Urdu Deccan

Friday, December 23, 2022

سعید احسن

یوم پیدائش 17 دسمبر 1963

کتنی مشکل ہے کہ مشکل کی طرف جانا ہے 
خود سے چل کر مجھے قاتل کی طرف جانا ہے 

دل یہ کہتا ہے کہ گرداب میں لے چل کشتی 
ذہن کہتا ہے کہ ساحل کی طرف جانا ہے 

راہ دشوار ہے تو عزم سلامت ہے مرا 
مجھ کو ہر حال میں منزل کی طرف جانا ہے 

مجھ سے دیکھا نہیں جائے گا تڑپنا جس کا 
کیا ستم ہے اسی بسمل کی طرف جانا ہے 

بڑھتی جاتی ہے مسلسل ہی یہ وحشت دل کی 
کیا مجھے طوق و سلاسل کی طرف جانا ہے 

راہ بر ہوگا نہ رستے میں لٹیرے ہوں گے 
لے کے اعمال ہی منزل کی طرف جانا ہے 

منزل کرب و بلا اس سے ہے آگے احسنؔ 
لوٹ جائے جسے باطل کی طرف جانا ہے

سعید احسن


 

سبحانی آکاش

یوم پیدائش 16 دسمبر 1967

معاملاتِ محبت کو دل لگی نہ سمجھ 
مرے مزاج، مجھے خود سے اجنبی نہ سمجھ 

نظر وہی ہے جسے حد کی کوئی قید نہ ہو
بدن میں سانس کی مہلت کو زندگی نہ سمجھ 

وہ زیست اور ہے جس کو نہ آئے موت کبھی 
بدن میں سانس کی مہلت کو زندگی نہ سمجھ 

یہ کائنات بنائی گئی ہے میرے لیے 
کوئی بھی چیز یہاں مجھ سے قیمتی نہ سمجھ 

بچا رکھا ہے اگر تو نے کوئی داو ابھی 
یہ چال میری طرف سے بھی آخری نہ سمجھ 

یہ امتحان کے لمحات ہیں سبھی آکاش 
سو غم کو غم نہ سمجھ اور خوشی، خوشی نہ سمجھ 

سبحانی آکاش



فرزانہ نیناں

یوم پیدائش 16 دسمبر 

اس کو احساس کی خوشبو سے رہا کرنا تھا 
پھول کو شاخ سے کھلتے ہی جدا کرنا تھا 

پوچھ بارش سے وہ ہنستے ہوئے روئی کیوں ہے 
موسم اس نے تو نشہ بار ذرا کرنا تھا 

تلخ لمحے نہیں دیتے ہیں کبھی پیاسوں کو 
سانس کے ساتھ نہ زہراب روا کرنا تھا 

کس قدر غم ہے یہ شاموں کی خنک رنگینی 
مجھ کو لو سے کسی چہرے پہ روا کرنا تھا 

چاند پورا تھا اسے یوں بھی نہ تکتے شب بھر 
یوں بھی یادوں کا ہر اک زخم ہرا کرنا تھا 

دونوں سمتوں کو ہی مڑنا تھا مخالف جانب 
ساتھ اپنا ہمیں شعروں میں لکھا کرنا تھا 

کرب سے آئی ہے نیناں میں یہ نیلاہٹ بھی 
درد کی نیلی رگیں دل میں رکھا کرنا تھا

فرزانہ نیناں



عبد الباسط طاہر

یوم پیدائش 16 دسمبر 1966

راز اپنے میں خود سنا بیٹھا
ایک پردہ جو تھا اٹھا بیٹھا

مجھ کو توبہ تھی میکشی سے مگر
ہائے ساقی نظر ملا بیٹھا

لطف و راحت بہشت کے آدم
ایک لذت پہ ہی گنوا بیٹھا

دل کے جنگل میں اس قدر بھٹکا
واپسی کے نشاں مٹا بیٹھا

رت ہے سردی بہار آئے گی
دل کے ارمان سب جگا بیٹھا

سرد موسم پہاڑ برفوں کے
بیج پھولوں کے میں دبا بیٹھا

جسم کا اک طبیب ڈھونڈوں گا
روح کے زخم اب چھپا بیٹھا

دیکھتا کم ہوں کم ہی سنتا ہوں
جب سے آہٹ پہ دل لگا بیٹھا

عبد الباسط طاہر


 

نصرت زہرا

یوم پیدائش 16 دسمبر 1978

نہ رمز میں کسی معنی میں نہ سوال میں ہے 
یہ میرا کھویا ہوا دل ترے خیال میں ہے 

نہ اب سکون ملے نا اسے قرار کہیں 
نہ اب خموش ہے دل اور نہ عرض حال میں ہے 

تری جبیں پہ جو اک بار جگمگایا تھا 
وہ اک ستارہ میرے لمحۂ وصال میں ہے 

پلٹ کے تو نے جو دیکھا تو یوں لگا مجھ کو 
کہ مرے پیار کا حاصل ترے کمال میں ہے 

جو بیقرار تھی کہنے کو وہ زباں گنگ ہے 
نہ زیست رہ گئی اس میں نہ یہ ملال

نصرت زہرا


 

اعظم نصر

یوم پیدائش 16 دسمبر 1958

اس کو عادت تھی مسکرانے کی
بے وجہ بات کو بڑھانے کی

لٹ گئے ہم رہی غلط فہمی
یہ حقیقت تھی اس فسانے کی

اب تو عادت سی ہوگئی جیسے
خوامخواہ اس گلی میں جانے کی

اک تماشہ بنا لیا خود کو
دل لگی بن گئے زمانے کی

عشق میں بھول اک ہوئی اعظم 
اپنی اوقات بھول جانے کی 

اعظم نصر


 

ڈاکٹر خالد جمیل

یوم پیدائش 16 دسمبر 1956

دل بھی خوش ہو کبھی،  یہ آس لیے
لوگ ہنستے ہیں دل  اداس لیے
 
کہہ رہا ہے کٹھن ہے سچ کا مقام
زہر سقراط کا گلاس لیے
 
غم بھی دیتے ہیں اور ہنستے ہوئے
گفتگو میں بڑی مٹھاس لیے

تلخیئے آسماں  پلا دے اُسے
دل سمندر ہے اک پیاس لیے
 
جب بھی پڑتی ہے چوٹ دل پہ مرے
ساز  بجتے ہیں دُھن  اداس لیے
 
دیکھ خاؔلد نہال ہے یہ  چمن
پھول خوشبو ہے آس  پاس لیے

ڈاکٹر خالد جمیل



Thursday, December 22, 2022

خالد رضوی امروہوی

یوم پیدائش 15 دسمبر 1952

مصروفِ ثنا میں ہے ثناخوانِ محمدؐ
ہے نغمہ سرا بلبل بستانِ محمدؐ

خوش رنگ گُل وغنچہ معطّر ہیں فضائیں
صد رشکِ بہاراں ہے گلستانِ محمدؐ

رضواں درِ جنت پہ ہمیں دیکھ کے بولا
آنے دو انہیں یہ ہیں غلامانِ محمدؐ

محشر میں گنہگاروں کی بن جائے گی بگڑی
مل جائے اگر سایۂ دامانِ محمدؐ

معراجِ نبی عرش کی عظمت کا سبب ہے
یوں کہیے یہ ہے عرش پہ احسانِ محمدؐ

رضوی یہ تقاضا ہے غلامی کا نبیؐ کی
جو کچھ بھی لکھو، لکھو بہ عنوانِ محمدؐ

خالد رضوی امروہوی


 

محمد عظیم حاذق

یوم پیدائش 15 دسمبر 1980

نعت
کیا ارض کیا سما ہےکیا ہے ملک ملک
محوِ ثنا ہے ذرہ ذرہ پلک پلک

ظلمت کدہ چمک کر روشن کدہ ہوا
لہرائی جب جہاں میں نازاں الک الک

پائے ہیں تیری شفقت و رحمت کے سائباں
اقصیٰ سے لا مکانی سدرہ تلک تلک

تجھ سے حسین ؓ ہیں اور تو ہے حسین ؓ سے
آ لِ حسین میں بھی تیری جھلک جھلک

بیٹھے ہیں خود زمیں پر چیتھڑ لباس میں
نعلین جن کی ہے یہ سر با فلک فلک

تیری عطا مبارک سب کو مبارکاں ہے
پتھربھی پا گئے ہیں تجھ سے ڈلک ڈلک

سرزور پُر تشدد سرسرنگوں ہوئے
نخوت پہ چھائی ایسی رمز للک للک

آتے ہیں یاد جب بھی حاذق کو وقت وہ
بے ساختہ پڑیں یہ آ نکھیں چھلک چھلک

محمد عظیم حاذق 


 

خالد سجاد

یوم پیدائش 15 دسمبر 1961

جنہیں سفر کے لیے حوصلہ نہیں ملتا 
ہجوم میں بھی انہیں راستہ نہیں ملتا 

برا نہ مان اگر دیکھنے لگا ہوں تجھے 
میں کیا کروں کہ مجھے آئنہ نہیں ملتا 

لگی ہوئی ہے یوں ہی دل کو حرص دنیا کی 
وگرنہ ان سے جو مانگوں تو کیا نہیں ملتا 

میں اپنے گھر سے نکل کر کہاں چلا آیا 
کہ شہر بھر میں کوئی آشنا نہیں ملتا 

عذاب جان بنا ہے یہ شور شہر فشار 
سکوں کے واسطے اب میکدہ نہیں ملتا 

میں کیا کہوں کہ ہوا ہی خلاف ہے میرے 
پلٹ کے آؤں تو در بھی کھلا نہیں ملتا 

کہیں سے روشنی لا دو وگرنہ اب خالدؔ 
وہ گھر جلائیں گے جن کو دیا نہیں ملتا

خالد سجاد



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...