Urdu Deccan

Wednesday, August 31, 2022

فرح کامران

یوم پیدائش 31 اگست 

اس اعتماد سے رکھا ہے آسماں پہ قدم
کہ اب گری تو میں گر کر سنبھل بھی سکتی ہوں

فرح کامران


 

مشتاق انجم

یوم پیدائش 31 اگست 1955

قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے 
سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے 

ایک سایہ لڑکھڑاتا آ رہا ہے اس طرف 
دیکھیے تو اک حقیقت سوچئے تو راز ہے 

ریت میں منہ ڈال کر سانسوں کا اس کا روکنا 
چند سکوں کے لئے بچہ بڑا جانباز ہے

سوچ کی منزل کہیں ہے اور آنکھیں ہیں کہیں 
جانتا ہوں کس میں کتنی قوت پرواز ہے 

کس طرح ہوگا بیاں حال دل بیمار اب 
آسماں برہم ہے اور خاموش چارہ ساز ہے 

دور آیا ہے عجب انجمؔ یہاں ہشیار باش 
زاغ ہے مخدوم اور خادم یہاں شہباز ہے 

مشتاق انجم


 

عزیز احسن

یوم پیدائش 31 اگست 1947

شہرِ طیبہ کا ہے دیوانہ نہ جانے کب سے
دل کہ ڈھونڈے ، وہیں جانے کے بہانے کب سے

کوئی دیدار کی صورت نکل آئے آقاؐ 
موت بھی تاک میں بیٹھی ہے سرہانے کب سے

وہ جو بھولے تھے ترا نقشِ کفِ پا آقاؐ
ہو چکے نقش بہ دیوار نہ جانے کب سے

ہم نے دیکھا ہی نہیں عہدِ درخشاں آقاؐ
ہم تو اِدبار کے سنتے ہیں فسانے کب سے

استغاثہ یہ مری سمت سے اس قوم کا ہے
جس کی مظلومی پہ روتے ہیں زمانے کب سے

اب عزیز احسنِ مضطر کا مُداوا کچھ ہو !
غل مچا رکھا ہے اس نوحہ سرا نے کب سے

عزیز احسن


 

امرتا پریتم

یوم پیدائش 31 اگست 1919
نظم سیاست 

سنا ہے سیاست ایک کلاسک فلم ہے
ہیرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مالک صد صفات
اپنا نام روز بدلتا ہے
ہیروئن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرسی اقتدار
وہی رہتی ہے
ایکٹر۔۔۔ راج سبھا اور لوک سبھا کے ممبران
فنانسر۔۔۔۔۔دیہاڑی کے مزدور کمی کسان
(سرمایا لگاتے ہیں , لگوا دیا جاتا ہے)
پارلیمنٹ ۔۔۔۔۔۔۔انڈور شوٹنگ کا مقابلہ
اخبار ۔۔۔۔آوٹ ڈور شوٹنگ کا زریعہ
یہ فلم میں نے دیکھی نہیں
صرف سنا ہے
کیونکہ سنسر کہنا ہے

بالغوں کے لئے نہیں 

امرتا پریتم


 

شیلندر

یوم پیدائش 30 اگست 1923

کچھ اور زمانہ کہتا ہے کچھ اور ہے ضد میرے دل کی
میں بات زمانہ کی مانوں یا بات سنوں اپنے دل کی

دنیا نے ہمیں بے رحمی سے ٹھکرا جو دیا اچھا ہی کیا
ناداں ہیں سمجھے بیٹھے تھے نبھتی ہے یہاں دل سے دل کی

انصاف محبت سچائی وہ رحم و کرم کے دکھلاوے
کچھ کہتے زباں شرماتی ہے پوچھو نہ جلن میرے دل کی

جو بستی ہے انسانوں کی انسان مگر ڈھونڈھے نہ ملا
پتھر کے بتوں سے کیا کیجے فریاد بھلا ٹوٹے دل کی

شیلندر


 

عین الدین عازم

یوم پیدائش 30 اگست 1963

کیا کروں ظرف شناسائی کو 
میں ترس جاتا ہوں تنہائی کو 

خامشی زور بیاں ہوتی ہے 
راستہ دیجئے گویائی کو 

تیرے جلووں کی فراوانی ہے 
اور کیا چاہئے بینائی کو 

ان کی ہر بات بہت میٹھی ہے 
منہ لگاتے نہیں سچائی کو 

اے سمندر میں قتیل غم ہوں
جانتا ہوں تری گہرائی کو 

بیٹھا رہتا ہوں اکیلا یوں ہی
یاد کر کے تری یکتائی کو

کھینچ لے جاتے ہیں کچھ دیوانے
اپنی جانب ترے سودائی کو

اف تماشہ گہ دنیا عازمؔ
کتنی فرصت ہے تماشائی کو

عین الدین عازم



بشریٰ رحمٰن

یوم پیدائش 29 اگست 1944

تیرے ہاتھوں میں پگھل جانے کو جی چاہتا ہے
آتش ِ شوق میں جل جانے کو جی چاہتا ہے

تجھ سے اک راز کی سر گوشی بھی کرنا چاہوں
پھر وہی راز نگل جانے کو جی چاہتا ہے

دل یہ چاہے کہ تِرے دل میں رہوں دل بن کے
پھر اسی دل سے نکل جانے کو جی چاہتا ہے

وحشت آباد مکانوں میں نہیں جی لگتا
شہر سے دور نکل جانے کو چاہتا ہے

ہم سے یہ رسم کی زنجیر بھی کب ٹوٹ سکی
دل کی ضد پر بھی مچل جانے کو جی چاہتا ہے

بشریٰ رحمٰن


Sunday, August 28, 2022

اختر خیرآبادی

یوم پیدائش 28 اگست 1949

تجھے دیکھنے کی حسرت ، تجھے چاہنے کا ارماں
مری زندگی کا حاصل مری زندگی کا ساماں
ہے بڑا عجیب ارماں، ہے بڑی عجیب حسرت
کہاں اپنی کم نگاہی کہاں دیدِ روئے جاناں

اختر خیرآبادی

 

 

حسیب علی

یوم پیدائش 28 اگست 1992

تری گلیوں سے چل کر جا رہے ہیں
جبھی تو ہم سنبھل کر جا رہے ہیں

"ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے"
ترے دل سے نکل کر جا رہے ہیں

ستاروں سے تو بہتر ہی ہوئے ہم 
تری قسمت بدل کر جا رہے ہیں

خدا روشن رکھے تا عمر اُن کو
جو ہم سے آج جل کر جا رہے ہیں

وہ واپس ہی نہ آ جائیں کسی دن
کہ مشکل سے بہل کر جا رہے ہیں

بہاریں مانگتے ہیں باغ سے پھر
جو کلیوں کو مسل کر جا رہے ہیں

حسیب علی



سالک ادیب بونتی

یوم پیدائش 28 اگست 1994

رستہ سنبھل سنبھل کے چلو تم نشے میں ہو
اور ہوسکے تو چپ بھی رہو تم نشے میں ہو

مل جائے گی کسی نہ کسی کو کوئی دلیل
دانشوروں سے آج بچو تم نشے میں ہو

ممکن ہے کام آئے گا میرا یہ مشورہ
پانی دیے کے پاس رکھوتم نشےمیں ہو

ہر شخص اعتبار کے قابل نہیں یہاں
یوں حال دل نہ سب سےکہوتم نشےمیں ہو

آئے ہیں میکدے میں بہت سے شریف لوگ
بوتل ذرا پکڑ کے رکھو تم نشےمیں ہو

ہونٹوں پہ کوئی نغمہ سجا کر چلو مگر
یوں زور زور سے نہ ہنسوتم نشے میں ہو

ایسا نہ ہو کہ کوئی تماشا بنا ہی دے  
سالک ادیبؔ حد میں رہو تم نشے میں ہو

سالک ادیب بونتی



صفدر آہ

یوم پیدائش 28 اگست 1903
تنہائی

آگاہ ہوا کذبِ دل آرائی سے
ہوش آیا فریب کھا کے رعنائی سے
میں محفل صد رنگ جہاں بھول گیا
جب ربط بڑھا شاہد تنہائی سے

سطحی ہے زمانے کی رفاقت کا مزہ
جھوٹا ہے یہ احباب کی صحبت کا مزہ
جلوے جلوت کے ہیج ہو جاتے ہیں
پاجائے اگر دل کہیں خلوت کا مزہ

اک ساز سکوں ہے لطف پیمائی ہے
عرلت کی بہار مجھکو راس آئی ہے
دنیا کی محفلوں میں تنہا تھا میں
تنہائی میں کیا انجمن آرائی ہے

زیب و زینت ہے حسن و رعنائی ہے
افکار کی تخلیق میں گہرائی ہے
اک بزم خیالات ہے شاعر کے ساتھ
مت سمجھو میرے گرد تنہائی ہے 


صفدر آہ


سعد اللہ شاہ

یوم پیدائش 28 اگست 1958

یہ جمال کیا یہ جلال کیا یہ عروج کیا یہ زوال کیا 
وہ جو پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا اسے موسموں کا ملال کیا 

وہ جو لمحہ لمحہ بکھر گیا وہ جو اپنی حد سے گزر گیا 
اسے فکر شام و سحر ہو کیا اسے رنجش مہ و سال کیا 

وہ جو بے نیاز سا ہو گیا وہ جو ایک راز سا ہو گیا 
جسے کچھ غرض ہی نہیں رہی اسے دست حرف سوال کیا 

ہوا ریزہ ریزہ جو دل ترا اسے جوڑ جوڑ کے مت دکھا 
وہ جو اپنے حسن میں مست ہے اسے آئنے کا خیال کیا 

وہی ہجر رات کی بات ہے وہی چاند تاروں کا ساتھ ہے 
جو فراق سے ہوا آشنا اسے آرزوئے وصال کیا 

کسی اور سے کریں کیوں گلہ ہمیں اپنے آپ سے دکھ ملا 
وہ جو درد دل سے ہو آشنا اسے دنیا بھر کا وبال کیا 

وہی گرد گرد غبار ہے وہی چاروں اور فشار ہے 
وہ جو خود کو بھی نہیں جانتا وہ ہو میرا واقف حال کیا 

اسے سعدؔ کیسا بتائیں ہم اسے کس سے جا کے ملائیں ہم 
وہ تو خود سراپا مثال ہے یہ گلاب کیا یہ غزال کیا 

سعد اللہ شاہ


 

صفدر امام قادری

یوم پیدائش 28 اگست 1965

ہمارے مشترک احساس کا منظر بھلاوا ہے 
یزیدی گردنوں پر خاک اور خنجر بھلاوا ہے 

پرندے گھونسلوں سے دور اب آکاش میں جائیں 
زمیں کی مامتا کیا ہے مقدر گر بھلاوا ہے 

ہم اب کے خشک سالی پر قناعت کر نہیں سکتے 
لہو کی فصل سے دھرتی ہوئی بنجر بھلاوا ہے 

ہماری آنکھ میں ہر روز اک امید لہرائے 
ہماری مٹھیوں میں خواب ہو بہتر بھلاوا ہے 

سڑک کے حادثے میں ہم بھی اک دن ڈھیر ہو جائیں 
یہ غزلیں شعر اور دفتر میاں صفدرؔ بھلاوا ہے 

صفدر امام قادری



امداد حُسينی

یوم وفات 27 اگست 2022
انا اللہ وانا الیہ راجعون

(نظم) کبھی یوں تھا
کبھی یوں تھا ہمارے تھے زمانے
گگن پر چاند سورج اور تارے تھے ہمارے
زمیں پر لہلہاتے کھیت سارے تھے ہمارے
تبسم خیر نظارے تھے اپنے
ترنم ریز جھرنے تھے ہمارے
مچلتی کھلکھلاتی نوجوانی تھی ہماری
ندی میں جو روانی تھی روانی تھی ہماری
دھڑکتی سانس لیتی مسکراتی گیت گاتی
زندگانی تھی ہماری
مگر اب 
کچھ نہیں ایسا
نا ہونا تھا
جسے
سب ہوگیا ویسا

امداد حُسينی



سید خالد معراج

یوم پیدائش 27 اگست 1976

میں موت سے لڑا ہوں، بدن چور چور ہے
آرام سے چلو کہ کفن چور چور ہے

اک قہقہے لگا کہ غم دل کہیں رکے
مدت سے سسکیوں کی چبھن، چور چور ہے

یہ عشق میرے صبر کے ٹکڑوں پہ ہے پلا
اب روح کا سلگتا چمن، چور چور ہے

دل میں اتر رہی ہے یوں معراج کی غزل
اردو زباں سے رنگ سخن ، چور چور ہے

سید خالد معراج



حبیب ہاشمی

یوم وفات 27 اگست 2022
انا اللہ وانا الیہ راجعون 

ایسا کہاں کہ شہر کے منظر بدل گئے 
منظر وہی ہیں صرف ستم گر بدل گئے 
چھوڑو تم انقلاب زمانہ کا تذکرہ 
وہ اور تھے جو حرف مقدر بدل گئے 
حبیب ہاشمی 


کوثر پروین کوثر

یوم پیدائش 27 اگست 1957

تجھ سے ہم عرض کریں اے دلِ شیدا کیا کیا
رنج سہتا ہے تجھے پالنے والا کیا کیا

تجھ کو دیکھا تو کئے میری نظر نے سجدے
یوں تو آنکھوں میں بسے تھے رُخِ زیبا کیاکیا

سرمئی شام سیہ رات گھنیرے بادل
ہم نے پایا ہے تری زلف کا صدقہ کیا کیا

کس کو معلوم تھا آغازِ محبت میں یہ راز
قہر ڈھائے گا محبت کا نتیجہ کیا کیا

کبھی محفل کبھی خلوت کبھی بستی کبھی دشت
خاک چھنواتا ہے وحشت کا تقاضا کیا کیا

کبھی آنکھوں سے لہو ٹپکا کبھی تلوؤں سے
گل کھلاتی رہی پھولوں کی تمنا کیا گیا

پیاس کو تیری سخاوت کا بھرم رکھنا تھا
ورنہ آنکھوں میں چھپے تھے مری دریا کیا کیا

ہوش آیا تو یہ معلوم ہوا اے کوثر
عشق انساں کو بناتا ہے تماشا کیا کیا

کوثر پروین کوثر



سید آصف دسنوی

یوم پیدائش 27 اگست 1966
عجب تضاد ہے سچائیوں سے آگے بھی 
مرا وجود ہے پرچھائیوں سے آگے بھی 

کسی کا حسن فریب‌ نشاط دیتا ہے 
نگار وقت کی انگڑائیوں سے آگے بھی 

چلا ہے تلخ حقائق کا کارواں جیسے 
مرے یقین کی بینائیوں سے آگے بھی 

جہاں وجود بھی خود کو سمیٹ لیتا ہے 
وہ اک مقام ہے تنہائیوں سے آگے بھی 

نہ جانے کیوں مجھے احساس یہ ستاتا ہے 
کہ کوئی اور ہے پرچھائیوں سے آگے بھی 

کوئی سفر میں ہے آصفؔ مرے علاوہ بھی 
مرے وجود کی سچائیوں سے آگے بھی 

سید آصف دسنوی
۔


طالب جوہری

یوم پیدائش 27 اگست 1929

جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا 
کنڈلی مار کے بیٹھا سانپ خزانے کا 

ہم بھی زخم طلب تھے اپنی فطرت میں 
وہ بھی کچھ سچا تھا اپنے نشانے کا 

راہب اپنی ذات میں شہر آباد کریں 
دیر کے باہر پہرہ ہے ویرانے کا 

بات کہی اور کہہ کر خود ہی کاٹ بھی دی 
یہ بھی اک پیرایہ تھا سمجھانے کا 

صبح سویرے شبنم چاٹنے والے پھول 
دیکھ لیا خمیازہ پیاس بجھانے کا 

بنجر مٹی پر بھی برس اے ابر کرم 
خاک کا ہر ذرہ مقروض ہے دانے کا 

طالبؔ اس کو پانا تو دشوار نہ تھا 
اندیشہ تھا خود اپنے کھو جانے کا 

طالب جوہری



اظہر ہاشمی

یوم پیدائش 26 اگست 1990

جفاؤں کی نمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 
ستم گر کی ستائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

مجھے تنہائی پڑھنی ہے مگر خاموش لہجے میں 
یہی محفل کی خواہش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

مرے افکار پہ بولے بڑی تہذیب سے زاہد 
مقدر آزمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

یہ جو بے حال سا منظر یہ جو بیمار سے ہم تم 
سیاست کی نوازش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

ادھر ہے جام ہاتھوں میں لبوں پہ مسکراہٹ ہے 
ادھر جب خوں کی بارش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

ملازم بننا تھا کس کو ملازم بن گیا کوئی 
ہنر زیر سفارش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

زباں آزاد ہے جو بھی وہی تو زندہ ہے لیکن 
زباں پہ کیسی بندش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

عداوت کی یہاں اظہرؔ جو اک چنگاری اٹھی تھی 
وہ بنتی جاتی آتش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں

اظہر ہاشمی


 

کامل اختر

یوم پیدائش 26 اگست 1946

گرچہ میں بن کے ہوا تیز بہت تیز اڑا 
وہ بگولا تھا مگر میرے تعاقب میں رہا 

مجھ سے کتنوں کو اسی دن کی شکایت ہوگی 
ایک میں ہی نہیں جس پر یہ کڑا وقت پڑا 

اور تاریک مری راہ گزر کو کر دے 
تو مگر اپنی تمنا کے ستارے نہ بجھا 

اب تو ہر وقت وہی اتنا رلاتا ہے مجھے 
جس کو جاتے ہوئے میں دیکھ کے رو بھی نہ سکا 

تم سے چاہا تھا بہت ترک تعلق کر لوں 
جانے کیوں مجھ سے مری جاں کبھی ایسا نہ ہوا 

عمر بھر یاد رہا اپنی وفاؤں کی طرح 
ایک وہ عہد جسے آپ نے پورا نہ کیا 

کوئی سورج تو ملے کوئی سہارا تو بنے 
چاند کا ہاتھ مرے ہاتھ سے پھر چھوٹ گیا

کامل اختر


 

شفا گوالیاری

یوم پیدائش 26 اگست 1912

توڑ کر ہم بے خودی کی حد خودی تک آ گئے 
موت سے کرکے بغاوت زندگی تک آ گئے 

اپنی منزل آپ ہی خود آ رہے ہیں اب نظر 
ہو نہ ہو ہم آج اپنی روشنی تک آ گئے 

اے غم عالم تری اس دل نوازی کے نثار 
تیرے نزدیک آ کے جیسے ہر خوشی تک آ گئے 

کیوں فضاؤں میں نظر آتے ہیں جلوؤں کے غبار 
کیا مہ و خورشید گرد آدمی تک آ گئے 

بجھ رہی ہیں جن کی خاطر عشرتیں کونین کی 
ایسے غم بھی کچھ ہماری زندگی تک آ گئے 

اب محبت کا ہر اک رخ آئنہ بن جائے گا 
آج ہم ان کی نگاہ بے رخی تک آ گئے 

فطرتاً اب ہو چلا انسان فطرت آشنا 
خود گماں سارے یقیں کی روشنی تک آ گئے 

شاعری کی راہ میں کرتے ہوئے روشن چراغ 
اے شفاؔ ہم بھی مقام زندگی تک آ گئے

شفا گوالیاری

کون آ گیا یہ حشر کا ساماں لئے ہوئے
دامن میں اپنے میرا گریباں لئے ہوئے

ہر ایک غم ہے عیش کا عنواں لئے ہوئے
شام خزاں ہے صبح بہاراں لئے ہوئے

سجدہ ہے میرا ذوق فراواں لئے ہوئے
اٹھے گا اب تو سر در جاناں لئے ہوئے

بعد رہائی بھی نہ میں زنداں سے جاؤں گا
بیٹھا رہوں گا عزت زنداں لئے ہوئے

اب بھی نہ خندہ لب ہوں مرے زخم ہائے دل
وہ مسکرا رہے ہیں نمکداں لئے ہوئے

اے چارہ ساز بیٹھ یہ چارہ گری بھی دیکھ
اٹھے گا میرا درد ہی درماں لئے ہوئے

رنگینیٔ تبسم پیہم نہ پوچھئے
جیسے وہ آ رہے ہوں گلستاں لئے ہوئے

ایسا بھی کاش آئے محبت میں انقلاب
وہ آئیں میری دید کا ارماں لئے ہوئے

کیسی بہار آئی ہے اب کے بہ رنگ نو
ہر ایک گل ہے خون شہیداں لئے ہوئے

امکان سہو ہم سے بھی ممکن ہے اے شفاؔ
انسانیت کا ہم بھی ہیں امکاں لئے ہوئے

شفا گوالیاری




ساغر صدیقی

فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا
ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے سب اچھا

نہ اعتبارِ محبت، نہ اختیارِ وفا
جُنوں کی تیز روی کہہ رہی ہے سب اچھا

دیارِ ماہ میں تعمیر مَے کدے ہوں گے
کہ دامنوں کی تہی کہہ رہی ہے سب اچھا

قفس میں یوُں بھی تسلّی بہار نے دی ہے
چٹک کے جیسے کلی کہہ رہی ہے سب اچھا

وہ آشنائے حقیقت نہیں تو کیا غم ہے
حدیثِ نامہ بَری کہہ رہی ہے سب اچھا

تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر کاٹنے والو
نئی سحر کی گھڑی کہہ رہی ہے سب اچھا

حیات و موت کی تفریق کیا کریں ساغر
ہماری شانِ خود کہہ رہی ہے سب اچھا

ساغر صدیقی

 


آتش اندوری

یوم پیدائش 08 اگست 1977

کاش میں تجھ سا بے وفا ہوتا 
پھر مجھے تجھ سے کیا گلہ ہوتا 

عشق ہوتا ہے کیا پتا ہوتا 
گر پرندوں سے واسطہ ہوتا

بول کے مجھ سے گر جدا ہوتا 
ملنے جلنے کا سلسلہ ہوتا 

بے وفائی کا سرخ رنگ بھی ہے 
عشق میں ورنہ کیا مزہ ہوتا 

خود پہ گر اختیار ہوتا تو 
دور میں تجھ سے جا چکا ہوتا 

حصے میں آتا صرف امیروں کے 
عشق پیسوں میں گر بکا ہوتا

آتش اندوری



علی ارمان

یوم پیدائش 25 اگست 1973

ترے خیال کا نشہ اترتا جاتا ہے 
ٹھہر ٹھہر کے کوئی پل گزرتا جاتا ہے 

بکھرتی ہے مرے چہرے پہ جتنی پیلاہٹ 
اے زندگی ترا چہرہ نکھرتا جاتا ہے 

زمیں کو بھوک لگی پھر کسی تمدن کی 
یہ کون زینۂ عبرت اترتا جاتا ہے 

بتا رہی ہے تھکن تیرے زرد لہجے کی 
ترے لہو میں کوئی خواب مرتا جاتا ہے 

جسے سجانا تھا ارمان اس کی زلفوں میں 
وہ پھول اس کی طلب میں بکھرتا جاتا ہے

علی ارمان



نینا سحر

یوم پیدائش 25 آگست 1966

کیا کرشمہ تھا خدایا دیر تک 
خود کو کھو کر خود کو پایا دیر تک 

چھو کے لوٹا جب تجھے میرا خیال 
ہوش میں واپس نہ آیا دیر تک 

کل کوئی جھونکا ہوا کا چھو گیا 
اور پھر تو یاد آیا دیر تک 

ہم تری آغوش میں تھے رات بھر 
''ماہ کامل مسکرایا دیر تک'' 

کل ترے احساس کی بارش تلے 
میرا سونا پن نہایا دیر تک 

سن کے بھیگی رات کی سرگوشیاں 
اک کنوارا پن لجایا دیر تک

نینا سحر



شبیر احمد قرار

یوم پیدائش 25 اگست 1941

سب سے ہنس کر ہاتھ ملانا سیکھ لیا 
جینا کیا سیکھا مر جانا سیکھ لیا 

دیواروں پر بستی کی اوقات کھلی 
بچوں نے تصویر بنانا سیکھ لیا 

کالی پیلی تفسیروں کی زد پر ہوں 
خاموشی نے شور مچانا سیکھ لیا 

سورج طعنے مارے چندا شرمائے 
راتوں نے کاجل پھیلانا سیکھ لیا 

آہ سفر دم ماں کے آنسو کل کی بات 
اب تو گھر نے ہاتھ ملانا سیکھ لیا 

جانے بوجھے لوگ بھی کل کو روتے ہیں 
وقت نے شاید لوٹ کے آنا سیکھ لیا 

لکڑی کی تلوار کہاں میدان کہاں 
شہزادے نے جان چرانا سیکھ لیا 

شبیر احمد قرار



کالی داس گپتا رضا

یوم پیدائش 25 اگست 1925

جب فکروں پر بادل سے منڈلاتے ہوں گے 
انساں گھٹ کر سائے سے رہ جاتے ہوں گے 

دو دن کو گلشن پہ بہار آنے کو ہوگی 
پنچھی دل میں راگ سدا کے گاتے ہوں گے 

دنیا تو سیدھی ہے لیکن دنیا والے 
جھوٹی سچی کہہ کے اسے بہکاتے ہوں گے 

یاد آ جاتا ہوگا کوئی جب راہی کو 
چلتے چلتے پاؤں وہیں رک جاتے ہوں گے 

کلی کلی برہن کی چتا بن جاتی ہوگی 
کالے بادل گھر کر آگ لگاتے ہوں گے 

دکھ میں کیا کرتے ہوں گے دولت کے پجاری 
روپ کھلونا توڑ کے من بہلاتے ہوں گے

کالی داس گپتا رضا
 


غنی حیدر گنجوی

یوم پیدائش 24 اگست 1924

ہیں کفر کے فتوے تو اوروں کے لیے لیکن
میزانِ شریعت پہ کیا خود کو بھی تولا ہے

غنی حیدر گنجوی



Wednesday, August 24, 2022

مجیب ظفر انوار حمیدی

یوم پیدائش 24 اگست 1960

حق میری محبت کا ادا کیوں نہیں کرتے
تم درد تو دیتے ہو دوا کیوں نہیں کرتے

کیوں بیٹھے ہو خاموش سرہانے میرے آ کر
یارو مرے جینے کی دعا کیوں نہیں کرتے

پھولوں کی طرح جسم ہے پتھر کی طرح دل
جانے یہ حسیں لوگ وفا کیوں نہیں کرتے

ہر بات پرندوں کی طرح اڑتی ہوئی سی
جو بات بھی کرتے ہو سدا کیوں نہیں کرتے

لو دیکھو حمیدیؔ لب دریا پہ ہے دریا
پر پیاس ہے کب کی یہ پتا کیوں نہیں کرتے

مجیب ظفر انوار حمیدی


 

اشوک ساحل

یوم وفات 24 آگست 2020

اب اس سے پہلے کہ دنیا سے میں گزر جاؤں 
میں چاہتا ہوں کوئی نیک کام کر جاؤں 

خدا کرے مرے کردار کو نظر نہ لگے 
کسی سزا سے نہیں میں خطا سے ڈر جاؤں 

ضرورتیں میری غیرت پہ طنز کرتی ہیں 
مرے ضمیر تجھے مار دوں کہ مر جاؤں 

بہت غرور ہے بچوں کو میری ہمت پر 
میں سر جھکائے ہوئے کیسے آج گھر جاؤں 

مرے عزیز جہاں مجھ سے مل نہ سکتے ہوں 
تو کیوں نہ ایسی بلندی سے خود اتر جاؤں

اشوک ساحل

شاہد نور

یوم پیدائش 24 اگست 1980

مجھے آنکھوں نے جل تھل کردیا ہے
مری مٹی کو دلدل کردیا ہے

مرے خوابوں کو آنکھوں میں سجاکر
کسی لڑکی نے کاجل کردیا ہے

میں اپنی ذات میں اک گلستاں تھا
تری فرقت نے جنگل کردیا ہے

کئی دریائوں نے آپس میں مل کر
سمندر کو مکمل کردیا ہے

مری بچی کی ننھی سے ہنسی نے
مرے آنسو کو صندل کردیا ہے

وہ جب گمنام تھا اچھا بھلا تھا
اُسے شہرت نے پاگل کردیا ہے

فرائض کے تقاضوں نے ہی شاہد
مرے چھالوں کو مخمل کردیا ہے

شاہد نور



حیرت بدایونی

یوم پیدائش 24 اگست 1896

اگر ساقی تسلی بخش سمجھوتا نہیں ہوتا
تو پھر تشنہ لبوں کا جوش بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا

جو خود مختارِ گلشن ہیں وہاں ایسا نہیں ہوتا
عَناِدل کی فغاں و آہ پر پہرا نہیں ہوتا

وفورِ عیش سے ہر چند مالا مال ہے لیکن
شعورِ عاشقی انسان میں پیدانہیں ہوتا

وفاداری کے دستورالعمل ہی کو بدل ڈالے
محبت میں کسی کم بخت سے اتنا نہیں ہوتا

جب آتا ہے تو پھر طوفان پر طوفان آتا ہے
نہیں ہوتا تو برسوں فتنہ بھی برپا نہیں ہوتا

غمِ دل سے گراں تر ہے غم ِدنیا ومافیہا
یہ غم پیدا کیا جاتا ہے خود پیدا نہیں ہوتا

تمہیں انصاف سے کہہ دو مسیحا ہو کہ قاتل ہو
کہ ہر بیمار ۔ مر جاتا تو ہے اچھا نہیں ہوتا

غموں کی کوئی حد بھی ہے کہاں تک سختیاں جھیلے
کسی کا دل ہو ۔ دل ہوتا ہے ، پتھر کا نہیں ہوتا

یہاں تفریقی شیخ و برہمن اچھی نہیں ساقی
یہاں کوئی کسی کے خون کا پیاسا نہیں ہوتا

وہ بھی اک پردہ تھاحیرت جسے تم جلوہ سمجھے ہو
جو آنکھوں کو نظر آجائے وہ جلوا نہیں ہوتا

حیرت بدایونی



جیلانی کامران

یوم پیدائش 24 اگست 1926
نظم قسمت کا پڑھنے وال

میرے ہاتھ پہ لکھا کیا ہے 
عمر کے اوپر برق کا گہرا سایہ کیا ہے 
کون خفا ہے 
راہ کا بوڑھا پیڑ جھکا ہے چڑیاں ہیں چپ چاپ 
آتی جاتی رت کے بدلے گرد کی گہری چھاپ 
گرد کے پیچھے آنے والے دور کی دھیمی تھاپ 
رستہ کیا ہے منزل کیا ہے 
میرے ساتھ سفر پر آتے جاتے لوگو محشر کیا ہے 
ماضی حال کا بدلا بدلا منظر کیا ہے 
میں اور تو کیا چیز ہیں تنکے پتے ایک نشان 
عکس کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ظاہر میں انسان 
کب کے ڈھونڈ رہے ہیں ہم سب اپنا نخلستان 
ناقہ کیا ہے محمل کیا ہے 
شہر سے آتے جاتے لوگو دیکھو راہ سے کون گیا ہے 
جلتے کاغذ کی خوشبو میں غرق فضا ہے 
چاروں سمت سے لوگ بڑھے ہیں اونچے شہر کے پاس 
آج اندھیری رات میں اپنا کون ہے راہ شناس 
خواب کی ہر تعبیر میں گم ہے اچھی شے کی آس 
دن کیا شے ہے سایہ کیا ہے
گھٹتے بڑھتے چاند کے اندر دنیا کیا ہے 
فرش پہ گر کر دل کا شیشہ ٹوٹ گیا ہے 

جیلانی کامران

 

سعید الزماں عباسی

یوم پیدائش 23 اگست 1923

یہاں درخت تھے سایہ تھا کچھ دنوں پہلے 
عجیب خواب سا دیکھا تھا کچھ دنوں پہلے 

یہ کیا ہوا کہ اب اپنا بھی اعتبار نہیں 
ہمیں تو سب کا بھروسا تھا کچھ دنوں پہلے 

ہمارے خون رگ جاں کی لالہ کاری سے 
جو آج باغ ہے صحرا تھا کچھ دنوں پہلے 

اسی افق سے نیا آفتاب ابھرے گا 
جہاں چراغ جلایا تھا کچھ دنوں پہلے 

ابھی قریب سے گزرا ہے اجنبی کی طرح 
وہ ایک شخص جو اپنا تھا کچھ دنوں پہلے 

جنہیں دریدہ دہن کہہ کے ہونٹ سیتے ہو 
انہیں سخن کا سلیقہ تھا کچھ دنوں پہلے

سعید الزماں عباسی



اکرام کاوش

یوم وفات 23 اگست 2020
نظم قحط پڑا ہے انسان کا 

صدیاں صدیاں بہت گئیں تو بھید کھلا
قحط پڑا ہے انسان کا 
ریت رواج کہاں تک یکساں چلتے
وہ تو بدلتے رہتے ہیں
ان کو گلے کا ہار بنانا ٹھیک نہیں
لحن سحر آگیں میں جب تک گیت سنانے والوں نے
رس گھولا تھا کانوں میں
تب تک روح بھی بالیدہ تھی
دل بھی تھا مسرور بہت
اب یہ حال چوراہے پر شور ہے غل غپاڑہ ہے
آدمیوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے
پھر بھی مجھے لگتا ہے 
قحط پڑا ہے انسان کا 

اکرام کاوش


عزیز بانو داراب وفا

یوم پیدائش 23 اگست 1926

پھونک دیں گے مرے اندر کے اجالے مجھ کو
کاش دشمن مرا قندیل بنا لے مجھ کو

ایک سایہ ہوں میں حالات کی دیوار میں قید
کوئی سورج کی کرن آ کے نکالے مجھ کو

اپنی ہستی کا کچھ احساس تو ہو جائے مجھے
اور نہیں کچھ تو کوئی مار ہی ڈالے مجھ کو

میں سمندر ہوں کہیں ڈوب نہ جاؤں خود میں
اب کوئی موج کنارے پہ اچھالے مجھ کو

تشنگی میری مسلم ہے مگر جانے کیوں
لوگ دے دیتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیالے مجھ کو

عزیز بانو داراب وفا

زاہد امر

یوم پیدائش 22 اگست 1960

اک بار تو ہو جلوۂ طور آشنا نظر
کعبے کی پھر نہ چاہے زیارت ہو بعد میں

زاہد امر



محمد وسیم مخلص

یوم پیدائش 22 اگست 1989

فنا کے بعد میری باقیاتِ جاں ڈھونڈیں
پسِ حیات مجھے اہلِ دوجہاں ڈھونڈیں

بھلا دیا ہو خود اپنی ضرورتوں نے جنھیں
تو اے امید! بتا وہ تجھے کہاں ڈھونڈیں

کہاں وہ لوگ جو اب داد دیں شجاعت کی
کہ چڑھ کے دار پہ اک اور امتحاں ڈھونڈیں

الٰہی خیر تیرے ناشناس بندوں کی
ترے حضور پہنچ کر بھی یہ اماں ڈھونڈیں

نظر نے حشر سی وہ بے قراریاں دیکھیں
مکیں زمین کے سارے ہی آسماں ڈھونڈیں

دلوں کا زہر فضاؤں میں گھل گیا مخلصؔ
چلو! کہ چل کے خیابانِ لامکاں ڈھونڈیں

محمد وسیم مخلص
 


Tuesday, August 23, 2022

کویتا کرن

یوم پیدائش 21 اگست 1963

آتے جاتے لوگ ہمیں کیوں دوست پرانے لگتے ہیں 
چاہت کی اس حد پر یارب ہم تو دوانے لگتے ہیں 

پھر سے بہاریں لے کر آئی مہکی ہوئی سی یادوں کو 
آ بھی جاؤ اب ملنے کے اچھے بہانے لگتے ہیں 

دل کرتا ہے پھر سے دیکھوں کھوئے ہوئے اس منظر کو 
پیاسی آنکھوں کو وہ نظارے کتنے سہانے لگتے ہیں 

خوشبو وہی ہے رنگ وہی ہے آج وفا کے پھولوں کا 
آپ کیا آئے پھر سے چمن میں دن وہ پرانے لگتے ہیں 

ٹوٹی ہوئی سی ایک کرنؔ ہے کافی اندھیرے والوں کو 
گھر میں اجالا ڈھونڈھنے والے گھر کو سجانے لگتے ہیں

کویتا کرن



سرفراز زاہِد

یوم پیدائش 21 اگست 1987
نَعتِ رَسُولِ صلی اللہ علیہ وسلم

فریاد رَس ہُوں نَعتیہ اَشعار کے لئے
سِیرت پڑھوں میں آپ کے اَفکار کے لئے

دِل مُضطرب ہے روزِ اَزل سے مِرا حُضُور
جَنَّت مِثال کُوچہ و بازار کے لئے

قَلب و نَظر کا نُور ہے طیبہ کی خاکِ پاک
ذَرّے ہیں اِس کے دِیدہ ء بیدار کے لئے

دِل میرا صِدقِ عِشقِ مُحمّد کا ہے گواہ
میری زُباں ہے آپ کے اِقرار کے لئے

سب کُچھ ہے اُن کے واسِطے پیدا کیا گیا
ُ ُ ُ سب کُچھ ہے دو جہان کے سردار کے لئے ٗ ٗ

عِشقِ رَسُولِ پاک کا بازار سج گیا
کیا کُچھ یہاں نہیں ہے خرِیدار کے لئے 

زاہِد نَبی کی نَعت نگاری کے واسِطے
قُرآن پاک دیکھ لو مَعیار کے لئے

سرفراز زاہِد



ظہیر کاشمیری

یوم پیدائش 21 اگست 1919

لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا 
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا 

بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخ رو ہوئے 
اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا 

ہوتی نہ ہم کو سایۂ دیوار کی تلاش 
لیکن محیط زیست بہت تنگ رہ گیا 

سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط 
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا 

اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے 
جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا 

کتنے ہی انقلاب شکن در شکن ملے 
آج اپنی شکل دیکھ کے میں دنگ رہ گیا 

تخیل کی حدوں کا تعین نہ ہو سکا 
لیکن محیط زیست بہت تنگ رہ گیا 

کل کائنات‌ فکر سے آزاد ہو گئی 
انساں مثال‌ دست تہ سنگ رہ گیا 

ہم ان کی بزم ناز میں یوں چپ ہوئے ظہیرؔ 
جس طرح گھٹ کے ساز میں آہنگ رہ گیا

ظہیر کاشمیری



معین احسن جذبی

یوم پیدائش 21 اگست 1912

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے 
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے 

جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی 
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے 

وعدے کی وفا تم سے نہ ہوئی گو جان پہ میرے بن ہی گئی
گر جھوٹا ہوں جھوٹا ہی سہیاب تم کو جھوٹا کون کرے

ہاں وادیءایمن بھی ہے وہی ہاں برق کا مسکن بھی ہے وہی
اور خوش کا خرمن بھی ہے وہی ،پر ان سے تقاضا کون کرے

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے 
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے 

دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو 
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

معین احسن جذبی



عبداللہ ندیم

یوم پیدائش 20 اگست 1969

چراغ جل بھی رہا ہے ہوا کا ڈر بھی ہے
مری دعاؤں پہ لیکن تری نظر بھی ہے

گھروں کو پھونکنے والے ذرا یہ دیکھ بھی لے
اسی گلی میں سنا ہے کہ تیرا گھر بھی ہے

میں گھر سے نکلوں تو بے خوف ہو نکلتا ہوں
کہ میری ماں کی دعا میری ہم سفر بھی ہے

ابھی سے فتنۂ دنیا سے ڈر گئے یارو
ابھی تو فتنۂ افلاک کی خبر بھی ہے

اسی کے پیار سے روشن ہے زندگی میری
اسی کے پیار سے لیکن بہت سا ڈر بھی ہے

ندیمؔ آس میں بیٹھے کہ پھر سے جی اٹھیں
کہ اس کے ہاتھ میں سنتے ہیں یہ ہنر بھی ہے

عبداللہ ندیم



فراز پیپل سانوی

یوم پیدائش 20 اگست 1975

کس درجہ انتشار ہمارے وطن میں ہے
ہر پھول اشک بار ہمارے وطن میں ہے

کیسی خزاں کی مار ہمارے وطن میں ہے
سہمی ہوئی بہار ہمارے وطن میں ہے

جتنا بھی چاہو لوٹ لو سرکاری مال ہے
لوگوں کا یہ وچار ہمارے وطن میں ہے

کر کے مدد غریب کی لیتا ہے سیلفی
ہر شخص غم گسار ہمارے وطن میں ہے

ہر سو تنا تنی ہے مذاہب کے نام پر
ماحول خوش گوار ہمارے وطن میں ہے

سلفا، شراب ، گانجا ، چرس اور افیم بھی
ہر چیز بے شمار ہمارے وطن میں ہے

اک بار چڑھ کے سر سے اترتا نہیں کبھی
سٹّے کا وہ خمار ہمارے وطن میں ہے

کچرے سے بھی نصیب ہیں لاکھوں کو روٹیاں
ہر سِمت روزگار ہمارے وطن میں ہے

سر پر ہو کوئی بھوت یا سایہ ہو جنّ کا
ہر چیز کا اتار ہمارے وطن میں ہے

کچھ ہو نہ ہو یہاں پہ مگر یار یہ تو ہے
نیتاؤں پر نکھار ہمارے وطن میں ہے

مشہور ہے جگاڑ یہاں کا جہان میں
ہر شخص ہوشیار ہمارے وطن میں ہے

چیونٹی بھی جنکی پھونک سےنہ اڑسکی کبھی
ان کا بھی اب مزار ہمارے وطن میں ہے

چھوتے ہیں پاؤں گولی چلانے سے پیشتر
کچھ ایسا ششٹاچار ہمارے وطن میں ہے

جو جھوٹ بولتا ہے ہر اک بات پر سدا
اس پر بھی اعتبار ہمارے وطن میں ہے

مِل جُل کے لوگ رہتے ہیں ایسے میں بھی فراز
آپس میں کتنا پیار ہمارے وطن میں ہے

فراز پیپل سانوی

 


عابد رشید

یوم پیدائش 20 اگست 

جہاں میں کھیل ہے جتنا سب اعتماد کاہے
یہ تیرا میرا تقابل تو اُس کے بعد کا ہے

بھُلا نہ پاتے جو کل کیسے دیکھتے کل کو
یہ وقت کا نہیں سارا کمال یاد کا ہے

زمین سے بھی میں اِک دن نکالا جاؤں گا
مری زُباں کو جو چسکا نئے سواد کا ہے
تھمے جو داد کے جھکڑ تو ہم نے یہ جانا
سفیدا بالوں میں جتنا ہے گرد باد کا ہے

یہ دل میں آرزو یونہی جنم نہیں لیتی
قصور سارا تمہارے وعیدووعد کا ہے

جو تُو نہ ہو تو یونہی ڈولتا سا رہتا ہوں
‏‎ہمارا رشتہ عجب بادبان و باد کا ہے
نہ جاگتے ہیں نہ سوتے ہیں میرے شہر کے لوگ
ہمیشہ دھڑکا سا دل میں نئے فساد کا ہے

میں بیج خوابوں کے بوؤں نہ کیوں وہاں عابد
وطن سے رشتہ ہی کچھ ایسا اعتماد کا ہے

عابد رشید


 

سید پاشاہ رہبر

یوم پیدائش 20 اگست 1964

عشق ناچار اور ہے مجبور 
اس لئے حسن ہو گیا مغرور 

رہ نہیں سکتا آپ سے میں دور 
مجھ کو بانہوں میں تم کرو محصور 

جانے کس بات کا نشہ ہے انہیں
اپنی دھن میں ہی رہتے ہیں مخمور 

تیری قربت کا ہی اثر ہے یہ
میرے رخ پر جو آ گیا ہے نور 

اس کی نظروں میں سب برابر ہیں 
کوئی مالک نہ کوئی ہے مزدور 

بخش دیں یا کہ عمر قید ملے
فیصلہ جو بھی ہو ہمیں منظور 

سب کو آزادی ہے برابر کی
کہہ رہا ہے یہ ہند کا دستور 

دن تمام اپنا خوں بہاتا ہے
دو نوالوں کے واسطے مزدور 

کیا کرشمہ ہے آج میڈیا کا
پل میں گمنام بھی ہوئے مشہور 

جان لیوا وہ درد دیتا ہے
زخم جب جب بھی بن گیا ناسور 

کیوں بچھڑ نے کے بعد بھی 'رہبر
غمزدہ ہم ہیں اور وہ مسرور 

سید پاشاہ رہبر


 

احمد صغیر صدیقی

یوم پیدائش 20 اگست 1938

اک خواب ہے یہ پیاس بھی دریا بھی خواب ہے 
ہے خواب تو بھی تیری تمنا بھی خواب ہے 

یہ التزام دیدۂ خوش خواب بھی ہے خواب 
رنگ بہار قامت زیبا بھی خواب ہے 

وہ منزلیں بھی خواب ہیں آنکھیں ہیں جن سے چور 
ہاں یہ سفر بھی خواب ہے رستہ بھی خواب ہے 

یہ رفعتیں بھی خواب ہیں یہ آسماں بھی خواب 
پرواز بھی ہے خواب پرندہ بھی خواب ہے 

ہیں اپنی وحشتیں بھی بس اک خواب کا طلسم 
یارو فسون وسعت صحرا بھی خواب ہے

احمد صغیر صدیقی



تابش صمدانی

یوم پیدائش 20 آگسٹ 1941

ہر اک جانب ہے جلوہ روشنی کا
وہ گہوارہ ہے طیبہ کی روشنی کا

فروغِ ذاتِ والا اللہ اللہ
دو عالم میں ہے چرچا روشنی کا

مرے مولا کا سایہ ڈھونڈتے ہو
کہیں ہوتا ہے سایہ روشنی کا

یہ اعجازِ نگاہِ لطفِ مولا
مرا دل ہے مدینہ روشنی کا

گزر ہو کیا اندھیروں کا وہاں پر
جہاں رہتا ہے پہرا روشنی کا

ظہورِ سیدِ والا سے پہلے
تصور ہی کہاں تھا روشنی کا

شہِ والا کا ہر نقش کفِ پا
زمیں پہ ہے ستارہ روشنی کا

نظر ہے آپ کی جس دل پہ تابش
وہ ہے آئینہ گویا روشنی کا

تابش صمدانی



کامران احمد

یوم وفات 19 اگست 2015

نظر تک آیا ہے پہچان تک نہیں آیا 
یہ واہمہ ابھی امکان تک نہیں آیا 

جراحت غم دوراں کی ابتدا کہیے 
دل جہاں زدہ پیکان تک نہیں آیا 

وہ اور بات کہ جاں کی امان مانگی تھی 
میں اس کی بیعت و پیمان تک نہیں آیا 

بس اس کے لمس کا الہام ہی اترتا ہے 
وہ میرے مصحف وجدان تک نہیں آیا 

یہ زندگی تو نفی میں گزار دی میں نے 
پر اس کے حلقۂ میزان تک نہیں آیا 

کتاب حسن کی تعبیر خیر کیا کرتا 
ندیمؔ آئنہ عنوان تک نہیں آیا

کامران احمد


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...