Urdu Deccan

Sunday, December 25, 2022

سنجیدہ نشاط

یوم پیدائش 23 دسمبر 1980

تری انجمن کی نرالی ہے صحبت
کوئی غمزدہ ہے کوئی محوِ حیرت

خدا کی عبادت نہ سجدے کی حاجت
تصور میں تم ہو نگاہوں کی صورت

فنا ہوگیا ہے وجود اب ہمارا
سبب بن گئی ہے تمھاری محبت

امیدوں پہ قائم یہ دنیا ہے لیکن
ضرورت ہے کرتا رہے تو بھی محنت

کھلے رازِ ہستی جو پنہاں تھے اب تک
خرد نے دکھائی جب اپنی کرامت

غزل ہے ہی میری سراپا تمھارا
مرے آئینے میں تمھاری ہے صورت

صنم مل گیا ہے نشاط اب جہاں سے
تعلق ہے کوئی نہ ہے کوئی الفت

سنجیدہ نشاط



یاسمین یاس

یوم پیدائش 23 دسمبر 1974

محبت سے بھی نفرت ہوگئی ہے
عجب وحشت سی وحشت ہوگئی ہے

فنا کر ڈالوں خود کو اور سب کو
بتاؤں کیا جو حالت ہوگئی ہے

جو رکھے یاد اس کو یاد رکھو
محبت اب تجارت ہوگئی ہے

زمانے بھر میں رسوا ہورہے ہیں
یقیناً ہم سے غفلت ہوگئی ہے

کسی پر زندگی قربان کردیں
وہ چاہت ایک حسرت ہوگئی ہے

کبھی وحشت تھی جس دیوانگی سے
وہی اب میری قسمت ہوگئی ہے

یاسمین یاس



اختر رانچوری

یوم پیدائش 23 دسمبر 1954

حیا کی چلمن گری ہوئی ہے ، نظر کا شعلہ جگا ہوا ہے
کہ میرے دل میں تمھاری یادوں کا ایک میلہ لگا ہوا ہے

مرے صنم تو یقین کرلے کہ توہی ہے میرے دل کا محور
جگہ جگہ پر مری کتابوں پہ نام تیرا لکھا ہوا ہے

زمانہ کوشش ہزار کرلے نہ توڑ پائے گا کوئی اس کو
تمھارے دل سے ہمارے دل کا جو ایک رشتہ بنا ہوا ہے

ہمارے ارماں کا خون کر کے نہ اٹھ کے جاؤ ابھی یہاں سے
ابھی تو محفِل سجی ہوئی ہے ابھی تو پیالہ بھرا ہوا ہے

نہ کوئی مونس نہ کوئی ہمدم نہ کوئی غم خوار ہے خدایا
جو میرے دل سے گزر رہا تھا وہ قافلہ تو لٹا ہوا ہے

فرشتے حیران ہو رہے ہیں کہ بزمِ محشر میں آج اختر
کوئی گنہگار رو رہا ہے کِسی کا چہرہ کِھلا ہوا ہے

اختر رانچوری



عبداللہ ناظر

یوم پیدائش 23 دسمبر 1932

کر لیا تھا مرگِ قبل از مرگ نے مائل مجھے
لے چلی ہے موجِ طوفاں جانبِ ساحل مجھے

آسرا دے اے شعورِ سعیِ لاحاصل مجھے
وجہِ سرگرمی ہے وہمِ دوری منزل مجھے

جلوۂ جاناں سے کب دیکھا گیا غافل مجھے
سایۂ ابرِ رواں تھا پردۂ محمل مجھے

کیا ستم ڈھایا ترا گرنا مری آغوش میں
تجھ کو قاتل کہنے والے کہہ پڑے قاتل مجھے

شمعِ بزمِ بیخودی اک آس تھی سو بجھ گئی
ظلمتِ تنہائی میں اب چھوڑ دے اے دل مجھے

اپنے گیسوئے پریشاں کی طرح برہم نہ ہو
صدمۂ یک جنبشِ لب ہو گیا مشکل مجھے

یوں تو حیراں ہے زمانہ رقصِ بسمل دیکھ کر
"بڑھ کے سینے سے نہ لپٹا لے مرا قاتل مجھے "

روز صبح و شام خنداں ہیں مزاجِ حال پر
دور کرتا جا رہا ہے میرا مستقبل مجھے

شوقِ اظہارِ تمنا پھر اجاگر ہو گیا
پھر کوئی آواز دیتا ہے سرِ محفل مجھے

جوئے خوں نے رکھ لیا ناظرؔ کی آنکھوں کا بھرم
جانِ جاں تم نے تو سمجھا پیار کے قابل مجھے

عبداللہ ناظر



پروین کیف

یوم پیدائش 23 دسمبر 

خدا بچائے محبت کی اس بلا سے بھی 
کہ درد دل نہیں جاتا کسی دوا سے بھی 

جلا رکھے ہیں مری زندگی میں سانسوں نے 
چراغ ایسے کہ بجھتے نہیں ہوا سے بھی 

مرے لئے مرا اللہ کون سا کم ہے 
مجھے تو کام نہیں ہے کسی خدا سے بھی 

چراغ راہ بنایا ہے تم نے کس کس کو 
کبھی ملے ہو محمدؐکے نقش پا سے بھی 

ہم اپنی جان اسی پر نثار کرتے ہیں 
ہمیں وہ قتل کرے چاہے جس ادا سے بھی 

اسی چمن میں جو میرا چمن ہے میرا چمن 
بہت سے پیڑ مرے خون کے ہیں پیاسے بھی 

ستم کسی پہ وہ کرتے نہیں ہمارے سوا 
جفا تو ہے یہ مگر کم نہیں وفا سے بھی 

دھڑکتے شعر سنے ہم نے بنت کیفؔ سے آج 
ملے ہم ایک محبت کی شاعرہ سے بھی

پروین کیف



نعمان غازی

یوم پیدائش 22 دسمبر 1992

کس کو خیال یار نے رکھا اداس ہے
یہ کس کی پیاس کے لیے دریا اداس ہے

اب قہقہوں کی بھیٹر میں اندازہ کیا لگے
کوئی اداس ہے بھی تو کتنا اداس ہے

دہلیز پر شعور کی رکھ تو دیا قدم
لیکن وہ یونیفارم پہ بستہ اداس ہے

شاعر بنا کے لائیے کچھ مسخروں کو اب
مدت سے شاعری کی یہ دنیا اداس ہے

کاغذ پہ خاک ڈال دی تصویر بن گئی
تصویر ایسی جس کا کہ چہرہ اداس ہے

نعمان غازی



Friday, December 23, 2022

عابد پیشاوری

یوم پیدائش 22 دسمبر 1936

کیوں کہوں میں تری بے داد سے دل دکھتا ہے
آسمانِ ستم ایجاد سے دل دکھتا ہے

ٹھوکریں کھائی ہیں وہ راہِ وفا میں ہم نے
اب تو ہر چھوٹی سی اُفتاد سے دل دکھتا ہے

جب ستم تھا تو سکوں کا کوئی پہلو بھی تو تھا
جب نہیں کچھ بھی تو فریاد سے دل دکھتا ہے

ہائے وہ یاد کہ دیتی تھی کچھ اس دل کو قرار
اب یہ حالت کہ اسی یاد سے دل دکھتا ہے

خود بھی خوش رہ کے تجھے دیکھ کے خوش ہو دنیا
ایک ناشاد کا ناشاد سے دل دکھتا ہے

چار دن عمر تری وہ بھی کٹے رو رو کر
اے جوانی تری بنیاد سے دل دکھتا ہے

عابد پیشاوری


 

رفیق درد

یوم پیدائش 22 دسمبر 1932

ترا حسنِ لم یزل ہے مری آرزو ہے فانی
مری زندگی ہے پل کی‘ تری عمر جاودانی

کڑی دھوپ کیا کرے گی‘ مرا جسم کیا جلے گا
میں ہوا پہ لکھ رہا ہوں تری زلف کی کہانی

مرے زخم کے لبوں پر وہی سرخیاں ہیں اب تک
مجھے ڈر ہے ڈھل نہ جایے کہیں پھول کی جوانی

یہ زمین دردؔ کیا دے ہمیں شانتی کے پودے
کہیں حادثوں کا میلہ‘ کہیں خون کی روانی

رفیق درد



مدثر انیس

یوم پیدائش 21 دسمبر 2003

ہم سب کو تیرگی سے بچایا رسولؐ نے
دنیا کو دین حق کا سکھایا رسولؐ نے 

شہرِمدینہ مجھ سے گلے مل کے رو پڑا
جیسے ہی مجھ کو پاس بلایا رسولؐ نے 

کعبہ تھا اور کفر تھا بت بھی تھے بےشمار
کعبے سے یہ نظام مٹایا رسولؐ نے 

جیسےکہ تیرگی کو مٹاتی ہے روشنی
باطل کو اس طرح سے مٹایا رسولؐ نے 

اس نے خدا کے نور کو دیکھا ہے آپؐ میں
چہرہ جسےبھی اپنا دکھایا رسولؐ نے 

بھٹکے نہ ان کے بعد کوئی بھی انیس شخص
طائف میں اپنا خون بہایا رسولؐ نے 

مدثر انیس



زاہد ابرول

یوم پیدائش 20 دسمبر 1950

دل ربا دل دار دل آرا نہ تھا 
شہر میں کوئی ترے جیسا نہ تھا 

نا خدائی کا وہ رتبہ لے گیا 
عمر بھر پانی میں جو اترا نہ تھا 

کرشن نے کنکر بہت پھینکے مگر 
اب کے رادھا کا گھڑا کچا نہ تھا 

ختم کر بیٹھا ہے خود کو بھیڑ میں 
جب تلک تنہا تھا وہ مرتا نہ تھا 

عکس ظاہر تھا مگر تھا اک سراب 
نقش دھندلا تھا مگر مٹتا نہ تھا 

میں جیا ہوں اس سمندر کی طرح 
جس کی قسمت میں کوئی دریا نہ تھا 

گرد آلود آنکھ تھی زاہدؔ مری 
ورنہ آئینہ تو وہ میلا نہ تھا

زاہد ابرول


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...