Urdu Deccan

Saturday, April 15, 2023

عمران راقم

یوم پیدائش 02 اپریل 1973

وہ کیا کریں کہ اپنی حماقت سے تنگ ہیں 
جو لوگ میری ذات کی شہرت سے تنگ ہیں 

راہ طلب میں خیر و خبر کس کی کون لے 
سب لوگ اپنی اپنی ضرورت سے تنگ ہیں 

کترا رہا ہے ہر کوئی اپنوں سے غیر سے 
جو مل گئے تو سب کی شکایت سے تنگ ہیں 

تاریکیاں گھنیری ہیں جگنو بھی کیا کرے 
رستے اندھیری رات کی ظلمت سے تنگ ہیں 

کیا ہی مزے کی بات ہے راقمؔ یہاں کے لوگ 
خوددار آدمی کی شرافت سے تنگ ہیں 

عمران راقم



رمیشا قمر

یوم پیدائش 02 اپریل 

عجز و خلوص جب مرے پیکر میں آ گیا
سارا کمال پھر مرے دفتر میں آ گیا

دل کا تھا باب گرچہ مقفّل وہ اجنبی
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"

اس آسماں نے مجھ پہ مصیبت جو توڑ دی
میرا وجود کرب کے محور میں آگیا

میں منتظر رہی کوئی مشقِ ستم تو ہو
وہ مصلحت شناس کہ لشکر میں آگیا

میری وفا پہ تم کو جو کچھ اعتبار تھا
تو کیسا انقلاب یہ تیور میں آگیا؟

وہ میری زندگی کی تمنا، وہ میری جان
بگڑا تو پھر زمانے کی ٹھوکر میں آگیا

میرے ہر ایک لفظ، مری سوچ کا محل
بے لوث آج دامنِ دلبر میں آگیا

کس کو رمیشا ؔدرد کا انبار چاہیے
جتنا ہنود قسمتِ دختر میں آگیا

رمیشا قمر



سلمان منیر خاور

یوم پیدائش 02 اپریل 1992

کسی کا بدتر کسی کا اچھا گزر رہا ہے
یہ وقت ہے اور ازل سے ایسا گزر رہا ہے

ہزار عاشق خدا سے محوِ دعا ہوئے ہیں
فلک پہ ٹوٹا ہوا ستارا گزر رہا ہے

رقیب میرے نے اسکو ٹھکرا دیا ہے شاید
وہ آج میری گلی سے تنہا گزر رہا ہے

یہ نم تمہاری نگاہ سے بھی بہے گا اک دن
جو میری آنکھوں سے رفتہ رفتہ گزر رہا ہے

یہ ریل گاڑی کی چین کھینچو مجھے اتارو
یہ کیا مصیبت ہے میرا رستہ گزر رہا ہے

تمہیں پتا ہے تمہارا سلمان خوش نہیں ہے؟
تمہیں پتا ہے جو اس پہ صدمہ گزر رہا ہے؟

سلمان منیر خاور


 

آفتاب نعمانی

یوم پیدائش 01 اپریل 1970

شامِ غم کو رات بھر کا آسرا مل جائے گا
شہر میں کوئی نہ کوئی در کھلا مل جائے گا

سر سے پا تک اَٹ گیا ہوں راستے کی دھول میں
میں نے یہ سوچا تھا تیرا نقشِ پا مل جائے گا

شب گئے تک میں نہیں لوٹا تو میرے ہم سفر
غم کے خالی پن سے غم دہلیز کا مل جائے گا

میں نے کتنے موڑ کاٹے ہیں اسی امید پہ
زندگی شاید کہیں تیرا پتا مل جائے گا

غم کے دریاؤں کا رخ تنہا مری جانب نہیں 
اور بھی کوئی یہاں ہنستا ہوا مل جائے گا

 میں زمیں سے آسمانوں تک گیا ہوں آفتاب
کیا وہی جو پہلے میرے ساتھ تھا مل جائے گا

آفتاب نعمانی



سہیل عثمانی

یوم پیدائش 01 اپریل 1973

ہر گھڑی اک نئی سونامی ہے 
یہ سیاست بڑی حرامی ہے 

سہیل عثمانی


 

عطیہ داؤد

یوم پیدائش 01 اپریل 1958
نظم بھروسے کا قتل

مذہب کی تلوار بنا کر 
خواہشوں کے اندھے گھوڑے پر سوار 
میرے من آنگن کو روند ڈالا 
میرے بھروسے کو سولی پر ٹانگ کر 
تم نے دوسرا بیاہ رچا لیا
تمہارے سنگ گزارے پل پل کو 
میں نے اپنے ماس پر کھال کی طرح منڈھ لیا تھا 
تمہارے ساتھ آنچل باندھ کر 
بابا کا آنگن پار کر کے 
تمہارے لائے سانچے میں 
میں نے پایا تھا اپنا وجود 
پیار کیا ہے یہ نہیں جانتی 
پر تمہارے گھر نے بڑ کے پیڑ سی چھاؤں کی تھی مجھ پر 
بچایا تھا زمانے کے گناہوں کے 
تیروں کی بوچھاڑ سے 
اس سانچے میں رہنے کی خاطر 
میں اپنے وجود کو کاٹتی چھانٹتی تراشتی رہی 
تمہارے لہو کی بوند کو اپنے ماس میں جنم دیا 
اولاد بھی ہم دونوں کا بندھن نہ بن سکی 
بندھن کیا ہے یہ نہیں جانتی 
مجھے فقط ایک سبق پڑھایا گیا تھا 
تمہارا گھر میری آخری پناہ گاہ ہے 
میں نے کئی بار دیکھا ہے 
زمانے کی نگاہوں سے سنگسار ہوتے 
طلاق یافتہ عورت کو 
اس لیے بارش سے ڈری بلی کی طرح 
گھر کے ایک کونے اور تمہارے نام کے استعمال پر 
قناعت کیے بیٹھی رہی 
جنت کیا ہے جہنم کیا ہے یہ نہیں جانتی 
مگر اتنا یقین ہے 
جنت بھروسے سے بالاتر نہیں 
اور جہنم سوت کے قہقہوں سے بڑھ کر گراں نہیں 
طعنوں اور رحم بھری نظروں سے بڑھ کر مشکل 
کوئی پل صراط نہیں 
کبھی کبھی سوت کا چہرہ مجھے اپنا جیسا لگتا ہے 
اس کی پیشانی پر بھی 
میں نے بے اعتباری کی شکنیں دیکھی ہیں 
جب وہ مجھے دیکھتی ہے 
خوشی اس کے سینے میں 
ہاتھوں میں دبائے کبوتر کی طرح پھڑ پھڑا اٹھتی ہے 
میں ان سے لڑ نہیں سکتی 
ان میں تم شامل ہو 
میں تم سے لڑ نہیں سکتی 
مذہب قانون اور سماج تمہارے ساتھ ہیں 
ریتیں رسمیں تمہارے ہتھیار ہیں 
دل چاہتا ہے کہ زندگی کی کتاب سے 
وہ باب ہی پھاڑ کر پھینک دوں 
جو اپنے مفاد میں تم نے 
میرے مقدر میں لکھا ہے 
عطیہ داؤد 




 

آصف علی آصف

یوم پیدائش 01 اپریل 1988

دوسروں سے سوا سمجھتے ہیں
ہم تجھے با خدا سمجھتے ہیں

اور کچھ بھی سمجھ نہیں آتا
آپ کا ہر کہا سمجھتے ہیں

رب کی ساری نشانیوں میں ہم
آدمی کو بڑا سمجھتے ہیں

تو جو ہم پر ہے معترض واعظ
ہم ترا مسئلہ سمجھتے ہیں

جو لطافت ہے بزم رنداں میں
وہ کہاں پارسا سمجھتے ہیں

دل کو یکسر جو نور سے بھر دے
ہم اسے پیشوا سمجھتے ہیں

ہم میں آصف یہی برُائی ہے
ہم برے کو برا سمجھتے ہیں

آصف علی آصف



نصیر احمد ناصر

یوم پیدائش 01 اپریل 1954

ستارہ شام سے نکلا ہوا ہے
دیا بھی طاق میں رکھا ہوا ہے

کوئی نیندوں میں خوشبو گھولتا ہے
دریچہ خواب کا مہکا ہوا ہے

کہیں وہ رات بھی مہکی ہوئی ہے
کہیں وہ چاند بھی چمکا ہوا ہے

ابھی وہ آنکھ بھی سوئی نہیں ہے
ابھی وہ خواب بھی جاگا ہوا ہے

کسی بادل کو چھو کر آ رہی ہے
ہوا کا پیرہن بھیگا ہوا ہے

زمیں بے عکس ہو کر رہ گئی ہے
فلک کا آئنہ میلا ہوا ہے

خموشی جھانکتی ہے کھڑکیوں سے
گلی میں شور سا پھیلا ہوا ہے

ہوا گم صم کھڑی ہے راستے میں
مسافر سوچ میں ڈوبا ہوا ہے

کسی گزرے برس کی ڈائری میں
تمہارا نام بھی لکھا ہوا ہے

چراغ شام کی آنکھیں بجھی ہیں
ستارہ خواب کا ٹوٹا ہوا ہے

سفر کی رات ہے ناصرؔ دلوں میں
عجب اک درد سا ٹھہرا ہوا ہے

نصیر احمد ناصر


 

وسیم ساغر

یوم پیدائش 28 مارچ 1991

نہ شکوہ نہ برہم ہوا جانتی ہے
یہ ظرفِ وفا ہے ،دعا جانتی ہے

سفینہ مرا چُوم لوٹے گی آندھی
مرے حوصلوں کو ہوا جانتی ہے

جنوں اک طرف وصل کی آرزو کا
محبت روا ناروا جانتی ہے

در و بام واقف ہیں کلفت سے میری
مرے غم کی شدت دوا جانتی ہے

بہت نرم یوں ہی نہیں فصلِ گل پر
صبا رنگ و بو کی نوا جانتی ہے

وہی ساغرِ خستہ دامن ہوں لوگو
ستمگر جسے ماسوا جانتی ہے

وسیم ساغر


 

فیصل رضوان

یوم پیدائش 28 مارچ

زندگی کا خمار دیکھا ہے
سب کو یاں سوگوار دیکھا ہے

عشق سینہ فِگار دیکھا ہے
حسن کو لالہ زار دیکھاہے

خارزاروں کا ساتھ دینے میں
گل کا دامن ہی تار دیکھا ہے

سانس رکتے ہی اپنے پیاروں کا
میتوں میں شمار دیکھا ہے

بھول جانا جسے ضروری تھا
اس کو ہی بار بار دیکھا ہے

ساتھ دل ہے حباب سے آگے
زیست کا اعتبار دیکھا ہے

فیصل رضوان



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...