یوم پیدائش 02 جنوری 1962
میں پریشاں ہوں ملیں چند نوالے کیسے
اس کو دولت وہ ملی ہے کہ سنبھالے کیسے
انگلیاں اپنی نگینوں سے سجانے والے
تجھ کو لگتے ہیں مرے ہاتھ کے چھالے کیسے
علم سے پھیر لیں تو نے جو نگاہیں اپنی
پھر ترے ذہن میں پھوٹیں گے اجالے کیسے
دیکھتے رہ گئے پانی کی روانی ہم لوگ
راستے لوگوں نے دریا میں نکالے کیسے
عمر لگ جاتی ہے اک گھر کو بنانے میں ہمیں
مکڑیاں روز ہی بن لیتی ہیں جالے کیسے
تو نے اخلاقؔ قسم کھائی تھی ضبط غم کی
پھر یہ پلکوں پہ نمی ہونٹوں پہ نالے کیسے
اخلاق بندوی