Urdu Deccan

Friday, July 21, 2023

فضیل احمد ناصری

یوم پیدائش 13 مئی 1978

جواں ، جو تھے کل تک ستاروں سے آگے 
وہ غافل ہیں غفلت شعاروں سے آگے

عزیزو ! چھلانگیں نہ اتنی لگاؤ
خزاں کی رتیں ہیں بہاروں سے آگے

ادب کے تقاضے سے دامن نہ کھینچو
رہو تم نہ پرہیز گاروں سے آگے

دہکتی ہوئی آگ کا ہے سمندر
ذرا جھانک دل کش نظاروں سے آگے

صحابہ کا نقش قدم راہِ حق ہے
بڑھو تم نہ ان جاں نثاروں سے آگے

بزرگوں کی صحبت بھی ہے باغ جنت
رکھے گی یہ تم کو ہزاروں سے آگے

غباروں کے خوگر ! بتاؤں میں کیسے
مزے کیا ہیں ان شہ سواروں سے آگے

اجی ! ناصری کو کہاں ڈھونڈتے ہو
ملیں گے تمہیں ہم قطاروں سے آگے 

فضیل احمد ناصری


 

لیاقت علی خان یاسر جالنوی

یوم پیدائش 13 مئی 1972

اپنے ہونے کا نہیں وہم و گماں تک ہم کو
ایسے ویرانے میں ڈھونڈوگے کہاں تک ہم کو

تیری محفل کو سخن زار کریں گے اتنا
بھول پائیں نہ کبھی حرف و بیاں تک ہم کو

کون سناٹے میں اب ہم کو صدائیں دے گا
اب سنائی نہیں دیتی ہے فغاں تک ہم کو

پیار سچا ہے تو پھر دل میں اتر جانے دے
اتنا محدود نہ رکھ اپنی زباں تک ہم کو

تیری فرقت میں بہاروں نے ہے یہ کام کیا
خوں رلا پائی نہ تھی جب کہ خزاں تک ہم کو

اپنی زلفوں کو انہی شانوں پہ رہنے دو ابھی
بار ہوتا نہیں اب بارِ گراں تک ہم کو

جتنے اپنے تھے سبھی دور ہوئے جاتے ہیں
کوئی برداشت کرے گا بھی کہاں تک ہم کو

دل کی آنکھوں سے اگر دیکھو گے ہم کو یاسرؔ
ہم نظر آئیں گے دیکھو گے جہاں تک ہم کو

 لیاقت علی خان یاسر جالنوی

ابھی کچھ کام باقی ہے ابھی کچھ کام کرنا ہے
ابھی تو صبح دم جاگے ابھی تو شام کرنا ہے

یہ جنگ حق و باطل ہے جسے تم چھیڑ بیٹھے ہو
تمھیں آغاز کرنا تھا ہمیں انجام کرنا ہے

ابھی تاریخ کے صفحوں پر ہم ظل الہی ہیں
ابھی تو عصر حاضر کو بھی اپنے نام کرنا ہے

تمھاری لب کشائی پر بھی ہم خاموش بیٹھیں گے
تمھارے ہر ستم کو آج طشت از بام کرنا ہے

چلے آؤ تمہیں آدابِ محفل ہم سکھاءیں گے
ہمیں دستور برحق کو سبھی میں عام کرنا ہے

محبت کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں لیکن
محبت بھی ہمیں تم سے براے نام کرنا ہے

  لیاقت علی خان یاسر جالنوی


 

محمد سراج الحسن

یوم پیدائش 12 مئی 1940

غیرت ہو گر مزاج میں ذلت سے تو بچے
اہلِ نشاط نفس کی جرأ ت سے تو بچے

ناکارہ کہہ کے ناز اٹھانے نہیں دیا
اچھا ہوا فضول کی زحمت سے تو بچے

مستقبلِ وطن تو بہت بعد کی ہے چیز
پہلے ہی نسلِ نو بری عادت سے تو بچے

لازم ہے کارِ شوق میں کچھ احتیاط بھی
اہلِ ہوس نشاط کی بدعت سے تو بچے

جس دن سے چسکا لگ گیا رزقِ حلال کا
خوش ہیں کہ ہم حرام کی دولت سے تو بچے

ہو سیدھے پن کے ساتھ حسن ٹیڑھا پن بھی کچھ
اتنا تو ہو کسی کی شرارت سے تو بچے

محمد سراج الحسن

مٹتی جاتی ہے ہر اک قدر پرانی اپنی
ختم ہوجائے گی اک روز کہانی اپنی

خوف بندوں کا نہیں ، خوفِ خدا تھا ہم کو
دشمنوں نے بھی تو یہ بات ہے مانی اپنی

کیسے آزاد ہیں ، فکر غلامانہ ہے
کیسے بے قدر ہیں ہم، قدر نہ جانی اپنی

حاکمِ وقت کو تو قرض کا بھی ہوش نہیں
بے حسی اس کی بنی دشمنِ جانی اپنی

اس کو بہبودیِ ملت پہ نچھاور کردیں
کچھ تو کام آئے بہرحال جوانی اپنی

خط میں کیا لکھوں میں حالات ، چلے آؤ یہاں
داستاں تم کو سنادوں گا زبانی اپنی

خون میں پہلی سی گرمی ہے ، نہ وہ پہلا سا جوش
کس طرح ہو بھلا تقدیر سہانی اپنی

رہا دنیا میں سلامت جو حسن ذوقِ سخن
چھوڑ جاؤں گا زمانے میں نشانی اپنی

محمد سراج الحسن


 

نکہت بریلوی

یوم پیدائش 12 مئی 1935

ہر ایک لمحہ طبیعت پہ بار ہے، کیا ہے 
تمہارا غم کہ غم روزگار ہے، کیا ہے 

وہ ہم پہ آج بہت جلوہ بار ہے کیا ہے 
اب اس ادا میں عداوت ہے، پیار ہے، کیا ہے 

ستم تو یہ ہے کہ اس عہد جبر میں بھی یہاں 
ملول ہے نہ کوئی بے قرار ہے، کیا ہے 

ہزار رنگ بد اماں سہی مگر دنیا 
بس ایک سلسلۂ اعتبار ہے، کیا ہے 

فضا چمن کی ہے ایسی کہ کچھ نہیں کھلتا 
خزاں کی رت ہے کہ فصل بہار ہے، کیا ہے 

سنا ہے رات تو کب کی گزر گئی لیکن 
ہمیں سحر کا ابھی انتظار ہے، کیا ہے 

چمن ہمارا ہے لیکن چمن ہمارا نہیں
نہ بے بسی نہ کوئی اختیار ہے، کیا ہے

بتائے جاتے ہیں عنواں نئے نئے نکہتؔ
مگر تماشہ وہی وہی بار بار ہے، کیا ہے

  
نکہت بریلوی

سیدہ کوثر

یوم پیدائش 11 مئی 

فن جو زیرِ عتاب رہتا ہے
 پھر کہاں اس پہ تاب رہتا ہے
 
 میں تجھے بھولنا بھی چاہوں تو
 غم ترا بے حساب رہتا ہے
 
اور بھی پھول ہیں زمانے میں
باغ میں کیا گلاب رہتا ہے

تم کوئی جب سوال کرتے ہو
دل مرا لاجواب رہتا ہے

میں تمہیں کھو نہ دوں زمانے میں 
دل میں یہ ڈر جناب رہتا ہے

تاز تو بھی نہ کر بہاروں پر
وقت کب ہم رکاب رہتا ہے

سیدہ کوثر


 

فہیم شناس کاظمی

یوم پیدائش 11 مئی 1965

تمہارے بعد جو بکھرے تو کُو بہ کُو ہوئے ہم
پھر اس کے بعد کہیں اپنے روبرو ہوئے ہم

تمام عمر ہوا کی طرح گزاری ہے
اگر ہوئے بھی کہیں تو کبھُو کبھُو ہوئے ہم

یوں گردِ راہ بنے عشق میں سمٹ نہ سکے
پھر آسمان ہوئے اور چارسُو ہوئے ہم

رہی ہمیشہ دریدہ قبائے جسم تمام
کبھی نہ دستِ ہُنر مند سے رفو ہوئے ہم

خود اپنے ہونے کا ہر اک نشاں مٹا ڈالا
شناسؔ پھر کہیں موضوعِ گفتگو ہوئے ہم

فہیم شناس کاظمی


 

اشرف صبوحی

یوم پیدائش 11 مئی 1905

بیمار محبت کو دعاؤں کے اثر سے
پھیرا تو ہے جاتے ہوۓ اللہ کے گھر سے

دنیا مجھے ایک حُسن کا پیکر نظر آئی
دیکھا تھا زمانے کو جوانی کی نظر سے

اک ہم ہیں کہ مرنے کا مزا لیتے ہیں پیہم
اک خضر بیچارے ہیں جو مرنے کو بھی ترسے

اشرف صبوحی


 

اعظم عباس شکیل

یوم پیدائش 10 مئی

نظم مگر وہ چپ ہے

دبی دبی سی گھٹی گھٹی سی
گلے میں اٹکی ہوئی تھی کب سے
تو ایک دن جب
وہ چیخ ابھری تو اس طرح کہ
زمیں پہ ابھری ہوئی لکیروں کی سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی
فضاؤں میں گونج اٹھی !!!

وہ سن رہا ہے
کہی ہوئی ان کہی
سبھی بات سن رہا ہے
مگر وہ چپ ہے !!

چمن میں پھولوں کی اوٹ لے کر
نہ جانے کب سے دھدھک رہی ہے 
 جو آگ شعلوں میں ڈھل رہی ہے
وہ کتنی جانیں نگل رہی ہے

وہ جانتا ہے
سمجھ رہا ہے
مگر وہ چپ ہے !!

تمام ظلم و ستم کے آلے
وہ سب مشینیں جو ڈھا رہی ہیں
اخوتوں کی محبتوں کی سبھی فصیلیں!!

سب اس کی نظروں کے سامنے ہے
سنائی بھی دے رہا ہے اس کو
مگر وہ چپ ہے !!

ہر ایک گدھ کو 
کھلی اجازت ملی ہوئی ہے
 کہ اپنے پنجوں سے
نرم و نازک نحیف و لاغر 
 بدن کو نوچیں
لہو لہو ہو رہی ہے دھرتی !

وہ دیکھتا ہے
وہ جانتا ہے
مگر وہ چپ ہے !!

یہاں تلک کہ
ہر ایک منصف نےا
پنی آنکھوں کو بند کر کے
توانگروں کے ستم گروں کے 
قلم سے لکھے ہی فیصلے سنائے !

اسے خبر ہے
اسے پتہ ہے
مگر وہ چپ ہے !!

تبھی خموشی کی بے زبانی نے
اپنی چپ توڑ ڈالی
ندائے حق سرحدوں سے اوپر 
فضاؤں میں گونج اٹھی !!

اگر وہ چپ ہے
تو کیوں نہ چپ ہو 
کہ جو ہوا ہے
جو ہو رہا ہے
وہ کیوں نہ ہو گا !!

وہ کیوں نہ چپ ہو 
کہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے
اسی کے ایما پہ ہو رہا ہے 
اگر وہ چپ ہے !!!

اعظم عباس شکیل


 

ذکی طارق

یوم پیدائش 10 مئی 1972

سد ا اگتا سورج مرا ترجماں تھا
بساطِ جہاں پر میں کتنا عیاں تھا

مرے گرد اک مجمع دوستاں تھا
مگر جستجو جس کی تھی وہ کہاں تھا

اسے تھے سفر کے سب آداب ازبر
وہ تنہا بذات خود اک کارواں تھا

کسی کی تلون مزاجی کے صدقے
نشیمن قفس تھا قفس آشیاں تھا

مجھے مل نہ پایا یقیں کا اجالا
میں ایسا گرفتارِ وہم و گماں تھا

تھی شب خواب پرور تو دن پُر تجسس
خوشا جب مرا جذبہء دل جواں تھا

” ذکی “ وہ بھی کیا حوصلہ بخش دن تھے
کہ جب مجھ پہ آسیبِ غم مہرباں تھا

ذکی طارق


 

مدثر حسن

یوم پیدائش 10 مئی 1995

اس طرح ترے ہجر کا غم توڑ گیا ہے
جیسے کسی بے کس کو ستم توڑ گیا ہے

تبدیل نہ ہو پائے گااب فیصلہ اس کا
منصف کی طرح وہ بھی قلم توڑ گیا ہے

شاید ہی کسی اور پہ اب ہوگا بھروسا
اک شخص محبت کا بھرم توڑ گیا ہے

اک دھن پہ تھا رقصاں مری سانسوں کا تسلسل
پر کوئی اچانک سے ردھم توڑ گیا ہے

وہ اور ہیں جو کر کے ستم توڑ رہے ہیں
تُو مجھ کو مگر کر کے کرم توڑ گیا ہے

میں دیکھ نہیں پاتا ہوں کچھ اس کے علاوہ
اک چہرہ مری نظروں میں دم توڑ گیا ہے

مدثر حسن


 

معین شفق

یوم پیدائش 10 مئی 1977

سخت مشکل جو ہے آسان بھی ہوسکتا ہے
آدمی چاہے تو انسان بھی ہوسکتا ہے

بے جھجک تم جسے کہہ دیتے ہو کافر لوگو!
تم سے اچھا وہ مسلمان بھی ہوسکتا ہے

دیکھ مظلوم کی آہوں میں اثر ہے کتنا
سرد جھونکا سا ہے طوفان بھی ہوسکتا ہے

اے شفقؔ سب کو پریشاں جو کیا کرتا ہے
ایک دن خود وہ پریشان بھی ہوسکتا ہے

معین شفق


 

ذاکر خان ذاکر

یوم پیدائش 10 مئی 1975

احساس کا قصہ ہے سنانا تو پڑے گا 
ہر زخم کو اب پھول بنانا تو پڑے گا 

ممکن ہے مرے شعر میں ہر راز ہو لیکن 
اک راز پس شعر چھپانا تو پڑے گا 

آنکھوں کے جزیروں پہ ہیں نیلم کی قطاریں 
خوابوں کا جنازہ ہے اٹھانا تو پڑے گا 

چہرے پہ کئی چہرے لیے پھرتی ہے دنیا 
اب آئنہ دنیا کو دکھانا تو پڑے گا 

ذہنوں پہ مسلط ہیں سیہ سوچ کے بادل 
ظلمت میں دیا دل کا جلانا تو پڑے گا 

وہ دشمن جاں جان سے پیارا بھی ہمیں ہے 
روٹھے وہ اگر اس کو منانا تو پڑے گا 

رشتوں کا یہی وصف ہے ذاکرؔ کی نظر میں 
کمزور سہی رشتہ نبھانا تو پڑے گا

ذاکر خان ذاکر


 

انظار البشر

یوم پیدائش 10 مئی 1959

مہر و فا خلوص نے دفنا دیا مجھے
اپنا بنا کے آپ نے ٹھکرا دیا مجھے

چاہا کہ چھو کے دیکھ لوں اک بار آپ کو
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بہلا دیا مجھے

اپنا پتا ملا نہ تمھاری خبر ملی
اتنے عروج پر کہاں ٹھہرا دیا مجھے

الجھا کے اپنے دوش پہ رکھ لیجیے حضور
سلجھی ہوئی یہ زلف نے الجھا دیا مجھے

خوش فہمیوں کے جال میں ہم پھنس کے رہ گئے
بانہوں کا ہار تم نے جو پہنا دیا مجھے

مجھ کو بشرؔ خرد نے چمکنے نہیں دیا
میرے جنونِ شوق نے چمکا دیا مجھے

انظار البشر


 

رباب حیدری

یوم پیدائش 10 مئی 1977

عصائے عشق سے یہ معجزہ نہ ہو جائے
کہ تیرے دل میں مرا راستہ نہ ہو جائے

ہے تازہ تازہ محبت سو اس کا لطف اٹھا
پڑی پڑی کہیں بد ذائقہ نہ ہو جائے

ترا گریز نہ ہو انتہائی درجے کا
جو زاویہ ہے ترا، دائرہ نہ ہو جائے

جو حالیہ ہے اسی سے ہو مستفید، کہیں
نئے کی دھن میں یہی سابقہ نہ ہو جائے

پہاڑ اگنے لگے ہیں جو خوش گمانی کے
ہمارے بیچ کوئی سلسلہ نہ ہو جائے

تو آئنے کے مقابل چمکتا ہے جیسے 
مجھے تو ڈر ہے کہ خود آئنہ نہ ہو جاے

ہیں جس طرح سے مسلسل سفر میں لوگ رباب 
کہیں رکیں تو کوئی حادثہ نہ ہو جائے

رباب حیدری


 

بی ایس جین جوہر

یوم پیدائش 10 مئی 1927

اک ہوک سی جب دل میں اٹھی جذبات ہمارے آ پہنچے 
الفاظ جو ذہن میں موزوں تھے ہونٹوں کے کنارے آ پہنچے 

حالات غم دل کہہ نہ سکے اور درد دروں بھی سہ نہ سکے 
آنسو جو حصار چشم میں تھے پلکوں کے سہارے آ پہنچے 
 
ہم جوش جوانی میں آ کر اک لا محدود سفر میں تھے 
معلوم ہوا منزل یہ نہ تھی جب گھاٹ کنارے آ پہنچے 

اک عمر گزاری تھی ہم نے مظلوموں کی ہی حمایت میں 
جب گوشہ نشینی کی ٹھانی پھر ظلم کے مارے آ پہنچے
 
بچپن میں بہت دکھ ہوتا تھا مظلوم کی آہ و زاری پر 
ہوتے ہی جواں بہلانے کو دنیا کے نظارے آ پہنچے
 
دنیا کے حوادث نے اتنا پامال کیا ہم کو جوہرؔ 
بچنے کی کوئی امید نہ تھی قسمت کے ستارے آ پہنچے

بی ایس جین جوہر


 

کھیم راج گپت ساغر

یوم پیدائش 09 مئی 1931

بڑھ بڑھ کے اور لوگ ہوئے ان سے ہم کلام
میرے لبوں پہ مہرِ خموشی لگی رہی

کھیم راج گپت ساغر


 

ثمر خانہ بدوشؔ

یوم پیدائش 09 مئی 1987

منزلیں دور ہیں اور آبلہ پائی اپنی 
کیسے ممکن ہو ترے شہر رسائی اپنی

میں ترا نام قبیلے میں جو لیتا ہوں کبھی
ہر کوئی جھاڑنے لگتا ہے خدائی اپنی 

ایک وہ تھا کہ وہ جرگے میں بھی خاموش نہ تھا
ایک ہم تھے کہ نہ دے پائے صفائی اپنی 

اب تو یہ حق بھی نہیں ہے اسے چاہا جائے 
اب تو یہ زیست بھی لگتی ہے پرائی اپنی

عشق کہتے ہیں جسے ہے در یزداں کا چراغ 
اور اسی عشق میں دنیا ہے سمائی اپنی 

مل گئی ہجر کی سوغات ہمیں بھی آخر
جانے اب کیسے کٹے گی مرے بھائی اپنی 

یہ محبت ہے محبت ہے محبت جو ثمر 
عمر بھر کی ہے یہی نیک کمائی اپنی 

 ثمر خانہ بدوشؔ


 

یحیی امجد

یوم پیدائش 09 مئی 1943

پھر لب پہ تیرا ذکر ہے پھر تیرا نام ہے 
پھر جاں لٹانے والوں کا اک ازدحام ہے 

سبط رسول ﷺ ہونا ہی عزت کی بات ہے 
پر اس سے بڑھ کے تیرے عمل کا مقام ہے

ہے حرب عشق فتح کی خواہش سے بے نیاز 
یہ بات الگ کہ ہار کے بھی فتح نام ہے 

کیا غم اگر یزید رہا اقتدار میں 
پرچم تو پھر حسین کا میر عوام ہے 

یحیی امجد 



خالد رحیم

یوم پیدائش 09 مئی 1944

وہ شخص کون تھا مڑ مڑ کے دیکھتا تھا مجھے 
اکیلا بیٹھ کے پہروں جو سوچتا تھا مجھے 

میں اس کے پاس سے گزرا تو یہ ہوا محسوس 
وہ دھوپ سر پہ لیے چھاؤں دے رہا تھا مجھے 

الٹ رہا تھا مری زندگی کے وہ اوراق 
کسی کتاب کی مانند پڑھ رہا تھا مجھے 

اسی میں دیکھ رہا تھا میں اپنا عکس خیال 
وہ ایک چہرہ کہ جو آئنہ لگا تھا مجھے 

اب اس کی یاد لیے پھر رہا ہوں شہر بہ شہر 
کبھی سکون کا لمحہ جو دے گیا تھا مجھے 

وہ شخص میرے توجہ کا بن گیا تھا مدار 
نہ جانے کون سا منظر دکھا رہا تھا مجھے 

میں اس کے جسم کا سایہ تھا سربسر خالدؔ 
جو روشنی کا سمندر سا لگ رہا تھا مجھے

خالد رحیم


 

سید مراتب اختر

یوم پیدائش 09 مئی 1939

ادق یہ بات سہی پھر بھی کر دکھائیں گے 
بلندیوں پہ پہنچ کر تجھے بلائیں گے

مجھے وہ وقت وہ لمحات یاد آئیں گے 
یہ ننھے لان میں جب تتلیاں اڑائیں گے

کیا ہے عہد اکیلے رہیں گے ہم دائم 
بھری رہے تری دنیا میں ہم نہ آئیں گے

سموں کا راستہ تکتی رہیں گی سانولیاں 
جو پنچھیوں کی طرح لوٹ کر نہ آئیں گے

مری قسم تجھے شہلا نہ رو نہ ہو بیتاب 
ترے زوال کے یہ دن بھی بیت جائیں گے

سید مراتب اختر


 

Tuesday, July 4, 2023

ساجدہ اکبر سجل

یوم پیدائش 08 مئی 1972

حسن کی تپتی دوپہروں سے روپ کی ڈھلتی شام تلک
ایک کہانی ورد زباں تھی رنجش سے آلام تلک

اس کے اشارہ ابرو سے ہلتے ہیں جگہ سے ہم ورنہ
باندھے ہاتھ کھڑے رہتے ہیں صبح سے لے کر شام تلک

دنیا ناٹک منڈی ہے اور ہاتھوں ہاتھ کا سودا ہے
بک جاتا ہے اس منڈی میں خاص سے لے کر عام تلک

سکھ آرام اور چین کا کوئی پل گزرا نہ دنیا میں 
سانسوں کو لیکن چلنا تھا دنیا کے بسرام تلک

کتنا رستہ کھو بیٹھے ہیں ہم ابہام سے منزل تک
اور سجل باقی ہے کتنا منزل سے ابہام تلک

ساجدہ اکبر سجل



شکیلہ بانو بھوپالی

یوم پیدائش 08 مئی 1942

جو شخص مدتوں مرے شیدائیوں میں تھا 
آفت کے وقت وہ بھی تماشائیوں میں تھا 

اس کا علاج کوئی مسیحا نہ کر سکا 
جو زخم میری روح کی گہرائیوں میں تھا 

وہ تھے بہت قریب تو تھی گرمئ حیات
شعلہ ہجوم شوق کا پروائیوں میں تھا 

کوئی بھی ساز ان کی تڑپ کو نہ پا سکا 
وہ سوز وہ گداز جو شہنائیوں میں تھا 

بزم تصورات میں یادوں کی روشنی 
عالم عجیب رات کی تنہائیوں میں تھا 

اس بزم میں چھڑی جو کبھی جاں دہی کی بات 
اس دم ہمارا ذکر بھی سودائیوں میں تھا 

کچھ وضع احتیاط سے بانوؔ تھے ہم بھی دور 
کچھ دوستوں کا ہاتھ بھی رسوائیوں میں تھا

شکیلہ بانو بھوپالی




 

رضی الدین رضی

یوم پیدائش 07 مئی 1964

دھڑک رہا ہے اگر تو ابھی دھڑکنے دے 
یہ میرا دل ہے تو اس کو یونہی دھڑکنے دے 

خموش کیوں ہے مرے ساتھ ہم کلام بھی ہو 
سنا رہا ہوں تجھے شاعری دھڑکنے دے 

عجیب دھڑکا لگا رہتا ہے ہمیں تجھ سے 
یہ کیا کہ روک دے دھڑکن کبھی دھڑکنے دے 

تو جانتی ہے خموشی بھی بات کرتی ہے 
سو اب سکوت میں بس خامشی دھڑکنے دے 

ہماری صبح تری صبح سے الگ ہو گی 
ہماری صبح میں کچھ رات بھی دھڑکنے دے 

دھڑک اٹھا تو یہ دل جان لیوا دھڑکے گا 
تو اس کو یونہی رضی واجبی دھڑکنے دے

رضی الدین رضی




 

مشتاق احمد نوری

یوم پیدائش 07 مئی 1950

روایتوں کا بہت احترام کرتے ہیں 
کہ ہم بزرگوں کو جھک کر سلام کرتے ہیں 

ہر ایک شخص یہ کہتا ہے اور کچھ کہئے 
ہم اپنی بات کا جب اختتام کرتے ہیں 

کبھی جلاتے نہیں ہم تو برہمی کا چراغ 
وہ دشمنی کی روش روز عام کرتے ہیں 

حریف اپنا اگر سر جھکا کے ملتا ہے 
تو ہم بھی تیغ کو زیب نیام کرتے ہیں 

مجھے خبر بھی نہیں ہے کہ ایک مدت سے 
وہ میرے خانۂ دل میں قیام کرتے ہیں 

حقیقتوں کو جنہیں سن کے وجد آ جائے
کچھ ایسے کام بھی ان کے غلام کرتے ہیں 

شراب کم ہو تو نوریؔ بہ نام تشنہ بھی 
لہو نچوڑ کے لبریز جام کرتے ہیں

مشتاق احمد نوری


 

زبیر قیصر

یوم پیدائش 07 مئی 1975

یہ خزاں تھی جو اب بہار ہوئی
زندگی تجھ سے خوشگوار ہوئی

دل کی دھڑکن ہے اخری دم پر
آنکھ بھی رزق انتظار ہوئی

سب سے پہلے بنے سوالی ہم
دیکھتے دیکھتے قطار ہوئی

اول اول سکوں کا باعث تھی
پھر تری یاد خلفشار ہوئی

تیری تصویر آنکھ میں رکھی
جب مری روح بیقرار ہوئی

 زبیر قیصر


 

محمد صہیب ثاقب

یوم وفات 06 مئی 2023

نہیں ہیں آپ طوافِ کوئے بتاں کے لیے! 
بنے ہیں مدحتِ سلطانِ دو جہاں کے لیے! 

وہ جس کی نعت کی حسرت ہے اے مرے ہمدم! 
بیان چاہیے اس صاحبِ بیاں کے لیے

نجومِ شوق سے وابستگی بھی اپنی جگہ
نشانِ رہ بھی ضروری ہے کارواں کے لیے

کسی کی راہنمائی کی احتیاج بھی ہے
کسی کا نقش بھی لازم ہے انس و جاں کے لیے 

قبول کیجے مرے جان و دل مرے آقا! 
یہ سنگِ در کے لیے ہے، وہ آستاں کے لیے

 محمد صہیب ثاقب


 

ذاکرہ شبنم

یوم پیدائش 06 مئی 1973
نظم :-تم سچ میں بہت اچھی ہو

تمہارا یہ پیار بھرا جملہ 
مجھے زندگی جینا آسان بناتا ہے 
میری کمہلائی ہوئی زندگی کو 
تر و تازگی سی بخشتا ہے 
تمہارے پیار بھرے الفاظ 
کانوں میں رس گھولنے لگتے ہیں 
آنکھوں میں اک چمک سی آ جاتی ہے 
ہونٹوں پہ مسکان چھا جاتی ہے 
تم جب بھی مجھ سے یہ کہتے ہو کہ 
تم سچ میں بہت اچھی ہو 
میری بے جان سی روح میں جان آ جاتی ہے 
میں اپنا دکھ درد بھول جاتی ہوں 
اپنی ہی ذات کے گنبد میں قید 
چہکنے لگتی ہوں مہکنے لگتی ہوں 
تم جب بھی مجھ سے یہ کہتے ہو کہ 
تم سچ میں بہت اچھی ہو 
تمہاری یاد میں کھوئی کھوئی سی 
تمہارے پیار کی خوشبو سے معطر 
میں لمحوں میں صدیاں جی لیتی ہوں 
ہاں لمحوں میں صدیاں جی لیتی ہوں 
اور پھر میں سوچنے لگتی ہوں 
مجھے ایسا لگتا ہے کہ 
گر میں بہت اچھی ہوں تو 
مجھے دیکھنے والی وہ آنکھیں 
دراصل بے حد دل کش ہیں 
وہ دل جس میں میں بستی ہوں 
بے انتہا خوب صورت ہے 
مجھے جینے کا حوصلہ دینے والی 
تمہاری پیار بھری سوچ 
سچ میں بہت اچھی ہے 
سچ تو یہ ہے کہ 
میں نہیں تم بہت اچھے ہو 
تم سچ میں بہت اچھے ہو 
ہاں تم بہت ہی اچھے ہو 

ذاکرہ شبنم



عنبرین صلاح الدین

یوم پیدائش 06 مئی 

کوئی احساس مکمل نہیں رہنے دیتا 
درد کا ساتھ مسلسل نہیں رہنے دیتا 

ہوش کی سرد نگاہوں سے تکے جاتا ہے 
کون ہے جو مجھے پاگل نہیں رہنے دیتا 

وقت طوفان بلا خیز کے گرداب میں ہے 
سر پہ میرے مرا آنچل نہیں رہنے دیتا 

ہاتھ پھیلاؤں تو چھو لیتا ہے جھونکے کی طرح 
ایک پل بھی مجھے بے کل نہیں رہنے دیتا 

خواب کے طاق پہ رکھی ہیں یہ آنکھیں کب سے 
وہ مری نیند مکمل نہیں رہنے دیتا 

میرے اس شہر میں اک آئنہ ایسا ہے کہ جو 
مجھ کو اس شخص سے اوجھل نہیں رہنے دیتا

عنبرین صلاح الدین

ہمیں ملنا درختوں سے پگھلتی برف دھانی کونپلوں میں جب بدل جائے
ہمیں ملنا، ہمارے دل میں ٹھہرا زمہریری وقت شاید تب بدل جائے 

ہمیں ملنا نئے امکان سے، یعنی نئے قصے، نئے عنوان سے ملنا
ہمیں ملنا کہ جب مطلب کے سب الفاظ اور الفاظ کا مطلب بدل جائے 

ہم اپنے حق میں تیرے سب کہے الفاظ گنتے ہیں، پھر ان کا وزن کرتے ہیں
بھلے تعداد سے معیار افضل ہے مگر معیار جانے کب بدل جائے 

تماشا گر، ہمارے آئنوں پر گرد ہے، تیرا تماشا بھی پرانا ہے
مگر شاید ہماری سیربینیں ٹھیک ہونے تک ترا کرتب بدل جائے 

ہماری زندگانی بس ہماری حیرتوں کا ایک بے پایاں تسلسل ہے
نہ جانے کس گھڑی پلکیں جھپک جائیں، کسے معلوم منظر کب بدل جائے 

کوئی بتلائے ناممکن کو ممکن میں یہاں ڈھلتے ہوئے کیا دیر لگتی ہے؟
تو پھر صحرا میں ساگر اور ساگر میں مہاساگر نہ جانے کب بدل جائے

عنبرین صلاح الدین



رحمان راہی

یوم پیدائش 06 اپریل 1925

بہت آئے مگر ہم جیسے کم ہی دیدہ ور آئے
ہماری طرح جو انکے لب و رخ تک گذرآئے

فریب جستجو ہے یہ کہ ہے تکمیل نظارہ
نگاہ شوق جس جانب اٹھی تم ہی نظر آئے

نظر آیا نہ شام بے کسی پرسان غم کوئی
اجالا پھیلتے ہی کس قدر سائے ابھر آئے

سمیٹے ہی رہے کانٹوں کے ڈر سے لوگ دامن کو
صبا کی طرح ہم تو وادئ گل سے گذر آئے

نہ جانے کس قدر راہوں کے پیچ و خم سے گذرے ہیں
کہیں پھر جاکے راہی ہم کو آداب سفر آئے

رحمان راہی 


 

محمد اشفاق چغتائی

یوم پیدائش 05 مئی 1958

اِترائی ہوئی خاک سے کہہ دے کوئی
افلاک کے تیراک سے کہہ دے کوئی
فرعون ہے عبرت کا نمونہ اشفاق
یہ طاقتِ سفاک سے کہہ دے کوئی

محمد اشفاق چغتائی 



مسعود تنہا

یوم پیدائش 05 مئی 1978

اس شہر نگاراں میں کوئی تجھ سا نہیں ہے 
میں کیسے بتاؤں تجھے تو کتنا حسیں ہے 

پھولوں کا گداز اک ترے پیکر کا حوالہ 
مہتاب سے بڑھ کر تری رخشندہ جبیں ہے 

خوشبو ترے سانسوں کی رچی ہے رگ و پے میں 
محسوس یہی ہوتا ہے تو میرے قریں ہے 

کم ملنے کا احساس گراں لگتا ہے تیرا 
اب لطف و کرم بھی ترا پہلے سا نہیں ہے 

وہ جھیل کی پہنائی میں اک قطرہ ہے لیکن 
رک جاتا ہے جب پلکوں پہ آ کر تو نگیں ہے 

ذکر غم دل اوروں سے اچھا نہیں لگتا 
یہ درد محبت تو مرے دل کا مکیں ہے 

ہنستا ہوا ملتا تھا سدا بزم میں تنہاؔ 
اب جانے وہ کیوں اتنا اداس اور حزیں ہے

مسعود تنہا


 

فائق اعوان

یوم پیدائش 05 مئی 1999

پروردگار! تجھ سے ہے اتنی سی التجا
گزرے دنوں کی یاد نہ اب کے برس میں ہو

فائق اعوان
 

علیم اسرار

یوم پیدائش 05 مئی 1976

سمٹے ہوئے ہیں فہم و ادراک دائرے میں
یعنی ہیں قید سارے چالاک دائرے میں

ارمان و آرزو ہیں پرکار زندگی پر
شدت سے گھومتا ہے ہر چاک دائرے میں

تمثیل لگ رہی ہے یارو مگر یہ سچ ہے
خوشیاں ہیں آدمی کی نمناک دائرے میں 

تجدید ہو رہی ہے گردش کے واسطے سے 
رہتے نہیں ہمیشہ خاشاک دائرے میں 

مالک مکاں کے بدلے کچھ دائروں کو باندھے 
دنیا کی جستجو نے املاک دائرے میں 

باہر نکلنا اس کے ممکن نہیں ہے لیکن 
کھنچو گے کچھ لکیریں بیباک دائرے میں 

رفتار بے بسی کی اسباب کی مسافت 
یہ کھیل ہے پرانا سفاک دائرے میں 

راز حیات کا ہے یہ مختصر سا قصہ 
اسرار تیرتے ہیں تیراک دائرے میں 

علیم اسرار


 

جوہر امیٹھوی

یوم پیدائش 04 مئی 1947

کوئی گستاخی نہ ہو اے خواہش دل دیکھ کر
شکوۂ غم حق مگر آداب محفل دیکھ کر

گھٹ کے رہ جاتا ہے اظہار محبت کا خیال
حُسن کے شہروں میں بازار سلاسل دیکھ کر

رشتۂ الفت ابھی اچھی طرح ٹوٹا نہیں
دل دھڑکتا ہے ابھی اُنکو مقابل دیکھ کر

بل نہ پڑجائیں جبین شمع محفل پر کہیں
دیکھ پروانے ذرا آداب محفل دیکھ کر

انکی کشتی ہوگئی موجوں کی شوخی کا شکار
ہو گئے جو بے عمل آثارِ ساحل دیکھ کر

کل یہ ممکن ہے کہ آنسو بھی نہ جوھر ہاتھ آئیں
آج رو لینے دو دنیا کو مرادل دیکھ کر 

جوہر امیٹھوی




 

آفاق صدیق

یوم پیدائش 04 مئی 1928

کیا زمیں کیا آسماں کچھ بھی نہیں 
ہم نہ ہوں تو یہ جہاں کچھ بھی نہیں 

دیدہ و دل کی رفاقت کے بغیر
فصل گل ہو یا خزاں کچھ بھی نہیں 

پتھروں میں ہم بھی پتھر ہو گئے 
اب غم سود و زیاں کچھ بھی نہیں 

کیا قیامت ہے کہ اپنے دیس میں 
اعتبار جسم و جاں کچھ بھی نہیں 

کیسے کیسے سر کشیدہ لوگ تھے 
جن کا اب نام و نشاں کچھ بھی نہیں 

ایک احساس محبت کے سوا 
حاصل عمر رواں کچھ بھی نہیں 

کوئی موضوع سخن ہی جب نہ ہو 
صرف انداز بیاں کچھ بھی نہیں

آفاق صدیق




 

صغیر اشرف

یوم پیدائش 03 مئی 1949

خواہشوں کی داستاں لکھتے رہے
ہم زمیں کو آسما ں لکھتے رہے

خواب جو کل تک تھے آنکھوں میں نہاں
ان کو گھر انگنائیاں لکھتے رہے

ٹوٹ کر بچپن میں چاہا تھا جسے
اس کو ہم جانِ جہاں لکھتے رہے

عمر بھر سوچا کئے جس کے تئیں
آپ اس کو خانداں لکھتے رہے
                  
لکھنا تھا تاریخ پہ اشرف ہمیں
برگِ گل کو گلستاں لکھتے رہے

 صغیر اشرف



سیدہ تسلیم علی

یوم پیدائش 03 مئی 1980

مومن کو وسوسوں سے بچاتا وہی تو ہے
رستہ سبھی کو سیدھا دکھاتا وہی تو ہے

قبضہ میں کائنات کے سارے نظام ہیں
"سوکھی زمیں پہ سبزہ اگاتا وہی تو ہے"

ہے کار ساز وہ ہی اسی کے ہیں کھیل سب
 ارض و سما پہ جلوہ دکھاتا وہی تو ہے
 
 یکتا ہے اس کی ذات نہیں کوئی بھی شریک
سب دہر کا نظام چلاتا وہی تو ہے

قادر بھی ہے مرید بھی مدرک بھی ہے وہی
 لیل و نہار جلوے دکھاتا وہی تو ہے 

سامع ہے سرمدی ہے لطیف و خبیر بھی
بندوں کے سارے عیب چھپاتا وہی تو ہے

 قادر ہے دوجہان پہ تسلیم جس کی ذات
 یہ رات دن گھٹاتا بڑھاتا وہی تو ہے 
 
سیدہ تسلیم علی


 

عمران میر

یوم پیدائش 03 مئی 

 آگ پانی میں لگنے والی ہے
کشتیاں ساحلوں پہ لے آو

عمران میر


 

نجم ثاقب

یوم پیدائش 03 مئی 1985

ہر سَمت نِگاہوں کو دِکھائی دیئے جاتے
کانوں کو فقط آپ سُنائی دیئے جاتے

جانا کوئی اتنا بھی ضروری تو نہیں تھا
گر تھا بھی تو تھوڑی سی رَسائی دیئے جاتے

اے کاش کہ اس بار خطا ہوتی ہماری
اور آپ صفائی پہ صفائی دیئے جاتے

کافی ہے یہی ہم کو میسر ہے خداوند
دُشوار تھا کتنا جو خُدائی دیئے جاتے

ہم ایسے مِرے مولا سبھی زِیست کے قیدی 
بے جُرم مُقید ہیں رِہائی دیئے جاتے

اُلفت میں ہَوس جن کی ہے، منزل تو بہت دور 
رَستے بھی نہیں ان کو سُجھائی دیئے جاتے

حاصل ہے جنہیں ثروتِ دنیا پہ اِجارہ
قابل تھے اگرچہ کہ گدائی دیئے جاتے 

نجم ثاقب


 

بال موہن پانڈے

یوم پیدائش 03 مئی 1998

آغاز سے انجام سفر دیکھ رہا ہوں 
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں

تیراک لگاتار یہاں ڈوب رہے ہیں 
چپ چاپ میں دریا کا ہنر دیکھ رہا ہوں 

اس خواب کی تعبیر کوئی مجھ کو بتا دے 
منزل سے بھی آگے کا سفر دیکھ رہا ہوں 

اس شخص کے ہونٹوں پہ مرا ذکر بہت ہے 
میں اپنی دعاؤں کا اثر دیکھ رہا ہوں 

جو تجھ کو بہت دور کبھی لے گئی مجھ سے 
میں کب سے وہی راہ گزر دیکھ رہا ہوں 

اک عمر سے قائم ہے یہ راتوں کی حکومت 
اک عمر سے میں خواب سحر دیکھ رہا ہوں

بال موہن پانڈے

 

Monday, July 3, 2023

آکاش عرش

یوم پیدائش 02 جون 2001

پھر ایک دوسری ہجرت نہیں زمین نہیں 
یہ میری مملکت درد مجھ سے چھین نہیں 

نواح یاد کی دل نے مسافرت چھوڑی 
کہ ایک شخص بھی اس کنج کا مکین نہیں 

غبار بستہ ستاروں سے بھر چکا آنکھیں 
وہ قافلہ، کہ کسی صبح کا امین نہیں 

میں تیرے ہدیۂ فرقت پہ کیسے نازاں ہوں 
مری جبیں پہ ترا زخم تک حسین نہیں 

آکاش عرش


تحسین مردآبادی

یوم پیدائش 02 مئی 1958

مغرور سر پہ پڑتی ہے جب مفلسی کی چوٹ
محسوس اس کو ہوتی ہے تب زندگی کی چوٹ

بزمِ جنوں میں شام و سحر دل لگی کی چوٹ
دل میرا سہہ سکے گا نہ اب بے رخی کی چوٹ

ہوش و خرد سنورتے ہیں زخموں کی چوٹ سے
ہوتی ہے لالہ زار غمِ عاشقی کی چوٹ

ڈوبا جو ایک بار تو ابھرا نہیں وجود
غرقاب سب کو کرتی ہے یہ خودکشی کی چوٹ

اللہ خیر! پڑتی ہے فیشن کے نام پر
ذہنوں پہ نسلِ نو کے نئی روشنی کی چوٹ

تحسین نے تو ہاتھ بڑھائے خلوص سے
آئی نہ راس پھر بھی مجھے دوستی کی چوٹ

تحسین مردآبادی



تاجور نجیب آبادی

یوم پیدائش 02 مئی 1894

اے آرزوئے شوق تجھے کچھ خبر ہے آج
حسن نظر نواز حریف نظر ہے آج

ہر راز داں ہے حیرتیٔ جلوہ ہائے راز
جو با خبر ہے آج وہی بے خبر ہے آج

کیا دیکھیے کہ دیکھ ہی سکتے نہیں اسے
اپنی نگاہ شوق حجاب نظر ہے آج

دل بھی نہیں ہے محرم اسرار عشق دوست
یہ راز داں بھی حلقۂ بیرون در ہے آج

کل تک تھی دل میں حسرت آزادیٔ قفس
آزاد آج ہیں تو غم بال و پر ہے آج

تاجور نجیب آبادی



خضر حیات خضرؔ

یوم پیدائش 01 مئی 1997

جب نہیں کوئی میسر تو عدو یاد آیا
جوبہا آنکھوں سے ہم کو وہ لہو یاد آیا

تجھ کو دیکھا تو کوئی ٹِیس عبادت کی اٹھی
تجھ کوچھونے کو بڑھے ہم تو وضو یاد آیا

درد جب حد سے بڑھا اس کی دوا یاد آئی
زخم جب ہنسنے لگے ہم کو رفو یاد آیا

پھر کوئی پھول کِھلا باغِ محبت میں کہیں
جب کسی نے یہ کہا مجھ سے تو ٗ تُو یاد آیا

اس نے جب تیر چلایا تو یہ دل کانپ گیا
اس نے خنجر جو اٹھایا تو گلو یاد آیا

جب کوئی زخم ہنسا اس کو خضرؔ یاد کیا
جب کوئی نام پکارا گیا تُو یاد آیا

خضر حیات خضرؔ


 

عقیل عباس

یوم پیدائش 01 مئی 1994

در کھلا اور وہ خیر الوصال آ گئی
کل کسی وقت بنتِ ملال آ گئی

عصر تک لشکری اونگھنے لگ گئے
پھر کہیں سے وہ بادِ شمال آ گئی

ہم نے قحطِ محبت میں دم سادھ کر
چپ کا روزہ رکھا اس کی کال آ گئی

زندگی نے مجھے اتنا گندا کِیا
موت کرنے مری دیکھ بھال آ گئی

عقیل عباس


 

شائستہ سحر شیخ

یوم پیدائش 30 اپریل 1965

یہ کیا کہ خلق خدا ہی ساری دہائی دے دے
 وبال جاں یہ وبا ہوئی ہے رہائی دے دے

خداے خلاق بستیوں میں سکوں نہیں ہے
 الم کشوں کو قرار سے آشنائی دے دے

 بہارکے دن مرے چمن کے خزاں ہوے ہیں
ڈرے ہوے ہیں گل وسمن خود نمائی دے دے

تری جلالت کے تیری قدرت کے ہم نہ منکر
تو مدعا ہے کمال مدح سرائی دے دے

 ہیں مضطرب تیرے اتنے سجدہ گزار بندے
 تو مسجدوں میں در حرم پہ رسائی دے دے

یہ مرگ انبوہ کیسا دہشت کا مرحلہ ہے
 اجڑ رہا ہے ترا جہاں خوش نمائی دے دے

 فراواں کر دے تو ماہ رمضاں میں نعمتوں کو
زمیں کو سبزہ طیور نغمہ سرائی دے دے

کدورتوں سے عداوتوں سے ہو سینہ خالی
جو سچ کہوں مجھ کو جرات لب کشائی دے دے

شائستہ سحر شیخ


 

عامر سلیم بیتاب

آج نیت مری کل تیری بدل جائے گی
حالت زار یونہی دوست سنبھل جائے گی 

 تا ابد سویا رہے گا نہ ضمیر عالم
چند ہی روز میں یہ برف پگھل جائے گی

میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ میرے شاعر
روح انصاف بھی دستور میں ڈھل جائے گی 

صبح نو آئیگی کرنوں کے خزانے لیکر
شب کے عفریت کو جو پل میں نگل جائے گی

کہہ رہی ہے مری فردوس تمنا اے دوست
اب تو عامر تری زنجیر پگھل جائے گی

عامر سلیم بیتاب

 

نسیم نکہت

یوم وفات 29 اپریل 2023

کہیں دن گزر گیا ہے کہیں رات کٹ گئی ہے 
یہ نہ پوچھ کیسے تجھ بن یہ حیات کٹ گئی ہے 

یہ اداس اداس موسم یہ خزاں خزاں فضائیں 
وہی زندگی تھی جتنی ترے ساتھ کٹ گئی ہے 

نہ تجھے خبر ہے میری نہ مجھے خبر ہے تیری 
تری داستاں سے جیسے مری ذات کٹ گئی ہے 

یہ ترا مزاج توبہ یہ ترا غرور توبہ 
تری بزم میں ہمیشہ مری بات کٹ گئی ہے 

ترے انتظار میں میں جلی خود چراغ بن کر 
تری آرزو میں اکثر یوں ہی رات کٹ گئی ہے 

نہ وہ ہم خیال میرا نہ وہ ہم مزاج میرا 
پھر اسی کے ساتھ کیسے یہ حیات کٹ گئی ہے 

یہ کتاب قسمتوں کی لکھی کس قلم نے نکہتؔ 
کہیں پر تو شہہ کٹی ہے کہیں مات کٹ گئی ہے

نسیم نکہت




 

حذیفہ خالد

یوم پیدائش 29 اپریل 1995

عجب ہے شوق میری زندگی کا
کھلا جب راز میری بے خودی کا

شب غم میں اُسے میں نے پکارا
یہی تو امتحاں ہے دوستی کا

ہوائے شام تو مجرم رہی ہے
دیا بھی ہمنوا ہے تیرگی کا

کوئی حکمت تھی میرے بند لب کی
مگر ہے شور میری خامشی کا

بپا ہے محفل یاران خالد
بہت احساس ہے تیری کمی کا

حذیفہ خالد


 

آذر عسکری

یوم پیدائش 28 اپریل 1911
نظم اس سے پہلے کہ گھر کے پردوں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ گھر کے پردوں سے 
ٹیڈی پتلون کوئی سلوا لوں 
اس سے پہلے کہ تجھ کو دے کر دل 
تیرے کوچے میں خود کو پٹوا لوں 
اس سے پہلے کہ تیری فرقت میں 
خودکشی کی سکیم اپنا لوں 
اس سے پہلے کہ اک تری خاطر 
نام غنڈوں میں اپنا لکھوا لوں 
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا 
اس سے پہلے کہ وہ عدو کم بخت 
تیرے گھر جا کے چغلیاں کھائے 
اس سے پہلے کہ دیں رپٹ جا کر 
تیرے میرے شریف ہمسائے 
اس سے پہلے کہ تیری فرمائش 
مجھ سے چوری کا جرم کروائے 
اس سے پہلے کہ اپنا تھانے دار 
مرغا تھانے میں مجھ کو بنوائے 
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا 
تجھ کو آگاہ کیوں نہ کر دوں میں 
اپنے اس انتظام سے پہلے 
مشورہ بھی تجھی سے کرنا ہے 
اپنی مرگ حرام سے پہلے 
کوئی ایسی ٹرین بتلا دے 
جائے جو تیز گام سے پہلے 
آج کے اس ڈنر کو بھگتا کر 
کل کسی وقت شام سے پہلے 
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا 
دل کی گردن مروڑ جاؤں گا

آذر عسکری


 

اطہر شکیل نگینوی

یوم پیدائش 28 اپریل 1968

چاہت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیا 
اب غم کو ہم نے تیری عنایت سمجھ لیا 

کھاتے رہے ہیں زیست میں کیا کیا مغالطے 
قامت کو اس حسیں کی قیامت سمجھ لیا 

کردار کیا رہا ہے کبھی یہ بھی سوچتے 
سجدے کیے تو ان کو عبادت سمجھ لیا 

ریشم سے نرم لہجے کے پیچھے مفاد تھا 
اس تاجری کو ہم نے شرافت سمجھ لیا 

اب ہے کوئی حسین نہ لشکر حسین کا 
سر کٹ گئے تو ہم نے شہادت سمجھ لیا 

اس طرح عمر چین سے کاٹی شکیلؔ نے 
دکھ اس سے جو ملا اسے راحت سمجھ لیا 

اطہر شکیل نگینوی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...