Urdu Deccan

Monday, February 28, 2022

شہزاد رضوی

 یوم پیدائش 28 فروری 1937

( نظم محبت ہماری زبان ہے)


محبت کیا ہے اس کو ہمیں سمجھتے ہیں

انگریزوں کو صرف مشینیں بنانا آتا ہے

فرانسیسی زبان میں ہے صرف اک لفظ

وہ پسند اور محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے

اردو میں ہم ہر رنگ اور جذبے کی شدت کو بیان کرسکتے ہیں

پسند، انسیت ، پیار، محبت ، عشق جیسے الفاظ ہیں ہماری زبان میں

ان کا استعمال ہم بہت سوچ کے کرتے ہیں

ہماری زبان ہر گھڑی ہر قدم محبت کے گیت نہیں گاتی

اس جذبۂ اعلی کو بازار احساسات میں سستا نہیں کرتی

ہر موقع، ہر محل اور کشش و جذبے کے لحاظ سے لفظ کی آمد ہوتی ہے

ہماری تہذیب میں اسطرح الفاظ اور جذبات مل کر کام کرتے ہیں

اردو کے سہارے ہم مختلف رشتوں میں بندھ جاتے ہیں

مادی اختراعات میں چاہے ہم بہت پیچھے ہوں

جذبوں کی ڈور کو کب کا جیت چکے ہیں 


شہزاد رضوی


نیاز بدایونی

 یوم وفات 28 فروری 2008


وہ جو اک خنجرِ قاتل میں چمک ہوتی ہے

 اصل میں خون شہیداں کی لپک ہوتی ہے

 

دل سے رخصت ہواجب درد تو اندازہ ہوا

بعض اوقات سکوں میں بھی کسک ہوتی ہے


اب کوئی ناقدِ غم ہے نہ کوٹی محرمِ شب

دل کے داغوں میں مگر اب بھی چمک ہوتی ہے


کاغذی پھولوں سے گلشن کو سجانے والو

پھول کا جوہرِ ذاتی تو مہک ہوتی ہے


شاخِ گل کو ترے وعدہ سے بھلا کیا نسبت

شاخِ گل میں بھی کہاں اتنی لچک ہوتی ہے


میں ترے حسنِ تکلم کو غزل کہتا ہوں

ہر غزل میں ترے لہجہ کی کھنک ہوتی ہے


جذبہ و فکر کی بارش کے تھہرتے ہی نیاز

ذہن کے گرد خیالوں کی دھنک ہوتی ہے


نیاز بدایونی


نظیر ایٹوی

 یوم پیدائش 28 فروری 1953 


 راستہ فرار کا یوں نہ اختیار کر

 موت کی طرف نہ جا زندگی سے پیار کر

 

 ہم ہی راہِ عشق میں کوئی نقش چھوڑ دیں

 سیکڑوں چلے گئے زندگی گزار کر

 

 آرزو جواب کی دم نہ توڑدیں کہیں

 تھک گئی مری زباں آپ کو پکار کر

 

 میرے لب پہ آگئیں ان کو دیکھ کر ہنسی

 مطمئن ہے جو مجھے پتھروں سے مارکر

 

 موسمِ بہار نے کس قدر غلط کہا

 لوٹ کر میں آﺅں گا میرا انتظار کر

 

 وادیِ یقین سے ان کی بزمِ ناز تک

 آگ کا یہ راستہ مسکرا کے پار کر

 

 نظیر ایٹوی


سید انور جاوید ہاشمی

 یوم پیدائش 28 فروری 1953


جو خود میں سمٹ کے رہ گئے ہیں

دنیا سے وہ کٹ کے رہ گئے ہیں


مجمع تھا یہاں پہ جن کے دم سے

وہ بھیڑ سے چھٹ کے رہ گئے ہیں


بازارِ سُخن میں ہے مول اپنا

ہم لوگ ٹکٹ کے رہ گئے ہیں


نگلا ہے زمین نے بستیوں کو

بادل سبھی پھٹ کے رہ گئے ہیں


اب کھیت میں بھوک اگے گی کیوں کر

سب کھوٹ کپٹ کے رہ گئے ہیں


کرگس نے دکھادیا ہے ٹھینگا

شہباز جھپٹ کے رہ گئے ہیں


غالب ہے، نہ میر یاد ہم کو

ہاں! روٹیاں رَٹ کے رہ گئے ہیں


جیون بھی تمام ہو رہے گا

بس موت کے جھٹکے رہ گئے ہیں


سید انور جاوید ہاشمی​


سیف خان سیف

 یوم پیدائش 28 فروری


صد شکر ابرِ ہجر مرے سر سے چھٹ گیا

یہ بات ہے جدا کہ بدن دکھ سے اٹ گیا


وابستگی دو گام کی عمریں نگل گئی

 اور دو پلوں کا فاصلہ صدیوں میں بٹ گیا


دیتا رہا وہ پہلے جدائی کے مشورے 

رُخصت سمے پھر آ کے وہ مجھ سے لپٹ گیا


مولا عدم وجود کے یہ خوابگوں سفر 

میں سوچتے ہی سوچتے رستہ بھٹک گیا


پرچھائیاں ملال کی سینے سے جھڑ گئیں 

شہنائیوں کی بھیڑ میں سایہ بھی گھٹ گیا


اس وقتِ رائیگاں کا، بھلا کس سے ہو گلہ؟

کٹنا تھا کس کے ساتھ ،کہاں سیف کٹ گیا


سیف خان سیف


انا قاسمی

 یوم پیدائش 28 فروری 1966


مصلحت خیز یہ ریاکاری

زندگانی کی نازبرداری


کیسے ناداں ہو ، کا ٹ بیٹھے ہو

ایک ہی رو میں زندگی ساری


ہو جو ایماں تو بیٹھتا ہے میاں

ایک انساں ہزار پر بھاری


کاروبارِ جہاں سے گھبرا کر

کر رہا ہوں جنوں کی تیاری


ذہن و دل میں چبھن سی رہتی ہے

شاعری ہے عجیب بیماری


انا قاسمی


صغری صدف

 یوم پیدائش 28 فروری 1963


کب تک بھنور کے بیچ سہارا ملے مجھے

طوفاں کے بعد کوئی کنارا ملے مجھے


جیون میں حادثوں کی ہی تکرار کیوں رہے

لمحہ کوئی خوشی کا دوبارہ ملے مجھے


بن چاہے میری راہ میں کیوں آ رہے ہیں لوگ

جو چاہتی ہوں میں وہ نظارا ملے مجھے


سارے جہاں کی روشنی کب مانگتی ہوں میں

بس میری زندگی کا ستارا ملے مجھے


دنیا میں کون ہے جو صدفؔ سکھ سمیٹ لے

دیکھا جسے بھی درد کا مارا ملے مجھے


صغری صدف


متین عمادی

 یوم پیدائش 28 فروری 1948


کردار کا اک حسن تھا کردار کے پیچھے

سرحد کی ہنسی تھی کسی تلوار کے پیچھے


شاید وہ پرندوں کو غذا بانٹ رہا ہے

مردہ ہے کوئی جسم جو کہسار کے پیچھے


جذبات کا اک کوہ گراں رکھتا ہے دل پر

دہکی ہوئی اک آگ ہے فن کار کے پیچھے


باتوں کی صداقت کو کسی نے نہیں پرکھا

سب دوڑ پڑے سرخیٔ اخبار کے پیچھے


غزلوں میں متینؔ اپنی بڑا لطف ہے پنہاں

ہیں کتنے فسانے مرے اظہار کے پیچھے


متین عمادی


کلیم عثمانی

 یوم پیدائش 28 فروری 1928


رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح

چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح


خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں

شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح


پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی

پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح


بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات

میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح


کلیم عثمانی


رئیس الدین فریدی

 یوم پیدائش 28 فروری 1914


جوش پر آیا نہیں ہے رقص مستانہ ابھی

رہنے دو گردش میں تھوڑی دیر پیمانہ ابھی


جام خالی ہو کسی کا کوئی خم کے خم چڑھائے

یار سمجھے ہی نہیں آداب مے خانہ ابھی


اک ذرا پیر مغاں دے دے ہمیں بھی اختیار

لا کے جوبن پر دکھا سکتے ہیں مے خانہ ابھی


عشق کی فطرت نہ بدلی ہے نہ بدلے گی کبھی

شمع روشن کیجئے آتا ہے پروانہ ابھی


دے دیا دل ہم نے پورا ہو گیا یوں ایک باب

مان جائیں آپ تو پورا ہے افسانہ ابھی


سن رہے ہیں آ رہی ہے ہر طرف تازہ بہار

اپنا گھر کیوں لگ رہا ہے مجھ کو ویرانہ ابھی


اے فریدیؔ وہ ستاتے ہیں ستا لینے بھی دو

کمسنی ہے اور ہیں انداز طفلانہ ابھی


رئیس الدین فریدی


زبدہ خان

 یوم پیدائش 27 فروری


لے کے ملنے کی جستجو آ جا

بزمِ ہستی میں میری تُو آ جا


سب سے اپنے پرائے مل کے گئے 

اب مرے واسطے تو تُو آ جا 


اک زمانے سے زیرِ سایہِ ہجر

ہیں پریشان رنگ و بو آ جا


دل کی دنیا مری مقدس کر

میری آنکھوں میں باوضو آ جا


حسنِ جاناں کا آئینہ لے کر

میری صورت میں ہو بہو آجا


تھم نہ جائیں کہیں بہار کے رنگ

رک نہ جائے کہیں نمو آ جا


کتنا اصرار کر رہی ہے صبا

میری سانسیں ہیں مشکبو آ جا


شاعری اور حسنِ دنیا پر

کر لیں تھوڑی سی گفتگو آ جا


مجھ سے دنیا سوال کرتی ہے 

میری رکھنے کو آبرو آ جا 


یاد آتی ہے گفتگو زبدہ 

کب سے خاموش ہے سبو آ جا


زبدہ خان


غم ہی غم کے فقط فسانے ہیں

اب کہاں پیار کے زمانے ہیں


تم تو گھبرا گئے ابھی سے ہی

اور بھی امتحان آنے ہیں


سوچتا کیوں ہے کامیابی کی

سر ابھی کچھ کے اور جانے ہیں


یاد رکھنا تمہیں محبت میں

غم بھی دلدار کے اٹھانے ہیں


تو چلا آندھیاں مگر مجھ کو

دیپ الفت کے ہی جلانے ہیں


مری یادوں میں ایک دنیا ہے 

جس میں سب ہجر کے فسانے ہیں 


میں جہاں ہوں تو آ نہیں سکتا

غم کے اندر مرے ٹھکانے ہیں


وہ تو اب تک نہیں ملا زبدہ

اپنے دکھڑے جسے سنانے ہیں


زبدہ خان


سلیم فوز

 یوم پیدائش 27 فروری 1965


سکوت بڑھنے لگا ہے صدا ضروری ہے

کہ جیسے جسم میں تازہ ہوا ضروری ہے


پھر اس کے بعد ہر اک فیصلہ سر آنکھوں پر

مگر گواہ کا سچ بولنا ضروری ہے


بہت قریب سے کچھ بھی نہ دیکھ پاؤ گے

کہ دیکھنے کے لیے فاصلہ ضروری ہے


تم اپنے بارے میں مجھ سے بھی پوچھ سکتے ہو

یہ تم سے کس نے کہا آئنہ ضروری ہے


گریز پائی کے موسم عجیب ہوتے ہیں

سفر میں کوئی مزاج آشنا ضروری ہے


حوالہ مانگ رہا ہے مری محبت کا

جو فوزؔ مجھ سے یہ کہتا تھا کیا ضروری ہے


سلیم فوز


حیات لکھنوی

 یوم پیدائش 27 فروری 1931


یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا

تم بھی اگر ملوگے تو جی بھر نہ جائے گا


یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے

سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا


جس زاویے سے چاہو مری سمت پھینک دو

مجھ سے ملے بغیر یہ پتھر نہ جائے گا


دم بھر کے واسطے ہیں بہاریں سمیٹ لو

ویرانیوں کو چھوڑ کے منظر نہ جائے گا


یوں خوش ہے اپنے گھر کی فضاؤں کو چھوڑ کر

جیسے وہ زندگی میں کبھی گھر نہ جائے گا


اس کو بلندیوں میں مسلسل اچھالیے

لیکن وہ اپنی سطح سے اوپر نہ جائے گا


شہر مراد مل بھی گیا اب تو کیا حیاتؔ

مایوسیوں کا دل سے کبھی ڈر نہ جائے گا


حیات لکھنوی


ظہیر الہ آبادی

 یوم پیدائش 25 فروری 


کئے ہو ہم پہ یقیں یار تم بھی پاگل ہو

ہماری زہرہ جبیں یار تم بھی پاگل ہو


مرے حصول کی اک آس لے کے بیٹھی ہو

مرا بھروسہ نہیں یار تم بھی پاگل ہو 


میں اپنے آپ کو مجنوں صفت سمجھتا تھا

مگر کہیں نہ کہیں یار تم بھی پاگل ہو


یہ گھر پہ آنے کی ضد چھوڑ دو خدا کے لئے

اے میرے قلب نشیں یار تم بھی پاگل ہو 


میں تم سے سچ ہے کہ پاکیزہ عشق کرتا ہوں 

اب آؤ میرے قریں یار تم بھی پاگل ہو 


جو بات تم سے کہی رات کے اندھیرے میں 

کسی سے کہتے نہیں یار تم بھی پاگل ہو


 ظہیر الہ آبادی


Friday, February 25, 2022

محمد دین فوق

 یوم پیدائش 25 فروری 1887


آہ کی جب نارسائی دیکھ لی

ہم نے قسمت کی برائی دیکھ لی


ان بتوں کے چہرۂ پر نور میں

ہم نے شان کبریائی دیکھ لی


آجتک دیکھا نہ اس بت کو جواب

دیکھ لی ساری خدائی دیکھ لی


چشم تر تونے ڈبویا ہے ہمیں

ہم نے تیری آشنائی دیکھ لی


کیا کیا؟ آخر سکندر سے سلوک

خضر تیری رہنمائی دیکھ لی


وعدہ فردہ قیامت ہو گیا

آپ کی وعدہ وفائی دیکھ لی


ہم کو اس نیرنگیء تقدیر نے

شکل جو جو کچھ دکھائی دیکھ لی


ظاہر! صوفی بنا باطن سیاہ

فوق تیری پارسائی دیکھ لی


محمد دین فوق


سلام سندیلوی

 یوم پیدائش 25 فروری 1919


بوئے گل باد صبا لائی بہت دیر کے بعد

میرے گلشن میں بہار آئی بہت دیر کے بعد


چھپ گیا چاند تو جلووں کی تمنا ابھری

آرزوؤں نے لی انگڑائی بہت دیر کے بعد


نرگسی آنکھوں میں یہ اشک ندامت توبہ

موج مے شیشوں میں لہرائی بہت دیر کے بعد


صحن گلشن میں حسیں پھول کھلے تھے کب سے

ہم ہوئے خود ہی تماشائی بہت دیر کے بعد


مہر و شبنم میں ملاقات ہوئی وقت سحر

زندگی موت سے ٹکرائی بہت دیر کے بعد


مئے گل بٹ گئی آسودہ لبوں میں پہلے

تشنہ کاموں میں شراب آئی بہت دیر کے بعد


ذہن بھٹکا کیا دشت غم دوراں میں سلامؔ

شب غم نیند مجھے آئی بہت دیر کے بعد


سلام سندیلوی


دائم بٹ

 یوم پیدائش 25 فروری 1975


جو خزاں میں شاملِ درد تھے انہی خشک پات سے بھی گیا 

مجھے صبحِ نو کی تلاش تھی میں اندھیری رات سے بھی گیا 


تجھے ساحلوں میں جو ڈھالتا جو بھنور سے مجھکو نکالتا 

مجھے وہ خدا بھی نہ مل سکا میں منات و لات سے بھی گیا 


بڑے خواب تھے مری آنکھ میں کہ میں ایک تھا کئی لاکھ میں 

مجھے بے زری یوں نگل گئی کہ میں معجزات سے بھی گیا 


مری عمربھر کا صلہ تھا تو بڑی مشکلوں سے ملا تھا تو 

تجھے ایک پل میں گنوا کے میں بھری کائنات سے بھی گیا 


تری جستجو کے سفر میں تھا میں نہ جانے کیسے نگر میں تھا 

کہیں دوجہان تھے ھم نفس کہیں اپنے ساتھ سے بھی گیا 


مرے دوستوں کی یہ چال ھے کہ مرے عدو کا کمال ھے 

میں سمندروں کا تھا ھم نشیں میں لبِ فرات سے بھی گیا 


 میں عبادتوں کا سرور تھا میں محبتوں کا غرور تھا 

 میں فنا کے دام میں آگیا میں بقائے ذات سے بھی گیا

 

 دائم بٹ


دانیال طریر

 یوم پیدائش 24 فروری 1980


پانی کے شیشوں میں رکھی جاتی ہے 

سندرتا جھیلوں میں رکھی جاتی ہے 


چھونے کو بڑھ جاتی ہے وہ موم بدن 

آگ کہاں پوروں میں رکھی جاتی ہے 


چاند ترے ماتھے سے اگتا ہے چندا 

رات مری آنکھوں میں رکھی جاتی ہے 


ہاتھوں میں ریکھائیں پیلے موسم کی 

سبز پری خوابوں میں رکھی جاتی ہے 


چھو لیتی ہے جو تیرے نازک پاؤں 

وہ مٹی گملوں میں رکھی جاتی ہے 


رنگ جدا کرنے کے لیے چشم و لب کے 

قوس قزح اندھوں میں رکھی جاتی ہے 


ایسے بھی آرائش ہوتی ہے گھر کی 

تنہائی کمروں میں رکھی جاتی ہے


دانیال طریر


حسن رشید

یوم پیدائش 23 فروری


رکھی ہے اک کتاب تخیل کی میز پر

جیسے ہو ماہتاب تخیل کی میز پر


سوچا تھا جوبھی سوچ کی چوکھٹ پہ رہ گیا

بکھرے پڑے ہیں خواب تخیل کی میز پر


کیف و سرور و جام و سبو اور بے خودی

ہر شے ہے دستیاب تخیل کی میز پر


دل میں ہے شوقِ وصل مگر وقت بھی نہیں

آ جا ئیے جناب تخیل کی میز پر


اس نے کیا سوال جہانِ گمان سے

میں نے دیا جواب تخیل کی میز پر


حسن رشید


زین شکیل

 یوم پیدائش 23 فروری


اپنے آنسو رول رہا تھا

وہ آنکھوں سے بول رہا تھا


تیرے بعد مرے کمرے میں

ماتم کا ماحول رہا تھا


ہم ہی چلنے سے عاری تھے

وہ تو رستے کھول رہا تھا


جان! تمہاری نگری اندر

میں کتنا بے مول رہا تھا


وہ بھی کیسے اپنی چُپ سے

میری چُپ کو تول رہا تھا


تم کتنے انمول ہوئے ہو

میں کتنا انمول رہا تھا


رات، مری بے چین آنکھوں میں

چاند اداسی گھول رہا تھا


یاد ہے؟ تیری خاطر میرے

ہاتھوں میں کشکول رہا تھا


زین شکیل


مقصود عالم رفعت

 یوم پیدائش 23 فروری 1971


بیکراں کائنات مٹھی بھر

" آدمی کی حیات مٹھی بھر"


بے صِفٙت لوگوں سے بھرا ہے جہاں

اور ہیں با صفات مٹھی بھر


دیکھی دریا کی میں نے دریا دلی

بس ادا کی زکوة مٹھی بھر


متفق سب تھے میری باتوں سے

اور ہوئے میرے ساتھ مٹھی بھر


جاں کی بازی لگائی دریا میں

ریت بس آئی ہاتھ مٹھی بھر


نفس کی خواہشات لامحدود

زندگی کا ثبات مٹھی بھر


ہیں سراپا گناہ میں ڈوبے

اور کارِ نجات مٹھی بھر


خواب ہیں بے شمارآنکھوں میں

اور میسر ہے رات مٹھی بھر


زندگی کا اثاثہ ہیں رفعت

بس یہی کاغذات مٹھی بھر


مقصود عالم رفعت


اطہر نفیس

 یوم پیدائش 22 فروری 1933


ہم بھی بدل گئے تری طرز ادا کے ساتھ ساتھ

رنگ حنا کے ساتھ ساتھ شوخئ پا کے ساتھ ساتھ


نکہت زلف لے اڑی مثل خیال چل پڑی

چلتا ہے کون دیکھیے آج حنا کے ساتھ ساتھ


اتنی جفا طرازیاں اتنی ستم شعاریاں

تم بھی چلے ہو کچھ قدم اہل وفا کے ساتھ ساتھ


وحشت درد ہجر نے ہم کو جگا جگا دیا

نیند کبھی جو آ گئی ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ساتھ


ہوش اڑا اڑا دیئے راہ کے اضطراب نے

نکہت گل چلی تو تھی باد صبا کے ساتھ ساتھ


اطہر نفیس


سرور جاوید

 یوم پیدائش 22 فروری 1947


کون جانے وہ رخ مہر کہاں روشن تھا

قریہء عشق میں امکانِ زیاں روشن تھا


اس لئے خواہش تعبیر نہیں ہے ہم کو

خواب جو چھوڑ گیا دل پہ نشاں روشن تھا


پھر بھی بستی سے اندھیرا نہیں چھٹنے پاتا

گرچہ کار سحر شیشہ گراں روشن تھا


کیا زمانہ ہے کہ بے رنگ ہے فصلِ گل بھی

وہ بھی لمحے تھے کہ جب دور خزاں روشن تھا


جس کو سوچا تھا عقیدت سے خداؤں کے لیے

وہ چراغ آج سرِ طاقِ بتاں روشن تھا


سرور جاوید


عتیق الرحمن صفی

 یوم پیدائش 22 فروری

نعتِ رسولِ مقبول ﷺ 


زیست، اسلام تھی ہو بہ ہو آپ کی

شرحِ قرآن تھی گفتگو آپ کی


آپ امن و اماں کے پیمبر رہے

تھی طبیعت بہت صلح جُو آپ کی


آپ شفقت، محبت سے پیش آتے تھے

رحمتوں سے مزیّن تھی خُو آپ کی


عمر ساری گزاری ہے یوں آپ نے

مدح کرتے تھے سارے عدُو آپ کی 


راہِ حق پر سدا میری اُمّت چلے

تھی یہی عمر بھر آرزو آپ کی


دین کی روشنی آپ ہی سے ملی

بات پھیلی جبھی کُو بہ کُو آپ کی


زندگی اُس کی آسان ہوتی گئی 

جس کے سیرت رہی رُو بہ رُو آپ کی


مل گئی روشنی پھر اُسی کو صفیؔ

جس کسی نے بھی کی جستجو آپ کی


عتیق الرحمٰن صفیؔ


ممتاز ملک

 یوم پیدائش 22 فروری 1971


محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے 

بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے 


ہماری سوچ سے دل تک بڑی لمبی مسافت ہے 

چلو اب دیکھتے ہیں کہ کہاں سے یہ نظر لوٹے 


جہاں میں مسندیں اب بے ہنر آباد کرتے ہیں 

جبھی تو لے کے آنکھیں نم سبھی اہل ہنر لوٹے 


لیے ہم کانچ کا دل بر سر بازار بیٹھے ہیں 

تھے پتھر جن کی جھولی خوش وہی تو بازی گر لوٹے 


وہ جھوٹے لوگ جو مل کر ہمیں کو جھوٹ کر دیں گے 

انہیں کو آزما کر ہم بھی اپنی رہ گزر لوٹے 


قرار جاں بنانے کو بہانے اور کیا کم تھے 

بھلا ممتازؔ لے کے کون یوں زخمی جگر لوٹے


ممتاز ملک


عذرا نقوی

 یوم پیدائش 22 فروری 1952


ائیرپورٹ اسٹیشن سڑکوں پر ہیں کتنے سارے لوگ

جانے کون سے سکھ کی خاطر پھرتے مارے مارے لوگ 


شام گئے یہ منظر ہم نے ملکوں ملکوں دیکھا ہے 

گھر لوٹیں بوجھل قدموں سے بجھے ہوئے انگارے لوگ 


سب سے شاکی خود سے نالاں اپنی آگ میں جلتے ہیں

دکھ کے سوا اور کیا بانٹیں گے ان جیسے اندھیارے لوگ 


پر نم آنکھوں بوجھل دل سے کتنی بار وداعی لی 

کتنا بوجھ لئے پھرتے ہیں ہم جیسے بنجارے لوگ 


وہ کتنے خوش قسمت تھے جو اپنے گھروں کو لوٹ گئے 

شہروں شہروں گھوم رہے ہیں ہم حالات کے مارے لوگ 


رات گئے یادوں کے جنگل میں دیوالی ہوتی ہے 

دیپ سجائے آ جاتے ہیں بھولے بسرے پیارے لوگ 


بچپن کتنا پیارا تھا جب دل کو یقیں آ جاتا تھا 

مرتے ہیں تو بن جاتے ہیں آسمان کے تارے لوگ


عذرا نقوی


خستہ بریلوی

 یوم پیدائش 22 فروری 1905


آج دنیا کے لیے باعثِ افکار ہوں میں

بات اتنی ہے صداقت کا پرستار ہوں میں


یہ حقیقت ہے سیہ کار و خطا کار ہوں میں

میرے عیسٰی تیری رحمت کا طلبگار ہوں میں


مجھ سے وابستہ رہا گلشِ عالم کا نظام

آج حیرت ہے کہ گلشن کیلئے بار ہوں میں


عالمِ یاس میں پتھرا گئیں آنکھیں میری 

رحم فرمائیے اب طالبِ دیدار ہوں میں


مجھ سے اے گردشِ دوراں نہ الجھ ہوش میں آ

آج پھر حق کے لئے برسرِ پیکار ہوں میں


اور کیا چاہیے انجامِ محبت خستہ 

شکر صد شکر کہ رسوا سرِ بازار ہوں میں


خستہ بریلوی


بہار کوٹی

 یوم وفات 21 فروری 1971


دل دھڑکتا ہے تو پیغامِ سکوں ملتا ہے

ایک مدت میں یہ اندازِ جنوں ملتا ہے


کام کی چیز ہے ناکام تمنا رہنا

کچھ نہ ملنے پہ توقّع سے فزوں ملتا ہے


میں تو انساں ہوں فرشتوں کو پسینے آجائیں

جب تبسم میں نگاہوں کا فسوں ملتا ہے


کہہ رہے ہیں یہ تواریخ کے روشن اوراق

رنگِ ہرنقش میں انسان کا خوں ملتا ہے


حسرتِ طور تجھے ، آتش نمرود مجھے

حسبِ توفیق نظر سوز دروں ملتا ہے


اس توجہ سے تغافل ہی کہیں بہتر تھا

اب تڑپنے میں بھی مشکل سے سکوں ملتا ہے


غیرتِ عشق پہ آتا ہے تو حرف آئے بہار

زلفِ شب رنگ کے سائے میں سکوں ملتا ہے


بہار کوٹی


ہاجرہ نور زریاب

 یوم پیدائش 21 فروری


اشک کو آنکھ کی دہلیز پہ لایا نہ کرو

دل کے حالات زمانے کو بتایا نہ کرو


اپنی آنکھوں میں حسیں خواب سجایا نہ کرو

پیار کا تاج محل دل کو بنایا نہ کرو


خوشبوئے عشق بھی ہے عطر کی خوشبو جیسی

سخت دشوار ہے اے یار چھپایا نہ کرو


خود ہی سانپوں کو بلا لیتے ہو اپنے گھر میں

پیڑ چندن کے تم آنگن میں لگایا نہ کرو


رب تو ہے شافیٔ مطلق ہے شفا بخش وہی

سر در غیر پہ تم اپنا جھکایا نہ کرو


خواب کے جتنے گھروندے ہیں بکھر جائیں گے

اپنی پلکوں پہ کئی خواب سجایا نہ کرو


سنگ دل جو بھی ہیں ان کو نہ بساؤ دل میں

شیش محلوں میں کبھی سنگ لگایا نہ کرو


بوندا باندی بھی مقدر میں نہیں ہے زریابؔ

اپنے آنگن میں نئے پیڑ لگایا نہ کرو


ہاجرہ نور زریاب


ولی صدیقی سلطان پوری

 یوم پیدائش 21 فروری 1938


نہ کیجے اس طرح پامال دل کو

اسی میں آپ کی تصویر بھی ہے


ولی صدیقی سلطان پوری


عرفان بنارسی

 یوم پیدائش 21 فروری 1950


آتے جاتے ہوئے موسم سے پتا چلتا ہے

خشک پتوں کی طرح ہم کو بکھرنا ہوگا


عرفان بنارسی


انجم باروی

 یوم وفات 21 فروری 2020


دریا میں پھوٹ پھوٹ کے کہتا تھا ہر حباب

اک پل کی زندگی ہے کچھ اس کے سوا نہیں


انجم باروی


احمد علی برقی اعظمی

 (نظم اردو ہے امتزاجی روایت کی پاسدار)


اردو ہے امتزاجی روایت کی پاسدار

یہ اتحاد فکر و نظر کی ہے یادگار


اردو زباں ہے جملہ زبانوں کا امتزاج

جس کا ادب ہے مظہرِ روداد روزگار


جمہوریت کی آج یہ زندہ مثال ہے

الفاظ ہر زبان کے ہیں اس میں بے شمار


اردو ادب کو جن پہ ہمیشہ رہے گا ناز

سرسید اور حالی تھے وہ فخر روزگار


شعرالعجم ہو شبلی کی یا سیرت النبی

عالم میں انتخاب ہیں اردو کے شاہکار


دنیا پہ آشکار ہے آج اس کی آب و تاب

غالب نے شعر و نثر کو بخشا ہے جو وقار


سوزِ دروں ہے میر کا اک محشرِ خیال

ہے شاعری نظیر کی آشوب روزگار


تھی داغ دہلوی کی زباں سہلِ ممتنع

تھے میر انیس مرثیہ گوئی کے شہریار


اردو ادب میں جس کی نہیں ہے کوئی مثال

اقبال کا کلام ہے وہ در شاہوار


برق اعظمی ہوں ، فیض ہوں ، احمد فراز ہوں

عہدِ رواں میں گلشنِ اردو کی تھے بہار


آزاد ہے یہ مذہب و ملت کی قید سے

ہر جا ملیں گے آپ کو اردو کے جاں نثار


منشی نولکشور ہوں یا سرکشن پرساد

طرزِ عمل سے اپنے تھے اردو کے پاسدار


چکبست ہوں ، فراق ہوں ، ملا ہوں یا نسیم

اردو کے جاں نثاروں کی لمبی ہے اک قطار


ہے اقتضائے وقت کہ اردو ہو سرخرو

ماحول آؤ مل کے کریں اس کا سازگار


عہدِ رواں میں اردو ہے اک عالمی زباں

مداح جس کے برقی ہیں دنیا میں بے شمار


احمد علی برقی اعظمی


شمشاد شاد

 دشتِ بے سایہ میں جھلساتی ہوا سے پوچھنا

تشنگی کیا چیز ہے یہ کربلا سے پوچھتا


غیرتِ جذبات پر کیا بیتی ہے بزم میں 

حرمت و توقیر کی خستہ قبا سے پوچھنا


ناز کرتے تھے کبھی میری وفاداری پر تم

کیوں ہوا میں بے وفا اپنی جفا سے پوچھنا


ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں غارِ تنہائی میں تم

شہر میں کیوں گن ہوئیں اپنی انا سے پوچھنا


کون سا جذبہ ہے اس میں کار فرما کیا کہوں

کیوں درختوں سے لپٹتی ہے لتا سے پوچھنا


وہ ترا رستے میں ملنا اور پھر بے ساختہ

مجھ سے میری خیریت ناز و ادا سے پوچھنا


شاد تم حالات کے مارے کسی انسان کی

داستاں جب پوچھنا تو ابتدا سے پوچھنا


شمشاد شاد


ارشاد آرزو

 یوم پیدائش 20 فروری 1970


صبر کی ہے انتہا یا خوف کا سایا ہے یہ

اب کسی مظلوم کی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں


ارشاد آرزو


بشیر النساء بیگم بشیر

 یوم وفات 20 فروری 1972


کہاں تک کوئی وضع اپنی سنبھالے

نظر آ رہے ہیں تماشے نرالے


پرستار مغرب نہ کیوں کر ہو دنیا

بناتے نئے بت ہیں تہذیب والے


گیا ذوق اہل نظر کی نظر سے

نئی روشنی کے ہیں سارے اجالے


بلاوے یہ پھر کیوں انہیں آ رہے ہیں

بھری بزم سے جو گئے ہیں نکالے


جو لذت میسر ہے ذوق طلب میں

نہیں اس سے واقف ترے عرش والے


تو نیرنگی روز و شب سے نہ اکتا

زمانے ابھی اور ہیں آنے والے


گئی آہ دنیا سے روشن ضمیری

کہ شاہیں بنے زاغ کی چلنے والے


نہ نکلیں گے کانٹے بشیرؔ اپنے دل کے

اگر ایک دو ہوں تو کوئی نکالے


بشیرالنساء بیگم بشیر


نسیم سید

 یوم پیدائش 19 فروری 1947

(نظم ) اپنی تصویر مجھے آپ بنانی ہوگی


میرے فن کار 

!!مجھے خوب تراشا تو نے 

آنکھ نیلم کی 

بدن چاندی کا 

یاقوت کے لب 

یہ ترے 

ذوق طلب کے بھی ہیں 

معیار عجب 

پاؤں میں میرے 

یہ پازیب 

سجا دی تو نے 

نقرئی تار میں آواز منڈھا دی تو نے 

یہ جواہر سے جڑی 

قیمتی مورت میری 

اپنے سامان تعیش میں لگا دی تو نے 

میں نے مانا 

کہ حسیں ہے ترا شہکار 

مگر 

تیرے شہکار میں 

مجھ جیسی کوئی بات نہیں 

تجھ کو نیلم سی 

نظر آتی ہیں آنکھیں میری 

درد کے ان میں سمندر 

نہیں دیکھے تو نے 

تو نے 

جب کی 

لب و رخسار کی خطاطی کی 

جو ورق لکھے تھے 

دل پر 

نہیں دیکھے تو نے 

میرے فن کار 

ترے ذوق

ترے فن کا کمال

میرے پندار کی قیمت 

نہ چکا پائے گا 

تو نے بت یا تو تراشے 

یا تراشے ہیں خدا 

تو بھلا کیا مری تصویر 

بنا پائے گا 

تیرے اوراق سے 

یہ شکل مٹانی ہوگی 

اپنی تصویر 

مجھے آپ بنانی ہوگی 

ہوش بھی 

جرأت گفتار بھی 

بینائی بھی 

جرأت عشق بھی ہے 

ضبط کی رعنائی بھی 

جتنے جوہر ہیں نمو کے 

مری تعمیر میں ہیں 

دیکھ یہ رنگ 

جو تازہ مری تصویر میں ہیں 


نیسم سید


اکرم نقاش

 یوم پیدائش 18 فروری 1961


دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے

پاؤں رکھوں جو میں ویرانے میں دنیا نکلے


ایک بپھرا ہوا دریا ہے مرے چار طرف

تو جو چاہے اسی طوفاں سے کنارہ نکلے


ایک موسم ہے دل و جاں پہ فقط دن ہو کہ رات

آسماں کوئی ہو دل پر وہی تارا نکلے


دیکھتا ہوں میں تری راہ میں دام حیرت 

روشنی رات سے اور دھوپ سے سایہ نکلے


اس سے پہلے یہ کبھی دل نے کہا ہی کب تھا

رات کچھ اور بڑھے چاند دوبارہ نکلے


آنکھ جھکتی ہے تو ملتی ہے خموشی کو زباں

بند ہونٹوں سے کوئی بولتا دریا نکلے


عشق اک ایسی حویلی ہے کہ جس سے باہر

کوئی دروازہ کھلے اور نہ دریچہ نکلے


سحر نے تیرے عجب راہ سجھائی ہم دم

ہم کہاں جانے کو نکلے تھے کہاں آ نکلے


اکرم نقاش




محمد محسن علی آرزو

 یوم پیدائش 18 فروری 1979

 نظم “ یاسیت “    ٹوٹے دلوں کے نام


اب میں وحشت میں بہت دور نکل آیا ہوں

ایسی تنہائی، کہ اب کوئی نہیں ساتھ میرے


جوئے غم  ، چشمۂ خوں ناب ،سے ایسے نکلی 

دارِفانی سے ، کوئی روح  ، چلی  ہو جیسے


کوئی تارہ  ، کوئی جگنو  ،  کوئی  امید  ، نہیں

اب  تو ہر سانس میری  ، ماتمِ  تنہائی  ہے


روزنِ  سینۂ ء عاشق سے  ، نکلتی ہے ہوا

جیسے اک سوز میں ڈوبی  ہوئی  شہنائی  ہے 


خشک آنکھوں میں بسی یاس کی تاریکی  ہے

جیسے اک سوگ فضاؤں میں بکھر جاتا ہے


جیسے شمشان میں اک زندہ چتا جل جائے

چشمِ خورشید میں وہ کرب نظر  آتا ہے


خاک اڑتی ہے میری خاک لئے گلشن میں

اب نہ گلشن میں کبھی فصل بہاراں ہو گی


گل نہیں ، خار نہیں ، برگ نہیں ، بار نہیں

زخم پائیں گے نمو ، بزمِ خرابا ں ہو گی


محمد محسن علی آرزو


تسنیم کوثر

 یوم پیدائش18 فروری 1957


پھولوں کا چاندنی کا نگر یاد ہے ہمیں

خوشیوں بھری تھی جس کی ڈگر یاد ہے ہمیں

چاہت سے جس پہ لکھا تھا اِک دوسرے کا نام

پیپل کا وہ گھنیرا شجر یاد ہے ہمیں


تسنیم کوثر


ابھے راج سنگھ شاد

 یوم پیدائش 18 فروری 1914 

 

گلشن میں یہ پھولوں کا تبسم کب تک

بلبل کے یہ نغمے یہ ترنم کب تک

دو روزہ ہے یہ جشنِ بہاراں اے دوست

یہ کون بتائے کہ ہیں ہم تم کب تک


ابھے راج سنگھ شاد


لیاقت جعفری

 یوم پیدائش 18 فروری 1971


کتنا دشوار ہے جذبوں کی تجارت کرنا

ایک ہی شخص سے دو بار محبت کرنا


جس کو تم چاہو کوئی اور نہ چاہے اس کو

اس کو کہتے ہیں محبت میں سیاست کرنا


سرمئی آنکھ حسیں جسم گلابی چہرا

اس کو کہتے ہیں کتابت پہ کتابت کرنا


دل کی تختی پہ بھی آیات لکھی رہتی ہیں

وقت مل جائے تو ان کی بھی تلاوت کرنا


دیکھ لینا بڑی تسکین ملے گی تم کو

خود سے اک روز کبھی اپنی شکایت کرنا


جس میں کچھ قبریں ہوں کچھ چہرے ہوں کچھ یادیں ہوں

کتنا دشوار ہے اس شہر سے ہجرت کرنا


لیاقت جعفری


نثار احمد کلیم

 تاریخ پیدائش 17 فروری 1931


دامن نہ بچا پائے ہم ان کی محبت سے

پیروں میں کلیمؔ اپنے زنجیر نظر آئی


نثار احمد کلیم


حشم الرمضان

 یوم پیدائش 17 فروری 1934

    

  راکھ میرے نشیمن کی بکھری ہوئی

    فصل گل کاہے ’’صدقہ‘‘ اتارا ہوا


حشم الرمضان


محمد قاسم علوی

 یوم پیدائش 17 فروری 1949


اے امینِ قوم و مذہب ، ملک و ملت کے امام

آنے والا دور لے گا تم سے ہر پل کا حساب


محمد قاسم علوی


تسلیم نیازی

 یوم پیدائش 17 فروری 1966


بھیڑ میں خود کو گنوانے سے ذرا سا پہلے 

مجھ کو ملتا وہ زمانے سے ذرا سا پہلے 


ہجر کی ہم کو کچھ ایسی بری عادت ہے کہ ہم 

زہر کھا لیں ترے آنے سے ذرا سا پہلے 


گرچہ پکڑے نہ گئے دوستو لیکن ہم بھی 

چور تھے شور مچانے سے ذرا سا پہلے 


کچھ نہیں سوچا پرندوں سے شجر چھین لئے 

دشت میں شہر بسانے سے ذرا سا پہلے 


دھول تھے تم مرے قدموں سے لپٹنے پہ مصر؟

خاک تھے چاک پہ جانے سے ذرا سا پہلے 


جائے عبرت ہے کہ پھوٹیں نہ تمہاری آنکھیں 

مجھے یوں آنکھ دکھانے سے ذرا سا پہلے


تسلیم نیازی


قوس صدیقی

 یوم پیدائش 17 فروری 1946


لگا رہا ہوں ہر اک در پہ آئنا بازار

کوئی تو دیکھے سنے دام بولتا بازار


سجا تو خوب ہے اب کے نیا نیا بازار

زمانہ جان تو لے کیا ہے ذائقہ بازار


پرائی جان کی قیمت فقط نظارہ نہیں

خدارا بند ہو ہر دن کا حادثہ بازار


یہی تو ہوتا ہے شیشے کے کاروبار کا حشر

اجڑ گیا ہے اچانک ہرا بھرا بازار


شب سیاہ سے خائف ہے یوں مری دیوار

سجا کے بیٹھی ہے آنگن میں شام کا بازار


بس اک تبسم دل سے خرید لیجے اسے

جہاں بھی جائیے اس جاں کا ہے کھلا بازار


پھر اپنے شور کی قیمت سمجھ سکے گا قوسؔ

نہ خواب دیکھ ذرا جا ٹہل کے آ بازار


قوس صدیقی


ریاض خیرآبادی

 یوم پیدائش 17 فروری 1833


میرے پہلو میں ہمیشہ رہی صورت اچھی

میں بھی اچھا مری قسمت بھی نہایت اچھی


آپ کی شکل بھلی آپ کی صورت اچھی

آپ کے طور برے آپ سے نفرت اچھی


حشر کے دن ہمیں سوجھی یہ شرارت اچھی

لے چلے خلد میں ہم دیکھ کے صورت اچھی


تجھ سے کہتا تھا کوئی یا تری تصویر سے آج

آنکھیں اچھی تری آنکھوں کی مروت اچھی


ہم نے سو بار شب وصل ملا کر دیکھا

اے فلک چاند سے وہ چاند سے صورت اچھی


نہ بنے کام تو کس کام کی نازک شکلیں

نازک اچھے نہ حسینوں کی نزاکت اچھی


اس سے کوئی نہیں اچھا جو تجھے پیار کرے

میں بھی اچھا ترے صدقے مری قسمت اچھی


تیری مدفن سے جو اٹھے وہ بری اے واعظ

ان کے ٹھوکر سے جو اٹھے وہ قیامت اچھی


جور تیرے بہت اچھے ستم گردوں سے

اور ان سے تری آنکھوں کی ندامت اچھی


منہ میں جب بات رکی چوم لیا پیار سے منہ

دم تقریر کسی شوخ کی لکنت اچھی


دیکھتے ہی کسی کافر کو بگڑ جاتی ہے

میں جو چاہوں بھی تو رہتی نہیں نیت اچھی


حسن صورت کی طرح حسن سخن ہے کم یاب

ایک ہوتی ہے ہزاروں میں طبیعت اچھی


تجھ سے جلتا ہے جو وہ اور جلاتے ہیں اسے

مرے حق میں مرے دشمن کی عداوت اچھی


آتے جاتے نظر آتی ہے جھلک چلمن سے

پردے پردے میں نکل آئی یہ صورت اچھی


خوگر غم کے لیے کچھ بھی نہیں عیش کا خواب

ایسی راحت سے ہمیشہ کی مصیبت اچھی


دے کے وہ بوسۂ لب شوق سے لیں دل میرا

عذر کیا ہے جو ملے مال کی قیمت اچھی


سن کے اشعار مرے سب یہی کہتے ہیں ریاضؔ

اس کی قسمت ہے بری اور طبیعت اچھی


ریاضؔ خیرآبادی


ع م شاہد

 یوم پیدائش 16 فروری 1973


ان سے مری پہچان پرانی لگتی ہے

دنیا ساری جنکی دیوانی لگتی ہے


سب کی نظر میں ہم ہی مجرم بن بیٹھے

دشمن کی یہ چال پرانی لگتی ہے


بیتی باتیں شاید ان کو یاد آئیں

اشکوں میں جو ان کے روانی لگتی ہے


دیکھ لیا ہے اس کو ایسی نظروں سے

اس کی صورت ہم کو سہانی لگتی ہے 


آزادی کی باتیں شاید بچوں کو

دور نو کی ایک کہانی لگتی ہے


ع م شاہد


بشریٰ فرخ

 یوم پیدائش 16 فروری 1954


بظاہر تجھ سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں ہے

دلاسوں سے بہلتا یہ دل ناداں نہیں ہے


چمن میں لاکھ بھی برسے اگر ابر بہاراں

تو نخل دل ہرا ہونے کا کچھ امکاں نہیں ہے


ہوائے وقت نے جس بستئ دل کو اجاڑا ہے

اسے آباد کرنا کام کچھ آساں نہیں ہے


وہ اک دیوار ہے حائل ہمارے درمیاں جو

کسی روزن کا اس میں اب کوئی امکاں نہیں ہے


اگرچہ کھا گئی دیمک غموں کی بام و در کو

مگر ٹوٹی ابھی تک یہ فصیل جاں نہیں ہے


تمہاری روح بشریؔ قید ہے تن کے قفس میں

اسے آزاد کرنا معجزہ آساں نہیں ہے


بشریٰ فرخ


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...