Urdu Deccan

Wednesday, June 30, 2021

ظہور احمد

 یوم پیدائش 30 جون

 

اپنے آئینہء احساس میں دیکھو مجھ کو

مجھ کو محسوس کرو مجھ سے نہ پوچھو مجھ کو


اک تبسم کے عوض جان بھی حاضر ہے مگر

اتنا ارزاں بھی نہیں ہوں کہ خریدو مجھ کو


رک گئے کیوں حد ادراک سے آگے جا کر

منظر دیدہء حیرت سے پکارو مجھ کو


قید گل سے بھی نکل جاوں گا خوشبو کی طرح

تم نہ بھنورے کی طرح پھول میں ڈھونڈو مجھ کو


میں بھی بکھرا ہوں کسی زلف پریشاں کی طرح

اپنے ہاتھوں سے کوئ آ کے سنوارو مجھ کو


ظہور احمد


فرخ نواز فرخ

 نہیں ہے پاس مگر تو دکھائی دیتا ہے

ترا خیال مجھے کب رہائی دیتا ہے


ترے لبوں سے ادا ہو اگر کوئی جملہ

مجھے وہ شعر کی صورت سنائی دیتا ہے


مرا گمان بدل جاتا ہے حقیقت میں

بغیر پوچھے جب اپنی صفائی دیتا ہے


گھٹا بھی دے یہ جدائی کا بے ثمر موسم

بھلا تو کیوں مجھے زخم جدائی دیتا ہے


قریب آ کے فقط ایک فکر لاحق ہے

وہ دل تک اپنے مجھے کب رسائی دیتا ہے


مرے رفیق مرے غم گسار تو ہی بتا

ہر ایک چہرے میں وہ کیوں دکھائی دیتا ہے


مری کتاب کی کوئی غزل اٹھا لے تو

ہر ایک شعر کا مصرع دہائی دیتا ہے


جو میری مانے تو فرخؔ اسے بھلا دے اب

وفا کے بدلے میں جو بے وفائی دیتا ہے 


فرخ نواز فرخ


کرار نوری

 یوم پیدائش 30 جون 1916


ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے

لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے


ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا

کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے


کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے

محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے


ہم زندگی کی جہد مسلسل کے واسطے

موجوں کی طرح سینۂ طوفاں میں ڈھل گئے


جب بھی کوئی فریب دیا اہل دہر نے

ہم اک نظر شناس کوئی چال چل گئے


حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح

تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے


ہم نے لچک نہ کھائی زمانے کی ضرب سے

گو حادثات دہر کی رو میں کچل گئے


نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں

ہم دامن حیات پکڑ کر مچل گئے


کرار نوری


خالق اخلاق

 یوم پیدائش 30 جون 


شفق ستارے دھنک کہکشاں بناتے ہوئے

وہ اس زمیں پہ ملا آسماں بناتے ہوئے


بھٹک نہ جائیں مرے بعد آنے والے لوگ

میں چل رہا ہوں زمیں پر نشاں بناتے ہوئے


چلو اب ان کی بھی بستی میں پھول بانٹ آئیں

جو تھک چکے ہیں یہ تیر و کماں بناتے ہوئے


مرے وجود کی رسوائیو تمہاری قسم

ہے دل میں خوف پھر اک رازداں بناتے ہوئے


جلائے ہاتھ تحفظ میں ورنہ آندھی سے

چراغ بجھ گیا ہوتا دھواں بناتے ہوئے


پڑا ہوا ہے وہ تاریکیوں کے ملبے میں

خیال و خواب میں اک کہکشاں بناتے ہوئے


یہی ہو اجر مرے کار خیر کا شاید

اکیلا رہ گیا خود کارواں بناتے ہوئے


زمیں پہ بیٹھ گیا تھک کے دو گھڑی خالدؔ

امیر لوگوں کی وہ کرسیاں بناتے ہیں


خالد اخلاق


Tuesday, June 29, 2021

روبن سن روبی

 یوم پیدائش 29 جون 1998


میں جدھر جاؤں کرتے جاتے ہیں

میری راہوں میں روشنی آنسو


چار چیزیں ہیں میرا سرمایہ

خامشی ، درد ، بے بسی آنسو


عشق آنکھوں کو نور دیتا ہے

اور دیتی ہے دل لگی آنسو


وہ کہاں راستہ بھٹکتے ہیں 

جن کی کرتے ہیں رہبری آنسو


تُو چلا ہے تو گِر کے پلکوں سے

کر گیا آج خودکشی آنسو


چاہتا ہوں خوشی کا کہلائے

ہے مِرے پاس آخری آنسو


روبن سن روبی


عامر زمان خان

 یوم پیدائش 29 جون 1969


لا شعوری سلسلوں کے درمیاں تھی زندگی

اِس مکاں سے اُس مکاں تک لامکاں تھی زندگی


ڈھونڈنے نکلوں گا اپنے آپ کو میں ایک دن

لا کے پھر رکھوں گا میں پہلے جہاں تھی زندگی


تیغ قاتل اب بنی ہے پہلے تو ایسی نہ تھی

آپ سے پہلے تو ہم پہ مہرباں تھی زندگی


 خان عامر


مجید امجد

 یوم پیدائش 29 جون 1914


دل سے ہر گزری بات گزری ہے

کس قیامت کی رات گزری ہے


چاندنی نیم وا دریچہ سکوت

آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے


ہائے وہ لوگ خوب صورت لوگ

جن کی دھن میں حیات گزری ہے


تمتماتا ہے چہرۂ ایام

دل پہ کیا واردات گزری ہے


کسی بھٹکے ہوئے خیال کی موج

کتنی یادوں کے سات گزری ہے


پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے

کہ نسیم حیات گزری ہے


بجھتے جاتے ہیں دکھتی پلکوں پہ دیپ

نیند آئی ہے رات گزری ہے


مجید امجد


رانا غلام محی الدین

 یوم پیدائش 29 جون 1950


رفاقتوں کی نئی مسندِ سعید پہ ہوں

میں کچھ دنوں سے، کسی کی صوابدید پہ ہوں


معاملہ ہی نہیں تجھ سے ، بھاؤ تاؤ کا 

ترے لئے تو ، اسی قیمتِ خرید پہ ہوں


بضد ہے وہ کہ قناعت ہو ، اک نگہ پر ہی 

پہ میں بھی میں ہوں ، ابھی لغزشِ مزید پہ ہوں


مجھے وہ ساعتِ موجود پر نہیں درکار

اسے یہ رنج ، کہ میں عرصہء بعید پہ ہوں 


ابھی وہ لمحہءِ روئیدگی نہیں آیا

ابھی میں موسمِ سر سبز کی نوید پہ ہوں


میں پیار تھا ، جو کہیں نفرتوں میں مارا گیا

تو پھر یہ کیوں نہ کہوں، رتبہء شہید پہ ہوں


رانا غلام محی الدین


آصفہ نشاط

 دریافت کر لیا ہے بسایا نہیں مجھے

سامان رکھ دیا ہے سجایا نہیں مجھے


کیسا عجیب شخص ہے اٹھ کر چلا گیا

برباد ہو گیا تو بتایا نہیں مجھے


وہ میرے خواب لے کے سرہانے کھڑا رہا 

میں سو رہی تھی اس نے جگایا نہیں مجھے


بازی تو اس کے ہاتھ تھی پھر بھی نہ جانے کیوں

مہرہ سمجھ کے اس نے بڑھایا نہیں مجھے


اس نے ہزار عہد محبت کے باوجود

جو راز پوچھتی ہوں بتایا نہیں مجھے


وہ انتہائے شوق تھی یا انتہائے ضبط

تنہائی میں بھی ہاتھ لگایا نہیں مجھے


آصفہ نشاط


آصف شہزاد

 یوم پیدائش 26 جون 1980


مرے گیتوں سے رونے کی صدا آتی رہی پیہم

مرے زخموں کو سہلانے صبا آتی رہی پیہم


ہمیں اپنے گناہوں کی سزا ملتی رہی پیہم

ہمیں بیدار کرنے کو ہوا آتی رہی پیہم


کوئی قاسم ، کوئی خالد ، کوئی طارق نہیں ہم میں

خود اپنے آپ پر ہم کو حیا آتی رہی پیہم


تسلط غیر کا قصہ یہ سن کر ساری دنیا میں

مرے اشکوں کی آہوں کی صدا آتی رہی پیہم


گلے کٹتے رہے نیزے پہ سر چڑھتے رہے لیکن

زبانوں سے صداۓ لا اللہ آتی رہی پیہم


سیاست ہو رہی ہے آج کل بچوں کی لاشوں پر

ہمارے ساتھ ان کی بد دعا آتی رہی پیہم


مری چیخیں مرے اندر ہی گھٹ کے مر گئیں آخر

مجھے ہی لوٹ کر میری صدا آتی رہی پیم


غزل میں ڈھل گیا شہراد کا دکھ آج پھر یارو

مکاں سے اس کے غزلوں کی صدا آتی رہی پیم


آصف شہزاد


ندا اعظمی

 یوم پیدائش 28 جون


دید جب تک تری نہیں ہوتی

درد دل میں کمی نہیں ہوتی


جب وہ بچھڑا تو یہ یقین ہوا

زندگی زندگی نہیں ہوتی 


وہ تو سورج کے دم سے روشن ہے

چاند میں روشنی نہیں ہوتی


تیرا لہجہ بھی تلخ تھا ورنہ

بات دل پر لگی نہیں ہوتی


لفظ اپنے سنوار کر بولو

لفظ کی واپسی نہیں ہوتی


اس نے مجھکو صدا نہیں دی ندا

ورنہ کیا میں رکی نہیں ہوتی


ندا اعظمی


ابو المجاہد زاہد

 یوم پیدائش 28 جون 1928


اکثر ” جھوٹے لوگ“ ملے ہیں عالی شان ایوانوں میں

ہم نے نقلی پھول ہی دیکھے سونے کے گلدانوں میں


بھینٹ چڑھا دی ساری ہمت ساحل کی آسائش پر

طوفانوں سے لڑنے والے ڈوب گئے میدانوں میں


میرے لئے حیرت کی اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں

فرزندانِ نور ملے ہیں ظلمت کے دربانوں میں


اک ملت بن کر سب بھائی ایک ہی گھر میں رہتے تھے

بٹتے بٹتے ،بٹتے بٹتے ،بٹ گئے کتنے خانوں میں


دونوں ہی شیطان ہیں لیکن لالؔ بڑا ہے یا پیلاؔ

سارا جھگڑا بس اس پر ہے ان دونوں شیطانوں میں


اندھیارے افسردہ گھروں کے دور بھی ہوں تو کیونکر ہوں

سورج تو لپٹے رکھے ہیں غفلت کے جزدانوں میں


قبریں ایسی جیسے دلہنیں چوتھی کی ہوں اے زاہدؔ

کیا کیا زیب و زینت دیکھی اسلامی بت خانوں میں


ابوالمجاہد زاہد 


مسعودہ ریاض

 یوم پیدائش 27 جون

 

وقت کے جو بھی صَرفِ نظر ہو گئے

وہ پڑے راہ میں اک حجر ہو گئے


جن کی قسمت میں سوکھے شجر ہو گئے

مفلسی میں ہیں وہ بے ثمر ہو گئے


ٹھوکروں میں تھا رکھتا زمانہ جنہیں

زیر تھے جو وہ اب ہیں زبر ہو گئے


کل کے دھنوان ہیں دربدر آج کے

بگڑے حالات ایسے صفر ہو گئے


پھر مرے یار نے لی نہ میری خبر

راحَتِ جاں تھے سوزِ جگر ہو گئے


مشکلوں سے کبھی بھی نہ گھبراٸے ہم

دکھ کے آگے یوں سینہ سپر ہو گئے


کیسے مسعودہؔ غم جھیل پاٸے گی یہ

سارے اپنے پراٸے اگر ہو گئے


مسعودہؔ ریاض


آصفہ زمانی

 اے مرے دل بتا خواب بنتا ہے کیوں

روٹھنا ان کی فطرت ہے روتا ہے کیوں


بے وفا آدمی بے وفا زندگی

جانتا ہے اگر دل لگاتا ہے کیوں


دور رہ کر بھی جب تو مرے پاس ہے

تجھ کو پانے کو دل پھر مچلتا ہے کیوں


وہ جدا کیا ہوئے زندگی بھی گئی

آنسوؤں کی جگہ خوں بہاتا ہے کیوں


آصفہ زمانی


اسنی بدر

 اچھی اردو پیاری اردو

کچھ دیر تو مجھ سے بات کرو


جو نیل گگن سے آئی ہو

تو روشن میری رات کرو


جو کومل سندر لڑکی ہو

تو دل اپنا سوغات کرو


جو بازی رکھو چاہت کی

تم جیتو ہم کو مات کرو


ان پھیکے پھیکے لفظوں پر

سب بے جا خوب اکڑتے ہیں


سب جانتے ہیں تم بولتی ہو

تو پھول لبوں سے جھڑتے ہیں


سب اپنے ادھورے جملوں میں

یہ ہیرے موتی جڑتے ہیں


سب تم سے آنکھ ملاتے ہیں

سب پاؤں تمہارے پڑتے ہیں


ہم نے تو یہی دیکھا ہے یہاں

جو تم نے کہا وہ ریت بنا


ہم نے تو یہی سمجھا ہے یہاں

سر تم نے دئے سنگیت بنا


ہم نے تو یہی جانا ہے یہاں

تم سے ہی کوئی من میت بنا


نظموں نے ہمیں چوما بڑھ کر

اور میٹھا سچا گیت بنا


لیکن یہ تمہاری قسمت ہے

ہات آئی ہے ایسی تنہائی


پھرتی ہو کہیں ماری ماری

جو ملتا ہے سو ہرجائی


ہر روز کے دھوکے راہوں میں

ہر روز جبیں پر رسوائی


ہر روز ذرا سی خوش فہمی

ہر روز کی محفل آرائی


جب دنیا کے ان میلوں سے

تھک جاؤ تو مرے پاس آنا


جب اوروں کی بانہوں سے کبھی

اکتاؤ تو مرے پاس آنا


میں بڑھ کر نذر اتاروں گی

گھبراؤ تو میرے پاس آنا


مرہم سے نہیں بھر پائے اگر

یہ گھاؤ تو میرے پاس آنا


اچھی اردو پیاری اردو

اچھی اردو پیاری اردو


اسنی بدر


ثریا حیا

 یوم پیدائش 26 جون 1946


اےغم تو میرے ساتھ رہا کر قدم قدم

کچھ حسرتوں کی خاک اڑا کر قدم قدم


وہ دن بھی خوب تھے کہ سرِ وادیٔ جنوں

ہم آ گئے تھے خواب سجا کر قدم قدم 


وہ اور اس کی ذات سے منسوب رفعتیں

رکھتے رہے ہیں دل میں چھپا کرقدم قدم


اک آرزوئے دید تھی سو اب نہیں رہی

اس دل کو آئینہ سا بنا کر قدم قوم


وہ ہجر تھاکہ وصل تھا کچھ یاد ہی نہیں

سیراب ہو گئے جسے پا کر قدم قدم


طوفاں کا خوف ہونہ حیاؔ بجلیوں کا ڈر

یا رب مجھے وہ عشق عطا کر قدم قدم


ثریا حیا


عزیز نبیل

 یوم پیدائش 26 جون 1976


اس کی سوچیں اور اس کی گفتگو میری طرح

وہ سنہرا آدمی تھا ہو بہ ہو میری طرح


ایک برگ بے شجر اور اک صدائے بازگشت

دونوں آوارہ پھرے ہیں کو بہ کو میری طرح


چاند تارے اک دیا اور رات کا کومل بدن

صبح دم بکھرے پڑے تھے چار سو میری طرح


لطف آوے گا بہت اے ساکنان قصر ناز 

بے در و دیوار بھی رہیو کبھو میری طرح


دیکھنا پھر لذت کیفیت تشنہ لبی

توڑ دے پہلے سبھی جام و سبو میری طرح


اک پیادہ سر کرے گا سارا میدان جدل

شرط ہے جوش جنوں اور جستجو میری طرح


عزیز نبیل


عالم فیضی

 دل میں گھس کر بیان لیتا ہے

بات مطلب کی جان لیتا ہے


منزلیں اس کو مل ہی جاتی ہیں

کچھ، جو کرنے کی ٹھان لیتا ہے


یوں بہت کچھ ہے اس کے پاس مگر 

پھر بھی دیکھو وہ دان لیتا ہے


چل گئی کیسی اب ہوا لوگو!

بھائی بھائی کی جان لیتا ہے


چھوڑ دیتے ہیں ساتھ سب عالم

وقت جب امتحان لیتا ہے


عالم فیضی


اویس ساقی

 یوم پیدائش 26 جون 1989


زندگی کامیاب تنکوں پر 

بہہ رہی مثلِ آب تنکوں پر


وہ دباتے ہیں آس محلوں میں 

میں سجاتا ہوں خواب تنکوں پر


دیکھ لیجے ناں میری عیاشی 

سو رہا ہوں جناب تنکوں پر


خاکساری ہے شیوہءِ مومن

کیوں بشر ہو خراب تنکوں پر


شاہ ہو کر اڑان کا پھر بھی

گھر بنائے عقاب تنکوں پر


تختِ شاہاں گھرے ہیں ظلمت میں

روشنی کا شباب تنکوں پر


ہر کسی نے یوں داد دی مجھ کو

ہے غزل لاجواب تنکوں پر


آشیاں دیکھ جل رہا ہے مرا

ہے مسلط عذاب تنکوں پر


بخش دے زندگی نئی ان کو

ڈال ساقی شراب تنکوں پر


اویس ساقی


شاکر حسین اصلاحی

 یوم پیدائش 25 جون 1979


ان کی یادوں کے شجر باقی ہیں

لمس و لذت کے ثمر باقی ہیں

 

کچھ کو سیلاب بلاِ روند گیا

پھر بھی کچھ گاؤں میں گھر باقی ہیں


 روشنی حسن کی رہ جائے گی 

جب تلک اہلِ ہنر باقی ہیں


اب یقیں ہوتا نہیں سایوں کا

یوں تو راہوں میں شجر باقی ہیں


غم کے سائل کی صدا کہتی ہے

خشک آنکھوں کے کھنڈر باقی ہیں


آنکھیں خوں بار ہیں اپنی شاکر

اب کہاں لعل و گہر باقی ہیں


شاکر حسین اصلاحی


م لیئق انصاری

 یوم پیدائش 25 جون


تیرے جذبات مرے دل کا وسیلہ ٹھہرے

اشک پلکوں پہ تری جیسے ستارہ ٹھہرے


زندگی تجھ سے نہیں کوئی بھی شکوہ لیکن

کیسے ماتھے پہ ترے ہجر کا مارا ٹھہرے


شدت کرب کی شورش ہے سمندر میں مگر

زخم یادوں کے تری آج کنارہ ٹھہرے


تیرا پیکر جو تراشا ہے غزل میں ، میں نے

کاش وہ دل کا ترے کوئی شمارہ ٹھہرے


منکشف ہوتے نہیں راز لبوں پر تیرے

تیرے اشعار مرے دل کا سہارا ٹھہرے


چاندنی رات جو تصویر بناتی ہے تری

میری آنکھوں میں وہ رنگین نظارہ ٹھہرے


آگ میں دل میں محبت کی لگا دوں گا ترے

تیری آنکھوں میں جو الفت کا شرارہ ٹھہرے


پانیوں پر جو بنائے تھے گھروندے میں نے

وہ بھی صحرا میں نہ طوفاں کا اشارہ ٹھہرے


وہ میرے دل میں مکیں آج ہوئے ہیں ایسے

جیسے دل میں کوئی احساسِ شکستہ ٹھہرے


آ بسا ہے وہ لئیق آج لبوں پر میرے

جیسے بن کر وہ غزل پھول کا لہجہ ٹھہرے


 م


۔لئیق انصاری

Thursday, June 24, 2021

نعیم ضرار

 وقت پر عشق زلیخا کا اثر لگتا ہے 

آخر عمر بھی آغاز سفر لگتا ہے 


یہ سمندر ہے مگر سوختہ جاں شاعر کو 

کسی مجبور کا اک دیدۂ تر لگتا ہے 


صبح تازہ ہے مقدر دل مایوس ٹھہر 

شجر امید پہ انعام ثمر لگتا ہے 


میں زباں بندی کا یہ عہد نہیں توڑوں گا 

ہاں مگر اس دل گستاخ سے ڈر لگتا ہے 


ہمیں ادراک محبت تو نہیں ہے لیکن 

اتنا معلوم ہے اس کھیل میں سر لگتا ہے


 نعیم ضرار


شاعر علی راحل

 وہ مَلا رات خواب میں جیسے

 تیرتا عکس آب میں جیسے

 

دیکھ کر اُس کو دل ہُوا بےچین

وه بھی تها اضطراب میں جیسے


یاد نے چھیڑے تار یوں دل کے

دُھن بجی ہَو رُباب میں جیسے


اِسطرح گھل گیا ہے وہ مجھ میں

گھلتی شکّر ہے آب میں جیسے


کھوج میں اُس کی دَربدر بهٹکے 

پیاس کوئی سَراب میں جیسے 


اِسطرح اُس کے پیار میں ڈوبے 

سوہنی ڈوبی چناب میں جیسے


ذہن و دل پر وہ نقش ہے رَاحِلؔ

حَرف کوئی کتاب میں جیسے


شاعر علی رَاحِلؔ


اظہرکورٹلوی

 ہم رہیں گے جنّت میں 

خوب شان و شوکت میں 


 وہ کہاں جو دولت میں 

 ہے مزہ عبادت میں 

 

مقتدی نبی سارے 

آپﷺ کی اِمامت میں 


مال و زر لٹا کچھ تو 

دین کی محبّت میں 


اپنے رشتہ داروں کی 

لے خبر تو فرصت میں 


بھولئے نہیں رب کو 

غم میں اور مسرّت میں 


ذکرِ رب ہی اے لوگو!

ہے سکون وحشت میں 


امن بھی تھا اور انصاف 

" آپ تھے حکومت میں "


علم ہی میاں اظہرؔ 

نور ہے جو ظلمت میں


 میں نے یہ غزل اظہرؔ 

 ہے رقم کی عجلت میں 

 

 اظہؔرکورٹلوی


ندیم اعجاز

 دل یوں سحر کے واسطے مت بے قرار کر

ظلمت کی شب گزرنے کو ہے اعتبار کر


سودا ہے سر پہ کیسے میں روکوں زبان کو

جو جی میں آئے وہ ہی روش اختیار کر


قاتل کو میری لاش پہ جو چارہ گر کہے

اُس کو بھی میرے قتل میں شامل شمار کر


محشر تو کر چکے ہیں بپا اہلِ اقتدار

تو بیٹھ کے فلک پہ یونہی انتظار کر


دھرتی کی الفتوں میں کروں اور کیا بتا

دے تو رہا ہوں جان میں صدقے میں وار کر


مت خوف کھا ندیم تُو جابر کے جبر سے

کر جبر پر مزاحمت اور بار بار کر


ندیم اعجاز


ذوالفقار علی ذلفی

گلابوں سے بڑھ کے حسیں لگ رہی ہو

مجھے چاند کی تم جبیں لگ رہی ہو


خدا تم کو رکھے یوں ہی زندگی بھر

کہ اب جس طرح دِلنشیں لگ رہی ہو


تمہیں جس جگہ دل میں رکھا تھا میں نے

مجھے آج بھی تم وہیں لگ رہی ہو


بظاہر بہت دور اب مجھ سے ہو تم

مگر دھڑکنوں کے قریں لگ رہی ہو


تمہیں دیکھتا ہی رہوں دل یہ چاہے

کوئی مجھ کو ہیرا نگیں لگ رہی ہو


میں ذُلفی ہوں ویسے کا ویسا ہی اب تک

مگر تم مجھے وہ نہیں لگ رہی ہو


ذوالفقار علی ذُلفی


ڈاکٹر وحید الحق

 میں کس کے ساتھ چلوں کس کو ہم سفر سمجھوں

یقین کس پہ کروں کس کو بے ضرر سمجھوں


شفا ملی نہ ہوا کچھ علاجِ دردِ دل

کسے طبیب کہوں، کس کو چارہ گر سمجھوں 


یہ آس پاس مرے لوگ سب فرشتے ہیں

کوئی تو رند ملے میں جسے بشر سمجھوں


مرا جو شہر تھا وہ اب کہاں رہا اپنا

دیارِ غیر میں کس گھر کو اپنا گھر سمجھوں


ترے سوا نہ کہیں اور کچھ نظر آئے

چلوں جدھر بھی اسے تیری رہ گزر سمجھوں

 

پتہ کوئی نہ خبر زندگی کہیں لے چل

یہاں سے دور جہاں خود کو بے خبر سمجھوں 


رفو گری پہ اسے ناز ہے بہت لیکن 

رفو کرے وہ مرا دل تو میں ہنر سمجھوں


بھرم کوئی نہ رہے گا کوئی گماں باقی

ذرا قریب سے جاکر اُسے اگر سمجھوں 


سمجھ نہ پائے گی دنیا مری فقیری کو

سُرورِ ترکِ جہاں دولتِ نظر سمجھوں 


 ڈاکٹر وحیدالحق


ایس ڈی عابد

 ادبی دنیا کی شان اردو ہے

کتنی شیریں زبان اردو ہے


جو بھی آیا مرے تخیل میں 

استعارہ نشان اردو ہے 


شعر ہوتے ہیں خوشنما اس میں

شاعری کی میان اردو ہے 


کیسی پُرکیف ہے زباں اردو

غزلوں نظموں کی جان اردو ہے


اس میں نفرت سما نہیں سکتی

چاہتوں کی امان اردو ہے 


پیار دیتی ہے پیار لیتی ہے 

کس قدر مہربان اردو ہے


سب زبانیں تو سن رسیدہ ہیں 

ان میں سب سے جوان اردو ہے 


ہیں زبانیں بہت زمانے میں 

میرا سارا بیان اردو ہے 


آج عابدؔ ادب کی دنیا میں 

ہو گئی کامران اردو ہے 


ایس،ڈی،عابدؔ


ریاض ساغر

 مجھ کو اللہ نے ایمان کی دولت دے دی

اور کیا ہوگا مقدّر کا سکندر ہونا

ریاض ساغر


کاظم علی

 لاکھ چاہا میں نے مگر، نہ ملا

مجھ کو اک شخص عمر بھر، نہ ملا


عمر اک سجدے میں گزرتی مری

سر جھکانے کو، کوئی در، نہ ملا


مجھ کو بھی کوئی اور بھایا نہیں

اس کو بھی کوئی خوب تر، نہ ملا


یوں تو حاصل تھی کائنات مجھے

جس کو ملنا تھا، خاص کر، نہ ملا


جو ملا، عمر بھر وہ ساتھ رہا

غم مجھے کوئی مختصر، نہ ملا


کاظم علی


جوہر علی ذیشان

 یوم پیدائش 23 جون


دل میں اٹھتے ہوئے جذبات کا چرچا ہوگا

میری الجھی سی حکایات کا چرچا ہوگا 


ایک دن دیکھنا ہرشخص کی باتوں میں فقط 

حسنِ جاناں کے کمالات کا چرچا ہوگا 


آج تو بات مری لگتی ہے دیوانوں سی 

ایک دن میری کہی بات کا چرچا ہوگا 


آپ کے آنے پہ گم ہوگئے تھے ہوش مرے 

کب خبر تھی کہ ملاقات کا چرچا ہوگا


بات آنکھوں سے بیاں ہوگی مگرمحفل میں 

سارے خاموش سوالات کا چرچا ہوگا


ہم نے ذیشن زمانے کو کہاں سمجھا ہے 

روزو شب گردشِ حالات کا چرچا ہوگا 


  جوہر علی ذیشان


قمر آسی

 یوم پیدائش 23 جون 1987


کہتی ہے تیری اتنی کمائی نہیں اگر

کنگن دلا سنہری ، طلائی نہیں اگر


کچھ تو قصور اس میں ہے رخسار یار کا

کیوں گر پڑا ہے دل وہاں کھائی نہیں اگر


سمجھے ہیں میرے یار گنہگار کیوں مجھے

کرتا ہوں پیش اپنی صفائی نہیں اگر


کیوں دل دھڑک رہا ہے مرا تیری آنکھ میں

تسکین اس کی تو نے چرائی نہیں اگر


چہرے پہ اپنے کوفت، جبیں پر شکن دکھا

تجھ کو پسند شوخ نوائی نہیں اگر


تسلیم کر کہ ہجر پہ راضی نہیں خدا

تیری ٹرین وقت پہ آئی نہیں اگر


کھلتی حلاوت لب جانان کس طرح

ہوتی مری گلی میں لڑائی نہیں اگر


قمر آسی


عنبرین حسیب عنبر

 یوم پیدائش 23 جون 1981


زندگی بھر ایک ہی کار ہنر کرتے رہے

اک گھروندا ریت کا تھا جس کو گھر کرتے رہے


ہم کو بھی معلوم تھا انجام کیا ہوگا مگر

شہر کوفہ کی طرف ہم بھی سفر کرتے رہے


اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں

انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے


یوں تو ہم بھی کون سا زندہ رہے اس شہر میں

زندہ ہونے کی اداکاری مگر کرتے رہے


آنکھ رہ تکتی رہی دل اس کو سمجھاتا رہا

اپنا اپنا کام دونوں عمر بھر کرتے رہے


اک نہیں کا خوف تھا سو ہم نے پوچھا ہی نہیں

یاد کیا ہم کو بھی وہ دیوار و در کرتے رہے


عنبرین حسیب عنبر


عرفان احمد میر بالغ

 یوم پیدائش 22 جون 1977


زندگی تیری طلب تھی تو زمانے دیکھے

مرتے مرتے کئی جینے کے بہانے دیکھے


حوصلہ تھا یا کرم ہو کہ وفاداری ہو

ہم نے الفت میں کئی خواب سہانے دیکھے


آنکھ سے جاری رہا اشکوں کا بہنا کیونکر

غم نے ٹھکرایا تو پھر زخم پرانے دیکھے


زخم پر زخم لگانے کی نہ عادت تھی اسے

میرے قاتل نے نئے روز نشانے دیکھے


آپ کا جرم نہیں ہم ہی خطا کر بیٹھے

دل نے بس چاہا تمہیں غم نے ٹھکانے دیکھے


ہم پہ الفت کی ہوئی ایسی عطائیں بالغؔ

جس طرف ڈھونڈ لئے غم کے خزانے دیکھے


عرفان احمد میر بالغ


نعیم ضرار

 یوم پیدائش 22 جون 1965


منزل ہے تو اک رستۂ دشوار میں گم ہے 

رستہ ہے تو پیچ و خم دل دار میں گم ہے 


جس دین سے ملتا تھا خدا خانۂ دل میں 

ملا کے سجائے ہوئے بازار میں گم ہے 


اجزائے سفر ورطۂ حیرت میں پڑے ہیں 

رفتار ابھی صاحب رفتار میں گم ہے 


سائل ہیں کہ امڈے ہی چلے آتے ہیں پیہم 

وہ شوخ مگر اپنے ہی دیدار میں گم ہے 


وہ حسن یگانہ ہے کوئی شہر طلسمات 

ہر شخص جہاں رستوں کے اسرار میں گم ہے 


اشخاص کے جنگل میں کھڑا سوچ رہا ہوں 

اک نخل تمنا انہی اشجار میں گم ہے 


یا حسن ہے ناواقف پندار محبت 

یا عشق ہی آسانیٔ اطوار میں گم ہے 


اے کاش سمجھتا کوئی پس منظر پیغام 

دنیا ہے کہ پیرایۂ اظہار میں گم ہے


نعیم ضرار 


عمران حسین پاشا

 یوم پیدائش 22 جون 1977


اس کی یادوں میں جی لیاجائے

غم کی راتوں میں جی لیا جائے


خود کو کرکے سپرد ساجن کے

سرد راتوں میں جی لیا جائے


وصل تیرا اگر میسر ہو

حسیں لمحوں میں جی لیا جائے


خود کو کرکے فنا محبت میں

عشق راہوں میں جی لیا جائے


دل میں اب پال کر جدائی کا غم

ٹھنڈی آہوں میں جی لیا جائے


عمران حسین پاشا


وقار انبالوی

 یوم پیدائش 22 جون 1896


پوچھوں گا راہِ عشق میں کیوں راہ بر کو میں​

اتنا بھی کیا گراؤں گا ذوقِ نظر کو میں​

ہر ایک نقش پا پہ جھکاؤں گا سر کو میں​

سجدے کیا کروں گا تری رہگُذر کو میں​

اُمید و یاس لاکھ دوراہے پہ مجھ کو لائے​

میں جانتا ہوں خوب کہ جاؤں کدھر کو میں​

دردِ جگر کی ختم ہوئیں آزمائشیں​

اب آزماؤں گا تری ترچھی نظر کو میں​

ذوقِ طلب نے کر دیا آوارہء جنوں​

منزل پہ آکے بھول گیا اپنے گھر کو میں​

یوں جام ماہتاب سے ساقی پلا مجھے​

دیکھوں نہ آنکھ بھر کے طلسمِ سحر کو میں​


وقار انبالوی


جاذب قریشی

 انا الیہ وانا الیہ راجعون


یوم وفات 22 جون 2021

یوم پیدائش 03 آگسٹ 1940


اس کا لہجہ کتاب جیسا ہے

اور وہ خود گلاب جیسا ہے 


دھوپ ہو چاندنی ہو بارش ہو

ایک چہرہ کہ خواب جیسا ہے 


بے ہنر شہرتوں کے جنگل میں

سنگ بھی آفتاب جیسا ہے 


بھول جاؤ گے خال و خد اپنے

آئنہ بھی سراب جیسا ہے 


وصل کے رنگ بھی بدلتے تھے

ہجر بھی انقلاب جیسا ہے 


یاد رکھنا بھی تجھ کو سہل نہ تھا

بھولنا بھی عذاب جیسا ہے 


بے ستارہ ہے آسماں تجھ بن

اور سمندر سراب جیسا ہے


جاذب قریشی


علی احمد جلیلی

 یوم پیدائش 22 جون 1921


غم سے منسوب کروں درد کا رشتہ دے دوں

زندگی آ تجھے جینے کا سلیقہ دے دوں


بے چراغی یہ تری شام غریباں کب تک

چل تجھے جلتے مکانوں کا اجالا دے دوں


زندگی اب تو یہی شکل ہے سمجھوتے کی

دور ہٹ جاؤں تری راہ سے رستا دے دوں


تشنگی تجھ کو بجھانا مجھے منظور نہیں

ورنہ قطرہ کی ہے کیا بات میں دریا دے دوں


لی ہے انگڑائی تو پھر ہاتھ اٹھا کر رکھیے

ٹھہریے میں اسے لفظوں کا لبادہ دے دوں


اے مرے فن تجھے تکمیل کو پہنچانا ہے

آ تجھے خون کا میں آخری قطرہ دے دوں


سورج آ جائے کسی دن جو میرے ہاتھ علیؔ

گھونٹ دوں رات کا دم سب کو اجالا دے دوں


علی احمد جلیلی


آفتاب قابل

 وہ تھے جب تک تھیں گلستاں آنکھیں

وہ نہیں ہیں تو ہیں خزاں آنکھیں


کاش ہوتیں جو مہرباں آنکھیں

کیوں بھٹکتیں یہاں وہاں آنکھیں


جب سے بچھڑی وہ بدگماں آنکھیں

خون روتی ہیں ناگہاں آنکھیں


وہ تو کہیئے لگا لیا چشمہ

ورنہ کہہ دیتیں داستاں آنکھیں


ہوش میں رہیئے اب جناب دل

ہوگئی ہیں وہ اب جواں آنکھیں


دوستوں! ایک اجنبی کے طفیل

بن گئیں غم کی داستاں آنکھیں


ہر قدم تم سنبھال کر رکھنا

ہر قدم لیں گی امتحاں آنکھیں


تم کھلونا ہو میری ہستی کا

تم سے ہوں ، اور بدگماں آنکھیں


رہ گزار وفا پہ چلتے ہوئے

ہوگئیں گرد کارواں آنکھیں


ہو کوئی غم گسار تو پوچھے

کس لئے ہیں دھواں دھواں آنکھیں


اُٹھ گناہوں پہ گریہ زاری کر

اس سے پہلے ہو رائیگاں آنکھیں


جو زباں سے کبھی نہیں نکلا

کر گئیں راز وہ بیاں آنکھیں


اب نہیں حال زار پر میرے

تیری پہلی سی مہرباں آنکھیں


آنکھیں آنکھوں سے بات کرتی ہیں

ہیں دلوں کی بھی ہم زباں آنکھیں


وار کرتی ہیں دل پہ یہ قابل

چھوڑتی ہیں کہاں نشاں آنکھیں


آفتاب قابل


ارم زہرا

 ہم اس کے سامنے حسن و جمال کیا رکھتے

جو بے مثال ہے اس کی مثال کیا رکھتے


جو بے وفائی کو اپنا ہنر سمجھتا ہے

ہم اس کے آگے وفا کا سوال کیا رکھتے


ہمارا دل کسی جاگیر سے نہیں ارزاں

ہم اس کے سامنے مال و منال کیا رکھتے


اسے تو رشتے نبھانے کی آرزو ہی نہیں

پھر اس کی ایک نشانی سنبھال کیا رکھتے


جو دل پہ چوٹ لگانے میں خوب ماہر ہے

ہم اس کے سامنے اپنا کمال کیا رکھتے


ہمارے ظرف کا لوگوں نے امتحان لیا

ذرا سی بات کا دل میں ملال کیا رکھتے


جو اپنے دل سے ارمؔ کو نکال بیٹھا ہے

ہم اس کے سامنے ہجر و وصال کیا رکھتے


ارم زہرا


ادا جعفری

 ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی

اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی


وہی خانہ بدوش امیدیں

وہی بے صبر دل کی خو ہے ابھی


دل کے گنجان راستوں پہ کہیں

تیری آواز اور تو ہے ابھی


زندگی کی طرح خراج طلب

کوئی درماندہ آرزو ہے ابھی


بولتے ہیں دلوں کے سناٹے

شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی


زرد پتوں کو لے گئی ہے ہوا

شاخ میں شدت نمو ہے ابھی


ورنہ انسان مر گیا ہوتا

کوئی بے نام جستجو ہے ابھی


ہم سفر بھی ہیں رہ گزر بھی ہے

یہ مسافر ہی کو بہ کو ہے ابھی


ادا جعفری


نسیم نازش

 اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے

آنکھ کو ذوق تماشا نہیں ہے


جانے کیوں ڈھونڈ رہے ہیں ہم تم

وہ جو تقدیر میں لکھا نہیں ہے


یوں سر راہ گزر بیٹھے ہیں

جیسے ہم کو کہیں جانا نہیں ہے


پھر یہ کیوں خاک سی اڑتی ہے یہاں

دل کے اندر کوئی صحرا نہیں ہے


شہر والو کبھی اس کو بھی پڑھو

وہ جو دیوار پہ لکھا نہیں ہے


اس کو کمتر نہ سمجھنا لوگو

وہ جسے خواہش دنیا نہیں ہے


ہم کو ہے قرب میسر کا نشہ

ہم کو اندیشۂ فردا نہیں ہے


یہ گزرتا ہوا اک سایۂ وقت

قاتل عمر ہے لمحہ نہیں ہے


تہہ میں رشتوں کی اتر کر دیکھو

کون اس دہر میں تنہا نہیں ہے


ہجر کا تجھ کو ہے شکوہ تو نے

معنیٔ عشق کو سمجھا نہیں ہے


گم ہوئے کتنے ہی بے نام شہید

جن کا تاریخ میں چرچا نہیں ہے


تو ہے بیگانہ تو کیا تجھ سے گلہ

کوئی دنیا میں کسی کا نہیں ہے


کر گئے خوف خزاں سے ہجرت

پیڑ پر کوئی پرندہ نہیں ہے


زیست میں ہم نے بچا کر کچھ وقت

کبھی اپنے لئے رکھا نہیں ہے


ہم ہیں اس عہد میں زندہ جس کا

جسم ہی جسم ہے چہرہ نہیں ہے


تم نہ ہو گے تو جئیں گے کیسے

ابھی اس بارے میں سوچا نہیں ہے


کیسی محفل یہ سجی ہے نازشؔ

کوئی بھی میرا شناسا نہیں ہے


نسیم نازش


جعفر بلرامپوری

 تجربہ زندگی میں اک ایسا ہوا

مفلسی میں نہ کوئی بھی اپنا ہوا


رنج و غم حال دل اب سناؤں کسے

مطلبی دور ہے کون کس کا ہوا


کہہ رہے دل درختوں کے روکر یہی

جس کو سایہ دیا وہ نہ میرا ہوا


رشتے انمول ہیں پر حقیقت ہے یہ

ہر کسی کو یہاں پیارا پیسہ ہوا


زخ پہ پردہ نہیں ماسک لازم ہے اب

فیصلہ دیکھو جعفر یہ کیسا ہوا


جعفر بلرامپوری


شمشاد شاد

 شفقتوں کا کہاں دنیا میں رہا مول کہ اب

باپ سے بیٹا دعائیں نہیں دھن مانگے ہے

شمشاد شاؔد


شہاب الدین شاہ قنوجی

 جاکے مریخ پہ رہنے کی نہ تیاری کر

اپنی دنیا میں فقط اور شجرکاری کر


باغ پھولوں سے بھرے دل ہو محبت سے بھرا

اپنی دنیا میں حسیں اور یہ گل کاری کر


دل کی مٹی تو ہے زرخیز اگا لے سبزا

اپنی آنکھوں کی نمی کو ہی فقط کھاری کر


عشق فطرت ہے ہماری یہی منصب اے شاہ

اب زمیں پر نہ کہیں اور تو بمباری کر


شہاب الدین شاہ قنوجی


احیاء بھوجپوری

 یوم پیدائش 20 جون


ہاتھوں کی لکیروں کا لکھا کاٹ رہے ہیں

ہم اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں


مٹتی نہیں تاریخ سے کوئی بھی عبارت

تاریخ لکھے گی کہ لکھا کاٹ رہے ہیں


ہے آج کی فصلوں میں عداوت ہی عداوت

کیا بویا تھا ہم نے یہاں کیا کاٹ رہے ہیں


ہم پھول ہیں مہکیں گے جدھر جائیں گے لیکن

اس باغ میں رہنے کی سزا کاٹ رہے ہیں


گاتے تھے کبھی وہ بھی محبت کے ترانے

موقع جو ملا ہے تو گلا کاٹ رہے ہیں


آسان بنانا ہے محبت کی ڈگر کو

چن چن کے سو ہم لفظ وفا کاٹ رہے ہیں


احیاء بھوجپوری


ارشد غازی

 یوم پیدائش 19 جون 1958


وہ خود سری ہے نگاہوں سے التجا نہ ہوئی

کہ ہم سے رسمِ جہاں آج تک ادا نہ ہوئی


یہ انتہا پہ بنی اور انتہا نہ ہوئی

کہ اب کی بار بھی دنیا کی ابتدا نہ ہوئی


سدا دیا مجھے طوفاں کی موج نے ساحل

شکستہ ناؤ مری صرفِ ناخدا نہ ہوئی


اِسے نہ شکوہ سمجھ ! سادہ زندگی میری

ہزار بار ملی اور آشنا نہ ہوئی


ابھی ملے بھی نہیں تھے کہ وہ بچھڑ بھی گئے

کسی فسانے کی یہ کوئی ابتدا نہ ہوئی


کہا کہ جا ترا دنیا میں اب نہیں حصہ

مرے عمل کی مگر یہ کوئی جزا نہ ہوئی


سمجھ سکا نہ مقرر دلوں کے بھید وہاں

کہ مدتوں سے لگی بھیڑ ہمنوا نہ ہوئی


مزہ تو جب ہے تری فکرِ بازگشت بنے

جو لوٹ کر نہیں آئے تو وہ صدا نہ ہوئی


بس اتنی بات پہ محشر میں تھے سوال و جواب

جو میں پکارا کہ مجھ سے کوئی خطا نہ ہوئی


ارشد غازی


مرزا راحل

 یوم پیدائش 19 جون


محاذ عشق پہ نکلے تو تین تھے ہم لوگ

بہت غریب تھے لیکن امین تھے ہم لوگ 


ہوئے جوان تو قبروں سے یہ صدا آئی

ذرا سنبھل کے یہیں کے مکین تھے ہم لوگ


تمہارے ساتھ تعلق میں خود کو کھو بیٹھے 

کہ اس سے پہلے بہت ہی ذہین تھے ہم لوگ


حسین شخص کو اتنا بتا دیا جائے

ترے ظہور سے پہلے حسین تھے ہم لوگ 


ہمیں وہ حسبِ ضرورت ہی پاس رکھتا تھا 

کہ اس کے واسطے جیسے مشین تھے ہم لوگ


مرزا راحل


ادیب سہیل

 یوم پیدائش 18 جون 1927


پیچ و خم وقت نے سو طرح ابھارے لوگو

کاکل زیست مگر ہم نے سنوارے لوگو


اپنے سائے سے تمہیں آپ ہے دہشت زدگی

تم ہو کس مصلحت وقت کے مارے لوگو


ہم سفر کس کو کہیں کس کو سنائیں غم دل

پنبہ در گوش ہوئے سارے سہارے لوگو


ضربت سنگ بنے اپنی صدا کے غنچے

گنبد جہد میں ہم جب بھی پکارے لوگو


مجھ سے تم دور بھی رہ کر ہو رگ جاں سے قریب

مرے نادیدہ رفیقو مرے پیارے لوگو


ادیب سہیل 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...