Urdu Deccan

Friday, April 29, 2022

ارپیت شرما

 یوم پیدائش 28 اپریل


دور کرنے کو یہ تنہائی کہاں سے آئی

تو نہیں ہے تو یہ پرچھائی کہاں سے آئی


آنکھ رکھ کر ہوا جاتا ہے خدا کا منکر 

وہ نہیں ہے تو یہ بینائی کہاں سے آئی


سبز کوسار چمن زار درختوں کی قطار

جو زمیں آپ کو دکھلائی کہاں سے آئی


بام و در دیکھ کہ حیران ہیں آنکھیں میری 

ایسی دیواروں پہ یہ کائی کہاں سے آئی


دیکھ کر غرق ہوئی جاتی ہے ساری دنیا

تیری آنکھوں میں یہ گہرائی کہاں سے آئی


تیری رعنائیِ قدرت پہ تعجب ہے خدا

ان پہاڑوں میں یہ اونچائی کہاں سے آئی


تیرے سجدوں پہ تو نازاں ہیں فرشتے سارے

تجھ میں ارپتؔ یہ جبیں سائی کہاں سے آئی


ارپیت شرما



ڈاکٹر ناہید کیانی

 یوم پیدائش 28 اپریل


عجیب دل میں مچی کھلبلی سے ڈرتے ہوئے

میں سانس کھینچتی ہوں زندگی سے ڈرتے ہوئے


اذیتوں کی کسک سے وہ آشنا کب ہے

مجھے گزرنا ہے جس کی گلی سے ڈرتے ہوئے


چراغ وقت سے پہلے بجھا رہے ہیں لوگ

ہوا کے ساتھ مِلے, روشنی سے ڈرتے ہوئے


کسی کے ہونٹوں پہ لرزے گا قہقہوں کا ہجوم

مکانِ صبر کی اس پختگی سے ڈرتے ہوئے


ہر ایک آئنہ تڑخن کا غم سہے ناہید

مرے خلوص مری سادگی سے ڈرتے ہوئے


ڈاکٹر ناہید کیانی



سیفی سرونجی

 یوم پیدائش 28 اپریل 1952


کیا پوچھتے ہو درد کے ماروں کی زندگی 

یعنی فلک کے ڈوبتے تاروں کی زندگی 


پھیلاؤں ہاتھ جا کے بھلا کس کے سامنے 

ہم کو نہیں گوارا سہاروں کی زندگی

 

ساحل پہ آ کے موج تلاطم سے بارہا 

برباد ہو گئی ہے ہزاروں کی زندگی

 

آتی ہے یاد کیوں مجھے رہ رہ کے آج بھی 

گلشن کے دل فریب نظاروں کی زندگی 


ہے آندھیوں کا خوف نہ ہے ڈوبنے کا ڈر 

مجھ کو نہیں پسند کناروں کی زندگی 


کس درجہ خوش گوار ہے تنہائیوں میں آج 

سیفیؔ چمکتے چاند ستاروں کی زندگی 


سیفی سرونجی



بدنام نظر

 یوم پیدائش 27 اپریل 1941


حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں

پناہ مانگنے آیا ہوں بے پناہوں میں


بدن ممی تھا نظر برف سانس کافوری

تمام رات گزاری ہے سرد بانہوں میں


اب ان میں شعلے جہنم کے رقص کرتے ہیں

بسے تھے کتنے ہی فردوس جن نگاہوں میں


بجھی جو رات تو اپنی گلی کی یاد آئی

الجھ گیا تھا میں رنگین شاہراہوں میں


نہ جانے کیا ہوا اپنا بھی اب نہیں ہے وہ

جو ایک عمر تھا دنیا کے خیر خواہوں میں


مری تلاش کو جس علم سے قرار آئے

نہ خانقاہوں میں پائی نہ درس گاہوں میں


بدنام نظر



شوق قدوائی

 یوم وفات 27 اپریل 1925


روح کو آج ناز ہے اپنا وقار دیکھ کر 

اس نے چڑھائیں تیوریاں میرا قرار دیکھ کر 


قصد گلہ نہ تھا مگر حشر میں شوق جوش سے 

ہاتھ مرا نہ رک سکا دامن یار دیکھ کر 


دیکھ کے ایک بار انہیں دل سے تو ہاتھ دھو چکے 

دیکھیے کیا گزرتی ہے دوسری بار دیکھ کر 


آتے ہیں وہ تو پہلے ہی رنج سے صاف ہو رہوں 

آ کے کہیں پلٹ نہ جائیں دل میں غبار دیکھ کر 


وصل سے گزرے اے خدا ہاں یہ شگون چاہیئے 

صبح کو ہم اٹھا کریں روئے نگار دیکھ کر 


کعبہ کو جا نہ شوقؔ ابھی نیت زندگی بخیر 

ہم بھی چلیں گے تیرے ساتھ اب کی بہار دیکھ کر


شوق قدوائی



تابش رامپوری، ممبرا

 انسان کو ڈھونڈو گے تو انسان ملےگا

ورنہ یہاں ہر موڑ پہ حیوان ملے گا


پتھر کو اگر وصف کا ایوان ملے گا

ممکن ہے کہ خود ساختہ بھگوان ملے گا


بہتر ہے کہ یہ پھول کسی قبر پہ رکھ دو

بوسیدہ مکاں میں کہاں گلدان ملے گا


جس غار میں وحدت کی تجلی ہے وہاں جا

بستی میں کہاں صاحب عرفان ملے گا


جنت کی کسی کو بھی تمنا نہیں ہوگی

دنیا میں اگر عیش کا سامآن ملے گا


تابش میں یہی سوچ کے رہتا ہوں پریشاں 

ہر شخص یہاں مجھکو پریشان ملے گا


تابش رامپوری، ممبرا



زعیم رشید

 یوم پیدائش 27 اپریل 1984


دیار شوق میں آئے تھے ایک خواب کے ساتھ 

گزر رہی ہے مسلسل کسی عذاب کے ساتھ 


ہم اہل درد پکارے گئے صحیفوں میں 

ہم اہل عشق اتارے گئے کتاب کے ساتھ 


پھر ایک شام پذیرائی چشم تر کی ہوئی 

پھر ایک شام گزاری گئی جناب کے ساتھ 


ہمیں یہ خوف اندھیرے نگل نہ جائیں کہیں 

سو ہم نے جسم کو ڈھانپا ہے آفتاب کے ساتھ 


مکالمہ رہا جاری ہماری آنکھوں کا 

بدن کی شاخ پہ کھلتے ہوئے گلاب کے ساتھ 


کچھ اور چاہیے تشنہ لبی مٹانے کو 

یہ پیاس وہ ہے جو بجھتی نہیں شراب کے ساتھ 


زعیمؔ وہ مری دریا دلی سے ڈرتا ہے 

وہ مجھ سے ملتا ہے لیکن بڑے حساب کے ساتھ 


زعیم رشید



عشرت رومانی

 یوم وفات 25 اپریل 2021


طلوع صبح تاباں کی جبیں سے

یہ کس کا خون رستا ہے زمیں سے


تری یادوں کی شبنم ضو فشاں ہے

نظر آتے ہیں جگنو شہ نشیں سے


کوئی سورج مرے دل میں اتارو

بنے جاتے ہیں رستے سرمگیں سے


کوئی مانوس خوشبو بس گئی ہے

چلے آتے ہیں جھونکے عنبریں سے


تری قربت کی گرمی کہہ رہی ہے

بکھرنے کو ہیں لمحے آتشیں سے


مرے سپنے مری آنکھیں بھی لے لو

مگر جاناں مجھے دیکھو کہیں سے


جہاں جلتی ہیں یادوں کی چتائیں

پکارا ہے ہمیں اس نے وہیں سے


عشرت رومانی



محب وفا

 یوم پیدائش 26 اپریل 1984


ہجر ہے یاس ہے وحشت کا سماں ہے میں ہوں 

عمر ٹھہرے ہوئے موسم میں رواں ہے میں ہوں 


میرے دامن میں جو گنجینۂ گل ہے تو ہے 

تیرے دامن میں جو اک برگ خزاں ہے میں ہوں 


از زمیں تا بہ فلک رات کا سناٹا ہے 

ایسے عالم میں جو یہ شور فغاں ہے میں ہوں 


دیکھ ہجراں میں خیالات پریشاں کا فسوں 

جا بجا عکس ترا رقص کناں ہے میں ہوں 


طاق ہر شام پہ جلتی ہوئی امید ہے تو 

یہ جو بجھتی ہوئی حسرت کا دھواں ہے میں ہوں 


چشم صد ناز ہے پیکان ستم ہے تو ہے 

اور اک زخم جگر جان ستاں ہے میں ہوں 


برف جذبات کی پگھلی ہے مری حدت سے 

اندروں تیرے جو اک شعلہ فشاں ہے میں ہوں


محب وفا



رفیق رافع

 یوم پیدائش 25 اپریل


ملنے جب جب بھی ان سے جاتے ہیں

دل وہیں اپنا چھوڑ آتے ہیں


ہم نے سیکھا ہے بارہا ان سے

سانحے کچھ نہ کچھ سکھاتے ہیں


تھام لو دل کہ آپ کو اپنی

دکھ بھری داستاں سناتے ہیں


یار ہم بعد میں ہی سوتے ہیں

پہلے بستر پہ غم بچھاتے ہیں


یہ جو ہنستے دکھائی دیتے ہیں

درحقیقت یہ دکھ چھپاتے ہیں


اک قیامت سی ٹوٹ پڑتی ہے

رخ سے آنچل وہ کیا ہٹاتے ہیں


کیا کہا وہ یہاں پہ آئیں گے

رک زرا ہم سنور کے آتے ہیں


رفیق رافع



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...