Urdu Deccan

Friday, July 16, 2021

جاوید عارف

 وقت کے آلام میں ہر شخص ہے الجھا ہوا

میں اکیلے ہی نہیں وحشت زدہ ٹوٹا ہوا


اے مسیحا چھوڑ دے اب حال پر اپنے مجھے 

زخمِ دل چارہ گر ی سے اور بھی گہرا ہوا 


آگ گلشن میں لگائی سرکشوں نے ہی مگر

سر کسی معصوم کا ہے دار پر لٹکا ہوا 


موت کی دہلیز کے آگے کھڑی ہے زندگی 

میں ابھی ہوں مال و زر کی حرص میں الجھا ہوا


برق سے پہلے ہوا نے سازشیں کی اس قدر

راکھ کی صورت نشیمن ہے مرا،بکھرا ہوا


دیکھ کر وحشت زدہ ہوں میں چمن کے حال پر

شاخِ گل ہے باغباں کے خوف سے سہما ہوا 


لاکھ تدبیریں کی عارف کچھ نہیں بدلا مگر

جو مقدر میں خدا نے تھا مرے لکھا ہوا


  جاوید عارف


شوزیب کاشر

 سفر پسند کبھی تھا نہ ہوں کہ چلتا رہوں

وہ بے گھری ہے مگر جوں کی توں کہ چلتا رہوں


تمہارے ساتھ سے مطلب ہے منزلوں سے نہیں

قدم قدم پہ ہے ایسا سکوں کہ چلتا رہوں


نہ رنجِ آبلہ پائی نہ خوفِ دربدری

الگ ہی دُھن ہے کوئی ان دنوں کہ چلتا رہوں


کہیں پہنچنا بھی ہے اور چلنا بھی مشکل 

عجیب مخمصے میں ہوں رکوں کہ چلتا رہوں


یہ گمرہی تو کبھی ختم ہونے والی نہیں 

سو زہزنوں سے بھی ملتا چلوں کہ چلتا رہوں


پتے کی بات کھڑے پانیوں سے سیکھی ہے

طرف کوئی بھی ہو بہتا رہوں کہ چلتا رہوں


نہ رہبروں سے شکایت نہ رہزنوں سے گلہ

مری تو اپنی بھی چاہت تھی یوں کہ چلتا رہوں


نہ سنگِ میل ، نہ نقشِ قدم ، نہ قطب نما

نہ ضو فگن ہے فلک نیلگوں کہ چلتا رہوں


کٹھن ضرور ہے مانا یہ زندگی کا سفر

شکستہ پا ہوں پر اتنا تو ہوں کہ چلتا رہوں


تلاشِ ذات بھی کاشر عجب مصیبت ہے

تھکن سے چور ہوں لیکن جنوں کہ چلتا رہوں


شوزیب کاشر


دلاور فگار

 یوم پیدائش 08 جولائی 1929


وطن والو! یہ مصنوعی گرانی دیکھتے جاؤ

کہ سستا ہے لہو، مہنگا ہے پانی دیکھتے جاؤ


وہ شے جسکے لئے جنت کو ٹھکرایا تھا آدم نے

وہ شئے پھر ہو گئی خلد آشینائی دیکھتے جاؤ


جنہیں روٹی نہیں ملتی وہ دس بچوں کے والد ہیں

یہ افلاس اور یہ جوش جوانی دیکھتے جاؤ


ہر اک والد یہاں مثلِ مصور ہم سے کہتا ہے

کہ بعد نقشِ اول نقشِ ثانی دیکھتے جاؤ


غریبوں کے لئے راشن امیروں کے لئے خرمن

مگر مارے گئے ہم درمیانی دیکھتے جاؤ


فگار اس دور میں بھی طنزیہ اشعار کہتا ہے

تم اس شاعر کی آشفتہ بیانی دیکھتے جاؤ


دلاور فگار


منور لکھنوی

 یوم پیدائش 08 جولائی 1897


ہزار کفر ہیں اک چشم پارسا میں تری

بھری ہوئی ہے شرارت ادا ادا میں تری


بقا کو اپنی مشیت تری سمجھتا ہوں

مری حیات‌ قضا کار ہے رضا میں تری


مرے حبیب مری آخرت کے اے ضامن

مرے نصیب کی جنت ہے خاک پا میں تری


یہ کس مقام سے تو نے خطاب فرمایا

سنی گئی مری آواز بھی صدا میں تری


یہ سوچ کر نہ منورؔ نے کچھ کیا شکوہ

وفا کی داد کا پہلو بھی ہے جفا میں تری


منور لکھنوی


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 نظم حیدرآباد دکن


حیدرآباد ہے سرچشمہ تہذیب کہن

جس کی عظمت کے نشاں اس کے ہیں آبنائے وطن


ضوفگن اس میں تھے ہر دور میں حکمت کے چراغ

ہے یہ تہذیب و تمدن کا تر و تازہ چمن


چارمینار ہی اس کی نہیں عظمت کا نشاں

قابل دید ہیں اس کے سبھی آثار کہن


میوزیم اس کا ہے اقصائے جہاں میں مشہور

ہے جو تہذیب و ثقافت کا ہماری درپن


بہمنی اور قطب شاہی زمانے سے یہاں

علم و عرفان کی ہے شمع فروزاں روشن


زیب تاریخ ہیں اسمائے گرامی جن کے

ہے یہ صدیوں سے مشاہیر ادب کا مدفن


مجتبی مغنی و مخدوم کے افکار سے ہے

نام اس شہر کا دنیائے ادب میں روشن


تھا یہ ہر دور میں گہوارہ اردو برقی

صوفگن آج بھی اس شہر میں ہے شمع سخن


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی


حسنین عاقب

 یوم پیدائش 08 جولائی 1971


اور تھوڑا سا بکھر جاؤں یہی ٹھانی ہے

زندگی میں نے ابھی ہار کہاں مانی ہے


ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو کچھ ملتا نہیں

دشت و صحرا کی میاں خاک کبھی چھانی ہے


قتل کو قتل جو کہتے ہیں غلط کہتے ہیں

کچھ نہیں ظل الٰہی کی یہ نادانی ہے


سہم جاتے ہیں اگر پتہ بھی کوئی کھڑکے

جانتے سب ہیں ترا ذمہ نگہبانی ہے


اپنی غیرت کا سمندر ابھی سوکھا تو نہیں

بوند بھر ہی سہی آنکھوں میں ابھی پانی ہے


حسنین عاقب


مینو بخشی

 یوم پیدائش 08 جولائی 1955


کچھ تو خودی کا رنگ ہے کچھ بے خودی کا رنگ

دونوں کا امتزاج ہے یہ زندگی کا رنگ


پیش نگاہ میرے ہزاروں ہی رنگ تھے

دل نے کیا پسند مگر آپ ہی کا رنگ


یہ ہے فریب چشم کہ یہ دل کا واہمہ

ہر گل میں دیکھتی ہوں گل‌ کاغذی کا رنگ


اس کو بھلائے گرچہ زمانہ گزر گیا

آتا ہے یاد آج بھی مجھ کو اسی کا رنگ


رنگیں ہے جس کے دم سے مری کائنات دل

وہ ہے جمال یار کی تابندگی کا رنگ


آہیں بھرے گا کب کوئی پھولوں کو دیکھ کر

آئے گا کب کسی میں بھلا دلبری کا رنگ


اس میں ہے رنگ تیرے رخ بے مثال کا

سب سے جدا ہو کیوں نہ مری شاعری کا رنگ


مینو بخشی


عالم فیضی

 یوم پیدائش 08 جولائی 1990


مشکلوں میں رہ کے اب ہر خوشی نہیں ملتی

زندگی تو ملتی ہے پر بھلی نہیں ملتی


جب سے مل گئی دولت بھول بیٹھے یوں رب کو

ان کی اب دعاؤں میں عاجزی نہیں ملتی


پھر رہا ہے بن کے تو قوم کا مسیحا جو 

تجھ میں کچھ بزرگوں سی سادگی نہیں ملتی


بیٹھ کر جو کرتے ہیں محفلوں میں لفاظی

قول میں بھی اب ان کے دل کشی نہیں ملتی


دیکھنے میں لگتے ہیں جو بہت ہی بھولے سے

لب جو ان کا وا ہوتا کچھ ہنسی نہیں ملتی


شکر رب کی نعمت کا جو سدا نہیں کرتے 

ان کو رب کی دولت بھی دائمی نہیں ملتی


جان بھی اگر عالم تم انھیں ہبہ کردو 

ظالموں کی آنکھوں میں کچھ نمی نہیں ملتی


عالم فیضی


داؤد اسلوبی

 یوم پیدائش 07 جولائی 1961


زندگی اجنبی سی لگتی ہے

آپ کی اک کمی سی لگتی ہے


تم نہ آئے تو روشنی کیسی 

 دور تک تیرگی سی لگتی ہے


اس کا چہرہ ہے چاند سا چہرہ

یاد بھی چاندنی سی لگتی ہے


اسکے ہونٹوں سے پھول جھڑتے ہیں

وہ مجھے پھل جھڑی سی لگتی ہے


اسکی آنکھوں میں روشنی کم ہے

نبض میں بر ہمی سی لگتی


ختم ہوگا نہ زندگی کا سفر

 دور منزل کھڑی سی لگتی


دورِ حاضر ترا خدا حافظ

رہبری رہزنی سی لگتی ہے


وہ نہیں بزم ناز میں داؤد

ایک اس کی کمی سی لگتی ہے


داؤد اسلوبی


اقبال عظیم

 یوم پیدائش 08 جولائی 1913


مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے

اس زندگی کو ہم نے بہت کچھ دیا بھی ہے


محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں

شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے


قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں

اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے


غرقاب کر دیا تھا ہمیں ناخداؤں نے

وہ تو کہو کہ ایک ہمارا خدا بھی ہے


ہو تو رہی ہے کوشش آرائش چمن

لیکن چمن غریب میں اب کچھ رہا بھی ہے


اے قافلے کے لوگو ذرا جاگتے رہو

سنتے ہیں قافلے میں کوئی رہنما بھی ہے


ہم پھر بھی اپنے چہرے نہ دیکھیں تو کیا علاج

آنکھیں بھی ہیں چراغ بھی ہے آئنا بھی ہے


اقبالؔ شکر بھیجو کہ تم دیدہ ور نہیں

دیدہ وروں کو آج کوئی پوچھتا بھی ہے


اقبال عظیم


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...