Urdu Deccan

Tuesday, July 6, 2021

عمران انجم

 یوم پیدائش 01 جولائی 1970


کوئی بھی اب اسے تبدیل کر نہیں سکتا

بگڑ گیا ہے وہ اتنا سدھر نہیں سکتا


ہمارے زعم سے واقف ہے پانیوں کا مزاج

ہمارے سامنے دریا بپھر نہیں سکتا


ہمارا قتل بغاوت کو تقویت دے گا

ہمارا نظریہ مر کے بھی مر نہیں سکتا


مجھے تو چھو کے بتا ہوں کہ یا نہیں ہوں میں

میں اپنے ہونے کی تصدیق کر نہیں سکتا


 اس آئینے کا بدن کرچیوں میں دفنا دو

تمہیں جو دیکھ کے خود ہی نکھر نہیں سکتا


جنوں کو میں نے دکھاٸی ہے اعتدال کی راہ

سو چاہ کے بھی وہ حد سے گزر نہیں سکتا


مثال دی تری اس کو وہ جس کا دعوی تھا

یہ ماہتاب زمیں پر اتر نہیں سکتا


بس ایک عشق ہی صحرا میں ڈھوتا رہتا ہوں

میں کوٸی اور مشقت تو کر نہیں سکتا


ترے گلے میں جو کشکول حرص و لالچ ہے

زمیں کے چاند ستاروں سے بھر نہیں سکتا


عمران انجم


جبیب بنارسی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1965


آج کا دور بھی افسوس اسی ہیجان میں ہے

قیصریّت کی ادا کیوں ابھی سلطان میں ہے


میں عقیدت کو نہ بدلوں گا تمھارے ڈر سے

پختگی ظالمو! اب بھی مرے ایمان میں ہے


آج خورشیدِ مصائب ہے سوا نیزے پر

اب تو ہر شخص یہاں حشر کے میدان میں ہے


کیسے انصاف ہو قانون میں ٹھہراؤ نہیں

ایک ہلچل سی ابھی عدل کی میزان میں ہے


خوشنما پھول کی مانند حبیبِ ناداں

نقشِ پا آج بھی دیکھ آؤ بیابان میں ہے


 حبیب بنارسی


شارق خلیل آبادی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1956


شاید مرے اپنے مرے قاتل تو نہیں تھے

احباب ٰمرے خون میں شامل تو نہیں تھے


جو چھوڑ گئے ساتھ یوں لشکر کا اچانک

ایسا مجھے لگتا ہےٰ وہ بزدل تو نہیں تھے


کچھ لوگ جو تعریف مری کر کے گئے ہیں

وہ میری تمناؤں کے قاتل تو نہیں تھے


حق گوئی پہ جو لوگ بھڑک اٹھتے تھے ہم پر

لگتا ہے وہ شیدائی باطل تو نہیں تھے


رسوا جو ہوئے بزم ادب سے تری کل شب

تہذیب کے ارکان سے غافل تو نہیں تھے


یہ موج بہا لائی ہے منجدھار میں جن کو

وہ لوگٰ بتاؤ لب ساحل تو نہیں تھے


 ہاں عشق میں تم ٹوٹ کے بکھرے تھے یقینا

پر صورتٍ شارق کبھی تٍل تٍل تو نہیں تھے


شارق خلیل آبادی


نہال رضوی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1957


مت کرئے چھیڑ چھاڑ چمن کے اصول سے

کانٹے الگ نہ کیجئے گلشن میں پھول سے


کسدرجہ تلملائی ہیں خوشیاں نہ پوچھئے

دل پر مرے صحیفہء غم کے نزول سے


حالت کسی بھی دور میں ایسی نہ تھی کبھی

 خطرہ ہے آج علم کو جتنا جہول سے

 

کھو جائیں آسمان تو حیرت نہ کیجئے

افلاک پٹ گئے ہیں کچھ اسدرجہ دھول سے


جاکر وہاں حیات کا مقصد نہ ڈھونڈھئے

اکثر ہمارے فعل جہاں ہوں فضول سے


چہرے اتر گئے ہیں ہماری خوشی سے کیوں

کیوں دوست لگ رہے ہیں ہمارے ملول سے


شکوہ کسی سے اور مناسب نہیں نہال 

ہم دربدر ہوئے ہیں خود اپنی ہی بھول سے


نہال رضوی


اعتبار ساجد

 یوم پیدائش 01 جولائی 1948


تمہیں جب کبھی ملیں ' فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتاردو

میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو


مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال وخد

مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو، مرے سارے زنگ اتار دو


کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ

میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو' میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو


مری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے جدائیوں کے عذاب نے

مرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا' مری دھڑکنوں کو قرار دو


تمہیں صبح کیسی لگی کہو' مری خواہشوں کے دیار کی

جو بھلی لگی تو یہیں رہو' اسے چاہتوں سے نکھار دو


وہاں گھر میں کون ہے منتظر کہ ہو فکر دیر سویر کی

بڑی مختصر سی یہ رات ہے اسی چاندنی میں گزار دو


کوئی بات کرنی ہے چاند سے کسی شاخسار کی اوٹ میں

مجھے راستے میں یہیں کہیں کسی کنج گل میں اتار دو


اعتبار ساجد


Wednesday, June 30, 2021

ظہور احمد

 یوم پیدائش 30 جون

 

اپنے آئینہء احساس میں دیکھو مجھ کو

مجھ کو محسوس کرو مجھ سے نہ پوچھو مجھ کو


اک تبسم کے عوض جان بھی حاضر ہے مگر

اتنا ارزاں بھی نہیں ہوں کہ خریدو مجھ کو


رک گئے کیوں حد ادراک سے آگے جا کر

منظر دیدہء حیرت سے پکارو مجھ کو


قید گل سے بھی نکل جاوں گا خوشبو کی طرح

تم نہ بھنورے کی طرح پھول میں ڈھونڈو مجھ کو


میں بھی بکھرا ہوں کسی زلف پریشاں کی طرح

اپنے ہاتھوں سے کوئ آ کے سنوارو مجھ کو


ظہور احمد


فرخ نواز فرخ

 نہیں ہے پاس مگر تو دکھائی دیتا ہے

ترا خیال مجھے کب رہائی دیتا ہے


ترے لبوں سے ادا ہو اگر کوئی جملہ

مجھے وہ شعر کی صورت سنائی دیتا ہے


مرا گمان بدل جاتا ہے حقیقت میں

بغیر پوچھے جب اپنی صفائی دیتا ہے


گھٹا بھی دے یہ جدائی کا بے ثمر موسم

بھلا تو کیوں مجھے زخم جدائی دیتا ہے


قریب آ کے فقط ایک فکر لاحق ہے

وہ دل تک اپنے مجھے کب رسائی دیتا ہے


مرے رفیق مرے غم گسار تو ہی بتا

ہر ایک چہرے میں وہ کیوں دکھائی دیتا ہے


مری کتاب کی کوئی غزل اٹھا لے تو

ہر ایک شعر کا مصرع دہائی دیتا ہے


جو میری مانے تو فرخؔ اسے بھلا دے اب

وفا کے بدلے میں جو بے وفائی دیتا ہے 


فرخ نواز فرخ


کرار نوری

 یوم پیدائش 30 جون 1916


ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے

لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے


ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا

کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے


کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے

محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے


ہم زندگی کی جہد مسلسل کے واسطے

موجوں کی طرح سینۂ طوفاں میں ڈھل گئے


جب بھی کوئی فریب دیا اہل دہر نے

ہم اک نظر شناس کوئی چال چل گئے


حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح

تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے


ہم نے لچک نہ کھائی زمانے کی ضرب سے

گو حادثات دہر کی رو میں کچل گئے


نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں

ہم دامن حیات پکڑ کر مچل گئے


کرار نوری


خالق اخلاق

 یوم پیدائش 30 جون 


شفق ستارے دھنک کہکشاں بناتے ہوئے

وہ اس زمیں پہ ملا آسماں بناتے ہوئے


بھٹک نہ جائیں مرے بعد آنے والے لوگ

میں چل رہا ہوں زمیں پر نشاں بناتے ہوئے


چلو اب ان کی بھی بستی میں پھول بانٹ آئیں

جو تھک چکے ہیں یہ تیر و کماں بناتے ہوئے


مرے وجود کی رسوائیو تمہاری قسم

ہے دل میں خوف پھر اک رازداں بناتے ہوئے


جلائے ہاتھ تحفظ میں ورنہ آندھی سے

چراغ بجھ گیا ہوتا دھواں بناتے ہوئے


پڑا ہوا ہے وہ تاریکیوں کے ملبے میں

خیال و خواب میں اک کہکشاں بناتے ہوئے


یہی ہو اجر مرے کار خیر کا شاید

اکیلا رہ گیا خود کارواں بناتے ہوئے


زمیں پہ بیٹھ گیا تھک کے دو گھڑی خالدؔ

امیر لوگوں کی وہ کرسیاں بناتے ہیں


خالد اخلاق


Tuesday, June 29, 2021

روبن سن روبی

 یوم پیدائش 29 جون 1998


میں جدھر جاؤں کرتے جاتے ہیں

میری راہوں میں روشنی آنسو


چار چیزیں ہیں میرا سرمایہ

خامشی ، درد ، بے بسی آنسو


عشق آنکھوں کو نور دیتا ہے

اور دیتی ہے دل لگی آنسو


وہ کہاں راستہ بھٹکتے ہیں 

جن کی کرتے ہیں رہبری آنسو


تُو چلا ہے تو گِر کے پلکوں سے

کر گیا آج خودکشی آنسو


چاہتا ہوں خوشی کا کہلائے

ہے مِرے پاس آخری آنسو


روبن سن روبی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...