Urdu Deccan

Friday, February 26, 2021

صفی ہمدانی

 یوم پیدائش 26 فروری 1974

نعت


رحمانﷻ کی رحمت کا منارہ ہے محمدﷺ

ہم خاک نشینوں کا سہارہ ہے محمدﷺ


یہ فخر بہت ہم کو محمدﷺ کے ہیں ہم لوگ

یہ ناز بڑا ہے کہ ہمارا ہے محمدﷺ


ہاشم کا مقدر تو زمانے سے فزوں ہے

ہاشم کے مقدر کا ستارہ ہے محمدﷺ


صد شکر خدا پاک کرم تیرا ہے مجھ کو

ماں ، باپ سے اولاد سے پیارا ہے محمدﷺ


ہم لوگ تلاطم میں گھرے لوگ ہیں سارے

دنیا یہ سمندر ہے کنارہ ہے محمدﷺ


اس ، اس کا خدا پاک مدد گار ہوا ہے

جس جس نے صفی دل سے پکاراہے محمدﷺ


صفی ہمدانی


عبد الرحیم نشتر

 یوم پیدائش 26 فروری 1947 


اگر ہو خوف زدہ طاقت بیاں کیسی

نوائے حق نہ سنائے تو پھر زیاں کیسی


اٹھاؤ حرف صداقت لہو کو گرم کرو

جو تیر پھینک نہیں سکتی وہ کماں کیسی


انہیں یہ فکر کہ میری صدا کو قید کریں

مجھے یہ رنج کہ اتنی خموشیاں کیسی


ہوا کے رخ پہ لیے بیٹھا ہوں چراغ اپنا

مرے خدا نے مجھے بخش دی اماں کیسی


ہوا چلے تو اسے کون روک سکتا ہے

اٹھا رکھی ہے یہ دیوار درمیاں کیسی


اگر یہ موسم گل ہے تو زرد رو کیوں ہے

دل و نظر پہ یہ کیفیت خزاں کیسی


نہ تار تار قبا ہے نہ داغ داغ بدن

مجاہدوں کے سروں سے گئی اذاں کیسی


عبد الرحیم نشتر


ذی شان

 یوم پیدائش 25 فروری


کنارِ آب رواں کھوئی کشتیوں سے اُدھر 

میں جی رہا ہوں سرابوں کی سرحدوں سے اُدھر 


بسی تھی اس کی نگاہوں میں ایسی خاموشی 

میں چونک چونک پڑا دل کی دھڑکنوں سے اُدھر 


یہ کس صدا کے تعاقب میں چل پڑے ہم لوگ 

افق سے دور کہیں نیلے پانیوں سے اُدھر 


تھے بند شہر کے خستہ مکاں زمانوں سے 

سو جھانکتے ہی نہیں لوگ کھڑکیوں سے اُدھر


ہے اک پری کے تصرف میں ان دنوں ذی شان

وہ جھیل دیکھتے ہو سبز ٹہنیوں سے اُدھر 


ذی شان


Thursday, February 25, 2021

وشمہ خان وشمہ

 


یوم پیدائش 25 فروری

ترے خیال میں  کچا  سہی  مکان مرا
مری زمین پہ رہتا ہے آسمان مرا

مری حیات پہ گزرے گا سانحہ بن کر
مرے رقیب کے پاؤں میں راز دان مرا

خیالِ خام میں زندہ تو رہ لوں میں  لیکن
گمانِ عشق میں  بٹتا نہیں گمان مرا

ہر ایک سمت ہی  بنتی رہی تری تصویر
ترے   خیال  میں  وشمہ  رہا ہے دھیان مرا

وشمہ خان وشمہ

#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شعراء #birthday  #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #poetry #rekhta #شاعر #غزل #gazal

Wednesday, February 24, 2021

دائم بٹ

 سنو پرکھوں کی عزت کو تماشا مت بنا دینا

محبت ھو بھی جائے تو کہیں دل میں چھپا دینا


ذرا اچھی نہیں لگتیں تری اشکوں بھری آنکھیں

بچھڑ کر یاد جو آئیں کبھی تو مسکرا دینا


فنا ھو جائے جل جل کر اندھیروں کی تمنا میں

ھوا کی راہ میں اتنے چراغوں کو جلا دینا


ابھی فرصت کہاں اتنی کہ کار-دوجہاں دیکھیں.

ابھی تو مشغلہ اپنا تجھے ھر پل صدا دینا


نقاہت سات جنموں کی مری سانسوں میں در آئے

مجھے میری ہی چاہت میں کچھ اس صورت تھکا دینا


مجھے ماں نے سکھایا ھے محبت بانٹتے جانا

مری فطرت نہیں دائم حقارت کو ھوا دینا

 

 دائم بٹ


سر فراز ابد

 یوم پیدائش 25 فروری 1952


آنکھوں میں اگر آپ کی صورت نہیں ہوتی

اس دل میں محبت کسی صورت نہیں ہوتی


جب تک پس پردہ وہ چھپے بیٹھے رہیں گے

کچھ بھی یہاں ہو جائے قیامت نہیں ہوتی


دیکھے جو تجھے لوگ تو سمجھے مرے اشعار

لفظوں سے تو شعروں کی وضاحت نہیں ہوتی


کیا اور کوئی کام کرے چھوڑیئے صاحب

بیکاری سے دنیا میں فراغت نہیں ہوتی


شہروں کے تصور سے بھی گھبرانے لگا دل

صحرا میں چلے جاؤ تو وحشت نہیں ہوتی


اس عمر میں بڑھ جاتے ہیں محنت کے تقاضے

جس عمر میں انسان سے محنت نہیں ہوتی


ہوتی تھی ہر ایک بات پہ حیرت مجھے پہلے

اب مجھ کو کسی بات پہ حیرت نہیں ہوتی


برباد ابدؔ ہم کو مروت نے کیا ہے

سب ہوتا جو آنکھوں میں مروت نہیں ہوتی


سرفراز ابد


اسعد بدایونی

 یوم پیدائش 25 فروری 1952


بچھڑ کے تجھ سے کسی دوسرے پہ مرنا ہے

یہ تجربہ بھی اسی زندگی میں کرنا ہے


ہوا درختوں سے کہتی ہے دکھ کے لہجے میں

ابھی مجھے کئی صحراؤں سے گزرنا ہے


میں منظروں کے گھنے پن سے خوف کھاتا ہوں

فنا کو دست محبت یہاں بھی دھرنا ہے


تلاش رزق میں دریا کے پنچھیوں کی طرح

تمام عمر مجھے ڈوبنا ابھرنا ہے


اداسیوں کے خد و خال سے جو واقف ہو

اک ایسے شخص کو اکثر تلاش کرنا ہے


اسعد بدایونی


نقش لائل پوری

 یوم پیدائش 24 فروری 1928


کوئی جھنکار ہے نغمہ ہے صدا ہے کیا ہے

تو کرن ہے کے کلی ہے کے صبا ہے کیا ہے


تیری آنکھوں میں کئی رنگ جھلکتے دیکھے

سادگی ہے کہ جھجھک ہے کہ حیا ہے کیا ہے


روح کی پیاس بجھا دی ہے تری قربت نے

تو کوئی جھیل ہے جھرنا ہے گھٹا ہے کیا ہے


نام ہونٹوں پہ ترا آئے تو راحت سی ملے

تو تسلی ہے دلاسہ ہے دعا ہے کیا ہے


ہوش میں لا کے مرے ہوش اڑانے والے

یہ ترا ناز ہے شوخی ہے ادا ہے کیا ہے


دل خطا‌ وار نظر پارسا تصویر انا

وہ بشر ہے کہ فرشتہ ہے کہ خدا ہے کیا ہے


بن گئی نقش جو سرخی ترے افسانے کی

وہ شفق ہے کہ دھنک ہے کہ حنا ہے کیا ہے


نقش لائل پوری


محمود کیفی

 یوم پیدائش 23 فروری1986

" نعت "


آپؐ کا نام ہے ظُلمٙت کو مِٹانے والا

دِل میں چاہٙت کے چٙراغوں کو جٙلانے والا


آپؐ کیا آئے ، غریبوں کا مٙسِیحا آیا 

کون مُفلِس کو تھا سِینے سے لگانے والا ؟


زِندہ دٙرگور کِیا کرتے تھے دُنیا والے 

بیٹیوں کو تھا کہاں کوئی بچانے والا ؟


جان اٙپنی غٙمِ دٙورٙاں سے چُھڑا لیتا ہے 

آپؐ کے ذِکر کی مٙحفِل کو سٙجانے والا


آپؐ کے حُسن کا کرتا ہے نٙظارٙہ پٙیہٙم 

آپؐ سے رِشتٙہءِ اُلفٙت کو نِبھانے والا


آپؐ ہی کے یہ نٙواسے کی تھی جُراٙت ، وٙرنہ

کون مٙقتٙل میں تھا سٙر اٙپنا کٙٹانے والا ؟ 


پیارے آقاؐ پہ ہُوئی خٙتم نٙبوّٙت کٙیفی !

اٙب نٙبیؑ دُنیا میں کوئی نہیں آنے والا 


محمود کیفی


اطہر نفیس

 یوم پیدائش 22 فروری 1933


ہم بھی بدل گئے تری طرز ادا کے ساتھ ساتھ

رنگ حنا کے ساتھ ساتھ شوخئ پا کے ساتھ ساتھ


نکہت زلف لے اڑی مثل خیال چل پڑی

چلتا ہے کون دیکھیے آج حنا کے ساتھ ساتھ


اتنی جفا طرازیاں اتنی ستم شعاریاں

تم بھی چلے ہو کچھ قدم اہل وفا کے ساتھ ساتھ


وحشت درد ہجر نے ہم کو جگا جگا دیا

نیند کبھی جو آ گئی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ساتھ


ہوش اڑا اڑا دیئے راہ کے اضطراب نے

نکہت گل چلی تو تھی باد صبا کے ساتھ ساتھ


اطہر نفیس


سبیلہ انعام صدیقی

 یوم پیدائش 22 فروری


الجھ رہی ہوں ذہن میں اٹھے ہوئے خیال سے

سوال سے ، جواب سے ، ہر اک نئے خیال سے


کھرچ رہی ہوں رات دن نشان تیری یاد کے

میں لڑ رہی آج کل فقط ترے خیال سے


جواں ہوئی ہے فکر سے ہی روشنی حیات میں

جڑے ہیں پھر سے ذہن و دل کے سلسلے خیال سے


گلاب سارے کھل اٹھے ہیں رہ گذر میں خواب کے

حسیں ترین ہو گئے ہیں رابطے خیال سے


دلوں سے دل کے تال جب ملیں تو رکھنا پیار سے

عطا یہ رب کی خاص ہے سنبھال کے خیال سے


یہ شاخ دل ہری ہوئی کلی کلی مری کھلی

عجب سرور چھا گیا ، ہرے بھرے خیال سے


دل و نظر ملا کے جب چلیں گے ساتھ ساتھ ہم 

کٹے گی پھر تو زندگی ملے جلے خیال سے


امید کا چراغ پھر ہوا کی زد پہ آگیا

ہوئی ہے پہروں گفتگو کسی بجھے خیال سے


سبیلہ ! گام گام ہیں خوشی غمی کے فیصلے 

کیے ہیں دل نے صد ہزار مشورے خیال سے 


سبیلہ انعام صدیقی


Sunday, February 21, 2021

جاوید احمد خان جاوید

 مچاؤں شور زمانے کی یوں نظر میں رہوں 

وگرنہ سسکیاں بھرتے ہُوئے میں گھر میں رہوں 


کبھی خیال میں تیرے کبھی نظر میں رہوں 

کسی بھی شعر کی صورت ترے ہُنر میں رہوں 


لبوں پہ اُس کے ہمیشہ رہوں بنامِ غزل 

دُعائے خیر بنوں حرفِ معتبر میں رہوں


کبھی تو راہ دکھاؤں ستارہ بن کے تُجھے 

کبھی تری ہی قیادت میں میں سفر میں رہوں 


نئی صدی کی نئی نسل جانتی ہی نہیں 

صدائے حق میں رہوں تو سدا اثر میں رہوں 


یہ حوصلہ بھی شب و روز مُجھ کو اُس نے دیا 

فلک کو چُھونے پرندوں کے بال و پر میں رہوں 


گرفت حرف کی جاوید لازمی ہے سمجھ 

کسی کو زیر کروں کس کے میں  زبر میں رہوں



 جاوید احمد خان جاویدؔ

امیر مینائی نعت

 یوم پیدائش 21 فروری 1829


بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی

کہ فرد داخل دفتر ہوئی گناہوں کی


ترے فقیر دکھائیں جو مرتبہ اپنا

نظر سے اترے چڑھی بارگاہ شاہوں کی


ذرا بھی چشم کرم ہو تو لے اڑیں حوریں

سمجھ کے سرمہ سیاہی مرے گناہوں کی


خوشا نصیب جو تیری گلی میں دفن ہوئے

جناں میں روحیں ہیں ان مغفرت پناہوں کی


فرشتے کرتے ہیں دامان زلف حور سے صاف

جو گرد پڑتی ہے اس روضے پر نگاہوں کی


رکے گی آ کے شفاعت تری خریداری

کھلیں گی حشر میں جب گٹھڑیاں گناہوں کی


میں ناتواں ہوں پہنچوں گا آپ تک کیونکر

کہ بھیڑ ہوگی قیامت میں عذر خواہوں کی


نگاہ لطف ہے لازم کہ دور ہو یہ مرض

دبا رہی ہے سیاہی مجھے گناہوں کی


خدا کریم محمدﷺ شفیع روز جزا

امیر کیا ہے حقیقت میرے گناہوں کی


امیر مینائی


Saturday, February 20, 2021

راغب اختر

 یوم پیدائش 20 فروری 1981

کاتب تقدیر میرے حق میں کچھ تحریر ہو
رنج ہو یا شادمانی کچھ تو دامن گیر ہو

آب رود زیست کے کچھ گھونٹ زہریلے بھی ہوں
میں نے کب چاہا تھا ہر قطرہ مجھے اکسیر ہو

عہد آزادی سے بہتر قید زنداں ہو تو پھر
توڑ دینے کی قفس کو کیوں کوئی تدبیر ہو

تیز لہریں آ ہی جاتی ہیں مٹانے کے لیے


جب لب ساحل گھروندا ریت کا تعمیر ہو

غم رہے پنہاں در و دیوار دل کے درمیاں
کیا ضروری ہے کہ کرب زیست کی تشہیر ہو

راغب اختر

#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شعراء #birthday  #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urd#rekhtafoundation

قمبر عباس قمر

 یوم پیدائش 20 فروری 1989


اب  کہاں  تیرے   محلات   میں  جی   لگتا  ہے

مجھ  سے  مجنوں کا خرابات میں جی لگتا ہے


اس  ڈگر   پر  تو   قواٸد   ہی   بدل  جاتے  ہیں

عشق  میں  جیت  نہیں مات میں جی  لگتا ہے


حیف   بیزار   ہوٸے   اپنی  روایات    سے    ہم

اور   مغرب   کی  خرافات  میں  جی  لگتا   ہے 


ہاں  یہی  کھلتی جوانی  ہے اسی عمر میں  ہی

پیار   کرنے   کے  تجربات   میں  جی   لگتا  ہے 


یہ  بھی  اچھا  ہے  گناہوں  کی  سزا  دنیا  میں

یہ بھی   اچھا   ہے  مکافات  میں  جی لگتا  ہے 


رب  کی رحمت کی سند مجھ کو ملی ہے قمبر

صبح ِ  اول  کی  عبادات   میں   جی   لگتا  ہے


قمبر عباس قمر


Friday, February 19, 2021

کیف بھوپالی

 یوم پیدائش 20 فروری 1917


تھوڑا سا عکس چاند کے پیکر میں ڈال دے

تو آ کے جان رات کے منظر میں ڈال دے


جس دن مری جبیں کسی دہلیز پر جھکے

اس دن خدا شگاف مرے سر میں ڈال دے


اللہ تیرے ساتھ ہے ملاح کو نہ دیکھ

یہ ٹوٹی پھوٹی ناؤ سمندر میں ڈال دے


آ تیرے مال و زر کو میں تقدیس بخش دوں

لا اپنا مال و زر مری ٹھوکر میں ڈال دے


بھاگ ایسے رہنما سے جو لگتا ہے خضر سا

جانے یہ کس جگہ تجھے چکر میں ڈال دے


اس سے ترے مکان کا منظر ہے بد نما

چنگاری میرے پھوس کے چھپر میں ڈال دے


میں نے پناہ دی تجھے بارش کی رات میں

تو جاتے جاتے آگ مرے گھر میں ڈال دے


اے کیفؔ جاگتے تجھے پچھلا پہر ہوا

اب لاش جیسے جسم کو بستر میں ڈال دے


کیف بھوپالی


نسیم سید

 میرے فن کار 

!!مجھے خوب تراشا تو نے 

آنکھ نیلم کی 

بدن چاندی کا 

یاقوت کے لب 

یہ ترے 

ذوق طلب کے بھی ہیں 

معیار عجب 

پاؤں میں میرے 

یہ پازیب 

سجا دی تو نے 

نقرئی تار میں آواز منڈھا دی تو نے 

یہ جواہر سے جڑی 

قیمتی مورت میری 

اپنے سامان تعیش میں لگا دی تو نے 

میں نے مانا 

کہ حسیں ہے ترا شہکار 

مگر 

تیرے شہکار میں 

مجھ جیسی کوئی بات نہیں 

تجھ کو نیلم سی 

نظر آتی ہیں آنکھیں میری 

درد کے ان میں سمندر 

نہیں دیکھے تو نے 

تو نے 

جب کی 

لب و رخسار کی خطاطی کی 

جو ورق لکھے تھے 

دل پر 

نہیں دیکھے تو نے 

میرے فن کار 

ترے ذوق

ترے فن کا کمال

میرے پندار کی قیمت 

نہ چکا پائے گا 

تو نے بت یا تو تراشے 

یا تراشے ہیں خدا 

تو بھلا کیا مری تصویر 

بنا پائے گا 

تیرے اوراق سے 

یہ شکل مٹانی ہوگی 

اپنی تصویر 

مجھے آپ بنانی ہوگی 

ہوش بھی 

جرأت گفتار بھی 

بینائی بھی 

جرأت عشق بھی ہے 

ضبط کی رعنائی بھی 

جتنے جوہر ہیں نمو کے 

مری تعمیر میں ہیں 

دیکھ یہ رنگ 

جو تازہ مری تصویر میں ہیں 


ظفر اقبال

 یوم پیدائش 19 فروری 1978


مرے حالات ہی بدلے ' نہ میں حالات سے نکلا

بہت دن رات دیکھے پر نہ کچھ دن رات سے نکلا


بھلا کیسے امیرِ شہر سے بنتی مری کچھ بات

نہ وہ اوقات میں سمٹا ' نہ میں اوقات سے نکلا


وہ کیا فن کی ضمانت تھی جو میرے نام پہ اتری

وہ کیا خوشبو حوالہ تھا جو میری ذات سے نکلا


ابھی تک وصل کا بھیگا ہوا احساس باقی ہے

بدن میرا ناجانے کون سی برسات سے نکلا


ظفر اقبال


حشمت صدیق

 یوم پیدائش 18 فروری 1960

نعت


وہ اک بشر جو زمانے میں سب سے بہتر تھا 

سراپا نور تھا انسانیت کا رہبر تھا 


صفت بیان کروں کیا میں اُسکی لفظوں میں 

سمجھ لو کوزہ میں سمٹا ہوا سمندر تھا 


بشر کی بند بصیرت کو اُسنے کھول دیا 

تو کُفر خود ہی فنا ہو گیا جو اندر تھا 


گذاری عمر شہنشاہِ دو جہاں نے یوں 

نہ تخت تھا نہ کوئی تاج تھا نہ بستر تھا 


کوئی مثال نہیں جسکے وصف کی حشمت 

وہ شخص رحمتِ عالم کا ایک پیکر تھا


صلی اللہ علیہ وسلم


حشمت صدیق


عرفان ستار

 یوم پیدائش 18 فروری 1968


اپنی خبر، نہ اس کا پتہ ہے، یہ عشق ہے

جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے


پہلے جو تھا، وہ صرف تمہاری تلاش تھی

لیکن جو تم سے مل کے ہوا ہے، یہ عشق ہے


تشکیک ہے، نہ جنگ ہے مابین عقل و دل

بس یہ یقین ہے کہ خدا ہے، یہ عشق ہے


بے حد خوشی ہے، اور ہے بے انتہا سکون

اب درد ہے، نہ غم، نہ گلہ ہے، یہ عشق ہے


کیا رمز جاننی ہے تجھے اصل عشق کی؟

جو تجھ میں اس بدن کے سوا ہے، یہ عشق ہے


شہرت سے تیری خوش جو بہت ہے، یہ ہے خرد

اور یہ جو تجھ میں تجھ سے خفا ہے، یہ عشق ہے


زیر قبا جو حسن ہے، وہ حسن ہے خدا

بند قبا جو کھول رہا ہے، یہ عشق ہے


ادراک کی کمی ہے سمجھنا اسے مرض

اس کی دعا، نہ اس کی دوا ہے، یہ عشق ہے


شفاف و صاف، اور لطافت میں بے مثال

سارا وجود آئینہ سا ہے، یہ عشق ہے


یعنی کہ کچھ بھی اس کے سوا سوجھتا نہیں؟

ہاں تو جناب، مسئلہ کیا ہے؟ یہ عشق ہے


جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہوس

جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے


اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا

اس کی جزا، نہ اس کی سزا ہے، یہ عشق ہے


سجدے میں ہے جو محو دعا وہ ہے بے دلی

یہ جو دھمال ڈال رہا ہے، یہ عشق ہے


ہوتا اگر کچھ اور تو ہوتا انا پرست

اس کی رضا شکست انا ہے، یہ عشق ہے


عرفانؔ ماننے میں تأمل تجھے ہی تھا

میں نے تو یہ ہمیشہ کہا ہے، یہ عشق ہے


عرفان ستار


سیما غزل

 یوم پیدائش 17 فروری 1964


محبتوں کو بھی وعدوں میں رکھ دیا گیا ہے

کہ جیسے پھول کتابوں میں رکھ دیا گیا ہے


چراغ گھر کی منڈیروں پہ رکھ دیئے گئے ہیں 

اور انتظار چراغوں میں رکھ دیا گیا ہے


صدائیں سرد ہواوں کو سونپ دی گئ تھیں

پھر اس ہوا کو دریچوں میں رکھ دیا گیا ہے


جو ایک یاد پرانی سجی تھی کمرے میں 

اسے بھی اب تو درازوں میں رکھ دیا گیا ہے


میں اک گماں تھی' فسانے میں ڈھل گئ آخر

وہ ایک خواب تھا ' آنکھوں میں رکھ دیا گیا ہے


میں ایک عرصہ اسی کی سپردگی میں رہی

جو ایک لمحہ خیالوں میں رکھ دیا گیا ہے


اب ان ہواوں میں ہے اس کی گنگناہٹ بھی

پھر اس کا لمس گلابوں میں رکھ دیا گیا ہے


سیما


غزل

آرزو لکھنوی

 یوم پیدائش 17 فروری 1873


معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے

دل آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر چلانا کیا جانے


کہہ جاتی ہے کیا وہ چین جبیں یہ آج سمجھ سکتے ہیں کہیں

کچھ سیکھا ہوا تو کام نہیں دل ناز اٹھانا کیا جانے


چٹکی جو کلی کوئل کوکی الفت کی کہانی ختم ہوئی

کیا کس نے کہی کیا کس نے سنی یہ بتا زمانہ کیا جانے


تھا دیر و حرم میں کیا رکھا جس سمت گیا ٹکرا کے پھرا

کس پردے کے پیچھے ہے شعلہ اندھا پروانہ کیا جانے


یہ زورا زوری عشق کی تھی فطرت ہی جس نے بدل ڈالی

جلتا ہوا دل ہو کر پانی آنسو بن جانا کیا جانے


سجدوں سے پڑا پتھر میں گڑھا لیکن نہ مٹا ماتھے کا لکھا

کرنے کو غریب نے کیا نہ کیا تقدیر بنانا کیا جانے


آنکھوں کی اندھی خود غرضی کاہے کو سمجھنے دے گی کبھی

جو نیند اڑا دے راتوں کی وہ خواب میں آنا کیا جانے


پتھر کی لکیر ہے نقش وفا آئینہ نہ جانو تلووں کا

لہرایا کرے رنگیں شعلہ دل پلٹے کھانا کیا جانے


جس نالے سے دنیا بے کل ہے وہ جلتے دل کی مشعل ہے

جو پہلا لوکا خود نہ سہے وہ آگ لگانا کیا جانے


ہم آرزوؔ آئے بیٹھے ہیں اور وہ شرمائے بیٹھے ہیں

مشتاق نظر گستاخ نہیں پردہ سرکانا کیا جانے


آرزو لکھنوی


آفتاب شمیم اقبال


 یوم پیدائش 16 فروری 1933


نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں

اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں


بے نام سی آواز شگفت آئی کہیں سے

کچھ پتیاں شاید شجر شب سے جھڑی ہیں


نکلیں تو شکستوں کے اندھیرے ابل آئیں 

رہنے دو جو کرنیں مری آنکھوں میں گڑی ہیں


آ ڈوب! ابھرنا ہے تجھے اگلے نگر میں

منزل بھی بلاتی ہے صلیبیں بھی کھڑی ہیں


جب پاس کبھی جائیں تو پٹ بھیڑ لیں کھٹ سے

کیا لڑکیاں سپنے کے دریچوں میں کھڑی ہیں


کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا

آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں


خاموشیاں اس ساحل آواز سے آگے

پاتال سے گہری ہیں، سمندر سے بڑی ہیں


آفتاب اقبال شمیم

حسن شمسی

 یوم پیدائش 16 فروری 1946


وفا کا یہ صلہ اچھا دیا ہے

مجھے ہی بیوفا ٹھہرا دیا ہے


عزیزوں دوستوں کے مشوروں نے

ہمارا مسئلہ الجھا دیا ہے


بڑھائے جب بھی پاؤں حق کی جانب

مرے رب نے مجھے رستہ دیا ہے


کھلا کر خوبصورت گل خدا نے

ہمارا گلستاں مہکا دیا ہے


سڑک پر آئے دہقانوں نے بھاؤ

سب آٹے دال کا بتلا دیا ہے


'حسن' بندوں نے جیسے بیج بوئے

خدا نے پھل انھیں ویسا دیا ہے


حسن شمسی


اصغر گھورکپوری

 یوم پیدائش 16 فروری 1927


ہم دشت سے ہر شام یہی سوچ کے گھر آئے

شاید کہ کسی شب ترے آنے کی خبر آئے


معلوم کسے شہر طلسمات کا رستہ

کچھ دور مرے ساتھ تو مہتاب سفر آئے


اس پھول سے چہرے کی طلب راحت جاں ہے

پھینکے کوئی پتھر بھی تو احساں مرے سر آئے


تا پھر نہ مجھے تیرہ نصیبی کا گلا ہو

یہ صبح کا سورج مری آنکھوں میں اتر آئے


اب آگے علم اور کوئی ہاتھوں سے لے لے

ہم شب کے مسافر تھے چلے تا بہ سحر آئے


اصغر گورکھپوری


نثار ناسک

یوم پیدائش 15 فروری 1945


اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے

میرے ہونٹوں پہ مرے نام کا بوسہ رکھ دے


حلق سے اب تو اترتا نہیں اشکوں کا نمک

اب کسی اور کی گردن پہ یہ دنیا رکھ دے


روشنی اپنی شباہت ہی بھلا دے نہ کہیں

اپنے سورج کے سرہانے مرا سایہ رکھ دے


تو کہاں لے کے پھرے گی مری تقدیر کا بوجھ

میری پلکوں پہ شب ہجر یہ تارا رکھ دے


مجھ سے لے لے مرے قسطوں پہ خریدے ہوئے دن

میرے لمحے میں مرا سارا زمانہ رکھ دے


ہم جو چلتے ہیں تو خود بنتا چلا جاتا ہے

لاکھ مٹی میں چھپا کر کوئی رستہ رکھ دے


ہم کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسکؔ

جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے


نثار ناسک


خضر احمد خان شرر


 اک نظر تو اِدھر چارہ گر دیکھنا

کیوں ہے روٹھا مرا ہم سفر دیکھنا 


اِس ڈگر دیکھنا اُس ڈگر دیکھنا

راستوں کو ترے سر بہ سر دیکھنا 


کاش تقدیر میں اب یہی ہو لکھا

ہو رُخِ مصطفیﷺ عمر بھر دیکھنا


زندگی کی اُڑانیں ہوں بھرنی اگر  

تم پرندہ نہیں اُس کے پر دیکھنا


کچھ تو دشمن مخالف ہیں صف میں کھڑے

کچھ ہیں احباب سینہ سپر دیکھنا 


شام ہوتے ہی سورج بچھڑ جائے گا 

پھر نہ اُبھرے گا وہ رات بھر دیکھنا 


جن کے آنگن میں خنجر نہ ہوں پھول ہوں 

 شہر میں کوئی ایسا ہو گھر دیکھنا


مشورہ ہے مرا میرے احباب سے

عیب چُنّا مرے مت ہُنر دیکھنا 


اوج پر بھی چڑھے اور زمیں پر گرے

کیسے کیسے یہاں نام ور دیکھنا 


اے فلک دے چھپا بادلوں میں اُسے 

چاند میرا نہیں بام پر دیکھنا


ہے یہی مشغلہ جب سے تو ہے گیا

ٹِکٹِکی باندھ کر رہ گذر دیکھنا


آج کا نوجواں عشق کی آگ میں 

کود پڑتا ہے کیوں بے خطر دیکھنا


نوجوانی میں کر ایک غلطی جواں 

ہاتھ ملتا رہا عمر بھر دیکھنا 


جانتا ہوں تغافل بجا ہے ترا

پر خُدارا اِدھر اک نظر دیکھنا 


رات بھر یہ عبادت ہی کرتا ہوں میں 

یاد کرنا تری اور قمر دیکھنا  


بس اِسی فکر میں کٹ رہی شب شرر

جاگ جائیں تو ہوگی سحر دیکھنا 

    خضر احمد خان شرر

ظہیر ناصری

 در و دیوار سے گھر کے قرینے بات کرتے ہیں

مگر مہمان آجائے تو زینے بات کرتے ہیں


اگر ہم مصلحت کی آڑ لے کر چپ بھی ہو جائیں

ہماری دونوں آنکھوں کے نگینے بات کرتے ہیں


کسی صورت سے ہو جاتا ھے طوفانوں کا اندازہ

سمندر چپ بھی ہوجائے سفینے بات کرتے ہیں


فقیروں کی تو عادت ھے بہت خاموش رہتے ہیں

ذرا ان کو ٹٹولو تو دفینے بات کرتے ہیں


ذرا قرآن کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھو

یقینناٗ علم و حکمت کے خزینے بات کرتے ہیں


بہت مشکل سے ہر ساعت گزرتی ھے غریبی کی

فراغت میں ہواؤں سے مہینے بات کرتے ہیں


ضعیفی میں خود اپنی سانس بھی اک بوجھ لگتی ھے

جوانی میں تو جسموں کے پسینے بات کرتے ہیں


ظہیر ناصری


عامر زمان خان

 جینے کو میں احساس کے ہر باندھ رہا ہوں

اک بورئیے میں سارا نگر باندھ رہا ہوں


اس حبس کے ماحول میں میرے لئے جو تھا

لہجے کا تیرے سارا اثر باندھ رہا ہوں


مجھ سے اے میری جان تو اتنا نہ خفا ہو

اک لمس کا احساس اگر باندھ رہا ہوں


عامر زمان خان




رئیس فروغ

 یوم پیدائش 15 فروری 1926


آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا

جتنے بھی ہیں روپ تمہارے جیتے جی دکھلا دینا


رات اور دن کے بیچ کہیں پر جاگے سوئے رستوں میں

میں تم سے اک بات کہوں گا تم بھی کچھ فرما دینا


اب کی رت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے

میرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا


دل دریا ہے دل ساگر ہے اس دریا اس ساگر کی

ایک ہی لہر کا آنچل تھامے ساری عمر بتا دینا


ہم بھی لے کو تیز کریں گے بوندوں کی بوچھار کے ساتھ

پہلا ساون جھولنے والو تم بھی پینگ بڑھا دینا


فصل تمہاری اچھی ہوگی جاؤ ہمارے کہنے سے

اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لا دینا


یہ مرے پودے یہ مرے پنچھی یہ مرے پیارے پیارے لوگ

میرے نام جو بادل آئے بستی میں برسا دینا


ہجر کی آگ میں اے ری ہواؤ دو جلتے گھر اگر کہیں

تنہا تنہا جلتے ہوں تو آگ میں آگ ملا دینا


آج دھنک میں رنگ نہ ہوں گے ویسے جی بہلانے کو

شام ہوئے پر نیلے پیلے کچھ بیلون اڑا دینا


آج کی رات کوئی بیراگن کسی سے آنسو بدلے گی

بہتے دریا اڑتے بادل جہاں بھی ہوں ٹھہرا دینا


جاتے سال کی آخری شامیں بالک چوری کرتی ہیں

آنگن آنگن آگ جلانا گلی گلی پہرا دینا


اوس میں بھیگے شہر سے باہر آتے دن سے ملنا ہے

صبح تلک سنسار رہے تو ہم کو جلد جگا دینا


نیم کی چھاؤں میں بیٹھنے والے سبھی کے سیوک ہوتے ہیں

کوئی ناگ بھی آ نکلے تو اس کو دودھ پلا دینا


تیرے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مراد ملے

جس نے ہمارا دل توڑا ہے اس کو بھی بیٹا دینا


رئیس فروغ 


عبد العزیز فطرت

 یوم پیدائش 15 فروری 1905


اپنی ناکام تمناؤں کا ماتم نہ کرو

تھم گیا دور مئے ناب تو کچھ غم نہ کرو


اور بھی کتنے طریقے ہیں بیان غم کے

مسکراتی ہوئی آنکھوں کو تو پر نم نہ کرو


ہاں یہ شمشیر حوادث ہو تو کچھ بات بھی ہے 

گردنیں طوق غلامی کے لیے خم نہ کرو


تم تو ہو رند تمہیں محفل جم سے کیا کام

بزم جم ہو گئی برہم تو کوئی غم نہ کرو


بادۂ کہنہ ڈھلے ساغر نو میں فطرتؔ

ذوق فریاد کو آزردۂ ماتم نہ کرو


عبدالعزیز فطرت


احسان دانش

 یوم پیدائش 15 فروری 1914


نہ سیو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو

مصلحت کا یہ تقاضا ہے بھلا دو ہم کو


جرم سقراط سے ہٹ کر نہ سزا دو ہم کو

زہر رکھا ہے تو یہ آب بقا دو ہم کو


بستیاں آگ میں بہہ جائیں کہ پتھر برسیں

ہم اگر سوئے ہوئے ہیں تو جگا دو ہم کو


ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب

ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو


خضر مشہور ہو الیاس بنے پھرتے ہو

کب سے ہم گم ہیں ہمارا تو پتا دو ہم کو


زیست ہے اس سحر و شام سے بیزار و زبوں

لالہ و گل کی طرح رنگ قبا دو ہم کو


شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک

سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ہم کو


جرأت لمس بھی امکان طلب میں ہے مگر

یہ نہ ہو اور گناہ گار بنا دو ہم کو


کیوں نہ اس شب سے نئے دور کا آغاز کریں

بزم خوباں سے کوئی نغمہ سنا دو ہم کو


مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر

بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو


ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں

شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو


بھیڑ بازار سماعت میں ہے نغموں کی بہت

جس سے تم سامنے ابھرو وہ صدا دو ہم کو


کون دیتا ہے محبت کو پرستش کا مقام

تم یہ انصاف سے سوچو تو دعا دو ہم کو


آج ماحول کو آرائش جاں سے ہے گریز

کوئی دانشؔ کی غزل لا کے سنا دو ہم کو


احسان دانش


غلام ربانی تاباں

 یوم پیدائش 15 فروری 1914


رہ گزر ہو یا مسافر نیند جس کو آئے ہے

گرد کی میلی سی چادر اوڑھ کے سو جائے ہے


قربتیں ہی قربتیں ہیں دوریاں ہی دوریاں

آرزو جادو کے صحرا میں مجھے دوڑائے ہے


وقت کے ہاتھوں ضمیر شہر بھی مارا گیا

رفتہ رفتہ موج خوں سر سے گزرتی جائے ہے


میری آشفتہ سری وجہ شناسائی ہوئی

مجھ سے ملنے روز کوئی حادثہ آ جائے ہے


یوں تو اک حرف تسلی بھی بڑی شے ہے مگر

ایسا لگتا ہے وفا بے آبرو ہو جائے ہے


زندگی کی تلخیاں دیتی ہیں خوابوں کو جنم

تشنگی صحرا میں دریا کا سماں دکھلائے ہے


کس طرح دست ہنر میں بولنے لگتے ہیں رنگ

مدرسے والوں کو تاباںؔ کون سمجھا پائے ہے


غلام ربانی تاباں


بشیر بدر

 یوم پیدائش 15 فروری 1935


ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے

چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے 


کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو جائے

تمہارے نام کی اک خوبصورت شام ہو جائے


عجب حالات تھے یوں دل کا سودا ہو گیا آخر

محبت کی حویلی جس طرح نیلام ہو جائے


سمندر کے سفر میں اس طرح آواز دے ہم کو

ہوائیں تیز ہوں اور کشتیوں میں شام ہو جائے


مجھے معلوم ہے اس کا ٹھکانا پھر کہاں ہوگا

پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے


اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے


بشیر بدر


وحید قریشی

 یوم پیدائش 14 فروری 1925


زمانے پھر نئے سانچے میں ڈھلنے والا ہے

ذرا ٹھہر کہ نتیجہ نکلنے والا ہے


ابھی ہجوم عزیزاں ہے زیر تخت مراد

مگر زمانہ چلن تو بدلنے والا ہے


ہوئی ہے ناقۂ لیلیٰ کو سارباں کی تلاش

جلوس شہر کی گلیوں میں چلنے والا ہے


ضمیر اپنی تمنا کو پھر اگل دے گا

سمندروں سے یہ سونا اچھلنے والا ہے


نیا عذاب نئی صبحوں کی تلاش میں ہے

یہ ملک پھر نیا قاتل بدلنے والا ہے


صدائے صبح بشارت خبر سنائے گی

سلگ رہا ہے جو سینہ وہ جلنے والا ہے


نئے عذاب کی آمد ہے اور ہم ہیں وحیدؔ

عذاب دورۂ حاضر تو ٹلنے والا ہے


وحید قریشی


حافظ تائب

 یوم پیدائش 14 فروری 1931


پتھر میں فن کے پھول کھلا کر چلا گیا

کیسے امٹ نقوش کوئی چھوڑتا گیا


سمٹا ترا خیال تو گل رنگ اشک تھا

پھیلا تو مثل دشت وفا پھیلتا گیا


سوچوں کی گونج تھی کہ قیامت کی گونج تھی

تیرا سکوت حشر کے منظر دکھا گیا


یا تیری آرزو مجھے لے آئی اس طرف

یا میرا شوق راہ میں صحرا بچھا گیا


وہ جس کو بھولنے کا تصور محال تھا

وہ عہد رفتہ رفتہ مجھے بھولتا گیا


جب اس کو پاس خاطر آزردگاں نہیں

مڑ مڑ کے کیوں وہ دور تلک دیکھتا گیا 


حفیظ تائب


اویس احمد دوراں

 یوم پیدائش 14 فروری 1938


اے ہم نفسو! شب ہے گراں جاگتے رہنا

ہر لحظہ ہے یاں خطرۂ جاں جاگتے رہنا


ایسا نہ ہو یہ رات کوئی حشر اٹھا دے

اٹھتا ہے ستاروں سے دھواں جاگتے رہنا


اب حسن کی دنیا میں بھی آرام نہیں ہے

ہے شور سر کوئے بتاں جاگتے رہنا


یہ صحن گلستاں نہیں مقتل ہے رفیقو!

ہر شاخ ہے تلوار یہاں جاگتے رہنا


بے داروں کی دنیا کبھی لٹتی نہیں دوراںؔ

اک شمع لئے تم بھی یہاں جاگتے رہنا


اویس احمد دوراں


محمد اظہار الحق

 یوم پیدائش 14 فروری 1948


قرطاس و قلم ہاتھ میں ہے اور شب مہ ہے

اے رب ازل کھول دے جو دل میں گرہ ہے 


اطراف سے ہر شب سمٹ آتی ہے سفیدی

ہر صبح جبیں پر مگر اک روز سیہ ہے 


میں شام سے پہلے ہی پہنچ جاؤں تو بہتر

جنگل میں ہوں اور سر پہ مرے بار گنہ ہے 


مہنگی ہے جہاں دھات مرے سرخ لہو سے

زردی کے اس آشوب میں تو میری پنہ ہے 


منہ زور زمانوں کی ذرا کھینچ لے باگیں

میرے کسی بچھڑے ہوئے کی سالگرہ ہے


محمد اظہار الحق


حسن اکبر کمال

 یوم پیدائش 14 فروری 1946


دنیا میں کتنے رنگ نظر آئیں گے نئے

ہوں دید کے عمل میں اگر زاویے نئے


چہرہ بھی آنسوؤں سے تر و تازہ ہو گیا

بارش کے بعد سبزہ و گل بھی ہوئے نئے


بدلی ہے یہ زمیں کہ مری آنکھ وہ نہیں

بیگانہ شہر و دشت ہیں اور راستے نئے


اس کو بدل گیا نشۂ خود سپردگی

مانوس خال و خد مجھے یکسر لگے نئے


سب سے جدا ہیں گر مرے نو زائیدہ خیال

جس نے دیئے خیال وہ الفاظ دے نئے

 

حسن اکبر کمال


شفیق عابدی

 یوم پیدائش کی مبارک باد

14 فروری 1958


بچ کر کہاں میں جاؤں گا تیری نگاہ سے

رہتا ہوں دور اس لئے ہر اک گناہ سے

کھاتا رہے گا ٹھوکریں در در کی اے شفیق

جس کے قدم ہٹے ہیں صداقت کی راہ سے


شفیق عابدی


فاروق نازکی

 یوم پیدائش 14 فروری 1940


درد کی رات گزرتی ہے مگر آہستہ

وصل کی دھوپ نکھرتی ہے مگر آہستہ


آسماں دور نہیں ابر ذرا نیچے ہے

روشنی یوں بھی بکھرتی ہے مگر آہستہ


تم نے مانگی ہے دعا ٹھیک ہے خاموش رہو

بات پتھر میں اترتی ہے مگر آہستہ


تیری زلفوں سے اسے کیسے جدا کرتا میں

زندگی یوں بھی سنورتی ہے مگر آہستہ


فاروق نازکی


اے عزیز

یوم پیدائش 13 فروری 1973


میں انساں کی بھلائی چاہتا ہوں

خد ایا رہنمائی چاہتا ہوں


مجھے اپنی غلامی کا شرف دے

میں ہر غم سے رہائی چاہتا ہوں


نہیں کچھ مانگتا میں تم سے لیکن

محبت ابتدائی چاہتا ہوں


مجھے اپنی رفاقت کا شرف دے

تجھے میں انتہائی چاہتا ہوں


محبت مٹ نہ جائے اس جہاں سے

میں ایسی روشنائی چاہتا ہوں


اے عزیز


فیض احمد فیض

 یوم پیدائش 13 فروری 1911


گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے


قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو

کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے


کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز

کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے


بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے


جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے


حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب

گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے


مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے


فیض احمد فیض


صفی اورنگ آبادی

 یوم پیدائش 12 فروری 1893


دوست خوش ہوتے ہیں جب دوست کا غم دیکھتے ہیں

کیسی دنیا ہے الٰہی جسے ہم دیکھتے ہیں


دیکھتے ہیں جسے بادیدۂ نم دیکھتے ہیں

آپ کے دیکھنے والوں کو بھی ہم دیکھتے ہیں


بے محل اب تو ستم گر کے ستم دیکھتے ہیں

کیسے کیسوں کو برے حال میں ہم دیکھتے ہیں


ہنس کے تڑپا دے مگر غصے سے صورت نہ بگاڑ

یہ بھی معلوم ہے ظالم تجھے ہم دیکھتے ہیں


لوگ کیوں کہتے ہیں تو اس کو نہ دیکھ اس کو نہ دیکھ

ہم کو اللہ دکھاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں


باغ کی سیر نہ بازار کی تفریح رہی

ہم تو برسوں میں کسی دن پہ قدم دیکھتے ہیں


لعل ہیرے سہی تیرے لب دنداں ادھر آ

توڑ لیتے تو نہیں ہیں انہیں ہم دیکھتے ہیں


شل ہوئے دست طلب بھول گئے حرف سوال

آج ہم حوصلۂ اہل کرم دیکھتے ہیں


میں تماشا سہی لیکن یہ تماشا کیسا

مفت میں لوگ ترے ظلم و ستم دیکھتے ہیں


آپ کی کم نگہی حسن بھی ہے عیب بھی ہے

لوگ ایسا بھی سمجھتے ہیں کہ کم دیکھتے ہیں


ہم کو ٹھکراتے چلیں آپ کی محفل میں عدو

کیا انہیں کم نظر آتا ہے یا کم دیکھتے ہیں


چار لوگوں کے دکھانے کو تو اخلاق سے مل

اور کچھ بھی نہیں دنیا میں بھرم دیکھتے ہیں


میرا ہونا بھی نہ ہونے کے برابر ہے وہاں

دیکھیں جو لوگ وجود اور عدم دیکھتے ہیں


آنکھ میں شرم کا پانی مگر اتنا بھی نہ ہو

دیکھ ان کو جو تری آنکھ کو نم دیکھتے ہیں


ہو تو جائے گا ترے دیکھنے والوں میں شمار

اول اول ہی مگر اپنے کو ہم دیکھتے ہیں


راستہ چلنے کی اک چھیڑ تھی تو آقا نہ آ

ہم تو یہ قول یہ وعدہ یہ قسم دیکھتے ہیں


دیکھنا جرم ہوا ظلم ہوا قہر ہوا

یہ نہ دیکھا تجھے کس آنکھ سے ہم دیکھتے ہیں


آنکھ ان کی ہے دل ان کا ہے کلیجہ ان کا

رات دن جو مجھے بادیدۂ نم دیکھتے ہیں 


اپنا رونا بھی صفیؔ راس نہ آیا ہم کو

اس کو شکوہ ہے کہ آنکھیں تری نم دیکھتے ہیں 


صفی اورنگ آبادی


اعجاز رحمانی

 یوم پیدائش 12 فروری 1940


اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے

مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے


اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتی

وہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے


کیا جو اس نے مرے ساتھ نا مناسب تھا

معاف کر دیا میں نے خدا معاف کرے


وہ شخص جو کسی مسجد میں جا نہیں سکتا

تو اپنے گھر میں ہی کچھ روز اعتکاف کرے


وہ آدمی تو نہیں ہے سیاہ پتھر ہے

جو چاہتا ہے کہ دنیا مرا طواف کرے


وہ کوہ کن ہے نہ ہے اس کے ہاتھ میں تیشہ

مگر زبان سے جب چاہے وہ شگاف کرے


میں اس کے سارے نقائص اسے بتا دوں گا

انا کا اپنے بدن سے جدا غلاف کرے


جسے بھی دیکھیے پتھر اٹھائے پھرتا ہے

کوئی تو ہو مری وحشت کا اعتراف کرے


میں اس کی بات کا کیسے یقیں کروں اعجازؔ

جو شخص اپنے اصولوں سے انحراف کرے


اعجاز رحمانی


Thursday, February 11, 2021

حکیم محمد اجمل خان شیدا

 یوم پیدائش 12 فروری 1868


درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی

موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی


ہوگی جب نالوں کی اپنے زیر گردوں بازگشت

میرے درد دل کی شہرت جا بجا ہو جائے گی


کوئے جاناں میں اسے ہے سجدہ ریزی کا جو شوق

میری پیشانی رہین نقش پا ہو جائے گی


کاکل پیچاں ہٹا کر رخ سے آؤ سامنے

پردہ دار حسن محفل میں ضیا ہو جائے گی


جب یہ سمجھوں گا کہ میری زیست ہے ممنون مرگ

موت میری زندگی کا آسرا ہو جائے گی 


انتظار وصل کرنا عمر بھر ممکن تو ہے

گو نہیں معلوم حالت کیا سے کیا ہو جائے گی


محتسب اور ہم ہیں دونوں متفق اس باب میں

برملا جو مے کشی ہو بے ریا ہو جائے گی


میں ابھی سے جان دے دوں گا جو راہ عشق میں

انتہا مجنوں کی میری ابتدا ہو جائے گی


فاش راز دل نہیں کرتا مگر یہ ڈر تو ہے

بے خودی میں آہ لب سے آشنا ہو جائے گی


باریاب خواب گاہ ناز ہونے دو اسے

ان کی زلفوں میں پریشاں خود صبا ہو جائے گی


مقصد الفت کو کر لو پہلے شیداؔ دل نشیں

ورنہ ہر آہ و فغاں بے مدعا ہو جائے گی

یوم پیدائش 12 فروری 1868


درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی

موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی


ہوگی جب نالوں کی اپنے زیر گردوں بازگشت

میرے درد دل کی شہرت جا بجا ہو جائے گی


کوئے جاناں میں اسے ہے سجدہ ریزی کا جو شوق

میری پیشانی رہین نقش پا ہو جائے گی


کاکل پیچاں ہٹا کر رخ سے آؤ سامنے

پردہ دار حسن محفل میں ضیا ہو جائے گی


جب یہ سمجھوں گا کہ میری زیست ہے ممنون مرگ

موت میری زندگی کا آسرا ہو جائے گی 


انتظار وصل کرنا عمر بھر ممکن تو ہے

گو نہیں معلوم حالت کیا سے کیا ہو جائے گی


محتسب اور ہم ہیں دونوں متفق اس باب میں

برملا جو مے کشی ہو بے ریا ہو جائے گی


میں ابھی سے جان دے دوں گا جو راہ عشق میں

انتہا مجنوں کی میری ابتدا ہو جائے گی


فاش راز دل نہیں کرتا مگر یہ ڈر تو ہے

بے خودی میں آہ لب سے آشنا ہو جائے گی


باریاب خواب گاہ ناز ہونے دو اسے

ان کی زلفوں میں پریشاں خود صبا ہو جائے گی


مقصد الفت کو کر لو پہلے شیداؔ دل نشیں

ورنہ ہر آہ و فغاں بے مدعا ہو جائے گی


حکیم محمد اجمل خاں شیدا


باقر مہدی

 یوم پیدائش 11 فروری 1927


چراغ حسرت و ارماں بجھا کے بیٹھے ہیں

ہر ایک طرح سے خود کو جلا کے بیٹھے ہیں


نہ کوئی راہ گزر ہے نہ کوئی ویرانہ

غم حیات میں سب کچھ لٹا کے بیٹھے ہیں


جنوں کی حد ہے کہ ہوش و خرد کی منزل ہے

خبر نہیں ہے کہاں آج آ کے بیٹھے ہیں


کبھی جو دل نے کہا اب چلو یہاں سے چلیں

تو اٹھ کے عالم وحشت میں جا کے بیٹھے ہیں


یہ کس جگہ پہ قدم رک گئے ہیں کیا کہیے

کہ منزلوں کے نشاں تک مٹا کے بیٹھے ہیں


باقر مہدی


اظہر حسین

 یوم پیدائش 11 فروری 1972

نعت۔۔۔۔


پیشِ حضور اب بیاں رُوداد کیا کروں  

سب کچھ وہ جانتے ہیں میں فریاد کیا کروں


تجھ کو تو چین صرف مدینے میں آئے گا  

اب تو بتا ترا دلِ نا شاد کیا کروں


جب سامنے ہے روضہ وہ حاصل حیات کا 

ایسے میں زندگی میں تجھے یاد کیا کروں  


صدیوں سے بھیجتے ہیں مشائخ اُنہیں سلام  

اب رسم میں نئی کوئی ایجاد کیا کروں   


 پاتا ہے خاکِ طیبہ سے میرا چمن غذا  

دُنیا سڑی گلی یہ تری کھاد کیا کروں


آقا نے خود ہی مدح سرائی کے واسطے  

آسان لفظ بھیجے ہیں نقّاد کیا کروں  


 صلی اللہ علیہ وسلم 


اظہر حسین


مرزا خان ارشد شمس آبادی

 یوم پیدائش 11 فروری 1958


گلشن مرا سباس ہو آقا کے نام سے

دل کو سجایا میں نےبڑے اہتمام سے


انکی غلامی سے ملا مدحت کا حوصلہ

ایسی عطاملی مجھے خیر الانام سے


شیریں زبانی مل گئی دل کا سرور بھی 

پڑھتارہا میں صلِ علیٰ جو کلام سے


دل میں کسی کے واسطےکوئی جگہ نہیں

جب عشق ہوگیاہے محمدؐکےنام سے


بےشک کریں گے لوگ ہمارابھی احترام

سنت ادا اگر کریں  ہم احترام سے


شافی ہیں اور ساقی بھی روزِ جزا نبی

ہم تشنگی بجھائیں گے کوثر کے جام سے


منظر عجیب ہو گا وہ جنت کا جس گھڑی

ارشد جو کیف پائیں گے آقا کے جام سے


مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی


سلمیٰ شاہین

 یوم پیدائش 10 فروری 1965


دھوپ پیچھا نہیں چھوڑے گی یہ سوچا بھی نہیں

ہم وہاں ہیں جہاں دیوار کا سایہ بھی نہیں


جانے کیوں دل مرا بے چین رہا کرتا ہے

ملنا تو دور رہا اس کو تو دیکھا بھی نہیں


آپ نے جب سے بدل ڈالا ہے جینے کا چلن

اب مجھے تلخیٔ احباب کا شکوہ بھی نہیں


مے کدہ چھوڑے ہوئے مجھ کو زمانہ گزرا

اور ساقی سے مجھے دور کا رشتہ بھی نہیں


دام میں رکھتا پرندوں کی اڑانیں لیکن

پر کترنے کا مگر اس کو سلیقہ بھی نہیں


مسکراہٹ میں کوئی طنز بھی ہو سکتا ہے

یہ مسرت کی علم دار ہو ایسا بھی نہیں


لاکھ یادوں کی طرف لوٹ کے جاؤں شاہینؔ

پردۂ دل پر اب اس شخص کا چہرہ بھی نہیں


سلمیٰ شاہین


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...