Urdu Deccan

Tuesday, November 30, 2021

عاصم اعجاز

 یوم پیدائش 29 نومبر 1971


ترے بیمار سے الجھا ہوا ہے 

مرے محسن کو جانے کیا ہوا ہے 


سفینہ ساحلوں تک آ تو جائے 

ہوا نے راستہ بدلا ہوا ہے 


فضا میں تشنگی پھیلی ہوئی ہے 

مسافر دشت میں ٹھہرا ہوا ہے 


اکٹھے گھومتے ہیں قیس و لیلیٰ 

زمانہ اسقدر بدلا ہوا ہے 


میں اب تک گر گیا ہوتا زمیں پر 

کسی کے ہاتھ نے تھاما ہوا ہے 


تری جانب قدم اٹھتے نہیں ہیں 

مجھے حالات نے روکا ہوا ہے 


ادھوری خواہشیں کب تک سمیٹوں 

یہ ملبہ دور تک بکھرا ہوا ہے 


 اندھیروں کا ہمارے گھر کے عاصمؔ 

پس دیوار بھی چرچا ہوا ہے


عاصم اعجاز


ظریف جبلپوری

 یوم پیدائش 30 نومبر 1913


نمائش کا سجدہ


فرشتوں کو جب سے عداوت نہیں ہے

محبت ابھی تک محبت نہیں ہے 


اگر عاشقی میں سیاست نہیں ہے

حسینوں کے دل پر حکومت نہیں ہے


جھکانے کو ہر درد پہ سر تو جھکا دوں

نمائش کا سجدہ عبادت نہیں ہے


میں عاشق ہو مفلس ہوں ہے چاکدامن

مگر میرے چہرے پہ وحشت نہیں ہے


وہ اتوار کو مجھ سے مل جائیں آکر

سنیچر کے دن نیک ساعت نہیں ہے


مجھے میرے سرکار دفتر ہے پیارا 

مجھے دل لگانے کی فرصت نہیں ہے


عجب کار فرما ہے ان کا تصور

کہ فرقت بھی رنج فرقت نہیں ہے


مجھے ناز بردار اپنا بنا لو

تمہاری سمجھ میں نزاکت نہیں ہے


میرے غم کدے میں نہ بجلی نہ بتی

دل جل رہا ہے تو ظلمت نہیں ہے


الٹ دیں امیروں کا یہ تخت شاہی

فقیروں کی ڈنڈے میں طاقت نہیں ہے


تمہاری ہی خاطر یہ قربانیاں ہیں

رقیبوں سے بھی مجھ کو عداوت نہیں ہے


لکھا نام اپنا وردی پہن جنگ پر جا

ذرا تجھ کو شوق شہادت نہیں ہے


اٹھالے بیاباں وحشت کو سر پر 

محبت میں کیا اتنی طاقت نہیں ہے


مرا خانہء دل دیکھا تو بولے

ہے ویسے تو اچھا کھلی چھت نہیں ہے


ظریف ایسی الفت سے باز آئے ہم تو

کہ جسمیں مصیبت ہے راحت نہیں ہے


ظریف جبلپوری


مولانا عامر عثمانی

 یوم پیدائش 30 نومبر 1920


عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے

آفتیں برستی ہیں دل سکون پاتا ہے


آزمائشیں اے دل سخت ہی سہی لیکن

یہ نصیب کیا کم ہے کوئی آزماتا ہے


عمر جتنی بڑھتی ہے اور گھٹتی جاتی ہے

سانس جو بھی آتا ہے لاش بن کے جاتا ہے


آبلوں کا شکوہ کیا ٹھوکروں کا غم کیسا

آدمی محبت میں سب کو بھول جاتا ہے


کارزار ہستی میں عز و جاہ کی دولت

بھیک بھی نہیں ملتی آدمی کماتا ہے


اپنی قبر میں تنہا آج تک گیا ہے کون

دفتر عمل عامرؔ ساتھ ساتھ جاتا ہے


عامر عثمانی


زین احترام

 چار دن کی یہ زندگانی ہے

موت بر حق ہے سب کو آنی ہے


پھر یہ طاقت نہیں رہے شاید

 کر لے سجدے ابھی جوانی ہے


عقل کہتی رہی خسارہ ہے

عشق نے بات کس کی مانی ہے


 گفتگو نے بتا دیا اس کی

مفلسی میں بھی خاندانی ہے


زین تو روح کو سنوارا کر

روح باقی ہے جسم فانی ہے


زین احترام


کاشف ظریف

 یوم پیدائش 29 نومبر 


لقمہ ذرا حرام کا ٹھونسا نہ پیٹ میں

اس نے ہوس تو ڈالنی چاہی پلیٹ میں


اس کے لبوں کا میٹھا مِرے منہ میں بھر گیا

اتنی نہیں مٹھاس ملی چاکلیٹ میں


میں آگ ہوں جو مجھ کو سمجھتا ہے آبِ جو

آئے گا ایک روز وہ میری لپیٹ میں


پرکھوں کی یادگار ہے سونے سا ظرف یہ

اور مانگتے ہو تم اسے پیتل کے ریٹ میں


اس کو کھنڈر نہ جان یہی تھا کبھی محل

چمگادڑیں ہو دیکھتے جس خستہ گیٹ میں


وہ ہٹ گیا رسولِ محبت کی راہ سے

انسانیت کا قتل جو کرتا ہے ہیٹ میں


کاشف ظریف


سید مرتضی بسمل

 یوم پیدائش 29 نومبر


درد ہے وحشت ہے اور دل کا عذاب

ہر طرف ظلمت ہے اور دل کا عذاب


کچھ خزانہ ہے نہیں اس کے بغیر

دیکھ لو، فرقت ہے اور دل کا عذاب


یہ اذیت ختم ہو سکتی نہیں

تا ابد آفت ہے اور دل کا عذاب


پاس میرے نوکری جب ہے نہیں

لازمی ذلّت ہے اور دل کا عذاب


ہے اثاثہ زندگی کا بس یہی

یاد ہے خلوت ہے اور دل کا عذاب


یہ عذابِ مرگ بسمل کچھ نہیں

بس کٹھن چاہت ہے اور دل کا عذاب


سید مرتضیٰ بسمل


آنس معین

 یوم پیدائش 29 نومبر 1960


یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور

دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور


کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی

کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور


انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے

خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور


تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر

جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور


امید سحر بھی تو وراثت میں ہے شامل

شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور


کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا

یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور


اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور

اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور


شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ

بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور


آنس معین


افسر میرٹھی

 یوم پیدائش 29 نومبر 1895


رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے

پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے


لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں

یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے


لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی

آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے


اب کوئی دیر میں الفت کا طلب گار نہیں

اٹھ گئی رسم وفا ہائے صنم خانوں سے


پاس آتے گئے جس درجہ بیابانوں کے

دور ہوتے گئے ہم اور بیابانوں سے


اب کے ہم راہ گزاریں گے جنوں کا موسم

دامنوں کی یہ تمنا ہے گریبانوں سے


اس زمانے کے وہ مے نوش وہ بدمست ہیں ہم

پارسا ہو کے نکلتے ہیں جو مے خانوں سے


ہائے کیا چیز ہے کیفیت سوز الفت

کوئی پوچھے یہ ترے سوختہ سامانوں سے


پھر بہار آئی جنوں خیز ہوائیں لے کر

پھر بلاوے مجھے آتے ہیں بیابانوں سے


خاک کس مست محبت کی ہے ساقی ان میں

کہ مجھے بوئے وفا آتی ہے پیمانوں سے


غیر کی موت پہ وہ روتے ہیں اور ہم افسرؔ

زہر پیتے ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں سے


افسر میرٹھی


نعیم طباطبائی

 یوم پیدائش 29 نومبر 1852


پھری ہوئی مری آنکھیں ہیں تیغ زن کی طرف

چلا ہے چھوڑ کے بسمل مجھے ہرن کی طرف


بنایا توڑ کے آئینہ آئینہ خانہ

نہ دیکھی راہ جو خلوت سے انجمن کی طرف


رہ وفا کو نہ چھوڑا وہ عندلیب ہوں میں

چھٹا قفس سے تو پرواز کی چمن کی طرف


گریز چاہئے طول امل سے سالک کو

سنا ہے راہ یہ جاتی ہے راہزن کی طرف


سرائے دہر میں سوؤ گے غافلو کب تک

اٹھو تو کیا تمہیں جانا نہیں وطن کی طرف


جو اہل دل ہیں الگ ہیں وہ اہل ظاہر سے

نہ میں ہوں شیخ کی جانب نہ برہمن کی طرف


جہان حادثہ آگین میں بشر کا ورود

گزر حباب کا دریائے موجزن کی طرف


اسی امید پہ ہم دن خزاں کے کاٹتے ہیں

کبھی تو باد بہار آئے گی چمن کی طرف


بچھڑ کے تجھ سے مجھے ہے امید ملنے کی

سنا ہے روح کو آنا ہے پھر بدن کی طرف


گواہ کون مرے قتل کا ہو محشر میں

ابھی سے سارا زمانہ ہے تیغ زن کی طرف


خبر دی اٹھ کے قیامت نے اس کے آنے کی

خدا ہی خیر کرے رخ ہے انجمن کی طرف


وہ اپنے رخ کی صباحت کو آپ دیکھتے ہیں

جھکے ہوئے گل نرگس ہیں یاسمن کی طرف


تمام بزم ہے کیا محو اس کی باتوں میں

نظر دہن کی طرف کان ہے سخن کی طرف


اسیر ہو گیا دل گیسوؤں میں خوب ہوا

چلا تھا ڈوب کے مرنے چہ ذقن کی طرف


یہ میکشوں کی ادا ابر تر بھی سیکھ گئے

کنار جو سے جو اٹھے چلے چمن کی طرف


زہے نصیب جو ہو کربلا کی موت اے نظمؔ

کہ اڑ کے خاک شفا آئے خود کفن کی طرف


نظم طباطبائی


علی سردار جعفری

 یوم پیدائش 29 نومبر 1913


کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا


باعث رشک ہے تنہا رویٔ رہ رو شوق

ہم سفر کوئی نہیں دورئ منزل کے سوا


ہم نے دنیا کی ہر اک شے سے اٹھایا دل کو

لیکن ایک شوخ کے ہنگامۂ محفل کے سوا


تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد

بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا


جانے کس رنگ سے آئی ہے گلستاں میں بہار

کوئی نغمہ ہی نہیں شور سلاسل کے سوا


علی سردار جعفری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...