یوم پیدائش 30 اکتوبر 1922
سکوتِ شام میں جب کائنات ڈھلتی ہے
کسی کی یاد خیالوں کے رُخ بدلتی ہے
مری نگاہ نے وہ محفلیں بھی دیکھی ہیں
جہاں چراغ کی لَو تیرگی اُگلتی ہے
بڑھا ہے جب سے بہاروں کی سمت دامنِ شوق
خزاں بھی سرحدِ گلشن سے بچ کے چلتی ہے
ابھی سے راہزنوں کے سلوک پر تنقید
ابھی تو مشعلِ رہبر لہُو سے جلتی ہے
اب اور کون سنے گا صدائے زخم بہار
صبا بھی پیکرِ گلشن پہ خاک ملتی ہے
نہ جانے کس لیے گُھٹنے لگا ہے دم قیصرؔ
سماں بھی مہکا ہوا ہے ‘ ہوا بھی چلتی ہے