Urdu Deccan

Saturday, January 8, 2022

اخلاق بندوی

 یوم پیدائش 02 جنوری 1962


میں پریشاں ہوں ملیں چند نوالے کیسے

اس کو دولت وہ ملی ہے کہ سنبھالے کیسے


انگلیاں اپنی نگینوں سے سجانے والے

تجھ کو لگتے ہیں مرے ہاتھ کے چھالے کیسے


علم سے پھیر لیں تو نے جو نگاہیں اپنی

پھر ترے ذہن میں پھوٹیں گے اجالے کیسے


دیکھتے رہ گئے پانی کی روانی ہم لوگ

راستے لوگوں نے دریا میں نکالے کیسے


عمر لگ جاتی ہے اک گھر کو بنانے میں ہمیں

مکڑیاں روز ہی بن لیتی ہیں جالے کیسے


تو نے اخلاقؔ قسم کھائی تھی ضبط غم کی

پھر یہ پلکوں پہ نمی ہونٹوں پہ نالے کیسے


اخلاق بندوی


رشید احمد

 یوم پیدائش 01 جنوری 1959


آئینہ توڑ کے حیرت میں پڑا رہتا ہوں

عکس چننے کی جسارت میں پڑا رہتا ہوں 


ایک منظر میں کئی روپ نظر آتے ہیں

کبھی وحدت کبھی کثرت میں پڑا رہتا ہوں


دن تو دفتر میں کسی طور گزر جاتا ہے 

رات زخموں کی اذیت میں پڑا رہتا ہوں


دوست آتے ہیں تو رونق بھی چلی آتی ہے

ورنہ میں درد کی حالت میں پڑا رہتا ہوں


ایک بھی لمحہ میں غافل نہیں ہوتا تم سے

ہر گھڑی ایک مشقت میں پڑا رہتا ہوں


کیسے احباب مرے دکھ کا مداوا کرتے

دھوپ نکلے بھی تو ظلمت میں پڑا رہتا ہوں


رشید احمد


ریاض ساغر

 یوم پیدائش 03 جنوری 1959


اس طرح مجھ سے وہ جینے کی ادا لے جائے گا

باتوں ہی باتوں میں منزل کا پتہ لے جائے گا


دشمن تہذیب مشرق دے کے کچھ عشرت کے خواب

ہم سے تہذیب و تمدن کی قبا لے جائے گا


زندگی کے اس سفر میں خارزاروں سے نہ ڈر

سوئے منزل تجھ کو تیرا حوصلہ لے جائے گا


دوست بن کر عمر بھر جس نے دیا مجھ کو فریب

وہ اگر دشمن بھی بن جائے تو کیا لے جائے گا


گردشیں کھیلیں گی کب تک میرے استقلال سے

عزم کا سیل رواں ان کو بہا لے جائے گا


میرے سر پر ہے مری ماں کی دعا کا سائباں

یہ مجھے غم کی تمازت سے بچا لے جائے گا


میرے دل میں جو کبھی رہتا تھا دھڑکن‌ کی طرح

کیا خبر تھی وہ مری نیندیں چرا لے جائے گا


دشمنی کا یہ شجر برباد کر دے گا تمہیں

دولت امن و سکوں بھی یہ اڑا لے جائے گا


ریاض ساغر


خاور خان سرحدی

 یوم پیدائش 01 جنوری 1964


کہیں جگنوؤں سا چمک گیا کہیں آنسوؤں سا بکھر گیا

 مرا دل خزاں کی بہار تھا تری قربتوں سے سنور گیا

 

وہ جومحبتیں تھیں کمال، کی وہ کہانی ہجر و وصال کی

کبھی رنگ آہ میں آ گیا تو کبھی دعا سے اثر گیا


کبھی دیکھا تو نے جو پیار سے کئی چاند آنکھوں میں آ گئے

  تری نرم نرم سی انگلیاں جسے چھوگئیں وہ سنور گیا 

 

ابھی انتظار کی آگ میں ہیں غزل کی پلکیں بچھی ہوئی

 کبھی چاند بدلی میں چھپ گیا کبھی چاند چھت پہ اتر گیا

 

خاور خان سرحدی


اشرف یعقوبی

 یوم پیدائش 01 جنوری1961


دل کے زخموں کو لادوا رکھنا

کتنا مشکل ہے غم ہرا رکھنا


گرد آلود ہو تو ہو چہرا

صاف دل کا یہ آئینہ رکھنا


اوڑھ کر دھوپ جو ملے تم سے

ایسے سائے سے فاصلہ رکھنا


شہر میں جتنے بے مروت ہیں

 ان سے رشتہ نہ آسرا رکھنا


آسماں پر آڑو ہزار مگر

اپنی دھرتی سے رابطہ رکھنا 


زہر کے ساتھ سامنے میرے

کیا عجب تھا ترا دوا رکھنا


میں نے سیکھا شگفتہ پھولوں سے

دل کے گلشن کو خوشنما رکھنا


ہم دعا بانٹتے ہیں اے اشرف

 ہم فقیروں سے سلسلہ رکھنا

 

اشرف یعقوبی


Sunday, January 2, 2022

حسان آفندی

یوم پیدائش 01 جنوری 1955


اک گیا دوسرا نظر میں ہے 

زندگی موت کے سفر میں ہے


ہے ہوا میں عذاب کی تاثیر

حشر برپا جہان بھر میں ہے


منحصر ہے یقین قبروں پر

آدمی قید اپنے گھر میں ہے


خبریں اوروں کی جو سناتا تھا

 آہ وہ بھی تو اک خبر میں ہے

 

نخوت حسن ہے نہ شدت عشق

خوف ہمزاد بس کھنڈر میں ہے


گرد میں اب نظر نہیں آتا

جانے والا جو رہگذر میں ہے


وہ جو لاشیں بچھا رہا تھا یہاں

 لاش اس کی بھی لاش گھر میں ہے

 

 کونسی چال وقت چلنے لگا

  اک صدی ختم لمحہ بھر میں ہے

  

جو بھی چینل بدل کے دیکھتا ہوں

 ایک چہرہ ہی بس نظر میں ہے

 

حسان آفندی


ملک زادہ جاوید

 یوم پیدائش 01 جنوری 1962


کرب چہروں پہ سجاتے ہوئے مر جاتے ہیں 

ہم وطن چھوڑ کے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں 


زندگی ایک کہانی کے سوا کچھ بھی نہیں 

لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 


عمر بھر جن کو میسر نہیں ہوتی منزل 

خاک راہوں میں اڑاتے ہوئے مر جاتے ہیں 


کچھ پرندے ہیں جو سوکھے ہوئے دریاؤں سے 

علم کی پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں 


زندہ رہتے ہیں کئی لوگ مسافر کی طرح 

جو سفر میں کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں 


ان کا پیغام ملا کرتا ہے غیروں سے مجھے 

وہ مرے پاس خود آتے ہوئے مر جاتے ہیں 


جن کو اپنوں سے توجہ نہیں ملتی جاویدؔ 

ہاتھ غیروں سے ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں


ملک زادہ جاوید


اسد رضا

 یوم پیدائش 02 جنوری 1952


خود ڈوب کر بھی رنگِ شفق دے گیا مجھے

یہ کون زندگی کا سبق دے گیا مجھے


غم میں بھی مسکرانے کا حق دے گیا مجھے

 فردا کا وہ درخشاں ورق دے گیا مجھے


خوشبو کی طرح آیا وہ آکر چلا گیا

اِک سَر خوشی کے ساتھ قلق دے گیا مجھے


قاتل مرا عجیب تھا ہر اپنے وار سے

رگ رگ میں زندگی کی رمق دے گیا مجھے


ایثار صبر و ضبط وفا آرزو فریب

الفاظ کس قدر وہ اَدق دے گیا مجھے


کیسا تھا وہ طبیب اسد جو دوا کے ساتھ

ناسور آرزوؤں کا شق دے گیا مجھے


اسد رضا


رفعت سروش

 یوم پیدائش 01 جنوری 1936


ہنگامے سے وحشت ہوتی ہے تنہائی میں جی گھبرائے ہے

کیا جانئے کیا کچھ ہوتا ہے جب یاد کسی کی آئے ہے


جن کوچوں میں سکھ چین گیا جن گلیوں میں بدنام ہوئے

دیوانہ دل ان گلیوں میں رہ رہ کر ٹھوکر کھائے ہے


ساون کی اندھیری راتوں میں کس شوخ کی یادوں کا آنچل

بجلی کی طرح لہرائے ہے بادل کی طرح اڑ جائے ہے


یادوں کے درپن ٹوٹ گئے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں

لیکن بے چہرہ ماضی سایہ سایہ لہرائے ہے


کچھ دنیا بھی بیزار ہے اب ہم جیسے وحشت والوں سے

کچھ اپنا دل بھی دنیا کی اس محفل میں گھبرائے ہے


کلیوں کی قبائیں چاک ہوئیں پھولوں کے چہرے زخمی ہیں

اب کے یہ بہاروں کا موسم کیا رنگ نیا دکھلائے ہے


دیوار نہ در سنسان کھنڈر ایسا اجڑا یہ دل کا نگر

تنہائی کے ویرانے میں آواز بھی ٹھوکر کھائے ہے


یہ میرا کوئی دم ساز نہ ہو رفعتؔ یہ کوئی ہم راز نہ ہو

جو میرے گیت مری غزلیں میری ہی دھن میں گائے ہے


رفعت سروش


ثاقب لکھنوی

 یوم پیدائش 02 جنوری 1869


کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے

جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے


لہو تھا تمنا کا آنسو نہیں تھے

بہائے نہ جاتے تو ہرگز نہ بہتے


وفا بھی نہ ہوتا تو اچھا تھا وعدہ

گھڑی دو گھڑی تو کبھی شاد رہتے


ہجومِ تمنا سے گھٹتے تھے دل میں

جو میں روکتا بھی تو نالے نہ رہتے


میں جاگوں گا کب تک وہ سوئیں گے تا کے

کبھی چیخ اٹھوں گا غم سہتے سہتے


بتاتے ہیں آنسو کہ اب دل نہیں ہے

جو پانی نہ ہوتا تو دریا نہ بہتے


زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے


کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا

زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے


مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقبؔ

کنارے پہ آ ہی لگی بہتے بہتے


ثاقب لکھنوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...