وقت کے آلام میں ہر شخص ہے الجھا ہوا
میں اکیلے ہی نہیں وحشت زدہ ٹوٹا ہوا
اے مسیحا چھوڑ دے اب حال پر اپنے مجھے
زخمِ دل چارہ گر ی سے اور بھی گہرا ہوا
آگ گلشن میں لگائی سرکشوں نے ہی مگر
سر کسی معصوم کا ہے دار پر لٹکا ہوا
موت کی دہلیز کے آگے کھڑی ہے زندگی
میں ابھی ہوں مال و زر کی حرص میں الجھا ہوا
برق سے پہلے ہوا نے سازشیں کی اس قدر
راکھ کی صورت نشیمن ہے مرا،بکھرا ہوا
دیکھ کر وحشت زدہ ہوں میں چمن کے حال پر
شاخِ گل ہے باغباں کے خوف سے سہما ہوا
لاکھ تدبیریں کی عارف کچھ نہیں بدلا مگر
جو مقدر میں خدا نے تھا مرے لکھا ہوا
جاوید عارف