یوم وفات 30 نومبر 1908
انجام خوشی کا دنیا میں سچ کہتے ہو غم ہوتا ہے
ثابت ہے گل اور شبنم سے جو ہنستا ہے وہ روتا ہے
ہم شوق کا نامہ لکھتے ہیں کہ صبر اے دل کیوں روتا ہے
یہ کیا ترکیب ہے اے ظالم ہم لکھتے ہیں تو دھوتا ہے
ہے دل اک مرد آخر بیں اپنے اعمال پر روتا ہے
گر ڈوب کے دیکھو اشک نہیں موتی سے کچھ یہ پروتا ہے
گھر اس سے عشق کا بنتا ہے دل سختی سے کیوں گھبرائے
شیریں یہ محل اٹھواتی ہے فرہاد یہ پتھر ڈھوتا ہے
ٹھکرا کر نعش ہر عیسیٰ کہتا ہے ناز سے ہو برہم
اٹھ جلد کھڑے ہیں دیر سے ہم کن نیندوں غافل سوتا ہے
ہم رو رو اشک بہاتے ہیں وہ طوفاں بیٹھے اٹھاتے ہیں
یوں ہنس ہنس کر فرماتے ہیں کیوں مرد کا نام ڈبوتا ہے
کیا سنگ دلی ہے الفت میں ہم جس کی جان سے جاتے ہیں
انجان وہ بن کر کہتا ہے کیوں جان یہ اپنی کھوتا ہے
لے دے کے سارے عالم میں ہمدرد جو پوچھو اک دل ہے
میں دل کے حال پہ روتا ہوں دل میرے حال پہ روتا ہے
دکھ درد نے ایسا زار کیا اک گام بھی چلنا دوبھر ہے
چلئے تو جسم زار اپنا خود راہ میں کانٹے بوتا ہے
وہ امنگ کہاں وہ شباب کہاں ہوئے دونوں نذر عشق مژہ
پوچھو مت عالم دل کا مرے نشتر سا کوئی چبھوتا ہے
سید محمد عبد الغفور شہباز