Urdu Deccan

Friday, September 30, 2022

شگفتہ الطاف

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1967

عین ممکن ہے کسی روز قیامت کر دیں 
کیا خبر ہم تجھے دیکھیں تو بغاوت کر دیں 

مونس غم ہے ہمارا سو کہاں ممکن ہے 
تجھ کو دیکھیں تو ترے ہجر کو رخصت کر دیں 

پیش گوئی کسی انجام کی جب ملتی نہیں 
زندگی کیسے تجھے وقف محبت کر دیں 

اس کو احساس ندامت ہے تو پھر لوٹ آئے 
شاید اس بار بھی ہم اس سے رعایت کر دیں 

صوفیٔ عشق کی مسند مرے ہاتھ آ جائے 
میرے احباب اگر مجھ کو ملامت کر دیں 

موسم ہجر بھی ہنس دیتا ہے جس وقت تری 
یاد کے پھول خیالوں سے شرارت کر دیں 

آخری بار اسے اس لیے دیکھا شاید 
اس کی آنکھیں مری الجھن کی وضاحت کر دیں

شگفتہ الطاف


 

زرینہ زریں

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1968

ویرانیوں میں سبزہ اگاتی رہی ہوں میں 
ہریالیوں کا روپ دکھاتی رہی ہوں میں 

خون جگر سے سینچ کے بنجر قدم قدم 
پتھر کے دل میں پھول کھلاتی رہی ہوں میں 

اس کا فریب راس اسے آ گیا مگر 
سچائیوں سے آنکھ ملاتی رہی ہوں میں 

تیری نوازشیں بھی رہیں میری زندگی 
اور تجھ کو آئنہ بھی دکھاتی رہی ہوں میں 

اس کی نگاہ تکتی رہی مجھ کو غور سے 
اور میٹھی چاندنی میں نہاتی رہی ہوں میں 

زریںؔ اگرچہ چھڑ ہی گیا قصۂ وفا 
تصویر بس وفا کی بناتی رہی ہوں میں

زرینہ زریں



شوکت واسطی

یوم پیدائش 01 اکتوبر 1922

جنوں سکون خرد اضطراب چاہتی ہے 
طبیعت آج نیا انقلاب چاہتی ہے 

نہ آج تیری نظر سے برس رہا ہے نشہ 
نہ میری تشنہ لبی ہی شراب چاہتی ہے 

نہیں سرور مسلسل نباہ پر موقوف 
مدام آنکھ کہاں لطف خواب چاہتی ہے 

سنا رہا ہوں فسانہ تری محبت کا 
یہ کائنات عمل کا حساب چاہتی ہے 

وہ عزم ہائے سفر لا زوال ہوتے ہیں 
حیات موت کو جب ہم رکاب چاہتی ہے 

جھلس رہا ہے بدن دھوپ میں جوانی کی 
یہ آگ زلف کا گہرا سحاب چاہتی ہے 

حریف حسن و محبت ہو دیر تک شوکتؔ 
نگار عمر وہ عہد شباب چاہتی ہے

شوکت واسطی



ہمایوں جاوید

یوم پیدائش 30 سپتمبر 1972

چراغِ گمشدہ میں خواب کی تعبیرروشن تھی
اسی سے عشق نامے کی ہر اک تحریر روشن تھی

فضائیں مضطرب تھیں، غرفہ و دالاں میں ماتم تھا
نوا حِ جان میں بھی ساعتِ دل گیر روشن تھی

ندی، صحرا، ستارے اشک باراں تھے شبِ غم میں
ادھر خیمے کے اندر رات کی جاگیر روشن تھی

چراغِ آہ و زاری سے فروزاں طاقچے سارے
شبِ ہجراں میں وحشت کی نئی تصویر روشن تھی

عجائب خانہ ء گردش میں صورت تھی کوئی ایسی
جہاں تلوار ٹوٹی تھی وہاں شمشیر روشن تھی

چراغوں کی لویں جب کم سخن تھیں،اک صدا ابھری
جبینِ سرخ آتش پر وہی تقریر روشن تھی 

غلام آباد کے صحن و دریچہ تھے سراسیمہ
در و دیوار پر کیسے ر گِ زنجیر روشن تھی

بریدہ تھے لب و رخسار ، آنکھوں میں چمک باقی 
پسِ زنداں نگاہِ حسرتِ توقیر روشن تھی

ہمایوں جاوید



شمس الرحمن فاروقی

یوم پیدائش 30 سپتمبر 1935

سر میں ہے تپاں طاقت جتنی ہے ابھی
پیچیدہ دھواں ہیں شان اتنی ہے ابھی
رہ رہ کہ یہ پوچھتی ہے ثابت قدمی
پسپا ہونے میں دیر کتنی ہے ابھی

اس ملک میں صدیاں ہوئیں آئے کہ ابھی
اس رات گریں گے ہم پہ پردے کہ ابھی
اکتاہٹ شور و غل سے کہتی ہے بتا
کچھ دیر میں اٹھیں گے یہاں سے کہ ابھی

نیچی تھی گرم تھی ہواؤں میں ابھی
جولاں تھی مثل خوں دعاوں میں ابھی
سینے میں مرے یار وفادار کی سانس
روشن ہو کر ملی نواؤں میں ابھی

تنہا نہیں جاں دادۂ کثرت ہوں ابھی
سچا ہوں تصویر کی صورت ہوں ابھی
افلاک کی کال کوٹھری کے پاتال
آنکھیں مری مت کھول حقیقت ہوں ابھی

جنگل تھرا اٹھا ہے سویا تھا ابھی
سنسان ہوا سے کوئی بولا تھا ابھی
ساکت گمبھیر فرش شب کے اوپر
لمبے قدموں سے کون گزرا تھا ابھی

شمس الرحمن فاروقی



پرویز شاہدی

یوم پیدائش 30 سپتمبر 1910

منزل بھی ملے گی رستے میں تم راہ گزر کی بات کرو 
آغاز سفر سے پہلے کیوں انجام سفر کی بات کرو 

ظالم نے لیا ہے شرما کر پھر گوشۂ داماں چٹکی میں 
ہے وقت کہ تم بے باکی سے اب دیدۂ تر کی بات کرو 

آیا ہے چمن میں موسم گل آئی ہیں ہوائیں زنداں تک 
دیوار کی باتیں ہو لیں گی اس وقت تو در کی بات کرو 

ہے تیز ہوا ہلتا ہے قفس خطرے میں پڑی ہے ہر تیلی 
فریاد اسیری بند کرو اب جنبش پر کی بات کرو 

کیوں دار و رسن کے سائے میں منصور کی باتیں کرتے ہو 
رکھنا ہے جو اونچا سر اپنا تو اپنے ہی سر کی بات کرو 

کیوں اہل جنوں ارباب خرد کی محفل میں خاموش رہیں 
وہ اپنے ہنر کی بات کریں تم اپنے ہنر کی بات کرو 

کیا بربط و دف دم توڑ چکے موت آ گئی کیا ہر نغمے کو 
تم مطرب جام و مینا ہو کیوں تیغ و سپر کی بات کرو

پرویز شاہدی



Thursday, September 29, 2022

یاورؔ ځبیب ڈار

یوم پیدائش 29 سپتمبر 1997

رو داد سن کے میری خدا خیر اب کرے
چھیڑی ہے بات ایسی دِل نا گزار میں

دنیا جتن کرے گی کسی کار زار کی
محبوب میرا ہے وہی جس کا نگار میں

کنجِ قفس میں قید ہے کیوں زندگی مری؟
وارفتگی ہے کوئی گل و لالہ زار میں

بست و کشاد سے میرا کہلا یہ بیج دو!
صدیوں سے پل رہا ہوں میں مشتِ غبار میں
 
یاورؔ ځبیب ڈار



عزیر زاہد

یوم پیدائش 29 سپتمبر 2000

میری ہر بات پہ کہتی ہو کہ اچھا کیا ہے!
پہلے بتلاؤ کہ تم نے مجھے سمجھا کیا ہے

کچھ نہیں کچھ بھی نہیں تیری توجہ کے بغیر
تیری آنکھیں نہ رہیں تو مِرا چہرہ کیا ہے

یونہی پھرتے رہو اُس خواب کنارے ہر دم
پھر کہیں تم پہ کُھلے گا کہ وہ دریا کیا ہے

ملکوں ملکوں تو پھر آئے ہو مرے دوست مگر 
گر گلی اسکی نہیں دیکھی تو دیکھا کیا ہے

پوچھنے آتے ہیں سڑکوں پہ ٹہلتے سائے
رات ساری تُو یہاں جاگ کے کرتا کیا ہے

اے دو عالم کے خدا اب تو بتا اپنی جا
اے قریبِ رگِ جاں بول یہ پردہ کیا ہے

بھرگیا ہوں جو لبالب کسی خوشبو سے عزیر
بند کھڑکی سے مِرے پھول نے بھیجا کیا ہے

عزیر زاہد



سید اختر رضا زیدی

یوم وفات 28 سپتمبر 1979
نوحہ
سرور شہید ہوگئے تاثیر رہ گئی
دنیا میں صبر و شکر کی تصویر رہ گئی

سرور نے رو کے لاشۂ اکبر پہ یہ کہا
ریتی پہ ہائے چاند سی تصویر رہ گئی

اٹھارہ سال والے کی میت پہ بولی ماں
رونے کو ہائے مادرِ دل گیر رہ گئی

خنجر گلے پہ شمرِ لعیں پھیرتا رہا
سر اپنا پیٹتی ہوئی ہمشیر رہ گئی

زینب یہ بین کرتی تھی ، ہائے ستم ہوا
بے گور لاشِ حضرتِ شبیر رہ گئی

اہلِ حرم اسیر ہوئے ، دربدر پھرے
کیا آلِ مصطفیٰ کی یہ توقیر رہ گئی

فریاد کرتی جاتی تھی یہ دخترِ حسین
در در پھرانے کو مجھے تقدیر رہ گئی

اخترؔ بہ فیضِ خونِ شہیدانِ کربلا
بس مٹتے مٹتے دین کی تقدیر رہ گئی

سید اختر رضا زیدی


 

کیف رضوانی

یوم وفات 28 سپتمبر 2014

تقدیر سنور جائے سرکار کے قدموں میں
یہ جان اگر جائے سرکار کے قدموں میں

اک بار رکھو ں اُن کے قدموں میں یہ سراپنا
پھر عمر گذرجائے سرکار کے قدموں میں

یہ کیفؔ کی حسرت ہے ڈھل جائے وہ خوش بومیں
اور جاکے بکھر جائے سرکار کے قدموں میں

کیف رضوانی


 

عمران اسلام

یوم پیدائش 28 سپتمبر 1993
نظم...مجھے کون پڑھے گا

مَیں تم سے محبت کیوں کروں
اگر تم میری طرف نہیں دیکھتے
مَیں تمھیں کیوں لکھوں
اگر آپ میری کتاب نہیں پڑھتے
شاعری کیسے لکھوں
اگر آپ میری حوصلہ افزائی نہیں کرتے
مَیں یہاں کیسے زندہ رہوں گا
اگر آپ میرا ساتھ نہیں دیتے
آپ کو مجھ سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں
صرف مجھے خوش کرنے کے لیے
میرے لیے کچھ کریں
آپ واقعی کیا کر سکتے ہیں
مَیں تم سے نہیں پوچھ رہا ہوں
ذرا میرے خیالات کی قدر کرو
مَیں تعریفیں نہیں چاہتا
میرے الفاظ بھی پڑھ لو
اگر مَیں غریب ہوں، تو کیا حرج ہے
اگر مَیں کالا ہوں تو میرا کیا قصور
آپ تمام دروازے بند کر سکتے ہیں
میں آپ سے درخواست کرتا ہوں
بس میرا کام پڑھیں!

عمران اسلام


 

ثمر بلیاوی

یوم پیدائش 27 سپتمبر 1940

ناصحا چھپ چھپا کے مے نوشی
کیا یہی تیری پارسائی ہے

ثمر بلیاوی



ثاقب قمری مصباحی

یوم پیدائش 27 سپتمبر 2001

وحشتِ ہجر ہے، اندیشۂ تنہائی ہے
بابِ ہستی کا عجب قصۂ تنہائی ہے

جس طرف دیکھتا ہوں سایۂ تنہائی ہے
آخرش تا بہ کجا حیطۂ تنہائی ہے!!

وہ کہ جس قبر پہ میلہ سا لگا رہتا تھا
آج خستہ سا وہاں کتبۂ تنہائی ہے

پھر سے اِک بار وہی جرم کیا ہے میں نے
پھر سے اِک بار مجھے خدشۂ تنہائی ہے

میں تو بس معنیِ مصداق اسی لفظ کا ہوں!
مصحفِ زیست میں جو صیغۂ تنہائی ہے

عالمِ وصل کی لذت سے میں واقف ہی کہاں
میرے حصے میں تو بس گوشۂ تنہائی ہے

آج کل نیند سے اس طرح میں چونک اُٹھتا ہوں
جیسے خوابوں پہ مِرے قبضۂ تنہائی ہے

عشق کا ایک جزیرہ ہے مِرا دل ثاقب
اور پھر اس میں فقط موجۂ تنہائی ہے

ثاقب قمری مصباحی


 

وحید عرشی

یوم پیدائش 27 سپتمبر 1943

گلوں کو رنگ ستاروں کو روشنی کے لئے 
خدا نے حسن دیا تم کو دلبری کے لئے 

تمہارے روئے منور کی ضو میں ڈوب گیا 
فلک پہ چاند جو نکلا تھا ہمسری کے لئے 

صنم ہزاروں نئے پتھروں کے اندر ہی 
تڑپ رہے ہیں ابھی فن آذری کے لئے 

ارے او برق تپاں پھونک دے نشیمن کو 
ترس رہا ہوں گلستاں میں روشنی کے لئے 

رہ وفا میں مرا کون ہے جو ہر سو سے 
غبار راہ اٹھی ہے پیمبری کے لئے 

نکل پڑا ہے جنوں تھام کر کے دست وفا 
اک اجنبی کا سہارا ہے اجنبی کے لئے

وحید عرشی



شمشاد شاد

اس قدر شور کہ ظلمت بھی لگی تھی ڈرنے
رات سونے نہ دیا آہِ دلِ مضطر نے

غالباً روح نے لبیک کہا تھا میری
خاک کو چاک پہ جوں ہی رکھا کوزہ گرنے

کس لیے خوف کو تم دل میں جگہ دیتے ہو
جان کتنوں کی یہاں لی ہے قضا کے ڈرنے

جن کی تعمیر میں شامل ہے پسینہ میرا
مجھ کو ٹھکرادیا یکسر انہی بام و درنے

خیر سے آنکھ چرانے کا نتیجہ ہے کہ آج 
ہر طرف سے دلِ انساں کو ہے گھیرا شر نے

گل کئی رنگ کے گلشن میں میسر تھے مگر
مجھ کو روکے رکھا الزامِ جفا کے ڈرنے

پھر دل وعقل کا چلتا ہی نہیں زور کوئی
آنکھ لگ جائے کسی سے جو محبت کرنے

شاد ان سر پھری موجوں کی خوشی کی خاطر
مسترد کتنے کناروں کو کیا ساگر نے

شمشاد شاد

قنبر حنفی

یوم پیدائش 26 سپتمبر 2001

سمجھائے کوئی آکے ذرا فلسفہ مجھے
ابلیس لگ رہے ہیں سبھی پارسا مجھے

لکھنا ہے تیرے حسن کے بارے میں اس لئے
مثلِ نجوم چاہئے کچھ قافیہ مجھے

میں عسکرِ ادب کا سپاہی بنوں یہاں
مل جائے اہلِ ذوق سے کچھ حوصلہ مجھے

منظور جس نظر کا تھا، کیوں دیکھتا ہے اب
تحقیر کی نظر سے وہی آشنا مجھے

پلکوں کے ساتھ دل بھی بچھاؤں میں راہ میں
تم سے نہیں ملا جو کچھ ان سے ملا مجھے

ہر وقت پوچھتا ہے کہ کیسا ہوں میں؟ بتا
سمجھا ہے تونے کیا رے کوئی آئینہ مجھے

قنبر ترے خلوص کو کیا نام دوں بتا
منزل سے پہلے چھوڑ گیا ہمنوا مجھے

قنبر حنفی



شاکر وارثی

یوم پیدائش 25 سپتمبر 1960

کانچ کے گھر کا عجب منظر نظر آنے لگا
ہر کسی کے ہاتھ میں پتھر نظر آنے لگا

ظالموں کو مل گئی جب چھوٹ سارے شہر میں
خون کا پیاسا ہراک خنجر نظر آنے لگا

ہوگئے مجھ سے جدا وہ ایک مدت ہوگئی
ان کا چہرہ خواب میں اکثر نظر آنے لگا

بھیک جب شاہ و گدا کو مل گئی شاکرؔ وہاں
سارا عالم ان کی چوکھٹ پر نظر آنے لگا

شاکر وارثی



سیدہ سعدیہ فتح

یوم پیدائش 25 سپتمبر 

اوصاف محامد جیسے ہیں
دراصل وہ حاسد جیسے ہیں

ہر بات پہ نکتہ چینی کیوں ؟
کیا آپ بھی ناقد جیسے ہیں

بے داغ لبادہ اوڑھے ہوئے
مے خوار بھی زاہد جیسے ہیں

آنکھیں ہیں مگر ہیں نابینا
کیوں کہیے وہ شاہد جیسے ہیں

ہے دور مشینی تو انساں
کیوں ساکت و جامد جیسے ہیں

اے سعدیہ! صالح کوئی نہیں
سب اصلاً فاسد جیسے ہیں

سیدہ سعدیہ فتح


 

ساغر صدیقی

تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا

جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا

شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا

یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا

تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا

افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے لیا

بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا

ساغر صدیقی 



محمود طرزی

یوم وفات 24 سپتمبر 1890

خودی کی تاریک گھاٹیاں ہیں قدم قدم پر یقیں سے آگے
خدا ہی حافظ ہے ان کاطرزی ، بڑھے جو کوئے بتاں سے آگے

کبھی کلیسا میں جھانکتا ہے ، کبھی حرم میں پکارتا ہے
جو ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈ اس کو حدودِ کون و مکاں سے آگے

میں گرد تھا کارواں کی طرزی نہ پوچھیے اضطراب میرا
کبھی رہا کارواں کے پیچھے ، کبھی رہا کارواں کے آگے

محمود طرزی


 

نجیبہ عارف

یوم وفات 24 سپتمبر 1964

نگاہ و رخ پر ہے لکھی جاتی جو بات لب پر رکی ہوئی ہے 
مہک چھپے بھی تو کیسے دل میں کلی جو غم کی کھلی ہوئی ہے 

جو دل سے لپٹا ہے سانپ بن کر ڈرا رہا ہے بچا رہا ہے 
یہ ساری رونق اس اک تصور کے دم سے ہی تو لگی ہوئی ہے 

خیال اپنا کمال اپنا عروج اپنا زوال اپنا 
یہ کن بھلیوں میں ڈال رکھا ہے کیسی لیلا رچی ہوئی ہے 

ہم اپنی کشتی سراب گاہوں میں ڈال کر منتظر کھڑے ہیں 
نہ پار لگتے نہ ڈوبتے ہیں ہر اک روانی تھمی ہوئی ہے 

ازل ابد تو فقط حوالے ہیں وقت کی بے مقام گردش 
خبر نہیں ہے تھمے کہاں پر کہاں سے جانے چلی ہوئی ہے 

بھڑک کے جلنا نہیں گوارا تو میرے پروردگار مولا 
نہ ایسی آتش نفس میں بھرتے کہ جس سے جاں پر بنی ہوئی ہے

نجیبہ عارف


 

ظفر نسیمی

یوم پیدائش 24 سپتمبر 1921

نہ چھیڑ نام و نسب اور نسل و رنگ کی بات 
کہ چل نکلتی ہے اکثر یہیں سے جنگ کی بات 

تمہارے شہر میں کس کس کو آئنہ دکھلائیں 
ہزار طرح کے چہرے ہزار رنگ کی بات 

ہر ایک بات پہ طعنہ ہر ایک بات پہ طنز 
کبھی تو یار کیا کر کسی سے ڈھنگ کی بات 

میں اس کے وعدۂ فردا پہ کیا یقیں کرتا 
ہنسی میں ٹال گیا ایک شوخ و شنگ کی بات 

اٹھا ہے سنگ ملامت بہ نام شیشۂ دل 
قرار پائی ہے شیشے کے ساتھ سنگ کی بات 

عجیب حال ہے یاروں کی بے حسی کا ظفرؔ 
سکوت مرگ کا عالم رباب و چنگ کی بات

ظفر نسیمی



صادق نسیم

یوم پیدائش 24 سپتمبر 1924

اس اہتمام سے پروانے پیشتر نہ جلے
طواف شمع کریں اور کسی کے پر نہ جلے

ہوا ہی ایسی چلی ہے ہر ایک سوچتا ہے
تمام شہر جلے ایک میرا گھر نہ جلے

ہمیں یہ دکھ کہ نمود سحر نہ دیکھ سکے
سحر کو ہم سے شکایت کہ تا سحر نہ جلے

چراغ شہر نہیں ہم چراغ صحرا ہیں
کسے خبر کہ جلے اور کسے خبر نہ جلے

تری دلیل بجا پر یہ کیسے مانا جائے
شجر کو آگ لگے اور کوئی ثمر نہ جلے

شعور قرب کی یہ بھی ہے اک عجب منزل
ہم اس کو غیر کی محفل میں دیکھ کر نہ جلے

یہ شام مرگ تمنا کی شام ہے صادقؔ
کوئی چراغ کسی طاق چشم پر نہ جلے

صادق نسیم



پرتو روہیلہ

یوم وفات 23 سپتمبر 1932

میں جو صحرا میں کسی پیڑ کا سایا ہوتا 
دل زدہ کوئی گھڑی بھر کو تو ٹھہرا ہوتا 

اب تو وہ شاخ بھی شاید ہی گلستاں میں ملے 
کاش اس پھول کو اس وقت ہی توڑا ہوتا 

وقت فرصت نہیں دے گا ہمیں مڑنے کی کبھی 
آگے بڑھتے ہوئے ہم نے جو یہ سوچا ہوتا 

ہنستے ہنستے جو ہمیں چھوڑ گیا ہے حیراں 
اب رلانے کے لئے یاد نہ آیا ہوتا 

وقت رخصت بھی نرالی ہی رہی دھج تیری 
جاتے جاتے ذرا مڑ کے بھی تو دیکھا ہوتا 

کس سے پوچھیں کہ وہاں کیسی گزر ہوتی ہے 
دوست اپنا کبھی احوال ہی لکھا ہوتا 

ایسا لگتا ہے کہ بس خواب سے جاگا ہوں ابھی 
سوچتا ہوں کہ جو یہ خواب نہ ٹوٹا ہوتا 

زندگی پھر بھی تھی دشوار بہت ہی دشوار 
ہر قدم ساتھ اگر ایک مسیحا ہوتا 

ایک محفل ہے کہ دن رات بپا رہتی ہے 
چند لمحوں کے لئے کاش میں تنہا ہوتا

پرتو روہیلہ



شائستہ سحر

یوم وفات 23 سپتمبر 1975

کچھ بھی ہو تقدیر کا لکھا بدل 
چاہئے تجھ کو کہ اب رستا بدل 

بعد میں مجھ کو دکھانا آئنہ 
پہلے اپنا جا کے تو چہرہ بدل 

آگہی کا جس میں اک روزن نہ ہو 
اس مکان ذات کا نقشہ بدل 

میری وحشت ہے سوا اس سے کہیں 
بارہا اس سے کہا صحرا بدل 

نعمتیں دنیا کی سب مل جاتی ہیں 
ماں نہیں ملتا مگر تیرا بدل 

پھر رہا ہے کیوں تہی کاسہ لئے 
بار جو شانوں پہ ہے رکھا بدل 

ٹوٹی پھوٹی بان کا کیا آسرا 
آسماں سر پر اٹھا کھٹیا بدل 

رسم دنیا یوں بدل سکتی نہیں 
کب سحرؔ تجھ سے کہا تنہا بدل 

شائستہ سحر



شگفتہ طلعت سیما

یوم وفات 23 سپتمبر 

رنگ ہے پھول ہے خوشبو ہے صبا ہے کوئی
چمنِ زیست میں یوں جلوہ نما ہے کوئی

ساری دنیا کی نگاہوں سے ہے پردہ میرا
اور چھپ چھپ کے مجھے دیکھ رہا ہے کوئی

میری شرکت بھی گوارہ نہیں شاید اُس کو
میرے آتے ہی تو محفل سے اٹھا ہے کوئی

دن وہی رات وہی ، صبح وہی شام وہی
ماسوا اس کے بھی جینے کی سزا ہے کوئی

خون آنکھوں سے چھلک کر جو ہتھیلی پہ گرا
وہ سمجھ بیٹھے کہ تحریرِ حنا ہے کوئی

کوئی ایسا بھی ہو سیما جو مناکر لائے
روٹھ کر مجھ سے بہت دور کھڑا ہے کوئی

شگفتہ طلعت سیما


 

راجہ مہدی علی خاں

یوم پیدائش 23 سپتمبر 1915

محبت کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے 
تڑپنا ان کی قسمت میں تو صبح و شام ہوتا ہے 

ہمیشہ کے لئے دنیا میں دو دل مل نہیں سکتے 
نظر ملنا جدائی کا ہی اک پیغام ہوتا ہے 

نہ دل میں چین ہے ہم کو نہ راتوں کو قرار آئے 
بتا دے کوئی دنیا میں کہاں آرام ہوتا ہے 

مری بربادیاں بھی دیکھ لیں تم نے جہاں والو 
جو کرتا ہے محبت وہ یوں ہی ناکام ہوتا ہے

راجہ مہدی علی خاں



عمر انصاری

یوم پیدائش 23 سپتمبر 1912

باہر باہر سناٹا ہے اندر اندر شور بہت 
دل کی گھنی بستی میں یارو آن بسے ہیں چور بہت 

یاد اب اس کی آ نہ سکے گی سوچ کے یہ بیٹھے تھے کہ بس 
کھل گئے دل کے سارے دریچے تھا جو ہوا کا زور بہت 

موجیں ہی پتوار بنیں گی طوفاں پار لگائے گا 
دریا کے ہیں بس دو ساحل کشتی کے ہیں چھور بہت 

فصل خزاں تو سہہ لی لیکن موسم گل میں ٹوٹ گری 
بوجھ پھلوں کا سہہ نہیں پائی شاخ کہ تھی کمزور بہت 

دل سے اٹھا طوفان یہ کیسا سارے منظر ڈوب گئے 
ورنہ ابھی تو اس جنگل میں ناچ رہے تھے مور بہت 

برسوں بعد ملا ہے موقع آؤ لگا لیں کشتی پار 
آج تو یارو سناٹا ہے دریا کے اس اور بہت 

آج یقیناً مینہ برسے گا آج گرے گی برق ضرور
انکھیاں بھی پر شور بہت ہیں کجرا بھی گھنگھور بہت

کس سے کس کا ساتھی چھوٹا کس کا عمر کیا حال ہوا
پربت پربت وادی وادی رات مچا تھا شور بہت

عمر انصاری


صائمہ علی

یوم وفات 22 سپتمبر 1970

گلِ نشاط میں رکھا نہ فصلِ غم کو دیا
صبائے عشق نے خوشبو کا ظرف ہم کو دیا

عجب سکوں ہے طبیعت میں جب سے اس دل نے
تری خوشی کی ضمانت میں اپنے غم کو دیا

زبانِ خلق نے کیا کیا نہ ہم کو نام دھرے
کرم کا نام جو ہم نے ترے ستم کو دیا

بہت ملال سے کہتی ہیں اب تری آنکھیں
یہ کیسے چاند کو ہم نے شبانِ غم کو دیا

اب ایک بھیگی چمک رہتی ہے سرِ مژگاں
کہا تھا اس نے کبھی میری چشمِ نم کو دیا

صائمہ علی


 

آصف الدولہ

یوم پیدائش 23 سپتمبر 1748

بسمل کسی کو رکھنا رسم وفا نہیں ہے 
اور منہ چھپا کے چلنا شرط وفا نہیں ہے
 
زلفوں کو شانہ کیجے یا بھوں بنا کے چلیے 
گر پاس دل نہ رکھیے تو یہ ادا نہیں ہے 

اک روز وہ ستم گر مجھ سے ہوا مخاطب 
میں نے کہا کہ پیارے اب یہ روا نہیں ہے 

مرتے ہیں ہم تڑپتے پھرتے ہو تم ہر اک جا 
جانا کہ تم کو ہم سے کچھ مدعا نہیں ہے 

تب سن کے شوخ دل کش جھنجھلا کے کہنے لاگا 
کیا وضع میری آصفؔ تو جانتا نہیں ہے 

یوم پیدائش 23 سپتمبر 1748

بسمل کسی کو رکھنا رسم وفا نہیں ہے 
اور منہ چھپا کے چلنا شرط وفا نہیں ہے
 
زلفوں کو شانہ کیجے یا بھوں بنا کے چلیے 
گر پاس دل نہ رکھیے تو یہ ادا نہیں ہے 

اک روز وہ ستم گر مجھ سے ہوا مخاطب 
میں نے کہا کہ پیارے اب یہ روا نہیں ہے 

مرتے ہیں ہم تڑپتے پھرتے ہو تم ہر اک جا 
جانا کہ تم کو ہم سے کچھ مدعا نہیں ہے 

تب سن کے شوخ دل کش جھنجھلا کے کہنے لاگا 
کیا وضع میری آصفؔ تو جانتا نہیں ہے 

آصف الدولہ


 

کرامت علی کرامت

یوم پیدائش 23 سپتمبر 1936

وہ سچ کے چہرے پہ ایسا نقاب چھوڑ گیا 
رخ حیات پہ جیسے عذاب چھوڑ گیا 

نتیجہ کوشش پیہم کا یوں ہوا الٹا 
میں آسمان پہ موج سراب چھوڑ گیا 

وہ کون تھا جو مری زندگی کے دفتر سے 
حروف لے گیا خالی کتاب چھوڑ گیا 

بہار بن کے وہ آیا گیا بھی شان کے ساتھ 
کہ زرد پتوں پہ رنگ گلاب چھوڑ گیا 

مرے لہو میں جو آیا تھا میہماں بن کر 
مری رگوں میں وہ اک آفتاب چھوڑ گیا 

گیا تو ساتھ وہ لیتا گیا ہر اک نغمہ 
خلا کی گود میں ٹوٹا رباب چھوڑ گیا 

ملا نہ جذبۂ تشکیک کو لباس کوئی 
وہ ہر سوال کا ایسا جواب چھوڑ گیا 

بکھیرتا ہے کرامتؔ جو درد کی کرنیں
وہ خواب ذہن میں اک ماہتاب چھوڑ گیا

کرامت علی کرامت


آفتاب عالم افتاب

یوم وفات 21 سپتمبر 2021

منہگائی اب سکون کے لمحوں کو کھاگئی
فکرِ معاش پھول سے بچوں کو کھاگئی
حصے لگے تو بھائی ہوئے بھائی کے حریف
گز بھر زمین خون کے رشتوں کو کھاگئی

آفتاب عالم افتاب

 

 

عادل اسیر دہلوی

یوم پیدائش 21 سپتمبر 1959

دیکھو غریب کتنی زحمت اٹھا رہا ہے 
گلیوں میں بھیڑ والی رکشا چلا رہا ہے 

محروم ہے اگرچہ دنیا کی نعمتوں سے 
ہر بوجھ زندگی کا ہنس کر اٹھا رہا ہے
 
برسات میں بھی دیکھو پھرتا ہوا سڑک پر 
رکشا بھی بھیگتا ہے خود بھی نہا رہا ہے
 
گرمی کی دھوپ میں بھی رکتا نہیں ہے گھر میں 
پر پیچ راستوں کے پھیرے لگا رہا ہے 

سردی سے کانپتا ہے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں 
ٹھنڈی ہوا سے خود کو کیسے بچا رہا ہے 

مستی میں دوڑتا ہے رکشا لیے سڑک پر 
نغمہ کوئی سریلا اب گنگنا رہا ہے 

رکشے کے پیڈلوں پر رکھے ہیں پاؤں دونوں 
آنکھیں ہیں راستے پر گھنٹی بجا رہا ہے
 
ماں باپ منتظر ہیں گھر پر سبھی کے عادلؔ 
بچوں کو اب وہ لینے اسکول جا رہا ہے

عادل اسیر دہلوی


 

منیب احمد

یوم پیدائش 20 سپتمبر 

چراغِ زیست ہوں لو اور دھواں بناتا ہوں
ہوا کے ہاتھ پہ اپنا نشاں بناتا ہوں

میں باندھتا ہوں بکھرتے دلوں کا شیرازہ
جہانِ خام سے تازہ جہاں بناتا ہوں

مری شکستہ جبیں سے ستارے پھوٹتے ہیں
میں خاکزاد ہوں اور کہکشاں بناتا ہوں

اسے تسلی سمجھتا ہوں داد جو مل جائے
میں جب بھی شعر کو حرفِ فغاں بناتا ہوں

کئی نقوش مرے تن پہ یوں تو بنتے ہیں
بس اک وہیں نہیں بنتا جہاں بناتا ہوں

بچھڑنے والے بچھڑتے ہیں کب سہولت سے
سو رفتہ رفتہ اُنہیں رفتگاں بناتا ہوں

منیب، بے گھری حیرت سے دیکھتی ہے مجھے
زمیں کے سر پہ میں جب آسماں بناتا ہوں

منیب احمد


 

Monday, September 26, 2022

سعدالحسن

یوم پیدائش 20 سپتمبر 1989

لفظوں کے جال میں الجھاتے ہو کچھ شرم کرو
رات کو تیرگی بتلاتے ہو، کچھ شرم کرو

جھوٹ کہتے ہوئے کچھ آتی نہیں شرم تمہیں
سچ بتاتے ہوئے شرماتے ہو، کچھ شرم کرو

بات جتنی ہو بیاں اتنی ہی کی جاتی ہے
آدھے ایمان پہ اتراتے ہو؟ کچھ شرم کرو

اس کی مرضی وہ ملاقات کرے یا نہ کرے
سرکشی پر اُسے اکساتے ہو؟ کچھ شرم کرو

نہ کوئی آنے کا سندیس نہ جانے کی خبر
پل بھر آتے ہو، چلے جاتے ہو، کچھ شرم کرو

سعدالحسن


 

موہن سنگھ

یوم پیدائش 20 سپتمبر 1905

تعلقات کی دنیا کا حال کیا کہئے 
کہ مرنا سہل ہے جینا محال کیا کہئے 

انہیں جو رازق کل کو بھلا کے کرتے ہیں 
گداگران زماں سے سوال کیا کہئے 

ادب کی محفلوں اور دین کی مجالس میں 
نہ کیف حال نہ لطف مقال کیا کہئے 

حسین آج اتر آئے حسن بازی پر 
یہ جوش و طرز نمود جمال کیا کہئے 

حرام ہو گئی انگور و جو کی سادہ کشید 
لہو غریب کا ٹھہرا حلال کیا کہئے 

فسانہ ساز‌و حق آموز و جابر و رحمان 
ہے پر تضاد بشر کا کمال کیا کہئے 

بس ایک نقش ہے چربے اسی کے اٹھتے ہیں 
فسانہ ہائے عروج و زوال کیا کہئے 

تمام چیزیں ہڑپنے کے بعد بھی بھوکی 
سیاست ایسی ہے لعنت مآل کیا کہئے 

مزاج دہر ہے گویا مزاج عورت کا 
ابھی ہے امن بھی جنگ و جدال کیا کہئے 

تمام چیزیں فراواں بھی ہیں گراں بھی ہیں 
ہے ایک صدق و صداقت کا کال کیا کہئے 

ادیب و ناقد و نقاش و اہل رقص و غنا 
چلیں خوشی سے حکومت کی چال کیا کہئے

موہن سنگھ



نجم آفندی

یوم پیدائش 19 سپتمبر 1893

ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور 
مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور 

اک جرعۂ آخر کی کمی رہ گئی آخر 
جتنی وہ پلاتے گئے آنکھوں نے کہا اور 

منبر سے بہت فصل ہے میدان عمل کا 
تقریر کے مرد اور ہیں مردان وغا اور 

اللہ گلہ کر کے میں پچھتایا ہوں کیا کیا 
جب ختم ہوئی بات کہیں اس نے کہا اور 

کیا زیر لب دوست ہے اظہار جسارت
حق ہو کہ وہ ناحق ہو ذرا لے تو بڑھا اور 

دولت کا تو پہلے ہی گنہ گار تھا منعم 
دولت کی محبت نے گنہ گار کیا اور 

یہ وہم سا ہوتا ہے مجھے دیکھ کے ان کو 
سیرت کا خدا اور ہے صورت کا خدا اور 

نجم آفندی

علی منظور حیدرآبادی

یوم پیدائش 19 سپتمبر 1896

غم کا گماں یقین طرب سے بدل گیا
احساس عشق حسن کے سانچے میں ڈھل گیا

ساتھ ان کے لے رہا ہوں میں گل گشت کے مزے
یہ خواب ہی سہی مرا جی تو بہل گیا

مجبور عشق چشم فسوں ساز سے ہوں میں
جادو مجھی پہ دوست کا چلنا تھا چل گیا

میں انتظار عید میں تھا عید آ گئی
ارمان دید دامن عشرت میں پل گیا

ہے برق جلوہ یاد مگر یہ نہیں ہے یاد
خرمن مرے غرور کا کس وقت جل گیا

پیمان عشق و حسن کی تجدید کے سوا
جو بھی خیال ذہن میں آیا نکل گیا

بڑھتے چلے ہیں آئے دن اسباب اضطراب
یادش بخیر آج کا وعدہ بھی ٹل گیا

منظورؔ کس زباں سے بتوں کو برا کہیں
ایماں ہمارا کفر کے دامن میں پل گیا

علی منظور حیدرآبادی



اسماعیل ظفر

یوم پیدائش 18 سپتمبر 1949

نہ جانے کون ہے جس کا انتظار مجھے
کسی بھی پہلو نہ ملتا ہے اب قرار مجھے

اگر وہ دوست ہے میرا تو دوریاں کیسی
اگر عدو ہے تو کرنے دے بے قرار مجھے

اگر ہے چاہ کوئی جرم تو سزا دینا
دل و دماغ پہ دے پہلے اختیار مجھے

میں تیری مانگ کو اپنے لہو سے بھر دوں گا
مگر ہے شرط ، محبت سے تو پکار مجھے

زمانے بھر کی خدایا اسے خوشی دے دے
جو کر رہا ہے زمانے میں سوگوار مجھے

مری حیات ، مسلسل غموں کی یورش ہے
ترا کرم ہے ، کیا تو نے شاہ کار مجھے

ہے اعتراف کہ میں ہوں گناہ گار مگر
نہ کرنا روزِ قیامت تو شرم سار مجھے

اسماعیل ظفر


 

نم اعظمی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1957

کہیں پہ ریت ، کہیں پر ہوں آب جیسا میں
نظر سے حدِّ نظر تک سراب جیسا میں

مرے وجود سے لپٹی ہیں رفعتیں میری
تمھارے شہر میں خانہ خراب جیسا میں

شعاعیں ڈھونڈتی رہتی ہیں میری تعبیریں
اندھیری رات کی پلکوں پہ خواب جیسا میں

مری ہی آگ مجھے روز و شب جلاتی ہے
اسی لیے تو کھلا ہوں گلاب جیسا میں

ہوائے غم نے اڑایا ورق ورق مجھ کو
فضائے دل میں ہوں بکھری کتاب جیسا میں

نم اعظمی


 

شوکت عظیم

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1957

ہماری روح وہ صندل کا پیڑ ہے جس میں
لپٹ گئی ہے تری یاد ناگنوں کی طرح

شوکت عظیم


 

ذیشان نیازی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1974

کہاں دریا کی طغیانی سے نکلا 
تعلق ریت کا پانی سے نکلا 

کسی کی یاد کا کانٹا تھا دل میں 
بہت مشکل تھا آسانی سے نکلا 

گریباں چاک آوارہ پریشاں 
جنوں صحرا کی ویرانی سے نکلا 

چمکتے چاند کا رشتہ بھی یارو 
رخ جاناں کی تابانی سے نکلا 

جو منظر مصرع اولیٰ میں گم تھا 
وہ منظر مصرع ثانی سے نکلا 

علاج درد دل ذیشانؔ دیکھا 
جنوں کی چاک دامانی سے نکلا 

ذیشان نیازی 



تحسین فراقی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1950

مجھ سا انجان کسی موڑ پہ کھو سکتا ہے 
حادثہ کوئی بھی اس شہر میں ہو سکتا ہے 

سطح دریا کا یہ سفاک سکوں ہے دھوکا 
یہ تری ناؤ کسی وقت ڈبو سکتا ہے 

خود کنواں چل کے کرے تشنہ دہانوں کو غریق 
ایسا ممکن ہے مری جان یہ ہو سکتا ہے 

بے طرح گونجتا ہے روح کے سناٹے میں 
ایسے صحرا میں مسافر کہاں سو سکتا ہے 

قتل سے ہاتھ اٹھاتا نہیں قاتل نہ سہی 
خون سے لتھڑے ہوئے ہاتھ تو دھو سکتا ہے 

جھوم کر اٹھتا نہیں کھل کے برسنا کیسا 
کیسا بادل ہے کہ ہنستا ہے نہ رو سکتا ہے 

جز مرے رشتۂ انفاس گرہ گیر میں کون 
گہر اشک شرر بار پرو سکتا ہے

تحسین فراقی



ظفر مرادآبادی

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1951

تمام رنگ جہاں التجا کے رکھے تھے 
لہو لہو وہیں منظر انا کے رکھے تھے 

کرم کے ساتھ ستم بھی بلا کے رکھے تھے 
ہر ایک پھول نے کانٹے چھپا کے رکھے تھے 

سکون چہرے پہ ہر خوش ادا کے رکھے تھے 
سمندروں نے بھی تیور چھپا کے رکھے تھے 

مری امید کا سورج کہ تیری آس کا چاند 
دیے تمام ہی رخ پر ہوا کے رکھے تھے 

وہ جس کی پاک اڑانوں کے معترف تھے سب 
جلے ہوئے وہی شہپر حیا کے رکھے تھے 

بنا یزید زمانہ جو میں حسین بنا 
کہ ظلم باقی ابھی کربلا کے رکھے تھے 

انہیں کو توڑ گیا ہے خلوص کا چہرہ 
جو چند آئنے ہم نے بچا کے رکھے تھے 

یوں ہی کسی کی کوئی بندگی نہیں کرتا 
بتوں کے چہروں پہ تیور خدا کے رکھے تھے 

گئے ہیں باب رسا تک وہ دستکیں بن کر 
ظفرؔ جو ہاتھ پہ آنسو دعا کے رکھے تھے

ظفر مرادآبادی



محمد جلال الدین انصاری

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1932

دریا ہی دکھاتا ہے اکڑ اپنی ہمیشہ
باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا

 محمد جلال الدین انصاری


 

راشد ذولفقار

یوم پیدائش 17 سپتمبر 1957

بندشیں سخت نہ ہو جائیں مسیحاؤں کی
قید میں اپنی معیشت ہے کلیساؤں کی

قرض میں جکڑی ہوئی قوم کے بے حس حاکم
بود و باش ان کی ہمیشہ سے ہے راجاؤں کی

بے ہنر ہاتھوں میں شمشیر تھمانے کے لئے
پرچیاں کام دکھاتی ہیں شنا ساؤں کی

یوسف وقت سے پوچھو تو ذرا اے لوگو
زد پہ دامن ہے ترا کتنی زلیخاؤں کی

آخری بار ہے ساحل کا نظارا راشد
کشتیاں ڈوب چلیں میری تمناؤں کی

راشد ذولفقار



شکیل احمد شکیل

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1954

ہے دل میں نور وفا کے چراغ کے جیسا
چلے بھی آؤ بیاباں ہے باغ کے جیسا

قدم قدم پہ نگاہوں کی جستجو ہے وہی
کسی کا نام ملا ہے سراغ کے جیسا

شراب لطف و کرم اس کی آنکھ سے چھلکی
سرور پھر نے نہ ملا اس ایاغ کے جیسا

شکیل صبر سے لے کام عجلتیں کیسی
وہ محو گشت چمن ہے فراغ کے جیسا

شکیل احمد شکیل



عمر قریشی

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1924

یہ مرے جذب محبت کی پذیرائی ہے
وہ بھی کہنے لگے دیوانہ ہے سودائی ہے

ہر طرف تو ہے تری یاد ہے آہٹ تیری
تیری محفل سے تو اچھی مری تنہائی ہے

اس سے بہتر ہے کہ تجدید محبت کر لے
بے وفا بن کے بھی رہنا تری رسوائی ہے

شیشہ‌ٔ جسم ہوا جاتا ہے ٹکڑے ٹکڑے
یہ قیامت ہے کہ ظالم تری انگڑائی ہے

ایسا بدلا ہے زمانہ کہ الٰہی توبہ
جو تماشا تھا وہی آج تماشائی ہے

مطمئن ہوں میں عمرؔ شیشے کے گھر میں رہ کر
پتھروں سے مری صدیوں کی شناسائی ہے

عمر قریشی


محمد اجمل نیازی

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1946

بکھرتی خاک میں کوئی خزانہ ڈھونڈھتی ہے 
تھکی ہاری زمیں اپنا زمانہ ڈھونڈھتی ہے 

شجر کٹتے چلے جاتے ہیں دل کی بستیوں میں 
تری یادوں کی چڑیا آشیانہ ڈھونڈھتی ہے 

یقیں کی سر زمیں ظاہر ہوئی اجڑے لہو میں 
یہ ارض بے وطن اپنا ترانہ ڈھونڈھتی ہے 

بھٹکتی ہے تجھے ملنے کی خواہش محفلوں میں 
یہ خواہش خواہشوں میں آستانہ ڈھونڈھتی ہے 

ترے غم کا خمار اترا ادھوری کیفیت میں 
یہ کیفیت کوئی موسم پرانا ڈھونڈھتی ہے 

بکھرتا ہوں جدائی کی اکیلی وسعتوں میں 
یہ ویرانی مرے گھر میں ٹھکانہ ڈھونڈھتی ہے 

مری مٹی سجائی جا رہی ہے آنگنوں میں 
یہ رستوں پر تڑپنے کا بہانہ ڈھونڈھتی ہے 

محمد اجمل نیازی



سحر عشق آبادی

یوم پیدائش 16 سپتمبر 1903

تکمیل عشق جب ہو کہ صحرا بھی چھوڑ دے
مجنوں خیال محمل لیلا بھی چھوڑ دے

کچھ اقتضائے دل سے نہیں عقل بے نیاز
تنہا یہ رہ سکے تو وہ تنہا بھی چھوڑ دے

یا دیکھ زاہد اس کو پس پردۂ مجاز
یا اعتبار دیدۂ بینا بھی چھوڑ دے

کچھ لطف دیکھنا ہے تو سودائے عشق میں
اے سرفروش سر کی تمنا بھی چھوڑ دے

وہ درد ہے کہ درد سراپا بنا دیا
میں وہ مریض ہوں جسے عیسیٰ بھی چھوڑ دے

آنکھیں نہیں جو قابل نظارۂ جمال
طالب سے کہہ دو ذوق تماشا بھی چھوڑ دے

ہے برق پاشیوں کا گلہ سحرؔ کو عبث
کیا اس کے واسطے کوئی ہنسنا بھی چھوڑ دے

سحر عشق آبادی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...