Urdu Deccan

Wednesday, March 31, 2021

آغا حاشر کشمیری


 یوم پیدائش 01 اپریل 1879


سوئے مے کدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

وہ نگاہ سے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی


گو ہوائے گلستاں نے مرے دل کی لاج رکھ لی

وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی


یہ بجا کلی نے کھل کر کیا گلستاں معطر

اگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی


یہ کھلے کھلے سے گیسو انہیں لاکھ تو سنوارے

مرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی


گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک

تری رہ گزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی



آغا حشر کاشمیری

مسعود بیگ تشنہ

 یوم پیدائش 01 اپریل 1954 


جب اسے راستہ دکھائی نہ دے

آنکھ والے کی رہنمائی نہ دے


چھین لے مجھ سے چاہے سب دولت

مفت میں ایسی جگ ہنسائی نہ دے


میں بھلا، اپنی خصلتوں میں بھلا

مجھ کو بے داغ پارسائی نہ دے


بے سکوں ہے یہ نامراد ابھی 

درد سے گہری آشنائی نہ دے


ٹانگا ڈولی جو کر کے لے جائیں

ٹوٹی پھوٹی وہ چار پائی نہ دے


تو ہی کافی ہے اور یہ فرعون! 

میرے مولا مجھے خدائی نہ دے


میری دنیا ہے چھوٹی سی "تشنہ" 

دعوتِ جشنِ اجتماعی نہ دے 


مسعود بیگ تشنہ


سعدیہ بشیر

 یوم پیدائش 01 اپریل


اک ادائے خوش نما زنجیر کیسے ہو گئی ؟

روشنی کی زلف یوں دل گیر کیسے ہو گئی ؟


میرے اللہ! تجھ کو مجھ پہ پیار کتنا آ گیا 

اک ذرا سی آہ میـں تاثیر کیسے ہو گئی ؟


تیرے دل کے چور مجھ پہ سارے کیسے کُھل گئے 

ہائے ! نادانی مِری تقصیر کیسے ہو گئی ؟


سارے وعدے ایسے کیسے پانیوں پہ بَہہ گئے 

چاہِ یوسُف کی صدا تحریر کیسے ہو گئی ؟


دل سمَجھنے سے ہے قاصِر' اک جدائی کی خبر 

مسئَلہ کیوں بن گئی ؟ گمبھیر کیسے ہو گئی ؟


وقت کی اک چال سے سب برملا کہنے لگے 

بے صدا لاٹھی تھی جو' وہ تیر کیسے ہو گئی ؟


سعدیہؔ بشـیر 


مظفر حنفی

 یوم پیدائش 01 اپریل 1936


یوں توڑ نہ مدت کی شناسائی ادھر آ

آ جا مری روٹھی ہوئی تنہائی ادھر آ


مجھ کو بھی یہ لمحوں کا سفر چاٹ رہا ہے

مل بانٹ کے رو لیں اے مرے بھائی ادھر آ


اے سیل روان ابدی زندگی نامی

میں کون سا پابند ہوں ہرجائی ادھر آ


اس نکہت و رعنائی سے کھائے ہیں کئی زخم

اے تو کہ نہیں نکہت و رعنائی ادھر آ


اعصاب کھنچے جاتے ہیں اب شام و سحر میں

ہونے ہی کو ہے معرکہ آرائی ادھر آ


سنتا ہوں کہ تجھ کو بھی زمانے سے گلہ ہے

مجھ کو بھی یہ دنیا نہیں راس آئی ادھر آ


میں راہ نماؤں میں نہیں مان مری بات

میں بھی ہوں اسی دشت کا سودائی ادھر آ


مظفر حنفی


ساحل منیر

 خودخدا محبت ہے


گھر کے سُونے آنگن میں

رونقیں محبت سے

دِل کی ویراں بستی میں

راحتیں محبت سے

بزمِ کیف و مستی کی

شدتیں محبت سے

تیرے میرے جذبوں کی

حِدتیں محبت سے

مامتا کے ہونٹوں پر

اِک دعا محبت ہے

باپ کے بڑھاپے کا 

آسرا محبت ہے

ظلمتوں کی بستی میں

اِک دِیا محبت ہے

زہر کے پیالے کا

فلسفہ محبت ہے

سُولیوں پہ چڑھنے کا

سِلسلہ محبت ہے

سجدہ گاہِ مقتل کی

ہر دُعا محبت ہے

رزمِ حق و باطل میں 

کربلاؔ محبت ہے

مُنکرِ محبت سُن!

خود خُدا محبت ہے



ساحل منیر

احمد صدیقی


 یوم پیدائش 31 مارچ 1993


اس جیسا یہاں کوئی بھی فن کار نہیں ہے

قاتل ہے مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے


اٹھوں گا مگر صبح تو ہونے دے مؤذن

سونے کے لئے نیند بھی درکار نہیں ہے


یوں ہے کہ فقط دیکھ کے ہوتی ہے تسلی

معمولی کوئی نقش یا دیوار نہیں ہے


درد دل مجروح کوئی سمجھے تو کیسے

اس شہر میں مجھ سا کوئی بیمار نہیں ہے


ہاتھوں میں لئے ہاتھ گزرتے رہے ہم دو

پھر جا کے ہوا علم مجھے پیار نہیں ہے


تصویر تری آنکھ ملاتی رہی دن بھر

پر ہاتھ ملانے کو یہ تیار نہیں ہے


احمد صدیقی

Tuesday, March 30, 2021

افتخار راغب

 یوم پیدائش 31 مارچ 1973


انکار ہی کر دیجیے اقرار نہیں تو

الجھن ہی میں مر جائے گا بیمار نہیں تو


لگتا ہے کہ پنجرے میں ہوں دنیا میں نہیں ہوں

دو روز سے دیکھا کوئی اخبار نہیں تو


دنیا ہمیں نابود ہی کر ڈالے گی اک دن

ہم ہوں گے اگر اب بھی خبردار نہیں تو


کچھ تو رہے اسلاف کی تہذیب کی خوشبو

ٹوپی ہی لگا لیجیے دستار نہیں تو


ہم برسر پیکار ستم گر سے ہمیشہ

رکھتے ہیں قلم ہاتھ میں تلوار نہیں تو


بھائی کو ہے بھائی پہ بھروسہ تو بھلا ہے

آنگن میں بھی اٹھ جائے گی دیوار نہیں تو


بے سود ہر اک قول ہر اک شعر ہے راغبؔ

گر اس کے موافق ترا کردار نہیں تو


افتخار راغب


احمد شمیم

 یوم پیدائش 31 مارچ 1930


ابھی رنج سفر کی ابتدا ہے

ابھی سے جی بہت گھبرا رہا ہے


دئے بجھنے لگے ہیں طاقچوں میں

ہر اک شے پر اندھیرا چھا رہا ہے


ہوا شاخوں میں چھپ کر رو رہی ہے

نہ جانے کیسا موسم آ رہا ہے


ٹھٹھرتی رت میں زخمی انگلیوں سے

ہمیں دریا میں سونا ڈھونڈھنا ہے


اسی امید پر بن باس کاٹیں

ہمیں بھی ایک دن گھر لوٹنا ہے


بہت چاہوں کہ میں بھی ہاتھ اٹھاؤں

مرے ہونٹوں پہ لیکن بد دعا ہے


احمد شمیم


Monday, March 29, 2021

انجم عثمان

 یوم پیدائش 29 مارچ


پس یقیں کہیں ہم بھی ترے گمان میں ہیں

ترا نشاں ہیں یہ تارے جو آسمان میں ہیں


حرم سرا تھا ترا دل سو چھوڑ آئے اسے

وگرنہ کہنے کو اب بھی اسی مکان میں ہیں


مرے نصیب کے خوش رنگ خواب اور سراب

نہ اس جہان میں تھے اور نہ اس جہان میں ہیں


میں اپنے واسطے ان میں سے خود ہی چن لوں گی

وہ سانحے جو میسر تری دکان میں ہیں


سراب ہیں یہ تمہارے سب آئنہ خانے

بصارتیں بھی نہ جانے کس امتحان میں ہیں


کبھی وہ آئنہ چشم میں سنورتے تھے

وہ سارے خواب نصابوں کے جو بیان میں ہیں


نہ جانے لائیں گے دل پر تباہیاں کیا کیا

وہ حادثے جو ابھی تک تری کمان میں ہیں


یہ پل صراط کہاں لے چلا ہمیں انجمؔ

نہ ہم زمیں کے رہے اور نہ آسمان میں ہیں


انجم عثمان


پیر محمد علی نعیمی

 سب سے افضل بشر آپؐ ہیں آپؐ ہیں

خوب سے خوب تر آپ ؐہیں آپؐ ہیں


مسکراکر صحابہ یہ کہتے رہے 

یا نبی ہمسفر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


آپ ؐکی یاد ہے آپ ؐکا ذکر ہے

لب پہ شام و سحر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


آپؐ کی ذاتِ اقدس ہے خود معجزہ

دوجہاں میں امر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


آپؐ کا واسطہ رب کو منظور ہے

ہر دُعا کا اثر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


قافیے نور کے، نوری ہر اک ردیف

شاعری کا ثمر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


یہ علی کا وظیفہ رہے یا نبیؐ

میں کہوں عمر بھر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


صلی اللہ علیہ وسلم


پیر محمد علی نعیمی


Sunday, March 28, 2021

یاسین باوزیر

 پل بھر کو میرے خواب میں آ کر چلا گیا 

اک شخص میری نیند اڑا کر چلا گیا 


ممکن ہے واپسی نہ تو آگے ہے راستہ

تو مجھ کو کیسے موڑ پہ لا کر چلا گیا


نفرت سی ہو گئی ہے مجھے اپنی شکل سے

آئینہ کوئی ایسے دکھا کر چلا گیا


وہ مجھ کو جان سے بھی زیادہ عزیز تھا

جو مجھ سے اپنی جان چھڑا کر چلا گیا


اشکوں کی بارشیں بھی بجھا پائیں نہ جسے

وہ ایسی آگ دل میں لگا کر چلا گیا


اسکی جدائی نے نہ رکھا کام کا مجھے

کچھ دن جو مجھ سے پیار جتا کر چلا گیا


ہنستے تھے اس کے حال پہ سب لوگ ہی مگر

یاسین آج سب کو رلا کر چلا


گیا


یاسین باوزیر

یاور حبیب ڈار

 ہمیں لوگ کیوں کر گدا سوچتے ہیں

مگر یہ حقیقت بجا سوچتے ہیں


ستائش کریں گی، تمنا کسے ہے

تغافل کریں گے بھلا سوچتے ہیں


رہے عرش سے فرش تک بول بالا

فدا جان اپنی خدا سوچتے ہیں


ہمیں فکر تیری شب و روز رہتی

عجب ہے مگر وہ برا سوچتے ہیں


عداوت سہی ہے مگر دشمنوں سے

کروں کوچ پاشا جیا سوچتے ہیں


 ہوئیں دھڑکنیں کب بتا تیز یاور

بھلا سوچتے ہی فنا سوچتے ہیں


یاور حبیب ڈار


عمیر ساحل

 نظم

تیرے چہرے پہ پڑے درد کے وحشی دھبے

قصہ بتلاتے ہیں حالات کی تنگ دستی کا

کیسے پاتے ہیں نمو زیست میں جاں لیوا عذاب

پھیکا پڑ جاتا ہے کس واسطے رنگ ہستی کا


کیسے دب جاتا ہے غربت سے محبت کا گلا

ہجر کھا جاتا ہے کسطرح سے چہرے کے نقوش

حال بتلاتے ہیں شکنوں میں دبے رنج و الم

کتنا پر نور تھا چہرہ کیسے گہرے تھے نقوش


لوگ کہتے ہیں کہ دن رات بدل جاتے ہیں

وقت جب بدلے تو حالات بدل جاتے ہیں

آ ہی جاتا ہے سکون ایک دریدہ دل کو

فلسفے ، سوچ و خیالات بدل جاتے ہیں


عزم پختہ ہو اگر حوصلہ اقبال سا ہو

تو کنول کتنے ہی تالاب میں کھل جاتے ہیں

اک سمندر میں پناہ لیتے ہیں کتنے دریا

کتنے سورج ہیں جو اک شام میں ڈھل جاتے ہیں


عمیر ساحل


جاوید رامش


 یوم پیدائش 28 مارچ 1976


کتنے ہی گھٹا ٹوپ اندھیرے مرے آقاﷺ 

ہونے نہیں دیتے ہیں سویرے مرے آقاﷺ 


اشراف سبھی اپنے ضمیروں میں ہوئے قید 

پھرتے ہیں کُھلے عام لُٹیرے مرے آقاﷺ 


انسان تو پیدائشی آذاد تھا پھر کیوں ؟

قابض ہیں ابھی تک یہ وڈیرے مرے آقاﷺ 


اپنوں میں وہی خوئے ابو جہل بہر طور 

ظالم کے حواری ہیں چچیرے مرے آقاﷺ 


دھرتی بھی ترے ﷺ نقش ِکف ِ پا سے مزیّن 

اور عرش پہ بھی تیرے بسیرے مرے آقاﷺ


یہ دھیان اگر تیرا سمیٹے نہ مجھے تو 

یہ گردش ِ غم کتنا بکھیرے مرے آقاﷺ 


                    جاوید رامشؔ

اسامہ بابر ماحی

 ایک چہرہ کل سے آنکھوں میں سمایا ساقیا

ایک مدت بعد جس نے ہے سلایا ساقیا


کیا لکھوں تعریف میں اس مہ جبیں کے حسن کی

خوب فرصت سے جسے رب نے بنایا ساقیا


اس کی آنکھیں جھیل سی تھیں ڈوبنے کو من کیا

مجھ کو آکر کس لئے تو نے بچایا ساقیا


ہونٹ اس کے سرخی مائل پھول سا نازک مزاج

مجھ کو آکر تتلیوں نے سب بتایا ساقیا


جب سے اس کو دیکھا ہے، مجھ کو نہ جانے کیا ہوا

بھول بیٹھا ہوں میں اپنا اور پرایا ساقیا


بھول جانا یادِ ماضی کتنا مشکل تھا مگر

بھول جانے کا ہنر اس نے سکھایا ساقیا


اسامہ بابر ماحی


راغب مرادآبادی

 یوم پیدائش 27 مارچ 1918


ہٹ جائیں اب یہ شمس و قمر درمیان سے

میری زمیں ملے گی گلے آسمان سے


سینے میں ہیں خلا کے وہ محفوظ آج بھی

جو حرف ادا ہوئے ہیں ہماری زبان سے


وہ میرے ہی قبیلے کا باغی نہ ہو کہیں

اک تیر ادھر کو آیا ہے جس کی کمان سے


صیاد نے کیا ہے اسی کو اسیر دام

طائر جو دل گرفتہ رہا ہے اڑان سے


ناکامیوں نے اور بڑھائے ہیں حوصلے

گزرا ہوں جب کبھی میں کسی امتحان سے


کہلائے جس میں رہ کے ہمیشہ کرایہ دار

کیا انس ہو مکین کو ایسے مکان سے


کیوں پیروی پہ ان کی ہو مائل مرا دماغ

غالبؔ کے ہوں نہ میرؔ کے میں خاندان سے


راغبؔ بہ احتیاط ہی لازم ہے گفتگو

دشمن کو بھی گزند نہ پہنچے زبان سے


راغب مرادآبادی


صفیہ شمیم

 یوم پیدائش 27 مارچ 1920


وہ حسرت بہار نہ طوفان زندگی

آتا ہے پھر رلانے کو ابر بہار کیوں


آلام و غم کی تند حوادث کے واسطے

اتنا لطیف دل مرے پروردگار کیوں


جب زندگی کا موت سے رشتہ ہے منسلک

پھر ہم نشیں ہے خطرۂ لیل و نہار کیوں


جب ربط و ضبط حسن محبت نہیں رہا

ہے بار دوش ہستئ ناپائیدار کیوں


رونا مجھے خزاں کا نہیں کچھ مگر شمیمؔ

اس کا گلہ ہے آئی چمن میں بہار کیوں


صفیہ شمیم


زوار قمر عابدی

 یوم پیدائش 26 مارچ


وہ جو اترا تھا میری روح میں خوشبو بن کر

اب میری آنکھ سے ٹپکا ہے وہ آنسو بن کر


کرجیاں خواب ہیں تعبیر ہے ریزہ ریزہ

رقصِ تقدیر میں ٹوٹا ھوں میں گھنگرو بن کر


یاد کرتا ہوں تو اطراف مہک اٹھتے ہیں 

جیسے وہ آپ ہی آجاتا ہے خوشبو بن کر


گھیرے رکھتے ہیں مجھے یوں تیری یاوں کے حصار

بام و دیوار بھی ملتے ہیں مجھے تو بن کر


ہائے اُس دوش پہ وہ رات سے کالی زلفیں

جن پہ خورشید بھی منڈلائے ہے جگنو بن کر 


جنسِ بازار سمجھتے ہیں مجھے لوگ قمر 

جو بھی ملتا ہے وہ ملتا ہے ترازو بن کر 


زوار قمر عابدی


کہکشاں تبسم

 یوم پیدائش 26 مارچ 1960


ہمیں خانوں میں مت بانٹو

کہ ہم تو روشنی ٹھہرے

کسی دہلیز پر جلتے ہوئے شب بھر

کسی کا راستہ تکتے

چراغوں سے بھی آگے ہے جہاں اپنا

اجالوں کی کمک لے کر

اندھیرے کی صفوں کو چیر جاتے ہیں

یہ جگنو چاند اور تارے

ہماری صورتیں جیسے

ہمیں خانوں میں مت بانٹو

ہوا ہیں ہم

بھلا دیوار و در میں قید کیا ہوں گے

سنہری صبح ڈھلتی شام کی راحت ہمیں سے ہے

ہمیں میزان پر رکھنے سے پہلے

تولنے سے قبل اتنا سوچ لینا ہے

ہمارا بوجھ تیری بند مٹھی میں دبی رسی

اٹھائے گی بھلا کیسے

کہ ہم تو شش جہت میں

جس طرف نظریں اٹھاؤ

دیکھ لو پھیلی ہوئی بکھری ہوئی ہم کو

کہ ہم تو زندگی ہیں


کہکشاں تبسم


سراج الدین ظفر

 یوم پیدائش 25 جنوری 1912


میں نے کہا کہ تجزیۂ جسم و جاں کرو

اس نے کہا یہ بات سپرد بتاں کرو


میں نے کہا کہ بہار ابد کا کوئی سراغ

اس نے کہا تعاقب لالہ رخاں کرو


میں نے کہا کہ صرف دل رائیگاں ہے کیا

اس نے کہا آرزوئے رائیگاں کرو


میں نے کہا کہ عشق میں بھی اب مزا نہیں

اس نے کہا کہ از سر نو امتحاں کرو


میں نے کہا کہ اور کوئی پند خوش گوار

اس نے کہا کہ خدمت پیر مغاں کرو


میں نے کہا ہم سے زمانہ ہے سر گراں

اس نے کہا کہ اور اسے سر گراں کرو


میں نے کہا کہ زہد سراسر فریب ہے

اس نے کہا یہ بات یہاں کم بیاں کرو


میں نے کہا کہ حد ادب میں نہیں ظفرؔ

اس نے کہا نہ بند کسی کی زباں کرو


سراج الدین ظفر


حامد حسن قادری

 یوم پیدائش 25 مارچ 1887

نظم پیارا دیس


دیس اپنا ہم کو پیارا کیوں نہ ہو 

دل فدا اس پر ہمارا کیوں نہ ہو 


''ہند'' سے بڑھ کر نہیں کوئی زمین 

گو جہاں جنت ہی سارا کیوں نہ ہو 


کہتے ہیں جس چیز کو آب حیات 

پھر وہ شے گنگا کی دھارا کیوں نہ ہو 


جس نے پھیلایا جہاں میں نور علم 

آنکھ کا دنیا کی تارا کیوں نہ ہو 


کب مٹا سکتا ہے ہم کو آسماں 

گو وہ دشمن ہی ہمارا کیوں نہ ہو

 

ہندو و مسلم کو لڑتے دیکھ کر 

رنج سے دل پارا پارا کیوں نہ ہو 


ہم نے یہ مانا کبھی لڑ بھی لیے 

از سر نو بھائی چارہ کیوں نہ ہو

 

کیوں نہ ہو الفت عداوت کیوں رہے 

دشمنی کیوں ہو مدارا کیوں نہ ہو


ہم ہیں ہندوستان کے سچے سپوت

دیس کی خدمت گوارا کیوں نہ ہو


حامد حسن قادری


سائل دہلوی

 یوم پیدائش 25 مارچ 1864


ہوتے ہی جواں ہو گئے پابند حجاب اور

گھونگھٹ کا اضافہ ہوا بالائے نقاب اور


جب میں نے کہا کم کرو آئین حجاب اور

فرمایا بڑھا دوں گا ابھی ایک نقاب اور


پینے کی شراب اور جوانی کی شراب اور

ہشیار کے خواب اور ہیں مدہوش کے خواب اور


گردن بھی جھکی رہتی ہے کرتے بھی نہیں بات

دستور حجاب اور ہیں انداز حجاب اور


پانی میں شکر گھول کے پیتا تو ہے اے شیخ

خاطر سے ملا دے مری دو گھونٹ شراب اور


ساقی کے قدم لے کے کہے جاتا ہے یہ شیخ

تھوڑی سی شراب اور دے تھوڑی سی شراب اور


سائلؔ نے سوال اس سے کیا جب بھی یہ دیکھا

ملتا نہیں گالی کے سوا کوئی جواب اور


سائل دہلوی


ریاض خارم

 شمع دل تم بجھانے آئے تھے

دولتِ دل چرانے آئے تھے


زندگی ساتھ لے کے میری جاں

ہم تو تجھ سے نبھانے آئے تھے


غیر سے مل کے وہ بدل گئی تھی

پھر بنانے بہانے آئے تھے


کیا ستم تھے مرے مقدر میں

دوست مجھ کو مٹانے آئے تھے


اپنا سب کچھ سمجھ لیا تھا اسے

کیسے کیسے زمانے آئے تھے


پیار کا نام پھر لیا نہ کبھی

ہوش ایسے ٹھکانے آئے تھے


ریاض حازم


عبد الماجد عادل آبادی

 نہیں کرتے جو لوگ اوروں کی عزت

اٹھانی پڑےگی انھیں خودبھی ذلت


شمار انکا بھی کجیے ظالموں میں

کہ کرتے ہیں جو ظالموں کی حمایت


وہ اک قصۂِ غم ہی پڑھتے رہے ہم

نہ بدلے ہے راوی نہ بدلے روایت


نگاہیں ملانا ملاکر چرانا

 یہ معصومیت ہے یا کوئی شرارت


تم اک بار بولی لگاکر تو دیکھو

بکے گی صحافت عدالت حکومت


خدا دے گا بے شک تمہیں اس کا بدلا

کرو کام کوئی رکھو صاف نیت


یوں بیٹھے بٹھائے نہیں ملتا کچھ بھی

کہا سچ کسی نے ہے حرکت میں برکت


مزاج اپنا ہے دوستو سیدھا سادا

کہ کرتے نہیں ہم کسی سے سیاست


بڑا ہے وہ سب سے بڑی شان اس کی

بیاں کرسکے نہ کوئی اس کی عظمت


کسی کو بھی اپنے سے کم ترسمجھنا

حماقت ہے ہرگز نہ کرنا حماقت


حقیقت میں ہیں صاحبِ زر وہی لوگ

جنھیں مل گئی ہے ہدایت کی دولت


کٹے زیست حکمِ خدا کے مطابق

نہ ہو کام کوئی خلافِ شریعت


میں شاعر ہوں میرا فریضہ ہے ماجؔد

بیاں کرنا ہر دم حقیقت صداقت


عبدالماجد عادل آبادی


حاشر افنان

 اگر تو خدا کا نہیں ہے

قسم سے کسی کا نہیں ہے


محمدﷺ وہاں پر ہے پہنچے

جہاں کوئی پہنچا نہیں ہے


خدایا ترے اس جہاں میں 

 کوئی بھی تو اپنا نہیں ہے


بہت سے حسیں لوگ دیکھے

مگر کوئی تجھ سا نہیں ہے


جسے تو سمجھتا ہے اپنا

نہیں ہے وہ تیرا نہیں ہے


سخن ور بہت ہم نے دیکھے 

کوئی تم سا دیکھا نہیں ہے


تو کس کی زباں بولتا ہے 

ترا تو یہ لہجہ نہیں ہے 


مرے رب کی خیرات تو ہے 

کسی کا تو صدقہ نہیں ہے


نہیں کھیل تو میرے دل سے 

مرا دل کھلونا نہیں ہے 


اداسی میں کیوں مجھ کو حاشر

کوئی یاد آتا نہیں ہے


 حاشر افنان


حبیب جالب

 یوم پیدائش 24 مارچ 1928


تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا


کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ

وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا


آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے

کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا


اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو

اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا


چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے

تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا


حبیب جالب


بشیر فاروق

 یوم پیدائش 23 مارچ 1939


وہ ستم پرور بہ چشم اشک بار آ ہی گیا

چاک دامانی پہ میری اس کو پیار آ ہی گیا


مٹتے مٹتے مٹ گئی جان وفا کی آرزو

آتے آتے بے قراری کو قرار آ ہی گیا


چپکے چپکے مجھ پہ میری خامشی ہنستی رہی

روتے روتے جذب دل پر اختیار آ ہی گیا


کوئی وعدہ جس کا معنی آشنا ہوتا نہیں

پھر اسی وعدہ شکن پر اعتبار آ ہی گیا


یا الٰہی جذبۂ ہوش و خرد کی خیر ہو

منتظر جس کا جنوں تھا وہ دیار آ ہی گیا


بشیر فاروق


فرحت زاید

 یوم پیدائش 23 مارچ 1960


عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں

اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں


وہ مجھ سے ستاروں کا پتا پوچھ رہا ہے

پتھر کی طرح جس کی انگوٹھی میں جڑی ہوں


الفاظ نہ آواز نہ ہم راز نہ دم ساز

یہ کیسے دوراہے پہ میں خاموش کھڑی ہوں


اس دشت بلا میں نہ سمجھ خود کو اکیلا

میں چوب کی صورت ترے خیمے میں گڑی ہوں


پھولوں پہ برستی ہوں کبھی صورت شبنم

بدلی ہوئی رت میں کبھی ساون کی جھڑی ہوں


فرحت زاہد


شاداب انجم کامٹی

 یوم پیدائش 23 مارچ 1975


مسرّتوں کا سماں دیر تک نہیں رہتا 

 دیا بجھے تو دھواں دیر تک نہیں رہتا


 شباب آتا ہے لیکر پروں کو ساتھ اپنے 

زمیں پہ کوئی جواں دیر تک نہیں رہتا


حساب سودِمحبّت کا یاد کیا رکھتے 

ہمیں تو یاد زیاں دیر تک نہیں رہتا 


مری خطاؤں کو گر وہ معاف کر دیتا 

تو دل۔ پہ بار گراں دیر تک نہیں رہتا


 فلاح اسکو بلاتی ہے۔ یہ خبر ہے جسے 

وہ گھر میں سن کے اذاں دیر تک نہیں رہتا


جو مشکلات کا کرتے ہیں سامنا ھنس کر 

یہ غم انہی کے یہاں دیر تک نہیں رہتا


 ہزار کوششیں کر لیں مگر زمانے سے 

کسی کا درد ۔نہاں دیر تک نہیں رہتا


یہ کیسا دور ہے آیا کہ ملک میں انجم 

کہیں گمان ِاماں دیر تک نہیں رہتا


شاداب انجم، کامٹی 


عابد حسین عابد

 شوق سے پالے تھے میں نے جس کے نخرےناز بھی

وہ مرا قاتل بھی نکلا وہ مرا ہمراز بھی


سرخ لب ابرو کشیدہ اور نگاہِ ناز بھی

ہر ادا قاتل صنم کی اور عجب انداز بھی


بادشاہِ عشق ہوں پر دوں کسے دل کا محل

اک طرف گلناز ہے اور اک طرف ممتاز بھی


ہے نصیبا خاک اپنی جگ خیالی تشنگی

یا الٰہی کیا غضب ہے زندگی کا راز بھی


میں نہ واعظ میں نہ زاہد میں نہ عابد ساقیا

کیا نہیں میرے لئے اب ساغر و شیراز بھی


گر فلک منزل ہے تیری یوں نہ ڈر طوفان سے

ہے بہت اونچی دلِ ناداں تری پرواز بھی


لوٹ لی محفل جو تو نے دفعتاً اک شعر سے 

یوں لگا عابؔد ہمیں تو ہے سخن شہباز بھی


عابد حسین عابؔد


سعدیہ بشیر

 چهوٹی چهوٹی رنجشوں میں فاصلوں کا شورتھا 

جس نے بدلا راستہ وہ ظرف میں کم زور تها 


اس بدن کی سلطنت میں کس قدر بے خامشی 

دل ذرا سا ، چار خانے ، کس قدر منہ زور تها


ہم وفاؤں کے خزانے کهنکهناتے رہ گئے 

اور جفا کے چار سکوں کا بهی کتنا شور تھا


اب کہاں تصویر میں وہ رنگ وہ رعنائیاں

 ایک جذبہ ڈھے چکا تھا اب کنار گور تھا 


منصفوں نے بھی سنی تھی آہ زاری کی صدا 

فیصلہ محفوظ رکھا ، ان کے دل میں چور تھا


سعدیہ بشیر


یامین یاسمین

شہرِ وفا میں اپنا بھی کیا نام آیا ہے 

مانگا خدا سے جو ہے وہی کام آیا ہے 


ہر اور پھول کِھل اُٹھے اُجڑے دیار میں 

تیری نگاہِ شوق کا انعام آیا ہے 


لوٹ آئے گا وہ وقت،امیدِ بہار رکھ

فطرت سے ہم کو آج یہ پیغام آیا ہے 


یامین یاسمین


سید مرتضی بسمل

 روز و شب ہم نے اشکباری کی

انتہا ہے یہ بے قراری کی


میرا دامن سیاہ تھا پھر بھی

اے خدا تو نے پاسداری کی


جانے کب کا میں مر گیا ہوتا

ان کی یادوں نے آبیاری کی


کوستا ہی رہا مجھے ہر دم 

قدر کیا جانے وہ بھکاری کی


خاک ہوں خاک میں ہی ملنا ہے

بُو بھی آتی ہے خاکساری کی


کام میں نے کیا مصور کا

میں نے شعروں میں دستکاری کی


میں تو مجنون بن گیا بسمل

مجھ پہ لوگوں نے سنگ باری کی


سید مرتضی بسمل


میر خوشحال فیضی

 مالی کی حرکتوں پہ قدغن ہے

اس لیے داغدار گلشن ہے


خون کرنا پڑا ہے خواہش کا

ہم یہ سمجھے تھے سہل جیون ہے


ہوش آتے ہی مشکلیں دیکھیں

میری خوشیوں کا عہد بچپن ہے


اُس کو کرنا ہے فیصلہ میرا

اس لیے تیز آج دھڑکن ہے


کتنے رازوں کو دفن ہم نے کیا

دل ہمارا بھی ایک مدفن ہے


ایک پل میں ،میں ہو گیا تیرا

تیرے چہرے پہ کتنا جوبن ہے


ہم کو کیا لینا شہر سے فیضی

دشتِ ویراں میں اپنا مسکن ہے


میر خوشحال فیضی


محمد الیاس کرگلی

 ایسا تو نہیں دل میں محبت ہی نہیں تھی

اظہار محبت کی بھی ہمت ہی نہیں تھی


آساں تو نہیں عشق کا سودا مرے ہمدم

ایسا بھی نہیں مجھ میں وہ دولت ہی نہیں تھی


ترسیلِ عدم سے نہ ہوا عشق کا اظہار

افسوس زمانے میں سہولت ہی نہیں تھی 


ہم اپنی انا لے کے ہی واپس چلے آئے 

تکرار کی ہم میں کوئی عادت ہی نہیں تھی


ہم بس کہ کتابوں میں ہی کھوئے رہے اب تک

دل کے لئے اپنے کوئی مہلت ہی نہیں تھی 


پہلی ہی نظر میں ترا ہونا بھی عجب تھا

اور بن ترے دل میں کوئی حاجت ہی نہیں تھی


اُس وقت میرے نام سے واقف نہ تھی دنیا

الیاس کی اس دور میں شہرت ہی نہیں تھی


محمد الیاس کرگلی


راتھر عمر

 نظر لگی ہے کس کی میرے شہر کو

کہ خون نے ہے اوڑھا پورے شہر کو


جکڑ کے پنجرے میں قید کرنا یوں

 سمجھ یہ آ رہا ہے سارے شہر کو


بجھائے ہیں چراغ کتنے بے وجہ

بنایا مقبرہ پیارے شہر کو


یہاں کے تخت کا اٹھا کے فائدہ

کئے خسارے ہی خسارے شہر کو


سبھی ہیں محو اپنے آپ میں عمر

یہاں پہ کون اب نکھارے شہر کو


راتھر عمر


اشرف نرملی

 ترس جاتی ہیں آنکھیں جینا بھی دشوار ہوتاہے

بڑی مشکل سے اب تو چاند کا دیدار ہوتا ہے


نہ دولت میں سکونِ دل ہے نہ شہرت میں اے جاناں 

کہ تجھ کو دیکھ کر ہی دل گلِ گلزار ہوتا ہے


زباں سے اسکی سننے کے لیے بے چین ہوں کب سے

محبت کا مگر اس سے کہاں اظہار ہوتا ہے


مکمل کوئی ہوتا ہے ادھورا رہتا ہے کوئی

محبت میں کہاں ہر اک کا بیڑا پار ہوتا ہے


نگاہوں کو تو بھاتے ہیں کئی چہرے یہاں اشرف

مگر دل جس پہ آجائے اسی سے پیار ہوتا ہے


اشرف نرملی


افتخار عارف

 یوم پیدائش 21مارچ 1940


ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف

دل کسی اور طرف ،دستِ دعا اور طرف


اک رجز خواں ہنر ِکاسہ و کشکول میں طاق

جب صفِ آرا ہوئے لشکر تو ملا اور طرف


اے بہ ہر لمحہ نئے وہم میں الجھے ہوئے شخص

میری محفل میں الجھتا ہے تو جا اور طرف


اہلِ تشہیر و تماشا کے طلسمات کی خیر

چل پڑے شہر کے سب شعلہ نوا اور طرف


کیا مسافر تھا سفر کرتا تھااِس بستی میں

اور لو دیتے تھے نقشِ کفِ پا اور طرف


شاخِ مژگاں سے جو ٹوٹا تھا ستارہ سرِ شام

رات آئی تو وہی پھول کھلا اور طرف


نرغۂ ظلم میں دکھ سہتی رہی خلقتِ شہر

اہلِ دنیا نے کیے جشن بپا اور طرف


افتخار عارف


طاہر مسعود

 یوم پیدائش 21 مارچ 1974


کوئی ہمدرد بن کر آ گیا ہے

ہوا جب حال ابتر آ گیا ہے


 ِمرے مدِ مقابل جنگ لڑنے 

ِمرا یارِ ستمگر آ گیا ہے


جو ان دیکھا تھا پڑھ کر دیکھنا ہے 

فسانے میں وہ منظر آ گیا ہے


ارے یارا ! نہیں تکلیف ، مت رو

یونہی بس ہاتھ دل پر آ گیا ہے


بنے گا کل مرا بازو ۔۔ کہ بیٹا

مرے قد کے برابر آ گیا ہے


پرانے درد اوڑھے تھا جو موسم

نئے کپڑے پہن کر آ گیا ہے


نہیں تھا نام میرا سرکشوں میں 

مگر حسبِ مقدر آ گیا ہے


مجھے جانا تھا لیکن جا نہ پایا 

اسے آنا نہ تھا ۔۔ پر آ گیا ہے 


تمہاری منتظر خوشیاں ہیں " طاہر" 

اب آنکھیں پونچھ لو گھر آ گیا ہے


" طاہر مسعود "


بیخود دہلوی

 یوم پیدائش 21 مارچ 1863


دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر

جو ادھر دل میں ہے یا رب وہ ادھر پیدا کر


دود دل عشق میں اتنا تو اثر پیدا کر

سر کٹے شمع کی مانند تو سر پیدا کر


پھر ہمارا دل گم گشتہ بھی مل جائے گا

پہلے تو اپنا دہن اپنی کمر پیدا کر


کام لینے ہیں محبت میں بہت سے یا رب

اور دل دے ہمیں اک اور جگر پیدا کر


تھم ذرا اے عدم آباد کے جانے والے

رہ کے دنیا میں ابھی زاد سفر پیدا کر


جھوٹ جب بولتے ہیں وہ تو دعا ہوتی ہے

یا الٰہی مری باتوں میں اثر پیدا کر


آئینہ دیکھنا اس حسن پہ آسان نہیں

پیشتر آنکھ مری میری نظر پیدا کر


صبح فرقت تو قیامت کی سحر ہے یا رب

اپنے بندوں کے لیے اور سحر پیدا کر


مجھ کو روتا ہوا دیکھیں تو جھلس جائیں رقیب

آگ پانی میں بھی اے سوز جگر پیدا کر


مٹ کے بھی دوری گلشن نہیں بھاتی یا رب

اپنی قدرت سے مری خاک میں پر پیدا کر


شکوۂ درد جدائی پہ وہ فرماتے ہیں

رنج سہنے کو ہمارا سا جگر پیدا کر


دن نکلنے کو ہے راحت سے گزر جانے دے

روٹھ کر تو نہ قیامت کی سحر پیدا کر


ہم نے دیکھا ہے کہ مل جاتے ہیں لڑنے والے

صلح کی خو بھی تو اے بانئ شر پیدا کر


مجھ سے گھر آنے کے وعدے پر بگڑ کر بولے

کہہ دیا غیر کے دل میں ابھی گھر پیدا کر


مجھ سے کہتی ہے کڑک کر یہ کماں قاتل کی

تیر بن جائے نشانہ وہ جگر پیدا کر


کیا قیامت میں بھی پردہ نہ اٹھے گا رخ سے

اب تو میری شب یلدا کی سحر پیدا کر


دیکھنا کھیل نہیں جلوۂ دیدار ترا

پہلے موسیٰ سا کوئی اہل نظر پیدا کر


دل میں بھی ملتا ہے وہ کعبہ بھی اس کا ہے مقام

راہ نزدیک کی اے عزم سفر پیدا کر


ضعف کا حکم یہ ہے ہونٹ نہ ہلنے پائیں

دل یہ کہتا ہے کہ نالے میں اثر پیدا کر


نالے بیخودؔ کے قیامت ہیں تجھے یاد رہے

ظلم کرنا ہے تو پتھر کا جگر پیدا کر


بیخود دہلوی


شمشاد شاؔد

 یوم پیدائش کی مبارک باد

21م مارچ ۔۔۔۔


دُکھوں کو ایڑ لگاتے ہیں غم سے کھیلتے ہیں

وہ جیتتے ہیں جو لوح و قلم سے کھیلتے ہیں


نہ جانے کس لئے اہلِ کرم سے کھیلتے ہیں

زمانے والے دلِ محترم سے کھیلتے ہیں


یہی رواج ہے شہرِ ستم کا صدیوں سے

جو شاد ہیں وہ اسیرانِ غم سے کھیلتے ہیں


قسم ہے ان کی قسم کا یقین مت کرنا

منافقین خدا کی قسم سے کھیلتے ہیں


مخالفین میں یہ بات مشتہر کر دو

ہے مات ان کی یقینی جو ہم سے کھیلتے ہیں


کہ اپنے اپنے عقیدوں کو طاق پر رکھ کر

جنابِ شیخ و برہمن دھرم سے کھیلتے ہیں


اے شاؔد رنج و الم کا نہیں ہے خوف ہمیں

ہم ابتدا ہی سے رنج و الم سے کھیلتے ہیں


شمشاد شاؔد


جاوید اقبال

 یوم پیدائش 20 مارچ 


بظاہر زیست سے شکوہ نہیں ہے 

ہے سب اچھا مگر، اچھا نہیں ہے 


میں کیسی بستیوں میں آگیا ہوں 

یہاں دیواریں ہیں، سایہ نہیں ہے 


فقط گھنٹی سے ہی پہچانتا ہوں 

تِرا ہے فون یا تیرا نہیں ہے


زمین و آسماں دھندلے پڑے ہیں 

یہ آنسو آنکھ سے گرتا نہیں ہے 


یہ سچ ہے میرا برتاؤ ہے بدلا

مگر تُو بھی تو پہلے سا نہیں ہے


جو سوچا رات بھر تجھ کو، لگا یہ

مِرا چہرہ تھا جو، میرا نہیں ہے 


جاوید اقبال


سرسوتی سرن کیف

 یوم پیدائش 20مارچ 1922


ستم گر تجھ سے ہم کب شکوۂ بیداد کرتے ہیں

ہمیں فریاد کی عادت ہے ہم فریاد کرتے ہیں


متاع زندگانی اور بھی برباد کرتے ہیں

ہم اس صورت سے تسکین دل ناشاد کرتے ہیں


ہواؤ ایک پل کے واسطے للہ رک جاؤ

وہ میری عرض پر دھیمے سے کچھ ارشاد کرتے ہیں


نہ جانے کیوں یہ دنیا چین سے جینے نہیں دیتی

کوئی پوچھے ہم اس پر کون سی بیداد کرتے ہیں


نظر آتا ہے ان میں بیشتر اک نرم و نازک دل

مصائب کے لیے سینے کو جو فولاد کرتے ہیں


خدا کی مصلحت کچھ اس میں ہوگی ورنہ بے حس بت

کسے شاداں بناتے ہیں کسے ناشاد کرتے ہیں


نہیں دیکھا کہیں جو ماجرائے عشق میں دیکھا

کہ اہل درد چپ ہیں چارہ گر فریاد کرتے ہیں


اسیر دائمی گر دل نہ ہو تو اور کیا ہو جب

کہیں وہ مسکرا کر جا تجھے آزاد کرتے ہیں


کیا ہوگا کبھی آدم کو سجدہ کہنے سننے سے

فرشتے اب کہاں پروائے آدم زاد کرتے ہیں


ہمیں اے دوستو چپ چاپ مر جانا بھی آتا ہے

تڑپ کر اک ذرا دل جوئی صیاد کرتے ہیں


بہت سادہ سا ہے اے کیفؔ اپنے غم کا افسانہ

وہ ہم کو بھول بیٹھے ہیں جنہیں ہم یاد کرتے ہیں


سرسوتی سرن کیف


سیف الدین سیف

 یوم پیدائش 20 مارچ 1922


مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے

مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے


کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانۂ محبت

میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے


مری آرزو کی دنیا دل ناتواں کی حسرت

جسے کھو کے شادماں تھے اسے آج پا کے روئے


تری بے وفائیوں پر تری کج ادائیوں پر

کبھی سر جھکا کے روئے کبھی منہ چھپا کے روئے


جو سنائی انجمن میں شب غم کی آپ بیتی

کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے


سیف الدین سیف



شیر سنگھ ناز دہلوی

 یوم پیدائش 19 مارچ 1898


دم اخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا

جہاں سے اٹھ گئے اہل جہاں سے کچھ نہ کہا


چلی جو کشتئ عمر رواں تو چلنے دی

رکی تو کشتئ عمر رواں سے کچھ نہ کہا


خطائے عشق کی اتنی سزا ہی کافی تھی

بدل کے رہ گئے تیور زباں سے کچھ نہ کہا


بلا سے خاک ہوا جل کے آشیاں اپنا

تڑپ کے رہ گئے برق تپاں سے کچھ نہ کہا


گلہ کیا نہ کبھی ان سے بے وفائی کا

زباں تھی لاکھ دہن میں زباں سے کچھ نہ کہا


خوشی سے رنج سہے نازؔ عمر بھر ہم نے

خدا گواہ کبھی آسماں سے کچھ نہ کہا


شیر سنگھ ناز دہلوی


محشر حبیبی

 یوم پیدائش 19 مارچ 1946


چاند تارے یہ رہگزر مانوس 

جس سفر سے ہیں ہم سفر مانوس 


اُن سے کتنا پرانا رشتہ ہے 

پتھروں سے ہمارے سر مانوس 


موت کا بھی مزا چکھیں گے ہم 

زندگی سے ہیں سانس بھر مانوس 


حادثوں سے ہے کون اب محفوظ 

آنسوؤں سے ہیں سارے گھر مانوس 


دوستی صرف اُن سے رکھتا ہوں 

جن کے شانوں سے ہے یہ سر مانوس 


میرا دُکھ کیا ہے آپ کیا جانیں 

آپ مجھ سے ہیں آنکھ بھر مانوس 


خامشی ٹھیک ہے مگر اے دوست 

شور محشر سے میرا گھر مانوس


محشر حبیبی


ارشد صدیقی

 یوم پیدائش 19 مارچ 1923


قلب و نظر کا سکوں اور کہاں دوستو

کوئے بتاں دوستو کوئے بتاں دوستو


میرا ہی دل ہے کہ میں پھرتا ہوں یوں خندہ زن

کم نہیں پردیس میں دل کا زیاں دوستو


جن میں خلوص وفا اور نہ شعور ستم

مجھ کو بٹھایا ہے یہ لا کے کہاں دوستو


چار گھڑی رات ہے آؤ کہ ہنس بول لیں

جانے سحر تک ہو پھر کون کہاں دوستو


ربط مراسم کے بعد ترک تعلق غلط

آگ بجھانے سے بھی ہوگا دھواں دوستو


لاکھ چھپو سایۂ گیسوئے شب رنگ میں

مل نہیں سکتی مگر غم سے اماں دوستو


شاعر ارشدؔ ہوں میں شاعر فطرت ہوں میں

مٹ نہیں سکتا مرا نام و نشاں دوستو


ارشد صدیقی


اعتبار ساجد

 تجھ سے لفظوں کانہیں، روح کارشتہ ہے مرا

تو مری سانس میں تحلیل ہے خوشبو کی طرح


اعتبار ساجد


یاسمین حمید

 یوم پیدائش 18 مارچ 1951


پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی

ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی


نظر آتا ہے جو ویسا نہیں ہوتا کوئی شخص

خود کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی


ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں

وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی


آگ ہی آگ تھی اور لوگ بہت چاروں طرف

اپنا تو دھیان ہی آنے میں بہت دیر لگی


جس طرح ہم کبھی ہونا ہی نہیں چاہتے تھے

خود کو پھر ویسا بنانے میں بہت دیر لگی


یہ ہوا تو کہ ہر اک شے کی کشش ماند پڑی

مگر اس موڑ پہ آنے میں بہت دیر لگی


یاسمین حمید


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...