Urdu Deccan

Saturday, July 31, 2021

واجد علی شاہ

 یوم پیدائش 30 جولائی 1823


سہے غم پئے رفتگاں کیسے کیسے

مرے کھو گئے کارواں کیسے کیسے


وہ چتون وہ ابرو وہ قد یاد سب ہے

سناؤں میں گزرے بیاں کیسے کیسے


مرے داغ سوزاں کا مضموں نہ سوچو

جلے کہہ کے آتش‌ زباں کیسے کیسے


رہا عشق سے نام مجنوں کا ورنہ

تہ خاک ہیں بے نشاں کیسے کیسے


شب وصل میں مہ کو عریاں کریں گے

عیاں ہوں گے راز نہاں کیسے کیسے


کمر یار کی ناتوانی میں ڈھونڈی

توہم ہوئے درمیاں کیسے کیسے


کلیجے میں اخترؔ پھپھولے پڑے ہیں

مرے اٹھ گئے قدرداں کیسے کیسے


واجد علی شاہ اختر


ماہر القادری

 یوم پیدائش 30 جولائی 1906


ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی

دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی


ایک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا

سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی


اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتے ہیں سفینے

طوفاں کو خودی دامن ساحل نے ہوا دی


مانا کہ میں پامال ہوا زخم بھی کھائے

اوروں کے لیے راہ تو آسان بنا دی


اتنی تو مئے ناب میں گرمی نہیں ہوتی

ساقی نے کوئی چیز نگاہوں سے ملا دی


وہ چین سے بیٹھے ہیں مرے دل کو مٹا کر

یہ بھی نہیں احساس کہ کیا چیز مٹا دی


اے باد چمن تجھ کو نہ آنا تھا قفس میں

تو نے تو مری قید کی میعاد بڑھا دی


لے دے کے ترے دامن امید میں ماہرؔ

ایک چیز جوانی تھی جوانی بھی لٹا دی


ماہر القادری


سید رئیس احمد

 یوم پیدائش 23 فروری 1992


ایسی چاہت مجھے عطا کردے

عشق ہو جائے تو فنا کردے 


قوم و ملت کا جذبہ زندہ رہے

دل میں تابندہ مدعا کردے


عقدۂ زیست مجھ پہ کھل جائے

تو، حقیقت سے آشنا کردے


 جو بھی دیکھے مجھے سنور جائے

اے خدا مجھکو آئینہ کردے


شہر کا شہر ہو گیا ویران

اس کو پھر سےچمن نما کردے


جھوٹ کے سامنے نہ سر خم ہو

اپنے قد سے مجھے بڑا کردے


ہر طرف تیرگی کا غلبہ ہے

کوئی روشن یہاں دیا کردے


مجھکو سید رئیس کہتے ہیں

دل رئیسانہ اے خدا کردے


سید رئیس احمد


ضمیر قیس

 یوم پیدائش 29 جولائی 1975


ترے درویش جو احساس ِ زیاں رکھتے ہیں

ایسے طوفان ، سمندر بھی کہاں رکھتے ہیں


تم یہ مرجھائے ہوئے پھول کہاں لے آئے ؟

ہم تو متروک صحیفوں کو یہاں رکھتے ہیں


بیٹھ جاتے ہیں درختوں کی گھنی چھاؤں میں

بوڑھے ماں باپ کی یادوں کو جواں رکھتے ہیں


اب تو ہر شخص ہی اندازہ لگا لیتا ہے

ہم اذیت ہو کہ خواہش ہو ، نہاں رکھتے ہیں


وہ بھی لب ہیں جو مٹا دیتے ہیں خود گھونٹ کی پیاس

وہ بھنور بھی ہیں جو کشتی کو رواں رکھتے ہیں


سب کی قسمت میں نہیں ہوتا ہے پنجرے کا سکون

کچھ پرندے ہیں جو محفوظ مکاں رکھتے ہیں


ہم فقیروں کی اداسی نہیں جانے والی

ہم بہاروں سے چھپا کر یہ خزاں رکھتے ہیں


بند کی جاتی نہیں کوئی اچانک سے کتاب

عشق رستے میں بھی چھوڑیں تو نشاں رکھتے ہیں


جانے بازار میں کیا شعبدہ برداری ہے !

دام بڑھ جاتے ہیں انگلی کو جہاں رکھتے ہیں


ہم بھی شانوں کے فرشتوں کی طرح ہیں جو ضمیر

لکھتے سب کچھ ہیں مگر بند زباں رکھتے ہیں


ضمیر قیس


عامر قدوائی

 یوم پیدائش 29 جولائی 1952  


دعائیں مانگ رہے ہیں سبھی سحر کے لئے

بہت ضروری ہے سورج نیا بشر کے لئے


زمین بانجھ نہ ہو جائے شدتِ غم سے

ابھی سے فکر کرو اس کے بال و پر کے لئے


خلوصِ دل سے ملو وہ سنوار دے گا تمہیں

نہیں ہے کام یہ مشکل ستارہ گر کے لئے


بہا لے اشکِ ندامت وہ بخش دے گا تجھے

کھلا ہوا ہے ابھی در گناہ گر کے لئے


اندھیرے کاٹ کے پھر آسماں کرو روشن

کہ روشنی بھی ضروری ہے ہر نگر کے لئے


یہ مہر و ماہ سبھی کھو چکے چمک اپنی

نئے چراغ ضروری ہیں اب سفر کے لئے


  عامر قدوائی


عارش کاشمیری

 یوم پیدائش 27 جولائی 1970


کہنے کو گو عمر پڑی تھی

چھوٹا منہ اور بات بڑی تھی


تُند ہوا کا رستہ روکے

دھوئیں کی دیوار کھڑی تھی


آگ کا دریا پار کیا تو

سامنے بیٹھی دھوپ کڑی تھی


اپنوں کی بستی میں عارش

سب کو اپنی اپنی پڑی تھی


عارش کاشمیری


تابش رامپوری ممبئی

 یوم پیدائش 17 مارچ 1970


ایسے چھلکاؤ نہ جذبات چلو سو جاؤ

ہو چکی اشکوں کی برسات چلو سو جاؤ


ساز اب تار نفس پہ تو مچلتے ہی نہیں 

کیا سنیں ایسے میں نغمات چلو سو جاؤ


تھک کے سورج بھی سمندر میں سمایا دیکھو 

شب کے ظاہر ہیں علامات چلو سو جا 


دن کو سونے سے تو برکت نہیں آتی گھر میں

اب تو بدلو یہ روایات چلو سو جاؤ


سب کو دریا کے کنارے ہی ہوائیں ملتیں

ہیں یہ فرسودہ خیالات چلو سو جاؤ


زلف سے باندھ کے تابش کو یہیں قید کرو

ایسے ضائع نہ کرو رات چلو سو جاؤ


تابشِ رامپور ی ممبئی


اورنگ زیب

 یوم پیدائش 28 جولائی


حدودِ ذات سے آگے سفر نہیں کروں گا

مَیں کائنات سے آگے سفر نہیں کروں گا


رہوں گا شعر کی دنیا میں مست و بے خود مَیں

قلم دوات سے آگے سفر نہیں کروں گا


تو کیا سرور سے آگے مجھے نہیں جانا ؟

تو کیا ثبات سے آگے سفر نہیں کروں گا ؟


عجیب دن تھا جو کہتا تھا میرے کانوں میں

مَیں آج رات سے آگے سفر نہیں کروں گا


تمھارے ساتھ ہی چلنا ہے مجھ کو منزل پر

تمھارے ساتھ سے آگے سفر نہیں کروں گا


کُھلا جو مجھ پہ تو مَیں خود سے ہو گیا بے دخل

کہ مَیں حیات سے آگے سفر نہیں کروں گا


مَیں اک لکیر ہوں کھینچی ہے جو مقدر نے

سو تیرے ہاتھ سے آگے سفر نہیں کروں گا


تمھارے حکم کی تکمیل کرنا ہے مجھ کو

تمھاری بات سے آگے سفر نہیں کروں گا


یہ حدِ خاک مری زندگی ہے زیبؔ سو مَیں

اس احتیاط سے آگے سفر نہیں کروں گا


اورنگ زیبؔ


اشفاق عامر

 یوم پیدائش 28 جولائی 1970


اپنی وحشت سے جو ڈرتا ہی چلا جاتا ہے

دل کے صحرا میں بکھرتا ہی چلا جاتا ہے


اس کی باتوں کا دیا جلتا ہے جب آنکھوں میں

شہر شب نور سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے


کم نہیں مے سے محبت میں خیالوں کا نشہ

آدمی حد سے گزرتا ہی چلا جاتا ہے


تیری آواز کے شاداب جہانوں سے پرے

کوئی ویرانی سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے


دھوپ اس شہر کی گلیوں میں کہاں ٹھہرے گی

سائے پر سایہ اترتا ہی چلا جاتا ہے


وقت کا یہ ہے کہ ہر تلخی و شیرینی سمیت

سلسلہ وار گزرتا ہی چلا جاتا ہے


وصل کا ایک اشارا بھی بہت ہے ہم کو

ہجر کا زخم تو بھرتا ہی چلا جاتا ہے


اشفاق عامر


فہمیدہ ریاض

 یوم پیدائش 28 جولائی 1945


پتھر سے وصال مانگتی ہوں

میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں


شاید پاؤں سراغ الفت

مٹھی میں خاک بھر رہی ہوں


ہر لمس ہے جب تپش سے عاری

کس آنچ سے یوں پگھل رہی ہوں


وہ خواہش بوسہ بھی نہیں اب

حیرت سے ہونٹ کاٹتی ہوں


اک طفلک جستجو ہوں شاید

میں اپنے بدن سے کھیلتی ہوں


اب طبع کسی پہ کیوں ہو راغب

انسانوں کو برت چکی ہوں


فہمیدہ ریاض


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...