Urdu Deccan

Thursday, June 30, 2022

محمودہ قریشی

یوم پیدائش 30 جون 1992

ہرگھڑی رنج سے بیزار ہوئی جاتی ہے
رہ گزر زیست کی پر خار ہوئی جاتی ہے

صرف تقدیر پہ تکیہ ہے عمل کچھ بھی نہیں 
زندگی اس لئے بیمار ہوئی جاتی ہے

یوں تو خاموش بہت رہتی ہوں لیکن مجھ میں
اک قیامت ہے جو بیدار ہوئی جاتی ہے 

رہنما جتنے تھے محمودہؔ وہ رہزن نکلے
میری منزل یونہی دشوار ہوئی جاتی ہے

محمودہ قریشی



مرتضیٰ ساحل تسلیمی

یوم پیدائش 30 جون 1953

جس کو جھوٹوں سے پیار ہوتا ہے 
وہ بڑا با وقار ہوتا ہے 

اس کا جینا بھی ہے کوئی جینا 
جو بروں میں شمار ہوتا ہے 

بے ادب ہر جگہ ہے بے عزت 
با ادب با وقار ہوتا ہے 

اس سے ہوتی ہے سب کو ہمدردی 
خود بھی جو غم گسار ہوتا ہے 

بول کر جھوٹ وہ خدا جانے 
کس لئے شرمسار ہوتا ہے 

غم کوئی ہو مگر نماز کے بعد 
دل کو حاصل قرار ہوتا ہے 

اس کو اچھا کوئی نہیں کہتا 
فیل جو بار بار ہوتا ہے

دولت دین جس کو مل جائے 
وہ بہت مال دار ہوتا ہے 

پاس کیا ہو وہ امتحان میں جو 
مدرسے سے فرار ہوتا ہے

مرتضیٰ ساحل تسلیمی



رفیق انجم

یوم پیدائش 30 جون 1950

دستِ قاتل کو اگر خاص ادا دی جائے 
پھر پسِ مرگ نہ منصف کو صدا دی جائے

درد مسکے گا تو گلزار کرے گا دل کو
ٹوٹتے رشتوں کو اے دوست دعا دی جائے

پھر جلا ڈالیں گے یادوں کے سنہرے بن کو
اب نہ شعلوں کو سرِ شام ہوا دی جائے

ان کے رک جاتے ہی رک جائے گی نبضِ ہستی
لوٹتے قدموں کو اے دوست دعا دی جائے

دل بھی اب شہر کی مانند ہوا کرتا ہے
رات ہوتے ہی ہر اک بات بھلا دی جائے

آؤ رکھ دیں کسی تابندہ سی تہذہب کی نیو
عہدِ کہنہ کی ہر اک رسم مٹا دی جائے

قہر سے ہر نئی رت کے جو بچالے انجم
ایک اک سر کو اب اک ایسی ردا دی جائے

رفیق انجم


 

صادقین

یوم پیدائش 30 جون 1930

سچائی پہ اک نگاہ کر لوں یارب 
اب درد کی حد ہے آہ کر لوں یارب 
رکھنے کو تری شان کریمی کی لاج 
معمولی سا اک گناہ کر لوں یارب

صادقین



کیفی سنبھلی

یوم پیدائش 30 جون 1960

معنی کوچۂ سلطان عرب کون سی ہے؟
دل ناداں تجھے جنت کی طلب کون سی ہے؟

عشق احمدﷺ کا کرشمہ ہے سراسر ورنہ
  یہ عبادت مری بخشش کا سبب کون سی ہے؟

جرآت جنبش مثرگاں کا نہیں اذن جہاں
 کہئے جبریل کی یہ حد ادب کون سی ہے؟

راز کھو لینگے یہ جبریلؑ و براق و رف رف
ہر سحر سے جو منور ہے وہ شب کون سی ہے؟

حاتموں کو جو سکھاتے ہیں سخاوت کا شعور
بات یہ ان کے غلاموں کو عجب کون سی ہے؟

 وہ جسے چاہیں اسے تخت نشینی دے دیں
 ان کی مرضی سے الگ مرضیِ رب کون سی ہے؟

ایک سے لگتے ہیں سب شاہ و گدا اے کیفی 
ان کے گھر فوقیت نام و نسب کون سی ہے؟

کیفی سنبھلی



شرقی امروہوی

یوم پیدائش 30 جون 1905

اک آس لگی رہتی ہے ناکارہ نظر سے
کچھ روزن دیوار سے کچھ پردہِ در سے 

شرقی امروہوی



احمد وقاص

یوم پیدائش 29 جون 1984

کہیں کوئی عذاب زیست آ نہ لے 
اسے کہو ہماری بد دعا نہ لے 

وہ چاہتا ہے قتل عام بھی کرے 
مگر کوئی بھی اس سے خوں بہا نہ لے

وہ کہہ رہا ہے دل میں گھر بنائے گا 
مجھے یہ خوف ہے کہیں بنا نہ لے 

وہ جس طرح ہے کار عشق میں مگن 
میں ڈر رہا ہوں اپنا دل دکھا نہ لے

جسے بدن سمجھ رہا ہے آگ ہے 
کہیں وہ اپنی انگلیاں جلا نہ لے

احمد وقاص



پرنم الہ آبادی

یوم وفات 29 جون 2009

بھر دو جھولی مری یا محمدؐ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی 
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو در پہ آیا ہوں بن کر سوالی 

حق سے پائی وہ شان کریمی مرحبا دونوں عالم کے والی 
اس کی قسمت کا چمکا ستارہ جس پہ نظر کرم تم نے ڈالی 

زندگی بخش دی بندگی کو آبرو دین حق کی بچا لی 
وہ محمدؐ کا پیارا نواسا جس نے سجدے میں گردن کٹا لی 

حشر میں ان کو دیکھیں گے جس دم امتی یہ کہیں گے خوشی سے 
آ رہے ہیں وہ دیکھو محمدؐ جن کے کاندھے پہ کملی ہے کالی 

عاشق مصطفی کی اذاں میں اللہ اللہ کتنا اثر تھا 
عرش والے بھی سنتے تھے جس کو کیا اذاں تھی اذان بلالی 

کاش پرنمؔ دیار نبی میں جیتے جی ہو بلاوا کسی دن 
حال غم مصطفیٰ کو سناؤں تھام کر ان کے روضے کی جالی

پرنم الہ آبادی


 

Tuesday, June 28, 2022

عثمان عرشی

یوم پیدائش 28 جون 1938

آج کل بے چہرگی کا زور ہے
ریزہ ریزہ ہوگیا ہے آئینہ

عثمان عرشی



صبا اکرام

یوم پیدائش 28 جون 1945

آواز کے پتھر جو کبھی گھر میں گرے ہیں 
آسیب خموشی کے صباؔ چیخ پڑے ہیں 

پازیب کے نغموں کی وہ رت بیت چکی ہے 
اب سوکھے ہوئے پتے اس آنگن میں پڑے ہیں 

چھپ جائیں کہیں آ کہ بہت تیز ہے بارش 
یہ میرے ترے جسم تو مٹی کے بنے ہیں 

اس دل کی ہری شاخ پہ جو پھول کھلے تھے 
لمحوں کی ہتھیلی پہ وہ مرجھا کے گرے ہیں 

اس گھر میں کسے دیتے ہو اب جا کے صدائیں 
وہ ہارے تھکے لوگ تو اب سو بھی چکے ہیں

صبا اکرام


 

رحمت النساء ناز

یوم پیدائش 28 جون 1932

جب دل کا درد منزلِ شب سے نکل گیا
محسوس یہ ہوا کوئی طوفان ٹل گیا

اب تو ہے صرف آمدِ فصلِ بہار یاد
دل ایک پھول تھا جو سرِ شاخ جل گیا

جب تک کسی کا نقشِ کفِ پا ہمیں ملا
ہم سے کچھ اور دور زمانہ نکل گیا

ہر گُل کے ساتھ ساتھ ہے اک پاسبانِ گُل
گُل چیں کو ارتباطِ گل و خار کھل گیا

کچھ رہروانِ شوق بھٹکنے سے بچ گئے
ہم کیا سنبھل گئے کہ زمانہ سنبھل گیا

ممکن نہیں کہ بزمِ طرب تک پہنچ سکیں
اب کاروانِ شوق کا رستہ بدل گیا

اے نازؔ غم نہیں جو فرشتہ نہ بن سکا
کیوں اہرمن کے روپ میں انسان ڈھل گیا

رحمت النساء ناز


 

سنبل چودھری

یوم پیدائش 27 جون

حصے میں کب تھا اب تجھے جتنا پہن لیا
کم فائدہ ذیادہ خسارہ پہن لیا

سب کو مقامِ خاص دیا ایک وقت تک
پھر میں نے سب سے جو ملا دھوکا ، پہن لیا

میں نے سنی تھی داستان اک دن فراق کی
وحشت سے خود پہ خون کا دریا پہن لیا

گونگے کی خامشی مجھے روداد لگتی ہے
میں نے تبھی تو چپ کا لبادہ پہن لیا

کم سے نہ جاؤں میں بھی ذیادہ کے واسطے
جتنا مجھے ملا تھا تُو ، اتنا پہن لیا

سنبل چودھری



نزہت عباسی

یوم پیدائش 27 جون 1971

رویے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں 
وہی جو جان سے پیارے ہیں رشتے مار دیتے ہیں 

کبھی برسوں گزرنے پر کہیں بھی کچھ نہیں ہوتا 
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لمحے مار دیتے ہیں 

کبھی منزل پہ جانے کے نشاں تک بھی نہیں ملتے 
جو رستوں میں بھٹک جائیں تو رستے مار دیتے ہیں 

کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے 
ادھورے نا مکمل سے یہ قصے مار دیتے ہیں 

ہزاروں وار دنیا کے سہے جاتے ہیں ہنس ہنس کے 
مگر اپنوں کے طعنے اور شکوے مار دیتے ہیں 

مجھے اکثر یہ لگتا ہے کہ جیسے ہوں نہیں ہوں میں 
مجھے ہونے نہ ہونے کے یہ خدشے مار دیتے ہیں 

کبھی مرنے سے پہلے بھی بشر کو مرنا پڑتا ہے 
یہاں جینے کے ملتے ہیں جو صدمے مار دیتے ہیں 

بہت احساں

جتانے سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے 
بہت ایثار و قربانی کے جذبے مار دیتے ہیں 

کبھی طوفاں کی زد سے بھی سفینے بچ نکلتے ہیں 
کبھی سالم سفینوں کو کنارے مار دیتے ہیں 

وہ حصہ کاٹ ڈالا زہر کا خدشہ رہا جس میں 
جو باقی رہ گئے مجھ میں وہ حصے مار دیتے ہیں 

جو آنکھوں میں رہیں نزہتؔ وہی تو خواب اچھے ہیں 
جنہیں تعبیر مل جائے وہ سپنے مار دیتے ہیں

نزہت عباسی


زاہد الحق

یوم پیدائش 26 جون 1977

الزام بتا کون مرے سر نہیں آیا 
حصے میں مرے کون سا پتھر نہیں آیا 

ہم جو بھی ہوئے ہیں بڑی محنت سے ہوئے ہیں 
کام اپنے کبھی اپنا مقدر نہیں آیا 

کچھ اور نہیں بس یہ تو مٹی کا اثر ہے 
ظالم کو کبھی کہنا ہنر ور نہیں آیا  

غزلیں تو بہت کہتے ہو لیکن میاں زاہدؔ 
اب تک تمہیں بننا بھی سخنور نہیں آیا

زاہد الحق


 

سعید رحمانی

یوم پیدائش 26 جون 1938

برہم مزاج ہونے لگا رہنماؤں کا
جاری ہے ہم پہ سلسلہ ان کی جفاؤں کا

آنے لگی ہیں شہری ہوائیں جو اس طرف
چہرہ بدلتا جاتا ہے اب میرے گاؤں کا

شہرِ ستم کی دھوپ لگی کرنے بدحواس
سب ڈھونڈنے لگے ہیں پتہ ٹھنڈی چھاؤں کا

اہلِ زمیں کے مسئلے باقی ہیں آج تک
کچھ لوگ سیر کرتے ہیں لیکن خلاؤں کا

محفوظ مجھ کو رکھتا ہے شدت کی دھوپ سے
ہے سر پہ سائبان جو ماں کی دعاؤں کا

خاموشیوں کی کھوج میں نکلا ہوں میں سعیدؔ
پیچھے ہے میرے کارواں تیکھی صداؤں کا

سعید رحمانی


رئیس اختر

یوم پیدائش 26 جون 1933
شمع رسالت کے پروانوں سے

ہردَور میں مردِ مومن ہی ، تاریخ کا عنواں کہلائے
قربان دل و جاں کر ڈالو جب نامِ محمدؐ آ جائے

 پھر روحِ عمل، پیغامِ وفا ، ہر ساز نفس تھّرائے
  ٹہری ہوئی غم کی راتوں میں اک نور کا پرچم لہرائے
  
ہر عزم و عمل سے ہو پیدا ، تعمیر و ترقی کا عالم
 ہر گام تمہارا دنیا کو ، کردار کا مطلب سمجھائے

ایماں کی حرارت سے اک دن یخ بستہ اندھیرے پگھلیں گے
کیوں وقت کا شکوہ ہو تم کو کیوں درد کا سورج گہنائے

پھر تازہ لہو امیدوں کا ، کانٹوں کی رگوں میں دوڑا دو
پھر جوشِ عمل ان راہوں میں تقدیرِ گلستان کہلائے

آوازِاذاں میں لرزاں ہے پیغام نبوت کا جلوہ
 ہمراہ ابھی تک چلتے ہیں، اُمیدِ شفاعت کے سائے
 
تم بندۂ حق ہو پھر تم سے ، قرآن کے اُجالے کہتے ہیں
جینے کی قسم اس طرح جیو خود موت بھی تم سے گھبرائے

 مسعود و مبارک ہے کتنا انساں کیلئے یہ آج کا دن
 ہرسانس رئیس اختر میری، اظہارِ عقیدت بن جائے
 
رئیس اختر



اطہر عزیز

یوم پیدائش 25 جون 1944

ابھرا جو چاند اونگھتی پرچھائیاں ملیں 
ہر روشنی کی گود میں تنہائیاں ملیں 

شہر وفا میں ہم جو چلے آئے دفعتاً 
ہر ہر قدم پہ درد کی شہنائیاں ملیں 

غنچے ہنسے تو حسن کا کوسوں پتہ نہ تھا 
روٹھی ہوئی کچھ ایسی بھی رعنائیاں ملیں 

ذہن خلش سے دیکھا جو ایوان خواب کو 
خواہش کو پوجتی ہوئی انگنائیاں ملیں 

خوشبو کے ریگ زار میں کیا جانے کیا ملے 
یادوں کے آئنے میں تو انگڑائیاں ملیں

اطہر عزیز


 

مہر افروز

یوم پیدائش 25 جون

تم نے جو پوچھا ہے تو سچ بات بتا دی جائے 
کیا کہ بیتے ہوئے لمحوں کو سزا دی جائے

گرچہ موجود زمیں پر ہیں طلبگار بہت 
دل میں جس شخص کی چاہت ہے، بجھا دی جائے؟

وقت زندان سا ہے، لمحے ہیں زنجیر بہ کف 
 یہ ہوا آج زمانے میں اڑا دی جائے؟

تاج گل کی ہیں طلب رکھتے زمانے والے 
مالا خاروں کے انھیں آج تھما دی جائے!!

یاد کی ریت پھسلتی ہی رہی تارۂ شب
دن کو یہ ریت ہوائوں میں ملا دی جائے؟

داستاں لکھتے رہے چشم بہ نم عمر تمام
سبھی اوراق جلا کر جو ہوا دی جائے

شب کی آوارگی و دشت نوردی دن کی 
میری تخلیق کے پہلو میں سلا دی جائے

آئینہ بن کے سسکتی ہوئی آنکھیں میری
محفل یار ،کہ پھر آج سجادی جائے

میں ہوں گرداب، تماشائی ہو تم ساحل کے 
دیکھنا زور ،سمندر میں جو وادی آئے

دل کی نگری ہوئی پھر آج دعا کا مسکن 
کیوں نہ پھر آج محبت کو دعا دی جائے 

ہوگئے آج سے بس صاحبِ عرفاں ہم بھی 
یہ بھی افواہ سرِ ہجر اڑادی جائے

منتظر دید کے ہیں مہر زمانے والے 
منتظر عید کے کہتے ہیں فسادی جائے 

مہر افروز

 

 

عظیم الدین احمد

یوم پیدائش 25 جون 1880
نظم موت و حیات 

ایک دھوکا ہے سمجھتے ہو جسے موت و حیات 
غور سے دیکھو نہ جیتا ہے نہ مرتا کوئی 

آہ کچھ کھیل نہیں عالم امکاں کا وجود 
ذرہ ذرہ میں چمکتا ہے خود آرا کوئی 

پردۂ عالم تکویں میں چھپا کر خود کو 
انجمن بند ہوا ہے چمن آرا کوئی 

آپ ہر رنگ میں کرتا ہے تماشا اپنا
یاں نہ گلشن ہے نہ دریا ہے نہ صحرا کوئی 

موت وہ کھیل ہے جس میں نہیں چھینا جھپٹی 
نہ خوشی سے مگر اس کھیل کو کھیلا کوئی 

زندگی کھیل کے پردے کا وہ رخ ہے جس سے 
جھانک کر اپنا تماشا ہے دکھاتا کوئی

عظیم الدین احمد



م۔لئیق انصاری

یوم پیدائش 25 جون

آ گیا ہے اب دل صدچاک سے ہوتا ہوا
ایک آنسو دیدہء نمناک سے ہوتا ہوا

جسم خوں آلود میرا دیکھ کر پوچھو نہ کچھ
آ رہا ہوں بستئ سفاک سے ہوتا ہوا

عالم وارفتگی میں آج دیوانہ ترا
تجھ تک آیا ہے خس و خاشاک سے ہوتا ہوا

منزل انسانیت تک آج آخر آ گیا
خاک کا پتلا غبار خاک سے ہوتا ہوا

آخرش آ کر مری غزلوں کی زینت بن گیا
میرا لہجہ وسعت افلاک سے ہوتا ہوا

دشت و صحرا ہی نہیں منزل پہ اپنی میں لئیق
آ گیا ہوں عالم ادراک سے ہوتا ہوا

  م۔لئیق انصاری



فراز شاہد

یوم پیدائش 24 جون 2001

خون پیتی ہے پیاس پانی کی 
واہ کیا بات ہے جوانی کی 

در حقیقت وہ اس کی دوزخ ہے 
ہم سمجھتے ہیں موج زانی کی 

یونہی دریا خراب کر ڈالا 
پیاس تھی چند گھونٹ پانی کی 

دھیرے دھیرے بنا خدا پہ یقین 
پہلے تو سب نے بد گمانی کی 

میری کوشش تو صرف اتنی ہے 
مجھ پہ قسمت نے مہربانی کی

اپنا کردار ہے سفر ہی سفر 
کوئی منزل نہیں کہانی کی 

میں کہ ایماندار تھا شاہد
زندگی نے غلط بیانی کی

فراز شاہد


 

افضل منہاس

یوم پیدائش 23 جون 1923

پہلے دھڑکن چھین کر انساں کو پتھرایا گیا
پھر نمائش کے لئے بازار میں لایا گیا

خالی کاسہ دے کے اک اندھے بھکاری کیطرح
دوسروں کے سامنے ہاتھ اس کا پھیلایا گیا

وقت نے مٹی کی دیرینہ رفاقت چھین لی
بد نصیبی دیکھئے دلدل میں دفنایا گیا

ہر نئی تہذیب ناگن بن کے اس کو ڈس گئی
کانچ کے برتن میں اس کو زہر پلوایا گیا

کہنا چاہا اس نے کچھ تو کٹ گئی اسکی زباں
کچھ لکھا اس نے تو دیواروں میں چنوایا گیا

افضل منہاس



Saturday, June 25, 2022

عزیز بگھروی

یوم پیدائش 23 جون 1932

ہم پرچمِ حیات اٹھائے ہوئے تو ہیں
آنکھیں ستم گروں سے ملائے ہوئے تو ہیں

ہر چند زخم زخم ہیں یہ رہروانِ شوق
کانٹوں سے پیرہن کو سجائے ہوئے تو ہیں

بے چہرہ ہو کے رہ گئے فن کار آج کے
ہم اپنا ایک نقش بنائے ہوئے تو ہیں

ہوں کامیابِ شوق کہ اب نامرادِ شوق
بازی سروں کی اپنے لگائے ہوئے تو ہیں

ظلمت کدے میں وہم و گماں کے عزیزؔ ہم
قندیل آگہی کی جلائے ہوئے تو ہیں

عزیز بگھروی



عبدالرحمٰن انصآر

یوم پیدائش 22 جون 1996

بھول بیٹھا ہوں دنیا داری کو 
تجھ کو چاہا ہے اس قدر میں نے

سرخ آنکھوں کی بس وجہ یہ ہے
تجھ کو سوچا ہے رات بھر میں نے

جانتا تھا کہ ہم جدا ہونگے
پھر بھی چاہا تجھے مگر میں نے

اپنے ہاتھوں سے کر دیا رخصت
جس کو چاہا ہے عمر بھر میں نے

عبدالرحمٰن انصآر



ثمر دہلوی

یوم پیدائش 21 جون 1899

کہتا ہے ان کا شعلہ عارض حجاب میں
ہم تو نہیں رہیں گے مقید نقاب میں

پھر ان کی یاد لیتی ہے سینے میں چٹکیاں
پھر درد سا اٹھا دلِ خانہ خراب میں

سب ختم کر دی اس نے محبت کی داستاں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں

وہ ان کا خوابِ ناز میں شورش فزا سکوں
یہ میری خامشی کی روش اضطراب میں

ہے کشمکش ہی زیست کی وجہ قیامِ زیست
پنہاں سکوتِ قلب ہے پھر اضطراب میں

شکوہ بتوں سے جور کا ہے اے ثمر فضول
میں مبتلا ہوں اپنے ہی دل کے عذاب میں

ثمر دہلوی



سہیل اقبال

یوم پیدائش 21 جون 1972

جب بھی تیرا شباب لکھتا ہوں
حسرتوں کو عذاب لکھتا ہوں

تُو نے پوچھا نہ جو سوال کبھی
میں اُسی کا جواب لکھتا ہوں

کیا حقیقت ہے تیرے وعدوں کی
میں تو جیون کو خواب لکھتا ہوں

اپنے کھاتے میں ڈال کر کانٹے
تیری خاطر گلاب لکھتا ہوں

تجھ سے منسوب ہو ہی جاتی ہے
میں جو کوئی کتاب لکھتا ہوں

میرے نغموں میں رنج و غم ہی سہی
میں مگر ، لاجواب لکھتا ہوں

کانپ جاتا ہوں جب کبھی میں سہیلؔ
فکرِ روز ِحساب لکھتا ہوں

سہیل اقبال



شاعر علی شاعر

یوم پیدائش 20 جون 1966

چرچا ہر ایک آن ہے اردو زبان کا 
گرویدہ کل جہان ہے اردو زبان کا 

اس لشکری زبان کی عظمت نہ پوچھیے 
عظمت تو خود نشان ہے اردو زبان کا 

گمنامیوں کی دھوپ میں جلتا نہیں کبھی 
جس سر پہ سائبان ہے اردو زبان کا 

مشرق کا گلستاں ہو کہ مغرب کا آشیاں 
ویران کب مکان ہے اردو زبان کا 

سوداؔ و میرؔ و غالبؔ و اقبالؔ دیکھ لو 
ہر ایک پاسبان ہے اردو زبان کا 

اردو زبان میں ہے گھلی شہد کی مٹھاس 
لہجہ بھی مہربان ہے اردو زبان کا 

ترویج دے رہا ہے جو اردو زبان کو 
بے شک وہ باغبان ہے اردو زبان کا 

مہمان کہہ رہا ہے بڑا خوش نصیب ہے 
جو شخص میزبان ہے اردو زبان کا 

لوگو کہیں بھی اس میں پس و پیش کچھ نہیں 
اک معترف جہان ہے اردو زبان کا 

بولی ہے رابطے کی یہی جوڑتی ہے دل 
ہر دل میں ایسا مان ہے اردو زبان کا 

وسعت پذیر دامن اردو ہے آج بھی 
ہر گوشہ اک جہان ہے اردو زبان کا 

کرتا ہے آبیاری لہو سے ادیب جو 
وہ دل ہے جسم و جان ہے اردو زبان کا 

آئیں رکاوٹیں جو ترقی میں اس کی کچھ 
سمجھو یہ امتحان ہے اردو زبان کا 

پائے گا جلد منزل مقصود بالیقیں 
جاری جو کاروان ہے اردو زبان کا 

عزت سخنوران ادب کی اسی ہے 
شاعرؔ بھی ترجمان ہے اردو زبان کا

شاعر علی شاعر


 

محبوب راہی

یوم پیدائش 20 جون 1939

اچھے نہیں ہیں وقت کے تیور مرے عزیز
رہنا ہے اپنی کھال کے اندر مرے عزیز

تیری منافقت پہ مجھے کوئی شک نہیں
میرے رفیق میرے برادر مرے عزیز

آ تیری تشنگی کا مداوا ہے میرے پاس
میرا لہو حلال ہے تجھ پر مرے عزیز

احساس جس کا نام ہے وہ چیز مستقل
چبھتی ہے میرے ذہن کے اندر مرے عزیز

اور اس میں تیر کر مجھے ہونا ہے سرخ رو
درپیش ہے لہو کا سمندر مرے عزیز

نادان واہموں کے تعاقب سے باز آ
کوئی نہیں کسی کا یقیں کر مرے عزیز

ممکن جو ہو تو اس سے رہائی دلا مجھے
مجھ پر ہے بار دوش مرا سر مرے عزیز

اظہار حق سے باز کب آتے ہیں ایسے لوگ
راہیؔ ہو یا ہوں شادؔ و مظفرؔ مرے عزیز

محبوب راہی


 

شمیم عباس

یوم پیدائش 19 جون 1948

بڑی سرد رات تھی کل مگر بڑی آنچ تھی بڑا تاؤ تھا
سبھی تاپتے رہے رات بھر ترا ذکر کیا تھا الاؤ تھا

وہ زباں پہ تالے پڑے ہوئے وہ سبھی کے دیدے پھٹے ہوئے
بہا لے گیا جو تمام کو مری گفتگو کا بہاؤ تھا

کبھی مے کدہ کبھی بت کدہ کبھی کعبہ تو کبھی خانقاہ
یہ تری طلب کا جنون تھا مجھے کب کسی سے لگاؤ تھا

چلو مانا سب کو تری طلب چلو مانا سارے ہیں جاں بلب
پہ ترے مرض میں یوں مبتلا کہیں ہم سا کوئی بتاؤ تھا

یہ مباحثے یہ مناظرے یہ فساد خلق یہ انتشار 
جسے دین کہتے ہیں دین دار مری روح پر وہی گھاؤ تھا

مجھے کیا جنون تھا کیا پتا جو جہاں کو روندتا یوں پھرا
کہیں ٹک کے میں نے جو دم لیا تری ذات ہی وہ پڑاؤ تھا

شمیم عباس 



مرزا راحل

یوم پیدائش 19 جون 

ڈھونڈ لیتا ہوں وجہ کوئی نبھانے کے لیے
ورنہ باتیں ہیں کئی چھوڑ کے جانے کے لیے

ہم تھے خود دار سو گمنام رہے ساری عمر 
لوگ کم ظرف بنے نام کمانے کے لیے 

تیرے میسج کو سنبھالا ہے بڑی مدت سے 
دل مچل جائے تو اوقات دکھانے کے لیے 

تو یہ سمجھیں کہ اثر دل پہ نہیں ہوتا ہے
جب کہ پھر موت تو عبرت ہے زمانے کے لیے 

وہ جو بے نام سا اک ربط تھا اب ختم کریں 
خط کے اوراق نکالے ہیں جلانے کے لیے

جب ترے شہر میں عشاق کا مجمع ہوگا
ہم بھی آئیں گے وہاں شعر سنانے کے لیے 

ٹھوکریں کھا کے جو سجدے میں گرا اتنا کہا 
معذرت میرے خدا دیر سے آنے کے لیے

 مرزا راحل
۔

 

آدتیہ پنت ناقد

یوم پیدائش 19 جون 1971

صداقت کی یہاں عزت نہیں ہے 
وفاداری کی کچھ قیمت نہیں ہے 

جہاں سے وہ گیا تھا میں وہیں ہوں 
مگر جینے میں وہ لذت نہیں ہے 

زباں پہ تلخیاں آنکھوں میں غصہ 
مگر کردار میں خست نہیں ہے 

وقار اپنا نہیں کوتاہ لیکن 
ترے رتبے سی بھی قامت نہیں ہے 

رہے مٹی کی خوشبو یاد ہر دم 
تو سانسیں روکتی غربت نہیں ہے 

جہالت میں پلی دنیا میں شاید 
تعقل سے بڑی نعمت نہیں ہے 

چلا چل سر اٹھا کر یار ناقدؔ 
لگی اب تک کوئی تہمت نہیں ہے

آدتیہ پنت ناقد



ابرار کرتپوری

یوم وفات 18جون 2022
نعت

ارتقا کا ،روشنی کا ،خواب کا، تعبیر کا
دینِ احمدؐ راستہ ہے سر بسر تعمیر کا 

روشنی کی منزلیں پنہاں علومِ نو میں ہیں
ہے حصول ِعلم و دانش راستہ تنویر کا

آئیے اب چاند تاروں پر کمندیں ڈال دیں
آیۂ قرآں میں ہم کو حکم ہے تسخیر کا

عظمت ِانساں بھی معراج کی بے مثل ِشب 
اور کمالِ ارتقا سائنس کی تدبیر کا

سب کتابوں سے بشارت جن کے آنے کی ملی
نامِ احمدؐ ہے ہمارے صاحب ِتطہیر کا 

آپؐ کے کردار کا سکہّ جما ہے ہر طرف
دو جہاں میں غلغلہ ہے خلق کی تاثیر کا

بھیجتا ہے خالقِ اکبر محمدؐ پر درود
ہے علَم اونچا مرے سرکار کی توقیر کا

ابرار کرتپوری


اظہر نواز

یوم پیدائش 18 جون 1995

ملتے جلتے ہیں یہاں لوگ ضرورت کے لئے 
ہم ترے شہر میں آئے ہیں محبت کے لئے 

وہ بھی آخر تری تعریف میں ہی خرچ ہوا 
میں نے جو وقت نکالا تھا شکایت کے لئے 

میں ستارہ ہوں مگر تیز نہیں چمکوں گا 
دیکھنے والے کی آنکھوں کی سہولت کے لئے 

تم کو بتلاؤں کہ دن بھر وہ مرے ساتھ رہا 
ہاں وہی شخص جو مشہور ہے عجلت کے لئے 

سر جھکائے ہوئے خاموش جو تم بیٹھے ہو 
اتنا کافی ہے مرے دوست ندامت کے لئے 

وہ بھی دن آئے کہ دہلیز پہ آ کر اظہرؔ 
پاؤں رکتے ہیں مرے تیری اجازت کے لئے

اظہر نواز



ادیب سہیل

یوم پیدائش 18 جون 1927

کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے 
گم گشتہ اپنی ذات کے اندر ملا مجھے 

کس پیار سے گیا تھا تری آستیں کے پاس 
شاخ حنا کی چاہ میں خنجر ملا مجھے 

اس ظلمت حیات میں اک لفظ پیار کا 
جب مل گیا تو ماہ منور ملا مجھے 

صورت‌ گران عصر کا تھا انتظار کش 
تیری رہ طلب میں جو پتھر ملا مجھے 

روز ازل سے کار گہہ ہست میں سہیلؔ 
دل ہی غم حیات کا محور ملا مجھے

ادیب سہیل



بشریٰ اعجاز

یوم پیدائش 18 جون 1959

محبت میں کوئی صدمہ اٹھانا چاہئے تھا 
بھلایا تھا جسے وہ یاد آنا چاہئے تھا 

گری تھیں گھر کی دیواریں تو صحن دل میں ہم کو 
گھروندے کا کوئی نقشہ بنانا چاہئے تھا 

اٹھانا چاہئے تھی راکھ شہر آرزو کی
پھر اس کے بعد اک طوفان اٹھانا چاہئے تھا 

کوئی تو بات کرنا چاہئے تھی خود سے آخر
کہیں تو مجھ کو بھی یہ دل لگانا چاہئے تھا 

کبھی تو اہتمام آرزو بھی تھا ضروری 
کوئی تو زیست کرنے کا بہانا چاہئے تھا 

مری اپنی اور اس کی آرزو میں فرق یہ تھا 
مجھے بس وہ اسے سارا زمانہ چاہئے تھا

بشریٰ اعجاز


معین لہوری رمزی

یوم پیدائش 17 جون 1951

خاموش  نگاہوں میں بھی پیغام بہت ہیں
اور عشق و محبت  کے بھی اصنام  بہت ہیں

تم شہرِ وفا میں رہو نظریں بھی جھکائے
بک جائیں یہ دل شہر میں بے دام  بہت ہیں

ہم ہی نہیں اس شہر میں لاکھوں ہی پڑے ہیں
مردانِ وفا شہر میں گل فام بہت ہیں

ہم  عزت و ناموسِ  نساء رکھتے  ہیں دل میں
چلنا ہو اگر ساتھ تو دو گام بہت ہیں

الفت کی نظر متمعِ  عشاق بہت  ہے
اور عشق میں جو پھنس گئے بدنام بہت ہیں

دل جیت کے جو حد میں  رہے  مرد  وہی ہے
تو عزت و توقیر بھی انعام  بہت ہیں

مرزے کی کہانی میں ہوا جو بھی ہوا  تھا
صحباں کی محبت میں یہ دشنام بہت ہیں

ہو سچی محبت  تو ہیں دشمن بھی ہزاروں
رانجھے کے لئے کہدو کے اقدام  بہت ہیں

معین لہوری رمزی



علیم اللہ حالی

یوم پیدائش 17 جون 1940

اس کا غم اپنی طلب چھین کے لے جائے گا
درد بن کر مری رگ رگ میں اتر آئے گا

ریگزاروں سے پرے کھینچ رہا ہے کوئی
جانے کس دشت میں دریا مجھے بھٹکائے گا

بھول جاؤں گا میں جب اپنی نواؤں کی کسک
اس کی آنکھوں میں لہو میرا اتر آئے گا

کوئی پتھر کا نشاں رکھ کے جدا ہوں ہم تم
جانے یہ پیڑ کس آندھی میں اکھڑ جائے گا

ساتھ ہو جا کہ امنڈتی ہوئی لہریں ہیں قریب
جب اتر جائے گا دریا تجھے تڑپائے گا

میں اسی موڑ پہ مل جاؤں گا حالی تجھ سے
تو جہاں بھیڑ میں گم ہو کے بچھڑ جائے گا

علیم اللہ حالی



کاشف علی کاشف

یوم پیدائش 17 جون 1978

دلوں پر حکمرانی ہو رہی ہے
محبت جادوانی ہو رہی ہے

یہ صحرا سانس لینے لگ گیا اور
یہ ریت اب زندگانی ہو رہی ہے

ندی نے گیت ایسا گنگنایا
کہ رُت بھی پانی پانی ہو رہی ہے

یہ نیلاہٹ ہے آب و گُل میں کیسی
زمیں کیا آسمانی ہو رہی ہے

بدلتا جا رہا ہے عشق کاشف
وہ دیوانی ، دیوانی ہو رہی ہے

کاشف علی کاشف



اختر رضا سلیمی

یوم پیدائش 16جون 1974

تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے 
کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے 

پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم 
کسی گلی سے گزرتے ہوئے زمانے لگے 

مرا خیال تھا یہ سلسلہ دیوں تک ہے 
مگر یہ لوگ مرے خواب بھی بجھانے لگے 

نجانے رات ترے مے کشوں کو کیا سوجھی 
سبو اٹھاتے اٹھاتے فلک اٹھانے لگے 

وہ گھر کرے کسی دل میں تو عین ممکن ہے 
ہماری در بدری بھی کسی ٹھکانے لگے 

میں گنگناتے ہوئے جا رہا تھا نام ترا
شجر حجر بھی مرے ساتھ گنگنانے لگے 

حدود دشت میں آبادیاں جو ہونے لگیں 
ہم اپنے شہر میں تنہائیاں بسانے لگے 

دھواں دھنک ہوا انگار پھول بنتے گئے 
تمہارے ہاتھ بھی کیا معجزے دکھانے لگے 

رضاؔ وہ رن پڑا کل شب بہ رزم گاہ جنوں 
کلاہیں چھوڑ کے سب لوگ سر بچانے لگے

اختر رضا سلیمی



اقبال ماہر

یوم پیدائش 16 جون 1919

 گل کی خوشبو کی طرح آنکھ کے آنسو کی طرح 
دل پریشان ہے گرد رمِ آہو کی طرح

زلف گیتی کو بھی آئینہ و شانہ مل جائے
تم سنور جاؤ جو آرائشِ گیسو کی طرح

رقص کرتا ہے زر و سیم کی جھنکار پہ فن
مرمریں فرش پہ بجتے ہوئے گھنگرو کی طرح

آج بھی شعبدۂ اہلِ ہوس ہے انصاف
 دست بقّال میں پُرکار ترازو کی طرح 

آج یہ شام ہے مسموم دھوئیں کی مانند
کل یہی وقت تھا مہکے ہوئے گیسو کی طرح

 جو گل اندام مکینوں کو ترستے ہیں ہنوز
 شہر میں کتنے کھنڈر ہیں مرے پہلو کی طرح
 
 مدتوں ضبطِ محبت نے سنبھالا ہم کو
 تیرا دامن جو ملا گر گئے آنسو کی طرح
 
توڑ دیتی ہے سیاہ فام فضاؤں کا جمود
 یاد آکر تری اُڑتے ہوئے جگنو کی طرح
 
 ان گنت موڑ، صعوباتِ سفر راہ طویل
 کون اب دے گا سہارا ترے بازو کی طرح
 
محشرستانِ سکوں ہے مری ہستی ماهر
کسی شہباز کے ٹوٹے ہوئے بازو کی طرح

 اقبال ماہر

آفاق مرزا آفاق

یوم پیدائش 15 جون 1942

جو غم نہ ہوتا تو کیا لذتِ خوشی ہوتی
بجز نفس کے یہ بے کیف زندگی ہوتی

نہ ہوتا بلبلِ دل سوختہ کو گل کا خیال
نگاہ روئے خزاں پر نہ جو جمی ہوتی

بجا کیا جو چھپا رکھا یوں زمانے سے
ظہورِ عشق جو ہوتا تو پھر ہنسی ہوتی

سمجھ ہی لیتا زمانہ جو رازِ الفت تو
نہ بر تری نہ ہی احساسِ کمتری ہوتی

بجھا بجھا سا ہے کیوں جانے زخمِ دل کا چراغ
لہو پلاتے تو کچھ دیر روشنی ہوتی

خزاں نے لوٹا نہ ہوتا اگر چمن آفاقؔ
لبوں پہ غنچئہ دل سوز کے ہنسی ہوتی

آفاق مرزا آفاق 



امام احمد رضا خان بریلوی ؒ

یوم پیدائش 14جون 1856

یا الٰہی! ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شہِ مشکل کشا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو
شادیِ دیدارِ حُسنِ مصطفیٰ ؐکا ساتھ ہو

یا الٰہی! گورِ تیرہ کی جب آئے سخت رات
اُن کے پیارے منھ کی صبحِ جاں فزا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب پڑے محشر میں شورِ دار و گیر
امن دینے والے پیارے پیشواکا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب زبانیں باہر آئیں پیاس سے
صاحبِ کوثر شہِ جود و عطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! سرد مہری پر ہو جب خورشیدِ حشر
سیّدِ بے سایہ کے ظِلِّ لِوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! گرمیِ محشر سے جب بھڑکیں بدن
دامنِ محبوبؐ کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! نامۂ اعمال جب کھلنے لگیں
عیب پوشِ خلق، ستّارِ خطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں
اُن تبسّم ریز ہونٹوں کی دُعا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب حسابِ خندۂ بے جا رُلائے
چشمِ گریانِ شفیعِ مُرتجٰی کا ساتھ ہو

یا الٰہی! رنگ لائیں جب مِری بے باکیاں
اُن کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب چلوں تاریک راہِ پل صراط
آفتابِ ہاشمی نور الہُدیٰ کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے
رَبِّ سَلِّمْ کہنے والے غم زُدا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جو دعائے نیک میں تجھ سے کروں
قدسیوں کے لب سے آمیں رَبَّنَا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب رؔضا خوابِ گراں سے سر اٹھائے
دولتِ بیدار عشقِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو

امام احمد رضا خان بریلوی ؒ



تمنا عمادی

یوم پیدائش 14 جون 1888

ساقی گھٹا ہے صحن چمن ہے بہار ہے
اب کار خیر میں تجھے کیا انتظار ہے

تمنا عمادی

 

 

عبید اللہ علیم

یوم پیدائش 12 جون 1941

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھنچی ہوئی ہیں پس جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دے دی 
میں سنگ راہ ہوں مجھ پر عنایتیں کیسی 

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی

نہ صاحبان جنوں ہیں نہ اہل کشف و کمال
ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی

جو ابر ہے وہی اب سنگ و خشت لاتا ہے
فضا یہ ہو تو دلوں میں نزاکتیں کیسی

یہ دور بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی

عبید اللہ علیم



زہیر کنجاہی

یوم پیدائش 13 جون 1933

جینے کی ہے امید نہ مرنے کی آس ہے 
جس شخص کو بھی دیکھیے تصویر یاس ہے 

جب سے مسرتوں کی ہوئی جستجو مجھے 
میں بھی اداس ہوں مرا دل بھی اداس ہے 

لاشوں کا ایک ڈھیر ہے گھیرے ہوئے مجھے 
آباد ایک شہر مرے آس پاس ہے 

مجھ سے چھپا سکے گی نہ اپنے بدن کا کوڑھ 
دنیا مری نگاہ میں یوں بے لباس ہے 

یاران مے کدہ مرا انجام دیکھنا 
تنہا ہوں اور سامنے خالی گلاس ہے 

اب ترک آرزو کے سوا کیا کریں زہیرؔ 
اس دشت آرزو کی فضا کس کو راس ہے

زہیر کنجاہی


 

احمد خیال

یوم پیدائش 13 جون 1979

کوئی حیرت ہے نہ اس بات کا رونا ہے ہمیں
خاک سے اٹھے ہیں سو خاک ہی ہونا ہے ہمیں

پھر تعلق کے بکھرنے کی شکایت کیسی
جب اسے کانچ کے دھاگوں میں پرونا ہے ہمیں

انگلیوں کی سبھی پوروں سے لہو رستا ہے
اپنے دامن کے یہ کس داغ کو دھونا ہے ہمیں

پھر اتر آئے ہیں پلکوں پہ سسکتے آنسو
پھر کسی شام کے آنچل کو بھگونا ہے ہمیں

یہ جو افلاک کی وسعت میں لیے پھرتی ہے
اس انا نے ہی کسی روز ڈبونا ہے ہمیں

احمد خیال



پریم دھون

یوم پیدائش 13 جون 1923

سینے میں سلگتے ہیں ارماں آنکھوں میں اداسی چھائی ہے 
یہ آج تری دنیا سے ہمیں تقدیر کہاں لے آئی ہے
 
کچھ آنکھ میں آنسو باقی ہیں جو میرے غم کے ساتھی ہیں 
اب دل ہیں نہ دل کے ارماں ہیں بس میں ہوں مری تنہائی ہے 

نا تجھ سے گلہ کوئی ہم کو نا کوئی شکایت دنیا سے 
دو چار قدم جب منزل تھی قسمت نے ٹھوکر کھائی ہے
 
کچھ ایسی آگ لگی من میں جینے بھی نہ دے مرنے بھی نہ دے 
چپ ہوں تو کلیجہ جلتا ہے بولوں تو تری رسوائی ہے

پریم دھون

اظہر وارثی بہرائچی

یوم وفات 12 جون 1969

کلی کی خندہ لبی گل کی مشق سینہ دری
تمام حسن فسوں کارکی کرشمہ گری

قبائے سبز ملی ہے حنا کی سرخی کو
بیاض لالہ کو بخشی گئی حنا جگری

ہے گل کے عارض رنگیں پہ قطرہ شبنم
جبین صبح پہ جیسے ستارۂ سحری

ہے لالہ گوں شفق شام سے بہار کا رخ
مہ و نجوم نے لیلائے شب کی مانگ بھری

یہ سارے شعبدہ ہائے طلسم کچھ بھی نہیں
دراصل ہے مرے ذوق نظر کی در بدری

 اظہر وارثی بہرائچی


 

ایوب خاور

یوم پیدائش 12 جون 1948

بات یہ تیرے سوا اور بھلا کس سے کریں 
تو جفا کار ہوا ہے تو وفا کس سے کریں 

آئنہ سامنے رکھیں تو نظر تو آئے 
تجھ سے جو بات چھپانی ہو کہا کس سے کریں 

ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں 
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں 

زلف سے چشم و لب و رخ سے کہ تیرے غم سے 
بات یہ ہے کہ دل و جاں کو رہا کس سے کریں 

تو نہیں ہے تو پھر اے حسن سخن ساز بتا 
اس بھرے شہر میں ہم جیسے ملا کس سے کریں 

تو نے تو اپنی سی کرنی تھی سو کر لی خاورؔ 
مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کا گلہ کس سے کریں

ایوب خاور



ریاض ساغر

ستم یہ ہے شکستہ حال ہیں ہم اس ریاست میں،
ہمارے نام کا سکہ جہاں جاری رہا برسوں

ریاض ساغر

 

 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...