Urdu Deccan

Tuesday, January 31, 2023

احسان نانپاروی

یوم پیدائش 31 جنوری 1931

سفر ہے شرط رہ کہکشاں ہے تیرے لیے 
نئی زمین نیا آسماں ہے تیرے لیے 

بلا رہی ہے تجھے منزل بلند تری 
یہ نالۂ جرس کارواں ہے تیرے لیے 

ترے جنوں نے کھلائے لہو سے لالہ و گل 
بہار نازش صد گلستاں ہے تیرے لیے 

خوشا وہ عظمت فقر و خود آگہی تیری 
کہ خم جبین غرور شہاں ہے تیرے لیے 

بصیرت نگہ جذبۂ کلیمانہ 
عطا ہوئی ہے تجھے یہ جہاں ہے تیرے لیے 

احسان نانپاروی



عامر ریاض

یوم پیدائش 31 جنوری 1985

پرانے خول سے نکلے رخِ نَو تک چلے آئے
کھلے در آگہی کے ہم قلمرو تک چلے آئے

ضیائے رحمتِ یزداں جہاں انکو بلاتی تھی
اشارہ دیکھتے موسیَ اسی لَو تک چلے آئے

فراتِ جاں ابلتا ہے غم و آلام کی صورت 
سرشکِ خوں حدِ احساس کی رَو تک چلے آئے

رہِ دشوار میں ہونگی بڑی آسانیاں پیدا 
مکیں جب ظلمتِ شب کے کسی ضَو تک چلے آئے

غزل جوبن پہ آٸی تو ترے اکرام سے مولا 
تخیل خود بخود میری تگ و دو تک چلے آئے

عامر ریاض



اشک امرتسری

یوم پیدائش 31 جنوری 1900

قید ہستی میں ہوں اپنے فرض کی تعمیل تک 
اک نئی دنیا نئے انسان کی تشکیل تک 

دام ہم رنگ زمیں پھیلا دیا صیاد نے 
وادیٔ گنگ و جمن سے رود بار نیل تک 

آنکھ سے بہہ جائے گا دل میں اگر باقی رہا 
قطرۂ خوں داستان درد کی تکمیل تک 

شاعری کا ساز ہے وہ ساز ہو جس ساز میں 
نغمۂ روح الامیں سے بانگ اسرافیل تک 

تو ہی اسرار سخن سے ہے ابھی نا آشنا 
ورنہ اس اجمال میں موجود ہے تفصیل تک 

بس نہیں چلتا ہے ان کا ورنہ یہ ظلمت پرست
اپنی پھونکوں سے بجھا دیں عرش کی قندیل تک 

اشکؔ اپنے سینۂ پر خوں میں سیل اشک بھی 
روک رکھتا ہوں جگر کے خون کی تحلیل تک

اشک امرتسری



مقبول نقش

یوم وفات 31 جنوری 2005

اتفاقاً جو کہیں اب وہ نظر آتے ہیں 
کتنی یادوں کے حسیں نقش ابھر آتے ہیں 

کیسے گزری شب آشفتہ سراں کس کو خبر 
لوگ تو بام پہ ہنگام سحر آتے ہیں 

سوچ لیں آپ مرا ساتھ کہاں تک دیں گے 
مرحلے سیکڑوں دوران سفر آتے ہیں 

یوں غلط تو نہیں چہروں کا تأثر بھی مگر 
لوگ ویسے بھی نہیں جیسے نظر آتے ہیں 

ان سے جب ترک تعلق کا خیال آتا ہے 
رابطے کتنے تصور میں ابھر آتے ہیں

مقبول نقش



شمشاد شاؔد

اب بھگوئیں گے نہ پلکوں کے کنارے آنسو
ہو گئے خشک مری آنکھ کے سارے آنسو

میری آنکھوں سے نہ چھلکے ہیں نہ چھلکیں گے کبھی
انتہائے غم و تکلیف کے مارے آنسو

یہ بھی ہوتا ہے کہ جب چوٹ تمہیں لگتی ہے
بے تامل نکل آتے ہیں ہمارے آنسو

ساتھ دیتا نہیں چہرے کا تاثر ہرگز
چاہے آنکھوں میں کوئی لاکھ ابھارے آنسو

ایک اک بات تمہاری شب تنہائی میں
یاد کرتے ہیں تو بہتے ہیں ہمارے آنسو

دامن ضبط مرے ظرف نے چھوڑا ہے مگر
گھر سے بے گھر ہوئے جاتے ہیں بچارے آنسو

نوکِ انگشت سے برجستہ جھٹک کر میں نے
کہہ دیا دور مری آنکھ سے جا رے آنسو

جب چھلک آتے ہیں آنکھوں میں خوشی کے مارے
"میٹھا میٹھا سا مزہ دیتے ہیں کھارے سے"

ان کے بہہ جانے سے آتا ہے مرے دل کو قرار
اسلئے شاؔد مجھے لگتے ہیں پیارے آنسو

شمشاد شاؔد



Sunday, January 29, 2023

صادق گیاوی

یوم پیدائش 29 جنوری 1935

کوئی جینے کا کیا کرے ارماں
ڈس رہے ہیں حیات کے سائے

صادق گیاوی



مسلم نواز

یوم پیدائش 29 جنوری 1946

کچھ زمیں لیتا چلوں کچھ آسماں لیتا چلوں
جب جہاں سے جاؤں میں حسنِ جہاں لیتا چلوں

ہے بھٹک جانے کا اندیشہ مجھے گھیرے ہوئے
ساتھ اپنے اپنا میرِ کارواں لیتا چلوں

دشتِ تنہائی میں کوئی ساتھ جب دیتا نہیں
میں پریشانی میں گردِ کارواں لیتا چلوں

کون جانے کس گھڑی آجائے موجوں کا جلوس
اپنی کشتی کے لیے میں بادباں لیتا چلوں

رفتہ رفتہ زخم سارے مندمل ہوجائیں گے
میں پرانے زخمِ دل کے کچھ نشاں لیتا چلوں

اک صدائے خامشی کے درمیاں زندہ ہوں میں
زندگی تو ہی بتا تجھ کو کہاں لیتا چلوں

مسلم نواز


 

برہما نند جلیس

یوم پیدائش 28 جنوری 1930

دینے والے یہ زندگی دی ہے 
یا مرے ساتھ دل لگی کی ہے 

ہم کو معلوم ہی نہ تھا یہ راز 
موت کا نام زندگی بھی ہے 

آشیانوں کی خیر ہو یا رب 
صحن‌ گلشن میں روشنی سی ہے 

ہم نے برسوں جگر جلایا ہے 
پھر کہیں دل میں روشنی کی ہے 

آپ سے دوستی کا اک مفہوم 
ساری دنیا سے دشمنی بھی ہے 

لوگ مرتے ہیں زندگی کے لئے 
ہم نے مر مر کے زندگی کی ہے 

ہم کو مارا ہے عاشقی نے جلیسؔ 
لوگ کہتے ہیں خود کشی کی ہے

برہما نند جلیس



ماجد خلیل

یوم وفات 27 جنوری 2016

صحنِ حرم سے دیکھ رہا ہوں حدِ نظر سے آگے بھی
دستِ دعا سے بابِ اثر تک بابِ اثر سے آگے بھی

دیکھ نظر تو دیکھ سکے جو دیدۂ تر سے آگے بھی
شہر نبیؐ میں اک منظر ہے ہر منظر سے آگے بھی

فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک چھوٹ ہے گنبذ خضرا کی
خُلدِ نظر ہی خُلدِ نظر ہے خُلدِ نظر سے آگے بھی

سوچو تو معراج نبیؐ نے اک یہ بھی احسان کیا
فہمِ بشر کو وسعت دے دی فہمِ بشر سے آگے بھی

عزم ِسفر سے پہلے بھی تھی ایک ہی منزل قلب و نظر
ایک ہی منزل قلب و نظر سے ختمِ سفر سے آگے بھی

اہلِ ہنر نے نعت نبیؐ سے کیا کیا فیض اٹھائے ہیں 
کسبِ ہنر سے عرضِ ہنر تک عرضِ ہنر سے آگے بھی

بیشک خوش انجام ہے عاصی وہ جس کے دل میں اکثر
خوفِ قیامت بڑھ جاتا ہے موت کے ڈر سے آگے بھی

لازم تھا قوسین کا پردہ ورنہ تکلف کیا معنی
آئینہ کیا جا سکتا تھا آئینہ گر سے آگے بھی

قسمت ماجد اول و آخر آپؐ کی چوکھٹ آپؐ کا در 
آپؐ کی چوکھٹ سے پہلے بھی آپؐ کے در سے آگے بھی 

ماجد خلیل



جعفر بلوچ

یوم پیدائش 27 جنوری 1947

آج کسی کی یاد میں ہم جی بھر کر روئے دھویا گھر 
آج ہمارا گھر لگتا ہے کیسا اجلا اجلا گھر 

اپنے آئیں سر آنکھوں پر غیر کی یہ بیٹھک نہ بنے 
گھر آسیب کا بن جائے گا ورنہ ہنستا بستا گھر 

گھر کو جب ہم جھاڑیں پوچھیں رہتے ہیں محتاط بہت 
گرد آلود نہیں ہونے دیتے ہم ہم سایے کا گھر 

تم نے کڑیاں جھیلیں اور غیروں کے گھر آباد کیے 
راہ تمہاری تکتا ہے آبائی سونا سونا گھر 

جو آرام ہے اپنے گھر میں اور کہاں مل سکتا ہے 
ٹوٹا پھوٹا بھی ہو تو بھی اپنا گھر ہے اپنا گھر 

اک انجانے ڈر نے نیند اچک لی سب کی آنکھوں سے 
کتنی ہی راتوں سے مسلسل بے آرام ہے گھر کا گھر 

میری روح بروگن رہ رہ کر چلاتی رہتی ہے 
میرا گھر میرا پیارا گھر میرا پیارا پیارا گھر 

آوارہ گردی کے سبب وہ دن بھر تو مطعون رہا 
جب سورج مغرب میں ڈوبا جعفرؔ بھی جا پہنچا گھر 

جعفر بلوچ



حلیم صابر

یوم پیدائش 26 جنوری 1945

میں بدلتے ہوئے حالات پہ اکثر رویا 
دیکھ کر شہر کا بدلا ہوا منظر رویا 

چپ ہوا رو کے جو پھر رویا مکرر رویا
رو کے جب جی نہ بھرا میرا تو جی بھر رویا 

جیسے تیسے مجھے رونا کبھی آیا ہی نہیں 
جب بھی رویا میں بہت سوچ سمجھ کر رویا 

منحصر تھا مرا رونا بھی مری مرضی پر 
چند لمحے کبھی رویا کبھی دن بھر رویا 

مجھ کو رونے کا ہنر آ گیا روتے روتے
رونے والوں سے بہ ہر طور میں بہتر رویا 

میرے رونے کا بھی انداز عجب تھا صابرؔ 
روتے روتے جو ہنسی آئی تو ہنس کر رویا

حلیم صابر



تحسین علی نقوی

یوم پیدائش 25 جنوری 1999

اُس نے جب مجھ سے اجتناب کیا
ہر حقیقت کو میں نے خواب کیا

اُس نے آ کر گلے لگایا اور 
میری سانسوں کو باریاب کیا

میر و غالب تلک گئی وہ مگر
شعر میرا ہی انتخاب کیا

چار لوگوں میں نام تھا لیکن
دوستوں نے مُجھے خراب کیا

خواب میں لائی اِس قدر وُسعت
سب خلاؤں کو دستیاب کیا

مُلحدو تُم سے بحث جیتوں گا
فلسفے کو جو ہم رکاب کیا

حوصلہ پست کرنے والوں کی خیر
مجھ کو الله نے کامیاب کیا

اُس نے گالی نکالی تھی میں نے
جب دلیلوں سے لاجواب کیا

کچھ نہیں گر درونِ ذات مرے
دِل نے کیوں محوِ اضطراب کیا

یار کا ادنیٰ معجزہ تحسین
دشت کو چھو لیا گلاب کیا

تحسین علی نقوی



معین الدین چشتی

یوم پیدائش 25 جنوری 1962

توڑ کر دیوار نفرت پیار کا نقشہ بنا
چل پڑے جس پر زمانہ ایسا اک رستہ بنا

بارہا اہلِ دول کا لے چکا ہوں امتحاں
بھوک میں تو بھیس اپنامت فقیرانہ بنا

آدمی کی جان لینے کو ازل سے آج تک
تیر ، خنجر ، نیزہ ، بھالا جانے پھر کیا کیا بنا

کون کس کا یار ہے خود ہی پتا چل جائے گا
پہلے اپنی ذات کو تو صبر کا پتلا بنا

کب بنا کیوں کر بنا ، شمسیؔ نہ ہم سے پوچھیے
دیکھتے ہی دیکھتے یاں خون کا دریا بنا

معین الدین چشتی


 

اسرار آصف

یوم پیدائش 24 جنوری 1959

صلیب و دار پہ رکھا مرا سر دیکھ سکتے ہو
امیرِ شہر کے گھر سے یہ منظر دیکھ سکتے ہو

پریشانی میں رہ کر بھی نہ ماتھے پہ شکن آئے
یہ منظر ماں کے چہرے کو بھی پڑھ کر دیکھ سکتے ہو

اسے دیوانہ سمجھوں یا کہ فرزانہ جو کہتا ہے
ہتھیلی کی لکیروں میں مقدر دیکھ سکتے ہو

جو اہلِ فن ہیں آصف خاکساری ان کا شیوہ ہے
کبھی جو وقت مل جائے تو مل کر دیکھ سکتے ہو

اسرار آصف


 

اقبال عادل

یوم پیدائش 23 جنوری 1999

زیرِ لب مسکرا رہا ہوں
آپ کو آزما رہا ہوں

یہ بھی کتنی بڑی جسارت ہے
آپ سے دل لگا رہا ہوں

زندگی اک عجب کہانی ہے
اور کہانی سنا رہا ہوں

آپ سے دور ہوں تو لگتا ہے
آپ کے پاس جا رہا ہوں

یہ بھی میرا کمال ہے عادل
درد میں مسکرا رہا ہوں میں

اقبال عادل



اشوک مزاج بدر

یوم پیدائش 23 جنوری 1957

وصل کی تو کبھی فرقت کی غزل لکھتے ہیں 
ہم تو شاعر ہیں محبت کی غزل لکھتے ہیں 

پڑھیے ان کو کسی کاغذ پہ نہیں سرحد پر 
اپنے خوں سے جو شہادت کی غزل لکھتے ہیں 

رہنما اپنے وطن کے بھی ہیں کتنے شاطر 
وہ شہادت پہ سیاست کی غزل لکھتے ہیں 

تم نے مزدور کے چھالے نہیں دیکھے شاید
اپنے ہاتھوں پہ وہ محنت کی غزل لکھتے ہیں 

ملک ایسے بھی ہیں کچھ خاص پڑوسی اپنے 
سرحدوں پہ جو عداوت کی غزل لکھتے ہیں 

ہم سبھی چین سے سوتے ہیں مگر راتوں میں 
فوج والے تو حفاظت کی غزل لکھتے ہیں 

شوق لکھنے کا بہت ہم کو بھی ہے لیکن ہم 
سونے کے پین سے غربت کی غزل لکھتے ہیں

اشوک مزاج بدر



بسنت لکھنوی

یوم پیدائش 23 جنوری 1932

یہ اور بات اسے لطف زندگی نہ ملا
اسیر اپنی انا میں وہ آدمی نہ ملا

کبھی ملا بھی تو بس اپنی بات کی اس نے
وہ بے غرض تو کسی شخص سے کبھی نہ ملا

تری حیات ہے نغمہ مری حیات افکار
مری حیات سے تو اپنی زندگی نہ ملا

کجا یہ دیں کے اجالےکجا یہ کرب جمود
سحر کے نور میں تو شب کی تیرگی نہ ملا

بہت تلاش کیا زندگی نہ ہاتھ آئی
جہاں میں ہم کو کہیں کستِ دايمی نہ ملا

ہمارا ہوتا جو دمساز، ہمنوا ، ہمدم
ہمارے شہر میں ایسا ہمیں کوئی نہ ملا

ملے تو شیخ و برہمن، ولی مجاہد سب
بسنت راہ ِ وفا پر کوئی کبھی نہ ملا

بسنت لکھنوی

 


صادق سعیدی

یوم پیدائش 22 جنوری 1995

کیا ملا ہم کو محبت پہ گزارا کر کے
"دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے"

میں کہ اک خاک ہوں مٹ جاؤں گا مٹی بن کر
سارا عالم ہی مری جان تمھارا کر کے

کیا بھروسہ کہ میں خود کو ہی لڑادوں خود سے
اس نے چھوڑا ہے مجھے مجھ سے کنارہ کر کے

اب کے اس طرح سے اس نے ہے چرایا مجھ کو
خود کو رکھا ہے مری آنکھ کا تارا کر کے

عدل دہلیز پہ قائد کی چھپا بیٹھا ہے
آپ بیٹھے ہیں عدالت پہ اجارہ کر کے

میرے مسکن پہ نظر کس کی لگی ہے آخر
دل دہل جائے ہے یک دم سے نظارہ کر کے

جن پہ پابندیِ گفتار ہو نافذ صادق
بات کرتے ہیں وہ آنکھوں سے اشارہ کرکے

صادق سعیدی

شمسہ نجم

یوم پیدائش 02 جنوری 1968

محشر میں مل سکے گا سہارا رسول کا 
اپنا لیا جو ہم نے طریقہ رسول کا 

اک معجزہ تھا ذات کا ایمان پہ دلیل 
سب ڈھونڈتے رہے نہ تھا سایہ رسول کا 

دنیا بنی اسی کی بنی اس کی آخرت 
کردار میں بسا لے جو تقویٰ رسول کا 

ہے آرزو یہی کہ مدینے کو جا سکوں 
اور دیکھنا نصیب ہو روضہ رسول کا 

گونجی بلال کی نہ مدینے میں جب اذاں 
گھڑیاں تھمیں کہ چپ تھا دلارا رسول کا 

ہر چیز میں توکل و تقویٰ کی تھی جھلک 
جامہ رسول کا کہ بچھونا رسول کا 

بخشش تبھی تو ہو جو شفاعت ملے مجھے 
وعدہ خدا کا پر ہو ارادہ رسول کا 

پوری یہ کائنات ستاروں سے ہے بھری 
سب سے بلند بخت ستارہ رسول کا 

گو ہے گناہ گار ہے بخشش کی آس پر 
شمسہؔ کو صرف ایک سہارا رسول کا

شمسہ نجم



روحی قادری

یوم پیدائش 21 جنوری 1920

گمان و وہم کے دوزخ میں ڈال دیتا ہے
مجھے یقیں کا سمندر اچھال دیتا ہے

روحی قادری


فرحت ناز

یوم پیدائش 20 جنوری 1978

شمع کی لو سے جو گزرتے ہیں
وہ پتنگے ہی جلتے مرتےہیں

ہم ہیں مانند اک گھروندے کے
جابجا ٹوٹتے بکھرتے ہیں

جوں ہی کروٹ بدلتا ہے سورج
سائے دیوار سے اترتے ہیں

ناز ہم موم کا بدن لے کر
بے خطر آگ سے گزرتے ہیں

فرحت ناز



محشر فیض آبادی

یوم پیدائش 20 جنوری 1958

مرے کھانے سے گھبرایا بہت ہے 
وہ دعوت دے کے پچھتایا بہت ہے 
لفافہ دیکھ کر بولا وہ مجھ سے 
دیا کم ہے میاں کھایا بہت ہے 

محشر فیض آبادی



ایم علی

یوم پیدائش 20 جنوری 1946

بجا رہا ہے تہہِ آب جلترنگ کوئی
ہر ایک موج میں ملتی ہے گنگناہٹ سی

ایم علی



جنید حزین لاری

یوم پیدائش 20 جنوری 1933

برپا ہیں عجب شورشیں جذبات کے پیچھے 
بے تاب ہے دل شوق ملاقات کے پیچھے 

جن کو نہ سمجھ پائے ہم ارباب نظر بھی 
سو راز ہیں اس شوخ کی ہر بات کے پیچھے 

اس ٹھوس حقیقت سے تعرض نہیں ممکن 
اک صبح تجلی ہے ہر اک رات کے پیچھے 

ارباب وطن ہم کو ذرا یہ تو بتائیں 
کن ذہنوں کی سازش ہے فسادات کے پیچھے 

منظر ہے لہو رنگ سلگتی ہیں فضائیں 
شعلوں کا وہ سیلاب ہے برسات کے پیچھے 

ہم ان کو سمجھتے ہیں حزیںؔ کہہ نہیں سکتے 
اسباب جو ہیں تلخئ حالات کے پیچھے 

جنید حزین لاری



محمد اسماعیل آسی آروی

یوم پیدائش 19 جنوری 1921

نہ قہقہہ نہ تبسم نہ اشک پیہم ہے 
جہاں پہ ہم ہیں وہاں کچھ عجیب عالم ہے 

جو پہلے آج سے تھا آج بھی وہی غم ہے 
یہ دور جام نہیں ہے فریب پیہم ہے 

برا نہ مانو تو اک بات تم سے عرض کروں 
تمہارا لطف بہ اندازۂ ستم کم ہے 

یہ صبح و شام کی مستی یہ نشۂ شب و روز 
ترے بغیر کوئی کیف ہو مجھے سم ہے 

سر نیاز کبھی اس کے سامنے نہ جھکا 
اسی قصور پہ ہم سے زمانہ برہم ہے 

ہے بات بات پہ ہجو سبو و ساغر و مے 
جناب حضرت‌ واعظ سے ناک میں دم ہے 

نگاہ ناز کو تکلیف التفات نہ دو 
کہ اب تو زخم جگر بے نیاز مرہم ہے 

خطا ضرور کوئی اس سے بھی ہوئی ہوگی 
کہ آخر آسیؔ خستہ بھی ابن آدم ہے 

محمد اسماعیل آسی آروی



ناظم قمر

یوم پیدائش 19 جنوری 1937

دور حاضر کا یہ کردار خدا خیر کرے 
ماں سے بیٹے کو نہیں پیار خدا خیر کرے 

پیار اوروں میں تو ہم بانٹ رہے تھے کل تک 
آج آپس میں ہے تکرار خدا خیر کرے 

بسکہ آباد ہمارے ہی لہو سے ہے چمن 
ہم چمن کے نہیں حق دار خدا خیر کرے 

ایک نا اہل ہے اس وقت چمن کا مالی 
پھول بھی تو نہیں بیدار خدا خیر کرے 

چھوٹ کر ہاتھ سے دو چار گریں تو کیا ہو 
ایک تھالی کی یہ جھنکار خدا خیر کرے 

نامکمل ہے نشیمن مرا لیکن بجلی 
بن گئی طالب دیدار خدا خیر کرے 

جانے کب کیسے قمرؔ پیاس بجھے گی اس کی 
پی رہی ہے لہو تلوار خدا خیر کرے

ناظم قمر


 

تبسم صدیقی

یوم پیدائش 18 جنوری 1964

یہ جو ہم اختلاف کرتے ہیں 
آپ کا اعتراف کرتے ہیں 

آؤ دھوتے ہیں دل کے داغوں کو 
آؤ آئینے صاف کرتے ہیں 

تم کو خوش دیکھنے کی خاطر ہم 
بات اپنے خلاف کرتے ہیں 

مجرم عشق تو بھی ہے اے دوست 
جا تجھے ہم معاف کرتے ہیں 

لفظ کے گھاؤ ہوں تو کیسے بھریں 
لفظ گہرا شگاف کرتے ہیں

تبسم صدیقی



فوزیہ اختر ازکی

یوم پیدائش 17 جنوری

مرے کانوں میں ان کے لہجے کی پھر چاشنی اترے
زباں سے ان کی ہر اک بات بن کے نغمگی اترے

سدا روشن کیا ہے دل کو جن کی یاد سے ہم نے
ہمارے نام پر ان کے بھی دل میں روشنی اترے

مرے گلشن سے ہجرت پر خزاں مجبور ہو جائے
ہر اک برگ و شجر پر اس طرح سے تازگی اترے

سدا تہمت لگاتے ہیں وہ مجھ پر کیا کروں مولا
میں مریم تو نہیں جس کی صفائی میں وحی اترے

یہ مانا بخت میں میرے ازل سے رات ہے لیکن
کبھی تو میرے آنگن میں بھی اجلی چاندی اترے

میں خود کو آئینے میں دیکھ کر حیران رہ جاؤں
تمہارے پیار سے چہرے پہ ایسی دلکشی اترے

کسی ہمدرد کا کاندھا میسر فوزیہ کو ہو
تھکن برسوں کی اس کے جسم و جاں سے بھی کبھی اترے

فوزیہ اختر ازکی



حکیم منظور

یوم پیدائش 17 جنوری 1937

ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا 
وہ زندگی کو یہ کیسا عذاب دے کے گیا 

نہ دے سکا مجھے وسعت سمندروں کی مگر 
سمندروں کا مجھے اضطراب دے کے گیا 

وہ کس لیے مرا دشمن تھا جانے کون تھا وہ 
جو آنکھ آنکھ مسلسل سراب دے کے گیا 

خلا کے نام عطا کر کے چھاؤں کی میراث 
مجھے وہ جلتا ہوا آفتاب دے کے گیا 

وہ پیڑ اونچی چٹانوں پہ اب بھی تنہا ہیں 
انہی کو ساری متاع سحاب دے کے گیا 

ہر ایک لفظ میں رکھ کر سراب معنی کا 
ہر ایک ہاتھ میں وہ اک کتاب دے کے گیا 

میں کل ہوں اور تو جز میں بھی کل ہے اے منظورؔ 
بچھڑتے وقت مجھے یہ خطاب دے کے گیا

حکیم منظور



رشید ساقی

یوم پیدائش 17 جنوری 1926

سل گئے ہونٹ اگر آنکھ ہی نم ہو جائے
کاش جو بوجھ میرے دل پہ ہے کم ہو جائے

کوئی انداز تو جینے کا ہو انسان کے پاس
جسے راحت نہ ملے خوگرِغم ہو جائے

اس توقع پر ستم اس کے سہے جاتے ہیں
جانے کس وقت وہ مائل بہ کرم ہو جائے

سر فرازی مجھے مل جائے زمانے بھر کی
مرا سر آپؐ کی دہلیز پہ خم ہو جائے

مری تحریر ہو رنگین کہ سادہ ، کچھ ہو
کیفیت دل کی کسی طور رقم ہو جائے 

نہ وہ احباب ،نہ وہ صورت حالات، نہ ہم 
کیسے تسکین کا سامان بہم ہو جائے

مری فطرت کو عطا کر وہ بصیرت جس سے
دل جہاں بیس صفتِ ساغر جم ہو جائے

شاعری حسن صداقت کی ہو مظہر ساقی
مرا فن باعثِ توقیر قلم ہو جائے 

رشید ساقی



انور محمد انور

یوم پیدائش 16 جنوری 1983

زندگی کی جنگ میں جذبات سے لڑنے لگے
کھیلنے کی عمر میں حالات سے لڑنے لگے

اپنے حصے کی محبت بد نصیبی کھا گئی
ٹوٹ کے رونے لگے اوقات سے لڑنے لگے

ہار جانے پر کبھی بھی چین سے بیٹھے نہیں
جیتنا تھا اس لیے تو مات سے لڑنے لگے

انور محمد انور



محمد عثمان

یوم پیدائش 16 جنوری 1997

ہاتھ اپنے اٹھا دعا کے لئے 
مانگ سب کا بھلا خدا کے لئے

اور کوئی بھی در نہیں تیرا
سر جھکائے جہاں شفا کے لئے

منزلوں سے ہے واسطہ جن کا
وہ ترستے نہیں ضیا کے لئے

اپنے ماں باپ کا کہا مانو
یہ ہی کافی ہے بس بقا کے لئے

جن پہ راضی ہے اس کا ہمسایہ
ان پہ خوش ہے خدا سدا کے لئے

یاد عثمان کو کریں گے سب
یہ تو جیتا ہے بس وفا کے لئے

محمد عثمان



ڈاکٹر الف انصاری

یوم پیدائش 16 جنوری 1946

سورج چمک رہا تھا کھلے آسمان پر 
شعلے برس رہے تھے ہمارے مکان پر

تنقیص بال و پر جو کرتا رہا مدام
حیرت ہے آج اس کو ہماری اڑان پر

ہم اس خدا کے بندے ہیں حکمت سے بے بہا 
روزانہ جو اگانا ہے سبزہ چٹان پر

 خوددار ہے خودی پہ بڑا اس کو ناز ہے
 دے دے گا اپنی جان میاں اپنی آن پر
 
برکت کی بات کرتے ہو پڑھتے نہیں نماز
قرآں اٹھا کے رکھتے ہو اونچے مچان پر

نادان اس کو کیوں نہ کہیں ہم الف میاں
جس شخص کو بھروسہ ہے اپنی کمان پر

ڈاکٹر الف انصاری



عزت لکھنوی

یوم وفات 16 جنوری 1981

فکر بدلے گی تو پھر لوگ ہمیں پوجیں گے
بعد مرنے کے کیا جائے گا چرچہ اپنا

غیر تو وقت پہ کچھ کام بھی آ جاتے ہیں 
کوئی لیکن کبھی اپنوں میں نہ نکلا اپنا

لوگ تڑپیں گے اگر یاد کبھی آئے گی
ایسا اسلوب یہ انداز یہ لہجہ اپنا

عزت لکھنوی



احمد سلیم

یوم پیدائش 16 جنوری 1933

ہے مجھے خبر ان کو چپ سی لگ گئی ہوگی
جب وفا کا بھولے سے نام آگیا ہوگا

احمد سلیم



رعنا اکبر آبادی

یوم وفات 15 جنوری 1979

سنتے ہیں کہ مل جاتی ہے ہر چیز دعا سے
اک روز تمہیں مانگ کے دیکھیں گے خدا سے

جب کچھ نہ ملا ہاتھ دعاؤں کو اٹھا کر
پھر ہاتھ اٹھانے ہی پڑے ہم کو دعا سے

دنیا بھی ملی ہے غم دنیا بھی ملا ہے
وہ کیوں نہیں ملتا جسے مانگا تھا خدا سے

تم سامنے بیٹھے ہو تو ہے کیف کی بارش
وہ دن بھی تھے جب آگ برستی تھی گھٹا سے

اے دل تو انہیں دیکھ کے کچھ ایسے تڑپنا
آ جائے ہنسی ان کو جو بیٹھے ہیں خفا سے

آئینے میں وہ اپنی ادا دیکھ رہے ہیں
مر جائے کہ جی جائے کوئی ان کی بلا سے

رعنا اکبر آبادی



سہیل ارشد

یوم پیدائش 15 جنوری 1966

کپکپی کیسی ہے یہ رہ رہ کے میرے جسم میں
لمس کا اس کے اثر یا چھپکلی ہے جسم پر

سہیل ارشد



زاہد مختار

یوم پیدائش 15 جنوری 1956

اب تو ہر گھر کا ایک ہی منظر
بند کمرہ، حصار، خاموشی

زاہد مختار



اظہر نیر

یوم پیدائش 15 جنوری 1945

سچ بولنا چاہیں بھی تو بولا نہیں جاتا 
جھوٹوں کے لئے شہر بھی چھوڑا نہیں جاتا 

تم کتنا ہی عہدوں سے نوازو ہمیں لیکن 
نفرت کا شجر ہم سے تو بویا نہیں جاتا 

سوچو تو جوانی کبھی واپس نہیں آتی 
دیکھو تو کبھی آ کے بڑھاپا نہیں جاتا 

دل پر تو بہت زخم زمانے کے لگے ہیں 
خود داری سے لیکن کبھی رویا نہیں جاتا 

دنیا بھی سکوں سے کبھی رہنے نہیں دیتی 
نوحہ بھی کبھی اپنوں کا لکھا نہیں جاتا 

پہرے مرے ہونٹوں پہ لگا رکھے ہیں اس نے 
چاہوں میں گلا کرنا تو بولا نہیں جاتا 

تنکے بھی نہیں چھوڑے ہیں نیرؔ کسی گھر کے 
سیلاب وہ آیا ہے کہ دیکھا نہیں جاتا

اظہر نیر



ناشاد اورنگ آبادی

یوم پیدائش 15 جنوری 1935

بھیجتا ہوں آپ کو اپنی پسندیدہ غزل 
تازہ تازہ ناشنیدہ اور نادیدہ غزل 

داستان حسن بھی ہے یہ سراپا حسن بھی 
سنگ مرمر سے مثال بت تراشیدہ غزل 

میرؔ غالبؔ ذوقؔ و مومنؔ پر بھی تھی جاں سے نثار 
تھی بہادر شاہ کی ہر چند گرویدہ غزل 

شہرۂ آفاق ہے اس کا جمال فکر و فن 
ساری اصناف سخن میں ہے جہاں دیدہ غزل 

پارہ پارہ ہو نہ جائے ماہ پارہ دیکھیے 
ہے ہوس ناکوں کے ہاتھوں آج رنجیدہ غزل 

شعر کی آمد نہیں ہوتی ہے کیا ناشادؔ اب 
شاعران‌ عصر تو کہتے ہیں پیچیدہ غزل

ناشاد اورنگ آبادی



حبیب احمد صدیقی

یوم پیدائش 15 جنوری 1908

خزاں نصیب کی حسرت بروئے کار نہ ہو 
بہار شعبدۂ چشم انتظار نہ ہو 

فریب خوردۂ الفت سے پوچھئے کیا ہے 
وہ ایک عہد محبت کہ استوار نہ ہو 

نظر کو تاب نظارہ نہ دل کو جرأت دید 
جمال یار سے یوں کوئی شرمسار نہ ہو 

قبا دریدہ و دامان و آستیں خونیں 
گلوں کے بھیس میں یہ کوئی دل فگار نہ ہو 

نہ ہو سکے گا وہ رمز آشنائے کیف حیات 
جو قلب چشم تغافل کا رازدار نہ ہو 

طریق عشق پہ ہنستی تو ہے خرد لیکن 
یہ گمرہی کہیں منزل سے ہمکنار نہ ہو 

نہ طعنہ زن ہو کوئی اہل ہوش مستوں پر 
کہ زعم ہوش بھی اک عالم خمار نہ ہو 

وہ کیا بتائے کہ کیا شے امید ہوتی ہے 
جسے نصیب کبھی شام انتظار نہ ہو 

یہ چشم لطف مبارک مگر دل ناداں 
پیام عشوۂ رنگیں صلائے دار نہ ہو 

کسی کے لب پہ جو آئے نوید زیست بنے 
وہی حدیث وفا جس پہ اعتبار نہ ہو 

جو دو جہان بھی مانگے تو میں نے کیا مانگا 
وہ کیا طلب جو بقدر عطائے یار نہ ہو

حبیب احمد صدیقی


 

نذیر قیصر

یوم پیدائش 15 جنوری 1945

میری آنکھوں کو مری شکل دکھا دے کوئی 
کاش مجھ کو مرا احساس دلا دے کوئی 

غرض اس سے نہیں وہ کون ہے کس بھیس میں ہے 
میں کہاں پر ہوں مجھے میرا پتا دے کوئی 

ڈھونڈھتا پھرتا ہوں یوں اپنے ہی قدموں کے نشاں 
جیسے مجھ کو مری نظروں سے چھپا دے کوئی 

دل کی تختی سر بازار لیے پھرتا ہوں 
کاش اس پر تری تصویر بنا دے کوئی 

یوں تجھے دیکھ کے چونک اٹھتی ہیں سوئی یادیں 
جیسے سناٹے میں آواز لگا دے کوئی 

دوسری سمت ہیں خوشبو کے افق کی صبحیں 
رنگ کے کہر کی دیوار گرا دے کوئی 

سانس روکے ہوئے بیٹھے ہیں مکانوں میں مکیں 
جانے کب اور کسے آ کے صدا دے کوئی

نذیر قیصر


 

یونس آرزو

یوم پیدائش 15 جنوری 1954

نفرت کے چراغوں کو حکمت سے بجھا دیں گے
ہم شمع محبت کی ہر دل میں جلا دیں گے

ہر رنگ کے پھولوں سے گل دان سجا دیں گے
ہر سمت نئی دنیا الفت کی بسا دیں گے

دعویٰ تو نہیں کرتے کوشش ہے مگر جاری
ماحول گلستاں کا پُرامن بنا دیں گے

ہر سمت فضاؤں میں الفت کی حکومت ہو
ہم سوچ میں انساں کی یہ بات بٹھا دیں گے

ہر شخص ہمیں اپنی مجلس میں بلائے گا
جب اپنے خیالوں کو پاکیزہ بنا دیں گے

ہر وقت فضاؤں میں خوشبو ہو محبت کی
ہم امن کے وہ پھول زمانے میں کھلا دیں گے

ہر فرد کی آنکھوں سے ہم پونچھ کے اشکِ غم
اک آرزوؔ جینے کی ہر دل میں جگا دیں گے

یونس آرزو



فیاض کاوش

یوم پیدائش 15 جنوری 1937
رباعی 
اب دل میں محبت کا شرارا بھی نہیں
کچھ آپ کی نظروں کا اشارا بھی نہیں
کس درجہ ہوئی تیرہ و تاریک حیات
پلکوں پہ لرزتا ہوا تارا بھی نہیں

رباعی 
بجلی کا گھٹاؤں میں سفر ہوتا ہے
تاروں میں تجلی کا گذر ہوتا ہے
اے روشنی_قلب کے منکر سن لے
پتھر کے بھی سینے میں شرر ہوتا ہے

رباعی 
آغوش_قمر میں جو مچل جاتی ہے
پھولوں کے جو پہلو سے نکل جاتی ہے
وہ مہکی ہوئی چاندنی کیسے ساقی
ہر صبح مرے جام میں ڈھل جاتی ہے

فیاض کاوش



عمانوئیل نذیر مانؔی

یوم پیدائش 14 جنوری 1972

لوٹ کر آئے نہیں شہر سے جانے والے 
جانے کس دیس میں جاتے ہیں نہ آنے والے
 
ہم نے ہر بار وفاؤں کی سزا پائی ہے 
ہم نے دھوکے یہاں کھائے ہیں نہ کھانے والے 

ہم نے اِس کارِ محبت میں قدم رکھا تھا 
ہم وہ عاشق ہیں میاں دشت بسانے والے 

اُس کو دیکھا تو مری آنکھ سے چھلکے آنسو 
کُچھ تو ہوتے ہی نہیں زخم چُھپانے والے 

اِن درختوں پہ بھی آسیب کا سایہ ہے کوئی 
سانپ بیٹھے ہیں پرندوں کو ستانے والے 

اب کے دشمن کے لئے مَیں نے دعا مانگی ہے 
دوست مِلتے ہیں مجھے خون بہانے والے 

میرے خوابوں کی یوں تعمیر کہاں ممکن ہے 
دل میں رہتے ہیں مری نیند چُرانے والے 

اُن کی یادوں سے نِکلتا ہی نہیں دِل مانی 
مر کے بھی ساتھ نبھاتے ہیں نبھانے والے 

عمانوئیل نذیر مانؔی



بھویش دلشاد

یوم پیدائش 14 جنوری 1981

نہ قریب آ نہ تو دور جا یہ جو فاصلہ ہے یہ ٹھیک ہے 
نہ گزر حدوں سے نہ حد بتا یہی دائرہ ہے یہ ٹھیک ہے 

نہ تو آشنا نہ ہی اجنبی نہ کوئی بدن ہے نہ روح ہی 
یہی زندگی کا ہے فلسفہ یہ جو فلسفہ ہے یہ ٹھیک ہے 

یہ ضرورتوں کا ہی رشتہ ہے یہ ضروری رشتہ تو ہے نہیں 
یہ ضرورتیں ہی ضروری ہیں یہ جو واسطہ ہے یہ ٹھیک ہے 

میری مشکلوں سے تجھے ہے کیا تیری الجھنوں سے مجھے ہے کیا 
یہ تکلفات سے ملنے کا جو بھی سلسلہ ہے یہ ٹھیک ہے 

ہم الگ الگ ہوئے ہیں مگر ابھی کنپکنپاتی ہے یہ نظر 
ابھی اپنے بیچ ہے کافی کچھ جو بھی رہ گیا ہے یہ ٹھیک ہے 

مری فطرتوں میں ہی کفر ہے مری عادتوں میں ہی عذر ہے 
بنا سوچے میں کہوں کس طرح جو لکھا ہوا ہے یہ ٹھیک ہے

بھویش دلشاد


 

رضی احمد فیضی

یوم پیدائش 13 جنوری 1973

جو آسمان پر ہے وہ مہتاب اور ہے
میں جس کو دیکھتا ہوں تہہِ آب اور ہے

انگڑائی میں نے دیکھی ہے اس ماہتاب کی
جو آپ جانتے ہیں وہ محراب اور ہے

ہر ساز دلنشیں ہے مگر جانِ مطربہ
تار نفس کو چھیڑے وہ مضراب اور ہے

مضمون دلفریب ہے لیکن مرے حضور
عنوانِ باب اور ہے یہ باب اور ہے

ہو کوئی دیدہ ور تو کرے کارِ امتیاز
آنسو الگ ہے دیدۂِ خوناب اور ہے

شاید نہ پیشِ لفظ ہو یہ بھی فریب کا
ظالم کے رخ پہ آج تب و تاب اور ہے

تعریف سامنے ہے برائی ہے پیٹھ پر
یعنی ہمارا حلقۂِ احباب اور ہے

دریا کے پاس فیضی نہ اس کو تلاشئے
دل جس میں ڈوبتا ہے وہ گرداب اور ہے

رضی احمد فیضی


 

قیصر امام قیصر

یوم پیدائش 12 جنوری 1970

روز نیا الزام لگایا جاتا ہے
ہم کو دہشت گرد بتایا جاتا ہے

شبدوں کا اک جال بچھایا جاتا ہے
خون کے آنسو ہم کو رلایا جاتا ہے

مسجد کی دیوار گرا کر سب خوش ہیں
گھی کا دیا مندر میں جلایا جاتا ہے

اچھے دن اب لوٹ کے پھر نہ آئیں گے
جھوٹا سپنا روز دکھایا جاتا ہے

لاکھوں بچے بھوکے ہی سو جاتے ہیں
کتوں کو بھر پیٹ کھلایا جاتا ہے

گو رکشا کے نام پہ ہم دیں والوں کے 
خون کا دریا روز بہایا جاتا ہے

قیصر امام قیصر



اشفاق احمد اشفاق

یوم پیدائش 12 جنوری 1973

چشمِ عالم میں وہ خوب تر ہوگئے
سنگ ریزے جو لعل و گہر ہوگئے

یا خدا آنکھ والوں کی اب خیر ہو
کوربینا جو تھے دیدہ ور ہوگئے

گوشۂ دل میں چہرے جو محفوظ تھے
ریزہ ریزہ سبھی ٹوٹ کر ہوگئے

ظلم پر ظلم کا ہے یہ ردِ عمل
پیکرِ گل تھے جو وہ شرر ہوگئے

جب سے ظلِ الٰہی نے تمغہ دیا
تھے جو نامعتبر ، معتبر ہوگئے

ہم نے پالا کبھی آستیں میں جنھیں
وہ مرے واسطے پُرخطر ہوگئے

میں تو نکلا سفر میں اکیلا مگر
آبلے پاؤں کے ہم سفر ہوگئے

مسند آراء ہوئے بدنما چہرے جب
تو وہ اشفاق زیبِ نظر ہوگئے

اشفاق احمد اشفاق



Sunday, January 15, 2023

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...