Urdu Deccan

Thursday, March 31, 2022

ناز مرادآبادی

 یوم پیدائش 31 مارچ 1936


غنچے غنچے پہ گلستاں کے نکھار آ جائے 

جس طرف سے وہ گزر جائیں بہار آ جائے 


ہر نفس حشر بہ داماں ہے جنون غم میں 

کس طرح اہل محبت کو قرار آ جائے 


وہ کوئی جام پلا دیں تو نہ جانے کیا ہو 

جن کے دیکھے ہی سے آنکھوں میں خمار آ جائے 


غیر ہی سے سہی پیہم یہ کدورت کیوں ہو 

کہیں آئینۂ دل پر نہ غبار آ جائے 


کچھ اس انداز سے ہے حسن پشیمان جفا 

کوئی مایوس وفا دیکھے تو پیار آ جائے 


نازؔ گھر سے لئے جاتا ہے سوئے دشت مجھے 

وہ جنوں جس سے بیاباں کو بھی عار آ جائے


ناز مرادآبادی


سرفراز چاند

 یوم پیدائش 30 مارچ 1976


بہت سازش ہوئی پھر بھی مری پہچان باقی ہے

 خدا کا شکر ہےاٗردو زباں کی شان باقی ہے


خدا کے واسطے چلمن سے تم باہر نکل آؤ

ابھی تک دل ميں میرے ديد کا ارمان باقی ہے


میں اکثر سوچتا ہوں چھوڑ دوں اٍس شہر کو ليکن

مرے اسلاف سے وابستہ ہر پہچان باقی ہے


کبھی ہم راہٍ ایماں سے بھٹک سکتے نہیں لوگو

ہماری رہبری کے واسطے قرآن باقی ہے


سنو اے نا خداؤ کشتياں ساحل پہ لے آؤ

”ابھی موجوں کے دٍل ميں حشر کا طوفان باقی ہے“


ہر اک طوفان سے اے چاند گزروں گا میں ہنس ہنس کر

 مری ماں کی دعاوں کا ابھی فیضان باقی ہے


سرفراز چاند



ہارون ایاز قادری

 یوم پیدائش 30 مارچ 1953


بنامِ عشق ترا غم شناس رہتے ہوئے

میں مطمئن بھی بہت ہوں اداس رہتے ہوئے


کبھی تو کھل کے ملو اور ٹوٹ کر برسو

ہو کتنی دور مرے آس پاس رہتے ہوئے


وہ راز مجھ پہ مری بیخودی نے کھول دیا

جو جان پایا نہ ہوش وحواس رہتے ہوئے


یہ انتظار مجھے کیوں گراں گزرتا ہے

رفیقِ جاں ترے ملنے کی آس رہتے ہوئے


دمک رہی ہے جوانی ، چمک رہا ہے شباب

برہنگی ہے یہ کیسی لباس رہتے ہوئے


ایاز میرے لیے حسنِ آگہی تھا بہت

خدا شناس رہا خود شناس رہتے ہوئے


ہارون ایاز قادری



احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں بیاد شفیع الرحمں شفیع مرحوم

تاریخ وفات : 28 مارچ 2022


ہے شفیع الرحمں کی رحلت نہایت دلفگار

ان کے غم میں آج دنیائے ادب ہے سوگوار


ان سے تھا ہر وقت میرا اک خصوصی رابطہ

یہ خبر سن کر مری آنکھیں ہیں پیہم اشکبار


جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کے بلند

ان پہ نازل ہو ہمیشہ رحمت پروردگار


فرط رنج و غم سے ان کے اہل خانہ ہیں نڈھال

آتے آتے آئے گا اس بیقراری کو قرار


کرتے تھے آیات قرآں کا وہ اردو ترجمہ

ان کی تاریخ ادب میں ہے جو زریں یادگار


اپنے حسن خلق سے تھے وہ دلوں پر پر حکمراں

مرجع اہل نظر ہیں ان کے ادبی شاہکار


ان کے ہیں اشعار عصری حسیت کے ترجماں

ان کی غزلوں سے عیاں ہے سرد وگرم روزگار


تھی منور ان سے پٹنہ کی ہر ادبی انجمن

ان کے ادبی ذوق کی برقی ہے جو آئینہ دار


احمد علی برقی اعظمی



 #شعراء #اردو #اردوشاعری #اردوغزل #اردودکن #urdudeccan #poetrylovers #urduadab #urdu #urdupoetry #urdugazal

شفیع الرحمن شفیع

 یوم وفات 28 مارچ 2022

انا الیہ وانا الیہ راجعون


جو ہے خو گرِضبط، اس کو پتا ہے 

نہاں درد ہی میں خود اس کی دوا ہے 


نہ شکوہ ہے کوئی، نہ ذکرِجفا ہے 

پسند آپ کی مجھ کو اک اک ادا ہے 


سرِ راہ پتلا بنا جو کھڑا ہے 

وہ اپنے ہر آک ہم سفر سے لٹا ہے 


بدن سے یہ جس کے دھواں اٹھ رہا ہے 

کسی دل شکن کا بڑا دل جلا ہے

 

اسی پر سدا لوگ برسائیں پتھر 

شجر جو ہرا ہے، پھلوں سے لدا ہے 


ادب سیکھ لے گا یہی رفتہ رفتہ 

ابھی پختہ کاروں میں بالکل نیا ہے


ڈھلے سارے الفاظ آہ و فغاں میں 

معانی سے بھر پور دل کی نوا ہے

 

کرن چاند کی چھن کے من موہ لیتی 

لطافت نواز اس نے اوڑھی نوا ہے

 

ہمیں بدر و خندق کے، خیبر کے وارث 

شفیع آج کل ہر طرف کربلا ہے


شفیع الرحمن شفیع


سائل دہلوی

 یوم پیدائش 29 مارچ 1867


جتاتے رہتے ہیں یہ حادثے زمانے کے

کہ تنکے جمع کریں پھر نہ آشیانے کے


سبب یہ ہوتے ہیں ہر صبح باغ جانے کے

سبق پڑھاتے ہیں کلیوں کو مسکرانے کے


ہزاروں عشق جنوں خیز کے بنے قصے

ورق ہوے جو پریشاں مرے فسانے کے


ہیں اعتبار سے کتنے گرے ہوے دیکھا

اسی زمانے میں قصے اسی زمانے کے


قرار جلوہ نمائی ہوا ہے فردا پر

یہ طول دیکھیے اک مختصر زمانے کے


نہ پھول مرغ چمن اپنی خوشنوائی پر

جواب ہیں مرے نالے ترے ترانے کے


اسی کی خاک ہے ماتھے کی زیب بندہ نواز

جبیں پہ نقش پڑے ہیں جس آستانے کے


سائل دہلوی


سید حامد

 یوم پیدائش 20 مارچ 1920


بات وہ بات نہیں ہے جو زباں تک پہنچے 

آنکھ وہ آنکھ ہے جو سر نہاں تک پہنچے 


قدر تعظیم کشش شوق محبت اظہار 

روکئے دل کو نہ جانے یہ کہاں تک پہنچے 


دل یہ ہر گام پہ کہتا ہے ٹھہر گھر ہے یہی 

فرق سے تا بہ قدم آنکھ جہاں تک پہنچے 


کس کو فرصت ہے سنے درد بھری ہے روداد 

کون بے چارگیٔ خستہ دلاں تک پہنچے 


جان لینا یہ اسی لمحہ کہ دل ٹوٹ گیا 

بات جب ضبط سے بڑھ جائے فغاں تک پہنچے 


مڑ کے دیکھا بھی نہیں دل کے لہو کی جانب 

شعر کی داد یہ دی حسن بیاں تک پہنچے


سید حامد


Sunday, March 27, 2022

نواب دہلوی

 یوم وفات 26 مارچ 1988


مشتاقِ نظارہ ہو کر بھی گستاخ نہ تھی ، بیباک نہ تھی

یہ پاسِ ادب سے اٹھ نہ سکی وہ سمجھے نظر کو تاب نہیں


نواب دہلوی


ارفع کنول

 پاس آ تو بھی دل میں اتر بے خبر

دے کبھی مجھ کو اپنی خبر بے خبر


مجھ کومٹھی میں اپنی تو بھر ریت سا 

میں نہ جاوں کہیں یوں بکھر بے خبر


چھوڑ آئینے کو جھا نک آنکھوں میں تو

عکس یاں دیکھ تُو بن سنور بے خبر


موت کا بھی ہوا ہے کبھی کوئی ڈر

ڈرنا ہے زندگی سے تُو ڈر بے خبر


زندگی کی یہ تصویر دل کش لگے

رنگ ایسا تو اک شوخ بھر بے خبر


چھوڑ تنہا محبت کی رہ میں نہ یوں

دیکھ رستے جدا اب نہ کر بے خبر


عمر بھر خود سے ملنے کی چا ہت رہی

میں بھٹکتا رہا در بدر بے خبر


ارفع کنول


شہزاد مغل عجمی

 یوم پیدائش 27 مارچ 1980


دعا کرو مرے حق میں کہ میرے یار ملے 

مجھے بھی اب کوئی اچھا سا کاروبار ملے


انا پہ بوجھ ہے غیروں کی چاکری کرنا

ہو میرا اپنا خدایا جو روزگار ملے


کئی برس کی تھکن دور ہو گئی میری 

گلے میں ڈال کے باہوں کا جب وہ ہار ملے


تمہارے حسن کا صدقہ نکالنا ہے مجھے

یہ انتظار ہے کوئی رفیقِ کار ملے


بھروسہ آج بھی میرا تمہی پہ قائم ہے

کہ دھوکے تم سے اگرچہ ہیں بے شمار ملے


 ہم آگئے ہیں بڑے تنگ اِس حکومت سے 

 یہ حکمراں تو خدایا نہ بار بار ملے


امیرِ وقت جو مہنگا کرے نہ نان و نمک

غریبِ شہر کو شاید ذرا قرار ملے


کہ چاہ کر بھی مَیں شہزاد مسکرا نہ سکا

مَیں کیا کروں کہ مجھے لوگ سوگوار ملے


شہزاد مغل عجمی



رافت بہرائچ

 یوم وفات 27 مارچ 1961


بے پردہ تو جو جلوۂ جانانہ ہو گیا

حیراں تھا پہلے اب تو میں دیوانہ ہو گیا


دیرو حرم میں آپ کو دیکھ ا تھا جلوہ گر

کیا جانے کس طرف دل دیوانہ ہو گیا


اب تم ہو اور شمع بھی ہے کر لو فیصلہ

پروانہ کس کو دیکھ کے پروانہ ہو گیا


تیرے سوا کسی کے نہ آگے جھکے گا سر

میرا مزاج عشق میں شاہانہ ہو گیا


بیکار لوگ دیتے ہیں الزام کفر کا 

میں کچھ سمجھ کے ساکن بتخانہ ہو گیا


ہنس ہنس کے پائے یار پہ رافتؔ نے دیدی جان 

لو آج ختم عشق کا افسانہ ہو گیا


رافت بہرائچ



ارمان شام نگری

 یوم پیدائش 27 مارچ 1925


اک شورِ حشر سن مرے دل کی پکار میں

نغمے نہ ڈھونڈ بربطِ ہستی کے تار میں


ارمان شام نگری



فہیم جوگاپوری

 یوم پیدائش 27 مارچ 1956


کیا کوئی تصویر بن سکتی ہے صورت کے بغیر 

پھر کسی سے کیوں ملے کوئی ضرورت کے بغیر 


دشمنی تو چاہنے کی انتہا کا نام ہے 

یہ کہانی بھی ادھوری ہے محبت کے بغیر 


تیری یادیں ہو گئیں جیسے مقدس آیتیں 

چین آتا ہی نہیں دل کو تلاوت کے بغیر 


دھوپ کی ہر سانس گنتے شام تک جو آ گئے 

چھاؤں میں وہ کیا جئیں جینے کی عادت کے بغیر 


بچ گیا دامن اگر میرے لہو کے داغ سے 

وہ مرا قاتل تو مر جائے گا شہرت کے بغیر 


اس کی سرداری سے اب انکار کرنا چاہیے 

روشنی دیتا نہیں سورج سیاست کے بغیر 


حسن کی دوکان ہو کہ عشق کا بازار ہو 

یاں کوئی سودا نہیں ہے دل کی دولت کے بغیر 


شبنمی چہرہ چھپاؤں کیسے بچوں سے فہیمؔ 

شام آتی ہی نہیں گھر میں طہارت کے بغیر


فہیم جوگاپوری


نواب کلب علی خان

 یوم وفات 23 مارچ 1887


افشاں چمک کے زلف دوتا ہی میں رہ گئی

کچھ روشنی سی ہو کے سیاہی میں رہ گئی


سمجھوں گا تجھ سے روز قیامت میں اے جنوں

گر کوئی بات میری تباہی میں رہ گئی


آئیں ہزارہا شب ہجراں میں آفتیں

پر صبح اس کی علم الٰہی میں رہ گئی


آ ہی چکی تھی اس کی ادا سے بلا مگر

کچھ شرم کھا کے شوخ نگاہی میں رہ گئی


نوابؔ اپنے دل کو میں کیوں کر نکالتا

کنگھی الجھ کے زلف رسا ہی میں رہ گئی


نواب کلب علی خان


بشیر مہتاب

 یوم پیدائش 15 مارچ


جب سے مرے رقیب کا رستہ بدل گیا

تب سے مرے نصیب کا نقشہ بدل گیا 


شیریں تھا کتنا آپ کا انداز گفتگو 

دو چار سکے آتے ہی لہجہ بدل گیا 


کس کی زبان سے مجھے دیکھو خبر مجھے 

کیسے مرے حریف کا چہرہ بدل گیا 


ان کے بدلنے کا مجھے افسوس کچھ نہیں 

افسوس یہ ہے اپنا ہی سایہ بدل گیا 


جب سے بڑوں کی گھر سے حکومت چلی گئی 

جنت نما مکان کا نقشہ بدل گیا 


راہوں کی خاک چھانتا پھرتا ہوں آج تک 

رہبر بدل گیا کبھی رستہ بدل گیا 


کہتا ہے اس کے جانے سے کچھ بھی نہیں ہوا 

مہتابؔ جبکہ دل کا وہ ڈھانچہ بدل گیا


بشیر مہتاب


سراج اورنگ آبادی

 یوم پیدائش 11 مارچ 1712


فدا کر جان اگر جانی یہی ہے

ارے دل وقت بے جانی یہی ہے


یہی قبر زلیخا سیں ہے آواز

اگر ہے یوسف ثانی یہی ہے


نہیں بجھتی ہے پیاس آنسو سیں لیکن

کریں کیا اب تو یاں پانی یہی ہے


کسی عاشق کے مرنے کا نہیں ترس

مگر یاں کی مسلمانی یہی ہے


برہ کا جان کندن ہے نپٹ سخت

شتاب آ مشکل آسانی یہی ہے


پرو تار پلک میں دانۂ اشک

کہ تسبیح سلیمانی یہی ہے


مجھے ظالم نے گریاں دیکھ بولا

کہ اس عالم میں طوفانی یہی ہے


زمیں پر یار کا نقش کف پا

ہمارا خط پیشانی یہی ہے


وو زلف پر شکن لگتی نہیں ہات

مجھے ساری پریشانی یہی ہے


نہ پھرنا جان دینا اس گلی میں

دل بے جان کی بانی یہی ہے


کیا روشن چراغ دل کوں میرے

سراجؔ اب فضل رحمانی یہی ہے


سراج اورنگ آبادی


Friday, March 25, 2022

رجب علی بیگ سرور

یوم وفات 25 مارچ 1869

اس طرح آہ کل ہم اس انجمن سے نکلے 
فصل بہار میں جوں بلبل چمن سے نکلے 

آتی لپٹ ہے جیسی اس زلف عنبریں سے 
کیا تاب ہے جو وہ بو مشک ختن سے نکلے 

تم کو نہ ایک پر بھی رحم آہ شب کو آیا 
کیا کیا ہی آہ و نالے اپنے دہن سے نکلے 

اب ہے دعا یہ اپنی ہر شام ہر سحر کو 
یا وہ بدن سے لپٹے یا جان تن سے نکلے 

تو جانیو مقرر اس کو سرورؔ عاشق 
کچھ درد کی سی حالت جس کے سخن سے نکلے 

رجب علی بیگ سرور



راز چاندپوری

 یوم پیدائش 25 مارچ 1892


پچھتانے سے کیا حاصل پچھتانے سے کیا ہوگا

کچھ تو نے کیا ہوگا کچھ تجھ سے ہوا ہوگا


جینے کا مزہ جب ہے جینے کا ہو کچھ حاصل

یوں لاکھ جئے کوئی تو جینے سے کیا ہوگا


پرسش کی نہیں حاجت پرسش کی ضرورت کیا

معلوم ہے سب تجھ کو جو کچھ بھی ہوا ہوگا


جب تک ہے خودی دل میں ہوگی نہ پذیرائی

بیکار ہیں یہ سجدے ان سجدوں سے کیا ہوگا


جیسی بھی گزرتی ہے اے رازؔ گزرتی ہے

آغاز محبت ہے انجام میں کیا ہوگا


راز چاندپوری



شاکر ندیم

 یوم پیدائش 24 مارچ 1952


رو پڑی ہے روشنی کی ایک نازک سی کرن

میری کھڑکی کے شکستہ کانچ سے گزری ہے جب


شاکر ندیم



مختار شمیم

 یوم پیدائش 23 مارچ 1944


خود اپنے آپ کو دھوکا دیا ہے

ہمارے ساتھ یہ اکثر ہوا ہے


یہ مجھ سے زندگی جو مانگتا ہے

نہ جانے کون یہ مجھ میں چھپا ہے


یہی میری شکستوں کا صلا ہے

کوئی میرے بدن میں ٹوٹتا ہے


کتاب گل کا رنگیں ہر ورق ہے

تمہارا نام کس نے لکھ دیا ہے


صلیب وقت پہ تنہا کھڑا ہوں

یہ سارا شہر مجھ پر ہنس رہا ہے


کبھی نیند آ گئی دیوانگی کو

کبھی صحرا بھی تھک کر سو گیا ہے


شمیمؔ اک برگ آوارہ تھا جامیؔ

خلاؤں میں کہیں اب کھو گیا ہے


مختار شمیم


بشیر فاروق

 یوم پیدائش 23 مارچ 1939


وہ ستم پرور بہ چشم اشک بار آ ہی گیا

چاک دامانی پہ میری اس کو پیار آ ہی گیا


مٹتے مٹتے مٹ گئی جان وفا کی آرزو

آتے آتے بے قراری کو قرار آ ہی گیا


چپکے چپکے مجھ پہ میری خامشی ہنستی رہی

روتے روتے جذب دل پر اختیار آ ہی گیا


کوئی وعدہ جس کا معنی آشنا ہوتا نہیں

پھر اسی وعدہ شکن پر اعتبار آ ہی گیا


یا الٰہی جذبۂ ہوش و خرد کی خیر ہو

منتظر جس کا جنوں تھا وہ دیار آ ہی گیا


بشیر فاروق


احمرا بروی

 یوم پیدائش 23 مارچ 193


جنون و عقل نے مل کر نشان گاڑا ہے

کوئی بھی معرکہ اب تک ہوا نہ سر تنہا


احمرا بروی


بشارت جبین

 یوم پیدائش 23 مارچ


یہ لُطف بھی مُجھ پر ہو مدینے میں سحر ہو

فیضانِ پیمبر ہو مدینے میں سحر ہو


حسرت یہ میری ہے کہ مرے سر پہ خدایا

خاکِ درِ اطہر ہو مدینے میں سحر ہو


فرقت کی گھڑی ختم ہو اب تو مرے مولا

شاداں دلِ مُضطر ہو مدینے میں سحر ہو


حسرت یہی ہے یادِ شہِ ارض و سما میں

دامانِ طلب تر ہو مدینے میں سحر ہو


اے شوقِ ادب خاکِ مدینہ پہ گرا دے

یہ میرا مقدر ہو مدینے میں سحر ہو


ہر غم میں بھلادوں گی اگر میری نظر میں

وہ روضۂ انور ہو مدینے میں سحر ہو


تصویرِ نبی ہو اگر آئینہ دل میں

دل میرا منور ہو مدینے میں سحر ہو


بشارت جبین



امتیاز علی

 یوم پیدائش 23 مارچ 1982


قدیم دشت کے حالات سے نکلنا ہے

کہ عشق جیسی روایات سے نکلنا ہے


ہمی نے ، پہلی محبت میں ،فیصلہ کِیا تھا 

کہ دوسری کی خرافات سے نکلنا ہے


دماغ خالی کِیا ، بند کرلی ہیں آنکھیں 

مزید یہ کہ خیالات سے نکلنا ہے


پتہ نہیں ہے کہاں جانا ہے کہاں کے ہیں 

ہمیں تو تیرے مضافات سے نکلنا ہے 


ہم ایسے لوگ ہیں جن کے سوال ہوتے نہیں

سو ہم کو اپنے جوابات سے نکلنا ہے 


کنارے شام کھڑے سوچتے رہے دونوں 

کہ کس طرح ہمیں دن رات سے نکلنا ہے


قریب تھا کہ ہمیں معجزہ کوئی لگتا 

سو برگزیدہ کرامات سے نکلنا ہے


ہم آدمی ہیں بنے ، ایک دوسرے کے لئے

بس اپنے اپنے مکافات سے نکلنا ہے


خیال ہے یہ زمیں ہی الٹ دی جائے گی 

ہمیں خیال کے خدشات سے نکلنا ہے


پگھل رہے ہیں ترے حسن کے محل میں ہم 

کہ برف پوش محلات سے نکلنا ہے


مکانِ دل کہ کھنڈر ہو چکا ہے ویراں بھی

کھنڈر سے ہوتے مکانات سے نکلنا ہے


امتیاز علی



مقصود شاہ

 یوم پیدائش 23 مارچ 1967


اَلْنَّجْمُ الْثَاقِب ( چمکتا ہوا ستارہ )

صلیّ اللّٰہ علیہ و آلہٖ وسلم


اِک ترا نقش ہی شہکار ہے، نجمِ ثاقب

باقی بازیچۂ اظہار ہے، نجمِ ثاقب


طاقِ چشمانِ تمنّا سے ترا اسمِ منیر

مطلعِ دل پہ ضیا بار ہے، نجمِ ثاقب


تُو فلک زارِ معلّٰی پہ ہے ہر سو روشن

تُو زمیں کا گُلِ بے خار ہے، نجمِ ثاقب


تیرے آثار ہی تاباں ہیں سرِ بامِ یقیں

ما سوا خواب کا انبار ہے، نجمِ ثاقب


تُو جو چاہے تو پسِ صورتِ احوال نہ ہو

یہ جو تشویشِ دلِ زار ہے، نجمِ ثاقب


وہ جو جبریل نے دیکھا تھا ہزاروں برسوں

تُو وہی مہبطِ انوار ہے، نجمِ ثاقب


ہے سرِ دید و پسِ دید ترا نور عیاں

ورنہ دیوار ہی دیوار ہے، نجمِ ثاقب


جس طرف دستِ عنایت ہے ترا خیر فشاں

اُس طرف کاسۂ نادار ہے، نجمِ ثاقب


ساعتِ نغمۂ مدحت ہے سکوں زا، ورنہ

زندگی نوحۂ ادبار ہے، نجمِ ثاقب


ہم نہیں ہوں گے سپردِ شبِ ظلمت مقصود

للّہِ الحمد، نگہدار ہے، نجمِ ثاقب


مقصود شاہ



خواجہ محمد زکریا

 یوم پیدائش 23 مارچ 1940


زندگی بھر تو سدا جبر سہے صبر کیے 

موت کے بعد مجھے کیا جو مری قبر جیے 


کھولتے لاوے کے مانند ابلتا ہے دماغ 

جب یہ حالت ہو تو کب تک کوئی ہونٹوں کو سیے 


جسم زخمی ہو تو سینا بھی اسے ممکن ہے 

روح پر زخم لگے ہوں تو انہیں کون سیے 


راہرو راہ میں کیڑوں کی طرح رینگتے رہیں 

راہ بر اونچی ہواؤں میں ہیں پلکوں کو سیے 


وہ اگر چاہیں تو تقدیر بدل سکتی ہے 

پر نہیں ان کو غرض کوئی مرے کوئی جیے 


روشنی دور بہت دور ہے پھر بھی ہم سے 

جگمگاتے ہیں افق تا بہ افق لاکھوں دیے 


کیسے زندہ ہوں ابھی تک نہیں سمجھا خود بھی 

زخم کھائے ہیں بہت میں نے بہت زہر پیے


خواجہ محمد زکریا



ہوش نعمانی رامپوری

 یوم پیدائش 22 مارچ 1933


ایک رنگین کہانی ہے ترے شہر کی رات 

ہائے یہ کس کی جوانی ہے ترے شہر کی رات 


بس یوں ہی زلف بکھیرے ہوئے آ جا اے دوست 

آج کس درجہ سہانی ہے ترے شہر کی رات 


ریگزار دل شاعر کے لئے جان غزل 

موج دریا کی روانی ہے ترے شہر کی رات 


دل کی اس کہر زدہ یاس بھری بستی میں 

تجھ سے ہی مانگ کے لانی ہے ترے شہر کی رات 


بار ہو جائے گا ذہنوں پہ تصور دن کا 

آج اس طرح جگانی ہے ترے شہر کی رات 


وہ نہیں ہے تو غمستان تخیل کی قسم 

ہوشؔ افسردہ کہانی ہے ترے شہر کی رات


ہوش نعمانی رامپوری



مطرب بلیاوی

 یوم پیدائش 22 مارچ 1929


اک حسنِ دل نوار کو کیا کیا کہا گیا

شبنم کہا گیا کبھی شعلہ کہا گیا

 

اہلِ ادب کی دیکھیے جدّت طرازیاں

پھولوں کی اک نقاب کو سہرا کہا گیا


اہل جنونِ شوق بھی کتنے عجیب ہیں

تم مسکرا دیئے ہو تو مژدہ کہا گیا


اجداد کی حیات کی تفسیر تھی جسے

تہذیب کی زبان میں شجرہ کہا گیا


مطرب حدیث شوق کا یہ بھی تو ہے عروج

جلوؤں کو حسنِ یار کا پردہ کہا گیا


مطرب بلیاوی 



عابد ادیب

 یوم پیدائش 22 مارچ 1937


سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں

ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں


یہ جان کر بھی کہ پتھر ہر ایک ہاتھ میں ہے

جیالے لوگ ہیں شیشوں کے گھر بناتے ہیں


جو رہنے والے ہیں لوگ ان کو گھر نہیں دیتے

جو رہنے والا نہیں اس کے گھر بناتے ہیں


جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے

وہ سچ ہی کہتے ہیں جب بولنے پہ آتے ہیں


کبھی جو بات کہی تھی ترے تعلق سے

اب اس کے بھی کئی مطلب نکالے جاتے ہیں


عابد ادیب



رحمت جمال

 یوم پیدائش 21 مارچ 1938


صرف آغوشِ چمن تک ہی نہیں اپنا قیام

ہم ہیں خوشبو ، خوشبوؤں کو قید کر پاؤ گے کیا


رحمت جمال 


سردار نقوی

 یوم پیدائش 21 مارچ 1941


میری ماں نے مجھے بتایا ہے 

اگلے وقتوں کے صاحبان دول 

جو خداوند کی مشیت سے 

عمر بھر لا ولد رہا کرتے 

یہ عجب کار خیر فرماتے 

اپنی دولت کو ایک برتن میں 

بند کر کے کہیں دبا دیتے 

اس پہ آٹے یا چکنی مٹی کا 

سانپ ضامن بنا کے رکھ دیتے 

تاکہ آئندہ کوئی شخص اگر 

ان کی دولت کی سمت آنکھ اٹھائے 

یہ خزانے کا سانپ لہرا کر 

اس کی اولاد بھینٹ میں چاہے 

لوگ اولاد بھینٹ دیتے تھے 

اور یہ مال کھود لیتے تھے 


میری ماں نے مجھے بتایا ہے 

میرے ناپختہ گھر کے آنگن میں 

ایسا ہی مال دفن تھا شاید 

اور یہ مال یوں ہی دفن رہا 

یا کسی اور گھر میں جا پہنچا 

میری ماں نے مجھے نہ بھینٹ دیا 

اور وہ مال ہاتھ سے کھویا 

میری ماں بھی عجیب عورت ہے 


اپنی ماں سے یہ واقعہ سن کر 

پہلے مجھ کو یقیں نہ آتا تھا 

میں نے افسانہ اس کو سمجھا تھا 

پر یہ افسانہ اک حقیقت تھا 


پر یہ افسانہ اک حقیقت ہے 

میں نے شاداب کھیتیاں دیکھیں 

میں نے مل دیکھے بنک بھی دیکھے 

میں نے دیکھا کہ مال و دولت کے 

ہر خزانے پہ ہر جگہ ہر پل 

اک نہ اک سانپ بیٹھا رہتا ہے 


سردار نقوی 



سعید الظفر صدیقی

 یوم پیدائش 21 مارچ 1944


زیرِ زمیں کھلے کہ تہِ آسماں کھلے

میرے خدا کہیں تومری داستاں کھلے


کھلتا نہیں ہے بیٹھے بٹھائے کوئی یہاں

ہم نے زمین اوڑھ لی تب آسماں کھلے


مدت ہوئی ہے دونوں کو بچھڑے ہوئے مگر

اب تک نہ ہم یہاں نہ وہ ابتک وہاں کھلے


وہ شہرِ دوستاں ہو کہ شہرِ ستم شعار

آوارگانِ عشق کسی پر کہاں کھلے


اب تک تو شہر مہر بلب ہے مرا سعید

شاید ستم کچھ اور بڑھے تو زباں کھلے


سعید الظفر صدیقی



شمشاد شاد

 یوم پیدائش 21 مارچ 


ہمنوا ہے، نہ ہمدم نہ درد آشنا، اس جہاں میں کوئی میرا اپنا نہیں

ہر کسی نے مجھے صرف دھوکا دیا، اب کسی پر بھی مجھ کو بھروسہ نہیں


سوزشیں، رتجگے، سسکیوں کے سوا اور کیا اب تلک زندگی نے دیا

غم مسلسل مقرب رہے عمر بھر رشتہ خوشیوں نے بھی تو بنایا نہیں


حق ہمیشہ سے میرا ہی مارا گیا، میرا سایہ تلک مجھ سے چھینا گیا

روشنی ہر کسی کو ملی ہے تو پھر میری قسمت میں ہی کیوں اجالا نہیں


منہ زبانی جتاتے ہیں ہمدردیاں، ڈوبتے کو بچاتا نہیں اب کوئی

ہائے مرنا بھی جیسے تماشا ہوا، کیوں مدد کے لئے کوئی آتا نہیں


میری راہوں میں کانٹے بچھائے گئے، تیر و نشتر مجھی پر چلائے گئے

میں کہ ایماں کی دولت سے سرشار تھا، صبر کا راستہ میں نے چھوڑا نہیں


عشق سچا اگر ہو تو صدیوں تلک یہ جہاں یاد رکھتا ہے دل والوں کو

زندہ ہے قیس و لیلیٰ کے قصے ابھی، ہیر رانجھا کو جگ نے بھلایا نہیں


شاؔد اچھلتی رہی اور سنبھلتی رہی، کشتیءِ زیست طوفاں سے لڑتی رہی

عزم و ہمت سے میں نے کیا سامنا، ہو مصیبت کوئی ڈر کے بھاگا نہیں


شمشاد شاؔد



ظہیر دہلوی

 یوم پیدائش 21 مارچ 1925


وہ کسی سے تم کو جو ربط تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ کسی پہ تھا کوئی مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم بھی تم بھی تھے ایک جا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


وہ بنانا چہرہ عتاب کا وہ نہ دینا منہ سے جواب کا

وہ کسی کی منت و التجا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


تمہیں جس کی چاہ پہ ناز تھا جو تمھارا محرم راز تھا

میں وہی ہوں عاشق باوفا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کبھی ہم میں تم میں بھی ساز تھے کبھی ہم بھی وقف نیاز تھے

ہمیں یاد تھا سو جتا دیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کبھی بولنا وہ خفا خفا کبھی بیٹھنا وہ جدا جدا

وہ زمانہ ناز و نیاز کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


ابھی تھوڑے دن کا ہے تذکرہ کہ رقیب کہتے تھے برملا

مرے آگے تم کو برا بھلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کبھی ہنس کے منہ کو چھپا لیا کبھی مسکرا کے دکھا دیا

کبھی شوخیاں تھیں کبھی حیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


جو بنا ہے عارف با خدا یہ وہی ظہیرؔ ہے بے حیا

وہ جو رند خانہ بدوش تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


ظہیرؔ دہلوی


قیصر صدیقی

 یوم پیدائش 19 مارچ 1937


آؤ ہم تم عشق کے اظہار کی باتیں کریں 

ڈال کر بانہوں میں باہیں پیار کی باتیں کریں 


پھول کی باتیں کریں گلزار کی باتیں کریں 

پیار کی باتیں کریں بس پیار کی باتیں کریں 


بات ہم دونوں کو یہ تو سوچنی ہی چاہئے 

پیار کے موسم میں کیوں تکرار کی باتیں کریں 


اس سے اچھی بات کوئی اور ہو سکتی نہیں 

یار کا افسانہ چھیڑیں یار کی باتیں کریں 


کاش بچپن لوٹ آئے اور ہم سب بیٹھ کر 

کچی مٹی کے در و دیوار کی باتیں کریں 


شکریہ بازاریت کی روشنی کا شکریہ 

گاؤں کی پگڈنڈیاں بازار کی باتیں کریں 


کعبہ و کاشی کے قصے ہو چکے اب بس کرو 

آؤ قیصرؔ نقش پائے یار کی باتیں کریں


قیصر صدیقی


فہیم انور

 یوم پیدائش 20 مارچ 1966


دست و بازو مرے کاٹ ڈالے گئے

اور مخالف کو تلوار دے دی گئی


فہیم انور



صدام حسین نازاں

 یوم پیدائش 20 مارچ 2001


سب کا اک انتخاب ہو جیسے

تم ہی عزت مآب ہو جیسے


تیرے جذبات خود بتاتے ہیں

تجھ میں چڑھتا شباب ہو جیسے


یوں جو کرتے ہو تم جناب جناب

کوئی اعلیٰ خطاب ہو جیسے


اس قدر خود پہ ناز کرتے ہو

اک تمہی کامیاب ہو جیسے


آتی رہتی ہے ہر گھڑی ہرپل

یاد تیری ثواب ہو جیسے


میری ہستی میں آپ کی یاری

باعثِ انقلاب ہو جیسے


آپ کا یہ حسین سا چہرہ

کوئی کھلتا گلاب ہو جیسے


دور ہی سے سلام کرتے ہو

میری عادت خراب ہو جیسے


تیری دلکش حسین چشمِ تر

کوئی جامِ شراب ہو جیسے


ایسا لگتا ہے آپ کو مجھ سے

عاشقی بےحساب ہو جیسے


تیری فرقت میں ایسا لگتا ہے

زندگانی عذاب ہو جیسے


اس کا چہرہ میں پڑھتا ہوں نازاؔں

حسن کی اک کتاب ہو جیسے


صدام حسین نازاں



رئیس انصاری

 یوم پیدائش 20 مارچ 1951


کوئی درخت کوئی سائباں رہے نہ رہے 

بزرگ زندہ رہیں آسماں رہے نہ رہے 


کوئی تو دے گا صدا حرف حق کی دنیا میں 

ہمارے منہ میں ہماری زباں رہے نہ رہے 


ہمیں تو پڑھنا ہے میدان جنگ میں بھی نماز 

مؤذنوں کے لبوں پر اذاں رہے نہ رہے 


ہمیں تو لڑنا ہے دنیا میں ظالموں کے خلاف 

قلم رہے کوئی تیر و کماں رہے نہ رہے 


یہ اقتدار کے بھوکے یہ رشوتوں کے وزیر 

بلا سے ان کا یہ ہندوستاں رہے نہ رہے 


خدا کرے گا سمندر میں رہنمائی بھی 

یہ ناؤ باقی رہے بادباں رہے نہ رہے


رئیس انصاری


شیر سنگھ ناز دہلوی

 یوم وفات 19 مارچ 1962


دم اخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا

جہاں سے اٹھ گئے اہل جہاں سے کچھ نہ کہا


چلی جو کشتئ عمر رواں تو چلنے دی

رکی تو کشتئ عمر رواں سے کچھ نہ کہا


خطائے عشق کی اتنی سزا ہی کافی تھی

بدل کے رہ گئے تیور زباں سے کچھ نہ کہا


بلا سے خاک ہوا جل کے آشیاں اپنا

تڑپ کے رہ گئے برق تپاں سے کچھ نہ کہا


گلہ کیا نہ کبھی ان سے بے وفائی کا

زباں تھی لاکھ دہن میں زباں سے کچھ نہ کہا


خوشی سے رنج سہے نازؔ عمر بھر ہم نے

خدا گواہ کبھی آسماں سے کچھ نہ کہا


شیر سنگھ ناز دہلوی


جعفر طاہر

 یوم پیدائش 19 مارچ 1917


چھیڑ کر تذکرۂ دور جوانی رویا

رات یاروں کو سنا کر میں کہانی رویا


ذکر تھا کوچہ و بازار کے ہنگاموں کا

جانے کیا سوچ کے وہ یوسف ثانی رویا


غیرت عشق نے کیا کیا نہ بہائے آنسو

سن کے باتیں تری غیروں کی زبانی رویا


جب بھی دیکھی ہے کسی چہرے پہ اک تازہ بہار

دیکھ کر میں تری تصویر پرانی رویا


چشم ارباب وفا ہے جو لہو روتی ہے

غیر پھر غیر ہے رویا بھی تو پانی رویا


تیری مہکی ہوئی سانسوں کی لویں یاد آئیں

آج تو دیکھ کے میں صبح سہانی رویا


اے وطن جب بھی سر دشت کوئی پھول کھلا

دیکھ کر تیرے شہیدوں کی نشانی رویا


جعفر طاہر


نصیر وارثی

 یوم پیدائش 17 مارچ 1962


میں روز صحن سے پتے سمیٹتا جاؤں

لگا گیا ہے کوئی اک شجر اداسی کا


نصیر وارثی


واقف اروی

 یوم پیدائش 18مارچ 1916


اچھی نہیں ہمیشہ حقیقت کی بات چیت

کرتے ہیں لوگ اس سے شرارت کی بات چیت


مومن ہلاک لذت افطار ہو گیا

لیکن زباں پہ اس کی ہے جنت کی بات چیت


وہ آئے جب تو بحث کا نقشہ بدل گیا

کل سے چھڑی ہوئی تھی حماقت کی بات چیت


ہر روزہ دار مفتی اسلام ہوگیا

ہر مسئلہ میں کرتا ہے جنت کی بات چیت


روزہ میں کھل کے ہوتی ہے دو مفتیوں میں جنگ

اور اس کے بعد صاف جہالت کی بات چیت


 کرتے ہیں ضبط غصہ کو دونوں بجبر وقہر

رہ جاتی ہے ادھوری شجاعت کی بات چیت


مغرب کے بعد چھڑتی ہے پھر ٹھنڈی ٹھنڈی جنگ

ہوتی ہے سرد سرد امامت کی بات چیت


ایسے بھی خال خال ہیں جن سے اگر ملو

کرتے ہیں کچھ شگفتہ طبیعت کی بات چیت


رکھتے ہیں وہ بلندئ گفتار فطرتاً

شکوے کا شائبہ نہ شکایت کی بات چیت


دشمن کے نام کو بھی وہ لیتے ہیں اس طرح

اڑ جاتی ہے ہوا میں عداوت کی بات چیت


اور ایسے روزہ دار بھی ملتے ہیں صبح وشام

ہوتی ہے جن کے انس میں وحشت کی بات چیت


ذکر عذاب قبر زباں پر ہے رات دن

ملتے ہی چھیڑتے ہیں قیامت کی بات چیت


واقف آروی



مختار مشرقی

 یوم پیدائش 17 مارچ 1953


فلک پہ مہرِ درخشاں ، زمیں پہ کھلتے گلاب

ہمارے حال پہ تادیر مسکرا نہ سکے


مختار مشرقی


کلیم فیض آبادی

 یوم پیدائش 17 مارچ 1909


کچھ ایسی محبت ہے ہمیں گنگ و جمن سے

مرکر بھی جدا ہوں گے نہ ہم اپنے وطن سے

جلنے پہ بھی ہر بار بنائیں گے نشیمن

حق دارِ چمن جا نہیں سکتے ہیں چمن سے


کلیم فیض آبادی


اشفاق اسانغنی

 یوم پیدائش 16 مارچ 1972


اب کون زندگی کا طلبگار ہے یہاں

ہر شخص خود سے برسر پیکار ہے یہاں


رشتوں کی پاسداری رکھے کون دہر میں

جب آدمی سے آدمی بیزار ہے یہاں


اپنی جڑوں کو کھوجتے گزری تمام عمر

پھل پھول کی تو بات ہی بیکار ہے یہاں


دستار کی فضیلتیں اپنی جگہ مگر

بے سر کا آدمی بھی سر دار ہے یہاں


سانسوں سے رشتہ توڑ لیا تو نے تو مگر

اب کون زندگی ترا غمخوار ہے یہاں


ساقی نہ تیرے جام و سبو معتبر رہے

ہوش و حواس میں ابھی میخوار ہے یہاں


تنہا سفر کی جھیل نہ پائے صعوبتیں

پھر آدمی کو قافلہ درکار ہے یہاں


چہرے چھپائے پھرتے مکھوٹوں سے ہیں سبھی

اب کون شخص آئینہ بردار ہے یہاں


اشفاق فکر کون ترا دیکھتا ہے اب

بے بحر شاعری میاں شہکار ہے یہاں


اشفاق اسانغنی


واجدہ تبسم

 یوم پیدائش 16 مارچ 1935


اٹھ کے محفل سے مت چلے جانا 

تم سے روشن یہ کونا کونا ہے


واجدہ تبسم 


غزل


مہماں ہوۓ ہیں آج وہ گھر مدتوں کے بعد 

آہوں میں آگیا ہے اثر مدتوں کے بعد 


پوشیدہ ان کو رکھا ہے پتلی میں آنکھ کی 

دیکھا ہے ان کو بارِ دگر مدتوں کے بعد 


معکوس آئینہ بھی ہے قلب و نظر بھی ہیں

 دیکھی گئ ہے ایسی نظر مدتوں کے بعد 


واجدہ تبسمؔ


سیّد خورشید سہسرامی

یوم پیدائش 16 مارچ 1998

فدائی جو شہ ابرار کے ہیں
وہی اعلیٰ ہوئے افکار کے ہیں

وہ کیسے جائیں گے دوزخ میں دیکھو
ہوئے جو مالک و مختار کے ہیں

کہ ان کی سنتوں کا ہے یہ صدقہ
" عدو قائل مرے ایثار کے ہیں "

کہ وہ مقبول لہجہ ہو گیا ہے
جو عادی سنتِ سرکار کے ہیں

گئے جو عرش سے یوں لامکاں تک
کہ چرچے بس اسی رفتار کے ہیں

زمانہ دیکھ لے اب ان کا رتبہ
مہ و انجم فدا رخسار کے ہیں

جو ہیں;خورشید؛ دنیا میں اجالے
انہیں کے رحمت و انوار کے ہیں

 سیّد خورشید سہسرامی


خورشید افسر بسوانی

 یوم پیدائش 16 مارچ 1941


قطرہ قطرہ تری پلکوں سے اٹھانا چاہوں

ہرطرح پیاس صدف کی میں بجھانا چاہوں


میں اک آنسو جسے پلکوں پہ نہ لانا چاہوں

تو ہے نغمہ تجھے ہونٹوں پہ سجانا چاہوں تو


کئی چہرے ابھر آتے ہیں سیر جادۂ شوق

کوئی اک چہرہ اگر بھول بھی جانا چاہوں


تیرا لہجہ ہی کچھ ایسا ، کہ یقیں آجائے

میں تری باتوں میں ہر چند نہ آنا چاہوں


آہ وہ شخص، اسے دیکھ لیا ہے جب سے

آنکھیں سوتی ہی نہیں لاکھ سلانا چاہوں


میرے ہونٹوں پہ کوئی انگلیاں رکھ دیتا ہے

اب جو سچ بات بھی یاروں کو بتانا چاہوں


وہی انداز پرانا ، وہ جہاں مل جائے

وہی بھولا ہوا افسانہ سنانا چاہوں


میں ہو کہدوں کہ جو تم ہو وہ نہیں ہو، تو ہنسو

روٹ جاؤ جو یہی بات چھپانا چاہوں


روٹھنے لگتی ہیں یہ تازہ ہوا میں افسر

جب بھی گھر کی کوئی دیوار اٹھانا چاہوں


خورشید افسر بسوانی



رفیق احمد نقشؔ

 یوم پیدائش 15 مارچ 1959


ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا

ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا 


تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حال

تنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا


تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسو

بھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا


منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیب 

کھوئی ہے میں نے راہ مگر تم کو اس سے کیا


سیلاب میں سروں کی فصیلیں بھی بہہ گئیں 

بے جرم بے گناہ مگر تم کو اس سے کیا


اب زندگی کی مانگتے ہیں بھیک در بہ در 

شاہانِ کج کلاہ مگر تم کو اس سے کیا


   رفیق احمد نقشؔ


سعادت سعید

 یوم پیدائش 15 مارچ 1949


آنکھوں سے وہ کبھی مری اوجھل نہیں رہا 

غافل میں اس کی یاد سے اک پل نہیں رہا 


کیا ہے جو اس نے دور بسا لی ہیں بستیاں 

آخر مرا دماغ بھی اول نہیں رہا 


لاؤ تو سرّ دہر کے مفہوم کی خبر 

عقدہ اگرچہ کوئی بھی مہمل نہیں رہا 


شاید نہ پا سکوں میں سراغ دیار شوق 

قبلہ درست کرنے کا کس بل نہیں رہا 


دشت فنا میں دیکھا مساوات کا عروج 

اشرف نہیں رہا کوئی اسفل نہیں رہا 


ہے جس کا تخت سجدہ گہہ خاص و عام شہر 

میں اس سے ملنے کے لیے بے کل نہیں رہا 


جس دم جہاں سے ڈولتی ڈولی ہی اٹھ گئی 

طبل و علم تو کیا کوئی منڈل نہیں رہا


سعادت سعید


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...