Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

عالم فیضی

 مجھ کو مل کے قرار تم سے ہے

رخ پہ سارا نکھار تم سے ہے 


دیکھ کر الفتوں کی سر شاری

دل و جاں اب فگار تم سے ہے 


 غم نہیں مجھ کو اب ذرا کچھ بھی

میرا سارا وقار تم سے ہے


خستہ دل اب کبھی نہیں ہوں گا

رو کا سارا خمار تم سے ہے

  

سن لو اب پھر سے کہہ رہا ہوں میں 

چین تم سے قرار تم سے ہے

 

بن گیے جب سے راہ رو میرے

تب سے سارا ہی پیار تم سے ہے 


خوب دل بستگی کرو عالم 

بزم میں سب بہار تم سے ہے


عالم فیضی


#شعراء #اردودکن #urdudeccan


عابد حسین عابد

 خدا وندا عجب جلوہ گری ہے

ترا مسکن مرے دل کی گلی ہے


تری ہستی برنگِ مُشتری ہے

مری پُر آبلے سی زندگی ہے


تری تاریک شب میں روشنی ہے 

مرے دن میں اجالے کی کمی ہے


گُماں غالب ترا تو کوثری ہے

مرے لب پر وہی اک تشنگی ہے


تری تخلیق کاری گُن بھری ہے

مری پیکر تراشی شاعری ہے


عابد حسین عابد


عادل راہی

 یوم پیدائش 07 اکتوبر


کون ہے اپنا کون پرایا ہوتا ہے

چہرے سے تو اکثر دھوکا ہوتا ہے 


جانے کیسے نزدیکی بڑھ جاتی ہے 

جب جب ہم دونوں میں جھگڑا ہوتا ہے 


دل کی باتیں دل میں ہی رہ جاتی ہے 

ہونٹوں پر بس نام تمھارا ہوتا ہے 


آ نکھ میں آنسو کس کو اچھے لگتے ہیں 

رونے سے تو بس من ہلکا ہوتا ہے 


لے دے کر اک تم تھے تم سے بنتی تھی 

دنیا سے تو روز ہی جھگڑا ہوتا ہے 


ہر مشکل آسان سی لگنے لگتی ہے 

جب جب میرا ساتھ تمھارا ہوتا ہے 


چہرے کی مسکان بتاتی ہے راہؔی

ہنسنے والا کتنا تنہا ہوتا ہے 


عادل راہؔی


سید نوید جعفری حیدرآباد دکن

 نہ جانے ذکر وفا آج کس نے چھیڑ دیا 

ترا خیال ستاتا ہے باربار مجھے 

رفیق جاں ہے مرا درد بے کراں ہی نوید 

دوا کے ذکر سے کیجے نہ شرمسار مجھے

سید نوید جعفری 

حیدرآبا


د دکن

راج نرائن راز

 یوم پیدائش 27 اکتوبر 1930


کوئی پتھر ہی کسی سمت سے آیا ہوتا

پیڑ پھل دار میں اک راہ گزر کا ہوتا


اپنی آواز کے جادو پہ بھروسا کرتے

مور جو نقش تھا دیوار پہ ناچا ہوتا


ایک ہی پل کو ٹھہرنا تھا منڈیروں پہ تری

شام کی دھوپ ہوں میں کاش یہ جانا ہوتا


ایک ہی نقش سے سو عکس نمایاں ہوتے

کچھ سلیقے ہی سے الفاظ کو برتا ہوتا


لذتیں قرب کی اے رازؔ ہمیشہ رہتیں

شاخ صندل سے کوئی سانپ ہی لپٹا ہوتا


راج نرائن راز


جاوید شاہین

 یوم پیدائش 28 اکتوبر 1922


زخم کوئی اک بڑی مشکل سے بھر جانے کے بعد

مل گیا وہ پھر کہیں دل کے ٹھہر جانے کے بعد


میں نے وہ لمحہ پکڑنے میں کہاں تاخیر کی

سوچتا رہتا ہوں اب اس کے گزر جانے کے بعد


کیسا اور کب سے تعلق تھا ہمارا کیا کہوں

کچھ نہیں کہنے کو اب اس کے مکر جانے کے بعد


مل رہا ہے صبح کے تارے سے جاتا ماہتاب

رات کے تاریک زینے سے اتر جانے کے بعد


کیا کروں آخر چلانا ہے مجھے کار جہاں

جمع خود کو کر ہی لیتا ہوں بکھر جانے کے بعد


زخم اک ایسا ہے جس پر کام اب کرتا نہیں

وقت کا مرہم ذرا سا کام کر جانے کے بعد


چپ ہیں یوں چیزیں کہ کھل کر سانس بھی لیتی نہیں

جیسے اک صدمے کی حالت میں ہوں ڈر جانے کے بعد


ہیں نواح دل میں شاہیںؔ کچھ نشیبی بستیاں

ڈوبتا رہتا ہوں ان میں پانی بھر جانے کے بعد


جاوید شاہین


لال جی پانڈے انجان

 یوم پیدائش 28 اکتوبر 1930


کب کے بچھڑے ہوئے ہم آج کہاں آ کے ملے

جیسے شمع سے کہیں لو یہ جھلملا کے ملے

کب کے بچھڑے ہوئے ہم آج کہاں آ کے ملے

جیسے ساون سے کہیں پیاسی گھٹا چھا کے ملے


بعد مدت کے رات مہکی ہے

دل دھڑکتا ہے، سانس بہکی ہے

پیار چھلکا ہے پیاسی آنکھوں سے

سرخ ہونٹوں پہ آگ دہکی ہے

مہکی ہواؤں میں، بہکی فضاؤں میں، دو پیاسے دل یوں ملے

جیسے مےکش کوئی ساقی سے ڈگمگا کے ملے


دور شہنائی گیت گاتی ہے

دل کے تاروں کو چھیڑ جاتی ہے

یوں سپنوں کے پھول یہاں کھلتے ہیں

یوں دعائیں دل کی رنگ لاتی ہیں

برسوں کے بیگانے، الفت کے دیوانے، انجانے ایسے ملے

جیسے من چاہی دعائیں، برسوں آزما کے ملے


لال جی پانڈے انجان


اسلم فرخی

 یوم پیدائش 23 اکتوبر 1923


زد پہ آ جائے گا جو کوئی تو مر جائے گا

وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا


خود اسے بھی نہیں معلوم ہے منزل اپنی

جانے والے سے نہ پوچھو وہ کدھر جائے گا


آج اندھیرا ہے تو کل کوئی چراغ امید

مطلع وقت پہ سورج سا نکھر جائے گا


اس طرف آگ کا دریا ہے ادھر دار و رسن

دل وہ دیوانہ کہ جائے گا مگر جائے گا


کوئی منزل نہیں باقی ہے مسافر کے لیے

اب کہیں اور نہیں جائے گا گھر جائے گا


کوئے قاتل میں تہی دست کو جا ملتی نہیں

جو بھی جائے گا لیے ہاتھ میں سر جائے گا


کتنی تاریکی ہے شہر دل و جاں پر طاری

کوئی اندازہ نہیں کون کدھر جائے گا


ایک گلدستہ بنایا تھا پئے راحت جاں

اب یہ اندیشہ ہے ہر پھول بکھر جائے گا


ایک دن ایسا بھی قسمت سے ملے جب اسلمؔ

رقص کرتا ہوا محبوب نگر جائے گا


اسلم فرخی


علیم اطہر

 یوم پیدائش 27 اکتوبر


سر کو کھجائیں کیا نہ ملے جو فراغ بھی

 شیشہ پئیں کہ دیکھتے رقصِ ایاغ بھی


دل، چل پڑا ھے اپنے ہی نقشِ قدم پہ یوں

 چھوڑا ھے دشت اور ملا سبز باغ بھی


آنکھوں نے دلفریب حسینہ سکین کی

کتّوں نے سونگھ سونگھ کے لینا سراغ بھی


حاسد، کمینہ، عیب جُو پہلے ذرا سا تھا

شہرت نے، شاعری نے، کیا بددماغ بھی


پہلے تھا داغ دل میں، گناہوں کا بار تھا

صد شکر بڑھ چلا ھے یہ ماتھے پہ داغ بھی


نوبت کبھی نہ آتی، میں جاؤں خدا کے گھر

سیلفی کے شوق میں ہی جلائے چراغ بھی


علیم اطہر



محمد عارف

 جس حد تلک بھی راہِ وفا لے چلی، گئے

ہم زہر تک تو نام تِرا لے کے پی گئے


جینے کی جُستجو میں ہمیں موت آ گئی

مرنے کی آرزو تھی، مگر اور جی گئے


گھر سے نکل کے، پاس ہی، اِک میکدہ بھی تھا

ہم کو قسم ہے آپ کی جو ہم کبھی گئے


ہم سے غمِ فراق کی شدًت نہ پوچھیئے  

ہم اِنتہائے کرب میں ہونٹوں کو سی گئے


تھی تشنگی ضرور، مگر زندگی تو تھی

کیا شے ہمیں پِِلائی کہ ہم جاں سے ہی گئے


دیکھا جمالِ یار تو قائم رہے نہ ہوش

ایسا لگا کہ جیسے ابھی تھے، ابھی گئے


عارف ہجومِ یاس میں پژمردگی کے ساتھ

لب پر لئے جہان سے پھیکی ہنسی گئے


محمد عارف


محب الرحمان وفا

 یوم پیدائش 26 اکتوبر 1964

 

    ذراسا مل گیا ہوتا جوپیار مجھ کو بھی

    تو راس آ گئی ہوتی بہار مجھ کو بھی


    کشادہ دل جو دیا ہے تو تنگ دست نہ رکھ

    غنی بنادے اے پروردگار مجھ کو بھی


    کسی کے خواب ہوئے چکناچور پل بھر میں

    یہی شکایتیں ہیں میرے یار مجھ کو بھی


    سنا ہے ہوتا ہے اک دوست مثلِ آئینہ

    اگر یہ سچ ہے تو یارا سنوار مجھ کو بھی


    میں ایک پل میں خطائیں معاف کردونگا

    بس ایک بار تو دل سے پکار مجھ کو بھی


   کوئی جو دل بھی دکھائے تو مسکراتا رہوں

   خدایا بخش دے یہ اختیار مجھ کو بھی


   فضا میں خوشنما گل عطر گھولتے ہیں"وفا"

   تو یاد آتا ہے وہ بار بار مجھ کو بھی


محب الر حمان وفا


نوشاد نوری

 یوم پیدائش 26 اکتوبر 1926


کاروبارِ جنوں کی گیرائی

صرف تحسین، صرف رسوائی


ایک چھوٹی سی بات انساں کو

آسماں سے کہاں اٹھا لائی


دل کے ایسے معاملے ہیں جہاں

کام کرتی نہیں ہے دانائی


رات اُن کا خیال آتے ہی

چاندنی سیج پر اتر آئی


حسن اک کیفیت کو کہتے ہیں

جس سے جب تک نبھائے بینائی


دیکھتے دیکھتے کمال ہوا

آنکھوں آنکھوں میں بات طے پائی


گاہے گاہے رگوں میں چٹکی سی

جان پر آدمی کے بن آئی


سب سے دلچسپ و دلنشیں موضوع 

آدمی اور کنج تنہائی


آنسوؤں کی لکیر سے نوشاد

زخم کی ناپتے ہیں گہرائی


نوشاد نوری


اقبال اشہر

 یوم پیدائش 26 اکتوبر 1965


ٹھہری ٹھہری سی طبیعت میں روانی آئی

آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی


آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا

آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی


مدتوں بعد چلا ان پہ ہمارا جادو

مدتوں بعد ہمیں بات بنانی آئی


مدتوں بعد پشیماں ہوا دریا ہم سے

مدتوں بعد ہمیں پیاس چھپانی آئی


مدتوں بعد کھلی وسعت صحرا ہم پر

مدتوں بعد ہمیں خاک اڑانی آئی


مدتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل

مدتوں بعد ہمیں نیند سہانی آئی


اتنی آسانی سے ملتی نہیں فن کی دولت

ڈھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی


اقبال اشہر


ریاض ساغر

 دیکھ کر پرواز میری کہہ اٹھے سارے رقیب

اتنی اونچائی پہ ہوگا اس کا اندازہ نہ تھا


ریاض ساغر


 #اردو #اردودکن #urdud


eccan

دیپک شرما دیپ

 یوم پیدائش 25 اکتوبر


ہماری جان تم ایسا کرو گی 

ہماری جان کا سودا کرو گی 


تبھی یہ دل تمہیں دیں گے بتاؤ 

ذرا سی بات پر روٹھا کرو گی 


چلو تکیہ تمہارے ہی سرہانے 

وگرنہ رات بھر جھگڑا کرو گی 


نگاہوں سے نگاہوں کو پکڑ کر 

لبوں سے ہائے اف توبہ کرو گی 


ارے شرما رہی ہو کیوں کہو بھی 

نہا کر ہائے کیا پہنا کرو گی


دیپک شرما دیپ


ماورآ عنایت

 یوم پیدائش 25 اکتوبر 


بچا باقی تو جل کر کچھ نہیں ہے

مرے کمرے کے اندر کچھ نہیں ہے


شفق کرتی ہے پردہ شب جو آئے

حیا بن اور زیور کچھ نہیں ہے


سوائے نام کے تیرے مری جاں

مجھے دنیا میں ازبر کچھ نہیں ہے


مجھے تم زہر کی پڑیا پلا دو

یہ گولی خواب آور کچھ نہیں ہے


اگرچہ کر رہا ہے ان کو زخمی

بنا انگور کیکر کچھ نہیں ہے


ہزاروں بار ٹھوکر تم لگاؤ

تمہاری ایک ٹھوکر کچھ نہیں ہے


کرے پیدا یہ حرکت جھیل میں پر

بذاتِ خود یہ پتھر کچھ نہیں ہے


نہیں رکھا جو تم نے اس کو دل میں

تو میرے دل سا بے گھر کچھ نہیں ہے


ہر اک شے سے اٹھا ہے ماوراؔ دل

نظر کا جگ میں محور کچھ نہیں ہے


ماوراؔ عنایت


فاطمہ تاج

 یوم پیدائش 25 اکتوبر 1948


عروج درد تمنا ہے اب تو آ جاؤ

ہمارا دل یہی کہتا ہے اب تو آ جاؤ


نہیں ہے صحن گلستاں میں کوئی ہنگامہ

ہجوم شوق تمنا ہے اب تو آ جاؤ


کھلے ہیں پھول کئی آرزو کے گلشن میں

بس انتظار تمہارا ہے اب تو آ جاؤ


کبھی کبھی تو حسیں چاندنی بھی چبھتی ہے

کرن کرن میں اندھیرا ہے اب تو آ جاؤ


نہ جانے عمر کہاں یہ تمام ہو جائے

ابھی حیات کا لمحہ ہے اب تو آ جاؤ


ہم اپنے دل کے اندھیروں سے خود پریشاں تھے

چراغ شوق جلایا ہے اب تو آ جاؤ


نہ ساتھ دے گی تمہارا بھی تاجؔ تنہائی

ہمارے ساتھ یہ دنیا ہے اب تو آ جاؤ


فاطمہ تاج


مومن غازی پوری

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1933


اربابِ سیاست کی ہر اک بات ہی مومنؔ

بالخیر بہت کم ہے شر انگیز بہت ہے


  مومنؔ غازی پوری


زین نقوی

 ترے خیال میں سگرٹ فقط نشہ ہے مگر

ہم اہلِ ہجر اسے اپنا رزق کہتے ہیں


زین نقوی


سلیم کوثر

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1947


میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے


میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں

میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے


عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی

میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے


مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر

تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے


تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں

تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے


وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں

مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے


کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے

جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے


جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی

تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے


سلیم کوثر


مولانا سید شاہ معز الدین قادری

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1905


اس دامن رحمت کا صدقہ تقدیرِ معزؔ بن کر چمکا

انوارِ محمدؐ سے بڑھ کر مرقد میں اجالا کیا ہوگا


مولانا سید شاہ معز الدین قادری


نیاز احمد مجاز انصاری

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1950


کہیں بھی انقلاب آئے یہی تصویر بولے گی

کبھی تحریر بولے گی کبھی شمشیر بولے گی


فقط خوابوں میں کھونے سے کہیں تقدیر بولے گی

عمل شامل اگر ہو تو ہر اک تدبیر بولے گی


وہاں پر مصحفِ احساس کی تحریر بولے گی

حدیثِ زندگی کی جِس جگہ تفسیر بولے گی


ہر اک منبر سے جب اسلام کی تاثیر بولے گی

مُقّرر خود نہ بولے گا مگر تقریر بولے گی


جہاں سے امن کے موسم میں ہوگی خون کی بارش

سمجھ لینا وہیں سے جنگِ عالمگیر بولے گی


خبر کیا تھی کہ جس کی پیاس پر کوثر نچھاور ہے

اُسی معصوم کی گردن پہ نوكِ تیر بولے گی


کِسے تیرا خیال آئے گا تنہائی کے عالم میں

اگر آئینہ خانے میں کوئی تصویر بولے گی


دہل اٹھّیں گی دیواریں تمہارے قید خانوں کی

 چٹخ کر جب ہمارے پاؤں کی زنجیر بولے گی


کوئی تو خضر بن کر راستے میں آ ہی جائے گا

سِکندر کی زباں جب عالمی تسخیر بولے گی


جِسے ہم جاگتی آنکھوں میں رکھ کر بھول آئے ہیں

کہاں تک اُس ادھورے خواب کی تعبیر بولے گی


محاذِ زندگی پر فتح یابی ہی مُقدر ہے

زبانِ صدق سے تحریک جب تکبیر بولے گی


مرے احباب بھی مجھ کو بھلا دیں گے مجاز اُس دن

کھنڈر کا روپ لے کر جب مری جاگیر بولے گی


نیاز احمد مجاز انصاری


بہادر شاہ ظفر

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1775


لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں


کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں 

اتنی جگہ کہاں ہے دل دغدار میں 


کانٹوں کو مت نکال چمن سے او باغباں

یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں


بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ

قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں


کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں


بہادر شاہ ظفر


(ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں

یہ شعر پیمانہ غزل پیج نمبر 123 پر موجود ہے)


آنند نرائن ملا

 یوم پیدائش 24 اکتوبر 1901


یہ دل آویزیٔ حیات نہ ہو

اگر آہنگ حادثات نہ ہو


تیری ناراضگی قبول مگر

یہ بھی کیا بھول کر بھی بات نہ ہو


زیست میں وہ گھڑی نہ آئے کہ جب

ہات میں میرے تیرا ہات نہ ہو


ہنسنے والے رلا نہ اوروں کو

صبح تیری کسی کی رات نہ ہو


عشق بھی کام کی ہے چیز اگر

یہی بس دل کی کائنات نہ ہو


کون اس کی جفا کی لائے تاب

گاہے گاہے جو التفات نہ ہو


رند کچھ کر رہے ہیں سرگوشی

ذکر ملاؔ سے خوش صفات نہ ہو


آنند نرائن ملا


وامق جونپوری

 یوم پیدائش 23 اکتوبر 1909


زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے

فسانہ اور ہوتا ہے حقیقت اور ہوتی ہے


نہیں ملتے تو اک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی

مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے


یہ مانا شیشۂ دل رونق بازار الفت ہے

مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے


نگاہیں تاڑ لیتی ہیں محبت کی اداؤں کو

چھپانے سے زمانے بھر کی شہرت اور ہوتی ہے


یہ مانا حسن کی فطرت بہت نازک ہے اے وامقؔ

مزاج عشق کی لیکن نزاکت اور ہوتی ہے


وامق جونپوری


عبدالرحمان خان وصفی بہرائچی

 یوم پیدائش 22 اکتوبر 1914


غم سے گھبرا کے کبھی نالہ و فریاد نہ کر

عزت نفس کسی حال میں برباد نہ کر


دل یہ کہتا ہے کہ دے اینٹ کا پتھر سے جواب

جو تجھے بھولے اسے تو بھی کبھی یاد نہ کر


توڑ دے بند قفس کچھ بھی اگر ہمت ہے

اک رہائی کے لئے منت صیاد نہ کر


اپنے حالات کو بہتر جو بنانا ہے تجھے

عہد رفتہ کو کبھی بھول کے بھی یاد نہ کر


حال کو دیکھ سمجھ وقت کی قیمت اے دوست

فکر فردا میں کبھی وقت کو برباد نہ کر


زندگی بنتی ہے کردار سے کردار بنا

مختصر زیست کے لمحات کو برباد نہ کر


کبھی بدلا ہے نہ بدلے گا محبت کا مزاج

اہل دل ہے تو کسی دل کو بھی ناشاد نہ کر


مدعی علم کا ہے جہل مرکب لا ریب

قول فیصل ہے فراموش یہ ارشاد نہ کر


عبدالرحمان خان وصفی بہرائچی


آصف انجم

 یوم پیدائش 22 اکتوبر


براہِ دستِ طلب، انکسارِ ذات کے پھول

قبول کیجئے لایا ہوں چار نعت کے پھول


تُو میری قبر پہ خاکِ مدینہ رکھنا دوست

مری طلب میں نہیں تیری کائنات کے پھول


درود ﷺ پڑھتے ہوئے کوئی بھی ارادہ کروں

مہک اٹھیں گے مرے پاس ممکنات کے پھول


حضور ﷺ آپ کے دستِ دعا کی نسبت سے

بروزِ حشر مہک جائیں گے نجات کے پھول


مجھے جو ناقہ ء نبوی ﷺ کا ساتھ مل جاتا

بڑی لگن سے سجاتا اُسے میں کات کے پھول


سُنو یہ میرے نبی ﷺ کی دعاؤں کا ہے ثمر

فرشتے بانٹنے آئے شبِ برات کے پھول


حضور ﷺ آپ ﷺ کا ادنیٰ غلام ہے انجم

جو آپ ﷺ چاہیں تو کھلتے رہیں حیات کے پھول


آصف انجم


انور ندیم

 یوم پیدائش 22 اکتوبر 1937


کیا سنائیں تمہیں کوئی تازہ غزل

شعر حیرت زدہ آب دیدہ غزل


تم کو لوگو ابھی بھانگڑہ چاہیئے

درد کی زندگی کا ترانہ غزل


وقت برباد کرتے رہے اس طرح

ہم سناتے رہے سب کو تازہ غزل


ترجمان شکستہ دلی تھی مگر

محفلوں میں چلی وہ شکستہ غزل


آدمی کو کبھی بھول سکتی نہیں

زندگی سے نبھاتی ہے رشتہ غزل


ہر گھڑی چھیڑنا بھی مناسب نہیں

بن گئی زندگی میں تراشا غزل


انور بے زباں آج اقرار کر

رات پھر ہو گئی بے ارادہ غزل


انور ندیم


اسد اعوان

 یوم پیدائش 22 اکتوبر 1975


ان گنت یوں تو خریدار ملے ہم نہ ملے 

وہ جو یوسف تھے کئی بار ملے ہم نہ ملے 


آج راہوں میں ملاقات ہوئی ہے اُن سے 

آج وہ صورتِ دلدار ملے ہم نہ ملے 


کون جانے کہ کہاں کھوئے تھے ہم محفل میں

کتنی رغبت سے ہمیں یار ملے ہم نہ ملے 


ہم بھی نخوت میں رہے کوچہء تنہائی میں

عید کے روز طرح دار ملے ہم نہ ملے


ہم تو ہر دور میں حق گوئی کے منصب پہ رہے 

کب کوئی ہم سے سرِدار ملے ہم نہ ملے 


کل جو تنہائی میں ملنے سے گریزاں تھے ہمیں 

آج وہ بر سرِ بازار ملے ہم نہ ملے 


ہم بھی کوفے میں رہے ابنِ مظاہر کی طرح 

ابنِ مرجانہ سے غدار ملے ہم نہ ملے 


سوچتے رہتے ہیں ہم اپنی کہانی پہ اسد 

کھل کے ہر فرد کے کردار ملے ہم نہ ملے


اسد اعوان


شعیب بن عزیز

 یوم پیدائش 21 اکتوبر 1950


اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں 

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں 


اب تو اس کی آنکھوں کے مے کدے میسر ہیں 

پھر سکون ڈھونڈوگے ساغروں میں جاموں میں 


دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب 

میں ترے فقیروں میں میں ترے غلاموں میں 


زندگی بکھرتی ہے شاعری نکھرتی ہے 

دلبروں کی گلیوں میں دل لگی کے کاموں میں 


جس طرح شعیبؔ اس کا نام چن لیا تم نے 

اس نے بھی ہے چن رکھا ایک نام ناموں میں 


شعیب بن عزیز


شہباز ندیم ضیائی

 یوم پیدائش 21 اکتوبر 1951


ساعت آسودگی دیکھے ہوئے عرصہ ہوا

مفلسی کو میرے گھر ٹھہرے ہوئے عرصہ ہوا


لمحۂ راحت رسا دیکھے ہوئے عرصہ ہوا

ماں ترے شانے پہ سر رکھے ہوئے عرصہ ہوا


ہجر کی تاریکیوں کا سلسلہ ہے دور تک

چاندنی کو چاند سے بچھڑے ہوئے عرصہ ہوا


زندگی بے خواب لمحوں میں سمٹ کر رہ گئی

ہجر میں تیرے پلک جھپکے ہوئے عرصہ ہوا


خوف سے سہما ہوا ہے دل پرندہ آج بھی

سر سے سیلاب الم گزرے ہوئے عرصہ ہوا


دل کو رہتا ہے مسلسل منتشر ہونے کا خوف

یعنی اندر سے مجھے ٹوٹے ہوئے عرصہ ہوا


کاروبار زیست میں کچھ اس قدر الجھا کہ بس

تیرے بارے میں بھی کچھ سوچے ہوئے عرصہ ہوا


اے ہجوم آرزو اب چاہتا ہوں تخلیہ

خانۂ دل میں تجھے رہتے ہوئے عرصہ ہوا


میں کہاں ہوں کون سی منزل میں ہوں کوئی بتائے

مجھ کو اپنی کھوج میں نکلے ہوئے عرصہ ہوا


دشمنی گم ہو گئی ہے دوستوں کی بھیڑ میں

چہرہ ہائے دشمناں دیکھے ہوئے عرصہ ہوا


جا تو اپنی راہ لے اب اے دل عشرت طلب

پہلوئے شہبازؔ میں بیٹھے ہوئے عرصہ ہوا


شہباز ندیم ضیائی


شہاب دہلوی

 یوم پیدائش 20 اکتوبر 1922


حادثے راہِ طلب میں ابھی کچھ اور بھی ہیں

قابلِ غور سوالات پسِ غور بھی ہیں


ہم نے ناموسِ وفا کو ہی رکھا پیش نظر

ورنہ جینے کے طریقے تو یہاں اور بھی ہیں


کہیں مرجھائے ہوئے پھول کہیں تازہ بہار

چند دستور پرانے بھی نئے طور بھی ہیں


انقلابات جہاں کے ہیں ہزاروں پہلو

قابلِ دید ہی کیا قابلِ صد غور بھی ہیں


میکدہ تیری ہی جاگیر نہیں ہے ساقی

ہم بھی ہیں جام طلب تشنہ یہاں اور بھی ہیں


خار و خس کو گل و غنچہ پہ فضیلت ہوگی

گردشِ وقت کی تحویل میں وہ دور بھی ہیں


جا نہ گلزار میں پھولوں کے تبسم پہ شہاب

غم کے پابند یہاں تیری طرح اور بھی ہیں


شہاب دہلوی


ذکیہ غزل

 یوم پیدائش 20 اکتوبر 1963


اک بار مدینے کا سفر ہو تو کرم ہو

روضہ پہ پہنچ جاؤں تو پھر نعتؐ رقم ہو


خواہش مجھے دنیا کی نہیں ہے مرے آقاؐ

اب جو بھی سفر ہو، سوئے بطحا و حرم ہو


منگتی ہوں ترے در کی نہ خالی مجھے لوٹا

قائم یونہی بس میری دعاؤں کا بھرم ہو


ہونٹوں پہ ثنا سامنے ہو گنبدِ خضرا

بارش تری رحمت کی ہو اور صحنِ حرم ہو


شرمندہ گناہوں پہ ہوں مایوس نہیں ہوں

آقاؐ درِ اقدس پہ نہ رسوائی کا غم ہو


جاؤ جو غزل تم بھی کبھی شہرِ مدینہ

دامانِ طلب اشکِ ندامت سے بھی نم ہو


ذکیہ غزل


صدا انبالوی

 یوم پیدائش 20 اکتوبر 1951


اب کہاں دوست ملیں ساتھ نبھانے والے

سب نے سیکھے ہیں اب آداب زمانے والے


دل جلاؤ یا دیئے آنکھوں کے دروازے پر

وقت سے پہلے تو آتے نہیں آنے والے


اشک بن کے میں نگاہوں میں تری آؤں گا

اے مجھے اپنی نگاہوں سے گرانے والے


وقت بدلا تو اٹھاتے ہیں اب انگلی مجھ پر

کل تلک حق میں مرے ہاتھ اٹھانے والے


وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا

درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے


اک نظر دیکھ تو مجبوریاں بھی تو میری

اے مری لغزشوں پر آنکھ ٹکانے والے


کون کہتا ہے برے کام کا پھل بھی ہے برا

دیکھ مسند پہ ہیں مسجد کو گرانے والے


یہ سیاست ہے کہ لعنت ہے سیاست پہ صداؔ

خود ہیں مجرم بنے قانون بنانے والے


صدا انبالوی 


ایلزبتھ کورین مونا

 یوم پیدائش 18 اکتوبر 1949


دامن تیرا مجھ سے چھوٹا ملنے کے حالات نہیں

لیکن تجھ کو بھول سکوں میں ایسی بھی تو بات نہیں


بدلے بدلے سے لگتے ہیں آج یہ تیرے تیور کیوں

پہلے جیسے کیوں اب تیرے پیار کے وہ جذبات نہیں


میرے ہاتھ کی ساری لکیریں الجھی الجھی لاکھ سہی

ان میں مجھ کو تو مل جائے ہوگی میری مات نہیں


تم سے بچھڑے عرصہ بیتا پھر بھی عکس ہے آنکھوں میں

آئے نہ ہو تم خوابوں میں جو ایسی کوئی رات نہیں


خوش قسمت ہیں لوگ وہ جن کو پیار کے بدلے پیار ملا

اس دنیا میں ہر انساں کو حاصل یہ سوغات نہیں


جاتے جاتے غم کی دولت تم نے بھر دی جھولی میں

اب یہ زیست کا سرمایہ ہے معمولی خیرات نہیں


درد بھری ہے یاد ماضی پھر بھی بس جی لیتے ہیں

ہم نے جانا ہر منڈپ میں آتی ہے بارات نہیں


چاہے بہار کا موسم ہو یا وصل کا کوئی عالم ہو

بیت گئے جو پھر سے واپس آتے وہ لمحات نہیں


جب جب تم یاد آئے موناؔ بھر آئیں میری آنکھیں

آگ لگائے دل میں آنسو یہ کوئی برسات نہیں


ایلزبتھ کورین مونا


محسن نقوی

 نظم موج ادراک


اے عالمِ نجوم و جواہر کے کِردگار !

اے کارسازِ دہر و خداوندِ بحر و بر

اِدراک و آگہی کے لیے منزلِ مراد

بہرِ مسافرانِ جنوں ، حاصلِ سفر !

یہ برگ و بار و شاخ و شجر ، تیری آیتیں

تیری نشانیاں ہیں یہ گلزار و دشت و در

یہ چاندنی ہے تیرے تبسم کا آئینہ

پرتَو ترے جلال کا بے سایہ دوپہر !

موجیں سمندروں کی ، تری رہگزر کے موڑ

صحرا کے پیچ و خم ، ترا شیرازہ ہُنر !

اُجڑے دلوں میں تیری خموشی کے زاویے

تابندہ تیرے حرف ، سرِ لوحِ چشم تر

موجِ صبا ، خرام ترے لطفِ عام کا

تیرے کرم کا نام ، دُعا در دُعا ، اثر


اے عالمِ نجوم و جواہر کے کِردگار !

پنہاں ہے کائنات کے ذوقِ نمو میں تُو

تیرے وجود کی ہے گواہی چمن چمن !

ظاہر کہاں کہاں نہ ہُوا ، رنگ و بُو میں تُو

مری صدا میں ہیں تری چاہت کے دائرے

آباد ہے سدا مرے سوزِ گلو میں تُو

اکثر یہ سوچتا ہوں کہ موجِ نفس کے ساتھ

شہ رگ میں گونجتا ہے لہُو ، یا لہُو میں تُو ؟


اے عالمِ نجوم و جواہر کے کِردگار 

مجھ کو بھی گِرہِ شام و سحر کھولنا سکھا 

پلکوں پہ میں بھی چاند ستارے سجا سکوں

میزانِ خس میں مجھ کو گہر تولنا سکھا

اب زہر ذائقے ہیں زبانِ حروف کے

اِن ذائقوں میں "خاک شفا” گھولنا سکھا

دل مبتلا ہے کب سے عذابِ سکوت میں

تو ربِّ نطق و لب ہے ، مجھے "بولنا” سکھا


عاشور کا ڈھل جانا ، صُغرا کا وہ مر جانا

اکبر تِرے سینے میں ، برچھی کا اُتر جانا

اے خونِ علی اصغر میدانِ قیامت میں

شبیر کے چہرے پر کچھ اور نکھر جانا

سجاد یہ کہتے تھے ، معصوم سکینہ سے

عباس کے لاشے سے چپ چاپ گزر جانا

ننھے سے مجاہد کو ماں نے یہ نصیحت کی

تِیروں کے مقابل بھی ، بے خوف و خطر جانا

محسن کو رُلائے گا ، تا حشر لہُو اکثر

زہرا تیری کلیوں کا صحرا میں بکھر جانا


یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار

اِس عالمِ امکاں میں ابھی کچھ بھی نہیں تھا

اِک "جلوہ” تھا ، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں

اِک "عکس” تھا ، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا


یہ موسمِ خوشبو یہ گُہَر تابیِ شبنم

یہ رونقِ ہنگامۂ کونین کہاں تھی؟

گُلنار گھٹاؤں سے یہ چَھنتی ہوئی چھاؤں

یہ دھوپ ، دھنک ، دولتِ دارین کہاں تھی ؟


یہ نکہتِ احساس کی مقروض ہوائیں

دلداری الہام سے مہکے ہوئے لمحات

دوشیزہ انفاس کی تسبیح کے تیوَر

کس کنجِ تصوُّر میں تھے مصروفِ مناجات


"شیرازہ آئینِ قِدَم” کے سبھی اِعراب

بے رَبطیِ اجزائے سوالات میں گُم تھے

یہ رنگ یہ نَیرنگ یہ اورنگ یہ سب رنگ

اِک پردۂ افکار و خیالات میں گُم تھے


یہ پھُول یہ کلیاں یہ چَٹکے ہوئے غُنچے

بے آب و ہوا تشنۂ آیات و مناجات

یہ برگ یہ برکھا یہ لچکتی ہوئی شاخیں

بیگانۂ آدابِ سحر ، بے لِم جذبات


کُہسار کے جَھرنوں سے پھسلتی ہوئی کرنیں

اِک خوابِ مسلسل کے تحیّر میں نہاں تھیں

چپ چاپ فضاؤں میں مچلتی ہوئی لہریں

ماحول کے بے نطق تصوّر پہ گراں تھیں


غم خانۂ ظلمت ، نہ کوئی بزمِ چراغاں

خورشید نہ مہتاب ، نہ انجم نہ کواکِب

شورش گۂ "کُن” تھی نہ یہ آوازِ دمادم

تفریقِ مَن و تُو ، نہ مساوات و مراتب


ہنگامۂ شادی ، نہ کوئی مجلسِ ماتم

یلغارِ حریفاں ، نہ جلوسِ غمِ یاراں

آنکھوں میں کوئی زخم ، نہ سینے میں کوئی چاک

انبوۂ رقیباں ، نہ رُخِ لالہ عذاراں


اَفلاس کا احساس ، نہ پندارِ زَر و سیم

بخشش کے تقاضے ، نہ یہ دریوزہ گَری تھی

پتھر کا زمانہ تھا ، نہ شیشے کے مکاں تھے

یہ عقل کا دستور ، نہ شَوریدہ سَری تھی


مقتول کی فریاد ، نہ آوازۂ قاتل

مقتل تھے ، نہ شہ رگ میں لہو تھا ، نہ ہَوَس تھی

دربار ، نہ لشکر ، نہ کوئی عَدل کی زنجیر

دِل تھا ، نہ کہیں تیرگیِ کنجِ قفس تھی


رہبر تھے ، نہ منزل تھی ، نہ رستے ، نہ مسافر

قندیل ، نہ جُگنو ، نہ ستارے ، نہ گُہر تھے

یہ اَبیض و اَسود ، نہ اَبّ و جَد ، نہ زَر و سیم

اِنساں تھے ، نہ حیواں ، نہ حَجر تھے ، نہ شَجر تھے


ہر سمت مسلط تھے تحیّر کے طلِسمات

جیسے کسی مدفن میں ہو صدیوں کا کوئی راز

جس طرح کِسی اُجڑے ہوئے شہر کے سائے

یا موت کی ۂ چکی میں پگھلتی ہوئی آواز


جیسے کسی گھر میں صَفِ ماتم کی خموشی

یا دشت و بیاباں میں نزولِ شبِ آفات

جیسے کسی کہسار پہ تنہا کوئی خیمہ

یا شامِ غریباں کے تصرف میں سمٰوات


ہَولے سے سِرکنے لگے ہستی کے حجابات

دھیرے سے ڈھلکنے لگا تخلیق کا آنچل

چھَن چھَن کے بکھرنے لگا "شیرازۂ کُن کُن”

رِم جھِم سے برسنے لگے احساس کے بادل


پلکیں سی جھپکنے لگی دوشیزۂ کونین

ہلچل سی ہوئی پیکرِ عالم کی رگوں میں

آفاق کے سینے میں دھڑکنے لگیں کرنیں

"شیرازہ کُن” ڈھل بھی گیا تھا "فَیَکُوں” میں


ہر سمت بکھرنے لگیں وجدان کی کرنیں

کرنوں سے کھِلے رنگ تو رنگوں سے گلستاں

بیدار ہوئی خواب سے خوشبوئے رگِ گُل

خوشبو سے مہکنے لگا دامانِ بیاباں


دامانِ بیاباں میں نہاں سینہ برفاب

برفاب کے سینے میں تلاطم بھی شَرر بھی

اعجازِ لبِ کُن سے ہوئے خَلق بیک وقت

صحرا بھی ، سمندر بھی ، کہستاں بھی ، شجر بھی


پھر حِدّتِ تخلیق کی شدت سے پگھل کر

جاگے کئی طوفان ، تہِ سینہ برفاب

ہر موج تھی پَروَردۂ آغوشِ تلاطم

ہر قطرہ کا دل ، صورتِ بے خوابی سِیماب


شانوں پہ اُٹھائے ہوئے بارِ کفِ سیلاب

بے سمت بھٹکنے لگیں منہ زور ہوائیں

مُنہ زور ہواؤں کے تھپیڑوں کی دھمک سے

دِل بن کے دھڑکنے لگیں بے رنگ فضائیں


بے رنگ فضاؤں کے تحیر کی کَسک میں

پنہاں تھے شب و روز سے آلود زمانے

بے اَنت زمانوں کے اُفق تھے نہ حدیں تھیں

آخر دیا ترتیب انہیں دَستِ قضا نے


پھر چشمِ تحیر نے یہ سوچا کہ فضا میں

شادابیِ گلزارِ طرب کس کے لیے ہے ؟

یہ کون ہُوا باعثِ تخلیقِ دو عالم ؟

یہ ارض و سما کیوں ہیں ، یہ سب کس کے لیے ہے ؟


تزئینِ مَہ و انجمِ افلاک کا باعث

ہے کون ؟ جو خلوت کے حجابوں میں چھُپا ہے؟

تخلیقِ رگ و ریشۂ کونین کا مقصد

ہے کیا ؟ جو سرِ لوحِ شب روز لکھا ہے ؟


ہے کس کے لیے عَشوہ بلقیسِ تصوّر

یہ غمزۂ رخسارِ جہاں کس کے لیے ہے ؟

آرائشِ خال و خدِ ہستی کا سبب کون ؟

یہ انجمنِ کون و مکاں کس کے لیے ہے ؟


پھر ریشمِ انوار کا ملبوس پہن کر

ظاہر ہوا اِک پیکرِ صد رنگ بصد ناز

نِکھرے کئی بکھرے ہوئے رنگوں کے مناظر

فطرت کی تَجلّی ہوئی آمادۂ اعجاز


وہ پیکرِ تقدیس ، وہ سرمایہ تخلیق

وہ قبلۂ جاں ، مقصدِ تخلیقِ دو عالم

وجدان کا معیار ، مَہ و مہر کا محوَر

وہ قافلہ سالارِ مزاجِ بنی آدم


وہ منزلِ اربابِ نظر ، فکر کی تجسیم

وہ کعبۂ تقدیرِ دو عالم ، رخِ احساس

وہ بزمِ شب و روز کا سلطانِ مُعظّم

وہ رونقِ رخسارۂ فیروزہ و الماس


وہ شعلگیِ شمعِ حرم ، تابشِ خورشید

وہ آئینہ حُسنِ رُخِ ارض و سماوات

وہ جس سے رواں موجِ تبسم کی سبیلیں

وہ جس کے تکلم کی دھنک چشمہ آیات


وہ جس کا ثنا خواں دلِ فطرت کا تکلم

ہستی کے مناظر ، خمِ ابرو کے اشارے

آفاق ہیں دامن کی صباحت پہ تصدُّق

قدموں کے نشاں ڈھونڈتے پھرتے ہیں ستارے


اُس رحمتِ عالم کا قصیدہ کہوں کیسے؟

جو مہرِ عنایات بھی ہو ، ابرِ کرم بھی

کیا اُس کے لیے نذر کروں ، جس کی ثنا میں

سجدے میں الفاظ بھی ، سطریں بھی ، قلم بھی


چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ

آنکھیں ہیں کہ بحرین تقدس کے نگین ہیں

ماتھا ہے کہ وحدت کی تجلی کا ورق ہے

عارِض ہیں کہ "والفجر” کی آیات کے اَمیں ہیں


گیسُو ہیں کہ "وَاللَّیل” کے بکھرے ہوئے سائے

ابرو ہیں کہ قوسینِ شبِ قدر کھُلے ہیں

گردن ہے کہ بَر فرقِ زمیں اَوجِ ثُریا

لَب صورتِ یاقوت شعاعوں میں دھُلے ہیں


قَد ہے کہ نبوت کے خدوخال کا معیار

بازو ہیں کہ توحید کی عظمت کے عَلم ہیں

سینہ ہے کہ رمزِ دل ہستی کا خزینہ

پلکیں ہیں کہ الفاظِ رُخِ لوح و قلم ہیں


باتیں ہیں کہ طُوبٰی کی چٹکتی ہوئی کلیاں

لہجہ ہے کہ یزداں کی زباں بول رہی ہے

خطبے ہیں کہ ساون کے اُمنڈتے ہوئے دریا

قرأت ہے کہ اسرارِ جہاں کھول رہی ہے


یہ دانت ، یہ شیرازہ شبنم کے تراشے

یاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرے

شرمندہ تابِ لب و دندانِ پَیمبرؐ

حرفے بہ ثنا خوانی و خامہ بہ صریرے


یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے

یہ عکسِ متانت ہے کہ ٹھہرا ہوا موسم

یہ شُکر کے سجدے ہیں کہ آیات کی تنزیل

یہ آنکھ میں آنسو ہیں کہ الہام کی رِم جھم


یہ ہاتھ یہ کونین کی تقدیر کے اوراق

یہ خط ، یہ خد و خالِ رُخِ مصحف و اِنجیل

یہ پاؤں یہ مہتاب کی کِرنوں کے مَعابِد

یہ نقشِ قدم ، بوسہ گہِ رَف رَف و جِبریل


یہ رفعتِ دستار ہے یا اوجِ تخیل

یہ بند قبا ہے کہ شگفتِ گُلِ ناہید

یہ سایہ داماں ہے کہ پھیلا ہوا بادل

یہ صبحِ گریباں ہے کہ خمیازۂ خورشید


یہ دوشِ پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے

یہ مہرِ نبوت ہے کہ نقشِ دلِ مہتاب

رُخسار کی ضَو ہے کہ نمو صبحِ ازل کی

آنکھوں کی ملاحت ہے کہ روئے شبِ کم خواب


ہر نقشِ بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے

تزئین شب و روز کہ تمثیلِ مہ و سال

ملبوسِ کُہن یوں شِکن آلود ہے جیسے

ترتیب سے پہلے رخِ ہستی کے خدوخال


رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور

کردار میں شامل بنی ہاشم کی اَنا ہے

گفتار میں قرآں کی صداقت کا تیقُّن

معیار میں گردُوں کی بلندی کفِ پا ہے


وہ فکر کہ خود عقلِ بشر سَر بگریباں

وہ فقر کے ٹھوکر میں ہے دنیا کی بلندی

وہ شُکر کے خالق بھی ترے شُکر کا ممنون

وہ حُسن کہ یوسفؑ بھی کرے آئینہ بندی


وہ علم کہ قرآں کا تِری عِترت کا قصیدہ

وہ حِلم کہ دشمن کو بھی اُمیدِ کرم ہے

وہ صبر کہ شَبِّیر تِری شاخِ ثمر دار

وہ ضبط کہ جس ضبط میں عرفانِ اُمم ہے


"اورنگِ سلیمان” تری نعلین کا خاکہ

"اِعجازِ مسیحا” تری بکھری ہوئی خوشبو

"حُسنِ یدِ بیضا” تری دہلیز کی خیرات

کونین کی سَج دھج تِری آرائشِ گیسُو


سَرچشمۂ کوثر ترے سینے کا پسینہ

سایہ تری دیوار کا معیارِ اِرَم ہے

ذرے تِری گلیوں کے مہ و انجمِ افلاک

"سُورج” ترے رہوار کا اک نقشِ قدم ہے


دنیا کے سلاطیں ترے جارُوب کشوں میں

عالم کے سکندر تِری چوکھٹ کے بھکاری

گردُوں کی بلندی ، تری پاپوش کی پستی

جبریل کے شہپر ترے بچوں کی سواری


دھرتی کے ذوِی العدل ، تِرے حاشیہ بردار

فردوس کی حوریں ، تِری بیٹی کی کنیزیں

کوثر ہو ، گلستانِ ارم ہو کہ وہ طُوبٰی

لگتی ہیں ترے شہر کی بکھری ہوئی چیزیں


ظاہر ہو تو ہر برگِ گُلِ تَر تِری خوشبو

غائب ہو تو دنیا کو سراپا نہیں ملتا

وہ اِسم کہ جس اِسم کو لب چوم لیں ہر بار

وہ جسم کہ سُورج کو بھی سایہ نہیں ملتا


احساس کے شعلوں میں پگھلتا ہوا سورج

انفاس کی شبنم میں ٹھٹھرتی ہوئی خوشبو

اِلہام کی بارش میں یہ بھیگے ہوئے الفاظ

اندازِ نگارش میں یہ حُسن رمِ آہُو


حیدر تری ہیبت ہے تو حَسنین ترا حُسن

اصحاب وفادار تو نائب تِرے معصوم

سلمٰی تری عصمت ہے ، خدیجہ تری توقیر

زہرا تری قسمت ہے تو زینب ترا مقسوم


کس رنگ سے ترتیب تجھے دیجیے مولا ؟

تنویر ، کہ تصویر ، تصور ، کہ مصور ؟

کس نام سے امداد طلب کیجیے تجھ سے

یٰسین ، کہ طہٰ ، کہ مُزمِّل ، کہ مدثر ؟


پیدا تری خاطر ہوئے اطرافِ دو عالم

کونین کی وُسعت کا فَسوں تیرے لیے ہے

ہر بحر کی موجوں میں تلاطم تِری خاطر

ہر جھیل کے سینے میں سَکوں تیرے لیے ہے


ہر پھول کی خوشبو تِرے دامن سے ہے منسوب

ہر خار میں چاہت کی کھٹک تیرے لیے ہے

ہر دشت و بیاباں کی خموشی میں تِرا راز

ہر شاخ میں زلفوں سی لٹک تیرے لیے ہے

دِن تیری صباحت ہے ، تو شب تیری علامت

گُل تیرا تبسم ہے ، ستارے ترے آنسو

آغازِ بہاراں تری انگڑائی کی تصویر

دِلداریِ باراں ترے بھیگے ہوئے گیسُو


کہسار کے جھرنے ترے ماتھے کی شعاعیں

یہ قوسِ قزح ، عارضِ رنگیں کی شکن ہے

یہ "کاہکشاں” دھُول ہے نقشِ کفِ پا کی

ثقلین ترا صدقۂ انوارِ بدن ہے


ہر شہر کی رونق ترے رستے کی جمی دھول

ہر بَن کی اُداسی تری آہٹ کی تھکن ہے

جنگل کی فضا تیری متانت کی علامت

بستی کی پھبن تیرے تَبسُّم کی کرن ہے


میداں ترے بُوذر کی حکومت کے مضافات

کہسار ترے قنبر و سلماں کے بسیرے

صحرا ترے حبشی کی محبت کے مُصلّے

گلزار ترے میثم و مِقداد کے ڈیرے


کیا ذہن میں آئے کہ تو اُترا تھا کہاں سے ؟

کیا کوئی بتائے تِری سرحد ہے کہاں تک ؟

پہنچی ہے جہاں پر تِری نعلین کی مٹی

خاکسترِ جبریل بھی پہنچے نہ وہاں تک


سوچیں تو خدائی تِری مرہونِ تصوّر

دیکھیں تو خدائی سے ہر انداز جُدا ہے

یہ کام بشر کا ہے نہ جبریل کے بس میں

تو خود ہی بتا اے میرے مولا کہ تو کیا ہے ؟


کہنے کو تو ملبوسِ بشر اوڑھ کے آیا

لیکن ترے احکام فلک پر بھی چلے ہیں

انگلی کا اشارہ تھا کہ تقدیر کی ضَربت

مہتاب کے ٹکڑے تری جھولی میں گِرے ہیں


کہنے کو تو بستر بھی میسر نہ تھا تجھ کو

لیکن تری دہلیز پہ اترے ہیں ستارے

اَنبوہِ ملائک نے ہمیشہ تری خاطر

پلکوں سے ترے شہر کے رستے بھی سنوارے


کہنے کو تو امی تھا لقب دہر میں تیرا

لیکن تو معارف کا گلستاں نظر آیا

ایک تو ہی نہیں صاحبِ آیاتِ سماوات

ہر فرد ترا وارثِ قرآں نظر آیا


اے فکرِ مکمل ، رُخِ فطرت ، لبِ عالم

اے ہادی کُل ، خَتم رُسل ، رحمت پیہم

اے واقفِ معراجِ بشر ، وارثِ کونین

اے مقصدِ تخلیقِ زماں ، حُسنِ مُجسّم

ن سلِ بنی آدم کے حسِین قافلہ سالار

انبوہِ ملائک کے لیے ظلِ الٰہی 

پیغمبرِ فردوسِ بریں ، ساقی کوثر

اے منزلِ ادراک ، دِل و دیدہ پناہی


اے باعثِ آئینِ شب و روزِ خلائق

اے حلقۂ ارواحِ مقدس کے پیمبرؐ

اے تاجوَرِ بزمِ شریعت ، مرے آقا 

اے عارفِ معراجِ بشر ، صاحبِ منبر 


اے سید و سَرخیل و سرافراز و سخن ساز

اے صادق و سجاد و سخی ، صاحبِ اسرار

اے فکرِ جہاں زیب و جہاں گیر و جہاں تاب

اے فقرِ جہاں سوز و جہاں ساز و جہاں دار


اے صابر و صناع و صمیم وصفِ اوصاف

اے سرورِ کونین و سمیع یمِ اصوات

میزان اَنا ، مکتبِ پندارِ تیقُّن

اعزازِ خود مصدرِ صد رُشد و ہدایت


اے شاکر و مشکور و شکیلِ شبِ عالم

اے ناصر و منصور و نصیرِ دلِ انسان

اے شاہد و مشہود و شہیدِ رُخِ توحید

اے ناظر و منظور و نظیرِ لبِ یزداں


اے یوسف و یعقوب کی اُمّید کا محور

اے بابِ مناجاتِ دلِ یونس و ادریس

اے نوح کی کشتی کے لیے ساحلِ تسکیں

اے قبلہ حاجاتِ سلیماں شہِ بلقیس


اے والی یثرب میری فریاد بھی سن لے !

اے وارثِ کونین لَب کھول رہا ہوں

زخمی ہے زباں ، خامۂ دل خون میں تر ہے

شاعر ہوں مگر دیکھ ! مَیں سچ بول رہا ہوں


تُو نے تو مجھے اپنے معارف سے نوازا

لیکن میں ابھی خود سے شناسا بھی نہیں ہوں

تُو نے تو عطا کی تھی مجھے دولتِ عِرفاں

لیکن میں جہالت کے اندھیروں میں گھرا ہوں


بخشش کا سمندر تھا تِرا لطف و کرم بھی

لیکن میں تیرا لطف و کرم بھول چکا ہوں

بکھری ہے کچھ ایسے شبِ تیرہ کی سیاہی

میں شعلگیِ شمعِ حرم بھول چکا ہوں


تُو نے تو مجھے کفر کی پستی سے نکالا

میں پھر بھی رہا قامتِ الحاد کا پابند

تُو نے تو مرے زخم کو شبنم کی زباں دی

میں پھر بھی تڑپتا ہی رہا صورتِ اَسپند


تُو نے تو مجھے نکتۂ شیریں بھی بتایا

میں پھر بھی رہا معتقدِ تلخ کلامی

تُو نے تو مِرا داغِ جبیں دھو بھی دیا تھا

میں پھر بھی رہا صید و ثناخوانِ غلامی


تُو نے تو مسلط کیا افلاک پہ مجھ کو

میں پھر بھی رہا خاک کے ذروں کا پجاری

تُو نے تو ستارے بھی نچھاور کیے مجھ پر

میں پھر بھی رہا تیرگیِ شب کا شکاری


تُو نے تو مجھے درسِ مساوات دیا تھا

میں پھر بھی مَن و تُو کے مراحل میں رہا ہوں

تُو نے تو جدا کر کے دکھایا حق و باطل

میں پھر بھی تمیزِ حق و باطل میں رہا ہوں


تُو نے تو کہا تھا کہ زمیں سب کے لیے ہے

میں نے کئی خطوں میں اسے بانٹ دیا ہے

تُو نے جسے ٹھوکر کے بھی قابل نہیں سمجھا

میں نے اسی کنکر کو گُہر مان لیا ہے


تُو نے تو کہا تھا کہ زمانے کا خداوند

اِنساں کے خیالوں میں کبھی آ نہیں سکتا

لیکن میں جہالت کے سبب صرف یہ سمجھا

وہ کیسا خدا ؟ جس کو بشر پا نہیں سکتا


تُو نے تو کہا تھا کہ وہ اُونچا ہے خِرد سے

میں نے یہی چاہا اتر آئے وہ خِرد میں

تو نے تو کہا تھا "احد” ہے وہ ازل سے

میں نے اسے ڈھونڈا ہے سدا "حِس و عدد” میں


اب یہ ہے کہ دنیا ہے مِری تیرہ و تاریک

سایہ غمِ دوراں کا محیطِ دل و جاں ہے

ہر لمحہ اُداسی کے تصرف میں ہے احساس

تا حدِ نظر خوفِ مسلسل کا دھواں ہے


صحرائے غم و یاس میں پھیلی ہے کڑی دھُوپ

کچھ لمسِ کفِ موجِ صبا تک نہیں ملتا

بے انت سرابوں میں کہاں جادۂ منزل ؟

اپنا ہی نشانِ کفِ پا تک نہیں ملتا


اَعصاب شکستہ ہیں تو چھلن


ی ہیں نگاہیں

احساسِ بہاراں ، نہ غمِ فصلِ خزاں ہے

آندھی کی ہتھیلی پہ ہے جگنو کی طرح دل

شعلوں کے تصرف میں رگِ غُنچہ جاں ہے


ہر سمت ہے رنج و غم و آلام کی بارش

سینے میں ہر اک سانس بھی نیزے کی انی ہے

اب آنکھ کا آئینہ سنبھالوں میں کہاں تک

جو اَشک بھی بہتا ہے وہ ہیرے کی کنی ہے


احباب بھی اعداء کی طرح تیر بکف ہیں

اب موت بھٹکتی ہے صفِ چارہ گراں میں

سنسان ہے مقتل کی طرح شہرِ تصور

سہمی ہوئی رہتی ہے فغاں خیمۂ جاں میں


 #اردو #شعراء #اردودکن #urdudeccan

اسرار الحق مجاز

 حجاب فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا 

خود اپنے حسن کو پردا بنا لیتی تو اچھا تھا 


تری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے 

تو اس نشتر کی تیزی آزما لیتی تو اچھا تھا 


تری چین جبیں خود اک سزا قانون فطرت میں 

اسی شمشیر سے کار سزا لیتی تو اچھا تھا 


یہ تیرا زرد رخ یہ خشک لب یہ وہم یہ وحشت 

تو اپنے سر سے یہ بادل ہٹا لیتی تو اچھا تھا 


دل مجروح کو مجروح تر کرنے سے کیا حاصل 

تو آنسو پونچھ کر اب مسکرا لیتی تو اچھا تھا 


ترے زیر نگیں گھر ہو محل ہو قصر ہو کچھ ہو 

میں یہ کہتا ہوں تو ارض و سما لیتی تو اچھا تھا 


اگر خلوت میں تو نے سر اٹھایا بھی تو کیا حاصل 

بھری محفل میں آ کر سر جھکا لیتی تو اچھا تھا 


ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے 

اگر تو ساز بے داری اٹھا لیتی تو اچھا تھا 


عیاں ہیں دشمنوں کے خنجروں پر خون کے دھبے 

انہیں تو رنگ عارض سے ملا لیتی تو اچھا تھا 


سنانیں کھینچ لی ہیں سرپھرے باغی جوانوں نے 

تو سامان جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا 


ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن 

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا 


اسرالحق مجاز


عادل راہی جامنیری

 دوڑتا ہے خوں رگوں میں جذبۂ شبیر کا

اب نہیں ہے خوف ہم کو تیغ کا اور تیر کا


اک حرارت دوڑ جاتی ہے ہمارے خون میں 

جب خیال آتا ہے دل میں حضرت شبیر کا


کہہ دو ان سے شرط ہے محنت، بلندی کے لئے

کرتے ہیں جو لوگ شکوہ کاتبِ تقدیر کا


اس زمیں کی خاک میں پیوند ہونا ہے ہمیں 

مت بتاؤ راستہ لاہور کا کشمیر کا


غالب و اقبال و راحت کا میں پیروکار ہوں  

یا الٰہی کر عطا لہجہ مجھے کچھ میر کا


اہل باطل کے جگر ہوتے ہیں لرزاں خوف سے

 پڑھتے ہیں جب ہم ترانہ نعرۂ تکبیر کا


فیصلہ میراث کا راہی وہ کر پائیں گے کیا 

حق ادا جو کر نہیں سکتے ہیں خود ہمشیر کا


عادل راہی جامنیری


جمال نقوی

 یوم پیدائش 18 اکتوبر 1946


ہر صدی میں قصۂ منصور دہرایا گیا

سچ کہا جس نے اسے سولی پہ لٹکایا گیا


ہم پہ ہی صدیوں سے ہیں ظلم و ستم جبر و الم

اور ہمیں ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا


ہر زمانے میں ملے گا اک صداقت کا نقیب

ہر زمانے میں اسے ہی طوق پہنایا گیا


رخ بدل کر آندھیاں حالات کی اٹھتی رہیں

عزم میں میرے نہ کوئی فرق بھی پایا گیا


کیا سنائیں ہم شکست دل کا افسانہ جمالؔ

یہ وہ شیشہ ہے جو ہر پتھر سے ٹکرایا گیا


جمال نقوی


شہپر رسول

 یوم پیدائش 17 اکتوبر 1956


پھر سے وہی حالات ہیں امکاں بھی وہی ہے

ہم بھی ہیں وہی مسئلۂ جاں بھی وہی ہے


کچھ بھی نہیں بدلا ہے یہاں کچھ نہیں بدلا

آنکھیں بھی وہی خواب پریشاں بھی وہی ہے


یہ جال بھی اس نے ہی بچھایا تھا اسی نے

خوش خوش بھی وہی شخص تھا حیراں بھی وہی ہے


اے وقت کہیں اور نظر ڈال یہ کیا ہے

مدت کے وہی ہاتھ گریباں بھی وہی ہے


کل شام جو آنکھوں سے چھلک آیا تھا میری

تم خوش ہو کہ اس شام کا عنواں بھی وہی ہے


ہر تیر اسی کا ہے ہر اک زخم اسی کا

ہر زخم پہ انگشت بدنداں بھی وہی ہے


شہپرؔ وہی بھولا ہوا قصہ وہی پھر سے

اچھا ہے تری شان کے شایاں بھی وہی ہے


شہپر رسول


ابن مقصود

 سر سید احمد خان کے مشن کے حوالے سے چار مصرعے قوم کے طالب علموں کے نام




واحد کشمیری

 نظر ملا نا نظر چرانا کمال فن ہے

نگاہ قاتل ترا نشانہ کمال فن ہے


نزاکتیں ہیں روانیاں ہیں ترے بیاں میں

ہراک سخن کا جدا فسانہ کمال فن ہے


تمھارے آنے سے میرا ماضی و حال یکساں

نہ وہ زمانہ نہ یہ زمانہ کمال فن ہے


لکھی ہے رندوں نے اپنے ہاتھوں فرار اپنی

یوں اپنی مرضی شکست کھانا کمال فن ہے


کمال فن ہے لبوں پہ لفظوں کی بے قراری

حیا کی چوکھٹ پہ سر جھکانا کمال فن ہے


محبتوں میں گھلی ہوئی یہ نوازشیں بھی

ملال نو میں یوں منہ چڑھانا کمال فن ہے


سخاوتوں میں محبتوں میں بڑا سکوں ہے

عداوتوں میں قرار پانا کمال فن ہے


لگی ہے برسوں سے آگ دل میں جھلس رہا ہوں 

بھڑکتے شعلوں کو یوں چھپانا کمال فن ہے


واحدکشمیری


ملک زادہ منظور احمد

 یوم پیدائش 17 اکتوبر 1929


زندگی میں پہلے اتنی تو پریشانی نہ تھی

تنگ دامانی تھی لیکن چاک دامانی نہ تھی


جام خالی تھے مگر مے خانہ تو آباد تھا

چشم ساقی میں تغافل تھا پشیمانی نہ تھی


غازۂ غم ایک تھا تھے سب کے چہرے مختلف

غور سے دیکھا تو کوئی شکل انجانی نہ تھی


جن سفینوں نے کبھی توڑا تھا موجوں کا غرور

اس جگہ ڈوبے جہاں دریا میں طغیانی نہ تھی


تجھ سے امید وفا خواب پریشاں تو نہ تھی

بے وفا عمر گریزاں تھی کہ طولانی نہ تھی


پڑھ چکا اپنی غزل منظورؔ تو ایسا لگا

مرثیہ تھا دور حاضر کا غزل خوانی نہ تھی


ملک زادہ منظور احمد


یگانہ چنگیزی

 یوم پیدائش 17 اکتوبر 1884


زمانہ خدا کو خدا جانتا ہے

یہی جانتا ہے تو کیا جانتا ہے


اسی میں دل اپنا بھلا جانتا ہے

کہ اک ناخدا کو خدا جانتا ہے


وہ کیوں سر کھپائے تری جستجو میں

جو انجام فکر رسا جانتا ہے


خدا ایسے بندے سے کیوں پھر نہ جائے

جو بیٹھا دعا مانگنا جانتا ہے


زہے سہو کاتب کہ سارا زمانہ

مجھی کو سراپا خطا جانتا ہے


انوکھا گنہ گار یہ سادہ انساں

نوشتے کو اپنا کیا جانتا ہے


یگانہؔ تو ہی جانے اپنی حقیقت

تجھے کون تیرے سوا جانتا ہے


یگانہ چنگیزی 


عاطف خان

 یوم پیدائش 16 اکتوبر


دیے اپنی ضو پہ جو اترا رہے ہیں 

اندھیرے محافظ ہوئے جا رہے ہیں 


جو ہم دل کے دل میں ہی دفنا رہے ہیں 

وہ اسرار خود ہی کھلے جا رہے ہیں 


انہیں بھولنا اتنا آساں نہ ہوگا 

مری زندگی جو ہوئے جا رہے ہیں 


تمہاری صداقت کی ہے یہ ہی قیمت 

ہم الزام سر پہ لیے جا رہے ہیں 


ہمی سے ہے غافل ہمارا مسیحا 

ادھر آس میں زہر ہم کھا رہے ہیں 


عاطف خان


عبد الاحد ساز

 یوم پیدائش 16 اکتوبر 1950


کھلے ہیں پھول کی صورت ترے وصال کے دن

ترے جمال کی راتیں ترے خیال کے دن


نفس نفس نئی تہہ داریوں میں ذات کی کھوج

عجب ہیں تیرے بدن تیرے خد و خال کے دن


بہ ذوق شعر بہ جبر معاش یکجا ہیں

مرے عروج کی راتیں مرے زوال کے دن


خرید بیٹھے ہیں دھوکے میں جنس عمر دراز

ہمیں دکھائے تھے مکتب نے کچھ مثال کے دن


نہ حادثے نہ تسلسل نہ ربط عمر کہیں

بکھر کے رہ گئے لمحوں میں ماہ و سال کے دن


میں بڑھتے بڑھتے کسی روز تجھ کو چھو لیتا

کہ گن کے رکھ دیے تو نے مری مجال کے دن


یہ تجربات کی وسعت یہ قید صوت و صدا

نہ پوچھ کیسے کڑے ہیں یہ عرض حال کے دن


عبد الاحد ساز


فراغ روہوی

 یوم پیدائش 16 اکتوبر 1956


خوب نبھے گی ہم دونوں میں میرے جیسا تو بھی ہے

تھوڑا جھوٹا میں بھی ٹھہرا تھوڑا جھوٹا تو بھی ہے


جنگ انا کی ہار ہی جانا بہتر ہے اب لڑنے سے

میں بھی ہوں ٹوٹا ٹوٹا سا بکھرا بکھرا تو بھی ہے


جانے کس نے ڈر بویا ہے ہم دونوں کی راہوں میں

میں بھی ہوں کچھ خوف زدہ سا سہما سہما تو بھی ہے


اک مدت سے فاصلہ قائم صرف ہمارے بیچ ہی کیوں

سب سے ملتا رہتا ہوں میں سب سے ملتا تو بھی ہے


اپنے اپنے دل کے اندر سمٹے ہوئے ہیں ہم دونوں

گم صم گم صم میں بھی بہت ہوں کھویا کھویا تو بھی ہے


ہم دونوں تجدید رفاقت کر لیتے تو اچھا تھا

دیکھ اکیلا میں ہی نہیں ہوں تنہا تنہا تو بھی ہے


حد سے فراغؔ آگے جا نکلے دونوں انا کی راہوں پر

صرف پشیماں میں ہی نہیں ہوں کچھ شرمندہ تو بھی ہے


فراغ روہوی


شاعر لکھنوی

 یوم پیدائش 16 اکتوبر 1917


جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے

وہ نظر نظر سے گلے ملے تو بجھے چراغ بھی جل گئے


یہ شکست دید کی کروٹیں بھی بڑی لطیف و جمیل تھیں

میں نظر جھکا کے تڑپ گیا وہ نظر بچا کے نکل گئے


نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں کوئی روشنی

یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے


جو سنبھل سنبھل کے بہک گئے وہ فریب خوردۂ راہ تھے

وہ مقام عشق کو پا گئے جو بہک بہک کے سنبھل گئے


جو کھلے ہوئے ہیں روش روش وہ ہزار حسن چمن سہی

مگر ان گلوں کا جواب کیا جو قدم قدم پہ کچل گئے


نہ ہے شاعرؔ اب غم نو بہ نو نہ وہ داغ دل نہ وہ آرزو

جنہیں اعتماد بہار ہے وہی پھول رنگ بدل گئے


شاعر لکھنوی


ناہید ورک

 یوم پیدائش 15 اکتوبر


اب کہاں اس کی ضرورت ہے ہمیں 

اب اکیلے پن کی عادت ہے ہمیں 


دیکھیے جا کر کہاں رکتے ہیں اب 

تیری قربت سے تو ہجرت ہے ہمیں 


سانس لیتی ایک خوشبو ہے جسے 

ورد کرنے کی اجازت ہے ہمیں 


دل جزیرے پر ہے اس کی روشنی 

اک ستارے سے محبت ہے ہمیں 


اب ذرا سرگوشیوں میں بات ہو 

مہرباں لہجے کی عادت ہے ہمیں 


پھر اسی چوکھٹ کی دل کو ہے تڑپ 

پھر اسی در پر سکونت ہے ہمیں 


ناہید ورک


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...