Urdu Deccan

Monday, March 27, 2023

تنویر شاہد محمد زئی

یوم پیدائش 01 مارچ 1960

جوبن جوانی جوش مرے خواب لے گیا
جو کچھ تھا میرے پاس وہ سیلاب لے گیا

دریا کو ناپسند تھیں شاید رفاقتیں
چوپال لے گیا مرے احباب لے گیا

بت خانہ ڈوب جائے تو اس کا بھی ہےملال
ساون تو اب کہ منبر و محراب لے گیا

بستی میں اس کا گھر بھی تو شامل تھا دوستو
سیلاب مجھ سے جینے کے اسباب لے گیا

کونے میں رکھ گیا ہے مجھے ہجر کا غبار
یعقوب کی طرح میرے اعصاب لے گیا

تنویر سوچتا ہوں میں الزام کس پہ دوں
چہروں سے آ ج کون تب و تاب لے گیا

تنویر شاہد محمد زئی



توصیف جالندھری

یوم پیدائش 01 مارچ 2001

ظلم کی ہر صدا کا ساتھ دیا
کوفیوں نے جفا کا ساتھ دیا

میں نے جب بھی دیا جلایا ہے
دوستوں نے ہوا کا ساتھ دیا

میرے حق میں کوئی نہیں بولا
سب نے اس بے وفا کا ساتھ دیا 

ہم قلندر مزاج لوگوں نے
عشق جیسی بلا کا ساتھ دیا

بے وفائی کو مات دی میں نے
یعنی اہلِ وفا کا ساتھ دیا

توصیف جالندھری



اطہر فیض آبادی

یوم پیدائش 01 مارچ 1920

خود فریبی ہے خود ستائی ہے
یہ خودی ہے کہ خود نمائی ہے

اطہر فیض آبادی


 

رضی ناطق

یوم پیدائش 01 مارچ 1918

اے وحشیو! بے شمع بھی ہوتا ہے چراغاں
زنجیر سے زنجیر کو زنداں میں لڑا دو

رضی ناطق


 

کلیم آزر

میرے گھر میں خوشی نہیں آتی
اب لبوں پر ہنسی نہیں آتی

دل کھلونا ہے ٹوٹ سکتا ہے
پر کبھی بے رخی نہیں آتی

جو بھی کرنا ہے کرلے ہستی میں
لوٹ کر زندگی نہیں آتی

چاند جس دم سے روٹھا ہے مجھ سے
میرے گھر چاندنی نہیں آتی

زندگی یونہی بس گزاری ہے
جانے کیوں عاشقی نہیں آتی

کلیم آزر

 

احمد محفوظ

یوم پیدائش 01 مارچ 1966

رقص شرر کیا اب کے وحشت ناک ہوا 
جلتے جلتے سب کچھ جل کر خاک ہوا 

سب کو اپنی اپنی پڑی تھی پوچھتے کیا 
کون وہاں بچ نکلا کون ہلاک ہوا 

موسم گل سے فصل خزاں کی دوری کیا 
آنکھ جھپکتے سارا قصہ پاک ہوا 

کن رنگوں اس صورت کی تعبیر کروں 
خواب ندی میں اک شعلہ پیراک ہوا 

ناداں کو آئینہ ہی عیار کرے 
خود میں ہو کر وہ کیسا چالاک ہوا 

تاریکی کے رات عذاب ہی کیا کم تھے 
دن نکلا تو سورج بھی سفاک ہوا 

دل کی آنکھیں کھول کے راہ چلو محفوظؔ 
دیکھو کیا کیا عالم زیر خاک ہوا 

احمد محفوظ


 

رضی ناطق

یوم پیدائش 01 مارچ 1918

اے رضیؔ میری وفا کی اور کیا ہوگی سند
آج بندے ماترم بھی شوق سے گاتا ہوں میں

رضی ناطق


 

الیاس وسیم صدیقی

یوم پیدائش 01 مارچ 1945

کوئی تو جا نہ سکا مہر و ماہ سے آگے
نکل گیا کوئی حدِ نگاہ سے آگے

اُکھڑ چکے تھے قدم احتیاط کے لیکن
مرا جنوں تھا خطِ انتباہ سے آگے

لہو بہائے بنا نصرتیں نہیں ملتیں
زمیں ہے سبز مگر رزم گاہ سے آگے

یہ شخص، پاؤں کے چھالے ہیں جس کا رختِ سفر
ابھی گیا ہے اسی شاہراہ سے آگے

تو جس کو مل گیا پرواز مل گئی اس کو
زمیں کہاں ہے تری جلوہ گاہ سے آگے

کرم یہ کس کا تھا پہنچا یقیں کی منزل تک
بڑھا تھا وہ تو رہِ اشتباہ سے آگے

یہ سینہ کوبی، یہ ماتم وسیؔم ترک بھی کر
کچھ اور رنگ ہیں سرخ و سیاہ سے آگے

الیاس وسیم صدیقی


 

اشرف یوسفی

یوم پیدائش 01 مارچ 1956

دیے کی آنکھ سے جب گفتگو نہیں ہوتی 
وہ میری رات کبھی سرخ رو نہیں ہوتی 

ہوا کے لمس میں اس کی مہک بھی ہوتی ہے 
وہ شاخ گل جو کہیں رو بہ رو نہیں ہوتی 

کسے نصیب یہ شیرینئ لب و لہجہ 
ہر ایک دشت میں یہ آب جو نہیں ہوتی 

میں حرف حرف میں پیکر ترا سموتا ہوں 
غزل تو ہوتی ہے پر ہو بہ ہو نہیں ہوتی 

کبھی کبھی تو میں خود سے کلام کرتا ہوں 
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے تو نہیں ہوتی

اشرف یوسفی



رفعت سلطان

یوم پیدائش 01 مارچ 1924

بہاروں کو چمن یاد آ گیا ہے 
مجھے وہ گل بدن یاد آ گیا ہے 

لچکتی شاخ نے جب سر اٹھایا 
کسی کا بانکپن یاد آ گیا ہے 

مری خاموشیوں پر ہنسنے والو 
مجھے وہ کم سخن یاد آ گیا ہے 

تمہیں مل کر تو اے یزداں پرستو 
غرور اہرمن یاد آ گیا ہے 

تری صورت کو جب دیکھا ہے میں نے 
عروج فکر و فن یاد آ گیا ہے 

کسی کا خوبصورت شعر سن کر 
ترا لطف سخن یاد آ گیا ہے 

ملے وہ اجنبی بن کر تو رفعتؔ 
زمانے کا چلن یاد آ گیا ہے

رفعت سلطان


 

Sunday, March 5, 2023

رشید لکھنوی

یوم پیدائش 05 مارچ 1847

ہم اجل کے آنے پر بھی ترا انتظار کرتے
کوئی وعدہ سچ جو ہوتا تو کچھ اعتبار کرتے

جو نہ صبر اور دم بھر ترے بے قرار کرتے
ابھی برق کا طریقہ فلک اختیار کرتے

اگر اتنی بات سنتے کہ ہے عشق میں مصیبت
کبھی ہم نہ تیری خاطر دل بے قرار کرتے

دل زار بے خبر تھا کیا قتل تو مزا کیا
یہ سپہ گری ہے پہلے اسے ہوشیار کرتے

یہی چاہتے ہیں اے جاں مٹے غم کہ جان جائے
ابھی موت گر نہ آتی ترا انتظار کرتے

غم و درد و رنج سہہ کے تجھے دیتے ہم دل اپنا
انہیں بے وفائیوں پر ترا اعتبار کرتے

جو سفر کا وقت آیا نہ پکارے ساتھ والے
ابھی آنکھ لگ گئی تھی ہمیں ہوشیار کرتے

جو خلاف امید کے ہو تو شکستہ خاطری ہے
کئی ٹکڑے دل کے ہوتے جو تم ایک وار کرتے

وہ نہ آئے مر گئے ہم اگر آتے بھی تو کیا تھا
یہی جان صدقے کرتے یہی دل نثار کرتے

ہمیں جان دے کے مارا ہمیں دے کے دل مٹایا
نہ غم فراق ہوتا نہ خیال یار کرتے

وہ ادا تھی قتل گہہ میں کہ بیان سے ہے باہر
مرے دل پہ زخم پڑتا وہ کسی پہ وار کرتے

تری سمت کی توجہ نہ کبھی جہان فانی
جو ذرا ثبات پاتے تو کچھ اعتبار کرتے

خبر اس کی پہلے ہوتی کہ نہ آئے گا یہ ہم کو
تو رشیدؔ شعر کا فن نہ ہم اختیار کرتے

رشید لکھنوی



Wednesday, March 1, 2023

سلیم فوز

یوم پیدائش 28 فروری 1965

وہ رعُونت ہے کہ ہر شخص فغاں کھینچتا ہے
دیکھنا یہ ہے خدا ڈور کہاں کھینچتا ہے

تیرے دشمن ہیں ترے اپنے وزیر اور مُشیر
اور تُو اپنی رعایا پہ کماں کھینچتا ہے

دیکھ مت بول بڑے بول مخالف کے خلاف 
وقت حاکم کی بھی گُدّی سے زباں کھینچتا ہے 

سَر چھپانے کو جگہ بھی نہ ملے گی صاحب
آسمانوں پہ کمنّدیں تُو جہاں کھینچتا ہے

جان کے درپےہے اتنا بھی نہیں جانتا تُو
اک فرشتہ ہے معیّن کہ جو جاں کھینچتا ہے

سلیم فوز


 

جاوید عباس

یوم پیدائش 28 فروری 1957

قوم ایک عمارت ہے معمار معلم ہے
انسان کی عظمت کا مینار معلم ہے

تعلیم کے زیور کا زرگر ہے زمانے میں
تعلیم وہ تعلّم کا سردار معلم ہے

وہ قوم حوادث اور طوفاں سے نہیں ڈرتی
جس قوم کی کشتی کا پتوار معلم ہے

ہے علم اجالے کا پرنور سمندر بھی
اور جلوہ گرِ علم و افکار معلم ہے

جو علم سے انساں کو کندن ہے بناتا
وہ قوم کا سرمایہ، فنکار معلم ہے

جاوید معلم کی ہو شان بیاں کیسے
طلباء کے لیے چشمہِ انوار معلم ہے

جاوید عباس


 

ہاشم بلال

یوم پیدائش 28 فروری 

زباں پہ نام وہ رہتا ہے ذکر کی صورت
کہ گہرا ہے جو ارسطو کی فکر کی صورت

مرے لحاف میں خوشبو قیام کرتی ہے
گو سبز خواب ہیں آنکھوں میں عطر کی صورت

بکاؤ دنیا کی حالت ہے دیدنی ہاشم 
سجی ہوئی ہے یہ بازارِ مصر کی صورت

ہاشم بلال


 

شاہینہ خاتون شاہجہانپوری

یوم پیدائش 28 فروری 

دارِ فنا ہے یہ نہ مسافر ٹھہر گئے
ہم سوچتے رہے کہ زمانے گزر گئے

کیوں آجتک نہیں کیا اپنا محاسبہ
کتنی صدایئں ٹوٹ گیئؔن ہم بکھر گئے

جب رہروانِ شوق تھے منزل بھی مل گئ
شوقِ جنوں میں ہم بھی فلک سے گزر گئے

جو حق پرست تھے یہاں لنگر جلا دیئے
ٹکراکے ان کے عزم سے کتنے بھنور گئے

شاہینہ خاتون شاہجہانپوری


 

صبا نویدی

یوم پیدائش 28 فروری 1942

میں جس کا منتظر ہوں وہ منظر پکار لے
شاید نکل کے جسم سے باہر پکار لے

میں لے رہا ہوں جائزہ ہر ایک لہر کا
کیا جانے کب یہ مجھ کو سمندر پکار لے

صدیوں کے درمیان ہوں میں بھی تو اک صدی
اک بار مجھ کو اپنا سمجھ کر پکار لے

میں پھر رہا ہوں شہر میں سڑکوں پہ غالباً
آواز دے کے مجھ کو مرا گھر پکار لے

شیشے کی طرح وقت کے ہاتھوں میں ہوں ہنوز
کب جانے حادثات کا پتھر پکار لے

وہ لمحہ جس کی ذہن صباؔ کو تلاش ہے
رونے کے اہتمام میں ہنس کر پکار لے

صبا نویدی


 

نظر ایٹوی

یوم پیدائش 28 فروری 1953

انکی یادوں کا جشن جاری ہے
آج کی رات ہم پہ بھاری ہے

فاصلے قربتوں میں بدلیں گے
ہونٹ ان کے دعا ہماری ہے

عشق کرنے سے اس کو مت روکو
ہر پرندے کو جھیل پیاری ہے

اب بہت ہنس چکے مرے آنسو
قہقہوں اب تمہاری باری ہے

کون سی زندگی ملی تھی مجھے
کون سی زندگی گزاری ہے

مجھ سے یہ کہہ گیا سورج
اب چراغوں کی زمے داری ہے

ذکر جس کا نظرؔ نظرؔ ہے نظرؔ
اس نظر پر نظر ہماری ہے

نظر ایٹوی


 

حیات لکھنوی

یوم پیدائش 27 فروری 1931

یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا
تم بھی اگر ملوگے تو جی بھر نہ جائے گا 

یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے 
سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا 

جس زاویے سے چاہو مری سمت پھینک دو 
مجھ سے ملے بغیر یہ پتھر نہ جائے گا 

دم بھر کے واسطے ہیں بہاریں سمیٹ لو 
ویرانیوں کو چھوڑ کے منظر نہ جائے گا 

یوں خوش ہے اپنے گھر کی فضاؤں کو چھوڑ کر 
جیسے وہ زندگی میں کبھی گھر نہ جائے گا 

اس کو بلندیوں میں مسلسل اچھالیے 
لیکن وہ اپنی سطح سے اوپر نہ جائے گا 

شہر مراد مل بھی گیا اب تو کیا حیاتؔ 
مایوسیوں کا دل سے کبھی ڈر نہ جائے گا 
حیات لکھنوییوم پیدائش 27 فروری 1931

یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا
تم بھی اگر ملوگے تو جی بھر نہ جائے گا 

یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے 
سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا 

جس زاویے سے چاہو مری سمت پھینک دو 
مجھ سے ملے بغیر یہ پتھر نہ جائے گا 

دم بھر کے واسطے ہیں بہاریں سمیٹ لو 
ویرانیوں کو چھوڑ کے منظر نہ جائے گا 

یوں خوش ہے اپنے گھر کی فضاؤں کو چھوڑ کر 
جیسے وہ زندگی میں کبھی گھر نہ جائے گا 

اس کو بلندیوں میں مسلسل اچھالیے 
لیکن وہ اپنی سطح سے اوپر نہ جائے گا 

شہر مراد مل بھی گیا اب تو کیا حیاتؔ 
مایوسیوں کا دل سے کبھی ڈر نہ جائے گا 

حیات لکھنوی



اجتبی رضوی

یوم وفات 26 جنوری 1991

اب حالت دل نہ پوچھ کیا ہے 
شعلہ تھا بھڑک کے بجھ گیا ہے
 
انسان کو دل ملا مگر کیا 
اندھے کے ہاتھ میں دیا ہے 

تاثیر نے یہ کہا ہے ہم سے 
نالہ نغمے کی انتہا ہے 

تیری دنیا کو ہم سنواریں 
یہ ایک عجیب ماجرا ہے 

جو دور سے آ رہی ہے رضویؔ 
پہچانی ہوئی سی یہ صدا ہے 

اجتبی رضوی


 

ابراہیم شوبی

یوم پیدائش 26 جنوری 1984

یوں بھی کڑوا انہیں لگوں گا میں
سچ کی عادت ہے سچ کہوں گا میں 

ہار مانوں گا کب سہولت سے 
جب تلک سانس ہے لڑوں گا میں 

لڑکھڑانے لگے قدم میرے
گر گیا بھی تو پھر اُٹھوں گا میں

جیسی کرنی ہے ویسی بھرنی ہے 
گر کیا ہے بُرا بھروں گا میں 

تم جو چاہو تو کیا نہیں ممکن
تم نہ چاہو تو کیا کروں گا میں

جس میں نورِ خُدا بھرا ہوا ہے
طاقچے میں وہ دل رکھوں گا میں

ایسا سوچا بھی تھا نہیں شوبی 
کہ کسی پہ کبھی مروں گا میں 

ابراہیم شوبی


 

دائم بٹ

یوم پیدائش 25 فروری 1975

خدا بناتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے
بشر مٹاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

یہ کس نے کھینچ دیں نفرت کی ہم میں دیواریں 
لہو بہاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

عجیب خبط ہے اس شہرِ بے سماعت میں
صدا لگاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

قیام اپنے لیے موت کے ہے مترادف
سفر بڑھاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

دکھائی دیتا ہے یہ آئینے میں کون ہمیں
نظر چراتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

ہم ایسے دھوپ گزیدہ کہ صحرا در صحرا
شجر اگاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

ہم اپنے مدِ مقابل ہیں آپ ہی دائم
شکست کھاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

 دائم بٹ



ظہیر الہ آبادی

یوم پیدائش 25 فروری 1985

کیسے بتاؤں دہر میں کیا کیا بدل گیا
امت کا فاطمہ ؓ سے رویہ بدل گیا

 پرسہ تو دور باپ کا، در بھی جلا دیا 
ماحول کیوں مدینے کا اتنا بدل گیا

در فاطمہ ؓ کا دیکھ کے حیران شہر ہے
سرکارؐ کیا گئے کہ مدینہ بدل گیا

کیسے ستم یہ ٹوٹے ہیں بنت رسول پر
احوال غیر ہو گئے حلیہ بدل گیا

دیتے نہیں جواب سلام علی ؓ کا اب
مردہ ضمیر لوگوں کا لہجہ بدل گیا

دیوار کے سہارے ہی چلتی ہیں سیدہ
چلنا رسول زادی کا کتنا بدل گیا

دیتے نہیں ہیں ساتھ جو کل تک مرید تھے
بعد رسول پل میں زمانہ بدل گیا

  ظہیر الہ آبادی

نجم الحسن کاظمی

یوم پیدائش 25 فروری 1998

خواب کچھ یوں مجھے رکھتا ہے پریشانی میں
اپنے ہی گھر کو جلاتا ہوں میں نادانی میں

ایک موقع تو ملے حسبِ توقع مجھ کو
تھوڑی مہلت ہی سہی وقت کی طغیانی میں

اکثر اوقات مرے قد سے بڑا ہوتا ہے
سائے کو دیکھتا رہتا ہوں میں حیرانی میں

دوست اک بار پلٹ کر مری بربادی دیکھ 
دوست تو دیکھ ابھی خوش ہوں میں ویرانی میں

 سب کے سب رنج برابر نظر آتے ہیں مجھے
عکس دھندلا نہیں ہوتا ہے کبھی پانی میں 

نجم الحسن کاظمی


 

احمد معاذ

یوم پیدائش 25 فروری 2002

آ کے گلشن میں کِھلو پھول سی چاہت کر کے
جب کہ بکھرو گے تو خوشبو کی وضاحت کر کے

خاک ہونا مرے ماتھے پہ لکھا تھا ورنہ
میں نے اک عمر گزاری تھی محبت کر کے

آندھیاں ان کے تعاقب میں چلا کرتی ہیں
جو بھی رہتے ہیں چراغوں کی حمایت کر کے

حافظے میں وہ کہیں جا کے ٹھہر جاتا ہے
یاد کرتا ہوں میں جب اس کو تلاوت کر کے

مجھ سے ناچیز میں شعلے کی جھلک جب دیکھی
کر دیا راکھ مجھے اس نے ملامت کر کے

اس کی ضد تھی کہ کہیں اور نہ دیکھوں احمد
سو مجھے پیار کیا اس نے جسارت کر کے

احمد معاذ


 

ضیاء الحق قاسمی

یوم پیدائش 25 فروری 1935

دل کے زخموں پہ وہ مرہم جو لگانا چاہے 
واجبات اپنے پرانے وہ چکانا چاہے 

میری آنکھوں کی سمندر میں اترنے والا 
ایسا لگتا ہے مجھے اور رلانا چاہے 

دل کے آنگن کی کڑی دھوپ میں اک دوشیزہ 
مرمریں بھیگا ہوا جسم سکھانا چاہے 

سیکڑوں لوگ تھے موجود سر ساحل شوق 
پھر بھی وہ شوخ مرے ساتھ نہانا چاہے 

آج تک اس نے نبھایا نہیں وعدہ اپنا 
وہ تو ہر طور مرے دل کو ستانا چاہے 

میں نے سلجھائے ہیں اس شوخ کے گیسو اکثر 
اب اسی جال میں مجھ کو وہ پھنسانا چاہے 

میں تو سمجھا تھا فقط ذہن کی تخلیق ہے وہ 
وہ تو سچ مچ ہی مرے دل میں سمانا چاہے 

اس نے پھیلائی ہے خود اپنی علالت کی خبر 
وہ ضیاؔ مجھ کو بہانے سے بلانا چاہے

ضیاء الحق قاسمی


 

سرور جاوید

یوم پیدائش 25 فروری 1947

یہی دنیا ہے کھو جائے گا تو بھی
اسی جنگل کا ہو جائے گا تو بھی

مجھے معلوم کب تک طشت دل میں
زیاں کی فصل بو جائے گا تو بھی

مسافت عمر بھر کی ایک شب میں
دم فرقت ہے سو جائے گا تو بھی

تری آنکھیں ستارے بانٹی ہیں
مرا دامن بھگو جائے گا تو بھی 

سرور جاوید



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...