Urdu Deccan

Sunday, July 17, 2022

عبدالروف شاہد انصاری

یوم پیدائش 07 جولائی 1918

اور کیا ہوگا دل مہجور کی آغوش میں 
جل رہا ہے طور برق طور کی آغوش میں 

یوں لگا رکھی ہے دل سے زندگی کی آرزو 
جیسے طفل جاں بہ لب مزدور کی آغوش میں 

نور ہی کی جستجو میں کٹ گئی عمر عزیز 
دم بھی پروانے کا نکلا نور کی آغوش میں 

تھک گئے تھے جستجو میں حضرت انسان کی 
سو گئے ہم دختر انگور کی آغوش میں 

جاگنا واعظ کا صبح حشر تک ممکن نہیں 
سوئے ہیں حضرت خیال حور کی آغوش میں 

میرے ساغر میں ہے شاہدؔ اب وہ جان میکدہ 
گم تھی جو خیام نیشپور کی آغوش میں

عبدالروف شاہد انصاری


 

ہاشم علی خان ہمدم

یوم پیدائش 07 جولائی 


چڑھا کر چاند ، پھر ٹوٹا ستارا اب بھی کرتے ہیں 
بٹھاتے ہیں جسے سر پر ، اتارا اب بھی کرتے ہیں 

اگرچہ پانچ نمبر کا سیاہ چشمہ لگاتے ہیں 
مگر یہ نیوٹرل عاشق ، نظارا اب بھی کرتے ہیں 

سیاسی ڈیل کرنی ہو کہ تھوڑی ڈھیل دینی ہو
یہ بازی گر پڑوسن کو اشارہ اب بھی کرتے ہیں 

دیہاڑی دار ہیں اکثر ، سیاسی میڈیا ورکر
یہ بے چارے لفافوں پر گزارا اب بھی کرتے ہیں 

بھلا کر تلخیاں ، اک پیج پر سارے اکٹھے ہیں
لٹیرے ایک دوجے کو سہارا اب بھی کرتے ہیں 

ولیمہ ہو کہ چہلم ہو ، جھپٹ پڑتے ہیں کھانے پر
شکاری ہیں ، مخالف کو شکارا اب بھی کرتے ہیں

ہمیشہ جاگتے رہنا (کبھی ہم پر نہیں رہنا)
یہ چوکی دار مشکل میں پکارا اب بھی کرتے ہیں 

خبر بھی ہے کہ زندہ دل ، کبھی بھی مر نہیں سکتا
مگر یہ لوگ فن کاروں کو مارا اب بھی کرتے ہیں

ہمارے حال پر صادق ہے ، طہ خان کا مصرع
" گئے گزرے تو ہیں لیکن گزارا اب بھی کرتے ہیں "

یہ بونے مسخرے ہیں یا ہمارے رہنما ہمدم
تمھارا بھی ، ہمارا بھی ، خسارا اب بھی کرتے ہیں

ہاشم علی خان ہمدم

 

ضیا ضمیر

یوم پیدائش 07 جولائی 1977

تک رہا ہے تو آسمان میں کیا 
ہے ابھی تک کسی اڑان میں کیا 

وہ جو اک تجھ کو جاں سے پیارا تھا 
اب بھی آتا ہے تیرے دھیان میں کیا 

کیا نہیں ہوگی پھر مری تکمیل 
کوئی تجھ سا نہیں جہان میں کیا 

ہم تو تیری کہانی لکھ آئے 
تو نے لکھا ہے امتحان میں کیا 

ہو ہی جاتے ہیں جب جدا دونوں 
پھر تعلق ہے جسم و جان میں کیا 

ہم قفس میں ہیں اڑنے والے بتا 
ہے وہی لطف آسمان میں کیا 

پڑھ رہے ہو جو اتنی غور سے تم 
کچھ نیاپن ہے داستان میں کیا 

اردو والے کمال دکھتے ہیں 
کوئی جادو ہے اس زبان میں کیا

ضیا ضمیر



ریحان اعظمی

یوم پیدائش 07 جولائی 1958

عشق کا زخم جو منت کشِ مرہم ہوتا
عید کے روز بھی ہر گھر میں محرم ہوتا

ڈر نہ ہوتا جو کہیں عشق میں رسوائی کا
ساتھ عشاق کے اک حلقۂ ماتم ہوتا

آتشِ عشق میں جلنے کا مزا اپنا ہے
تم نہ ہوتے تو یہ شعلہ ہمیں شبنم ہوتا

ہم تو مر جاتے تڑپ کر غمِ تنہائی سے
سلسلہ آپ کی یادوں کا اگر کم ہوتا

صبر، ایثار، محبت، غمِ دنیا، غمِ دل
سوچتا ہوں کہ مِرا کوئی تو ہمدم ہوتا

لشکرِ رنج و مصائب کے مقابل تنہا
کون ہوتا جو نہ مجھ میں کہیں دم خم ہوتا

ہجر آثار ہواؤں سے فراغت کے لیے
کوئی لمحہ کوئی رُت کوئی تو موسم ہوتا

شاعری سے جو الگ ہوتا تعارف ریحان
نامکمل یہ تعارف بڑا مبہم ہوتا

ریحان اعظمی


 

حماد احمد حماد

یوم پیدائش 06 جولائی 1989

لمحوں میں اضطراب کا عالم بدل گیا
جب یہ مراوجود، مرے ساتھ ڈھل گیا

پھر یوں ہوا،کہ تشنہ لبی کام آگئی
ہاتھوں سے، اس کو دیکھ کے ساغر پھسل گیا

یہ اس کی روشنی سے محبت کی ہے دلیل
روشن دئے کی لَو سے لپٹ کر جو جل گیا

عبرت کا ہے مقام، نمائش کے شوق میں
حدّت سے آپ اپنی ہی سورج پگھل گیا

چہرے اداسیوں کا کفن اوڑھنے لگے
دستورِ کائناتِ مسرت بدل گیا

حماد،زخم دیتی رہی شبنمی ردا
سورج کو سائبان بنایاسنبھل گیا

حماد احمد حماد



بلال اسود

یوم پیدائش 06 جولائی 1985

جبراً پیاس پہ پہرا ہوتے دیکھا ہے 
میں نے دریا صحرا ہوتے دیکھا ہے
 
آنکھ میں موت کے کالے کالے آنسو ہیں 
خواب میں نیند کو گہرا ہوتے دیکھا ہے 

آنکھیں مونالیزا جیسی ہیں اس کی 
خاموشی کو چہرہ ہوتے دیکھا ہے 

دوڑا آتا ہے اب ہر آوازے پر 
آفیسر کو بہرا ہوتے دیکھا ہے 

جھیل کنارے بیٹھے بیٹھے کیا تم نے 
شام کا رنگ دوپہرا ہوتے دیکھا ہے 

پیڑ کی گردن پر اب آرا رکھ بھی دو 
کس نے کاٹھ کٹہرا ہوتے دیکھا ہے 

بلال اسود


 

عدیل زیدی

یوم پیدائش 06 جولائی 1958

یہ اعجازِ دیر و حرم دیکھتے ہیں
جو دیکھا نہ جائے وہ ہم دیکھتے ہیں

دکھاؤ ہمیں کوئی پُرامن بستی
یہ سب کچھ توہم دم بہ دم دیکھتے ہیں

سنا ہے کہ محشر بپا وہ کرے گا
چلو چل کے اس کے کرم دیکھتے ہیں

محبت سے شاید پکارے کوئی پھر
پلٹ کر بہت گھر کو ہم دیکھتے ہیں

تھا دشوار نظروں کا ہٹنا جدھر سے
ہم اب اس طرف کم سے کم دیکھتے ہیں

دیے جارہے ہیں ثبوتِ وفا وہ
تو لہجے کا ہم زیرِ و بم دیکھتے ہیں

بظاہر عدیل اس سے رشتے بہت ہیں
رکھے گا وہ کتنا بھرم دیکھتے ہیں

عدیل زیدی



حسان عارفی

یوم پیدائش 06 جولائی 1985

اہل دولت بھی کچھ لوگ کیا ہو گئے 
مال و زر ان کے جیسے خدا ہو گئے 

حال مت پوچھئے مجھ سے اس دور کا 
لوگ یوں غرق موج بلا ہو گئے 

کارواں کیسے محفوظ رہ پائے گا 
جو تھے رہزن وہی رہنما ہو گئے 

جن کی ہر شام رندوں میں گزری کبھی 
وہ بھی کچھ روز سے پارسا ہو گئے 

واعظ محترم کو سر میکدہ 
دیکھ کر لوگ حیرت زدہ ہو گئے 

اپنا ہم راز سمجھا ہمیشہ جنہیں 
وہ بھی اب مجھ سے نا آشنا ہو گئے 

دادا عارفؔ کی شفقت کا یہ فیض ہے 
تم جو حسانؔ نغمہ سرا ہو گئے

حسان عارفی



عاطف رئیس صدیقی

یوم پیدائش 06 جولائی 

اُس شخص ہی سے عشق دوبارہ کرو گے تم
تنکے کو یعنی پھر سے سہارا کرو گے تم

سوچو تو کیسے گزرے گی اب زندگی تمام 
کیسے ہمارے بعد گزارا کرو گے تم

سگریٹ, اداسی, اشک, دکھن, ہجر اور غم
اِس سب کے ساتھ جینا گوارا کرو گے تم؟

دنیا سے کٹ کے جھیل پہ بیٹھو گے سارا دن
کنکر ہی پانیوں میں یوں مارا کرو گے تم

آسان بھی نہیں ہے مجھے بھول جانا یار
ان کوششوں میں روز ہی ہارا کرو گے تم

نقصان جو دلوں کا ہوا, اُس کی خیر ہے
لیکن جو زندگی کا خسارا کرو گے تم؟

رکّھے ہوئے ہیں لوگ یہاں جاں ہتھیلی پر
ہلکا سا صرف ایک اشارہ کرو گے تُم

ہر ایک چیز ہو گی وہاں آنسوؤں سے تر
جِن وادیوں میں ذکر ہمارا کرو گے تم

میں جانتا ہوں یاد تمھیں میری آئے گی
جب ٹہنیوں سے پھول اتارا کرو گے تُم

عاطف رئیس صدیقی



احمد علی برقی اعظمی

یاد رفتگاں : شیراز ہند جونپور کے ہردلعزیز اور جوانسال سخنور  عزیزی وقار احمد ابن محسن رضا جونپوری کے سانحہ ارتحال پر مںظوم تاثرات و آظہار تعزیت

تاریخ وفات  : 5 جولائی 2022

ہو گئے رخصت جہاں آب و گل سے وہ وقار
گلشن محسن رضا میں تھے جو مثل نوبہار
چھوٹے بھائی کی ہے رحلت حادثہ اک دلفگار
غمزدہ ہیں فرط غم سے سرفراز و افتخار
صدمہ جانکاہ ہے سب کے لئے ان کی وفات
آتے آتے آئے گا اس بیقراری کو قرار
جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کے بلند
برگذیدہ لوگوں میں ان کا ویاں پر ہو شمار
ان کے نیک اعمال کا ان کو ملے اجر عظیم
ان پہ نازل ہو ہمیشہ رحمت پروردگار
ان کے غم میں مضمحل ہیں جملہ اہل جونپور
محفل شعر و ادب میں آج ہیں سب سوگوار
معترف ان کے محاسن کا ہے برقی اعظمی
ان کے گلہائے سخن سے ہیں فضائیں مشکبار

احمد علی برقی اعظمی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...