Urdu Deccan

Wednesday, November 23, 2022

دلاور علی آزر

یوم پیدائش 21 نومبر 1984

عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں
ہم اپنے عہد کے پاتال میں پڑے ہوئے ہیں

سخن سرائی کوئی سہل کام تهوڑی ہے
یہ لوگ کس لیے جنجال میں پڑے ہوئے ہیں

وہ تو کہ اپنے تئیں کر چکا ہمیں تکمیل
یہ ہم کہ فکرِ خد و خال میں پڑے ہوئے ہیں

جہاں بھی چاہوں مَیں منظر اُٹھا کے لے جاؤں
کہ خواب دیدۂ اموال میں پڑے ہوئے ہیں

اُٹها کے ہاتھ پہ دنیا کو دیکھ سکتا ہوں
سبهی نظارے بس اِک تهال میں پڑے ہوئے ہیں

مَیں شام ہوتے ہی گردُوں پہ ڈال آتا ہوں
ستارے لپٹی ہوئی شال میں پڑے ہوئے ہیں

اسی لیے یہ وطن چھوڑ کر نہیں جاتے
کہ ہم تصورِ اقبال میں پڑے ہوئے ہیں

ثواب ہی تو نہیں جن کا پھل ملے گا مجھے
گناہ بھی مرے اعمال میں پڑے ہوئے ہیں

تمام عکس مِری دست رس میں ہیں آزر
یہ آئنے مری تمثال میں پڑے ہوئے ہیں

دلاور علی آزر


 

حسن عباس رضا

یوم پیدائش 20 نومبر 1951

ہمیں تو خواہش دنیا نے رسوا کر دیا ہے 
بہت تنہا تھے اس نے اور تنہا کر دیا ہے 

اب اکثر آئینے میں اپنا چہرہ ڈھونڈتے ہیں 
ہم ایسے تو نہیں تھے تو نے جیسا کر دیا ہے 

دھڑکتی قربتوں کے خواب سے جاگے تو جانا 
ذرا سے وصل نے کتنا اکیلا کر دیا ہے 

اگرچہ دل میں گنجائش نہیں تھی پھر بھی ہم نے 
ترے غم کے لیے اس کو کشادہ کر دیا ہے 

ترے دکھ میں ہمارے بال چاندی ہو گئے ہیں 
اور اس چاندی نے قبل از وقت بوڑھا کر دیا ہے 

غم دنیا غم جاں سے جدا ہونے لگا تھا 
حسنؔ ہم نے مگر دونوں کو یکجا کر دیا ہے

حسن عباس رضا



تشنہ بریلوی

یوم پیدائش 20 نومبر 1931

چمن میں برق کبھی آشیاں سے دور نہیں 
زمیں پہ ہم ہیں مگر آسماں سے دور نہیں 

جگا سکو تو جگاؤ کہ ناخدا دیکھے 
طواف موج بلا بادباں سے دور نہیں 

یہ عالم بشریت بکھرنے والا ہے 
کوئی مکان بھی اب لا مکاں سے دور نہیں 

قریب آ نہ سکا میں ترے مگر خوش ہوں 
کہ میرا ذکر تری داستاں سے دور نہیں 

ذرا سی اور مہارت ہو تیر زن کو عطا 
نشانہ اب مرے دل کے نشاں سے دور نہیں 

یہ ہے دوام کی منزل کہ ہے فنا کا کھنڈر 
یہ راز آج مرے رخش جاں سے دور نہیں 

میں اپنے دل کا فسانہ لکھوں تو کیوں نہ لکھوں 
کہ قصہ گوئی میں میں موپساںؔ سے دور نہیں 

نہ کر اے تشنہ مدارات میں تکلف کچھ 
کہ گھر کا حال ترے میہماں سے دور نہیں

تشنہ بریلوی



محمد سجاد راہیؔ

یوم پیدائش 17 نومبر 2000

اپنوں سے تھا گلہ تجھے ، غیروں سے جا ملا
سب کی نظر میں خود کو گرایا تو کیا ملا

حالٍ فسردہ جس کو سنانے گیا تھا میں
وہ خود کسی کے درد میں ڈوبا ہوا ملا

مجھ سے زیادہ لوگ پریشاں ہیں شہر میں
یہ جان کر بڑا ہی مجھے حوصلہ ملا

راحت تو خیر ہم کو کہیں سے نہیں ملی
ہاں غم مگر ہمیشہ ہمیں جا بجا ملا

اوروں کی بے بسی پہ جو ہنستا تھا ایک شخص
راہی کل اتفاق سے روتا ہوا ملا

محمد سجاد راہیؔ


مبارک علی شمسی

یوم پیدائش 16 نومبر 1986

ہم پہ خالق نے کرم جب سے ہی فرمایا ہے
 ہم کو کچھ لفظ سجانے کا ہنر آیا ہے 

مدحتِ آل محمد میں مودت کی ہے 
حرف کی شکل میں نایاب گہر آیا ہے

 آل یسٰین سے کی میں نے مودت جب سے
 میرے حصے میں بھی فردوس کا گھر آیا ہے

 یا علی کہہ کے پکارا ہے جو نصرت کیلئے
 میری امداد کو وہ شام و سحر آیا ہے 

خوش نصیبی ہے یہ شمسی میری کتنی دیکھو
در احمد کی طرف عزمِ سفر آیا ہے

مبارک علی شمسی



حسین ماجد

یوم پیدائش 15 نومبر 1947

دھول بھری آندھی میں سب کو چہرہ روشن رکھنا ہے
بستی پیچھے رہ جائے گی آگے آگے صحرا ہے

ایک ذرا سی بات پہ اس نے دل کا رشتہ توڑ دیا
ہم نے جس کا تنہائی میں برسوں رستہ دیکھا ہے

پیار محبت آہ و زاری لفظوں کی تصویریں ہیں
کس کے پیچھے بھاگ رہے ہو دریا بہتا رہتا ہے

پھول پرندے خوشبو بادل سب اس کا سایہ ٹھہرے
اس نے جب سے آئینے میں غور سے خود کو دیکھا ہے

مجھ کو خوشبو ڈھونڈنے آئے مرے پیچھے چاند پھرے
آج ہوا نے مجھ سے پوچھا کیا ایسا بھی ہوتا ہے

کل جو میں نے جھانک کے دیکھا اس کی نیلی آنکھوں میں
اس کے دل کا زخم تو ماجدؔ ساگر سے بھی گہرا ہے

حسین ماجد



شائستہ کنول عالی

اپنا دل عبقری اپنی جاں عبقری 
دل کا گل عبقری گلستاں عبقری 

عشقِ اول کا ہر اک ستارہ ملا 
عصرِحاضر کی ہے کہکشاں عبقری 

عقل گرچہ مشیرِخصوصی ہوئی 
عشق پھر بھی ہوا مہرباں عبقری 

ان کی آواز یوں بن گئی زندگی 
لہجہ ، الفاظ ، حسنِ بیاں عبقری 

حسنِ کردار وجہِ فضیلت رہے  
حسنِ سيرت کی ہے داستاں عبقری 

ایسا ممکن نہیں میری جاں دلنشیں 
حسنِ صورت رہے جاوداں عبقری

آج مہکے ہوئے ہیں در و بامِ کن 
دل کے باغوں کا ہے باغباں عبقری 

اپنی چادر ہے وہ محرمِ رازِ دل 
سر پہ قائم رہے آسماں عبقری 

ہو مبارک عزیزانِ قلب و نظر 
طائرانِ چمن آشیاں عبقری 

پھوٹتے ہی گئے آبلے ہجر کے 
درد سارے ہوئے گلفشاں عبقری 

ہو مبارک جسے مل گیا صاحبو  
چاہتوں سے بھرا آشیاں عبقری

گونجتے ہی رہیں پیار کے زمزمے 
تیرا عالی رہے آستاں عبقری 

شائستہ کنول عالی


حاجی لق لق

یوم پیدائش 14 نومبر 1897
نظم آمدنی اور خرچ 

کرایہ مکاں کا ادا کرنے جاؤں 
کہ بزاز و خیاط کا بل چکاؤں 
دوا لاؤں یا ڈاکٹر کو بلاؤں 
کہ میں ٹیکس والوں سے پیچھا چھڑاؤں 
خدارا بتاؤ کہاں بھاگ جاؤں 
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں 
بہت بڑھ گیا ہے مکاں کا کرایہ 
ادھر نل کے آب رواں کا کرایہ 
بقایا ہے 'برق تپاں' کا کرایہ 
زمیں پر ہے اب آسماں کا کرایہ 

ہے بچوں کی فیس اور چندہ ضروری 
کتب کاپیوں کا پلندہ ضروری 
شکم پروری کا ہے دھندہ ضروری 
یہ آدم کی ایجاد بندہ ضروری 
بلا کے مصارف ہیں کیا تاب لاؤں 
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں 
عزیزوں کی امداد مہماں نوازی 
غریبوں کو خیرات احساں طرازی 
خوراک اور پوشاک میں دنیا سازی 
ادھر فلم کا شوق اور ادھر عشق بازی 
ضروری یہاں سگریٹ اور پان بھی ہے 
عدالت میں جانے کا امکان بھی ہے 
ہے بھنگی بھی دھوبی بھی دربان بھی ہے 
اور اک ساڑی والے کی دوکان بھی ہے 
کہاں جاؤں کس کس سے پیچھا چھڑاؤں 
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں 
ہیں میلے بھی اسلامی تہوار بھی ہیں 
ہم ایسے مواقع پہ خوددار بھی ہیں 
بہت خرچ کرنے کو تیار بھی ہیں 
بلا سے جو بے برگ و بے بار بھی ہیں 
کسے داستان مصارف سناؤں 
میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

حاجی لق لق



ڈاکٹر احسان اکبر

یوم پیدائش 14 نومبر 1943

سورج سے بھی آگے کا جہاں دیکھ رہا ہے 
اس دور کا انسان کہاں دیکھ رہا ہے 

حالات نے جس کے سبھی پر کاٹ دئے ہیں 
وہ آج بھی منزل کا نشاں دیکھ رہا ہے 

عیار بہت ہے یہاں تخریب کا موجد 
وہ برف کے جنگل میں دھواں دیکھ رہا ہے 

اک روز پکڑ لے گا وہ قاتل کا گریباں 
جو وقت کی رفتار زباں دیکھ رہا ہے 

صدیوں کے تعلق کا یہ احساس ہے شاید 
صحرا میں حقیقت کو عیاں دیکھ رہا ہے 

اس سرپھرے موسم کا بھروسہ نہیں ثاقبؔ 
ماحول کا سب بار گراں دیکھ رہا ہے

ڈاکٹر احسان اکبر



سید اسلم صدا آمری

یوم پیدائش 14 نومبر 1955

نظر نواز نظارہ نظر میں رہتا ہے
وہ ہم سفر ہے مرا ہر سفر میں رہتا ہے

قدم قدم پہ کسی حادثے کا خدشہ ہے
یہ کس کا خوف ہر اک رہگزر میں رہتا ہے

جو سنگ کو بھی بنادے تراش کر ہیرا
یہی کمال تو اہل ہنر میں رہتا ہے

مرے مزاج کے برعکس ہے مزاج اس کا
وہ شخص پھر بھی مرے ساتھ گھر میں رہتا ہے

ہرایک برگِ شجر سے ثمر کی آئے مہک
اثر پدر کا یقیناً پسر میں رہتا ہے

ہمارا نام ”صدا“ بن کے سرخئ اخبار
لو آئے دن کسی تازہ خبر میں رہتا ہے

سید اسلم صدا آمری



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...