Urdu Deccan

Saturday, April 15, 2023

وسیم ساغر

یوم پیدائش 28 مارچ 1991

نہ شکوہ نہ برہم ہوا جانتی ہے
یہ ظرفِ وفا ہے ،دعا جانتی ہے

سفینہ مرا چُوم لوٹے گی آندھی
مرے حوصلوں کو ہوا جانتی ہے

جنوں اک طرف وصل کی آرزو کا
محبت روا ناروا جانتی ہے

در و بام واقف ہیں کلفت سے میری
مرے غم کی شدت دوا جانتی ہے

بہت نرم یوں ہی نہیں فصلِ گل پر
صبا رنگ و بو کی نوا جانتی ہے

وہی ساغرِ خستہ دامن ہوں لوگو
ستمگر جسے ماسوا جانتی ہے

وسیم ساغر


 

فیصل رضوان

یوم پیدائش 28 مارچ

زندگی کا خمار دیکھا ہے
سب کو یاں سوگوار دیکھا ہے

عشق سینہ فِگار دیکھا ہے
حسن کو لالہ زار دیکھاہے

خارزاروں کا ساتھ دینے میں
گل کا دامن ہی تار دیکھا ہے

سانس رکتے ہی اپنے پیاروں کا
میتوں میں شمار دیکھا ہے

بھول جانا جسے ضروری تھا
اس کو ہی بار بار دیکھا ہے

ساتھ دل ہے حباب سے آگے
زیست کا اعتبار دیکھا ہے

فیصل رضوان



سید حامد

یوم پیدائش 28 مارچ 1920

حق کسی کا ادا نہیں ہوتا 
ورنہ انساں سے کیا نہیں ہوتا 

دل کا جانا تو بات بعد کی ہے 
دل کا آنا برا نہیں ہوتا 

کیا ہوا دل کو مدتیں گزریں 
ذکر مہر و وفا نہیں ہوتا 

حسن کے ہیں ہزارہا پہلو
ایک پہلو ادا نہیں ہوتا 

خود پہ کیا کیا وہ ناز کرتے ہیں 
جب کوئی دیکھتا نہیں ہوتا 

دل بجھا ہو تو خندۂ گل بھی 
چبھتا ہے جاں فزا نہیں ہوتا 

ڈھونڈھ لاتی ہے ایک شوخ نگاہ 
لب پہ جو مدعا نہیں ہوتا 

خوں بہاتے ہیں بے گناہوں کا 
یہ کوئی خوں بہا نہیں ہوتا 

زندگی میں ہیں تلخیاں پھر بھی 
آدمی بے مزا نہیں ہوتا 

حق تو حامدؔ یہ ہے کہ حق کے سوا 
کوئی مشکل کشا نہیں ہوتا

سید حامد


 

شیما نظیر

یوم پیدائش 27 مارچ 1972

ایک مدت سے جو ٹھہری ہے ٹھہر جائے گی
ایسا لگتا ہے یونہی عمر گزر جائے گی

ہم کو تہذیب پہ اپنی تھا بہت ناز مگر
اب وہ تہذیب یوں بے موت ہی مرجائے گی

وقت یکساں نہیں رہتا ہے کسی کا بھی کبھی
کبھی ایسے کبھی ویسے بھی گزر جائے گی

عزم.مضبوط رکھو کوششیں کرکے دیکھو
زندگی بکھری بھی ہو گر تو سنور جائے گی

وہ دعا ہوگی یقیناً تری مقبول نظیرؔ
ساتھ اشکوں کے دعا تیری اگر جائے گی

شیما نظیر


 

سعید افسر

یوم پیدائش 26 مارچ 1941

دھوپ کو گرم نہ کہہ سایۂ دیوار نہ دیکھ 
تجھ کو چلنا ہے تو پھر وقت کی رفتار نہ دیکھ 

میری فکروں سے الجھ مجھ کو سمجھنے کے لئے 
دور سے موج میں الجھی ہوئی پتوار نہ دیکھ 

ان کی روحوں کو پرکھ آدمی ہیں بھی یا نہیں 
صرف صورت پہ نہ جا جبہ و دستار نہ دیکھ 

اپنے آنگن ہی میں کر فکر نموئے گلشن 
کوئی جنت بھی اگر ہے پس دیوار نہ دیکھ 

ان دمکتے ہوئے لمحات کے جادو سے نکل 
وقت کی چال سمجھ شوخئ رفتار نہ دیکھ 

غم سے لڑنا ہے تو پھر غم زدہ صورت نہ بنا 
زندہ رہنا ہے تو مردوں کے یہ اطوار نہ دیکھ 

میرے نغمات کو تفریح کے کانوں سے نہ سن 
رقص کی پیاس ہے آنکھوں میں تو پیکار نہ دیکھ 

قدردانی کو مراتب کے ترازو میں نہ تول
کون افسرؔ ہوا یوسف کا خریدار نہ دیکھ

سعید افسر


 

انجم عثمان

یوم پیدائش 29 مارچ

زر غبار کو آئینہ بار کر نہ سکے
نقوش عکس کو تصویر یار کر نہ سکے

ہے وحشتوں کا تلاطم پسِ نوائے سکوت
میان موجۂ گل ذکر یار کر نہ سکے

نہ اضطراب، نہ غوغائے گریہ و ماتم
شہاب غم بھی مجھے بے قرار کر نہ سکے

ٹپک نہ چشمِ ہم آہنگ سے اے قطرۂ خوں
کہ چارہ گر بھی تجھے شرمسار کر نہ سکے

ستارہ گیر تھا رخشِ ہنر مگر پھر بھی
طلسم حسن سخن بے کنار کر نہ سکے

ہزار زاویۂ حرف آشکار کیے
قبائے سرو غزل زرنگار کر نہ سکے

انجم عثمان


 

Tuesday, April 11, 2023

پروین صباء

یوم پیدائش 25 مارچ 1969

اپنی ہی راہ پہ ہر حال میں چلتے رہنا
وقت کے ساتھ نہ رفتار بدلتے رہنا

میری رسوائی کا باعث نہ کہیں بن جائے
رات بھر شمع کی مانند پگھلتے رہنا

عشق کی راہ میں شعلوں کے سوا کچھ بھی نہیں
پاؤں جل جائیں مگر آگ پہ چلتے رہنا

دو قدم بھی کوئی ہمراہ نہ چل پائے گا
میری قسمت میں ہے گر گر کے سنبھلتے رہنا

تجھ کو خوش آگئی دنیا ، ہے نصیبہ تیرا
ورنہ سورج کی بھی قسمت میں ہے ڈھلتے رہنا

کس قدر فرصتیں ہیں ، مجھ کو تو حیرت ہے صبا
کام ہے لوگوں کا بس زہر اگلتے رہنا

پروین صباء


 

آرتی کماری

یوم پیدائش 25 مارچ 1977

تری یاد میں جو گزارا گیا ہے 
وہی وقت اچھا ہمارا گیا ہے 

بھلا اور کیا اپنا پن وہ دکھائے 
ترا نام لے کر پکارا گیا ہے 

تمہیں میری حالت پتہ کیا چلے گی 
مرا جو گیا کب تمہارا گیا ہے 

عجب ہے محبت کا میدان یارو 
نہ جیتا گیا ہے نہ ہارا گیا ہے 

لکھا ریت پر نام میں نے تمہارا 
ندی میں بھی چہرہ نہارا گیا ہے 

ہے میری بھی عادت تمہارے ہی جیسی 
ہر اک رنگ مجھ پہ تمہارا گیا ہے 

آرتی کماری


 

ظہور بیگ حامی

یوم پیدائش 24 مارچ 2000

سمجھ یہ آئے نہ ہر کسی کی
سزا ملے گی جو سرکشی کی

وہ غرق دریا ھوا ھے لیکن 
وہ بات کرتا ھے تشنگی کی

وفا کے مفہوم سے تو عاری 
زباں پہ باتیں ہیں عاشقی کی

وہ ماں کو گھر سے نکال بیٹھے
یہ اک کہانی ہے بے حسی کی

کبھی نہ بھاگا خوشی کے پیچھے
ہمیشہ غم کی ہی پیروی کی

ظہور بیگ حامی


 

ضمیر اختر نقوی

یوم پیدائش 24 مارچ 1940

مرے وجود نے یوں تو ضمیر کیا نہ دیا
انا کی آگ میں جلنے کا حوصلہ نہ دیا

شمار اپنا بھی ہوجاتا عشق والوں میں
پیالہ زہر کا ہم کو بھی کیوں پلا نہ دیا

کچل نہ پائے گا پھر بھی ہمارا جذبۂ دل
جو حسن نے ہمیں اعزازِ باوفا نہ دیا

ضمیر ایسی غزل کو تو دور ہی سے سلام
کہ جس نے فکر کو میدانِ ارتقا نہ دیا

ضمیر اختر نقوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...