Urdu Deccan

Tuesday, February 28, 2023

تلک راج پارس

یوم پیدائش 24 فروری 1952

جبریل ملے آپؐ سے سرکار حرا میں 
اقرا پڑھے تھے سیدِ ابرار حرا میں 

کی حمد خدا آ پ نے سرکار ! حرا میں
آ تے تھے یہاں سید ابرار حرا میں 

 پندرہ سو برس بیت گئے آپؐ کو آقا 
 خوشبو ہے مگر آپؐ کی سرکار حرا میں 

سینے کو کیا چاک فرشتے نے یہاں پر 
ضو بار ہوا آپؐ کا کردار حرا میں 

جو ان کےہیں قدموں کے نشاں کرتے ہیں باتیں 
رہتے ہیں سدا احمدِ مختار حرا میں 

محسوس ہوئی مجھ کو ترے لمس کی خوشبو
جب میں بھی گیا سید ابرار حرا میں

پارس ہو کبھی لطف وکرم چشمِ عنایت   
میں نعت لکھوں سید ابرار حرا میں 

تلک راج پارس


 

باسط اوجینی

یوم پیدائش 24 فروری 1919

روداد غم کی جب سے شہرت سی ہو گئی ہے 
رنگینئ جہاں سے وحشت سی ہو گئی ہے 

تیور بتا رہے ہیں انداز بے رخی کے 
ان کو جفا سے شاید رغبت سی ہو گئی ہے 

ناحق اٹھا رہے ہو طوفاں تجلیوں کے 
ذوق نظر کو میرے غفلت سی ہو گئی ہے 

محسوس کر رہا ہوں تار نفس میں تیزی 
کچھ اضطراب غم میں شدت سی ہو گئی ہے 

مطلب نہیں کرم سے بے مہریوں کا غم کیا 
صبر و رضا سے اب تو الفت سی ہو گئی ہے 

تاروں کی انجمن میں محو خیال ہو کر 
راتوں کو جاگنے کی عادت سی ہو گئی ہے 

دل بجھ چکا ہے باسطؔ باقی نہیں تمنا 
اب زندگی سے مجھ کو نفرت سی ہو گئی ہے

باسط اوجینی


 

مصدق اعظم

یوم پیدائش 22 فروری 1978

صبح کا منظر ہے لیکن گل کوئی تازہ نہیں 
روئے گلشن پر کہیں بھی اوس کا غازہ نہیں 

ٹوٹ کر ہم چاہنے والوں سے جب بچھڑیں گے آپ 
ہم ہی ہم بکھریں گے لیکن مثل شیرازہ نہیں
 
غار والوں کی طرح نکلا ہے وہ کمرے سے آج 
اس کو اس دنیا کی تبدیلی کا اندازہ نہیں 

کچھ نہ کچھ کہتے تو رہتے ہیں یہاں ہم لوگ جی 
پھر بھی اس شہر بتاں میں کئی وازہ نہیں 

اس عمارت کے مقدر کی لکیروں میں کہیں 
کھڑکیاں تو ہیں مگر مصداقؔ دروازہ نہیں

مصدق اعظم



ساگر چاپدنوی

یوم پیدائش 22 فروری 1935

لب ہنستے ہیں ، دل روتا ہے
ساتھی ایسا بھی ہوتاہے

ساگر چاپدنوی


 

درد فیض خان

یوم پیدائش 22 فروری 

جل کے جب دل لگی راکھ ہو جاتی ہے 
عاشقوں کی خوشی راکھ ہو جاتی ہے

ہجر کے شعر جس پر میں لکھ دیتا ہوں
میری وہ ڈائری راکھ ہو جاتی ہے

پتھروں کے مکانات جلتے نہیں 
ہاں مگر جھوپڑی راکھ ہو جاتی ہے 

عشق میں درد ہے درد میں ہے مزہ 
بے مزہ زندگی راکھ ہو جاتی ہے
 
کوئی بھی چیز ٹکتی نہیں اُس کے پاس
ہر پرانی نئی راکھ ہو جاتی

جس میں اک دوسرے پر بھروسہ نہ ہو
ایسی ہر دوستی راکھ ہو جاتی ہے

چار دن جیب میں گر نہ پیسے رہیں
عشق کیا عاشقی راکھ ہو جاتی ہے

گل سے بلبل اگر بات کرنے لگے 
دیکھ کر ہر کلی راکھ ہو جاتی ہے 

اب تو جگنو بھی دعویٰ یہ کرنے لگے
ہم سے بھی تیرگی راکھ ہو جاتی ہے

صرف سگریٹ سے دل ہی جلتے نہیں
ان لبوں کی نمی راکھ ہو جاتی ہے 

جس میں مل کے بھی دو لوگ ملتے نہیں
ایسی وابستگی راکھ ہو جاتی ہے

اک سہیلی کو اس کی اگر پھول دوں 
دیکھ کر دوسری راکھ ہو جاتی ہے 

شعريت جس میں آتی نہیں ہے نظر 
فیض وہ شاعری راکھ ہو جاتی ہے

درد فیض خان


 

لطیف شاھد

یوم پیدائش 21 فروری 1950

قلیل ہوتی ہے ہر ایک شئے مزید کے بعد 
مہینہ خالی کا ہوتا ہے ،ماہ عید کے بعد 

اک آرزو ہوئی پوری کہ دوسری جاگی 
نگاہ شوق بھڑکتی ہے اور دید کے بعد 

ہرایک بستی میں ہے سینکڑوں کا نام حسین 
یزید نام نہ رکھا گیا یزید کے بعد 

خدا ہی جانے یہ ہے مصلحت کہ مجبوری 
ہم آئے یاد انھیں مدت مدید کے بعد 

صبا کے پیچھے ہی گلشن سے بوئے گل بھی گئی 
قرار مل نہ سکا پیر کو مرید کے بعد 

ہلال عید تو پیغام شادمانی ہے 
ہماری عید تو ہوگی تمہاری دید کے بعد 

 لطیف شاھد



بہار کوٹی

یوم وفات 21 فروری 1971

کروٹیں لے رہے ہیں ذرّوں میں 
جانے کتنے جہانِ نامعلوم 

بہار کوٹی



آیوش چراغ

یوم پیدائش 21 فروری 1991

تصور پیار کا جو ہے پرانا کرنے والا ہوں 
میں اپنی آپ بیتی کو فسانہ کرنے والا ہوں 

جہاں پہ صرف وہ تھی اور میں تھا اور خوشبو تھی 
اسی جھرمٹ کو اپنا آشیانہ کرنے والا ہوں 

جسے میں چاہتا ہوں وہ کہیں کی شاہزادی ہے 
سو اس کے واسطے خود کو شہانہ کرنے والا ہوں 

اداسی دیکھ آئی ہے مکاں شہر محبت میں 
جہاں میں شام کو جا کر بیانہ کرنے والا ہوں 

مجھے معلوم ہے وہ کیا شکایت کرنے والی ہے 
اسے معلوم ہے میں کیا بہانہ کرنے والا ہوں 

تری آنکھوں تری زلفوں ترے ہونٹھوں سے وابستہ 
کئی ارمان ہیں جن کو سیانا کرنے والا ہوں 

اسے جو عقل مندی کی بڑی باتیں بتاتے ہیں 
انہیں لوگوں کو اب اپنا دوانہ کرنے والا ہوں 

آیوش چراغ


 

دین محمد امین صابونیہ

یوم پیدائش 21 فروری 1948

پوچھ پوچھ کر عقل سے چلنا ، دیوانوں کا کام نہیں
دن میں دیپ جلے تو جلنا ، پروانوں کا کام نہیں

اہل جنوں کی سنگت میں کچھ سال بتانے پڑتے ہیں
عشقِ بتاں کی باتیں کرنا ، ودوانوں کا کام نہیں

اُن کی مے میں مستی ہے اور ان کی مے میں عشق ہی عشق
اہل حرم کا شیوہ ہے جو، میخانوں کا کام نہیں

تاج ، حکومت چھوڑ کے عاشق ، بن باسی بن جاتے ہیں
عشق و محبت ٹوٹ کے کرنا ، فرزانوں کا کام نہیں

دل کی بستی کیسے اُجڑی ، بستے گھر ویران ہوئے
میرے اپنے ہی تھے دشمن ، بیگانوں کا کام نہیں

ذکرِ یار ذرا چھیڑو تو ، ایک غزل ہو جاتی ہے
عشق کی باتیں ظاہر کرنا ،افسانوں کا کام نہیں

دردِ دل ہے دردِ جگر ہے ،دردِ سر ہے عشق امین
عشق کی اُلجھن کو سلجھانا ، ایوانوں کا کام نہیں

دین محمد امین صابونیہ


بشیر النساء بیگم بشیر

یوم وفات 20 فروری 1972

تجھ پہ کیا خاک اے زمیں ہوتا 
ہم نہ ہوتے تو کچھ نہیں ہوتا 

نہ یہ دنیا میں شورشیں ہوتیں 
اور نہ یہ ذوق آں و ایں ہوتا 

زندگی نام ہے تڑپنے کا 
جب سکوں ہو سکوں نہیں ہوتا 

حشر سو بار رونما ہوتا 
دل کو آنکھوں پہ گر یقیں ہوتا 

کس قدر دل نواز منظر ہے 
کاش برجا دل حزیں ہوتا 

کچھ بڑی بات تھی ید اللہہی 
تجھ کو اپنے پہ گر یقیں ہوتا 

آگے چرچے تھے جن کی باتوں کے 
ان کا اب ذکر تک نہیں ہوتا 

دل میں اگلی سی بات گر ہوتی 
حرف نا خواندہ دل نشیں ہوتا 

گردش چرخ کہہ رہی ہے بشیرؔ 
جذب کامل سے کیا نہیں ہوتا

بشیر النساء بیگم بشیر


قمر نیاز

یوم پیدائش 20 فروری 

یہ دل مرا جیتا نہیں ، ہارا بھی نہیں ہے
تجھ ہجر کے گھائو کا مداوا بھی نہیں ہے

پوچھا جو نہیں اس نے مرا حال تو پھر کیا 
دریا کی کوئی پیاس بجھاتا بھی نہیں ہے

وحشت نے نئے رنگ بھرے آنکھ میں تیری
کیا ذکر ہو دریا کا کہ صحرا بھی نہیں ہے

اتنی تو سہولت تھی مرے خواب سجاتا
افسوس ! تُو اب خواب میں آتا بھی نہیں ہے

یہ بات بجا ، وجہِ سکوں ڈھونڈ رہا ہوں 
یہ بات الگ ، اور گوارا بھی نہیں ہے

ہر رنگ جو ملتا ہے قمر ، رنگ میں تیرے 
آنکھوں میں کوئی رنگ سمایا بھی نہیں ہے

قمر نیاز


 

بلال سہارن پوری

یوم پیدائش 20 فروری 1983

قہر برسا آسماں سے تب پشیمانی ہوئی 
بھول بیٹھے ہم خدا کو ہم سے نادانی ہوئی 

کیا حسیں رونق یہاں تھی کس قدر آباد تھا 
آج اپنے شہر کو دیکھا تو حیرانی ہوئی 

ہو گئے ہیں مندر و مسجد کے دروازے بھی بند 
ساری دنیا پر مسلط کیسی ویرانی ہوئی 

جی حضوری کر نہ پائے حکم پر اس کے بلالؔ 
بادشاہ وقت کی ہم سے نہ دربانی ہوئی

بلال سہارن پوری



یوسف مثالی

یوم پیدائش 20 فروری 1955

کیا ضروری ہے ! کوئی زخم کریدا جائے
میں جو خوش ہوں تو مرا حال نہ پوچھا جائے

ایک اک کر کے سبھی چھوڑ گئے ہیں مجھ کو
اب تو سوچا ہے پرندہ بھی نہ پالا جائے

تو نے دیکھے نہیں یاروں کے بھیانک چہرے
یہ وہ منظر ہے کہ آنکھوں سے نظر کھا جائے

شام ، ہر شام دلاسے نہیں دینے والی
اس سے کہنا کہ وہ اب لوٹ کے گھر آجائے

اپنی سوچوں سے مری جان کہاں پھوٹے گی
آج بھی سوچ رہا ہوں کہ نہ سوچا جائے

تیری یادوں کی کڑی دھوپ سے شکوہ کیسا
اپنی دیوار ہی سائے کو اگر کھا جائے

یوسف مثالی



سید شکیل دسنوی

یوم پیدائش 20 فروری 1941

اتنی مدت بعد ملے ہو کچھ تو دل کا حال کہو 
کیسے بیتے ہم بن پیارے اتنے ماہ و سال کہو 

روپ کو دھوکا سمجھو نظر کا یا پھر مایا جال کہو 
پریت کو دل کا روگ سمجھ لو یا جی کا جنجال کہو 

آنکھوں دیکھی کیا بتلائیں حال عجب کچھ دیکھا ہے 
دکھ کی کھیتی کتنی ہری اور سکھ کا جیسے کال کہو 

ایک وفا کو لے کے تمہاری ساری بازی کھیل گئے 
یاروں نے تو ورنہ چلی تھی کیسی کیسی چال کہو 

ٹھیس لگی ہے کیسی دل پر ہم سے کھنچے سے رہتے ہو 
آخر پیارے آیا کیسے اس شیشے میں بال کہو 

سیدؔ جی کیا بیتی تم پر کھوئے کھوئے رہتے ہو 
کچھ تو دل کی بات بتاؤ کچھ اپنے احوال کہو

سید شکیل دسنوی



سدرشن فاکر

یوم وفات 19 فروری 2008

اہل الفت کے حوالوں پہ ہنسی آتی ہے 
لیلیٰ مجنوں کی مثالوں پہ ہنسی آتی ہے 

جب بھی تکمیل محبت کا خیال آتا ہے 
مجھ کو اپنے ہی خیالوں پہ ہنسی آتی ہے 

لوگ اپنے لئے اوروں میں وفا ڈھونڈتے ہیں 
ان وفا ڈھونڈنے والوں پہ ہنسی آتی ہے 

دیکھنے والو تبسم کو کرم مت سمجھو 
انہیں تو دیکھنے والوں پہ ہنسی آتی ہے 

چاندنی رات محبت میں حسیں تھی فاکرؔ 
اب تو بیمار اجالوں پہ ہنسی آتی ہے

سدرشن فاکر


 

غلام محمد بختیار قیسی

یوم وفات 18 فروری 2023
اناللہ واناالیہ راجعون 
 شہر ناگپور کے بزرگ شاعر حضرت غلام محمد بختیار قیسی

آج اس دارفانی سے کوچ کر گئے

نور محمد جالب

یوم وفات 18 فروری 2023

ہر ایک سے نباہ کا اقرار کم کرو
کچی سڑک پہ نکلے ہو رفتار کم کرو

مانا کہ تشنہ لب کوئی تم سا نہیں مگر
دریا سے اپنی پیاس کا اظہار کم کرو

کانوں میں پھر اذان کی آواز آئے گی
کمرے کی گونجتی ہوئی جھنکار کم کرو

ہے زندگی کا لطف نشیب و فراز میں
بہتر ہے اپنا راستہ ہموار کم کرو

جالب تمہیں بھی تنکا سمجھ لیں نہ یہ کہیں
ان سر پھری ہواؤں سے تکرار کم کرو

نور محمد جالب


 

رجب چوہدری

یوم پیدائش 18 فروری 

مکان دل کا سجانے کی اب ضرورت ہے
کسی کو اس میں بسانے کی اب ضرورت ہے

بھڑک اٹھیں گے مری راکھ سے کئی شعلے 
ذرا سی آگ دکھانے کی اب ضرورت ہے

نئی صدی ہے بدل دو پرانی رسموں کو
نیا سماج زمانے کی اب ضرورت ہے

کچھ اتنا دور نہیں ہے پہنچ سے سورج بھی
بس ایک جست لگانے کی اب ضرورت ہے

دئیے کا تیل بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا
نئے چراغ جلانے کی اب ضرورت ہے

تھکے تھکے سے بہت لگ رہے ہیں منزل پر
مسافروں کو ٹھکانے کی اب ضرورت ہے

رجب چوہدری 



سرفراز شاکر

یوم وفات 17 فروری 2023

سوکھ جائے گا سمندر دیکھنا
پھر مری آنکھوں کا منظر دیکھنا

خالی رہ جائے گا یہ گھر دیکھنا
جب نکل جاؤں میں باہر دیکھنا 

نوچ کر لے جائے گا مجھ کو کوئی
تم مرے بکھرے ہوئے پر دیکھنا

وہ جو دنیا کے قفس میں بند ہیں
اڑ ہی جائیں گے کبوتر دیکھنا

سونی ہے شاکر حویلی تو مگر
چیختا ہے کون اندر دیکھنا

سرفراز شاکر   



سید غلام ربانی ایاز

یوم پیدائش 17 فروری 1942

روتے روتے حالِ دل پر مسکرانا آگیا
نالۂ شب گیر کو نغمہ بنانا آگیا

خارزارِ زندگی ہے رشکِ گلزارِ ارم
اب خزاں کے دور میں بھی گل کھلانا آگیا

آتے آتے آگیا جینے کا فن آخر ہمیں
آسماں کو اپنے قدموں پر جھکانا آگیا

خلق‘ اخلاق و رواداری ‘ محبت‘ پیارسے
دشمنِ جاں کو بھی سینے سے لگانا آگیا

تم کو گل چینو! مبارک ہوں یہ گل اندازیاں 
اب ہمیں پلکوں سے کانٹوں کو اٹھانا آگیا

ہے گلِ خنداں کی صورت اب دلِ صد چاک ایازؔ
کھاتے کھاتے چوٹ پیہم مسکرانا آگیا

سید غلام ربانی ایاز



ریاض غازی پوری

یوم پیدائش 17 فروری 1937

تسلی دے کے بہلایا گیا ہوں 
سکوں کی راہ پر لایا گیا ہوں 

عدم سے جانب گلزار ہستی 
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں 

کڑی منزل عدم کی ہے اسی سے 
یہاں دم بھر کو ٹھہرایا گیا ہوں 

حقیقت کا ہوا ہے بول بالا 
میں جب سولی پہ لٹکایا گیا ہوں 

حقیقت سے میں افسانہ بنا کر 
ہر اک محفل میں دہرایا گیا ہوں 

خدا معلوم ان کی انجمن سے 
میں خود اٹھا کہ اٹھوایا گیا ہوں 

ریاضؔ اپنا تھا شیوہ گل پرستی 
مگر کانٹوں میں الجھایا گیا ہوں

ریاض غازی پوری


 

آفتاب عالم مٹابرجی

یوم پیدائش 16 فروری 1964

صاف دامن ہے کہاں داغ گناہوں کے ہیں 
کس لئے سادہ دل انسان مجھے کھینچتا ہے 

بحر و آوزان کی حاجت نہیں پڑھتی مجھ کو
خوں پلانے کو قلمدان مجھے کھینچتا ہے 

سر یہ خم کیوں نہ رہے آپ کے آجانے پر 
آج بھی آپ کا احسان مجھے کھینچتا ہے 

آرزو ضبط سے جب آگے نکال جاتی ہے 
" دشت میں روح کا ہیجان مجھے کھینچتا ہے "

میرے اللہ مجھے حفظ و امان میں رکھنا
وسوسے ڈال کے شیطان مجھے کھینچتا ہے 

وہ بلائیں گے تو سب چھوڑ کے جانا ہوگا 
آج کل کوزہء ویران مجھے کھینچتا ہے 

اپنی انکھوں پہ لگائے ہوئے پٹی عالم
بے وجہ عدل کا میزان مجھے کھینچتا ہے 

آفتاب عالم مٹابرجی


 

عبد الحق بیتاب

یوم پیدائش 15 فروری 1964

ہوکر حصارِ ذات میں محبوس آئینہ
کرتا ہے درد و کرب کو محسوس آئینہ

کل کو عجب نہیں کہ وہ ثابت ہو خالی نیک
گو آج میرے حق میں ہے منحوس آئینہ

اے کاش کوئی کھول دے تصویر پر یہ راز
کیوں اپنی زندگی سے ہے مایوس آئینہ

خائف شعور ہے کہیں بیتابؔ کر نہ لے
عکسِ توہّمات کو معکوس آئینہ

عبد الحق بیتاب



منصور عمر

یوم پیدائش 15 فروری 1955

خدایا ذرا ان پہ احسان کر دے 
جو ہیں آدمی ان کو انسان کر دے 

رہیں یاد کے وہ گھروندے سلامت 
مگر دل کے آنگن کو ویران کر دے 

کبھی اپنے ہی روبرو جب کھڑا ہو 
تو آئینہ اس کو بھی حیران کر دے 

زمیں تا فلک ہو مرا نام روشن 
کچھ ایسا ہی جینے کا سامان کر دے 

بہت ناز ہے جن کو اپنی انا پر 
کبھی میرے گھر ان کو مہمان کر دے 

کروں نام کا اپنے سکہ میں رائج 
مجھے ایک دن کا جو سلطان کر دے 

اگر صلح منصورؔ کرتے نہیں وہ 
تو بڑھ کے لڑائی کا اعلان کر دے

منصور عمر


 

نسیم سحر

یوم پیدائش 15 فروری 1944

آپ ہی اپنا سفر دشوار تر میں نے کیا 
کیوں ملال فرقت دیوار و در میں نے کیا 

میرے قد کو ناپنا ہے تو ذرا اس پر نظر 
چوٹیاں اونچی تھیں کتنی جن کو سر میں نے کیا 

چل دیا منزل کی جانب کارواں میرے بغیر 
اپنے ہی شوق سفر کو ہم سفر میں نے کیا 

منزلیں دیتی نہ تھیں پہلے مجھے اپنا سراغ 
پھر جنوں میں منزلوں کو رہ گزر میں نے کیا 

ہر قدم کتنے ہی دروازے کھلے میرے لئے 
جانے کیا سوچا کہ خود کو در بدر میں نے کیا 

لفظ بھی جس عہد میں کھو بیٹھے اپنا اعتبار 
خامشی کو اس میں کتنا معتبر میں نے کیا 

زندگی ترتیب تو دیتی رہی مجھ کو نسیمؔ 
اپنا شیرازہ مگر خود منتشر میں نے کیا

نسیم سحر


 

قیصر القاسمی

یوم پیدائش 14 فروری 1940

رکھنا قدم سنبھال کر اے ناخدا ذرا
بحرِ الم نے لاکھ سفینے ڈبوئے ہیں

قیصر القاسمی



عرش منیر

یوم پیدائش 14 فروری 

عمل کر لو تو پھر جینے میں آسانی بہت ہوگی
مرے لہجے سے ہاں تم کو پریشانی بہت ہوگی

شریفوں کے بہت سے راز پوشیدہ ہیں سینے میں
 زباں کھولو ں گی تو دنیا کو حیرانی بہت ہوگی
 
صعوبت جھیلنا ہے ، رہنما کی رہنمائی میں
ابھی منزل تلک رستے میں ویرانی بہت ہوگی

میں تب پوچھوں گی حضرت اور کہیے اپنے بارے میں
طبیعت آپ کی جب شرم سے پانی بہت ہوگی

کسی مسند پہ گر قابض ہوا کم ظرف اور جاہل
تو پھر دعوے سے کہتی ہوں کہ من ما نی بہت ہوگی

چلیں میں پوچھتی ہوں خاک کب اکسیر ہوتی ہے
اگرچہ آپ نے بھی خاک تو چھانی بہت ہوگی

مجھے معلوم ہی تھا عرش جب آؤں گی محفل میں
مرے آنے سے پہلے حشر سامانی بہت ہوگی

عرش منیر



محمد عثمان سحر

یوم پیدائش 13 فروری 1991

اب کے تجدیدِ وفا ہو تو بہت بہتر ہے
عشق کا رنگ نیا ہو تو بہت بہتر ہے

ہو کے مجبور بچھڑنے کے سوا سب ہےقبول
ہجر کی اور وجہ ہو تو بہت بہتر ہے

لذَّتِ عشق میں جنت کے سبھی درجوں پر 
جانِ من ساتھ ترا ہو تو بہت بہتر ہے 

آخری سانس ہو سجدے میں ترے ہاتھوں پر
سامنے میرے خدا ہو تو بہت بہتر ہے 

خوب واقف ہے محبت کے فضائل سے سحر
دل کا ہر درس ادا ہو تو بہت بہتر ہے 

تبصرہ ہجر پہ میرا ہے فقط اتنا سحر
جسم سے روح جدا ہو تو بہت بہتر ہے

محمد عثمان سحر



ناصر فراز

یوم پیدائش 13 فروری 1961

تصورات میں یادوں کی جب برات چلی
تو یوں لگا کہ مرے ساتھ کائنات چلی

کوئی نہ روک سکا اس کے جاتے قدموں کو
چھڑا کے ہاتھ جو شہزادیِ حیات چلی

عجیب چیز ہے دولت کی یہ حسیں دیوی
یہ جس کے ساتھ نہ چلنا تھا اس کے ساتھ چلی

خدائے قادرِ مطلق کے روبرو اے فرازؔ
نہ میری بات چلی ہے نہ تیری بات چلی

ناصر فراز



نجم السحر ثاقب

یوم پیدائش 13 فروری 2000

سخاوتیں بھی ہیں جدا عنایتیں بھی خوب ہیں
یہ خوشبوؤں کے شہر کی روایتیں بھی خوب ہیں

سمجھ نہیں رہے ہیں کچھ پہ سنتے ہیں بغور سب
عجیب لوگ ہیں یہاں سماعتیں بھی خوب ہیں

بس اک قدم پہ تھا ہدف مگر پہنچ نہیں سکا
یہ وقت اور وقت کی نزاکتیں بھی خوب ہیں

کہاں ہوا ہے فیصلہ کوئی بھی وقت پر یہاں
ہمارے ملک میں تو یوں عدالتیں بھی خوب ہیں

دماغ سوچتا ہے کچھ ، کچھ اور کر رہا ہے دل
مرے دل و دماغ کی رقابتیں بھی خوب ہیں

نجم السحر ثاقب



صفدر صدیق رضی

یوم پیدائش 13 فروری 1949

آنکھوں میں ہے اب تک وہی زیبائشِ دنیا
رکھا نہ کہیں کا مجھے اے خواہشِ دنیا

اچھا ہے کہ جلتے ہو خود اپنی ہی تپش میں
تم تک ابھی پہنچی ہی نہیں آتشِ دنیا

وسعت میں ہمیشہ سے جداگانہ ہیں دونوں
دنیا میں نہیں دل میں ہے گنجائشِ دنیا

اے جذبہءپندار قدم بوس نہ ہونا
 پیروں سے لپٹ جائے گی آلائشِ دنیا

چشم و لب و رخسار تو غارت گرِ جاں ہیں
 جس دم وہ کھُلا ہم پہ کھُلی سازشِ دنیا

دنیا کو کیا ترک جب اس کیلئے ہم نے
کی ہم سےتب اس شخص نےفرمائشِ دنیا

صفدر صدیق رضی


 

مضطر مجاز

یوم پیدائش 13 فروری 1935

فن کار ہے تو اپنے ہنر کی بھی جانچ کر 
دو اور دو کو چھ نہیں کرتا تو پانچ کر 

ہیں تیرے کتنے کام کے بے کار کس قدر 
دریاؤں کو کھنگال ستاروں کی جانچ کر 

لے لے نہ سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں 
سر میں سلگ رہی ہے جو ٹھنڈی وہ آنچ کر 

سچ بولنے کی تاب نہیں ہے تو کم سے کم 
اے عقل مند جھوٹ کو چمکا کے سانچ کر 

کب تک زمیں مکاں زن و فرزند کاروبار 
ہستی کا حل بھی ڈھونڈ کوئی سونچ سانچ کر 

مٹی بھی تیری دیکھ کے اگلے گی سیم و زر 
اپنے لہو سے چھوڑ اسے سینچ سانچ کر 

ہیرے کو کون پوچھنے والا ہے اے عزیز 
ہیرے کو چھیل چھال کے چمکا کے کانچ کر 

مضطر مجاز


 

کیدار ناتھ کیدار

یوم پیدائش 12 فروری 1926

بن رہا ہے پھر جنوں نغموں کے جال
انگلیاں رکھی ہیں کس نے ساز پر

کیدار ناتھ کیدار


 

حیدر صفت

یوم پیدائش 12 فروری 1949

کچھ تو وہ سست کچھ زمانہ تیز
اور سفر بھی تو حسبِ حال نہ تھا

حیدر صفت


 

یوسف جمال

یوم پیدائش 11 فروری 1947

کورے کاغذ کی طرح بے نور بابوں میں رہا 
تیرگی کا حاشیہ بن کر کتابوں میں رہا 

میں اذیت ناک لمحوں کے عتابوں میں رہا 
درد کا قیدی بنا خانہ خرابوں میں رہا 

جس قدر دی جسم کو مقروض سانسوں کی زکوٰۃ 
کیا بتاؤں جسم اتنا ہی عذابوں میں رہا 

بے صفت صحرا ہوں کیوں صحرا نوردوں نے کہا 
ہر قدم پر جب کہ میں اندھے سرابوں میں رہا 

وقت کی محرومیوں نے چھین لی میری زبان 
ورنہ اک مدت تلک میں لا جوابوں میں رہا 

ڈھونڈتے ہو کیوں جلی تحریر کے اسباق میں 
میں تو کہرے کی طرح دھندلے نصابوں میں رہا

یوسف جمال



عبد الغفور نساخ

یوم پیدائش 11فروری 1834

ظاہراً موت ہے قضا ہے عشق
پر حقیقت میں جاں فزا ہے عشق

دیتا ہے لاکھ طرح سے تسکین
مرض ہجر میں دوا ہے عشق

تا دم مرگ ساتھ دیتا ہے
ایک محبوب با وفا ہے عشق

دیکھ نساخؔ گر نہ ہوتا کفر 
کہتے بے شبہ ہم خدا ہے عشق

عبد الغفور نساخ 

 


کمار وشواس

یوم پیدائش 10 فروری 1970

دل تو کرتا ہے خیر کرتا ہے 
آپ کا ذکر غیر کرتا ہے 

کیوں نہ میں دل سے دوں دعا اس کو 
جبکہ وہ مجھ سے بیر کرتا ہے 

آپ تو ہو بہ ہو وہی ہیں جو 
میرے سپنوں میں سیر کرتا ہے 

عشق کیوں آپ سے یہ دل میرا 
مجھ سے پوچھے بغیر کرتا ہے 

ایک ذرہ دعائیں ماں کی لے 
آسمانوں کی سیر کرتا ہے

کمار وشواس


امجد اسلام امجد

یوم وفات 10 فروری 2023

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے 
جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے 

ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا 
ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے 

یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں 
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے 

وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو 
دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے 

جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں 
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے 

ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی 
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے 

جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے 
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے 

ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے 
تمام غنچے تو امجدؔ کھلا نہیں کرتے

امجد اسلام امجد


خواجہ دل محمد

یوم پیدائش 09 فروری 1887
نظم علم

سعادت ، سیادت ، عبادت ہے علم
حکومت ہے دولت ہے، طاقت ہے علم
یہ پوچھو کسی مرد مختار سے
قلم تیز چلتا ہے تلوار سے
پسر علم و فن سے اگر دور ہے
پدر کی وہ اک چشم بے نور ہے
جو لاڈوں سے بگڑا ہوا پوت ہو
کبھی اولیا ہو کبھی بھوت ہو
نہ پھولوں کی سیجوں پہ آتا ہے علم
نہ ورثے میں انسان پاتا ہے علم
دلوں میں بھرو علم کا مال و زر
نہ قاروں کا خطرہ نہ چوروں کا ڈر
بڑھے علم انساں کا تعلیم سے
کہ دولت یہ دگنی ہو تقسیم سے
اگر پوچھنے میں کرو گے حجاب
تو پڑھتے رہو گے جہالت کا باب 
جہالت سے انساں مصیبت اٹھائے
اندھیرے میں جو جائے ٹھوکر ہی کھائے
ہدایت کی مشعل ہیں علم و ہنر
جہالت ہے خطرہ جہالت ہے ڈر
اگر خاک پر پھونک مارے جہول
تو جھونکے گا اپنی ہی آنکھوں میں دھول
نظر ہو تو جوہر کے جوہر کہے
ہے اندھا جو ہیرے کو کنکر کہے
ہے جاہل کو نیکی بدی بات ایک
بھلا مرد جاہل کا ایمان کیا
کہ اندھے کو رنگوں کی پہچان کیا
گدھے کو اڑا دیں جو مخمل کی جھول
دلتی چلانا جائے گا بھول
بہت لوگ باتوں میں لقمان ہیں
کمل میں جو دیکھو تو نادان ہیں
علاج جراحت کو خاذق وہ چن
اس طبع میں جس کے یہ چار گن
طر بازار کی سر افلاطون کا
ہو بدر کی طرح حاصل کمال
اوروں کو ظلمت سے باہر نکال
جو سیکھو کسی کو سکھاتے چلو
دئے سے دئے کو جلاتے چلو

خواجہ دل محمد 


 

صلاح الدین پرویز

یوم پیدائش 09 فروری 1952
نظم موم بتی 

اور جب 
اس کے قد پر
اٹیچی کا سامان رکھا گیا 
موم بتی ہنسی 
موم بتی کا ہنسنا بجا ہے 

مجھے کوستی ہے 
مرے گھر میں پچھلے کئی سال سے 
ایک آواز 
جس کے کئی راستے 
دھند کے سرد لہجے میں 
الجھے ہوئے ہیں 
مرے گھر کو 
اک موم بتی کی خواہش 
کہیں جنگلوں کا نہ رستہ دکھا دے 

سفر 
جب نیا کتھئی سوٹ پہنے 
نئی ریل گاڑی میں بیٹھا 
تو اس کو مسافر سمجھ کر 
کئی لوگ ہنسنے لگے 
اور جب ان کے پیالوں میں رکھی ہوئی 
چائے جمنے لگی 
تب انہیں یاد آیا 
بزرگوں نے مرتے سمے 
اپنی آنکھیں زباں سے چکھی تھیں 
مگر موم بتی کی لمبی زباں 
ریل گاڑی میں بیٹھی سفر کر رہی تھی 
اور تبھی اک سفر 
ان کی آنکھیں چرا کر کہیں لے گیا تھا 
مرے ہاتھ میں اک اٹیچی ہے لیکن 
اسے کھولنا میرے بس میں نہیں ہے 
اور اب 
موم بتی بھی ہنسنے لگی ہے 

 صلاح الدین پرویز


 

خطاب عالم شاذ

یوم پیدائش 08 فروری 1982

مِری ترقی کے ضامن مِرے رقیب ہوئے
ملا جو مجھ کو یہاں اُن کو کیا؟ نصیب ہوئے

ہنسی اڑاتے رہے جو ،وہی خموش ہوئے
جو دور دور رہے برسوں اب قریب ہوئے

مخالفت جو سدا دشمنی میں کرتے رہے
زمین اور زماں بدلا کیا! حبیب ہوئے

ہمارے چاہنے والوں کی چاہ کو چاہو
اگرملے وہی چاہت زہے نصیب ہوئے

گلاب دل میں جو ہر دم کھِلائے رکھتے ہیں
وہی سبھی کے دلوں میںبھی عندلیب ہوئے

ملاپسند کا مضمون جس کی چاہت تھی
حیاتیات سے رغبت ہوئی طبیب ہوئے

جنھیں شغف تھا قلم اور کتاب سے دن بھر
وہی زما ں میں معلم وہی ادیب ہوئے

خطاب عالم شاذ


 

انیس عظیم آبادی

یوم پیدائش 08 فروری 1943

پوشیدہ درد و غم میں معراجِ زندگی ہے
تاریکیوں میں پنہاں دھندلی سی روشنی ہے

دن رات کشمکش میں کیوں میری زندگی ہے
تم سے چھپی نہیں ہے جو میری بے بسی ہے

مہتاب بن کے چمکو تاروں کی انجمن میں
تم خوش رہو ہمیشہ میری یہی خوشی ہے

قربان تم یہ کردوں قلب و جگر میں اپنا
کہہ دو زباں سے اپنی ، خاطر میں جو کمی ہے

کیوں سرد پڑ گئی ہے جام و سبو کی محفل
کیا بات ہوگئی ہے ، ہر سمت خامشی ہے

وہ ہم نوا ہمارے ، ہم خود بھی جب نہیں ہیں
کیوں پوچھتی ہے دنیا ، یہ کون اجنبی ہے

انیس عظیم آبادی


 

حیرت فرخ آبادی

یوم پیدائش 08 فروری 1930

دل دکھانا تمہاری فطرت ہے 
چوٹ کھانا ہماری عادت ہے 

مجھ کو یوں ہی خراب ہونا تھا 
بے سبب تم کو کیوں ندامت ہے 

جھانک کر ایک بار آنکھوں میں 
خود ہی پڑھ لو جو دل کی حالت ہے
 
راہ الفت میں جان دے دینا 
اس سے بڑھ کر کوئی شہادت ہے 

تیری فرقت ہو یا تری قربت 
ایک دوزخ ہے ایک جنت ہے 

تم نے دیکھا ہے ایسے جلووں کو 
کس لیے مجھ سے پھر شکایت ہے 

اس بھروسے گناہ کرتا ہوں 
بخش دینا تمہاری فطرت ہے 

سوئے مے خانہ اٹھ چلے ہیں قدم 
جیسے یہ بھی کوئی عبادت ہے 

زندگی کو سنبھال کر رکھنا 
ایک بے درد کی امانت ہے 

درد ہی درد جس کے شعروں میں 
اور ہے کون صرف حیرتؔ ہے 

حیرت فرخ آبادی 


 

گووند گلشن

یوم پیدائش 07 فروری 1957

منتظر آنکھیں ہیں میری شام سے 
شمع روشن ہے تمہارے نام سے 

چھین لیتا ہے سکوں شہرت کا شوق 
اس لیے ہم رہ گئے گمنام سے 

سچ کی خاطر جان جاتی ہے تو جائے 
ہم نہیں ڈرتے کسی انجام سے 

اپنے من کی بات اب کس سے کہوں 
آئنہ ناراض ہے کل شام سے 

کیا عجب دنیا ہے یہ دنیا یہاں 
لوگ ملتے ہیں مگر بس کام سے 

ایسا کچھ ہو جائے دل ٹوٹے نہیں 
سوچیے گا آپ بھی آرام سے 

مجھ سے پوچھو آنسوؤں کی برکتیں 
مطمئن ہوں رنج و غم آلام سے

گووند گلشن


 

ایوب صابر

یوم وفات 07 فروری 1989

متاع فکر و نظر رہا ہوں 
مثال خوشبو بکھر رہا ہوں 

میں زندگانی کے معرکے میں 
ہمیشہ زیر و زبر رہا ہوں 

شفق ہوں سورج ہوں روشنی ہوں 
صلیب غم پر ابھر رہا ہوں 

سجاؤ رستے بچھاؤ کانٹے 
کہ پا برہنہ گزر رہا ہوں 

نہ زندگی ہے نہ موت ہے یہ 
نہ جی رہا ہوں نہ مر رہا ہوں 

جو میرے اندر چھپا ہوا ہے 
اس آدمی سے بھی ڈر رہا ہوں 

وہ میرے اپنے ہی غم تھے صابرؔ 
کہ جن سے میں بے خبر رہا ہوں

ایوب صابر



زین الدین عادل

یوم پیدائش 06 فروری 1973

مہر و اخلاص سے انسان کا دل ہے خالی
رہ گیا صرف یہاں ہاتھ ملانے کا چلن

زین الدین عادل 



افتخار احمد

یوم پیدائش 05 فروری 1971

مکیں رویا مکاں رویا زمیں روئی زماں رویا
ہوا یوسف جو گم تو کارواں کا کارواں رویا

ندامت کا ہراک قطرہ کرم کااستعارہ ہے
گھٹا رحمت کی ہے برسی وہاں ، عاصی جہاں رویا

ستم ایجاد گلچیں نے یوں طرحِ نو سے گل کترا
ہیں پھیلے برگِ گل پر قطرۂ نم ، آسماں رویا

عجب سفاک حاکم تھا وہ سکھ پاتا تھا دکھ دے کر
وہ گزراجب جہاں سے تو خوشی سے نا تواں رویا

عمر چل کر فلسطینِ مقدس جس گھڑی پہنچے
تھی شاہی پا پیادہ شہ نشیں ، تھا , شتر باں رویا

کہیں سوکھا کہیں طوفاں کہیں بارش کہیں سر سر
کرم کردے خدایا اب جہاں کا ہے جہاں رویا

یہ دنیا ہے ، یہاں ہر شے کو نسبت بس غرض سے ہے
نشاطِ حرص میں آکر ہے عیارِ جہاں رویا

ہوس کاروں کی ہے فطرت کہ رو رو کر بنائیں کام
کبھی ان کی زباں روئی ، کبھی ان کا دہاں رویا

معلم ہوں ، جگا دوں پیاس دانش کی ذرا سا بس
اسی خاطر دعا میں افتخارِ بے نشاں رویا

افتخار احمد


 

فہیم احمد صدیقی

یوم پیدائش 05 فروری 1948

دن كو چھوڑا ہاتھ تھاما رات کا
ہم کو ہے ادراک ترجیحات کا

ہم نے بس خوشبو کو ہرجائی کہا
لگ گیا ان کو برا اس بات کا

آپ ہو تے ساتھ تو کچھ بات تھی
ہے گراں اب سلسلہ برسات کا

توڑ کر تارے ابھی لا تا ہو ں میں
کام ہے یہ میرے بائیں ہاتھ کا

ان کا رخ تم کو اگر ہے موڑنا
جائزہ تو لیجے گا حالات كا

پختہ تر میرے عزائم ہیں فہیم
مجھ کو اندیشہ نہیں ہے مات کا

فہیم احمد صدیقی



اشفاقؔ حیدر

یوم پیدائش 05 فروری 2005

لوگ سارے مر رہے ہیں بھوک سے
چوریاں بھی کر رہے ہیں بھوک سے

مفلسوں کے بچے اپنے گھر نہیں
پل کسی رہ پر رہے ہیں بھوک سے

ہم سبھی غربت کی چکی میں پسے
کام سارے کر رہے ہیں بھوک سے

بادشہ دولت سے جیبیں اور ہم
پیٹ اپنا بھر رہے ہیں بھوک سے

حکمراں اشفاقؔ سب ہیں عیش میں
ہم گزارا کر رہے ہیں بھوک سے

 اشفاقؔ حیدر


 

محمد جمال اجمل

یوم پیدائش 05 فروری 1985

روٹھو گے ماں سے کھاؤ گے ٹھوکر الگ الگ
پھر بولیاں سنائیں گے گھر بھر الگ الگ

کھارا کے ساتھ ساتھ ہی میٹھا بنا دیا
بہتے ہیں ایک ساتھ سمندر الگ الگ

باد خزاں کے درمیاں تنہا میں پھول ہوں 
آتے ہیں میرے پاس ستمگر الگ الگ

ہیں اہل حق ہی سب کے نشانے پہ دوستو
،،خیمے الگ الگ سہی لشکر الگ الگ ،،

بس نام ہی تو بدلے ہیں وہ واردات کے 
چلتے فقط ہمیں پہ ہیں خنجر الگ الگ

احساس ہونے لگتا ہے خطرہ کہیں پہ ہے 
جب میڈیا دکھاتا ہے منظر الگ الگ

اجمل ہماری قوم میں کیسے ہو اتحاد
ہم ہی بنا کے رکھے ہیں رہبر الگ الگ

محمد جمال اجمل


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...