Urdu Deccan

Tuesday, August 23, 2022

ظہیر کاشمیری

یوم پیدائش 21 اگست 1919

لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا 
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا 

بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخ رو ہوئے 
اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا 

ہوتی نہ ہم کو سایۂ دیوار کی تلاش 
لیکن محیط زیست بہت تنگ رہ گیا 

سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط 
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا 

اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے 
جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا 

کتنے ہی انقلاب شکن در شکن ملے 
آج اپنی شکل دیکھ کے میں دنگ رہ گیا 

تخیل کی حدوں کا تعین نہ ہو سکا 
لیکن محیط زیست بہت تنگ رہ گیا 

کل کائنات‌ فکر سے آزاد ہو گئی 
انساں مثال‌ دست تہ سنگ رہ گیا 

ہم ان کی بزم ناز میں یوں چپ ہوئے ظہیرؔ 
جس طرح گھٹ کے ساز میں آہنگ رہ گیا

ظہیر کاشمیری



معین احسن جذبی

یوم پیدائش 21 اگست 1912

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے 
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے 

جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی 
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے 

وعدے کی وفا تم سے نہ ہوئی گو جان پہ میرے بن ہی گئی
گر جھوٹا ہوں جھوٹا ہی سہیاب تم کو جھوٹا کون کرے

ہاں وادیءایمن بھی ہے وہی ہاں برق کا مسکن بھی ہے وہی
اور خوش کا خرمن بھی ہے وہی ،پر ان سے تقاضا کون کرے

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے 
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے 

دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو 
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

معین احسن جذبی



عبداللہ ندیم

یوم پیدائش 20 اگست 1969

چراغ جل بھی رہا ہے ہوا کا ڈر بھی ہے
مری دعاؤں پہ لیکن تری نظر بھی ہے

گھروں کو پھونکنے والے ذرا یہ دیکھ بھی لے
اسی گلی میں سنا ہے کہ تیرا گھر بھی ہے

میں گھر سے نکلوں تو بے خوف ہو نکلتا ہوں
کہ میری ماں کی دعا میری ہم سفر بھی ہے

ابھی سے فتنۂ دنیا سے ڈر گئے یارو
ابھی تو فتنۂ افلاک کی خبر بھی ہے

اسی کے پیار سے روشن ہے زندگی میری
اسی کے پیار سے لیکن بہت سا ڈر بھی ہے

ندیمؔ آس میں بیٹھے کہ پھر سے جی اٹھیں
کہ اس کے ہاتھ میں سنتے ہیں یہ ہنر بھی ہے

عبداللہ ندیم



فراز پیپل سانوی

یوم پیدائش 20 اگست 1975

کس درجہ انتشار ہمارے وطن میں ہے
ہر پھول اشک بار ہمارے وطن میں ہے

کیسی خزاں کی مار ہمارے وطن میں ہے
سہمی ہوئی بہار ہمارے وطن میں ہے

جتنا بھی چاہو لوٹ لو سرکاری مال ہے
لوگوں کا یہ وچار ہمارے وطن میں ہے

کر کے مدد غریب کی لیتا ہے سیلفی
ہر شخص غم گسار ہمارے وطن میں ہے

ہر سو تنا تنی ہے مذاہب کے نام پر
ماحول خوش گوار ہمارے وطن میں ہے

سلفا، شراب ، گانجا ، چرس اور افیم بھی
ہر چیز بے شمار ہمارے وطن میں ہے

اک بار چڑھ کے سر سے اترتا نہیں کبھی
سٹّے کا وہ خمار ہمارے وطن میں ہے

کچرے سے بھی نصیب ہیں لاکھوں کو روٹیاں
ہر سِمت روزگار ہمارے وطن میں ہے

سر پر ہو کوئی بھوت یا سایہ ہو جنّ کا
ہر چیز کا اتار ہمارے وطن میں ہے

کچھ ہو نہ ہو یہاں پہ مگر یار یہ تو ہے
نیتاؤں پر نکھار ہمارے وطن میں ہے

مشہور ہے جگاڑ یہاں کا جہان میں
ہر شخص ہوشیار ہمارے وطن میں ہے

چیونٹی بھی جنکی پھونک سےنہ اڑسکی کبھی
ان کا بھی اب مزار ہمارے وطن میں ہے

چھوتے ہیں پاؤں گولی چلانے سے پیشتر
کچھ ایسا ششٹاچار ہمارے وطن میں ہے

جو جھوٹ بولتا ہے ہر اک بات پر سدا
اس پر بھی اعتبار ہمارے وطن میں ہے

مِل جُل کے لوگ رہتے ہیں ایسے میں بھی فراز
آپس میں کتنا پیار ہمارے وطن میں ہے

فراز پیپل سانوی

 


عابد رشید

یوم پیدائش 20 اگست 

جہاں میں کھیل ہے جتنا سب اعتماد کاہے
یہ تیرا میرا تقابل تو اُس کے بعد کا ہے

بھُلا نہ پاتے جو کل کیسے دیکھتے کل کو
یہ وقت کا نہیں سارا کمال یاد کا ہے

زمین سے بھی میں اِک دن نکالا جاؤں گا
مری زُباں کو جو چسکا نئے سواد کا ہے
تھمے جو داد کے جھکڑ تو ہم نے یہ جانا
سفیدا بالوں میں جتنا ہے گرد باد کا ہے

یہ دل میں آرزو یونہی جنم نہیں لیتی
قصور سارا تمہارے وعیدووعد کا ہے

جو تُو نہ ہو تو یونہی ڈولتا سا رہتا ہوں
‏‎ہمارا رشتہ عجب بادبان و باد کا ہے
نہ جاگتے ہیں نہ سوتے ہیں میرے شہر کے لوگ
ہمیشہ دھڑکا سا دل میں نئے فساد کا ہے

میں بیج خوابوں کے بوؤں نہ کیوں وہاں عابد
وطن سے رشتہ ہی کچھ ایسا اعتماد کا ہے

عابد رشید


 

سید پاشاہ رہبر

یوم پیدائش 20 اگست 1964

عشق ناچار اور ہے مجبور 
اس لئے حسن ہو گیا مغرور 

رہ نہیں سکتا آپ سے میں دور 
مجھ کو بانہوں میں تم کرو محصور 

جانے کس بات کا نشہ ہے انہیں
اپنی دھن میں ہی رہتے ہیں مخمور 

تیری قربت کا ہی اثر ہے یہ
میرے رخ پر جو آ گیا ہے نور 

اس کی نظروں میں سب برابر ہیں 
کوئی مالک نہ کوئی ہے مزدور 

بخش دیں یا کہ عمر قید ملے
فیصلہ جو بھی ہو ہمیں منظور 

سب کو آزادی ہے برابر کی
کہہ رہا ہے یہ ہند کا دستور 

دن تمام اپنا خوں بہاتا ہے
دو نوالوں کے واسطے مزدور 

کیا کرشمہ ہے آج میڈیا کا
پل میں گمنام بھی ہوئے مشہور 

جان لیوا وہ درد دیتا ہے
زخم جب جب بھی بن گیا ناسور 

کیوں بچھڑ نے کے بعد بھی 'رہبر
غمزدہ ہم ہیں اور وہ مسرور 

سید پاشاہ رہبر


 

احمد صغیر صدیقی

یوم پیدائش 20 اگست 1938

اک خواب ہے یہ پیاس بھی دریا بھی خواب ہے 
ہے خواب تو بھی تیری تمنا بھی خواب ہے 

یہ التزام دیدۂ خوش خواب بھی ہے خواب 
رنگ بہار قامت زیبا بھی خواب ہے 

وہ منزلیں بھی خواب ہیں آنکھیں ہیں جن سے چور 
ہاں یہ سفر بھی خواب ہے رستہ بھی خواب ہے 

یہ رفعتیں بھی خواب ہیں یہ آسماں بھی خواب 
پرواز بھی ہے خواب پرندہ بھی خواب ہے 

ہیں اپنی وحشتیں بھی بس اک خواب کا طلسم 
یارو فسون وسعت صحرا بھی خواب ہے

احمد صغیر صدیقی



تابش صمدانی

یوم پیدائش 20 آگسٹ 1941

ہر اک جانب ہے جلوہ روشنی کا
وہ گہوارہ ہے طیبہ کی روشنی کا

فروغِ ذاتِ والا اللہ اللہ
دو عالم میں ہے چرچا روشنی کا

مرے مولا کا سایہ ڈھونڈتے ہو
کہیں ہوتا ہے سایہ روشنی کا

یہ اعجازِ نگاہِ لطفِ مولا
مرا دل ہے مدینہ روشنی کا

گزر ہو کیا اندھیروں کا وہاں پر
جہاں رہتا ہے پہرا روشنی کا

ظہورِ سیدِ والا سے پہلے
تصور ہی کہاں تھا روشنی کا

شہِ والا کا ہر نقش کفِ پا
زمیں پہ ہے ستارہ روشنی کا

نظر ہے آپ کی جس دل پہ تابش
وہ ہے آئینہ گویا روشنی کا

تابش صمدانی



کامران احمد

یوم وفات 19 اگست 2015

نظر تک آیا ہے پہچان تک نہیں آیا 
یہ واہمہ ابھی امکان تک نہیں آیا 

جراحت غم دوراں کی ابتدا کہیے 
دل جہاں زدہ پیکان تک نہیں آیا 

وہ اور بات کہ جاں کی امان مانگی تھی 
میں اس کی بیعت و پیمان تک نہیں آیا 

بس اس کے لمس کا الہام ہی اترتا ہے 
وہ میرے مصحف وجدان تک نہیں آیا 

یہ زندگی تو نفی میں گزار دی میں نے 
پر اس کے حلقۂ میزان تک نہیں آیا 

کتاب حسن کی تعبیر خیر کیا کرتا 
ندیمؔ آئنہ عنوان تک نہیں آیا

کامران احمد


 

قمر جلالوی

یوم پیدائش 19 اگست 1887

کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں 
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں 

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو 
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں 

جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے 
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں 

بے وجہ نہ جانے کیوں ضد ہے ان کو شب فرقت والوں سے 
وہ رات بڑھا دینے کے لیے گیسو کو سنوارا کرتے ہیں 

پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو 
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں 

کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں ہے بھی تو فقط رسوائی کا
تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں 

تاروں کی بہاروں میں بھی قمرؔ تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں

قمر جلالوی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...