Urdu Deccan

Sunday, October 30, 2022

ڈاکٹر نذیر قیصر

یوم پیدائش 30 اکتوبر 1922

سکوتِ شام میں جب کائنات ڈھلتی ہے
کسی کی یاد خیالوں کے رُخ بدلتی ہے

مری نگاہ نے وہ محفلیں بھی دیکھی ہیں
جہاں چراغ کی لَو تیرگی اُگلتی ہے

بڑھا ہے جب سے بہاروں کی سمت دامنِ شوق
خزاں بھی سرحدِ گلشن سے بچ کے چلتی ہے

ابھی سے راہزنوں کے سلوک پر تنقید
ابھی تو مشعلِ رہبر لہُو سے جلتی ہے

اب اور کون سنے گا صدائے زخم بہار
صبا بھی پیکرِ گلشن پہ خاک ملتی ہے

نہ جانے کس لیے گُھٹنے لگا ہے دم قیصرؔ
سماں بھی مہکا ہوا ہے ‘ ہوا بھی چلتی ہے

ڈاکٹر نذیر قیصر


 

ارشاد جالندھری

یوم وفات 30 اکتوبر 2015

خزاؤں میں تجھے پھولوں کی رانی لکھ رہا ہوں میں
بہاروں کو ترا عہدِ جوانی لکھ رہا ہوں میں

تری یادیں جو لکھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے کوئی اپنی ہی کہانی لکھ رہا ہوں میں

فریبِ جستجو ہے یا اسے ذوقِ نظر سمجھوں
جو دانستہ سرابوں کو بھی پانی لکھ رہا ہوں میں

ذرا سا مسکرا کر تم بڑھا دو حوصلہ میرا
کہ چہرۂ خزاں پر گلفشانی لکھ رہا ہوں میں

یہ دنیا جو بھی کہتی ہے کہے اس کا کسے ڈر ہے
نہیں تیرا کہیں بھی کوئی ثانی لکھ رہا ہوں میں

کوئی تو ہوگی مجبوری کوئی تو ہے سبب آخر
کہ تیرے ہر ستم کو مہربانی لکھ رہا ہوں میں

وہی پر کیف لمحے جو گذارے تیری قربت میں
انہی لمحوں کو اپنی زندگانی لکھ رہا ہوں میں

گل و غنچہ ،صبا خوشبو، کرن شبنم، سحر نغمہ
یہ سب تیرے سراپا کے معانی لکھ رہا ہوں میں

بسا ارشاد یوں آنکھوں میں وہ اک پھول سا چہرہ
کہ زخموں کو سکونِ زندگانی لکھ رہا ہوں میں

ارشاد جالندھری


 

صابر براری

یوم پیدائش 30 اکٹوبر 1928

شہر میں تیرے مرا کوئی شناسا بھی نہیں 
کون ہوں میں یہ کسی شخص نے پوچھا بھی نہیں 

حسن مغرور کو آنکھوں میں بسایا بھی نہیں 
حرص کا زہر مری روح میں اترا بھی نہیں 

اس کی یادوں سے منور ہوئی دل کی دنیا 
چاند ایسا جو ابھی ابر سے نکلا بھی نہیں 

اپنی مرضی سے قفس ہم نے چنا تھا صیاد 
اس لئے تیرے ستم کا ہمیں شکوہ بھی نہیں 

دور دورہ ہے یہاں جور و جفا کا لیکن 
دوستو اہل وفا شہر میں عنقا بھی نہیں 

گلستاں کیسے تجھے سونپ دیں اے دشمن گل 
اس میں شامل تو ترے خون کا قطرہ بھی نہیں 

ناخدا غیر کی کشتی کا تجھے کیوں غم ہے 
دور گرداب سے کچھ تیرا سفینہ بھی نہیں 

پارسا گو کہ نہیں صابرؔ خستہ لیکن 
آپ جیسا اسے سمجھے ہیں تو ویسا بھی نہیں

صابر براری

آصف شفیع

یوم پیدائش 29 اکتوبر 1973

اور اب یہ دل بھی میرا مانتا ہے 
وہ میری دسترس سے ماورا ہے
 
چلو کوئی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں 
ہوا کا زور بڑھتا جا رہا ہے 

مرے دل میں ہے صحراؤں کا منظر 
مگر آنکھوں سے چشمہ پھوٹتا ہے 

صدا کوئی سنائی دے تو کیسے 
مرے گھر میں خلا اندر خلا ہے 

زمانہ ہٹ چکا پیچھے کبھی کا 
اور اب تو صرف اپنا سامنا ہے 

میں چپ ہوں اب اسے کیسے بتاؤں 
کوئی اندر سے کیسے ٹوٹتا ہے

آصف شفیع


 

شیخ عبداللطیف تپش

یوم پیدائش 29 اکتوبر 1895

موت آتی نہیں قرینے کی 
یہ سزا مل رہی ہے جینے کی 

مے سے پرہیز شیخ توبہ کرو 
اک یہی چیز تو ہے پینے کی 

تمہیں کہتا ہے آئنہ خودبیں 
باتیں سنتے ہو اس کمینے کی 

ہو گیا جب سے بے نقاب کوئی 
شمع روشن نہ پھر کسی نے کی 

چشم تر آبرو تو پیدا کر 
یوں نہیں بجھتی آگ سینے کی 

اہل دنیا سے کیا بدی کا گلا 
اے تپشؔ تو نے کس سے کی نیکی

شیخ عبداللطیف تپش


 

فرحان قادری

یوم پیدائش 28 اکتوبر 2001

شعورِ درد نہیں نالہ و فغاں بھی نہیں
فراقِ یار میں پہلی سہی مستیاں بھی نہیں

تمھاری پردہ نشینی کا کچھ بیاں بھی نہیں
کہ تم نہاں بھی نہیں ٹھیک سے عیاں بھی نہیں

سنا تھا میرے ہی دل میں چھپے ہوئے ہو تم
بہت تلاش کیا تم ملے وہاں بھی نہیں

تمھارے گرمیِ احساس کا کرشمہ ہے
سلگ رہا ہے بدن اور سائباں بھی نہیں

مری جدائی نے تم کو بنا دیا مفلس
تمھارے کان میں سونے کی بالیاں بھی نہیں

فرحان قادری


 

حیرت الہ آبادی

یوم پیدائش 28 اکتوبر 1835

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں 
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں 

آ جائیں رعب غیر میں ہم وہ بشر نہیں 
کچھ آپ کی طرح ہمیں لوگوں کا ڈر نہیں 

اک تو شب فراق کے صدمے ہیں جاں گداز 
اندھیر اس پہ یہ ہے کہ ہوتی سحر نہیں 

کیا کہئے اس طرح کے تلون مزاج کو 
وعدے کا ہے یہ حال ادھر ہاں ادھر نہیں 

رکھتے قدم جو وادئ الفت میں بے دھڑک 
حیرتؔ سوا تمہارے کسی کا جگر نہیں

 حیرت الہ آبادی


 

سید خرم نقوی

یوم پیدائش 27 اکتوبر 

اِس سے پہلے کہ خوں مِیں تر جائیں
کیوں نہ وعدوں سے ہم مُکر جائیں

اب بھی باقی ہیں کچھ وفا پیکر 
 ان سے بولو کہ اب سُدھر جائیں

وہ ہی ناخن بڑھائے پھرتا ہے
ہم تو کہتے ہیں زخم بھر جائیں

اب ہے سارا مدار کانٹوں پر
 کہو پھولوں سے اب بکھر جائیں 

کچھ اذیت ہمیں اضافی دو
عین ممکن ہے ہم سنور جائیں

مَیں جو روتا دِکھوں تو لازم ہے
آپ ہنستے ہوئے گزر جائیں

ہم کہ دنیا سے بچ گئے سیدٓ
 خود سے بچنے کو اب کِدھر جائیں

سید خرم نقوی


 

مفتی تقی عثمانی

یوم پیدائش 27 اکتوبر 1943

محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا

قدم ہیں راۂ اُلفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چُور ہو جانا

یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا

بَسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجا ہے
پہاڑوں کو توبس آتا ہے جل کر طور ہوجانا

نظر سے دور رہ کر بھی تقی وہ پاس ہیں میرے
کہ میری عاشقی کو عیب ہے مہجور ہوجانا

مفتی تقی عثمانی


صوفیہ احمد

یوم پیدائش 27 اکتوبر 1951

کچھ خواب بیچنے ہیں خریدار چاہیے
ہم بک رہے ہیں اب ہمیں بازار چاہیے

اس بے سکون سے فلکِ بے ستوں تلے
رہنے کو پائیدار سا گھر بار چاہیے

اس درد کی گلی میں بڑی تیز دھوپ ہے
سستانے کے لیے کہیں چھتنار چاہیے

صوفیہ احمد 

پھوٹی ہے بطنِ شبِ دیجور سے رقصاں کرن
کٹ گیا دکھ کا سفر شاید سحر ہونے کو ہے

بے یقینی لامکانی عمر بھر ڈستی رہی
ہے فضا کچھ دوستانہ اپنا گھر ہونے کو ہے

تھک گیا صاحبانِ سنگ کا لشکر بھی اب
دشمنی کی آخری حد مختصر ہونے کو ہے

صوفیہ احمد


 

آتش بہاولپوری

یوم وفات 27 اکتوبر 1993

مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے 
میری بھی کوئی قیمت ہو گئی ہے 

وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں 
یہ دنیا خوب صورت ہو گئی ہے 

چڑھایا جا رہا ہوں دار پر میں 
بیاں مجھ سے حقیقت ہو گئی ہے 

رواں دریا ہیں انسانی لہو کے 
مگر پانی کی قلت ہو گئی ہے 

مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے 
ستم سہنے کی عادت ہو گئی ہے 

حقیقت یہ ہے ہم کیا اٹھ گئے ہیں 
وفا دنیا سے رخصت ہو گئی ہے 

غم جاناں میں جب سے مبتلا ہوں 
غم دوراں سے فرصت ہو گئی ہے 

اب ان کی کفر سامانی بھی آتشؔ 
دل و جاں پر عبارت ہو گئی ہے 

آتش بہاولپوری

راج نرائن راز

یوم پیدائش 27 اکتوبر 1930

کیا بات ہے کہ بات ہی دل کی ادا نہ ہو 
مطلب کا میرے جیسے کوئی قافیہ نہ ہو 

گلدان میں سجا کے ہیں ہم لوگ کتنے خوش 
وہ شاخ ایک پھول بھی جس پر نیا نہ ہو 

ہر لمحہ وقت کا ہے بس اک غنچۂ بخیل 
مٹھی جو اپنی بند کبھی کھولتا نہ ہو 

اب لوگ اپنے آپ کو پہچانتے نہیں 
پیش نگاہ جیسے کوئی آئینہ نہ ہو 

وحشی ہوا کی روح تھی دیوار و در میں رات 
جنگل کی سمت کوئی دریچہ کھلا نہ ہو 

راج نرائن راز


 

ہادی مچھلی شہری

یوم وفات 25 اکتوبر 1961

ہزار خاک کے ذروں میں مل گیا ہوں میں 
مآل شوق ہوں آئینہ وفا ہوں میں 

کہاں یہ وسعت جلوہ کہاں یہ دیدۂ تنگ 
کبھی تجھے کبھی اپنے کو دیکھتا ہوں میں 

شہید عشق کے جلوے کی انتہا ہی نہیں 
ہزار رنگ سے عالم میں رونما ہوں میں 

مرا وجود حقیقت مرا عدم دھوکا
فنا کی شکل میں سرچشمۂ بقا ہوں میں 

ہے تیری آنکھ میں پنہاں مرا وجود و عدم 
نگاہ پھیر لے پھر دیکھ کیا سے کیا ہوں میں 

مرا وجود بھی تھا کوئی چیز کیا معلوم 
اس اعتبار سے پہلے ہی مٹ چکا ہوں میں 

شمار کس میں کروں نسبت حقیقی کو 
خدا نہیں ہوں مگر مظہر خدا ہوں میں 

مرا نشاں نگہ حق نگر پہ ہے موقوف 
نہ خود شناس ہوں ہادیؔ نہ خود نما ہوں میں

ہادی مچھلی شہری


 

بشیر حسین ناظم

یوم پیدائش 25 اکتوبر 1932
حمد باری تعالی

جسم و جاں میں منعکس جلوہ تری تنویر کا​
کیا تشکر ہو سکے بندے سے اس تقدیر کا​​

عبد ممکن کے لئے اے ہستی واجب تری​
حمد کہنا بالیقیں لانا ہے جوئے شیر کا​​

تو موفق ہو تو تیری حمد کی تطریز ہو​
ورنہ در مغلق رہے تحمید کی تحریر کا​​

تیرا باب مرحمت مفتوح ہے شام و سحر​
بخشنے والا ہے تو ہر ایک کی تقصیر کا​​

اور نعروں کے بھی پاسُخ ہوں گے جاں پرور ، مگر​
ہے جواب "اللہ اکبر" نعرہ تکبیر کا​​

رات کی تنہائیوں میں اے انیسِ قلب و جاں​
کیا مزہ آتا ہے تیرے نام کی تکریر کا​​

تیری طاعت ضامنِ فوز و فلاح و عافیت​
تیرا ذکرِ پاک باعث ، عزت و توقیر کا​​

تیرے آگے سر خمیدن ، قوتِ قلب و جگر​
تابِ روحِ مضمحل جلوہ تری تذکیر کا​​

جب تبتل سے ترے آگے کوئی سجدہ کرے​
خود بخود ہوتا ہے ساماں نفس کی تسخیر کا​​

تیرے ہی انوار سے ہے پیکرِ گل تابناک​
امر سے تیرے ہی نکھرا رنگ اس تصویر کا​​

ناظمِ بے علم و دانش تیرے لطفِ خاص سے​
بن گیا مطواع و ناصر دینِ عالمگیر کا

بشیر حسین ناظم


 

الفت الفت

یوم پیدائش 25 اکتوبر 1979

ان کی چوکھٹ پہ جو گزاری ہے 
بس وہی زندگی ہماری ہے 

جو گزارا تمھارے پہلو میں
ایک پل زندگی پہ بھاری ہے 

تیری أواز گونجتی ہے کہیں 
خودسے خود تک تلاش جاری ہے

جس نے دیکھی ہے صورت۔دلبر
مجھ کو الفت وہ أنکھ پیاری ہے

الفت الفت



پرکاش ناتھ پرویز

یوم پیدائش 25 اکتوبر 1930

حسن پابند جفا ہو جیسے 
یہ کوئی خاص ادا ہو جیسے 

یوں تری یاد ہے مرے دل میں 
کسی مرگھٹ میں دیا ہو جیسے 

ہو گیا سوکھ کے کانٹا ہر پھول 
یہ مہکنے کی سزا ہو جیسے 

میری فرقت کا غم آگیں عالم 
چھپ کے تو دیکھ رہا ہو جیسے 

کشتیاں غرق ہوئی جاتی ہیں 
ناخدا ہو نہ خدا ہو جیسے 

اللہ اللہ ترا انداز خرام 
ہر قدم موج صبا ہو جیسے 

کتنی پر کیف ہے یہ ظلمت شب 
تیری زلفوں کی گھٹا ہو جیسے 

تیرے ہونٹوں پہ تبسم توبہ 
ماہ و انجم کی ضیا ہو جیسے 

ان سے کرتا ہوں تغافل کا گلہ 
عشق میں یہ بھی روا ہو جیسے 

اس طرح عشق سے دل شاد ہیں ہم 
یہی ہر غم کی دوا ہو جیسے 

اس سے آتی نہیں اب کوئی صدا 
ساز دل ٹوٹ گیا ہو جیسے 

دیکھ کر تجھ کو یہ ہوتا ہے گماں 
تو مرے دکھ کی دوا ہو جیسے 

ان کو یوں ڈھونڈ رہا ہوں پرویزؔ 
عشق سے حسن جدا ہو جیسے

پرکاش ناتھ پرویز

بمل کرشن اشک

یوم پیدائش 25 اکتوبر 1924

جب چودھویں کا چاند نکلتا دکھائی دے 
وہ گیروا لباس بدلتا دکھائی دے 

دریائے زندگی کہ نگاہوں کا ہے قصور 
ٹھہرا دکھائی دے کبھی چلتا دکھائی دے 

پڑنے لگے جو زور ہوس کا تو کیا نگاہ 
ہر زاویے سے جسم نکلتا دکھائی دے 

بہروپئے کے ہاتھ پڑے ہیں سو رات دن 
دن رات رنگ روپ بدلتا دکھائی دے 

رکھے ہے یوں تو پاؤں سنبھل سوچ کر مگر 
نظروں کا فرش ہے کہ پھسلتا دکھائی دے 

اس نام میں وہ شعلہ گری ہے جو لیجیے 
ہر روم میں چراغ سا چلتا دکھائی دے 

میں اشکؔ شکل نام سے واقف نہیں مگر 
اک شخص ہے جو ساتھ ہی چلتا دکھائی دے

بمل کرشن اشک



Friday, October 28, 2022

صادق اندوری

یوم پیدائش 25 اکتوبر 1917

یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے 
جو میرے ساتھ چلے تھے وہ ساتھ چھوڑ گئے 

وہ آئنہ جنہیں ہم سب عزیز رکھتے تھے 
وہ پھینکے وقت نے پتھر کہ توڑ پھوڑ گئے 

ہمارے بھیگے ہوئے دامنوں کی شان تو دیکھ 
فلک سے آئے ملک اور گنہ نچوڑ گئے 

بپھرتی موجوں کو کشتی نے روند ڈالا ہے 
خوشا وہ عزم کہ طوفاں کا زور توڑ گئے 

رہے گی گونج ہماری تو ایک مدت تک 
ہمارے شعر کچھ ایسے نقوش چھوڑ گئے 

ان آئے دن کے حوادث کو کیا کہوں صادقؔ 
مری طرف ہی ہواؤں کا رخ یہ موڑ گئے 

صادق اندوری



مجیب اختر

یوم پیدائش 24 اکتوبر 1946

کاٹ کر لے گیا وہ دستِ ہنر
اور کیا مجھ سے بے ہنر لیتا

مجیب اختر



دُرِ شہوار

یوم پیدائش 24 اکتوبر 1949

ہم کہیں اور تم کہاں جاناں
ہیں کئی ہحر درمیاں جاناں

دُرِ شہوار


 

آغا علی مزمل

یوم پیدائش 24 اکتوبر 1965
نظم 

گھونسلہ بھی گرا ہے پیڑ کے ساتھ
اک پرندہ پڑا ہے پیڑ کے ساتھ

کچھ مناجات ہیں پرندے کی
پھول کیا کیا گرا ہے پیڑ کے ساتھ

خوشبو کلیوں کی ، رنگ پھولوں کا
خاک میں مل گیا ہے پیڑ کے ساتھ

ساتھ پتوں کے کٹ گئیں شاخیں
اور سایہ کٹا ہے پیڑ کے ساتھ

نقش تھا نام جس پہ دونوں کا
وہ تنا بھی پڑا ہے پیڑ کے ساتھ

دن وہ بچپن کے اور جوانی کے
وقت کیا کیا کٹا ہے پیڑ کے ساتھ

دل لگا تم سے یا کتابوں سے
یا لگا تو لگا ہے پیڑ کے ساتھ

کل تلک کیا ہوا تھی پیڑ کے ساتھ
آج یہ کیا ہوا ہے پیڑ کے ساتھ

اک دیا جل رہا ہے سینے میں
اک دیا رکھ دیا ہے پیڑ کے ساتھ

آغا علی مزمل



نیاز احمد مجاز انصاری

یوم پیدائش 24 اکتوبر 1950

ہر ایک زاویہ سے سمٹ کر بتائے گا
کیا لذتِ نظر ہے یہ منظر بتائے گا

نیزه بتائے گا نہ تو خنجر بتائے گا
 دریا کہاں ہے پیاس کا دفتر بتائے گا

اب تک مِلا ہے جو بھی مقدر کی بات تھی
اب جو مِلے گا وہ بھی مقدر بتائے گا

یہ بھی ہے کوئی گھر کہ ہوا بھی نہیں نصیب
کہتے ہیں گھر کِسے کوئی بے گھر بتائے گا

سورج کو آ تو جانے دو اپنے سروں کے بیچ
سایہ ہے کِس کا کِس کے برابر بتائے گا

ظل الٰہی دھوپ سے کیسے بچیں گے اب
صحرا کی تپتی ریت پہ لشکر بتائے گا

سوئی ہوئی کتاب کے اوراق جاگ اٹھے
یہ بات اب تو وقت ہی پڑھ کر بتائے گا

بھوکا سہی کسان کی عزت کا ہے سوال
اپنی زمیں کو کیسے وہ بنجر بتائے گا

بجھتی ہے کیسے پیاس بزرگوں کے نام پر
بچہ ہمارا زہر کو پی کر بتائے گا

اپنے لہو کے بہنے کا اِلزام کِس کو دوں
کِس نے کیا ہے قتل مرا سر بتائے گا

کتنے بدن کا خون زمیں پی چکی مجاز
پورس بتائے گا کہ سکندر بتائے گا

نیاز احمد مجاز انصاری



اشہد کریم

یوم پیدائش 23 اکتوبر 1975

کسی کی آنکھ کا قطرہ کنول میں رکھا ہے
غزل کا حسن مزاج- غزل میں رکھا ہے

شعور شعر مرا عشق جانتا ہی نہیں
یہ دل کا شور دماغی خلل میں رکھا ہے

میں اور صبر کے کس پل صراط سے گزروں
کسی نے آج کے وعدے کو کل میں رکھا ہے

وہ اک گلاب کی ساعت چبھن چبھن گزری
وصال زیست کا لمحہ اجل میں رکھا ہے

یہ ذکر و فکر کی دنیا اسی سے روشن ہے 
بس اک خلوص کا جذبہ عمل میں رکھا ہے

یہ راگ وہ ہے کہ پتھر پگھلنے لگتے ہیں
لہو کے رقص کو طول امل میں رکھا ہے

 کھڑا ہے شوق بصارت لیے بصیرت تک 
شکستہ خواب کا سرمہ کھرل میں رکھا ہے

اشہد کریم



اسلم فرخی

یوم پیدائش 23 اکتوبر 1923

آگ سی لگ رہی ہے سینے میں 
اب مزا کچھ نہیں ہے جینے میں 

آخری کشمکش ہے یہ شاید 
موج دریا میں اور سفینے میں 

زندگی یوں گزر گئی جیسے 
لڑکھڑاتا ہو کوئی زینے میں 

دل کا احوال پوچھتے کیا ہو 
خاک اڑتی ہے آبگینے میں 

کتنے ساون گزر گئے لیکن 
کوئی آیا نہ اس مہینے میں 

سارے دل ایک سے نہیں ہوتے 
فرق ہے کنکر اور نگینے میں 

زندگی کی سعادتیں اسلمؔ 
مل گئیں سب مجھے مدینے میں

اسلم فرخی



وامق جونپوری

یوم پیدائش 23 اکتوبر 1909
 
زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے
فسانہ اور ہوتا ہے حقیقت اور ہوتی ہے

نہیں ملتے تو اک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی
مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے

یہ مانا شیشۂ دل رونق بازار الفت ہے
مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے

نگاہیں تاڑ لیتی ہیں محبت کی اداؤں کو
چھپانے سے زمانے بھر کی شہرت اور ہوتی ہے

یہ مانا حسن کی فطرت بہت نازک ہے اے وامقؔ 
مزاج عشق کی لیکن نزاکت اور ہوتی ہے

وامق جونپوری


 

سیفی اعظمی

یوم پیدائش 22 اکتوبر 1939

خوشی سے پھولیں نہ اہلِ گلشن ، ابھی کہاں سے بہار آئی
ابھی تو پہنچا ہے آئینوں تک مرا مذاقِ برہنہ پائی

سیفی اعظمی



رخسار ناظم آبادی

یوم پیدائش 22 اکتوبر 1959

لوگ جو صاحب کردار ہوا کرتے تھے 
بس وہی قابل دستار ہوا کرتے تھے 

یہ الگ بات وہ تھا دور جہالت لیکن 
لوگ ان پڑھ بھی سمجھ دار ہوا کرتے تھے 

سامنے آ کے نبھاتے تھے عداوت اپنی 
پیٹھ پیچھے سے کہاں وار ہوا کرتے تھے 

جن قبیلوں میں یہاں آج دئے ہیں روشن 
ان قبیلوں کے تو سردار ہوا کرتے تھے 

تب عدالت سے رعایت نہیں مل پاتی تھیں 
تب گنہ گار گنہ گار ہوا کرتے تھے 

کیا زمانہ تھا مہکتی تھیں وہ کیاری گھر کی 
گھر کے آنگن گل و گلزار ہوا کرتے تھے 

قید مذہب کی نہ تھی کل کے پڑوسی دونوں 
ایک دوجے کے مددگار ہوا کرتے تھے 

گھر کے سب لوگ نبھاتے تھے خوشی سے جن کو 
گھر کے ہر فرد کے کردار ہوا کرتے تھے

رخسار ناظم آبادی



Wednesday, October 26, 2022

زرتاب غزل

یوم پیدائش 22 اکتوبر 

رہ حیات کو آسان کچھ کیا جائے
چلو کہ جینے کا سامان کچھ کیا جائے

دکھائیں آئنہ تنقید کرنے والوں کو
ضروری ہے کہ ہشیمان کچھ کیا جائے 

فرشتہ بننے کی تلقین ابھی ہے بے معنی
ہر آدمی کو تو انسان کچھ کیا جائے

لہو بھی دے کے وفادار ہم نہ بن پائے
کسی پہ کیسے اب احسان کچھ کیا جائے

نہ کوئی چاہ, نہ خواہش نہ ولولہ زرتاب
یہ دل ہوا بڑا ویران کچھ کیاجائے

زرتاب غزل


 

عدم گونڈوی

یوم پیدائش 22 اکتوبر 1947

بھوک کے احساس کو شعر و سخن تک لے چلو 
یا ادب کو مفلسوں کی انجمن تک لے چلو 

جو غزل معشوق کے جلووں سے واقف ہو گئی 
اس کو اب بیوہ کے ماتھے کی شکن تک لے چلو 

مجھ کو نظم و ضبط کی تعلیم دینا بعد میں 
پہلے اپنی رہبری کو آچرن تک لے چلو 

عدم گونڈوی


 

اسد اعوان

یوم پیدائش 22 اکتوبر 1975

کچھ بھی تمام زیست کمایا تو ہے نہیں
میرا کسی کے پاس بقایا تو ہے نہیں

میرا یہ رنگ اور ہے میرا یہ ڈھنگ اور
میری غزل میں لفظ پرایا تو ہے نہیں

کچھ بھی گلہ نہیں ہے مجھے بےوفاٶں سے
سارے ملے“ کسی نے رلایا تو ہے نہیں

کوچہء خوش جمال میں اپنی انا سمیت
سب کچھ لُٹا دیا ہے بچایا تو ہے نہیں

مجھ سے جدا ہوا ہے مگر یہ بھی ٹھیک ہے
اُس نے کسی طرح سے بھلایا تو ہے نہیں

خود آ گیا ہے سارے زمانے کو چھوڑ کر
میں تو اُسے ملا ہوں منایا تو ہے نہیں

دنیا غلط خفا ہے مرے دوست سے اسد
میرے پیام پر بھی وہ آیا تو ہے نہیں

اسد اعوان



وصفی بہرائچی

یوم پیدائش 22 اکتوبر 1914

کیا چیز محبت ہے زمانے کو دکھا دو 
دل صاف کرو اتنا کہ آیئنہ بنا دو

تعمیر گلستاں کے لیے کیا ہے ضروری 
بھولے ہیں جو یہ بات انھیں یاد دلا دو

معلوم ہوں سب ایک ہی کنبے کے ہیں افراد 
یوں شمع مساوات واخوت کی جلا دو

اب دور نہیں آپ سے کچھ آپ کی منزل 
منزل کی طرف ایک قدم اور بڑھا دو

یوں مل کے رہو اہل چمن صحن چمن میں
دشمن کے لیے آہنی دیوار بنا دو

یہ اندرا گاندھی سے سبق ہم کو ملا ہے 
فتنہ جب اٹھے کوئی تو طاقت سے دبا دو

وصفیؔ ہے یہی فرض یہی شرط وفا بھی 
اس خاک کے ہر ذرے کو گلزار بنا دو

وصفی بہرائچی


 

اقبال ارشد

یوم پیدائش 22 اکٹوبر 1940

تو اسے اپنی تمناؤں کا مرکز نہ بنا
چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اتر جاتا ہے

اقبال ارشد

 

ریحانہ نواب

یوم پیدائش 21 اکتوبر 1958

اک شہزادہ بھیس بدل کر ایسے محل میں آتا ہے 
ذکر تمہارا جیسے جاناں میری غزل میں آتا ہے 

حیراں حیراں کھویا کھویا پاگل پاگل بے کل سا 
جانے کس کو ڈھونڈنے چندا جھیل کے جل میں آتا ہے 

آنکھوں میں دیدار کا کاجل میں بھی لگا کر جاتی ہوں 
وہ بھی اکثر ڈھونڈنے مجھ کو تاج محل میں آتا ہے 

گاہے اماوس کی راتوں میں گاہے چاندنی راتوں میں 
اک غمگیں افسردہ سایہ شیش محل میں آتا ہے 

جانے کہاں سے اتنے پرندے شاخوں پر آ جاتے ہیں 
کھٹا میٹھا البیلا رس جوں ہی پھل میں آتا ہے 

جس کو سن کر دل بھر آئے آنکھیں بھی نم ہو جائیں 
ایسے شعروں کی شرکت سے حسن غزل میں آتا ہے 

آ ریحانہؔ اس سے پوچھیں ماضی کی روداد حسیں 
جو چھوٹی سی کشتی لے کر شام کو ڈل میں آتا ہے

ریحانہ نواب



مرشد ندوی

یوم پیدائش 21 اکتوبر 1964

آئینے سے سارے چہرے گم ہوئے
میری یادوں کے خزانے گم ہوئے

منظروں سے رونقیں جاتی رہیں
وہ سبھی موسم سہانے گم ہوئے

بھیڑ ہے اور بھیڑ کی تہذیب کیا
بھیڑ میں انسان سارے گم ہوئے

دن میں سائے خاک پر تڑپا کئے
رات میں وہ بھی بچارے گم ہوئے

زندگی کی داستاں ہے مختصر
آئے ہم، رستے سنوارے، گم ہوئے

حسرتوں کی دھول نظریں کھا گئی
راہ میں کیا کیا نظارے گم ہوئے

وقت کی رفتار میں بچتا بھی کیا
زندگی کے سب نگینے گم ہوئے

تیر کر ساحل پہ آئے وہ بچے
ورنہ مرشد سب سفینے گم ہوئے

مرشد ندوی


بہزاد فاطمی

یوم پیدائش 21 اکٹوبر 1914

وجہ شہرت تری آشفتہ سری میری ہے
شہر تیرا ہی سہی دربدری میری ہے

چن لیا لاکھ خدائوں میں پرستش کے لئے
حسن تیرا ہی سہی دیدہ وری میری ہے

ہے خبر موسم سفاک کی مجھ کو لیکن
بارش سنگ میں بھی شیشہ گری میری ہے

اب تو مانوس ہوں اس درجہ غموں سے بہزادؔ
بزم احباب میں بھی نوحہ گری میری ہے

بہزاد فاطمی



گوہر شیخ پوروی

یوم پیدائش 21 اکٹوبر 1951

روز دل کو مرے اک زخم نیا دیتے ہیں 
آپ کیا اپنا بنانے کی سزا دیتے ہیں 

میری بیتابیٔ دل کا جو اڑاتے ہیں مذاق 
وہ بھڑکتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں 

لوگ کہتے ہیں جسے ظرف وہ اپنا ہے مزاج 
اپنے دشمن سے بھی ہم پیار جتا دیتے ہیں 

کوئی آواز نہیں ہوتی بھرے برتن سے 
اور خالی ہوں تو ہر گام صدا دیتے ہیں 

دیکھ کر میرے نشیمن سے دھواں اٹھتا ہوا 
سوکھے پتے بھی درختوں کے ہوا دیتے ہیں 

زخم دل چاند کی مانند چمکتے ہیں مرے 
آپ جب بھولی ہوئی بات سنا دیتے ہیں 

آپ چپ چاپ ہی آتے ہیں تصور میں مگر 
میرے خوابیدہ خیالوں کو جگا دیتے ہیں 

صرف اک دیوتا سمجھا ہے تمہیں میں نے مگر 
لوگ پتھر کو بھی بھگوان بنا دیتے ہیں 

کچی دیوار کی مانند ہیں ہم اے گوہرؔ 
ایک ٹھوکر سے جسے لوگ گرا دیتے ہیں

گوہر شیخ پوروی



کاشفؔ اورا

یوم پیدائش 20 اکتوبر 2000

ہنستی رہو کہ دیپ کے تیور میں دم رہے
مجھ کہکشاں کے ساتھ ہوا کا بھرم رہے

گنتی کے چند سال مقدر میں ماں رہی
بچپن گزر چکا تھا سو خوشیوں سے تھم رہے

ہم نے تمہارے ساتھ بتائے ہیں چار دن
الحمد! زندگی کی صدا کا ردھم رہے

بیشک! کوئی کسی کا بھی نعم البدل نہیں
لیکن وہ چاند جس کی محبت میں ہم رہے

وہ تھا تو زندگی کے مقاصد تھے لیکن اب
کاشفؔ میں چاہتا ہوں یہ طوفان تھم رہے

کاشفؔ اورا


جلالؔ لکھنوی

یوم وفات 20 اکتوبر 1909

کیوں وصل میں بھی آنکھ ملائی نہیں جاتی 
وہ فرق دلوں کا وہ جدائی نہیں جاتی 

کیا دھوم بھی نالوں سے مچائی نہیں جاتی 
سوتی ہوئی تقدیر جگائی نہیں جاتی 

کچھ شکوہ نہ کرتے نہ بگڑتا وہ شب وصل 
اب ہم سے کوئی بات بنائی نہیں جاتی 

دیکھو تو ذرا خاک میں ہم ملتے ہیں کیونکر 
یہ نیچی نگہ اب بھی اٹھائی نہیں جاتی 

کہتی ہے شب ہجر بہت زندہ رہوگے 
مانگا کرو تم موت ابھی آئی نہیں جاتی 

وہ ہم سے مکدر ہیں تو ہم ان سے مکدر 
کہہ دیتے ہیں صاف اپنی صفائی نہیں جاتی 

ہم صلح بھی کر لیں تو چلی جاتی ہے ان میں 
باہم دل و دلبر کی لڑائی نہیں جاتی 

خود دل میں چلے آؤ گے جب قصد کرو گے 
یہ راہ بتانے سے بتائی نہیں جاتی 

چھپتی ہے جلالؔ آنکھوں میں کب حسرت دیدار 
سو پردے اگر ہوں تو چھپائی نہیں جاتی

جلالؔ لکھنوی



منور مرزا زرمی


یوم پیدائش 20 اکتوبر 1955

یہ مانا توجہ کے قابل نہیں ہوں
مگر میں کسی سے بھی غافل نہیں ہوں

ہدایت سے اسلام کی چشم پوشی
میں ایسی ترقی کی قائل نہیں ہوں

رہوں کیوں زمانے کے رحم و کرم پر
بھروسا ہے خود پر ، میں کاہل نہیں ہوں

سمجھ لیتی میں ماسوا کی حقیقت
ابھی عقل میں ایسی کامل نہیں ہوں

سدا مے کدوں میں گزر کرنے والو!
خبردار میں عیشِ منزل نہیں ہوں

سمجھتی ہوں میں سب کے انداز رزمیؔ
اب اتنی بھی آخر میں جاہل نہیں ہوں

منور مرزا زرمی


نادر کاکوری

یوم وفات 20 اکتوبر 1912

کدورت بڑھ کے آخر کو نکلتی ہے فغاں ہو کر 
زمیں یہ سر پر آ جاتی ہے اک دن آسماں ہو کر 

مرے نقش قدم نے راہ میں کانٹے بچھائے ہیں 
بتائیں تو وہ گھر غیروں کے جائیں گے کہاں ہو کر 

خدا سے سرکشی کی پیر زاہد اس قدر تو نے 
کہ تیرا تیر سا قد ہو گیا ہے اب کماں ہو کر 

کوئی پوچھے کہ میت کا بھی تم کچھ ساتھ دیتے ہو 
یہ آئے مرثیہ لے کر وہ آئے نوحہ خواں ہو کر 

ارادہ پیر زاہد سے ہے اب ترکی بہ ترکی کا 
کسی بھٹی پہ جا بیٹھوں گا میں پیر مغاں ہو کر 

تلاش یار کیا اور سیر کیا اے ہم نشیں ہم تو 
چلے اور گھر چلے آئے یہاں ہو کر وہاں ہو کر 

سخنؔ کی بزم میں نادرؔ اسی کے سر پہ سہرا ہے 
رہا جو ہم نوائے بلبل ہندوستاں ہو کر

نادر کاکوری



بیدل حیدری

یوم پیدائش 20 اکتوبر 1924

ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے 
وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے 

پیار کی خاطر کچھ بھی ہم کر سکتے ہیں 
وہ تیری مزدوری بھی ہو سکتی ہے 

سکھ کا دن کچھ پہلے بھی چڑھ سکتا ہے 
دکھ کی رات عبوری بھی ہو سکتی ہے 

دشمن مجھ پر غالب بھی آ سکتا ہے 
ہار مری مجبوری بھی ہو سکتی ہے 

بیدلؔ مجھ میں یہ جو اک کمی سی ہے 
وہ چاہے تو پوری بھی ہو سکتی ہے

بیدل حیدری



شکیل نبی نگری

یوم پیدائش 20 اکٹوبر 1918

بے رخی کا تری شکوہ میں کروں کیوں تجھ سے
وقت پڑنے پہ تو سایہ بھی جدا ہوتا ہے

آج پھر شورِ سلاسل سے لرزتی ہے بہار
حشر دیوانوں کا پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے

فصلِ گل آتے ہی اڑ جاؤ قفس کو لے کر
بلبلو! نالہ و فریاد سے کیا ہوتا ہے

شکیل نبی نگری


 

سلیم اللہ فہمی

یوم پیدائش 19 اکتوبر 1906

برق بھی یوں کبھی نہ تڑپی تھی
اُف دلِ بے قرار کا عالم

ہاتھ جانے لگے گریباں تک
آ چلا ہے بہار کا عالم

ہے تر ےزلف و رخ کے قابو میں
میرے لیل و نہار کا عالم

سلیم اللہ فہمی


سلمان خان جہانپوری

یوم پیدائش 19 اکتوبر 

کل جب اوج پہ سنّاٹا تھا 
مجھ میں اک کہرام مچا تھا

آخر مجھ میں ایسا کیا ہے
آخر وہ کیا دیکھ رہا تھا

عید کا چاند مبارک سب کو
میں ترا چہرہ دیکھ رہا تھا

بوند تھی شبنم کی یا آنسو
پھول سے گال پہ جانے کیا تھا

بیگانہ دنیا سے تجھ میں
اپنی دنیا دیکھ رہا تھا

سلمان خان جہانپوری



عفت زیبا کاکوروی

یوم پیدائش 19 اکتوبر 1924

زندگی نکھر آئی جھیل کر ستم تنہا 
تیرے در سے ہاتھ آیا بس یہی کرم تنہا 

دھڑکنیں سناتی ہیں لا مکاں کے افسانے 
کتنی داستانوں کو سن رہے ہیں ہم تنہا 

منزلیں بلاتی ہیں جستجو مچلتی ہے 
تیرگی کا عالم ہے اور ہر قدم تنہا 

یہ بھی چھین لے آ کر گردش جہاں مجھ سے 
چند آرزوئیں ہیں اور میرا دم تنہا 

کاش کوئی قسمت سے جا کے اتنا کہہ دیتا 
حوصلے مرے رہبر تیرے پیچ و خم تنہا 

روح کے اجالوں نے تیرگی کو للکارا 
ظلمتوں کی راہوں میں گھر گئے ہیں ہم تنہا

عفت زیبا کاکوروی



نرجس افروز زیدی

یوم پیدائش 19 اکتوبر 1946

اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے 
ہے چھاؤں میں جس کی وہ شجر کاٹ رہا ہے 

کاٹا تھا کبھی میں نے سفر ایک انوکھا 
اک عمر سے اب مجھ کو سفر کاٹ رہا ہے 

تم ڈرتے ہو آ جائے نہ بستی میں درندہ 
مجھ کو تو کوئی اور ہی ڈر کاٹ رہا ہے 

پھیلا ہے بہت دور تلک مجھ میں بیاباں 
ڈستا ہے دریچہ مجھے در کاٹ رہا ہے 

اس شہر میں راس آتی نہیں آئنہ سازی 
لیجے وہ مرا دست ہنر کاٹ رہا ہے 

ہو جائے کہیں قد میں نہ کل اس کے برابر 
اس خوف سے وہ بھائی کا سر کاٹ رہا ہے 

ہر ایک سے آتی ہے بساند اپنی غرض کی 
دل کس کے رویے کا ثمر کاٹ رہا ہے 

نرجس افروز زیدی



مرزارضا برق ؔ

یوم وفات 17 اکٹوبر 1857

اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے 
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے 

نہیں بچتا نہیں بچتا نہیں بچتا عاشق 
پوچھتے کیا ہو شب ہجر میں کیا ہوتا ہے 

بے اثر نالے نہیں آپ کا ڈر ہے مجھ کو 
ابھی کہہ دیجیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے 

کیوں نہ تشبیہ اسے زلف سے دیں عاشق زار 
واقعی طول شب ہجر بلا ہوتا ہے 

یوں تکبر نہ کرو ہم بھی ہیں بندے اس کے 
سجدے بت کرتے ہیں حامی جو خدا ہوتا ہے 

برقؔ افتادہ وہ ہوں سلطنت عالم میں 
تاج سر عجز سے نقش کف پا ہوتا ہے

مرزارضا برق ؔ


 

Monday, October 24, 2022

حیات امروہوی

یوم وفات 16 اکتوبر 1946

وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی 
شاید اب ان کو مجھ سے محبت نہیں رہی 

گھبرا رہا ہوں کیوں یہ غم ناروا سے اب 
کیا مجھ میں غم کے سہنے کی طاقت نہیں رہی 

تم کیا بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا 
تسکین دل کی اب کوئی صورت نہیں رہی 

جینے کو جی رہے ہیں تمہارے بغیر بھی 
اس طرح جیسے جینے کی حسرت نہیں رہی 

شاید کوئی حسین ادھر سے گزر گیا 
وہ درد دل کی پہلی سی حالت نہیں رہی 

جاگے ہو رات محفل اغیار میں ضرور 
آنکھوں میں اب وہ کفر کی ظلمت نہیں رہی 

جب کر دیا خزاں نے وہ رنگیں چمن تباہ 
وہ حسن اب کہاں وہ ملاحت نہیں رہی 

زاہد میں ہے نہ زہد نہ رندوں میں مے کشی
پھولوں میں حسن غنچوں میں رنگت نہیں رہی 

ہاں اے حیاتؔ ہم نے زمانے کے دکھ سہے 
پھر بھی ہمیں کسی سے شکایت نہیں رہی 

حیات امروہوی



اختر سعیدی

یوم پیدائش 16 اکتوبر 1958

کی جستجو تو ایک نیا گھر ملا مجھے 
برسوں کے بعد میرا مقدر ملا مجھے 

جب تشنگی بڑھی تو مسیحا نہ تھا کوئی 
جب پیاس بجھ گئی تو سمندر ملا مجھے 

دنیا مرے خلاف نبرد آزما رہی 
لیکن وہ ایک شخص برابر ملا مجھے 

زخم نگاہ زخم ہنر زخم دل کے بعد 
اک اور زخم تجھ سے بچھڑ کر ملا مجھے 

نازک خیالیوں کی مجھے یہ سزا ملی 
شیشہ تراشنے کو بھی پتھر ملا مجھے

اختر سعیدی



یعقوب خاور

یوم پیدائش 16 اکتوبر 1956

مسئلوں کی بھیڑ میں انساں کو تنہا کر دیا 
ارتقا نے زندگی کا زخم گہرا کر دیا 

ڈیڑھ نیزے پر ٹنگے سورج کی آنکھیں نوچ لو 
بے سبب دہشت زدہ ماحول پیدا کر دیا 

فکر کی لا‌ مرکزیت جاگتی آنکھوں میں خواب 
ہم خیالی نے زمانے بھر کو اپنا کر دیا 

اک شجر کو جسم کی نم سبز گاہوں کی تلاش 
اور اس تحریک نے جنگل کو سونا کر دیا 

خون کی سرخی سفیدی کی طرح محو سفر 
کچھ نئے رشتوں نے ہر رشتے کو گندا کر دیا 

اک کرن تسخیر کل کی سمت تھا پہلا قدم 
آگ اگلتی آندھیوں نے ہم کو اندھا کر دیا 

یعقوب خاور



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...