یوم پیدائش 05 اگست
وقت ایسا ہے مرے شہر پہ آنے والا
بھائی نکلے گا یہاں بھائی کو کھانے والا
تیرے کہنے پہ سماں چھوڑ دیا ہے میں نے
مجھ سے بہتر ہے کوئی کرب اٹھانے والا؟
منتیں لاکھ کرو پاؤں پکڑ کر پھر بھی
رُک نہیں سکتا کسی طور بھی جانے والا
ِدیکھ لینا یہی فطرت ہے بوقت مشکل
آئے گا کوئی نہیں تم کو بچانے والا
میں سمجھتا تھا عدوات ہے عدو کی لیکن
اپنا ہوتا ہے کوئی جال بچھانے والا
بزمِ یاراں ہے سو بیٹھا ہوں سبک سار سا میں
کوئی دکھتا ہی نہیں نام اٹھانے والا
دہر میں فاقہ کشی ہے مجھے منظور مگر
ناروا ایک بھی لقمہ نہیں کھانے والا
جس کا لاشہ ہے پڑا دشت کی ویرانی میں
ایک ہی فرد تھا بس گھر کا کمانے والا
مجھ کو لُوٹا ہے کئی بار مرے یاروں نے
اب نہیں ہوں میں کسی بات میں آنے والا
کون ہیں آپ مجھے یاد نہیں پڑتا ہے
یہ مرا رنگ ہے اور رنگ زمانے والا