Urdu Deccan

Sunday, July 31, 2022

احمد رئیس

یوم پیدائش 31 جولائی 1942

سینے پر سو وار سہے جب دشمن کی تلوار اٹھی
ہمت اس دن ٹوٹی جس دن آنگن میں دیوار اٹھی

احمد رئیس


ماجد جہانگیر مرزا

یوم پیدائش 31 جولائی 1984

تیری آہٹ جب سنائی دے مجھے
تجھ سوا پھر کیا دکھائی دے مجھے

 ذائقہ چکھ لوں ذرا سا ہجر کا 
یار سے اک پل جدائی دے مجھے

میں لکھوں افلاک کے قصے تمام    
خاک کے اندر رسائی دے مجھے

پھنس گیا عشق و خرد کے درمیاں
کیسے رستہ پھر سجھائی دے مجھے

تو نظر سے گر گیا ہے دوستا
چل پرے ہٹ مت صفائی دے مجھے

میں گنہ کے لفظ سے نفرت کروں
پارسائی پارسائی دے مجھے

اس نہج پر اب ریاضت ہے مری 
بولے گونگا اور سنائی دے مجھے

کر رہی ہے اب تقاضہ شاعری 
فکرِ دنیا سے رہائی دے مجھے

وا کر اب ماجد پہ اپنی رحمتیں
حرفِ تازہ کی کمائی دے مجھے

 ماجد جہانگیر مرزا۔



حماد سرور

یوم پیدائش 31 جولائی 2001

آٹھ سمتوں میں چار کونوں میں 
دل لگایا نہیں کھلونوں میں 

یہ تو میں کچھ عیاں نہیں کرتا 
غم ہے میرے تمام کونوں میں 

میں تو ٹھہرا تمہاری راہ کی خاک 
چاند شامل ہے جب کھلونوں میں 

بادشہ ہوں میں اپنے جیسوں کا 
میرا قد ہے بلند بونوں میں

جن میں آرام ہم نے کرنا تھا 
گھس گئے سانپ اُن بچھونوں میں

پورا ہونے کی بات کیسے کریں 
ہم، جو آدھوں میں ہیں نہ پونوں میں

ایک جیسے ہیں عشق اور دنیا
کچھ بھی اچھا نہیں ہے دونوں میں

حماد سرور



صبیحہ سنبل

یوم پیدائش 31 جولائی 

حسین تاج کی صورت یہ بے صدا پتھر 
دکھا رہے ہیں محبت کا معجزہ پتھر 

ثبوت سنگ دلی اس سے بڑھ کے کیا ہوگا 
جو پھول پھینکا مری سمت بن گیا پتھر
 
تمھارے شہر کو میں کیوں نہ کامروپ کہوں 
کہ اک نگاہ نے مجھ کو بنا دیا پتھر 

سمجھ سکے نہ کبھی مصلحت زمانے کی 
بس اس قصور پہ کھائے ہیں بارہا پتھر 

کریں گے اب نہ گلہ تم سے بے وفائی کا 
لو آج ہم نے کلیجے پہ رکھ لیا پتھر 

سنا رہے ہیں کہانی وفا پرستوں کی 
سجے ہوئے ہیں جو مقتل میں جا بجا پتھر 

صبیحہ سنبل



حمیرا راحتؔ

یوم پیدائش 31 جولائی 1959

فسانہ اب کوئی انجام پانا چاہتا ہے 
تعلق ٹوٹنے کو اک بہانہ چاہتا ہے 

جہاں اک شخص بھی ملتا نہیں ہے چاہنے سے 
وہاں یہ دل ہتھیلی پر زمانہ چاہتا ہے 

مجھے سمجھا رہی ہے آنکھ کی تحریر اس کی 
وہ آدھے راستے سے لوٹ جانا چاہتا ہے 

یہ لازم ہے کہ آنکھیں دان کر دے عشق کو وہ 
جو اپنے خواب کی تعبیر پانا چاہتا ہے 

بہت اکتا گیا ہے بے سکونی سے وہ اپنی 
سمندر جھیل کے نزدیک آنا چاہتا ہے 

وہ مجھ کو آزماتا ہی رہا ہے زندگی بھر 
مگر یہ دل اب اس کو آزمانا چاہتا ہے 

اسے بھی زندگی کرنی پڑے گی میرؔ جیسی 
سخن سے گر کوئی رشتہ نبھانا چاہتا ہے

حمیرا راحتؔ



نجمہ تصدیق

یوم پیدائش 31 جولائی 1917

کرم تیرا کہ سوز جاودانی لے کے آئی ہوں 
مگر یہ کیا کہ میں اک عمر فانی لے کے آئی ہوں 

یہ کس کافر کی محفل ہے کہ جس میں نذر کرنے کو 
میں دل کی دھڑکنیں آنکھوں کا پانی لے کے آئی ہوں 

یہ دنیا یہ خلوص و عشق کے رنگ آفریں نغمے 
بیاباں میں گلستاں کی کہانی لے کے آئی ہوں 

بھڑک کر شعلہ بن جائے کہ بجھ کر راکھ ہو جائے 
ہوا کی زد پہ شمع زندگانی لے کے آئی ہوں 

اگر چاہوں یہ دنیا پھونک ڈالوں اپنے نغموں سے 
کہ میں سانسوں میں شعلوں کی روانی لے کے آئی ہوں 

مرا دل بھی ہے محسوسات کا آتش کدہ آخر 
عجب کیا ہے جو ذوق شعر خوانی لے کے آئی ہوں 

ضیا اندوز ہوں اک آسمانی نور سے نجمہؔ 
زمیں پر چاند تاروں کی جوانی لے کے آئی ہوں

نجمہ تصدیق



شاہد اقبال

یوم پیدائش 30 جولائی 1981

مسلسل چل نہیں سکتا کہیں منزل نظر آئے
یہ دورِ آزمائش ہے کوئی تو راہ بر آئے

نوازش کی توقع تھی کٹا کر اپنا سر آئے
ترے کوچے سے جانِ جاں لہو میں تر بہ تر آئے

محبت کے قواعد کا عجب انداز ہے صاحب
رخِ روشن پہ پردہ ہے، مگر چہرہ نظر آئے

شبِ فرقت یہی ہے آرزو اے خالقِ عالم
اذانِ فجر سے پہلے مرادِ قلب بر آئے

کوئی کہہ دے فقط اتنا مرے دم ساز سے جا کر 
مرے کاشانۂ دل میں کبھی باچشمِ تر آئے

دیارِ ہند میں کس کو بنائیں رہنما یا رب
کسی ساعت کہیں سے تو صدائے معتبر آئے

وہ درِ بے بہا لے کر دیارِ عشق میں شاہدؔ
حدیثِ عشق کہتی ہے بہ اندازِ دِگر آئے

شاہد اقبال



آفاق احمد

یوم پیدائش 30 جولائی 1932

بوجھ میرے ذہن کا اس روز ہلکا ہوگیا
رنگ جب محرومیوں کا اور گہرا ہوگیا

ایک لمحے کے لیے غصے میں دیکھا تھا اسے
سات پردوں میں چھپا وہ شخص ننگا ہوگیا

اس کی جانب پھیکنے کا جب ارادہ ہی کیا
 ہاتھ کا پتھر نہ جانے کیسے شیشہ ہوگیا

ہر طرف رنگینیاں تھیں خواب تھے ، ارمان تھے
دیکھتے ہی دیکھتے، یہ شہر صحرا ہوگیا

بہہ گئیں موجوں میں جس کی شوق کی محرومیاں
خشک آنکھوں سے رواں میری وہ دریا ہو گیا

مندمل سب ہو گئے آفاقی جتنے زخم تھے
گھاؤ لیکن روح کا کچھ اور گہرا ہوگیا

آفاق احمد

حامد امروہوی

یوم وفات 29 جولائی 2022

باغِ جنت سے حسیں کیوں نہ ہو کُوچا انؐ کا
جس کی گلیوں میں مہکتا ہے پسینا انؐ کا

انؐ کے الطاف وکرم کا تو ٹھکانا کیا ہے
بھیک دیتا ہے شہنشاہوں کو منگتا انؐ کا

وہ جو خود اپنے غلاموں کو قبائیں بخشیں
نہیں پیوند سے خالی کوئی کرتا انؐ کا

بے نواؤں کو نوا اؐن کے کرم نے بخشی
بے سہاروں کا سہارا ہے سہارا انؐ کا 

ختم ہوتی ہے جہاں سرحدِ فہم وادراک
اس سے آگے ہے کہیں نقش کف پا انؐ کا

میری دنیا میں تو ہر وقت سحر رہتی ہے
شام ہونے نہیں دیتا ہے اجالا انؐ کا

اس کی راہوں میں پلکوں کو بچاؤں حامد
کہیں مل جائے اگر دیکھنے والا انؐ کا

حامد امروہوی

 


مصطفیٰ علی ہمدانی

یوم پیدائش 29 جولائی 1909

محبت بحرِ طوفانی ہے جو ساحل نہیں رکھتا
محبت دشتِ بے پایاں ہے جو منزل نہیں رکھتا

مصطفیٰ علی ہمدانی



یوم پیدائش 28 جولائی 1943

تمہاری یاد ہمیں وصل سے بھی پیاری ہے
 دل  خزاں زدہ  میں  باد  نو بہاری ہے

 نہ اتفاق  سے لگ  جائے ہاتھ  غیروں  کے
 یہ میرے دل کی جو جاگیر اب تمہاری ہے 

تری  تو ساتھ  کسی کے گزر  رہی ہوگی
ترے  فراق کی یہ شب جو مجھ پہ بھاری ہے

ہے نظم زیست ہی ابتر ترے غموں کے سبب
 وہ غم جو شب کو میں کھاتا تھا اب نہاری ہے

 نہ رہ پہ لاسکے تقدیر کی سواری کو
 تو روبکاری بھی انساں کی نابکاری ہے

خودی پہ بار نہ ہو جس کی زور دستی  کا 
 بشر پہ رب کا وہ  انعام انکساری  ہے

 لگا رکھا ہے جسے سب نے اپنے تن من سے
  حیات  فانی  تکبر  ہے  شرمساری   ہے

  قسم  زمانے  کی حق پر اگر  رہے تلقین   
  خدائے پاک  کا  منشور  برد باری  ہے

 امین چغتائی 


 

منیر ارمان نسیمی

یوم پیدائش 28 جولائی 1969

جو نبیؐ کا غلام ہو جائے
وہ ہمارا امام ہو جائے

آتا جاتا رہوں مدینہ کو
عمر یو نہی تمام ہو جائے

بند مٹھی میں حکمِ آقاؐ سے
کنکروں سے کلام ہو جائے

مرے پیاسے لبوں کے نام آقاؐ
حوضِ کوثر کا جام ہو جائے

اس کی قسمت کا یارو کیا کہنا
جس کا طیبہ مقام ہو جائے

میرے دل میں ہے بس یہی ارمانؔ
نعت خواں میں بھی نام ہو جائے

منیر ارمان نسیمی



سیدہ شانِ معراج

یوم پیدائش 22 جولائی 1948

ہجر میں تیرے تصور کا سہارا ہے بہت 
رات اندھیری ہی سہی پھر بھی اجالا ہے بہت 

مانگ کر میری انا کو نہیں دریا بھی قبول 
اور بے مانگ میسر ہو تو قطرہ ہے بہت 

یہ تو سچ ہے کہ شب غم کو سنوارا تم نے 
چشم تر نے بھی مرا ساتھ نبھایا ہے بہت 

بات کرنا تو کجا اس سے تعارف بھی نہیں 
عمر بھر جس کو ہر اک حال میں سوچا ہے بہت 

جانے کیوں مجھ سے وہ کترا کے گزر جاتا ہے 
جس نے خود مجھ کو کبھی ٹوٹ کے چاہا ہے بہت 

ہم سے فن کار بھی اس دور میں کم ہی ہوں گے 
ہم نے دنیا سے ترے غم کو چھپایا ہے بہت 

وہ کہیں مجھ سے تغافل کا سبب پوچھ نہ لے 
شان آج اس نے مجھے غور سے دیکھا ہے بہت

سیدہ شانِ معراج



سحاب قزلباش

یوم وفات 27 جولائی 2004

بڑھے چلو کہ تھکن تو نشے کی محفل ہے 
ابھی تو دور بہت دور اپنی منزل ہے 

یہ بے قرار تبسم ترے لبوں کا فسوں 
یہی تو چاک گریباں کی پہلی منزل ہے 

کسی کا راز تو پھر بھی پرائی بات ہوئی 
خود اپنے دل کو سمجھنا بھی سخت مشکل ہے 

کسی نے چاند پہ لہرا دیا ہے پرچم وقت 
کوئی ہماری طرح سہل جس کو مشکل ہے 

اک آبشار پہ مانند برگ آوارہ 
کوئی مقام ہے اپنا نہ کوئی منزل ہے

سحاب قزلباش


 

عارش کاشمیری

یوم پیدائش 27 جولائی 1974

ہر نقش مٹا جانا جانے سے ذرا پہلے
اس گھر میں ذرا جانا جانے سے ذرا پہلے

جینے کا ہنر مجھ کو یہ دنیا سکھا دے گی
مرنے کا بتا جانا جانے سے ذرا پہلے

خط پیار بھرے اپنے اور اپنی یہ تصویریں
لو آپ جلا جانا جانے سے ذرا پہلے

وہ بات بھلا کیا تھی پہنچی جو بچھڑنے تک
وہ بات بتا جانا جانے سے ذرا پہلے

رنج اس کے بھی دل میں تھا عارش سے بچھڑے کا
اشکوں کا وہ آ جانا جانے سے ذرا پہلے

عارش کاشمیری
 

عنایت وصی

یوم پیدائش 27 جولائی 1989

ہوئی بے اثر ہر دعا تم نہ آئے
"چراغِ نظر بجھ گیا تم نہ آئے"

تمہارے لیے دل میں سپنے سجاکر
ہوں رستے میں کب سے کھڑا تم نہ آئے

کہا تھا یہ تم نے میں آؤں گا اک دن
سو میں منتظر ہی رہا تم نہ آئے 

سبھی آئے اپنے پرائے مرے گھر
تمہارا ہی تھا آسرا تم نہ آئے

وصی میری چاہت کا میری وفا کا
تھا برسوں سے تم کو پتا تم نہ آئے

  عنایت وصی



راکیش دلبر سلطانپوری

یوم پیدائش 27 جولائی 1972

دِل خطا کا تِری کیا چارہ کریں 
مذہبِ عشق میں کفارہ کریں

کوزہ گر جو مجھے دوبارہ کریں 
اُس کی مٹّی سے مِرا گارا کریں 
  
سنگ دیوانے کی قسمت ہے مگر 
پھول کو پھول سے ہی مارا کریں 

ہم نے آنکھوں سے نمک جھاڑ دِیا 
آپ بھی جھیل کو مت کھارا کریں 

استعارے تو بہت ہیں لیکن 
نام اب اُس کا غزل پارہ کریں

اِتنا کیوں آگ بگولا ہوئے تم 
ہم بھی کیا اپنے کو انگارا کریں 

زِندگانی ہے جُواری کی طرح 
جیتنے کے لیے کُچھ ہارا کریں 

ایسا کوئی نہیں مِلتا "دلبر"
جس کے حصّے میں سُخن سارا کریں 

راکیش دلبر سلطانپوری


 

فضا جالندھری

یوم پیدائش 27 جولائی 1905

تجھے کس طرح چھڑاؤں خلش غم نہاں سے 
دل بے قرار لاؤں انہیں ڈھونڈ کر کہاں سے 

وہ بہار کاش آئے وہ چلے ہوائے دل کش 
کہ قفس پہ پھول برسیں مری شاخ آشیاں سے 

کبھی قافلے سے آگے کبھی قافلے سے پیچھے 
نہ میں کارواں میں شامل نہ جدا ہوں کارواں سے 

مرے بعد کی بہاریں مری یادگار ہوں گی 
کہ کھلیں گے پھول اکثر مری خاک رائیگاں سے 

ابھی مسکرا رہی تھیں مری آرزو کی کلیاں 
مجھے لے چلا مقدر سوئے دام آشیاں سے 

جو جبیں میں تھا امانت مرا شوق جبہ سائی 
وہ لپٹ کے رہ گیا ہے ترے سنگ آستاں سے 

ملی لمحہ بھر بھی فرصت نہ فضاؔئے غمزدہ کو 
وہ برس رہے ہیں فتنے شب و روز آسماں سے

فضا جالندھری



امین جس پوری

یوم پیدائش 27 جولائی 1953

بالیدگئِ جاں کو بھی موجِ صبا نہ مانگ
بیمار سارے شہر ہیں، تازہ ہوا نہ مانگ

ہر شخص ڈھل چکا ہے اب اعداد میں یہاں
اجداد کا اب ہم سے زمانے پتہ نہ مانگ

رفتار سے اب بھیڑ کی رستوں پہ بہنا سیکھ
اب سست ہم سفر سے کہیں راستا نہ مانگ

بیگانہ ہو چکی ہیں جو زیور سے شرم کے
ان شوخ تتلیوں کے پروں سے حیا نہ مانگ

ہر گز نہیں بدلتے مشیّت کے فیصلے
اللہ کی رضا کے سوا بھی دعا نہ مانگ

اس عکسِ آئینہ سے نہ کوئی امید رکھ
یہ ہے سرائے فانی یہاں آسرا نہ مانگ

اِس طنزیہ نمک کو دوائی سمجھ امینؔ
زخموں کے واسطے کوئی برگِ حنا نہ مانگ

امین جس پوری


کاشف مجید

یوم پیدائش 25 جولائی 1974 

بے دلی زیر و زبر کرتا ہوا 
اک نظارا دل میں گھر کرتا ہوا 

جا رہا ہوں اک محبّت کی طرف 
اپنے سائے سے حزر کرتا ہوا 

میں خدا سے اور خدائی سے پرے 
اپنی تنہائی بسر کرتا ہوا 

آن پہنچا ہوں حقیقت کے قریب 
داستانوں کا سفر کرتا ہوا 

دل میں آنا ہے ترے اور آؤں گا 
ایک دنیا کو خبر کرتا ہوا 

کاشف مجید


 

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی

یوم پیدائش 25 جولائی 

یہی صدا مجھے اکثر سنائی دیتی ہے 
سکون کس کو بتوں کی خدائی دیتی ہے 

وہ آدمی جو ہمیشہ مرے خلاف رہا 
اسی کی مجھ پہ حکومت دکھائی دیتی ہے 

محبتیں ہی سکھاتی ہیں ہر سبق لیکن 
بہت سے درس ہمیں بے وفائی دیتی ہے 

یہ انگلیاں ہی قلم بن کے چلنے لگتی ہیں 
یہ چشم نم ہی مجھے روشنائی دیتی ہے 

کسی کے عشق نے یوں دل کو کر دیا روشن 
کہ روشنی سی ہر اک سو دکھائی دیتی ہے 

سلوک ایک سا کرتی نہیں ہے الفت بھی 
ملن کسی کو کسی کو جدائی دیتی ہے 

نہیں ہے دور مری روح کے قریب ہے وہ 
جھلک اسی کی تو مجھ میں دکھائی دیتی ہے 

نہ ایسی دنیا سے امید اے ولاؔ رکھنا 
جو نیکیوں کے صلے میں برائی دیتی ہے

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی



نسیم فائق

یوم پیدائش 25 جولائی 1970

ایسے بہکاوے میں آنے کو میں تیار نہیں
راہ کے بیچ ہوا کی کوئی دیوار نہیں

مجھ کو خائف نہیں کرتی ہے ہوا کی یورش
میں کسی حاکم مغرور کی دستار نہیں

رسم قائم ہوئی دنیا کی برائی کرنا
کون ہے وہ جسے دنیا سے سروکار نہیں

خوب پہچانتی ہے ملک کی مٹی مجھ کو
یہ بتائے گی وفادار ہوں غدار نہیں

اٹھ گیا ٹی وی کی خبروں سے بھروسہ میرا
سب رٹائے ہوئے جملے ہیں سماچار نہیں

اپنے ملبوس قلندر پہ ہوں نازاں فائق
حاکم وقت کا میں حاشیہ بردار نہیں

نسیم فائق



سید مسرور عابدی شرفی قادری

یوم وفات 24 جولائی 2022

دل پر تقاضے درد کے ہر دم ہیں اور بھی
اک تیرے غم سے ہٹ کے کئی غم ہیں اور بھی

ہم کو خبر نہیں کہ کہاں کھوگئی نظر
حسنِ تجلیات کے عالم ہیں اور بھی

اظہارِ آرزو سے پشیماں ہے زندگی
وہ حسن اتفاق سے برہم ہیں اور بھی

کیا کیا امید ہم کو بہاروں سے تھی مگر
دامن گلوں کے پہلے سے کچھ نم ہیں اور بھی

چارہ گری کا آپ کی شاید اثر یہ ہے
اب دل کے زخم ، قابلِ مرہم ہیں اور بھی

تنہا پسندیوں نے جو تنہا کیا ہمیں
نزدیک رہ کے دور مگر ہم ہیں اور بھی

مدہم چراغِ گل جو ہیں مسرور آج کل
گلشن میں دن بہار کے کچھ کم ہیں اور بھی

سید مسرور عابدی شرفی قادری

 


کمال جعفری

یوم پیدائش 25 جولائی 1949

ابھی دکھی ہوں بہت اور بہت اداس ہوں میں 
ہنسوں تو کیسے کہ تصویر درد و یاس ہوں میں 

قریب رہ کے بھی تو مجھ سے دور دور رہا 
یہ اور بات کہ برسوں سے تیرے پاس ہوں میں 

بھٹک رہا ہوں ابھی خار دار صحرا میں 
مگر مزاج گلستاں سے روشناس ہوں میں 

جو تیرگی میں دیا بن کے روشنی بخشے 
اس اعتماد کی ہلکی سی ایک آس ہوں میں 

خود اپنے ہاتھ سے سیتا ہوں اور پہنتا ہوں 
اس عہد نو کا وہ بکھرا ہوا لباس ہوں میں 

کمالؔ مجھ کو نئی نسل یاد رکھے گی 
کتاب زیست کا اک ایسا اقتباس ہوں میں

کمال جعفری


 

غزالہ تبسم

یوم پیدائش 24 جولائی 

کھو گئے جانے کہاں پیار لٹانے والے
یاد آتے ہیں بہت لوگ پرانے والے

اتنی مہنگائی میں بچتا ہی نہیں کچھ صاحب
نوکری ایک ہے اور چار ہیں کھانے والے

کچھ بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوتا ہے یہاں
تھے قطاروں میں کھڑے صبح سے پانے والے

اک تسلی کے سوا اور نہ دے پائے تھے کچھ
آج بھی چبھتے ہیں آنسو مجھے شانے والے

کھوکھلے رسموں رواجوں نے جتایا اکثر
ہاتھیوں کے ہی نہیں دانت دکھانے والے

کیسا انصاف کیا کرتا ہے اوپر والا
بھیگتے رہتے ہیں خود چھاؤنی چھانے والے

غزالہ تبسم



ذہین شاہ تاجی

یوم وفات 23 جولائی 1978

جو حق سے دور ہے وہ حق سمجھ نہیں سکتا 
سوائے ذق ذق‌ و بق بق سمجھ نہیں سکتا 

جو اپنی ہستی محدود کا ہے زندانی 
وہ رند ہستی مطلق سمجھ نہیں سکتا 

ورائے فہم بھی مفہوم کا تقید ہے 
بہ قید فہم جو مطلق سمجھ نہیں سکتا 

سمجھ سکا نہ جو حق کی کھلی ہوئی آیات 
حدیث مبہم و مغلق سمجھ نہیں سکتا 

جمال حق کو بجز حق کوئی نہ دیکھے گا 
کلام حق کو بجز حق سمجھ نہیں سکتا 

صفت کی ذات سے نسبت جسے نہیں معلوم 
وہ ربط دجلہ و ذورق سمجھ نہیں سکتا 

ظہور میں نظر آیا نہ جس کو الظاہر 
وہ فرق مصدر و مشتق سمجھ نہیں سکتا 

ذہینؔ فہم نہ ہو فہم حق میں جب تک گم 
حقیقت حق و نا حق سمجھ نہیں سکتا

ذہین شاہ تاجی



صائمہ اسما

یوم پیدائش 22 جولائی 1968

سر خیال میں جب بھول بھی گئی کہ میں ہوں 
اچانک ایک عجب بات یہ سنی کہ میں ہوں 

تلاش کر کے مجھے لوٹنے کو تھا کوئی 
مرے وجود کی خوشبو پکار اٹھی کہ میں ہوں 

کہ تیرگی میں پلی آنکھ کو یقیں آ جائے 
ذرا بلند ہو آہنگ روشنی کہ میں ہوں 

وہ خالی جان کے گھر لوٹنے کو آیا تھا 
مرے عدو کو خبر آج ہو گئی کہ میں ہوں 

نہ جانے کیسی نگاہوں سے موت نے دیکھا 
ہوئی ہے نیند سے بیدار زندگی کہ میں ہوں 

لپیٹ دو صف ماتم اٹھا رکھو نوحے 
پکارتا سر محشر سنا کوئی کہ میں ہوں

صائمہ اسما


 

رزاق اثر شاہ آبادی

یوم پیدائش 22 جولائی 1937

کانٹوں کی ہر خلش سے نئی لذتیں ملیں
اہل جنوں کو اس لئے چھالوں پہ ناز تھا

رزاق اثر شاہ آبادی


فضیل جعفری

یوم پیدائش 22 جولائی 1936

نومید کرے دل کو نہ منزل کا پتا دے 
اے رہ گزر عشق ترے کیا ہیں ارادے 

ہر رات گزرتا ہے کوئی دل کی گلی سے 
اوڑھے ہوئے یادوں کے پر اسرار لبادے 

بن جاتا ہوں سر تا بہ قدم دست تمنا 
ڈھل جاتے ہیں اشکوں میں مگر شوق ارادے 

اس چشم فسوں گر میں نظر آتی ہے اکثر 
اک آتش خاموش کہ جو دل کو جلا دے 

آزردۂ الفت کو غم زندگی جیسے 
تپتے ہوئے جنگل میں کوئی آگ لگا دے 

یادوں کے مہ و مہر تمناؤں کے بادل 
کیا کچھ نہ وہ سوغات سر دشت وفا دے 

یاد آتی ہے اس حسن کی یوں جعفریؔ جیسے 
تنہائی کے غاروں سے کوئی خود کو صدا دے

فضیل جعفری



راجیش ریڈی

یوم پیدائش 22 جولائی 1952

اِس شوخ پہ آ کر کبھی اُس شوخ پہ آکر
رکھ دیتا ہے دل روز مرا کام بڑھا کر

خط دے کے چلے آنا ہی کافی نہیں قاصد!
کچھ حال مرا اُن سے زبانی بھی کہا کر

اتنا نہ اچھل وعدہ پہ اُن کے دل ناداں 
سو بار کہا تجھ سے کہ آپے میں رہا کر

کرتے ہیں بہت رشک مرے رتجگے اُن پر
سوجاتے ہیں جو لوگ چراغوں کو بجھا کر

زنداں میں بھی ماحول بنائے رکھا ہم نے
زنجیر کی آواز میں آواز ملا کر

مشکل کوئی کرتا نہیں آسان کہ اب تو
دیوار بھی رکھ لیتی ہے سائے کو چھپا کر

ہے کون مصوّر جو دکھاتا ہے کرشمے
تصویر بنا کر کبھی تصویر مٹاکر

جس گھر کے لئے خاک اڑاتے رہے دن رات
دو دن نہ رہا وہ درودیوار میں آکر

رہنے بھی دے اشعار کے پیچھے کی کہانی
کیا ملنا ہے اب درد کی تفصیل میں جا کر

راجیش ریڈی



کیفی حیدرآبادی

یوم پیدائش 22 جولائی 1880

وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے
حسن بار چشم ہے نغمہ وبال گوش ہے

میں کہوں تو کیا کہوں اب وہ کہے تو کیا کہے
دے کے دل خاموش ہوں وہ لے کے دل خاموش ہے

اے وفور شادمانی یہ سمجھ لینے تو دے
کیا ہمیں ہیں جس سے وہ ہم بزم ہم آغوش ہے

اس طرف دل پر جگر پر اس طرف رہتا ہے ہاتھ
اپنی ہر کروٹ میں اک معشوق ہم آغوش ہے

تار اس کا ٹوٹنے پائے نہ کیفیؔ حشر تک
دامن اشک ندامت جرم عصیاں پوش ہے

کیفی حیدرآبادی



عاجز سونگڑوی

یوم وفات 21 جولائی 2017
 
بیتے لمحوں کے خیالات حضر میں رکھنا
اک نئی سوچ کی خوشبو کو سفر میں رکھنا

تیز لہجے میں نہ مانگو نہ ہی فریاد کرو
چپکے چپکے ہی دعاؤں کو اثر میں رکھنا

لوگ وہ کیسے تھے جن کا تھا کشادہ سینہ
روز مہمانوں کو لاکر انھیں گھر میں رکھنا

ڈھونڈتے رہنا فلک چھونے کی راہیں عاجزؔ 
تم یقیں اپنا مگر خاک بسر میں رکھنا

عاجز سونگڑوی



آشا پربھات

یوم پیدائش 02 جولائی 1948

ہر لمحہ چاند چاند نکھرنا پڑا مجھے 
ملنا تھا اس لئے بھی سنورنا پڑا مجھے 

آمد پہ اس کی پھول کی صورت تمام رات 
ایک اس کی رہ گزر پہ بکھرنا پڑا مجھے 

کیسی یہ زندگی نے لگائی عجیب شرط 
جینے کی آرزو لئے مرنا پڑا مجھے 

ویسے تو میری راہوں میں پڑتے تھے میکدے 
واعظ تری نگاہ سے ڈرنا پڑا مجھے 

آئینہ ٹوٹ ٹوٹ کے مجھ میں سما گیا 
اور ریزہ ریزہ ہو کے بکھرنا پڑا مجھے

آشا پربھات


 

عدنان محسن

یوم پیدائش 21 جولائی 1985

اسم بن کر ترے ہونٹوں سے پھسلتا ہوا میں 
برف زاروں میں اتر آیا ہوں جلتا ہوا میں 

اس نے پیمانے کو آنکھوں کے برابر رکھا 
اس کو اچھا نہیں لگتا تھا سنبھلتا ہوا میں 

رات کے پچھلے پہر چاند سے کچھ کم تو نہ تھا 
دن کی صورت تری بانہوں سے نکلتا ہوا میں 

تیرے پہلو میں ذرا دیر کو سستا لوں گا 
تجھ تک آ پہنچا اگر نیند میں چلتا ہوا میں 

میری رگ رگ میں لہو بن کے مچلتی ہوئی تو 
تیری سانسوں کی حرارت سے پگھلتا ہوا میں 

وہ کبھی دھوپ نظر آئے کبھی دھند لگے 
دیکھتا ہوں اسے ہر رنگ بدلتا ہوا میں

عدنان محسن



Saturday, July 30, 2022

عبدالرحمان مومن

یوم پیدائش 21 جولائی 1996

زمانے کو زمانے کی پڑی ہے 
ہمیں وعدہ نبھانے کی پڑی ہے 

یہ دنیا چاند پر پہنچی ہوئی ہے 
تجھے لاہور جانے کی پڑی ہے 

ذرا دیکھو ادھر میں جل رہا ہوں 
تمہیں آنسو چھپانے کی پڑی ہے 

فسانہ ہی حقیقت بن گیا ہے 
حقیقت کو فسانے کی پڑی ہے 

ابھی جو شعر لکھا بھی نہیں ہے 
ابھی سے وہ سنانے کی پڑی ہے 

ترے مہمان واپس جا رہے ہیں 
تجھے مہمان خانے کی پڑی ہے 

وہ تیرے دل میں آ بیٹھا ہے مومنؔ 
تجھے دیوار ڈھانے کی پڑی ہے

عبدالرحمان مومن



شمس جالنوی

یوم وفات 21 جولائی 2020

زرد زرد چہرے ہیں زخم دل کے گہرے ہیں
وقت ہے تماشائی وقت ہے تماشائی

وہ تسلی دیتے ہیں زخم پر نمک رکھ کر
خوب ہے مسیحائی خوب ہے مسیحائی

وقت کے مسیحائوں ناپ کر بتا دینا
تم غموں کی گہرائی تم غموں کی گہرائی

تم نے کیوں ورق اُلٹے داستان ماضی کے
درد نے لی انگڑائی در د نے لی انگڑائی


شمس جالنوی

 

آنند بخشی

یوم پیدائش 21 جولائی 1930
گیت

آیا ہے مجھے پھر یاد وہ ظالم گزرا زمانہ بچپن کا 
ہائے رے اکیلے چھوڑ کے جانا اور نہ آنا بچپن کا 

وہ کھیل وہ ساتھی وہ جھولے وہ دوڑ کے کہنا آ چھو لے 
ہم آج تلک بھی نہ بھولے وہ خواب سہانا بچپن کا 

اس کی سب کو پہچان نہیں یہ دو دن کا مہمان نہیں 
مشکل ہے بہت آسان نہیں یہ پیار بھلانا بچپن کا
 
مل کر روئیں فریاد کریں ان بیتے دنوں کو یاد کریں 
اے کاش کہیں مل جائے کوئی جو میت پرانا بچپن

آنند بخشی

https://youtu.be/BiCkqhmxtbQ


فیض محمد شیخ

یوم پیدائش 20 جولائی 1998

تو کیا کریں گے محبت میں وہ ملا نہیں جب
ہمارے ہونے نہ ہونے کا فائدہ نہیں جب

وہ کائنات کی پرتوں کو کھولنے بیٹھا
کہ اُس کے ہاتھ سے بندِ قبا کُھلا نہیں جب

کہیں یہ سارا جہاں سنگ ہی نہ ہو جائے
طلسم آپ کی آنکھوں کا ٹوٹتا نہیں جب

ہمارے حصے میں لازم ہے کچھ تو آ جائے
وصال و ہجر سے یہ عشق ماورا نہیں جب

 یہ کیسے موڑ پہ آئے ہو لوٹ کر واپس
اُجاڑ پن کے سوا اور کچھ بچا نہیں جب

تمھاری آنکھوں سے لپٹا ہے میرے دل کا سِرا
 بکھرنے لگتے ہیں اُس دم تُو دیکھتا نہیں جب

زمین زادے کریں کیا تری بہشتوں کا
ترے زماں میں زمیں کی ہی کوئی جا نہیں جب

تو کیا خیال ہے کوئی بشر تمھارا ہے؟
غریب شخص تمھارا تو خود خُدا نہیں جب

فیض محمد شیخ



ہوش جونپوری

یوم پیدائش 20 جولائی 1940

ٹوٹ کر روح میں شیشوں کی طرح چبھتے ہیں
پھر بھی ہر آدمی خوابوں کا تمنائی ہے

ہوش جونپوری

 


ممتاز میرزا

یوم پیدائش 20 جولائی 1929

بے طرح آپ کی یادوں نے ستایا ہے مجھے 
چاندنی راتوں نے آ آ کے رلایا ہے مجھے 

آپ سے کوئی شکایت نہ زمانے سے گلہ 
میرے حالات نے مجبور بنایا ہے مجھے 

آج پھر اوج پہ ہے اپنا مقدر شاید 
آج پھر آپ نے نظروں سے گرایا ہے مجھے 

اپنے بیگانے ہوئے اور زمانہ دشمن 
بے دماغی نے مری دن یہ دکھایا ہے مجھے 

کون سے دشت میں لے آیا مجھے میرا جنوں 
مڑ کے دیکھا ہے تو کچھ خوف سا آیا ہے مجھے 

پھر ہوئے آج بہم جام گل و نغمۂ شب 
پھر مرے ماضی نے ممتازؔ بلایا ہے مجھے 

ممتاز میرزا



امام اعظم

یوم پیدائش 20 جولائی 1960

جو مزے آج ترے غم کے عذابوں میں ملے 
ایسی لذت کہاں ساقی کی شرابوں میں ملے 

ساری دنیا سے نہیں ان کو ہے پردہ لیکن 
وہ ملے جب بھی ملے مجھ کو نقابوں میں ملے 

تیری خوشبو سے معطر ہے زمانہ سارا 
کیسے ممکن ہے وہ خوشبو بھی گلابوں میں ملے 

زندگانی میں نصیحت نہیں کام آتی ہے 
درس اخلاق فقط مجھ کو کتابوں میں ملے 

میں نے پھولوں سے بھی نازک سے سوالات کیے 
مجھ کو پتھر سے ہی الفاظ جوابوں میں ملے 

پیار کے باب میں اب نام کہاں ہے تیرا 
کوئی تحریر وفا کیسے نصابوں میں ملے 

کیا پتہ کل جو بڑی شان میں گم تھا اعظمؔ 
اب وہی شخص تجھے خانہ خرابوں میں ملے

امام اعظم



خاموش غازی پوری

یوم پیدائش 20 جولائی 1932

عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں 
ہر شب غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں 

چشم ساقی سے پیو یا لب ساغر سے پیو 
بے خودی آٹھوں پہر ہو یہ ضروری تو نہیں 

نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ سکتی ہے 
ان کی آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں 

شیخ کرتا تو ہے مسجد میں خدا کو سجدے 
اس کے سجدوں میں اثر ہو یہ ضروری تو نہیں 

سب کی نظروں میں ہو ساقی یہ ضروری ہے مگر 
سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں 

مے کشی کے لیے خاموش بھری محفل میں 
صرف خیام کا گھر ہو یہ ضروری تو نہیں

خاموش غازی پوری



اعزاز افضل

یوم پیدائش 20 جولائی 1936

یہ شہر یہ خوابوں کا سمندر نہ بچے گا 
جب آگ لگے گی تو کوئی گھر نہ بچے گا 

یا نقش ابھارو کوئی یا عکس کو پوجو 
شیشے کو بچاؤ گے تو پتھر نہ بچے گا 

احساس رقابت سے جبینوں کو بچاؤ 
ٹکرائیں گے سجدے تو کوئی در نہ بچے گا 

اے نیند چھپے رہنے دے دو چار نظارے 
جب آنکھ کھلے گی کوئی منظر نہ بچے گا 

مقتل کی سیاست نہ ہماری نہ تمہاری 
تفریق کرو گے تو کوئی سر نہ بچے گا 

اعزاز افضل



ساغر صدیقی

یوم وفات 19 جولائی 1974

 کوئی تتلی ہے نہ جگنو آہ شامِ بیکسی
 آج دل میں نسترن کی شاخ پھر چبھنے لگی

تونے کیا توڑا گلستاں سے وفا کا ایک پھول
 ہر کلی ہے غیر محرم ہر شگوفہ اجنبی

بے ارادہ چل رہا ہوں زندگی کی راہ پر
میرے مسلک میں نہیں ہے کاروبارِ رہبری

جس میں کچھ انسان کی توقیر کے احکام تھے
 وہ شریعت معبدوں کے زیرِ سایہ سوگئی

آگئیں بازار میں بکنے خدا کی عظمتیں
جی اٹھی ہیں خواہشیں اور مرگیا ہے آدمی

میں شعاعوں میں پگھل جاؤں مری فطرت نہیں
 وہ ستارہ ہوں کہ جس کو ڈھونڈتی ہے روشنی
 
 اور کتنی دور ہیں ساغر عدم کی منزلیں
 زندگی سے پوچھ لوں گا راستے میں گر ملی 
 
ساغر صدیقی 



ضیاء الرحمن اعظمی

شکستہ پائیاں ہیں جان و دل بھی چور ہیں ساقی
حمیت کے کلیجے میں بڑے ناسور ہیں ساقی

ادھر غیرت کی خشکی ہے نہ گولر ہے نہ بیری ہے
مگر جس سمت چمچے ہیں ادھر انگور ہیں ساقی

تقرب ہائے افسر ہے نہ عیش مرغ و ماہی ہے
ابھی دفتر کے آنے پر بھی ہم مجبور ہیں ساقی

سبھی معصوم و صادق لائق تعزیر ہو بیٹھے
تری سرکار کے کیسے عجب دستور ہیں ساقی

خودی کی پاسداری میں سکون جاں گنوا بیٹھے
بیاباں میں بھٹکتے ہیں چمن سے دور ہیں ساقی

سیہ حلقے ہیں آنکھوں میں سیاہی رخ پہ بکھری ہے
وفور درد سے گھر میں سبھی لنگور ہیں ساقی

ضیاء الرحمن اعظمی



سعید خان

یوم پیدائش 19 جولائی 1966

کس قدر تجھ کو تری ذات سے ہٹ کر سوچا
حد تو یہ تجھے اوروں سے لپٹ کر سوچا

محو ہو کر تری خوشبو کے گماں میں اکثر
ہم نے صدیوں کو بھی لمحوں میں سمٹ کر سوچا

عشق بنیاد میں شامل تھا سدا سے اپنی
دل کے محور سے نہ ہم نے کبھی ہٹ کر سوچا

فکر کب شور کے پہلو میں نمو پاتی ہے
سوچنے والوں نے آشوب سے کٹ کر سوچا

ہر تعلق میں ترا نقش ابھر آتا ہے
ہم نے جب بھی کسی مورت سے لپٹ کر سوچا

بارہا کر دیا حالات نے مسمار سعیدؔ
اپنی قامت سے نہ ہم نے کبھی گھٹ کر سوچا

سعید خان



سائل نظامی

یوم پیدائش 17 جولائی 1991

اہلِ منصب ہوں، سبک ساری نہیں کر سکتا
شعر سن لیجے، اداکاری نہیں کر سکتا

کچھ بھی کر سکتا ہوں، لیکن مَیں بہ نامِ جدّت
میر و اقبال سے غداری نہیں کر سکتا

اُسے نقّاد سمجھتے ہیں مِرے شہر کے لوگ
ایک بھی بات جو معیاری نہیں کر سکتا

شاعری کارِ مشقّت ہے، سو اِس سے انصاف
دال اور دلیے کا بیوپاری نہیں کر سکتا

جس طرح بولتا ہے تیرا دِوانہ سرِ بزم
بات یُوں کوئی بھی درباری نہیں کر سکتا

تیرے سائل کے سوا دشتِ سخن میں کوئی
ہرے لفظوں کی شجرکاری نہیں کر سکتا

سائل نظامی



بدر جمالی

یوم پیدائش 17 جولائی 1926

ہم نے آپ کے غم کو ہم سفر بنایا ہے
یعنی زندگانی کو معتبر بنایا ہے

ہر غم زمانہ کو دل میں دی جگہ ہم نے
خوب جو ملا اس کو خوب تر بنایا ہے

اینٹ اور پتھر کا گھر نہیں ملا تو کیا
دشمنوں کے دل میں بھی ہم نے گھر بنایا ہے

احتیاط سیکھی ہے بے اصول لوگوں سے
ہم کو چند اندھوں نے دیدہ ور بنایا ہے

زیست کے گھروندے کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے
عمر بھر بگاڑا ہے عمر بھر بنایا ہے

بدر جمالی



Sunday, July 17, 2022

غزالہ بٹ

یوم پیدائش 16 جولائی 1970

غم کی صورت بدل گئی ہوگی
زندگی چال چل گئی ہوگی

ورنہ وعدے سے کیوں مکرتا وہ
اس کی نیت بدل گئی ہوگی

ہم نے چاہا بہت چھپانے کو
بات آخر نکل گئی ہوگی

دیکھ کر شدتِ غمِ دوراں
موت بھی آ کے ٹل گئی ہوگی

دیکھ کر اس کے خد و خال حسیں
چاندنی خود ہی ڈھل گئی ہوگی

یاد کر کے غزالہ وہ صورت
کچھ طبیعت بہل گئی ہوگی

غزالہ بٹ



اختر مچھلی شہری

یوم پیدائش 16 جولائی 1991

ہے کیا نبی کی شریعت نہیں سمجھتے کیا 
بڑے بزرگوں کی عظمت نہیں سمجھتے کیا 

یہ اندھ بھکت بھی کیا جانیں ایشور اللّه 
ستم گروں کی شرارت نہیں سمجھتے کیا 

کبھی نماز و اذاں اور کبھی طلاق و حجاب 
یہ روز روز کی نفرت نہیں سمجھتے کیا 

مجھے مٹانے سے پہلے ذرا پڑھو تاریخ 
کہاں ٹلے گی قیامت نہیں سمجھتے کیا 

جسے بھی چاہا اسے رسوا کردیا اختر 
کسی غریب کی عزت نہیں سمجھتے کیا 

اختر مچھلی شہری


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...