Urdu Deccan

Friday, July 15, 2022

عبدالحئی پیام انصاری

یوم پیدائش 02 جولائی 1942

اپنے بھی انجام کو سوچیں گے لوگ
ڈوبتے سورج کو جب دیکھیں گے لوگ

اب کہاں یہ آگ بجھنے دیں گے لوگ
اپنی اپنی روٹیاں سینکیں گے لوگ

پہلے اکسائیں گے لڑنے کے لیے
پھر تماشا دور سے دیکھیں گے لوگ

اب کہاں مرہم لگائے گا کوئی
اب نمک ہی گھاؤ پر چھڑکیں گے لوگ

روکیں گے ہر ایک کو جس کام سے
چپکے سے وہ کام خود کرلیں گے لوگ

بھول جائیں گے وہ یہ بھی حادثہ
بس یہی دو چار دن چیخیں گے لوگ

دوستی کب تک نبھائیں گی یہ آگ
کب تلک اس آگ سے کھیلیں گے لوگ

جان لیں گے وہ پیام اچھا برا
قلب کی آواز جب سن لیں گے لوگ

عبدالحئی پیام انصاری1942

اپنے بھی انجام کو سوچیں گے لوگ
ڈوبتے سورج کو جب دیکھیں گے لوگ

اب کہاں یہ آگ بجھنے دیں گے لوگ
اپنی اپنی روٹیاں سینکیں گے لوگ

پہلے اکسائیں گے لڑنے کے لیے
پھر تماشا دور سے دیکھیں گے لوگ

اب کہاں مرہم لگائے گا کوئی
اب نمک ہی گھاؤ پر چھڑکیں گے لوگ

روکیں گے ہر ایک کو جس کام سے
چپکے سے وہ کام خود کرلیں گے لوگ

بھول جائیں گے وہ یہ بھی حادثہ
بس یہی دو چار دن چیخیں گے لوگ

دوستی کب تک نبھائیں گی یہ آگ
کب تلک اس آگ سے کھیلیں گے لوگ

جان لیں گے وہ پیام اچھا برا
قلب کی آواز جب سن لیں گے لوگ

عبدالحئی پیام انصاری



عمران یادگیری

یوم پیدائش 02 جولائی 1982
نظم رشتے

دلوں سے محبت وہ سینوں سے اُلفت 
کہاں جا رہی ہے کوئی تو بتا دے 

وہ معشوق و عاشق کہاں کھو گئے ہیں
وہ لیلیٰ وہ مجنوں کدھر کو گئے ہیں

کہاں ہے وہ سماّن و آدر بڑوں کا
وہ ایشور کا سایہ سا سرپر بڑوں کا

وہ بھائی سی چاہت وہ مائی سی مورت
کوئی کھوئی بہنا سے ہم کو ملا دے

دھرم جسکا رکشا ، لہو کے عوض ہے
کہاں ہے وہ بھیّا کوئی تو پتہ دے

وہ پیروں پہ جُھکنا وہ سمّان کرنا
لپٹ جائے ہم سے وہ باپو کہاںہے 

وہ ممتا کی مورت جو ہے وجہِ رحمت
وہ مائی کہاں ہے کوئی تو دکھادے

ہے ہم سب کا داتا وہ رب سارے جگ کا
کوئی تو بتادے وہ رہتا کہاں ہے

وہ رشتے کہاں ہیں جو عمرانؔ پوچھے
کوئی اُسکے اپنوں سے آکر ملا دے
عمران یادگیر

ی۔
 

ابن تاج

یوم پیدائش 02جولائی 1978

گرچہ ہاتھوں کو اٹھا رکھا ہے
بے طلب دستِ دعا رکھا ہے

اب بھی کچھ پاسِ وفا رکھا ہے
کم سہی کچھ تو بچا رکھا ہے

ہے مجھے آبلہ پائی سے غرض
ورنہ اس دشت میں کیا رکھا ہے

سینکڑوں عکس مقید ٹھہرے
مجھ میں کچھ آئینہ سا رکھا ہے

نام آنکھوں کا رکھا برقِ تپاں
اور گیسو کا گھٹا رکھا ہے

رنگ جتنے ہیں جاں ستانی کے
تاجؔ سب ہم پہ روا رکھا ہے

ابن تاج



انیس سلطانہ

یوم پیدائش 02 جولائی 1941

بروز حشر مرا احتساب کیا ہوگا 
کہ اس زمیں کے سوا اور عذاب کیا ہوگا 

مدام فکر میں بے عقل کا تسلسل کار 
کتاب زیست کا آئندہ باب کیا ہوگا 

جواں دلوں میں فقط نفرتیں ہی ملتی ہیں 
زیادہ اس سے کوئی انقلاب کیا ہوگا 

عطا کیا مہ کامل کو عشرتوں کا غرور 
اندھیری رات سے بڑھ کر عذاب کیا ہوگا 

طلسم کیف و نظر مدعائے بے خبری 
طلسم ہوش و خرد کا نصاب کیا ہوگا 

گناہ گار نظر بھی ہے دل کی دھڑکن بھی 
وہ پوچھ لیں گے تو میرا جواب کیا ہوگا 

بہ فیض جرأت رندانہ دیکھنا تو انیسؔ 
ادا شناسوں کا تجھ پر عتاب کیا ہوگا 

انیس سلطانہ



عابد اللہ غٓازی

یوم پیدائش 01 جولائی 1939

 نظم یاد علی گڑھ
وہ چائے کی پیالی پہ یاروں کے جلسے 
وہ سردی کی راتیں وہ زلفوں کے قصے 
کبھی تذکرے حسن شعلہ رخاں کے 
محبت ہوئی تھی کسی کو کسی سے 
ہر اک دل وہاں تھا نظر کا نشانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
بہت اپنا انداز تھا لاابالی 
کبھی تھے جلالی کبھی تھے جمالی 
کبھی بات میں بات یوں ہی نکالی 
سر راہ کوئی قیامت اٹھا لی 
کسی کو لڑانا کسی کو بچانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
کبھی سچی باتوں کو جھوٹا بتایا 
کبھی جھوٹی باتوں کو سچ کر دکھایا 
کبھی راز دل کہہ کے اس کو چھپایا 
کبھی دوستوں میں یوں ہی کچھ اڑایا 
بتا کر چھپانا چھپا کر بتانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
کبھی بزم احباب میں شعلہ افشاں 
کبھی یونین میں تھے شمشیر براں 
کبھی بزم واعظ میں تھے پا بہ جولاں 
بدلتے تھے ہر روز تقدیر دوراں 
جہاں جیسی ڈفلی وہاں ویسا گانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
زمانہ تھا وہ ایک حیوانیت کا 
وہ دور ملامت تھا شیطانیت کا 
ہمیں درد تھا ایک انسانیت کا 
اٹھائے علم ہم تھے حقانیت کا 
بڑھے جا رہے تھے مگر باغیانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
مقابل میں آئے جسارت تھی کس کو 
کوئی روک دے بڑھ کے ہمت تھی کس کو 
پکارے کوئی ہم کو طاقت تھی کس کو 
کہ ہر بوالہوس کو تھے ہم تازیانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
خیالات پر شوق کا سلسلہ تھا 
بدل دیں زمانے کو وہ حوصلہ تھا 
ہر اک دل میں پیدا نیا ولولہ تھا 
ہر اک گام احباب کا قافلہ تھا 
ادھر دعویٰ کرنا ادھر کر دکھانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
وہ شہہ راہ میرس کے پر پیچ چکر 
وہ شمشاد بلڈنگ پہ اک شور محشر 
وہ مبہم سی باتیں وہ پوشیدہ نشتر 
وہ بے فکر دنیا وہ لفظوں کے دفتر 
کہ جن کا سرا تھا نہ کوئی ٹھکانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
کسی کو ہوئی تھی کسی سے محبت 
کوئی کر رہا تھا کسی کی شکایت 
غرض روز ڈھاتی تھی تازہ قیامت 
کسی کی شباہت کسی کی ملامت 
کسی کی تسلی کسی کا ستانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
کوئی غم زدہ تھا کوئی ہنس رہا تھا 
کوئی حسن ناہید پر مر مٹا تھا 
کوئی چشم نرگس کا بیمار سا تھا 
کوئی بس یوں ہی تاکتا جھانکتا تھا 
کبھی چوٹ کھانا کبھی مسکرانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
وہ ہر جنوری میں نمائش کے چرچے 
وہ پر شوق آنکھیں وہ حیران جلوے 
وہ چکر پہ چکر تھے بارہ دری کے 
وہ حسرت کہ سو بار مل کر بھی ملتے 
ہزاروں بہانوں کا وہ اک بہانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
وہ رخ آفتابی پہ ابرو ہلالی 
وہ تمثال سیمیں وہ حسن مثالی 
شگوفوں میں کھیلی گلابوں میں پالی 
وہ خود اک ادا تھی ادا بھی نرالی 
نگاہیں بچا کر نگاہیں ملا کر 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
وہ ہرچند مجھ کو نہیں جانتی تھی 
مگر میری نظروں کو پہچانتی تھی 
اگرچہ مرے دل میں وہ بس گئی تھی 
مگر بات بس دل کی دل میں رہی تھی 
مگر آج احباب سے کیا چھپانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
وہ اک شام برسات کی دن ڈھلا تھا 
ابھی رات آئی نہ تھی جھٹپٹا تھا 
وہ باد بہاری سے اک گل کھلا تھا 
دھڑکتے ہوئے دل سے اک دل ملا تھا 
نظر سن رہی تھی نظر کا فسانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
جوانی اداؤں میں بل کھا رہی تھی 
کہانی نگاہوں میں لہرا رہی تھی 
محبت محبت کو سمجھا رہی تھی 
وہ چشم تمنا جھکی جا رہی تھی 
قیامت سے پہلے قیامت وہ ڈھانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
ہمیں بیتی باتیں جو یاد آ رہی تھیں 
وہ مخمور نظریں جو شرما رہی تھیں 
بہت عقل سادہ کو بہکا رہی تھیں 
بڑی بے نیازی سے فرما رہی تھیں 
انہیں یاد رکھنا ہمیں بھول جانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
اب وہ امنگیں نہ دل میں مرادیں 
اب رہ گئیں چند ماضی کی یادیں 
یہ جی چاہتا ہے انہیں بھی بھلا دیں 
غم زندگی کو کہاں تک دعا دیں 
حقیقت بھی اب بن گئی ہے فسانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
علی گڑھ ہے بڑھ کر ہمیں کل جہاں سے 
ہمیں عشق ہے اپنی اردو زباں سے 
ہمیں پیار ہے اپنے نام و نشاں سے
یہاں آ گئے ہم نہ جانے کہاں سے 
قسم دے کے ہم کو کسی کا بلانا 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 
محبت سے یکسر ہے انجان دنیا 
یہ ویران بستی پریشان دنیا
کمال خرد سے یہ حیران دنیا 
خود اپنے کیے پر پشیمان دنیا 
کہاں لے کے آیا ہمیں آب و دانہ 
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ 

عابد اللہ غٓازی


 

محشر فیض آبادی

ذلیل و خوار ہو کر ہر طرف سے خوب آیا ھے 
نہ جانے کون سے نالے میں جاکے ڈوب آیا ھے 
میں جب تھانے سے لوٹا تو پڑوسن نے کہا میری 
بہارو پھول برساؤ مرا محبوب آیا ھے 

محشر فیض آبادی

نازاں جمشید پوری

یوم پیدائش 01 جولائی 1950

بدلے میں دعاؤں کے کبھی زر نہیں لیتے 
احسان کسی کا بھی قلندر نہیں لیتے 

خود منزل مقصود لپٹ جاتی ہے ان سے 
رہبر کا سہارا وہ کہیں پر نہیں لیتے 

سو جاتے ہیں بورے پہ چٹائی پہ کہیں بھی 
مفلس تو کبھی مخملی بستر نہیں لیتے 

ہو جائے جہاں رات وہیں دن کو بسیرا 
بے چارے یہ بنجارے کہیں گھر نہیں لیتے 

سب لوٹ لیا کرتے ہیں بلوائی فسادی 
اجڑے ہوئے لوگوں کا مقدر نہیں لیتے 

اشکوں سے ہی ہم پیاس بجھا لیتے ہیں نازاںؔ 
خوددار ہیں کچھ ایسے سمندر نہیں لیتے

نازاں جمشید پوری


ضمیر الدین احمد عرش گیاوی

یوم وفات 01 جولائی 1936

ہمارے جامۂ ہستی کو اک دن چاک‌ ہونا تھا 
ہوئے تھے خاک سے پیدا ہمیں پھر خاک ہونا تھا

ترے غمزے تیری شرمیلی آنکھوں سے یہ کہتے ہیں 
تمہیں جلاد ہونا تھا تمہیں سفاک ہونا تھا

ازل سے مرغ دل کو خطرۂ صیاد کیا ہوتا 
کہ اس کو تو اسیر حلقۂ فتراک ہونا تھا

ہوائے دامن جاناں نہ اپنی خاک تک پہنچی 
مقدر میں تو ممنون مزار پاک ہونا تھا

عدو کیونکر نہ آ جاتا یکایک بزم عشرت میں 
اسے بشاش ہونا تھا مجھے غم ناک ہونا تھا

سیہ بختی مری بھی او قلم ہم دم نہ کیوں ہوتی 
میرے سینے کو بھی ترے ہی صورت چاک‌ ہونا تھا

نہ ہوتی دل میں الفت اپنی کیوں قاتل کے ابرو کی 
کہ مجھ کو تو قتیل خنجر سفاک ہونا تھا

جلال الدین احمد کیوں نہ جاتا عرشؔ دنیا سے 
مجھے مرگ پسر میں مرتے دم غم ناک ہونا تھا

ضمیر الدین احمد عرش گیاوی



بشیر احمد شہید

یوم پیدائش 01 جولائی 1916

دل کے ہر داغ کو سینے سے لگائے رکھیے
خانۂ دل میں یہ فانوس جلائے رکھیے

زندگی وقت کے سانچے میں ڈھلی جاتی ہے
دیدہ و دل کو قرینے سے سجائے رکھیے

شام غم کا جو فسانہ تھا وہ اب ختم ہوا 
صبح امید کا ماحول بنائے رکھیے

اپنے اخلاص و محبت کے ہیں قائل سب لوگ
زندگانی کا یہی رنگ جمائے رکھیے

میں ابھی چپکے سے پی آتا ہوں مے خانے سے
زاہدوں کو ذرا باتوں میں لگائے رکھیے

رازداں اپنا فرشتہ نہیں انساں ہی تو ہے 
دل کے ہر راز کو دل میں ہی چھپائے رکھیے

یہ جو ہے فرصت امروز غنیمت ہے شہیدؔ
آج کے کام کو کل پر نہ اٹھائے رکھیے

بشیر احمد شہید



محبوب خزاں

یوم پیدائش 01 جولائی 1930

ہم آپ قیامت سے گزر کیوں نہیں جاتے 
جینے کی شکایت ہے تو مر کیوں نہیں جاتے 

کتراتے ہیں بل کھاتے ہیں گھبراتے ہیں کیوں لوگ 
سردی ہے تو پانی میں اتر کیوں نہیں جاتے 

آنکھوں میں نمک ہے تو نظر کیوں نہیں آتا 
پلکوں پہ گہر ہیں تو بکھر کیوں نہیں جاتے 

اخبار میں روزانہ وہی شور ہے یعنی 
اپنے سے یہ حالات سنور کیوں نہیں جاتے 

یہ بات ابھی مجھ کو بھی معلوم نہیں ہے 
پتھر ادھر آتے ہیں ادھر کیوں نہیں جاتے 

تیری ہی طرح اب یہ ترے ہجر کے دن بھی 
جاتے نظر آتے ہیں مگر کیوں نہیں جاتے 

اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو 
محبوبؔ خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے

محبوب خزاں



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...