Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

اقبال احمد اقبال

 یوم پیدائش 13اگست 1969


حسن جاناں جو نگاہوں میں ٹھہر جائے گا 

پھر اسے چھوڑ کے دیوانہ کدھر جائے گا 


جاں بلب رہتا ہے یہ درد محبت ہر دم 

زخم تلوار نہیں ہے کہ جو بھر جائے گا 


جام الفت ہے اثر ہوگا یقینا دل پر 

" کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا"


وادئ عشق میں آئے ہو سنبھل کر چلنا 

ورنہ یہ دور تلک گرد سفر جائے گا 


دل بیمار کو اک بار نظارہ دے دے 

غم جاناں ہے ذرا اور نکھر جائے گا 


کس کو معلوم تھا آئے گا زمانہ یہ بھی 

آدمی اپنی ہی نظروں سے اتر جائے گا 


لاکھ احساس محبت کو چھپالوں اقبال 

" وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا "


( اقبال احمد اقبال )


دوارکا داس شعلہ

 یوم پیدائش 13 اگست 1910


اپنوں کے ستم یاد نہ غیروں کی جفا یاد

وہ ہنس کے ذرا بولے تو کچھ بھی نہ رہا یاد 


کیا لطف اٹھائے گا جہان گزراں کا

وہ شخص کہ جس شخص کو رہتی ہو قضا یاد


ہم کاگ اڑا دیتے ہیں بوتل کا اسی وقت

گرمی میں بھی آ جاتی ہے جب کالی گھٹا یاد


محشر میں بھی ہم تیری شکایت نہ کریں گے

آ جائے گی اس دن بھی ہمیں شرط وفا یاد


پی لی تو خدا ایک تماشا نظر آیا

آیا بھی تو آیا ہمیں کس وقت خدا یاد


اللہ ترا شکر کہ امید کرم ہے

اللہ ترا شکر کہ اس نے بھی کیا یاد


کل تک ترے باعث میں اسے بھولا ہوا تھا

کیوں آنے لگا پھر سے مجھے آج خدا یاد


دوارکا داس شعلہ


کرم حیدری

 یوم پیدائش 12اگست 1915


میں دشت زندگی کو چلا تھا نکھارنے

اک قہقہہ لگایا گزرتی بہار نے


گزرا ہوں جب سلگتے ہوئے نقش چھوڑتا

دیکھا ہے مجھ کو غور سے ہر رہ گزار نے


میکش نے جام زہر ہی منہ سے لگا لیا

پاگل بنا دیا جو نشے کے اتار نے


انسان حد‌ نور سے آگے نکل گیا

چھوڑا مگر نہ اس کو لہو کی پکار نے


ان مہ رخوں کی ہم سے جو یہ بے رخی رہی

جانا پڑے گا چاند پہ کچھ دن گزارنے


کرتے ہیں وہ ستارے بھی اب مجھ پہ چشمکیں

چمکا دیا جنہیں مری شب ہائے تار نے


ان گل کدوں کو بھی کوئی اے کاش دیکھتا

جھلسا ہے جن کو آتش فصل بہار نے


لاؤں کہاں سے ان کے لیے اور غم گسار

جو غم دئے ہیں مجھ کو مرے غم گسار نے


میری سرشت میں تھی محبت کی پرورش

مجھ کو قلم دیا مرے پروردگار نے


بخشا ہے اپنے حسن کا پرتو مجھے کرمؔ

فطرت کے ہر جمیل و حسیں شاہکار نے


کرم حیدری


وحید اختر

 یوم پیدائش 12 اگست 1935


اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے

سکوت ایسا نہیں ہے جو کچھ سنائی نہ دے 


جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی

نہ سننا چاہو تو دل کی صدا سنائی نہ دے


جو دیکھنا ہو تو آئینہ خانہ ہے یہ سکوت

ہو آنکھ بند تو اک نقش بھی دکھائی نہ دے 


یہ روحیں اس لیے چہروں سے خود کو ڈھانپے ہیں

ملے ضمیر تو الزام بے وفائی نہ دے


کچھ ایسے لوگ بھی تنہا ہجوم میں ہیں چھپے

کہ زندگی انہیں پہچان کر دہائی نہ دے


ہوں اپنے آپ سے بھی اجنبی زمانے کے ساتھ

اب اتنی سخت سزا دل کی آشنائی نہ دے


سبھی کے ذہن ہیں مقروض کیا قدیم و جدید

خود اپنا نقد دل و جاں کہیں دکھائی نہ دے 


بہت ہے فرصت دیوانگی کی حسرت بھی

وحیدؔ وقت گر اذن غزل سرائی نہ دے


وحید اختر


جمیل ملک

 یوم پیدائش 12اگست 1928


رستے میں لٹ گیا ہے تو کیا قافلہ تو ہے

یارو نئے سفر کا ابھی حوصلہ تو ہے


واماندگی سے اٹھ نہیں سکتا تو کیا ہوا

منزل سے آشنا نہ سہی نقش پا تو ہے


ہاتھوں میں ہاتھ لے کے یہاں سے گزر چلیں

قدموں میں پل صراط سہی راستا تو ہے


مانگے کی روشنی تو کوئی روشنی نہیں

اس دور مستعار میں اپنا دیا تو ہے


یہ کیا ضرور ہے میں کہوں اور تو سنے

جو میرا حال ہے وہ تجھے بھی پتا تو ہے


اپنی شکایتیں نہ سہی تیرا غم سہی

اظہار داستاں کا کوئی سلسلہ تو ہے


ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے اسے

وہ یار با وفا نہ سہی بے وفا تو ہے


وہ آئے یا نہ آئے ملاقات ہو نہ ہو

رنگ سحر کے پاس خرام صبا تو ہے


پاؤں کی چاپ سے مری دھڑکن ہے ہم نوا

اس دشت ہول میں کوئی نغمہ سرا تو ہے


سورج ہمارے گھر نہیں آیا تو کیا ہوا

دو چار آنگنوں میں اجالا ہوا تو ہے


کانٹا نکل بھی جائے گا جب وقت آئے گا

کانٹے کے دل میں بھی کوئی کانٹا چبھا تو ہے


میں ریزہ ریزہ اڑتا پھروں گا ہوا کے ساتھ

صدیوں میں جھانک کر بھی مجھے دیکھنا تو ہے


آشوب آگہی کی شب بے کنار میں

تیرے لیے جمیلؔ کوئی سوچتا تو ہے


جمیل ملک


ادہم گوونڈی

 یوم پیدائش 10 اگست 


موسلا دھار ہے برسات چلے آؤ اب

مان بھی جاؤ مِری بات چلے آؤ اب 


آپ سے بچھڑے ہوئے بیت گیا ایک برس

آپ سے کر لوں ملاقات چلے آؤ اب


ہجر کے دن کو شبِ وصل میں تبدیل کرو

سرد پڑ جائیں نہ جذبات چلے آؤ اب


مشورہ دیجیے دل کو میں سنبھالوں کیسے

چاہتا ہے یہ خرافات چلے آؤ اب


اب نہ تڑپاؤ، تمھیں اس رخ زیبا کی قسم

منتظر رہتا ہوں دن رات چلے آؤ اب


آسرا ہے مجھے بس آپ کا میرے ادہمؔ 

 ہر طرف ہیں مِرے صدمات چلے آؤ اب

 

 ادہمؔ گونڈوی


ادیب دموہی

 یوم پیدائش 10 اگست 1978 


گلوں میں رنگ بھلے موسمِ بہار کا ہے

مگر یہ رنگ حقیقت میں وصلِ یار کا ہے


شکست کھا کے محبت میں غم نہیں کرنا

وہ جانثار نہیں جس کو رنج ہار کا ہے


طلب میں پھولوں کے ہاتھوں کو کر لیا زخمی

سمجھ رہے ہیں کہ یہ بھی قصور خار کا ہے 


عمل کو دیکھو نہ زر خار پیراہن دیکھو 

مدارِ حسن عمل پر ہی ذی وقار کا ہے


نہ وصلِ یار نہ دنیا کی رونقوں میں ہے وہ

جو لطف دوستو الفت میں انتظار کا ہے


بہانا کر نہیں پایا میں چاہ کر بھی ادیب

کہ حکم پینے کا مجھ کو نگاہ یار کا ہے 


ادیب دموہی


Wednesday, September 15, 2021

عقیل عباس جعفری

 یوم پیدائش 10 اگست 1957


رہیے احباب سے کٹ کر کہ وبا کے دن ہیں

سانس بھی لیجیے ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


وہ جنہیں خود سے بھی ملنے کی نہیں تھی فرصت

رہ گئے خود میں سمٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


رونق بزم جہاں خود کو سمجھنے والے

آ گئے گھر کو پلٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


کیا کسی اور سے اب حرف تسلی کہیے

روئیے خود سے لپٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


ایک جھٹکے میں ہوئے شاہ و گدا زیر و زبر

رہ گئی دنیا الٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


سب کو معلوم ہے تعبیر تو یکساں ہوگی

خواب ہی دیکھ لیں ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


ایک کمرے میں سمٹ آئی ہے ساری دنیا

رہ گئے خانوں میں بٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


یہ مرا رنگ تغزل تو نہیں ہے لیکن

اک غزل لکھی ہے ہٹ کر کہ وبا کے دن ہیں


عقیل عباس جعفری


اشتیاق احمد یار

 یوم پیدائش 10 اگست


دیارِ عشق میں محشر بپا تھا

کسی کی آنکھ سے آنسو گِرا تھا


لگی تھی آگ سارے پانیوں میں

کلی نے قطرہء شبنم چُھوا تھا


نہیں ایسا کسی کی شاعری میں

جو میں نے آنکھ میں اُس کی پڑھا تھا


گِرا طوفاں کے آگے بے بسی سے

ضرورت سے شجر اونچا ہُوا تھا


کہاں اب لوٹ کے آئے گا وہ دن

کسی نے جب مجھے اپنا کہا تھا


قدم رنجا ہوئے صحرا میں جب وہ

گلستاں جا کے صحرا میں بسا تھا


میں زنداں میں مقیّد تھا ولیکن

خیالِ یار کا روزن کُھلا تھا


جہاں پر لوگ مَنّت مانگتے تھے

وہ میرے دلبراں کا نقشِ پا تھا


میسّر تھا نہیں پانی کہیں پر

کہ دریا آنکھ میں اُترا ہوا تھا


اشتیاق احمد یاد


پاپولر میرٹھی

 یوم پیدائش 09 اگست 1956


ایک بیوی کئی سالے ہیں خدا خیر کرے

کھال سب کھینچنے والے ہیں خدا خیر کرے


تن کے وہ اجلے نظر آتے ہیں جتنے یارو

من کے وہ اتنے ہی کالے ہیں خدا خیر کرے


کوچۂ یار کا طے ہوگا سفر اب کیسے

پاؤں میں چھالے ہی چھالے ہیں خدا خیر کرے


میرا سسرال میں کوئی بھی طرفدار نہیں

ان کے ہونٹوں پہ بھی تالے ہیں خدا خیر کرے


کیا تعجب ہے کسی روز ہمیں بھی ڈس لیں

سانپ کچھ ہم نے بھی پالے ہیں خدا خیر کرے


ایسی تبدیلی تو ہم نے کبھی دیکھی نہ سنی

اب اندھیرے نہ اجالے ہیں خدا خیر کرے


ہر ورق پر ہے چھپی غیر مہذب تصویر

کتنے بیہودہ رسالے ہیں خدا خیر کرے


پاپولرؔ ہاتھ میں کٹا ہے تو بستے میں ہیں بم

بچے بھی کتنے جیالے ہیں خدا خیر کرے


پاپولر میرٹھی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...