Urdu Deccan

Wednesday, November 30, 2022

سعید اختر

یوم پیدائش 30 نومبر 1921

رنگِ تصویر غمِ عشق نے بھرنے نہ دیا
اِس کا رونا ہے لہو دیدۂ تر نے نہ دیا

روشنی جتنی امیدِ شبِ تاریک میں تھی
ہائے اتنا بھی اجالا تو سحر نے نہ دیا

تشنگی بجھ نہ سکی پھر بھی تری خاکِ وطن
خون کتنوں کا تجھے لختِ جگر نے نہ دیا

اتنی نفرت بھی نہ کرنی تھی تجھے اخترؔ سے
اپنی یادوں کی بھی گلیوں سے گزرنے نہ دیا

سعید اختر



سلیم جاوید

یوم پیدائش 30 نومبر 1965

لبوں کے حصے میں آئی ہنسی طلاق شدہ
ہمارے ساتھ ہے اک زندگی طلاق شدہ

حلالہ کر کے مرے پاس پھر چلی آئی 
تُمھاری یاد ہے جیسے کوئی طلاق شدہ

براہِ راست دکھوں سے ہمارا رشتہ ہے
کہیں کہیں پہ ملی ہے خوشی طلاق شدہ

تُمھارے جانے سے ویران ہو گیا سب کچھ
ہر اک گلی لگی اس شہر کی طلاق شدہ

کبھی نکال چکا تھا میں جِس اداسی کو
دوبارہ آگئی گھر میں وہی طلاق شدہ

نہ سرد سرد ہوائیں نہ چاند تارے ہیں 
سیاہ رات بھی مجھ کو لگی طلاق شدہ

سلیم تیرہ شبی کو یہی شکایت ہے
تمھارے جسم میں ہے روشنی طلاق شدہ

سلیم جاوید



سیدہ نسرین نقاش

یوم پیدائش 30 نومبر 1963

ہم نے ہونٹوں پہ تبسم کو سجا کر دیکھا 
یعنی زخموں کو پھر اک بار ہرا کر دیکھا 

ساری دنیا میں نظر آنے لگے تیرے نقوش 
پردہ جب چشم بصیرت سے اٹھا کر دیکھا

دور پھر بھی نہ ہوئی قلب و نظر کی ظلمت 
ہم نے خوں اپنا چراغوں میں جلا کر دیکھا 

اپنا چہرہ نظر آیا مجھے اس چہرے میں 
اس کے چہرے سے جو چہرے کو ہٹا کر دیکھا 

وہ تعلق تری اک ذات سے جو تھا مجھ کو 
اس تعلق کو بہر حال نبھا کر دیکھا 

برف ہی برف نظر آتی ہے تا حد نظر 
زندگی ہم نے تری کھوج میں جا کر دیکھا 

جاوداں ہو گیا ہر نغمۂ پر درد مرا 
میرے ہونٹوں سے زمانے نے چرا کر دیکھا 

سیدہ نسرین نقاش



خوشبو پروین

یوم پیدائش 30 نومبر 

عجب طرح کے ہیں حالات زندگی کے لیے 
ہر ایک سانس ہے آمادہ خودکشی کے لیے 

لوءیں ہوا کی سیاست کے ساز باز میں ہیں
  چراغ خود ہی ترستا ہے روشنی کے لیے

نئے فریب کی معیادِ غم تو ختم کروں
 بہت مواد اکٹھا ہے شاعری کے لئے 

تمہیں سجانی نئی سیج ہے تو جاؤ نا
  میں اپنے آپ میں کافی ہوں* آپ ہی* کے لیے

تعلقات کو شرطوں میں کیوں نبھاؤں میں
انا کو رکھا ہے ہمراہ بے بسی کے لیے

تمہارے ساتھ اکیلی میں جی نہیں پائی
تمہیں ہے جینا تو جی لو نا ہر کسی کے لیے

اسے خبر ہی نہیں میرے عزم کی خوشبو
 وہ چاہتا ہے کہ میں سوچوں خود کشی کے لئے

خوشبو پروین



سید محمد عبد الغفور شہباز

یوم وفات 30 نومبر 1908

انجام خوشی کا دنیا میں سچ کہتے ہو غم ہوتا ہے 
ثابت ہے گل اور شبنم سے جو ہنستا ہے وہ روتا ہے 

ہم شوق کا نامہ لکھتے ہیں کہ صبر اے دل کیوں روتا ہے 
یہ کیا ترکیب ہے اے ظالم ہم لکھتے ہیں تو دھوتا ہے 

ہے دل اک مرد آخر بیں اپنے اعمال پر روتا ہے 
گر ڈوب کے دیکھو اشک نہیں موتی سے کچھ یہ پروتا ہے 

گھر اس سے عشق کا بنتا ہے دل سختی سے کیوں گھبرائے 
شیریں یہ محل اٹھواتی ہے فرہاد یہ پتھر ڈھوتا ہے 

ٹھکرا کر نعش ہر عیسیٰ کہتا ہے ناز سے ہو برہم 
اٹھ جلد کھڑے ہیں دیر سے ہم کن نیندوں غافل سوتا ہے 

ہم رو رو اشک بہاتے ہیں وہ طوفاں بیٹھے اٹھاتے ہیں 
یوں ہنس ہنس کر فرماتے ہیں کیوں مرد کا نام ڈبوتا ہے 

کیا سنگ دلی ہے الفت میں ہم جس کی جان سے جاتے ہیں 
انجان وہ بن کر کہتا ہے کیوں جان یہ اپنی کھوتا ہے 

لے دے کے سارے عالم میں ہمدرد جو پوچھو اک دل ہے
میں دل کے حال پہ روتا ہوں دل میرے حال پہ روتا ہے 

دکھ درد نے ایسا زار کیا اک گام بھی چلنا دوبھر ہے 
چلئے تو جسم زار اپنا خود راہ میں کانٹے بوتا ہے 

وہ امنگ کہاں وہ شباب کہاں ہوئے دونوں نذر عشق مژہ 
پوچھو مت عالم دل کا مرے نشتر سا کوئی چبھوتا ہے

سید محمد عبد الغفور شہباز


 

Tuesday, November 29, 2022

سعدیہ صدف

یوم پیدائش 29 نومبر

توبہ توبہ کیسی گھڑی ہے
سب کو اپنی اپنی پڑی ہے

ہجر کی رات آئی تو جانا
شب یہ قیامت سے بھی بڑی ہے

کون یہاں فریاد سنے گا
کاسہ بکف دنیا ہی کھڑی ہے

دکھ کی رُت میں رونے والو!
دکھ بھی جیون کی ہی کڑی ہے

میرے جیون کے آنچل میں
آشاؤں کی لیس جڑی ہے

ہرسو چراغاں کرتی رہوں گی
آندھی اگرچہ ضد پہ اڑی ہے

ہاتھ نہ آیا ساحل تو کیا
سعدیہ طوفانوں سے لڑی ہے

سعدیہ صدف



نجمی بیگم مراد

یوم پیدائش 29 نومبر 1917

تاثیر نہ آہوں میں نہ فریاد فغاں میں
اور میں ہوں کہ نالوں میں اثر ڈھونڈ رہی ہوں

دریائے تخیل کی ابھی تہہ نہ پہنچی
میں قطرے کے سینے میں گہر ڈھونڈ رہی ہوں

کیا خوب ہے میری بھی یہ ناکام تمنا
شامِ غمِ ہجراں کی سحر ڈھونڈ رہی ہوں

جس در کی تمنا میں ہوں ناکامِ تمنا
اک سجدے کی خاطر وہی در ڈھونڈ رہی ہوں

نجمی بیگم مراد


 

عاصم اعجاز

یوم پیدائش 29 نومبر 1971

دل کو چہرہ بنا لیا اُس نے
یعنی رستہ بنا لیا اُس نے

پہلے وہ یونہی بد گمان رہا
پھر وتیرہ بنا لیا اُس نے

آئینہ دیکھنا نہیں پڑتا
خود کو ایسا بنا لیا اُس نے

خشک دریا کے نقش کیا کھینچے
ایک صحرا بنا لیا اُس نے

یہ بھی تو اُس کی مہربانی ہے
اپنے جیسا بنا لیا اُس نے

عاصم اعجاز



Monday, November 28, 2022

الیاس بابر عوان

یوم پیدائش 28 نبر 1976

آنکھ کھلے گی بات ادھوری رہ جائے گی
ورنہ آج مری مزدوری رہ جائے گی

جی بھر جائے گا بس اُس کو تکتے تکتے
کچی لسی میٹھی چُوری رہ جائے گی

اُس سے ملنے مجھ کو پھر سے جانا ہوگا
دیکھنا پھر سے بات ضروری رہ جائے گی

تھوڑی دیر میں خواب پرندہ بن جائے گا
میرے ہاتھوں پر کستوری رہ جائے گی

تم تصویر کے ساتھ مکمل ہو جاؤ گے
لیکن میری عمر ادھوری رہ جائے گی

الیاس بابر عوان


 

اختر امام انجم

یوم پیدائش 28 نومبر 1964

محبت کو ہمیشہ سے شریک کار دیکھا ہے 
عداوت سے ہر اک رشتہ یہاں دشوار دیکھا ہے 

یہاں آپس میں ہم آہنگ ہونا ہے بہت مشکل 
کبھی مفلس بھی دیکھا ہے کبھی زردار دیکھا ہے 

اچھالی جا رہی ہیں پگڑیاں الزام ہے سر پر 
نہیں گردن پہ سر جس کے وہی سردار دیکھا ہے 

مسائل دوسروں کے حل جو کرتے ہیں حقیقت ہے 
انہیں کے گھر میں اٹھتے بیچ میں دیوار دیکھا ہے 

عجب ہے حال اب کس پر بھروسہ ہم کریں انجمؔ 
یہاں پر لوٹنے والوں کو پہرے دار دیکھا ہے 

اختر امام انجم



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...