Urdu Deccan

Saturday, July 31, 2021

کامران ترمذی

 یوم پیدائش 31 جولائی 1993


رہبر ہی اگر اپنا, رہزن نہ بنا ہوتا

مقتل یہ سجا ہوتا نہ خون بہا ہوتا


تم پہ بھی اگر واعظ, یہ راز کھلا ہوتا

دیوانہ بنا ہوتا, مستانہ بنا ہوتا


ہم بندگیِ بت سے, ہوتے نہ کبھی کافر

ہر جائے اگر مومن, موجود خدا ہوتا


یہ جامِ فنا جسکو سمجھا ہے ہلاہل تُو

ناصح یہ تو امرِت ہے, دو گھونٹ پیا ہوتا


پل بھر کی کہانی تھی, دم بھر کا فسانہ تھا

ہم اُسکو سنا دیتے, ہمدم جو ملا ہوتا


منظور اگر اسکو تھا مجھ سے جدا ہونا

تیور نہ بدلتا وہ, میں ہنس کے جدا ہوتا


کامران ترمذی


تضمین غزلِ مومن خان مومن


سردار سلیم

 بہت نایاب ہوتی جا رہی ہے

محبت خواب ہوتی جا رہی ہے


مرے الفاظ تارے بن گئے ہیں

غزل مہتاب ہوتی جا رہی ہے


یہ کس کی تشنگی کا ہے کرشمہ

ندی پایاب ہوتی جا رہی ہے


لپیٹے میں نہ لے لے آسماں کو

زمیں گرداب ہوتی جا رہی ہے


سماعت ہو رہی ہے پارہ پارہ

زباں تیزاب ہوتی جا رہی ہے


سلیم اب ہوش مندی بھی تمھاری

جنوں کا باب ہوتی جا رہی ہے


سردار سلیم


علی راحل بورے والا

 چڑھتے ہوٸے سورج کا پرستار ہوا ہے

مسلک یہی دنیا کا مرے یار ہوا ہے


مطلوب رہی خوشیاں زمانے کو ہمیشہ

کب کون یہاں غم کا طلبگار ہوا ہے


جس نے بھی کیا ورد اناالحق کا یہاں پر

دنیا کی نظر میں وہ گنہگار ہوا ہے


جو تاج محل سپنوں میں تعمیر کیا تھا

جب آنکھ کھلی میری وہ مسمار ہوا ہے


کانٹوں کی یہاں داد رسی کون کرے گا

ہر بندہ ہی پھولوں کا طرفدار ہوا ہے


حقدار رعایت کا کسی طور نہیں وہ

جو شخص محبت کا خطاوار ہوا ہے


ہر رستے کی دیوار گراٸی میں نے جس کی

اب وہ ہی مری راہ کی دیوار ہوا ہے

 

کیا پوچھتے ہو اس کے میاں وعدے کا انجام

وہ ہی ہوا انجام جو ہر بار ہوا ہے


سینچا ہے اسےخون جگر سے میں نے رَاِحِلؔ

یونہی تو نہیں پیڑ ثمر بار ہوا ہے


علی رَاحِلؔ بورے والا


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 منشی پریم چند 31 جولائی 1880


اردو ادب کی شان تھے منشی پریم چند

اہل نظر کی جان تھے منشی پریم چند


اردو میں روح عصر ہیں ان کی نگارشات

خوش فکرو خوش بیان تھے منشی پریم چند


اجداد ان کے گرچہ قدامت پسند تھے

پر فکر سے جوان تھے منشی پریم چند


کرداروں کے وسیلے سے ان کی زبان میں

لوگوں کے ترجمان تھے منشی پریم چند


٫گودان ٫ہو ٫ غبن ٫ ہو کہ ٫ بازار حسن ہو

فنکار اک مہان تھے منشی پریم چند


بیحد عزیز تھی انھیں انسان دوستی

انسان مہربان تھے منشی پریم چند


سینے میں جن کے برقی تھا اک دردمند دل

وہ حامی کسان تھے منشی پریم چند


احمد علی برقی اعظمی


سلمان اختر

 یوم پیدائش 31 جولائی 1946


وہ پاس رہ کے بھی مجھ میں سما نہیں سکتا

وہ مدتوں نہ ملے دور جا نہیں سکتا


وہ ایک یاد جو دل سے مٹی نہیں اب تک

وہ ایک نام جو ہونٹوں پہ آ نہیں سکتا


وہ اک ہنسی جو کھنکتی ہے اب بھی کانوں میں

وہ اک لطیفہ جو اب یاد آ نہیں سکتا


وہ ایک خواب جو پھر لوٹ کر نہیں آیا

وہ اک خیال جسے میں بھلا نہیں سکتا


وہ ایک شعر جو میں نے کہا نہیں اب تک

وہ ایک راز جسے میں چھپا نہیں سکتا


سلمان اختر


اظہر ادیب

 یوم پیدائش 31 جولائی 1945


کچھ اب کے رسم جہاں کے خلاف کرنا ہے

شکست دے کے عدو کو معاف کرنا ہے


ہوا کو ضد کہ اڑائے گی دھول ہر صورت

ہمیں یہ دھن ہے کہ آئینہ صاف کرنا ہے


وہ بولتا ہے تو سب لوگ ایسے سنتے ہیں

کہ جیسے اس نے کوئی انکشاف کرنا ہے


مجھے پتہ ہے کہ اپنے بیان سے اس نے

کہاں کہاں پہ ابھی انحراف کرنا ہے


چراغ لے کے ہتھیلی پہ گھومنا ایسے

ہوائے تند کو اپنے خلاف کرنا ہے


وہ جرم ہم سے جو سرزد نہیں ہوئے اظہرؔ

ابھی تو ان کا ہمیں اعتراف کرنا ہے


اظہر ادیب


جمیل دوشی

 یوم پیدائش 15 جولائی 1951


تیری طرف ہوں اور کنارے کھڑا ہوں میں 

اب یہ گلہ نہ کرنا ادھر جا ملا ہوں میں


میری شکست پر ہی اگر منحصر ہے امن

تو لے بغیر شرط سپر ڈالتا ہوں


وہ ہے کہ مجھ سے روٹھ گیا ہے بغیر بات

میں ہوں اسے بھی اپنی خطا مانتا ہوں میں


میں سوچتا ہوں میرے سوا سب سکوں سے ہیں

اور پھر یہ سوچتا ہوں غلط سوچتا ہوں میں 


میں اپنے آپ خود کہیں چھپ جاتا ہوں جمیل

پھر خود کو پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا ہوں میں 


جمیل دوشی


غلام جیلانی قمر

 یوم پیدائش 01 فروری 2002


دل کی بے چارگی سے الجھا ہوں

یعنی میں عاشقی سے الجھا ہوں


آدمی آدمی کو ہے معلوم

میں کسی آدمی سے الجھاہوں


تب سے الجھن نہیں مجھے کوئی

جب سےمیں عاشقی سےالجھا ہوں


مجھ کو الجھن ہوئی الجھنے میں

میں بڑی سادگی سے الجھا ہوں


بجھ نہ جائے کہیں چراغ سحر

آج میں چاندنی سے الجھاہوں


باطنی تو تری خدا جانے 

میں تری ظاہری سےالجھاہوں


غلام جیلانی قمر


آلوک یادو

 یوم پیدائش 30 جولائی 1960


فیصلہ ممکن ہے یوں منصف اگر عادل نہ ہو

قتل تو ہوتے رہیں ثابت کوئی قاتل نہ ہو


مشکلیں آساں نہ ہوں میری تو مجھ کو غم نہیں

پر جو ہے آساں کم از کم وہ تو اب مشکل نہ ہو


دفن ہیں دفتر کی فائل میں ہزاروں مسئلے

ایسا لگتا ہے کہ جیسے قبر ہو فائل نہ ہو


ختم ہونے کو سفر ہے ساتھ چھوٹا جائے ہے

چاہتا ہے دل مرا منزل ابھی حاصل نہ ہو


عشق ہے ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہیں

یعنی اک کشتی کہ جس کے واسطے ساحل نہ ہو


آلوک یادو


واجد علی شاہ

 یوم پیدائش 30 جولائی 1823


سہے غم پئے رفتگاں کیسے کیسے

مرے کھو گئے کارواں کیسے کیسے


وہ چتون وہ ابرو وہ قد یاد سب ہے

سناؤں میں گزرے بیاں کیسے کیسے


مرے داغ سوزاں کا مضموں نہ سوچو

جلے کہہ کے آتش‌ زباں کیسے کیسے


رہا عشق سے نام مجنوں کا ورنہ

تہ خاک ہیں بے نشاں کیسے کیسے


شب وصل میں مہ کو عریاں کریں گے

عیاں ہوں گے راز نہاں کیسے کیسے


کمر یار کی ناتوانی میں ڈھونڈی

توہم ہوئے درمیاں کیسے کیسے


کلیجے میں اخترؔ پھپھولے پڑے ہیں

مرے اٹھ گئے قدرداں کیسے کیسے


واجد علی شاہ اختر


ماہر القادری

 یوم پیدائش 30 جولائی 1906


ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی

دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی


ایک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا

سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی


اس بات کو کہتے ہوئے ڈرتے ہیں سفینے

طوفاں کو خودی دامن ساحل نے ہوا دی


مانا کہ میں پامال ہوا زخم بھی کھائے

اوروں کے لیے راہ تو آسان بنا دی


اتنی تو مئے ناب میں گرمی نہیں ہوتی

ساقی نے کوئی چیز نگاہوں سے ملا دی


وہ چین سے بیٹھے ہیں مرے دل کو مٹا کر

یہ بھی نہیں احساس کہ کیا چیز مٹا دی


اے باد چمن تجھ کو نہ آنا تھا قفس میں

تو نے تو مری قید کی میعاد بڑھا دی


لے دے کے ترے دامن امید میں ماہرؔ

ایک چیز جوانی تھی جوانی بھی لٹا دی


ماہر القادری


سید رئیس احمد

 یوم پیدائش 23 فروری 1992


ایسی چاہت مجھے عطا کردے

عشق ہو جائے تو فنا کردے 


قوم و ملت کا جذبہ زندہ رہے

دل میں تابندہ مدعا کردے


عقدۂ زیست مجھ پہ کھل جائے

تو، حقیقت سے آشنا کردے


 جو بھی دیکھے مجھے سنور جائے

اے خدا مجھکو آئینہ کردے


شہر کا شہر ہو گیا ویران

اس کو پھر سےچمن نما کردے


جھوٹ کے سامنے نہ سر خم ہو

اپنے قد سے مجھے بڑا کردے


ہر طرف تیرگی کا غلبہ ہے

کوئی روشن یہاں دیا کردے


مجھکو سید رئیس کہتے ہیں

دل رئیسانہ اے خدا کردے


سید رئیس احمد


ضمیر قیس

 یوم پیدائش 29 جولائی 1975


ترے درویش جو احساس ِ زیاں رکھتے ہیں

ایسے طوفان ، سمندر بھی کہاں رکھتے ہیں


تم یہ مرجھائے ہوئے پھول کہاں لے آئے ؟

ہم تو متروک صحیفوں کو یہاں رکھتے ہیں


بیٹھ جاتے ہیں درختوں کی گھنی چھاؤں میں

بوڑھے ماں باپ کی یادوں کو جواں رکھتے ہیں


اب تو ہر شخص ہی اندازہ لگا لیتا ہے

ہم اذیت ہو کہ خواہش ہو ، نہاں رکھتے ہیں


وہ بھی لب ہیں جو مٹا دیتے ہیں خود گھونٹ کی پیاس

وہ بھنور بھی ہیں جو کشتی کو رواں رکھتے ہیں


سب کی قسمت میں نہیں ہوتا ہے پنجرے کا سکون

کچھ پرندے ہیں جو محفوظ مکاں رکھتے ہیں


ہم فقیروں کی اداسی نہیں جانے والی

ہم بہاروں سے چھپا کر یہ خزاں رکھتے ہیں


بند کی جاتی نہیں کوئی اچانک سے کتاب

عشق رستے میں بھی چھوڑیں تو نشاں رکھتے ہیں


جانے بازار میں کیا شعبدہ برداری ہے !

دام بڑھ جاتے ہیں انگلی کو جہاں رکھتے ہیں


ہم بھی شانوں کے فرشتوں کی طرح ہیں جو ضمیر

لکھتے سب کچھ ہیں مگر بند زباں رکھتے ہیں


ضمیر قیس


عامر قدوائی

 یوم پیدائش 29 جولائی 1952  


دعائیں مانگ رہے ہیں سبھی سحر کے لئے

بہت ضروری ہے سورج نیا بشر کے لئے


زمین بانجھ نہ ہو جائے شدتِ غم سے

ابھی سے فکر کرو اس کے بال و پر کے لئے


خلوصِ دل سے ملو وہ سنوار دے گا تمہیں

نہیں ہے کام یہ مشکل ستارہ گر کے لئے


بہا لے اشکِ ندامت وہ بخش دے گا تجھے

کھلا ہوا ہے ابھی در گناہ گر کے لئے


اندھیرے کاٹ کے پھر آسماں کرو روشن

کہ روشنی بھی ضروری ہے ہر نگر کے لئے


یہ مہر و ماہ سبھی کھو چکے چمک اپنی

نئے چراغ ضروری ہیں اب سفر کے لئے


  عامر قدوائی


عارش کاشمیری

 یوم پیدائش 27 جولائی 1970


کہنے کو گو عمر پڑی تھی

چھوٹا منہ اور بات بڑی تھی


تُند ہوا کا رستہ روکے

دھوئیں کی دیوار کھڑی تھی


آگ کا دریا پار کیا تو

سامنے بیٹھی دھوپ کڑی تھی


اپنوں کی بستی میں عارش

سب کو اپنی اپنی پڑی تھی


عارش کاشمیری


تابش رامپوری ممبئی

 یوم پیدائش 17 مارچ 1970


ایسے چھلکاؤ نہ جذبات چلو سو جاؤ

ہو چکی اشکوں کی برسات چلو سو جاؤ


ساز اب تار نفس پہ تو مچلتے ہی نہیں 

کیا سنیں ایسے میں نغمات چلو سو جاؤ


تھک کے سورج بھی سمندر میں سمایا دیکھو 

شب کے ظاہر ہیں علامات چلو سو جا 


دن کو سونے سے تو برکت نہیں آتی گھر میں

اب تو بدلو یہ روایات چلو سو جاؤ


سب کو دریا کے کنارے ہی ہوائیں ملتیں

ہیں یہ فرسودہ خیالات چلو سو جاؤ


زلف سے باندھ کے تابش کو یہیں قید کرو

ایسے ضائع نہ کرو رات چلو سو جاؤ


تابشِ رامپور ی ممبئی


اورنگ زیب

 یوم پیدائش 28 جولائی


حدودِ ذات سے آگے سفر نہیں کروں گا

مَیں کائنات سے آگے سفر نہیں کروں گا


رہوں گا شعر کی دنیا میں مست و بے خود مَیں

قلم دوات سے آگے سفر نہیں کروں گا


تو کیا سرور سے آگے مجھے نہیں جانا ؟

تو کیا ثبات سے آگے سفر نہیں کروں گا ؟


عجیب دن تھا جو کہتا تھا میرے کانوں میں

مَیں آج رات سے آگے سفر نہیں کروں گا


تمھارے ساتھ ہی چلنا ہے مجھ کو منزل پر

تمھارے ساتھ سے آگے سفر نہیں کروں گا


کُھلا جو مجھ پہ تو مَیں خود سے ہو گیا بے دخل

کہ مَیں حیات سے آگے سفر نہیں کروں گا


مَیں اک لکیر ہوں کھینچی ہے جو مقدر نے

سو تیرے ہاتھ سے آگے سفر نہیں کروں گا


تمھارے حکم کی تکمیل کرنا ہے مجھ کو

تمھاری بات سے آگے سفر نہیں کروں گا


یہ حدِ خاک مری زندگی ہے زیبؔ سو مَیں

اس احتیاط سے آگے سفر نہیں کروں گا


اورنگ زیبؔ


اشفاق عامر

 یوم پیدائش 28 جولائی 1970


اپنی وحشت سے جو ڈرتا ہی چلا جاتا ہے

دل کے صحرا میں بکھرتا ہی چلا جاتا ہے


اس کی باتوں کا دیا جلتا ہے جب آنکھوں میں

شہر شب نور سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے


کم نہیں مے سے محبت میں خیالوں کا نشہ

آدمی حد سے گزرتا ہی چلا جاتا ہے


تیری آواز کے شاداب جہانوں سے پرے

کوئی ویرانی سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے


دھوپ اس شہر کی گلیوں میں کہاں ٹھہرے گی

سائے پر سایہ اترتا ہی چلا جاتا ہے


وقت کا یہ ہے کہ ہر تلخی و شیرینی سمیت

سلسلہ وار گزرتا ہی چلا جاتا ہے


وصل کا ایک اشارا بھی بہت ہے ہم کو

ہجر کا زخم تو بھرتا ہی چلا جاتا ہے


اشفاق عامر


فہمیدہ ریاض

 یوم پیدائش 28 جولائی 1945


پتھر سے وصال مانگتی ہوں

میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں


شاید پاؤں سراغ الفت

مٹھی میں خاک بھر رہی ہوں


ہر لمس ہے جب تپش سے عاری

کس آنچ سے یوں پگھل رہی ہوں


وہ خواہش بوسہ بھی نہیں اب

حیرت سے ہونٹ کاٹتی ہوں


اک طفلک جستجو ہوں شاید

میں اپنے بدن سے کھیلتی ہوں


اب طبع کسی پہ کیوں ہو راغب

انسانوں کو برت چکی ہوں


فہمیدہ ریاض


اظہر غوری

 یوم پیدائش 28 جولائی 1962


بچا لے دھوپ سے ایسا کوئی شجر نہ ملا

کہیں سراغ وفا قصہ مختصر نہ ملا


مچل رہے تھے جبین نیاز میں سجدے

یہ اور بات مقدر سے سنگ در نہ ملا


کریدتے رہے سب دوست میرے زخموں کو

سبھی نے طنز کیے کوئی چارہ گر نہ ملا


وہ کربلا تو نہیں دوستوں کی بستی تھی

تڑپتے رہ گئے پانی کو بوند بھر نہ ملا


ہجوم یاروں کا تھا میرے ساتھ ساحل تک

سمندروں میں مگر کوئی ہم سفر نہ ملا


لکھا کے لائے تھے محرومیاں مقدر میں

تجھے دعا نہ ملی اور مجھے اثر نہ ملا


ابھی تو اشک کی اک بوند سے یہ طوفاں ہے

قدم سنبھال لے اور آہ میں شرر نہ ملا


قدم بڑھائے تو پایاب تھا ہر اک دریا

مگر تلاش تھی جس کی وہی گہر نہ ملا


ہم اپنی زیست کو کرتے بھی کیا رقم اظہرؔ

ورق ملا بھی جو سیمیں تو آب زر نہ ملا


اظہر غوری


واصف علی واصف

 میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ

میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا


میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی

ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا


میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں

میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ


کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں

خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ


میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں

میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ


میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں

میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ


میں واصفِؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں

اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ


واصف علی واصفؔ


Tuesday, July 27, 2021

انجم رہبر

 جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے

اُن کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے


چاند تارے مرے قدموں میں بچھے جاتے ہیں

یہ بزرگوں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے


ماں مجھے دیکھ کے ناراض نہ ہو جائے کہیں

سر پہ آنچل نہیں ہوتا ہے تو ڈر لگتا ہے


انجم رہبر


محمد محمود عالم

 بیچ دی پوری حویلی اک مکاں رہنے دیا 

نوچ ڈالے لحم لیکن استخواں رہنے دیا


چھوڑ رکھا ہے اسے بیشک اسی کے حال پر 

بد گماں وہ ہو گیا تو بد گماں رہنے دیا 


مسکراہٹ جان لیوا ہو بھی سکتی ہے کبھی 

بس تعلق کا نشاں ہم نے میاں رہنے دیا 


وصل کی ساری خوشی کافور ہوکر رہ گئی 

اک 'مگر' بھی آپ نے جب درمیاں رہنے دیا 


 بزدلی سے واسطہ اس کو نہیں ہے باخدا 

حوصلہ محمود نے ہردم جواں رہنے دیا 


محمد محمود عالم آسنسول


امین جس پوری

 یوم پیدائش 27 جولائی 1953 


ہر شخص آج خود سے ہے بیزار دیکھیے

مفقود ہیں سکون کے آثار دیکھیے


پھر تندرست کیسے فضائے چمن رہے

ہیں باغباں بھی ذہن سے بیمار دیکھیے


پھر کیسے ان سے کیجئے تعمیر کی امید

بہکے ہوئے ہیں قوم کے معمار دیکھیے


کیسے ضمیر بیچ کے رہتے ہیں مطمئن

 کیسے فروغ پاتے ہیں مکّار دیکھیے


آشوبِ روزگا سے جینا محال ہے

بیٹھے ہیں ہاتھ باندھ کے فن کار دیکھیے


کس گُل کی آزو لئے گلشن میں جائیے 

کیا خالی جیب رونقِ بازار دیکھیے


پھر مسترد بھی کیجے میرا عشق شوق سے

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اک بار دیکھیے


کیا خوب ترجمان ہے فطری جمال کی

گُل سے پریدہ خوشبو کی جھنکار دیکھیے


پھر کیسے اتّحاد ہو جمہور میں امینؔ

بغض و حسد کی ہر سو ہے یلغار دیکھیے


امین جس پوری



حمیدہ شاہین

 یوم پیدائش 26 جولائی 1963


جس طرف سے بھی ملاوٹ کی رسد ہے ، رد ہے 

ایک رتّی بھی اگر خواہش ِبد ہے ، رد ہے


دکھ دیے ہیں زرِ خالص کی پرکھ نے لیکن 

جس تعلق میں کہیں کینہ و کد ہے ، رد ہے


امن لکھنا نہیں سیکھے جنھیں پڑھ کر بچّے

ان کتابوں پہ کسی کی بھی سند ہے، رد ہے


جب چڑھائی پہ مِرا ہاتھ نہ تھاما تو نے 

اب یہ چوٹی پہ جو بے فیض مدد ہے ، رد ہے


مجھ پہ سجتا ہی نہیں حیلہء نسیان و خطا

ان بہانوں میں جو توہینِ عمد ہے، رد ہے


تیرے ہوتے ہوئے کیسے کروں تاویلِ عدم

تجھ سے ہٹ کر جو ازل اور ابد ہے ، رد ہے


ہم بھی تہذیبِ تکلّم کے ہیں داعی لیکن 

یہ جو ہر صیغہِ اظہار پہ زد ہے۔ رد ہے


اس لگاوٹ بھرے لہجے کی جگہ ہے دل میں 

تہنیت میں جو ریا اور حسد ہے، رد ہے


اپنی سرحد کی حفاظت پہ ہے ایمان مگر

زندگی اور محبت پہ جو حد ہے ، رد ہے


اس سے کہنا کہ یہ تردید کوئی کھیل نہیں 

جو مِری بات کو دہرائے کہ رد ہے ، رد ہے


حمیدہ شاہین


احمد عاری

 پیدائش 26 جولائی


کیا بتاؤں خیال کا مطلب

یہ نہیں ہے سوال کا مطلب


ملنا بھی اور دور بھی رہنا

تو پھر ایسے وصال کا مطلب


اس لیے میسجوں پہ رہتا ہوں

لوگ پوچھے گے کال کا مطلب


کیا کہا آپ سے محبت ہے

آپ کی اس مجال کا مطلب


ہے ترقی حرام کے اندر

کچھ نہیں ہے حلال کا مطلب


احمد عاری


ڈاکٹر عنبر عابد

 ہم پہ جنّت سے نکلوانے کا الزام سہی 

گھر کو گہوارۂ جنّت بھی بنایا ہم نے 

ڈاکٹر عنبر عابد


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 بیاد سالروز تولد و مرگ ابن صفی مرحوم


آج بھی زندہ ہیں اپنے کام سے ابن صفی

ان کا فن ہے ترجمان سوز و ساز زندگی


ہو گیا چھبیس جولائی کو وہ سورج غروب

ضوفگن ہے آج بھی ویسے ہی جس کی روشنی


کوئی مانے یا نہ مانے میں ہوں اس کا معترف

" قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری "


یوں تو کوشش کی کئی لوگوں نے لیکن آج تک

ہو سکا پیدا نہ کوئی دوسرا ابن صفی


صرف باون سال پر تھی زندگی ان کی محیط

ان کی تحریریں ہیں شمع فکروفن کی روشنی


ان کا جاسوسی ادب میں ہے نمایاں اک مقام

پھر بھی اپنے عہد میں تھے وہ شکار بے رخی


ان کے کرداروں سے ظاہر ہے وہ تھے بیدار مغز

ہے نمایاں ان کے فن پاروں سے عصری آگہی


ناولوں ہی تک نہ تھیں محدود ان کی کاوشیں

مرجع اہل نظر ہے ان کا ذوق شاعری


ایک ہی دن ان کا ہے یوم تولد اور وفات

چھین لی چھبیس جولائی نے ہونٹوں سے ہنسی


نام تھا اسرار احمد محرم اسرار تھے

ہوتی ہے محسوس برقی آج بھی ان کی کمی


لے گیا اردو کو گھر گھر ناولوں سے اپنے جو

اور کوئی بھی نہ تھا برقی بجز ابن صفی


احمد علی برقی اعظمی


ابن صفی

 یوم پیدائش 26 جولائی 1928


راہ طلب میں کون کسی کا اپنے بھی بیگانے ہیں

چاند سے مکھڑے رشک غزالاں سب جانے پہچانے ہیں 


تنہائی سی تنہائی ہے کیسے کہیں کیسے سمجھائیں

چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں 


اف یہ تلاش حسن و حقیقت کس جا ٹھہریں جائیں کہاں 

صحن چمن میں پھول کھلے ہیں صحرا میں دیوانے ہیں 


ہم کو سہارے کیا راس آئیں اپنا سہارا ہیں ہم آپ

خود ہی صحرا خود ہی دوانے شمع نفس پروانے ہیں 


بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا

اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں


ابن صفی


پرتپال سنگھ بیتاب

 یوم پیدائش 26 جولائی 1949


یہ زندگی سفر ہے ٹھہر ہی نہ جائیے

یہ بھی کہ بے خیال گزر ہی نہ جائیے


صحرائے ہول خیز میں رہئے لیے دیئے

ریگ رواں کے ساتھ بکھر ہی نہ جائیے


جب ڈوبنا ہی طے ہے ابھرنا محال ہے

دلدل ہے دل فریب اتر ہی نہ جائیے


ان راستوں میں رات بھٹکتی ہے بے سبب

ایسا بھی خوف کیا ہے جو گھر ہی نہ جائیے


اب کے سفر میں ہے یہ نیا ضابطہ جناب

جانا جدھر ہے آپ ادھر ہی نہ جائیے 


بیتاب موت کی یہ للک زندگی بھی ہے

یوں انتظار موت میں مر ہی نہ جائیے


پرتپال سنگھ بیتاب


آصف کمال

 یوم پیدائش 25 جولائی 1963


ایک وہ ہے کہاں سمجھتا ہے

غم ہمارا جہاں سمجھتا ہے


ہر نصیحت گراں سمجھتا ہے

دل تو دل کی زباں سمجھتا ہے


ایک طبقہ چراغ سحری سا

بس وہ اردو زباں سمجھتا ہے


لیڈروں کے حسین وعدوں کو

دیش کا نوجواں سمجھتا ہے


تشنگی کے غذاب کو آصف 

کوئی سوکھا کنواں سمجھتا ہے 


آصف کمال


فوزیہ رباب

 یوم پیدائش 25 جولائی 1988


ترا خیال کبھی چھو کے جب گزرتا ہے

بدن کے رنگ سے آنچل مرا مہکتا ہے


نئے زمانے نئے موسموں سے گونجتے ہیں

کوئی پرندہ مری چھت پہ بھی چہکتا ہے


وہ غفلتوں کا پرستار ہو گیا ہے اگر

 دعا کروں گی ، مرا دکھ خدا تو سنتا ہے


تمھارے ہجر میں کرتا ہے کون دل جوئی

 وہ کون ہے جو غموں کی رتیں بدلتا ہے


حسین ہو تو ادائیں بھی تم سے پھوٹیں گی

بڑے غرور میں ہو پر تمہارا بنتا ہے


تمہارے نین طلسمات سے بھرے ہوئے ہیں

انہی کی دید سے ہر غم ہمارا ٹلتا ہے


ہم ایسے لوگ نہیں ہر کسی پہ مر جائیں

ذرا بتا نا ! ہمیں کیا کوئی سمجھتا ہے


یہ تیرا غم ہے اسے خود سنبھال لے آ کر

بھٹکنے والا نہیں ہے مگر بھٹکتا ہے


رباب کافی نہیں کیا مری خوشی کے لیے

میں سوچتی ہوں وہ مجھ کو دکھائی دیتا ہے


فوزیہ رباب


خورشید عالم بسمل

 یوم پیدائش 25 جولائی 1957


دینِ اسلام میں یہ شانِ مساوی دیکھی

یہ غلاموں کو بھی سردار بنا دیتا ہے


جانگزیں قلب میں ایمان اگر ہو جاۓ

عام انسان کو جیدار بنا دیتا ہے


قتل کرنے کے ارادے سے جو آیا اسکو

عاشقِ سیّدِ ابرار ﷺ بنا دیتا ہے


دیکھ لے جو کوئی خورشید نبی کا چہرہ

اس کو آقا کا پرستار بنا دیتا ہے


خورشید عالم خورشید


عابده ارونی

 یوم پیدائش 25 جولائی 


ہم تیری محبت کا جو اقرار کریں گے

تا عمر کبھی اس سے نہ انکار کریں گے


یادوں کے نئے دیپ جلائے تری خاطر 

جب آۓ گا تُو راہوں کو گلزار کریں گے


بدلا نہ اصولوں کو نہ حالات کو بدلا

وہ آۓ تو جینا یہاں دشوار کریں گے


چہروں کو بھی دیکھو، کہ یہاں سب ہیں منافق

دھوکا کبھی دیں گے تو کبھی وار کریں گے


مخلص بھی بہت کم ہیں، زمانے میں اے صاحب! 

اور بات نبھانے کی تو دوچار کریں گے


الفت نہیں، الفت کے فقط دعوے بچے ہیں

جو کرتے ہیں الفت، وہ یہ اظہار کریں گے


وحشت سی مجھے ہوتی ہے دنیا سے ارونی! 

سب کھیل ہوس کا ہے، کہاں پیار کریں گے؟


 عابده ارونی


کاش قنوجی

 یوم پیدائش 25 جولائی


مرے خدا تو مجھے خود سے آشنا کر دے 

میں تیری یاد سے بھٹکوں مجھے فنا کر دے 


تمام عمر وہ میرے وصال کو ترسے 

تو اس کے دل کو جدائی سے آشنا کر دے 


وہ ہم کو دور سے دیکھے تڑپ کے رہ جائے 

ہمارے بیچ میں تو اتنا فاصلہ کر دے 


میں اس کے بعد سے تنہا ہوں ایک مدت سے 

کسی کو بھیج دے دنیا میں آسرا کر دے 


میں تیری یاد سے غافل نہ ہونے پاؤں کبھی 

تو اپنی ذات میں کچھ اتنا مبتلا کر دے 


بس ایک آخری خواہش ہے تیرے کاشفؔ کی 

تو اپنے پاس بلا لے اسے رہا کر دے 


کاش قنوجی


ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی

 یوم پیدائش 25 جولائی 


کسی کا عشق مرے دل میں ہوگیا پیدا

صدا اسی کی ہر اک جا سنائی دیتی ہے


کیا ہے عشق نے آنکھوں کو اسقدر روشن

کہ روشنی سی ہر اک سو دکھائی دیتی ہے


یہ سچا پیار ہے ہاں سچا پیار ہے میرا

یہی صدا مجھے دل سے سنائی دیتی ہے


نہ میری روح نہ میرا بدن خلاف اس کے

کہ مجھ پہ اس کی حکومت دکھائی دیتی ہے


سلوک ایک سا کرتی نہیں ہے الفت بھی

ملن کسی کو کسی کو جدائی دیتی ہے


نہ فکر کیجئے اس کی ولاء یہ دنیا ہے

یہ نیکیوں کے صلے میں برائی دیتی ہے


ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی


طاہر سعود کرتپوری

 اس طرح ہم ہیں کسی کے واسطے

وزن جیسے، شاعری کے واسطے


میری قسمت میں اسےلکھ اس طرح

فاطمہ ؓجیسے علی ؓ کے واسطے


اک پڑوسی رات بھر روتا رہا

اک پڑوسی کی خوشی کے واسطے


کچھ دنوں کا فقر و فاقہ اور غم

کیا بھلا اک جنتی کے واسطے


جس نے بخشےہیں ہمیں پیارےرسولؐ

ساری تعریفیں اسی کے واسطے


باپ کے پاؤں دبائے عمر بھر،

ماں کے چہرےکی خوشی کےواسطے


طاہر سعود کرتپوری


صبا تابش

 جیسے ہوں نقب کاری کے آلات مرے ہاتھ

دستک سے الجھتے رہے کل رات مرے ہاتھ


قدموں سے لپٹ جائے فرات آج بھی میرے

دجلہ کے کناروں سے کریں بات مرے ہاتھ


موسیقیِ باراں ہو کہ ہو بات تمہاری

لکھتے ہیں بڑے شوق سے نغمات مرے ہاتھ


ہے جس کا فسوں دہر کی ہر شے میں نمایاں

اس کے بھی رقم کرتے ہیں جذبات مرے ہاتھ


کرتی رہیں عباس ؓ کا گریہ مری آنکھیں

لکھتے رہیں زینب ؓ کی فتوحات مرے ہاتھ


ہیں پاک سبھی آلِ نبی رجس سے تابش

تطہیر سے آیا ہے یہ اثبات مرے ہاتھ


صبا تابش


انیتا سونی

 یوم پیدائش 07 جولائی 


زمانہ سنگ ہے فریاد آئینہ میری

غلط کہوں تو زباں چھین لے خدا میری


ترا قصور ہے اس میں نہ ہے خطا میری

تری زمیں پہ جو برسی نہیں گھٹا میری


جہاں سے ترک تعلق کیا تھا تو نے کبھی

کھڑی ہوئی ہے اسی موڑ پر وفا میری


تم اس لباس دریدہ پہ طنز کرتے ہو

اسی لباس میں محفوظ ہے حیا میری


اس اک خیال سے دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے

ڈبو نہ دے کہیں کشتی کو ناخدا میری


انیتاؔ اس کو نہ آنا تھا وہ نہیں آیا

بلا بلا کے اسے تھک گئی صدا میری


انیتا سونی


رضوان عارب لغاری

 تجھے میں خوابوں میں دیکھتا ہوں

کئی حجابوں میں دیکھتا ہوں


ہے رنگ دل اور لہو کا میرے

جو میں گلابوں میں دیکھتا ہوں


  مجھے جو تنہائی دے گیا ہے

اُسے عذابوں میں دیکھتا ہوں


منافقوں کے ہیں رنگ جتنے

وہ سب خطابوں میں دیکھتا ہوں


بہت پرندے ہیں چست لیکن 

ہنر عقابوں میں دیکھتا ہوں


جو دسترس میں نہیں ہے عارب

وہ اپنے خوابوں میں دیکھتا ہوں


رضوان عارب لغاری


امیتا پرسورام میتا

 زندگی اپنا سفر طے تو کرے گی لیکن

ہم سفر آپ جو ہوتے تو مزا اور ہی تھا


کعبہ و دیر میں اب ڈھونڈ رہی ہے دنیا

جو دل و جان میں بستا تھا خدا اور ہی تھا


اب یہ عالم ہے کہ دولت کا نشہ طاری ہے

جو کبھی عشق نے بخشا تھا نشہ اور ہی تھا


دور سے یوں ہی لگا تھا کہ بہت دوری ہے

جب قریب آئے تو جانا کہ گلا اور ہی تھا


میرے دل نے تو تجھے اور ہی دستک دی تھی

تو نے اے جان جو سمجھا جو سنا اور ہی تھا


امیتا پرسو رام میتا


اقبال شاہ

 یوم پیدائش 21 مارچ 1957


پرفتن جو شباب ہوتے ہیں

ناگہانی عذاب ہوتے ہیں


جن میں ٹوٹیں محبتوں کے گھڑے

وہ ستم گر چناب ہوتے ہیں


جو بھی سجتے ہیں تیرے جوڑے میں

وہ حسیں تر گلاب ہوتے ہیں 


بن ترے یہ رواں دواں دریا

درحقیت سراب ہوتے ہیں


تیرے پہلو میں بیٹھنے والے

لوگ عالی جناب ہوتے ہیں


اقبال شاہ


شازیہ نیازی

 یوم پیدائش 23 جولائی


بس ایک بار کہا نا نہیں بنا سکتی

میں روز روز بہانا نہیں بنا سکتی 


ترا خیال مری روٹیاں جلاتا ہے

میں اطمنان سے کھانا نہیں بنا سکتی


ضرور وہ کسی آسیب کی گرفت میں ہے

میں اس قدر تو دِوانہ نہیں بنا سکتی


سبھی کی تنگ خیالی نے گھر کو بانٹ دیا

اکیلی سوچ گھرانا نہیں بنا سکتی  


نئے نئے سے یہ انداز چبھ رہے ہیں مگر

میں تم کو پھر سے پرانا نہیں بنا سکتی 


شازیہ نیازی


نادیہ عنبر لودھی

 یوم پیدائش 23 جولائی


وہ گھر تنکوں سے بنوایا گیا ہے

وہاں ہر خواب دفنایا گیا ہے


مری الفت کو کیا سمجھے گا کوئی

سبق نفرت کا دہرایا گیا ہے


مرے اندر کا چہرہ مختلف ہے

بدن پہ اور کچھ پایا گیا ہے


ہوئی ہے زندگی افتاد ایسے

ہوس میں ہر مزا پایا گیا ہے


کہی ایسی ہے عنبرؔ اس کی ہر بات

شکستہ دل کو تڑپایا گیا ہے


نادیہ عنبر لودھی


Monday, July 26, 2021

راجیش ریڈی

 یوم پیدائش 22جولائی 1952


کچھ دن سے یہ جو رہتے ہو خود میں ہی میاں گم

بتلاؤ تو کر آئے ہو اپنے کو کہاں گم 


ساحل پہ بناتے رہے ہم روز گھر وندے

روز آکے انہیں کرتی رہی موجِ رواں گم


اب کیا کہیں کیا حال کِیا ایک جھلک نے

ہم جی بھی لئے، ہو بھی گئی جسم سے جاں گم


ان شوخ نگاہوں میں تھا جادو ہی کچھ ایسا

دو آنکھوں میں اپنے تو ہوئے دونوں جہاں گم


کس کام کا، گردن پہ جو ہو کر بھی نہ ہو سر

 کس کام کی، جو ہو کے بھی منھ میں ہو زباں گم


یہ زندگی حیرت بھرے صحرا کا سفر ہے

ظاہر ہیں جہاں آبلے ,قدموں کےنشاں گم


راجیش ریڈی


سید ریاض رحیم

 یوم پیدائش 21 جولائی 1959


مکاں سے لا مکاں ہوتے ہوئے بھی

کہاں ہم ہیں کہاں ہوتے ہوئے بھی


بہت کچھ اب بھی باقی ہے زمیں پر

بہت کچھ رائیگاں ہوتے ہوئے بھی


سرے سے ہم ہی غائب ہو گئے ہیں

سبھی کے درمیاں ہوتے ہوئے بھی


بھنور کی سمت بڑھتی جا رہی ہے

یہ کشتی بادباں ہوتے ہوئے


بہت ہی مختصر ہوتے گئے ہیں

مکمل داستاں ہوتے ہوئے بھی


بہت گھاٹے میں ہے اردو زباں کیوں

محبت کی زباں ہوتے ہوئے بھی


سید ریاض رحیم


شانتی سروپ بھٹناگر

 یوم پیدائش 21 جولائی 1894

عزم

تیغ سے ڈر اور نہ گھبرا شورشِ زنجیر سے

مشکلوں سے لڑ بغاوت کر غمِ تقدیر سے


گر ہتھیلی پر نہیں مقسوم کی سطریں تو کیا

کھود قسمت کی لکیریں ناخنِ تدبیر سے


اپنے رہبر کو ہکن بننے پر آمادہ تو ہوں

ملک خود ہو جائیگا شاداب جوئے شیر سے


میری چپ سے کاش وہ سمجھیں کہ میں زندہ نہیں

اور میں آزاد ہو جاؤں ہر اک زنجیر سے


وقت شکووں میں گنوانا شانِ مردانہ نہیں

یا لہو کے گھونٹ پی یا کام لے شمشیر سے


شانتی سروپ بھٹناگر


راحت زاہد

 یوم پیدائش 21 جولائی 


رہِ حیات کے رنج و الم مجھے دے دو

تم اپنی روح کے سب سوز و غم مجھے دے دو 


میں بن کے پیار کا ساگر سمیٹ لوں گی انہیں

جو آنسوئوں سے ہو 'پر چشمِ نم مجھے دے دو 


'دکھوں کو آؤ ذرا بانٹنے کی بات کریں 

تمھاری جاں پہ جو گزرے ستم مجھے دے دو 


جو ہاتھ تھام کے منزل قریب ہوجائے

وہ ہاتھ تم کو ہے میری قسم مجھے دے دو 


مٹا کے خود کو میں راحت تمھاری ہو جاؤں 

وفا کا بس یہی اتنا بھرم مجھے دے دو 


راحت زاہد


فوزیہ شیخ

 یوم پیدائش 15 جولائی 1982


پھر اک خوشی سے کیا اس نے ہمکنار مجھے

وہ کھینچ لے گیا دریائے غم کے پار مجھے


چراغ راہ محبت ہوں طاق میں رکھنا

غبار قریۂ نفرت میں مت اتار مجھے


میں اس کی یاد میں راتوں کو سو نہیں سکتی

وہ دور رہ کے بھی رکھتا ہے اشک بار مجھے


کٹی پتنگ سی اٹکی ہوں شاخ نازک پر

ہوا کا ہاتھ بھی کرتا ہے تار تار مجھے


مٹا دے مجھ کو یا رکھ لے سمیٹ کر دل میں

تو ہجر جیسی اذیت سے مت گزار مجھے


تو جانتا ہے کہ میں بے گھری سے ڈرتی ہوں

نکال دل سے نہ ایسے تو بار بار مجھے


میں انتظار کے برزخ میں جلتی رہتی ہوں

ہزار وسوسے رکھتے ہیں بے قرار مجھے


میں چاہتی ہوں اسے بھولنا مگر فوزیؔ

قسم خدا کی نہیں خود پہ اختیار مجھے


فوزیہ شیخ


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...