پیدائش 01 اپریل 1944


لہو جلا کے اجالے لٹا رہا ہے چراغ

کہ زندگی کا سلیقہ سکھا رہا ہے چراغ


وفور شوق میں لیلئ شب کے چہرے سے

نقاب زلف پریشاں اٹھا رہا ہے چراغ


ہمارے ساتھ پرانے شریک غم کی طرح

عذاب ہجر کے صدمے اٹھا رہا ہے چراغ


یہ روشنی کا پیمبر ہے اس کی بات سنو

صداقتوں کے صحیفے سنا رہا ہے چراغ


شب سیاہ کا آسیب ٹالنے کے لیے

تمام عمر شریک دعا رہا ہے چراغ


ہوائے دہر چلی ہے بڑی رعونت سے

دیار عشق میں کوئی جلا رہا ہے چراغ


وہ ہاتھ بھی ید بیضا سے کم نہیں عاجزؔ

جو خاک ارض وطن سے بنا رہا ہے چراغ


مشتاق عاجز



سیدہ فرحت

 یوم پیدائش 01 اپریل 1938


نہ فرش خاک پہ ٹھہریں گے نقش پا کی طرح

رواں دواں ہیں فضاؤں میں ہم ہوا کی طرح


پکار وقت کی نزدیک تھی مگر ہم نے

سنا ہے دور سے آتی ہوئی صدا کی طرح


سزائیں دیتی ہے مکر و فریب کی دنیا

صداقتوں کا ہے اظہار اک خطا کی طرح


خدا کرے تجھے احساس درد و غم نہ رہے

دعائے خیر وہ دیتے ہیں بد دعا کی طرح


نہ ہو سخن میں جو شان پیمبری ممکن

خموش رہ کے بھی دیکھیں ذرا خدا کی طرح


جھلک دکھائے کہیں تو امید کا سورج

ہجوم یاس ہے امڈی ہوئی گھٹا کی طرح


سیدہ فرحت



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...