Urdu Deccan

Thursday, August 18, 2022

ادیب انور آفاقی

یوم پیدائش 07 اگست 1954

اب گلستاں ہے دشت خاروں کا 
قافلہ ہے کہاں بہاروں کا

دھندلکوں نے بڑھائے کالے ہاتھ
گھٹ گیا دم حسیں نظاروں کا

دیکھ کر اشک میری پلکوں پر 
سب کو دھوکہ ہوا ستاروں کا

شبنمی جسم لے کے نکلے ہو
خوف تم کو نہیں شراروں کا

شب کو پچھلے پہر میں جب رویا
دل دھڑکنے لگا ستاروں کا

اس میں آباد ہوگا کون انور
میرا دل ہے مکاں شراروں کا

ادیب انور آفاقی



ادریس آزاد

یوم پیدائش 07 اگست 1969

ہماری لاش کی تصویر بھی اُتاری گئی
پھر اُس کے پاؤں سے زنجیر بھی اُتاری گئی

شہید ہونے کا پہلے ہُنر اُتارا گیا
پھر آسمان سے شمشیر بھی اُتاری گئی

ثمر کو عزم ِ مصمم کے ساتھ جوڑا گیا
قلم اُٹھانے پہ تحریر بھی اُتاری گئی

فقط بدن ہی گھسیٹا نہیں سر ِبازار
ہمارے خواب سے تعبیر بھی اُتاری گئی

جب آسماں سے محبت کا جرم اُترا تھا
تب انتظار کی تعزیر بھی اتاری گئی

گلے میں ڈالی گئی پہلے نام کی تختی
پھر ایک ایک کی تصویر بھی اُتاری گئی

ہمارے جیسوں کو دیوانگی عطاکرکے
دوائے تلخی ِ تقدیر بھی اُتاری گئی

ادریس آزاد



Wednesday, August 17, 2022

بشری سحر

یوم پیدائش 06 اگست 1972

ایک انسان بدلتا ہے جو پیکر کتنے
میری آنکھوں نے دکھائے ہیں وہ منظر کتنے

اپنی طاقت پہ بہت ناز جو کرتے تھے کبھی
مل گئے خاک میں وہ ظلم کے لشکر کتنے

عہد ماضی کے جھروکوں سے جو جھانکا میں نے
زلزلے آئے مرے قلب کے اندر کتنے

بن گئی شاخ ثمر دار مری ہستی جب
لالچی ہاتھوں سے پھینکے گئے پتھر کتنے

سرنگوں کر دیا طوفاں نے انھیں پل بھر میں
سر اٹھائے تھے کھڑے پیڑ تناور کتنے

جب بھی پھیلی ہے زمانے میں سحرؔ گمراہی
آئے لوگوں کی ہدایت کو پیمبر کتنے

بشری سحر



کرامت علی کرامت

یوم وفات 05 اگست 2022
انا الیہ وانا الیہ راجعون 

وہ سچ کے چہرے پہ ایسا نقاب چھوڑ گیا 
رخ حیات پہ جیسے عذاب چھوڑ گیا 

نتیجہ کوشش پیہم کا یوں ہوا الٹا 
میں آسمان پہ موج سراب چھوڑ گیا 

وہ کون تھا جو مری زندگی کے دفتر سے 
حروف لے گیا خالی کتاب چھوڑ گیا 

بہار بن کے وہ آیا گیا بھی شان کے ساتھ 
کہ زرد پتوں پہ رنگ گلاب چھوڑ گیا 

مرے لہو میں جو آیا تھا میہماں بن کر 
مری رگوں میں وہ اک آفتاب چھوڑ گیا 

گیا تو ساتھ وہ لیتا گیا ہر اک نغمہ 
خلا کی گود میں ٹوٹا رباب چھوڑ گیا 

ملا نہ جذبۂ تشکیک کو لباس کوئی 
وہ ہر سوال کا ایسا جواب چھوڑ گیا 

بکھیرتا ہے کرامتؔ جو درد کی کرنیں
وہ خواب ذہن میں اک ماہتاب چھوڑ گیا

کرامت علی کرامت۔

لطیف ساجد

یوم پیدائش 05 اگست 1980

کچھ ترے اور کچھ مرے آنسو
بہہ رہے ہیں ردیف سے آنسو

رونے والوں کی کون سنتا ہے
کتنی تمہید باندھتے آنسو

کون آبائی گاؤں چھوڑتا ہے
آنکھ کے پاؤں پڑ گئے آنسو

حسنِ یوسفؑ سے بیش قیمت ہیں
چشمِ یعقوبؑ سے گرے آنسو

آنکھ پتھرا گئی تو پیروں کے
آبلوں سے نکل پڑے آنسو

بھاگ نکلے مری حراست سے
رات کے پونے دو بجے آنسو

بسترِ مرگ پر تھی خاموشی
دفعتاً مسکرا دیے آنسو

کوئی شریان پھٹ گئی ہوتی
ہم اگر اور روکتے آنسو

منزلوں کا نشان ہیں ساجد
اس کے رخسار پر پڑے آنسو 

لطیف ساجد



سید زاہد کاظمی

یوم پیدائش 05 اگست 

وقت ایسا ہے مرے شہر پہ آنے والا
بھائی نکلے گا یہاں بھائی کو کھانے والا 

تیرے کہنے پہ سماں چھوڑ دیا ہے میں نے 
مجھ سے بہتر ہے کوئی کرب اٹھانے والا؟

منتیں لاکھ کرو پاؤں پکڑ کر پھر بھی 
رُک نہیں سکتا کسی طور بھی جانے والا 

ِدیکھ لینا یہی فطرت ہے بوقت مشکل 
آئے گا کوئی نہیں تم کو بچانے والا 

میں سمجھتا تھا عدوات ہے عدو کی لیکن
اپنا ہوتا ہے کوئی جال بچھانے والا 

بزمِ یاراں ہے سو بیٹھا ہوں سبک سار سا میں
کوئی دکھتا ہی نہیں نام اٹھانے والا

دہر میں فاقہ کشی ہے مجھے منظور مگر
ناروا ایک بھی لقمہ نہیں کھانے والا 

جس کا لاشہ ہے پڑا دشت کی ویرانی میں
ایک ہی فرد تھا بس گھر کا کمانے والا 

مجھ کو لُوٹا ہے کئی بار مرے یاروں نے
اب نہیں ہوں میں کسی بات میں آنے والا 

کون ہیں آپ مجھے یاد نہیں پڑتا ہے
یہ مرا رنگ ہے اور رنگ زمانے والا

سید زاہد کاظمی



نور محمد نور کپور تھلوی

یوم پیدائش 05 اگست 1917

دُنیا کو اُس نے چھوڑ دیا ہے خفا کے ساتھ
واصل ہوا ہے نور محمد بقا کے ساتھ

اُس کی ہر ایک بات کی تھی بات ہی الگ
اُس کا ہر ایک کام تھا صِدق و صفا کے ساتھ

آئے ہیں اُس کی زیست میں صد ہا تغیرات
ثابت قدم رہا وہ دلِ باوفا کے ساتھ

گو ایک شام اُس کی نظر بند ہو گئی
دیکھا گیا وہ نورِ بصیرت فزا کے ساتھ

رکھتا تھا اُس کا فقر بھی شانِ شہنشہی
اُس نے بتائی زیست ہے صبر و رضا کے ساتھ

اولاد ، بھائی ، دوست سبھی اُس سے خوش رہے
ملتا تھا سب سے وہ دل درد آشنا کے ساتھ

رکھیں گے یاد اہلِ ہنر دیر تک اُسے
آیا وہ بزمِ شعر میں طرفہ نوا کے ساتھ

سالِ وفات اُس کا ہے انورؔ نے یوں لکھا
وہ ’’عظمتِ ادب‘‘ ہے سرِ ارتقا کے ساتھ

نور محمد نور کپور تھلوی



فضل تابش

یوم پیدائش 05 اگست 1933

نہ کر شمار کہ ہر شے گنی نہیں جاتی 
یہ زندگی ہے حسابوں سے جی نہیں جاتی 

یہ نرم لہجہ یہ رنگینئ بیاں یہ خلوص 
مگر لڑائی تو ایسے لڑی نہیں جاتی 

سلگتے دن میں تھی باہر بدن میں شب کو رہی 
بچھڑ کے مجھ سے بس اک تیرگی نہیں جاتی 

نقاب ڈال دو جلتے اداس سورج پر 
اندھیرے جسم میں کیوں روشنی نہیں جاتی 

ہر ایک راہ سلگتے ہوئے مناظر ہیں 
مگر یہ بات کسی سے کہی نہیں جاتی 

مچلتے پانی میں اونچائی کی تلاش فضول 
پہاڑ پر تو کوئی بھی ندی نہیں جاتی

فضل تابش



راشد مفتی

یوم پیدائش 04 اگست 1945

کسی کی جیت کا صدمہ کسی کی مات کا بوجھ 
کہاں تک اور اٹھائیں تعلقات کا بوجھ 

انا کا بوجھ بھی آیا اسی کے حصے میں 
بہت ہے جس کے اٹھانے کو اپنی ذات کا بوجھ 

جھٹک دیا ہے کبھی سر سے بار ہستی بھی 
اٹھا لیا ہے کبھی سر پہ کائنات کا بوجھ 

ابھی سے آج کے دن کا حساب کیا معنی 
ابھی تو ذہن پہ باقی ہے کل کی رات کا بوجھ 

یہی نہ ہو میں کسی دن کچل کے رہ جاؤں 
ابھارتا ہے بہت ذات کو صفات کا بوجھ 

پڑا تھا سایہ بس اک بار دست شفقت کا 
سو اب یہ سر ہے مرا اور کسی کے ہاتھ کا بوجھ 

ابھی دو چار نہ کر ہجر کی اذیت سے 
ابھی تو میں نے اٹھایا ہے تیرے ساتھ کا بوجھ

راشد مفتی



احسان علی احسان

یوم پیدائش 04 اگست 1996

اے کاتبِ تقدیر ذرا دیکھ ادھر بھی 
مجبوریِ حالات ہیں اور چاک جگر بھی

اے رشتہء امید مرا تھام لے دامن
ہونا ہے جفا کار ہواؤں کا گزر بھی

 بیزار بہت دشتِ مسافت میں رہے ہم 
کاٹا ہے اسی حال میں صدیوں کا سفر بھی

مانوس نگاہوں نے تری قید کیا ہے 
اب ڈھونڈنے سے ملتی نہیں راہِ مفر بھی 

مل پائے گا کیسے میری کشتی کو کنارہ
اب موج تلاطم مجھے لے جائے جدھر بھی

پہلے تو حسیں رنگ کو مسلیں گے ستمگر
پھر نوچیں گے تتلی کے یہی بال بھی پر بھی 

ہم لوگ ہیں تنکے کی طرح بے سروساماں 
رہتا ہے جنہیں تیز ہواؤں سے خطر بھی 

اے شہر ستم گر مجھے اس بات کا ڈر ہے 
مر جاۓ مرے ساتھ نہ اب میرا ہنر بھی

احسان علی احسان



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...