Urdu Deccan

Monday, May 24, 2021

اعجاز کنور راجہ

 یوم پیدائش 24 مئی 1951


یہ کیا ہوا کہ شور سرِدار ختم شد

جاں ختم شد کہ یورشِ آزار ختم شد


پل بھر میں چور چور تھا آئینہء خیال

صد اہتمامِ عکسِ گل و خار ختم شد


آؤ کہ ہم بھی زیست کا ساماں خرید لیں

زاں پیشتر کہ رونقِ بازار ختم شد


بھر بھر کے لوگ جاتے رہے ہیں جبینِ شوق

ہم آئے ہیں تو خاک درِ یار ختم شد


سائے سے ا پنا ساتھ قدم دو قدم کا تھا

دیوار ختم، سایۃ دیوار ختم شد


جس نے کہا اسی کے طرفدار ہو گیئے

وا حسرتا! وہ جرآتِ انکار ختم شد


جاہ و جلال حاکمِ دوراں یہ کیا کیا

اظہار صدق بر سرِ دربار ختم شد


مدت کے بعد ایک دریچہ کھلا کنور

گویم ، حضور ! خواہشِ دیدار ختم شد


اعجاز کنور راجہ


حسن شاہنواز زیدی

 سبھی راستے ترے نام کے سبھی فاصلے ترے نام کے

کبھی مل مجھے مری سوچ کے سبھی دائرے ترے نام کے


مرے کام کے تو نہیں ہیں یہ یہ جو میرے لات و منات ہیں

یہ مجھے عزیز ہیں اس لیے کہ ہیں سلسلے ترے نام کے


میں شراب پیتا تو کس طرح مجھے تیرے حکم کا پاس تھا

مگر آج ساقی نے جب دیئے مجھے واسطے ترے نام کے


کوئی منبروں پہ ہے معتبر کوئی سر کشیدہ ہے دار پر

وہ سہولتیں ترے ذکر کی یہ مجاہدے ترے نام کے


یہاں جو بھی تھا وہ تجھی سے تھا یہاں جو بھی ہے وہ تجھی سے ہے

سبھی عکس ہیں تری ذات کے سبھی رنگ تھے ترے نام کے


ابھی میں نے ظلمت شب کی سمت نگاہ ڈالی تھی غور سے

کہ کسی نے دل کی منڈیر پر دیئے رکھ دیے ترے نام کے


حسن شاہنواز


زیدی

سرور خان سرور

 یوم پیدائش 24 مئی 1965


کتنے اچھے ہیں مرے گھر کے پرانے برتن

چھت ٹپکتی ہے تو کیچڑ نہیں ہونے دیتے 


  ہم ترے دل میں سکونت بھی نہیں کر پائے 

  اور ترے شہر سے ہجرت بھی نہیں کر پائے

  

ہم وہ مجبور ِ تمنا کہ بھری دنیا میں

اپنے حصے کی محبت بھی نہیں کر پائے


ہم نہیں جانتے کہتے ہیں جوانی کس کو

ہم تو بچپن میں شرارت بھی نہیں کر پائے


سرور خان سرور


ندیم اعجاز

 بدنامیوں کو نام کہو گے کہاں تلک

یوں پستیوں کو بام کہو گے کہاں تلک


اک اہل زر کا کھیل ہے دستورِ مملکت

اِس ظلم کو نظام کہو گے کہاں تلک


ڈھل جائے گی ہاں خود ہی یہ کیوں انتظار ہے

ظلمت کی شب کو شام کہو گے کہاں تلک


یہ جبر کا نظام کہو اب نہیں قبول

یوں تلخیوں کو جام کہو گے کہاں تلک


ندیم اعجاز


ریاض ساغر

 اک بھیڑ منزلوں کا پتہ پوچھتی رہی،

میں سر پھرا تھا آگے نکلنا پڑا مجھے۔


     "ریاض ساغر"

ڈاکٹر شاکر حسین اصلاحی

 در بدر زندگی ہے دنیا میں 

کیسی یہ بے بسی ہے دنیا میں 


زندگی کے نقوش ہیں مدھم  

موت کی آ گہی ہے دنیا میں 


ایک درویش کہتا جاتا تھا 

بے وطن آدمی ہے دنیا میں 


 ہر ضرورت کی شے میسر ہے 

بس تری اک کمی ہے دنیا میں 

 

چاہتیں، حسرتیں، تمنائیں

زندگی ڈھونڈھتی ہے دنیا میں


گرتی دنیا اگر نہیں سنبھلی

یہ صدی آخری ہے دنیا میں

 

ساری دنیا سکون ڈھونڈتی ہے

 بےکلی ہر گھڑی ہے دنیا میں 

 

صرف معبود کے سوا شاکر 

کچھ نہیں دائمی ہے دنیا میں


ڈاکٹر شاکر حسین اصلاحی


انس مسرور انصاری

 نظم مسیحائی


میں نےدیکھا ہےتجھ کو اکثر یوں

خوبصورت سی تیری آنکھوں میں

سرمئ شام کی اداسی ہے

رخ پہ گرد ملال کی صورت

اک پریشاں خیال کی صورت

جانےکس نام کی اداسی ہے

کون سادکھ ہے مضطرب کیوں ہے

کیا کوئی زخم بن گیا ناسور

تو کہ سر تاقدم تھی کیف و سرور

آکہ ہرغم کو تیرے بانٹ لوں میں

اپنا ہردرد سونپ دے مجھ کو

میں مسیحا نہیں مگرجاناں

تیرے ہرزہر غم کوپی لوں گا

تجھ کوخوش دیکھ کر میں جی لوں گا

اپنا سرمایہء نشاط و سرور 

میں ترے دل میں سب کےسب رکھ دوں

تیرے زخموں پہ اپنے لب رکھ دوں


انس مسرورانصاری


مرزا غالب

 نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا


کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا


جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے

سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا


آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے

مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا


بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا

موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا


آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ

موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا


شوخیٔ نیرنگ صید وحشت طاؤس ہے

دام سبزہ میں ہے پرواز چمن تسخیر کا


لذت ایجاد ناز افسون عرض ذوق قتل

نعل آتش میں ہے تیغ یار سے نخچیر کا


خشت پشت دست عجز و قالب آغوش وداع

پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا


وحشت خواب عدم شور تماشا ہے اسدؔ

جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا


مرزا غالب


صوفی تبسم

 اس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی 

دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی 


پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں 

جس سمت نظر اٹھی آواز تری آئی 


اک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ 

اک گوشۂ خلوت میں یہ دشت کی پہنائی 


اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے 

بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی 


افسونِ تمنا سے بے دار ہوئی آخر 

کچھ حسن میں بے تابی کچھ عشق میں زیبائی 


وہ مست نگاہیں ہیں یا وجد میں رقصاں ہے 

تسنیم کی لہروں میں فردوس کی رعنائی 


ان مدھ بھری آنکھوں میں کیا سحر تبسمؔ تھا 

نظروں میں محبت کی دنیا ہی سمٹ آئی


 صوفی تبسم


علامہ اقبال

 متاعِ بےبہا ہے درد و سوزِ آرزومندی

مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی


 ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا

یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی


حجاب اِکسیر ہے آوارۂ کوئے محبّت کو

مِری آتش کو بھڑکاتی ہے تیری دیر پیوندی


گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں

کہ شاہیں کے لیے ذلّت ہے کارِ آشیاں‌بندی


یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سِکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آدابِ فرزندی


زیارت‌گاہِ اہلِ عزم و ہمّت ہے لحَد میری

کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی


مِری مشّاطگی کی کیا ضرورت حُسنِ معنی کو

کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حِنابندی


علامہ اقبال


جاوید اختر

 خدایا دور کر دے کفر کے یہ جو اندھیرے ہیں

دلوں میں دین احمد کی ہمارے روشنی بھر دے

 یہ کوئی زندگی ہے آج جس کو جی رہے ہیں ہم

  مسلماں ہیں , مسلمانوں سی ہم میں زندگی بھر دے


جاوید اختر


ایس ڈی عابد

 مری زبان کو پاؤں کو بھی شکایت ہے

کہ مجھ سے میری نگاہوں کو بھی شکایت ہے 


میں چھوڑ کیوں نہیں دیتا انہیں سدا کے لیئے 

یہ مجھ سے میرے گناہوں کو بھی شکایت ہے 

 

وبائیں کر رہی ہیں قتلِ عام دنیا میں 

کوئی نہ کوئی وباؤں کو بھی شکایت ہے 


وبا کا ساتھ ہوائیں بھی دے رہی ہوں جہاں 

میں سوچتا ہوں ہواؤں کو بھی شکایت ہے


ہر ایک سمت ہے آلودگی سے آلودہ 

ہر ایک شہر کو گاؤں کو بھی شکایت ہے 


ملے گی اُسکو نہ جنت کبھی کوئی جس سے

گلہ ہے باپ کو ماؤں کو بھی شکایت ہے 


خدا کے نام پہ دیتے نہیں ہیں سِکہ بھی

امیر سے یہ گداؤں کو بھی شکایت ہے


وہ سوکھ جایا ہی کرتا ہے ایک دن عابدؔ

کہ جس درخت سے چھاؤں کو بھی شکایت ہے 


 ایس،ڈی،عابدؔ


بشیر فاروقی

 یوم پیدائش 20 مئی 1939


لوگو ہم چھان چکے جا کے سمندر سارے

اس نے مٹھی میں چھپا رکھے ہیں گوہر سارے


زخم دل جاگ اٹھے پھر وہی دن یار آئے

پھر تصور پہ ابھر آئے وہ منظر سارے


تشنگی میری عجب ریت کا منظر نکلی

میرے ہونٹوں پہ ہوئے خشک سمندر سارے


اس کو غمگین جو پایا تو میں کچھ کہہ نہ سکا

بجھ گئے میرے دہکتے ہوئے تیور سارے


آگہی کرب وفا صبر تمنا احساس

میرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے


دوستو تم نے جو پھینکے تھے مرے آنگن میں

لگ گئے گھر کی فصیلوں میں وہ پتھر سارے


خون دل اور نہیں رنگ حنا اور نہیں

ایک ہی رنگ میں ہیں شہر کے منظر سارے


قتل گہہ میں یہ چراغاں ہے مرے دم سے بشیرؔ

مجھ کو دیکھا تو چمکنے لگے خنجر سارے


بشیر فاروقی


ذوالفقار علی نقوی

 میری رہائی ہے یہاں اب کِس کے ہاتھ میں

جو قید ہو چکا ہوں میں اپنی ہی ذات میں


کرتا ہوں بات یوں تو بہت سوچ کر مگر

پھر نقص ڈھونڈتا ہوں میں اپنی ہی بات میں


سورج تلاش کرتا ہے دن بھر یہاں وہاں

جگنو بھی ڈھونڈتے ہیں اُسے رات رات میں


اُس نے دغا دیا تو نئی بات کیا ہوئی

اِک واقعہ ہے یہ بھی کئی واقعات میں


بازی لگا دی جان کی یہ جانتے ہوئے

مِلنی ہے مجھ کو جیت بھی اب میری مات میں


ذُلفی نہیں ہے تُو بھی مِرے مسئلے کا حل

تیرے سِوا ہیں اور بھی کچھ غم حیات میں


ذوالفقار علی ذُلفی


کرم حسین بزدار

 یوم پیدائش 19 مئی


یہ کیوں پوچھتے ہو کہ کیا ہے محبت

محبت خدا ہے خدا ہے محبّت


جو دشمن ہے جاں کا اسے جان سمجھے

زمانے سے بِالکل جدا ہے محبت


جگا دے نصیبوں کو جس کو ملے یہ

جو مل نہ سکے تو سزا ہے محبت


یہی درد دیتی ہے دنیا میں سب کو

ہر اک درد کی بس دوا ہے محبت


بھٹک کیسے جاتا جہاں میں بھلا میں

مری رہبر و رہنما ہے محبت


محبت کہ چکر میں جو بھی پڑا ہے

یہی کہہ رہا ہے بلا ہے محبت


کرم کرنے والا کبھی تو سنے گا

مرے دل کی تشنہ صدا ہے محبت


کرم حسین بزدار


شارق ریاض

 یوم پیدائش 19 مئی


وہ اچانک آ گیا جو مسکرا کے سامنے

ہو گیا کافور غم پھر غم رسا کے سامنے


تھا ارادہ ان سے میرا برملا اظہار کا 

لب نہ کھل پائے مگر اس دلربا کے سامنے


بے وفائی مجھ میں یا تیری وفا میں نقص تھا

فیصلہ ہو جائے گا اک دن خدا کے سامنے


موت ایسی شئے ہے جس پر زور کچھ چلتا نہیں 

سرنگوں ذی روح ہوتے ہیں فنا کے سامنے


کس قدر ظالم ہے شارق اس کا یہ انداز بھی

مہرباں ہے غیر پہ مجھکو بٹھا کے سامنے


شارق ریاض 


خورشید رضوی

 یوم پیدائش 19مئی 1942


یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے

یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے


کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی

وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے


میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں

یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے


وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی

یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے


یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں

کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے


وہ نگیں جو خاتم زندگی سے پھسل گیا

تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے


میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا

پہ جو وسوسے تہہ دام تھے مجھے کھا گئے


جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں

یہ جو زہر خندہ سلام تھے مجھے کھا گئے


خورشید رضوی


ہینسن ریحانی

 یوم پیدائش 19مئی 1922


رنگ یہ ہے اب ہمارے عشق کی تاثیر کا

حسن آئینہ بنا ہے درد کی تصویر کا


ایک عرصہ ہو گیا فرہاد کو گزرے ہوئے

آؤ پھر تازہ کریں افسانہ جوئے شیر کا


گلستاں کا ذرہ ذرہ جاگ اٹھے عندلیب

لطف ہے اس وقت تیرے نالۂ شب گیر کا


لیجئے اے شیخ پہلے اپنے ایماں کی خبر

دیجئے پھر شوق سے فتویٰ مری تکفیر کا


خواب ہستی کو سمجھنے کے لیے بے چین ہوں

اعتبار آتا نہیں مجھ کو کسی تعبیر کا


جس نے دی آخر غرور حسن یوسف کو شکست

اللہ اللہ حوصلہ اس دست دامن گیر کا


توڑ کر نکلے قفس تو گم تھی راہ آشیاں

وہ عمل تدبیر کا تھا یہ عمل تقدیر کا


گو زمانہ ہو گیا گلزار سے نکلے ہوئے

ہے مزاج اب تک وہی ریحانئ دلگیر کا


ہینسن ریحانی


وزیر آغا

 یوم پیدائش 18 مئی 1922


دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا

اب کہاں آئے گا وہ لوٹ کے آنے والا


ریت پر چھوڑ گیا نقش ہزاروں اپنے

کسی پاگل کی طرح نقش مٹانے والا


سبز شاخیں کبھی ایسے تو نہیں چیختی ہیں

کون آیا ہے پرندوں کو ڈرانے والا


عارض شام کی سرخی نے کیا فاش اسے

پردۂ ابر میں تھا آگ لگانے والا


سفر شب کا تقاضا ہے مرے ساتھ رہو

دشت پر ہول ہے طوفان ہے آنے والا


مجھ کو در پردہ سناتا رہا قصہ اپنا

اگلے وقتوں کی حکایات سنانے والا


شبنمی گھاس گھنے پھول لرزتی کرنیں

کون آیا ہے خزانوں کو لٹانے والا


اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری

رات کا آخری تارا بھی ہے جانے والا


وزیر آغا


عادل منصور

 عشق سےجب آشنا حسنِ زلیخا ہو گیا

مصر کے بازار میں یوسف کا سودا ہو گیا


عشق کی رعنایئوں سے آپ کیا واقِف ہوئے

گُفتگو میں آپ کی انداز پیدا ہو گیا


چاند تاروں سے نہ مٹ پایا اندھیرے کا وجود

ایک جُگنو کے چمکنے سے اُجالا ہو گیا


یہ کرشمہ ہم نے دیکھا بزمِ فتنہ ساز میں

جو تماشہ کرنے آیا خود تماشہ ہو گیا


کم نہ تھیں یوں بھی تو 'خالد' عشق کی نیرنگیاں

آپ کے آنے سے موسم اور سُہانا ہو گیا


خالد ندیم بدایونی


خالد ندیم بدایونی

 عشق سےجب آشنا حسنِ زلیخا ہو گیا

مصر کے بازار میں یوسف کا سودا ہو گیا


عشق کی رعنایئوں سے آپ کیا واقِف ہوئے

گُفتگو میں آپ کی انداز پیدا ہو گیا


چاند تاروں سے نہ مٹ پایا اندھیرے کا وجود

ایک جُگنو کے چمکنے سے اُجالا ہو گیا


یہ کرشمہ ہم نے دیکھا بزمِ فتنہ ساز میں

جو تماشہ کرنے آیا خود تماشہ ہو گیا


کم نہ تھیں یوں بھی تو 'خالد' عشق کی نیرنگیاں

آپ کے آنے سے موسم اور سُہانا ہو گیا


خالد ندیم بدایونی


آسناتھ کنول

 یوم پیدائش 17 مئی 1975


انتہا ہونے سے پہلے سوچ لے

بے وفا ہونے سے پہلے سوچ لے


بندگی مجھ کو تو راس آ جائے گی

تو خدا ہونے سے پہلے سوچ لے


کاسۂ ہمت نہ خالی ہو کبھی

تو گدا ہونے سے پہلے سوچ لے


یہ محبت عمر بھر کا روگ ہے

مبتلا ہونے سے پہلے سوچ لے


بچ رہے کچھ تیرے میرے درمیاں

فاصلہ ہونے سے پہلے سوچ لے


زندگی اک ساز ہے لیکن کنولؔ

بے صدا ہونے سے پہلے سوچ لے


آسناتھ کنول


عقیل فاروق

 وہ جو تھا وہ مل بھی جائے گا تو کیا

پھول دل کا کھل بھی پائے گا تو کیا

دیکھنا تنہا ہی ہم رہ جائیں گے

وہ ہمارے پاس آئے گا تو کیا


عقیل فاروق


محشر فیض آبادی

 عید کو جو نہ پٹے اس کا مقدر کیا ہے

مار کھائے نہ جو بیوی کی وه شوہر کیا ہے

جس کی تعریف میں بکواس کیا کرتا ہوں

آج تک اس نے یہ سمجھا نہیں محشر کیا ہے


محشر فیض آبادی


امیر مہدی

 یوم پیدائش 15 مئی


شورِ ماتم جو بپا ہو تو چلے جایئےگا

جان جب تن سے جدا ہو تو چلے جایئےگا


آپ سے دیکھا نہ جائے گا تڑپنا میرا

درد جب حد سے سوا ہو تو چلے جایئےگا


قبض کرنے کو مری روح سرہانے میرے

ملک الموت کھڑا ہو تو چلے جایئے گا


ہاتھ رکھ دیجئے سینے پہ کہ آ جائے قرار

دل کو آرام ذرا ہو تو چلے جایئےگا


صحنِ گلشن میں ابھی گرم ہوا چلتی ہے

آمد ِباد صبا ہو تو چلے جایئےگا


ابھی ڈوبے نہیں گردوں پہ ستارے جاناں

چاند جامن پہ. جھکا ہو تو چلے جایئےگا


امیر مہدی


گل جہاں

 یوم پیدائش 15 مئی 1983


کل صبج دیا رکھ دیا یوں میں نے افق پر

جلتا تھا جو سورج کی طرح بامِ فلک پر


کر دیتی ہے موجودگی تنہائی پہ افشاء

آتا ہے بہت غصہ مجھے اپنی مہٙک پر


تجھ رنگ سے واقف جو نہ ہوتی مری آنکھیں

انگشت بدندان میں ہو جاتا دھنک پر


تارا ہوں غلط برج کا کیا میرا مقدر

مٙیں ٹک نہیں پاتا کسی ابجد میں ، ورٙق پر


شاید کہ نکل آئیں محبت کے معانی

اک نظم اگر لکھوں میں عورت کی جھجھک پر


لا پاتا نہیں روح تلک کھینچ کے خود کو

گھس جاتا ہے یہ سارا بدن اندھی سڑک پر


گلیوں میں اندھیرے کا رہا گشت مسلسل

پر اپنا عقیدہ رہا جگنو کی چمک پر


تو سارے کا سارا تو مجھے ہضم نہ ہو گا

بھاری ہیں فقط آنکھیں مرے چودہ طبق پر


کیوں اِس سے ہر اک ذائقہ یہ زہر کی رد کیوں؟

پہنچے ہی نہیں فلسفی گل رازِ نمک پر


گل جہاں


خورشید احمد جامی

 یوم پیدائش 15 مئی 1915


کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صدا ہے کوئی

دل کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا ہے کوئی


ایک اک کر کے ابھرتی ہیں کئی تصویریں

سر جھکائے ہوئے کچھ سوچ رہا ہے کوئی


غم کی وادی ہے نہ یادوں کا سلگتا جنگل

ہائے ایسے میں کہاں چھوڑ گیا ہے کوئی


یاد ماضی کی پراسرار حسیں گلیوں میں

میرے ہم راہ ابھی گھوم رہا ہے کوئی


جب بھی دیکھا ہے کسی پیار کا آنسو جامیؔ

میں نے جانا مرے نزدیک ہوا ہے کوئی


خورشید احمد جامی


رنجور عظیم آبادی

 یوم پیدائش 15 مئی 1863


جنازہ دھوم سے اس عاشق جانباز کا نکلے

تماشے کو عجب کیا وہ بت دمباز آ نکلے


اگر دیوانہ تیرا جانب کہسار جا نکلے

قبور وامق و مجنوں سے شور مرحبا نکلے


ابھی طفلی ہی میں وہ بت نمونہ ہے قیامت کا

جوانی میں نہیں معلوم کیا نام خدا نکلے


کہاں وہ سرد مہری تھی کہاں یہ گرم جوشی ہے

عجب کیا اس کرم میں بھی کوئی طرز جفا نکلے


مرا افسانہ ہے مجذوب کی بڑ گر کوئی ڈھونڈے

نہ ظاہر ہو خبر اس کی نہ اس کا مبتدا نکلے


وہ میرے لاشے پر بولے نظر یوں پھیر کر مجھ سے

چلے حوروں سے تم ملنے نہایت بے وفا نکلے


ہمارا دل ہماری آنکھ دونوں ان کے مسکن ہیں

کبھی اس گھر میں جا دھمکے کبھی اس گھر میں آ نکلے


پڑا کس کشمکش میں یار کے گھر رات میں جا کر

نہ اٹھ کر مدعی جائے نہ میرا مدعا نکلے


تڑپتا ہوں بجھا دے پیاس میری آب خنجر سے

کہ میرے دل سے اے قاتل ترے حق میں دعا نکلے


دکھا کر زہر کی شیشی کہا رنجورؔ سے اس نے

عجب کیا تیری بیماری کی یہ حکمی دوا نکلے


رنجور عظیم آبادی


زہرا نگاہ

 یوم پیدائش 14 مئی 1937


نقش کی طرح ابھرنا بھی تمہی سے سیکھا

رفتہ رفتہ نظر آنا بھی تمہی سے سیکھا


تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت

اور ہر موج سے لڑنا بھی تمہی سے سیکھا


اچھے شعروں کی پرکھ تم نے ہی سکھلائی مجھے

اپنے انداز سے کہنا بھی تمہی سے سیکھا


تم نے سمجھائے مری سوچ کو آداب ادب

لفظ و معنی سے الجھنا بھی تمہی سے سیکھا


رشتۂ ناز کو جانا بھی تو تم سے جانا

جامۂ فخر پہننا بھی تمہی سے سیکھا


چھوٹی سی بات پہ خوش ہونا مجھے آتا تھا

پر بڑی بات پہ چپ رہنا بھی تمہی سے سیکھا


زہرا نگاہ


یاور حبیب ڈار

 دعا

تُو شاہِ جہاں خالقِ دو جہاں ہے

ترا بول بالا تُو کون و مکاں ہے


تری عظمتیں،رفعتیں،حاجتیں ہوں

گنہ در گُزر ہوں عطا رحمتیں ہوں


تُو شاہِ نشیں ہے تُو آقا ہے میرا

کروں دو جہاں بول بالا میں تیرا


ریاکار اور ہیں گنہ گار بندے

مگر ٹھہرے تیرے وفا دار بندے


کرم کی نظر ہو، دعا ہے ہماری

ہمیں پے عطا ہو کہ رحمت تمہاری


جگر چاک سینا کشادہ نہیں ہے

پلٹ جانے کا اب اِرادہ نہیں ہے


عطا رحمتوں، برکتوں کے جوازے

خدا اپنی رحمت سے سب کو نوازے


مصیبت ہیں تیرے یہ خوشیاں ہیں تیری

زمانے ہیں تیرے تو صدیاں ہیں تیری


یہ فریاد یاور کی سن لے خدایا

مجھے پاسِ الفت و رضا دے خدایا


یاور حبیب ڈار


خالد ندیم بدایونی

 اہلِ جہاں حریف ہمارے ہوئے تو کیا

ہم بھی ہیں آج وقت کے مارے ہوئے تو کیا


محراب و در کو پھر بھی اُجالے نہیں نصیب

آنگن میں میرے چاند ستارے ہوئے تو کیا


دل جب ہمارا خانۂ ویران ہو گیا

اُس وقت پورے خواب ہمارے ہوئے تو کیا


اب دید کی طلب ہے نہ ملنے کی آرزو

اُن کی طرف سے لاکھ اِشارے ہوئے تو کیا


پھولوں میں دِلکشی ہے نہ کلیوں پہ ہے نکھار

رنگین گلستاں کے نظارے ہوئے تو کیا


تابندگی نگاہ کی جب مر کے رہ گئ

اب آئیں وہ نقاب اُتارے ہوئے تو کیا


ہارا نہیں ہوں اب بھی محبّت کی جنگ میں

راہِ وفا میں مجھ کو خسارے ہوئے تو کیا


ساحل پہ لے کے جائے گا 'خالد' تمہارا عزم

دریا کے دور تم سے کنارے ہوئے تو کیا



خالد ندیم بدایونی

Thursday, May 13, 2021

انس مسرورانصاری

 شہر کی بھیڑ میں خود کو کبھی تنہا کرنا

اپنے ہونے کا نہ ہونےکا تماشا کرنا


میں بھی دیکھوں تری آنکھوں کی فسوں اندازی

اک ذرا میری طرف بھی رخ زیبا کرنا


کشتیء عمررواں حلقہء گرداب میں ہے

حوصلہ پھر بھی ہےموجوں کو کنارا کرنا


یہ اجالے تو سبب ہیں مری رسوائی کا

روشنی آنکھ میں چبھتی ہے، اندھرا کرنا


میرے خوابوں کو سلیقے سے ہنر آتا ہے

رنگ تصویر کا تصویر سے گہرا کرنا


فرصت یک نفس جاں بھی نہیں ہے مسرور

پھربھی آتا ہے ہمیں قطرے کو دریا کرنا


انس مسرورانصاری


Wednesday, May 12, 2021

شہباز انصاری

 یوم پیدائش 13 مئی 1961


نیند اب آتی ہے کیوں تاخیر سے

خُواب خالی رہ گیا تعبیر سے


رہزنوں نے رہبروں کےبھیس میں

پُوچھیئے مت کیا کِیا شمشیر سے


خُود بناتے ہو مِٹاتے ہوکبھی

کھیلتے ہو کیوں مِری تقدیر سے


گُمشدہ لوگوں کے وُرثاء کی فُغاں

رُک نہیں سکتی کِسی تعزیر سے


فیصلوں میں کچھ سُقم تو ہے کہیں

ڈر گیا قاضی مِری تحریر سے


آج بھی ہر شہر کا ہر اِک یزید

کانپتاہے نعرہِؑ تکبیر سے


باندھ سکتا ہے مسافر کِس طرح

اپنے پاوؑں وقت کی زنجیر سے


جب بھی دیکھوں میں تیری تصویر کو

جھانکتے رہتے ہو تم تصویر سے


کیا ہوا شہباز اب کیوں گھر کی راہ

پُوچھتے پِھرتے ہو ہر رہگیر سے


شہباز انصاری


خواجہ عزیز الحسن مجذوب

 جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے

مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے

کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے

جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے

مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے

ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گٔیٔ آسماں کیسے کیسے


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا

اسی سے سکندرسا فاتح بھی ہارا

ہر ایک چھوڑ کے کیاکیا حسرت سدھارا

پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹ سارا


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا

جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا

بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا

اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا

ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا

جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟

تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا


کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟

جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آ بھی

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے​


خواجہ عزیز الحسن مجذوب


نور الدین نور غوری

 یوم پیدائش 12 مئی 1954


اس طرح مصروف گر دست قضا رہ جائے گا

دیکھنا اک دن زمیں پر بس خدا رہ جائے گا


قید خانے میں بدلتی جا رہی ہے یہ زمیں

کیا یوں ہی یہ آسماں بس دیکھتا رہ جائے گا


خوف کی آندھی بجھا دے گی امیدوں کے دیئے

سوچتا ہوں قصر دل میں اور کیا رہ جائے گا


میرے اپنے ہی کریں گے یوں اگر طعنہ زنی

عمر بھر ہر زخم دل یوں ہی ہرا رہ جائے گا


خواب بن جائیں گی ساری محفلیں سب رونقیں

صرف کورونا کا ہر سو نقش پا رہ جائے گا


خاک میں مل جائے گی جب حوصلوں کی کہکشاں

بے بسی کا ٹمٹماتا بس دیا رہ جائے گا


نور ایسے موڑ پر لے آئی ہے اب زندگی

ہر کوئی اس موڑ پر تنہا کھڑا رہ جائے گا


نور الدین نور غوری


جلیل عالی

 یوم پیدائش 12 مئی 1945


ہدف رکھے ہوئے ہے ایک ہی ہر وار پیچھے

پڑا ہے رات دن کوئی مرے پندار پیچھے


سمے نے چھین لی ہے سوچ بینائی مگر دل 

برابر دیکھ لیتا ہے ابھی دیوار پیچھے


کہانی اوج امکانوں کی جانب بڑھ رہی تھی

کِیا کس کے کہے پر مرکزی کردار پیچھے


اور اب دستار دے کر سر بچائے جا رہے ہیں

کبھی کٹوا دیے جاتے تھے سر دستار پیچھے


ابھی تک سوچ اندھیاروں کی وحشت حکمراں ہے

کہا کس نے کہ انساں چھوڑ آیا غار پیچھے


چُنی ہے اپنی مرضی سے دلِ درویش نے جو

علم لہرا رہا ہے جِیت کا اُس ہار پیچھے


پسِ حرف و صدا عکسِ رجا یوں جھلملائیں

لِشکتی جھیل ہو جیسے گھنے اشجار پیچھے


سخن میں تو رہے وہ شہرِ خواب آباد عالی

قلم آگے نظر آئے جہاں تلوار پیچھے


جلیل عالی


عجیب ساجد

 نعت رسؐول مقبولؐ


مانگی ہے میں نے رب سے دعا نعت کے لیئے

لفظوں کو پھر ملی ہے رِدا نعت کے لیئے


یہ تیرے ہاتھ پاوں یہ چلتا ہوا قلم 

رب نے جو کچھ تجھے وہ دیا نعت کے لیئے


جتنے بھی رنگ،و،روپ ہیں سب اِس جہان میں

بادل ،فضا، گھٹا، یہ ہوا نعت کے لیئے


الفاظ کی لڑی یوں اُترتی چلی گئی

مانگی ہے جب سے میں نے دعا نعت کے لیئے


میں توخطیبِ شہر نہ شُعلہ بیان تھا

آقؐا بُلا رہے ہیں ، کہ، آ نعت کےلیئے


 تجھ کو لکِھے پڑھے کا یہ جتنا شعور ہے 

رب نے سُخن کیا ہے عطا نعت کے لیئے


لکِھے نہیں قصیدے کسی بادشاہ کے

جب بھی اُٹھا قلم تو اُٹھا نعت کے لیئے


اب زندگی کی اُسکو سمجھ آ گئ عجیب

جتنے بھی دن جیا،وہ، جیا نعت کے لیئے


عجیب ساجد


محشر فیض آبادی

 کس طرح میں آپ سے ملتا مہ رمضان میں 

لاک ڈاون چل رہا تھا پورے ہندوستان میں 

کیا کہیں اس سال محشر عید کی خوشیوں کے ساتھ 

مسکراہٹ سو گئی لوگوں کی قبرستان میں 


محشر فیض آبادی


شارق خلیل آبادی

 نظم ( پگلی اردو)


ابر خاماش تھا مغموم گھٹا بھی چپ تھی

چاند پھیکا تھا ستاروں کی ضیا بھی چب تھی

اشک آنکھوں میں لئے آج ہوا بھی چپ تھی

یعنی ماحول تھا چپ چاپ فضا بھی چپ تھی


ہاں مگر دور بہت دور کہیں کونے سے

ہلکی ہلکی سی کبھی روشنی آجاتی تھی

چند لمحوں کے لئے چیر کے سناٹے کو

چینخ اک شخص کی ماحول سے ٹکراتی تھی


میں بھی تھا وقت کا دربان وہاں جا پہنچا

کتنا غمناک سماں تھا وہ جو میں نے دیکھا

جسم اک بڑھیا کا اک کھاٹ پہ تھا رکھا ہوا

پاس ہی بیٹھی ہوئی بیٹیوں سے اس نے کہا


بیٹیوں تم کو مری عزت و عظمت کی قسم

بیٹیوں تم کو مرے پیا ر و محبت کی قسم

تم ہو جڑوا کبھی تم دونوں الگ مت ہونا

خون کے رشتے میں پنہاں مری شفقت کی قسم


تھی یہیں بات کہ اک موت کی ہچکی آئی

شمع اخلاص نے اک بارگی دم توڑ دیا

لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے شرابی کی طرح

شب کے ماحول نے اک ساغر جم توڑ دیا


چند لمحات سکوں کے نہ گزر پائے تھے

انقلابات زمانہ کا وہ طوفان اٹھا

جس نے دو پھول سی جانوں کو جدائی دے کر

ایک کو قصر میں اور اک کو قفس میں رکھا


ایک زندہ ہے تو اس دور میں شاہوں کے لئے

دوسری مفلس و نادار و گداؤں کے لئے

اک کی بہبودی پہ ہر دل کی نظر رہتی ہے

ایک مجبور ہے خود اپنی پناہوں کے لئے


ایسا کیوں کر ہے یہی سوچ کے اک دن من میں

جو مقید تھی وہ زنداں سے نکل آتی ہے

ہاتھ میں ہتھکڑی اور پاؤں میں پہنے بیڑی

نئے حالات سے ماحول کےگھبراتی ہے


شب کی تنہائی ہو یا دن کا کوئی ہنگامہ

حال دل سب سے نہیں خود سے کہا کرتی ہے

چینخ اٹھتی ہے کبھی سوچ کے ماضی اپنا

اور پھر زور سے پردرد صدا کرتی ہے


مخملی کپڑوں میں لپٹے ہوئے دولت والوں

اک نظر جسم غریباں پہ اٹھا کر دیکھو

تم نے جس چیز کو سمجھا ہے صفر کی مانند

اس کے اک زرے کو بھی ہاتھ لگا کر دیکھو


لوگ ہر سمت سے برساتے ہیں پتھر اس پر

آبرو اس کی سر عام لٹی جاتی ہے

جس طرف چلتی ہے ننگی وہ کھلی سڑکوں پر

نام سے پگلی کے منسوب ہوئی جاتی ہے


ہیں حقیقت میں یہی دونوں حقیقی بہنیں

ایک ہے" ہندی زباں" دوسری "پگلی اردو"

گردش وقت نے کچھ ایسا چلایا جادو

رہ گئے ہو کے جدا جسم کے دو بوند لہو


شارق خلیل آبادی


خالد وارثی

 یوم پیدائش 11 مئی 


پاس اُس کے آگر جگر ہوتا

چاہتوں کا مری اثر ہوتا


حُسن میں گر انا نہیں ہوتی

عشق رُسوا نہ در بدر ہوتا


آج ہوتا بہت بلندی پر

جھوٹ کہنے کا گر ہنر ہوتا


ہم محبت قبول کر لیتے

تیری رسوائی کا نہ ڈر ہوتا


تم تغافل اگر نہیں کرتے

تُم سے اچھا نہ ہم سفر ہوتا


مجھکو منزل ضرور مل جاتی

راہ بر تو مرا اگر ہوتا


دِل وہ پتھر کی مثل تھا "خالد"

کچھ بھی کہنے کا کیا اثر ہوتا


خالد وارثی


جاوید عارف

 دعا

ہے محبوب رب کو ادا مغفرت کی 

قرینے سے مانگو دعا مغفرت کی 


گناہوں میں ڈوبے الہی بہت ہیں 

کرم کی نگہ ہو عطا مغفرت کی 


سیاہ دل ہوا ہے گناہوں سے یارب 

عطا ہو ذرا اب دوا مغفرت کی


مدینے کی پر نور گلیوں میں مرنا

مقدر میں لکھ دے فضا مغفرت کی


کبھی ہاتھ خالی پلٹ کے نہ آیا

ترے در پہ جو دے صدا مغفرت کی

 

 کوئی آس عارف کو باقی نہیں ہے 

الہی تمہارے سوا مغفرت کی 


  جاوید عارف


منظور ثاقب

 یوم پیدائش 10 مئی 1945


قدم قدم ہے نیا امتحان میرے ساتھ

جو چل سکو تو چلو میری جان میرے ساتھ


بلندیوں پہ اکھڑنے لگے نہ سانس کہیں

سمجھ کے سوچ کے بھرنا اڑان میرے ساتھ


مجھے یقیں ہے مجھے فتح یاب ہونا ہے

زمیں تری ہے تو ہے آسمان میرے ساتھ


یہ کوفیوں کی روش تو مجھے قبول نہیں

کہ دل ہے ساتھ کسی کے زبان میرے ساتھ 


منظور ثاقب


نیاز احمد عاطر

 یوم پیدائش 10 مئی 1984


متاع غم سنبھال کر ترا فراق پال کر

میں مر گیا ہوں اپنی ذات سے تجھے نکال کر


چراغ زسیت بجھ گیا ترا فقیر لٹ گیا

میں خالی ہاتھ رہ گیا ہوں میرا کچھ خیال کر


الم کشوں سے دوستی ہے مے کدوں سے بیرہے

کسے ملوں کسے کہوں مرے لٸے ملال کر


اسی پہ میں الجھ گیا اسی پہ میں بھٹک گیا

جو پل کٹے ہیں ہجر میں شمار ماہ وسال کر


مرا جنون بڑھ گیا مرا سکون لٹ گیا

میں بد حواس ہو گیا ہوں شمع کو اجال کر


نیازاحمد عاطر


ذکی طارق

 یوم پیدائش 10 مئی 1972


شاباش،تمہیں حسن سراپا بھی ملا ہے

اور پیار میں مر مٹنے کا جذبہ بھی ملا ہے


صد مرحبا وہ ہے مرا محبوب کہ جس کو

مخمل سا بدن چاند سا چہرہ بھی ملا ہے


جب جوش میں دریائے کرم اس کا ہے آیا

ویسے بھی ملا بخت کا لکھّا بھی ملا ہے


یہ لطف بھی مجھ پر مرے اللہ کا دیکھو

دنیا بھی ملی ہے غمِ دنیا بھی ملا ہے


اے یار تری یاری پہ قرباں ہے مری جاں

دکھ میں ہی مجھے کیف سکوں کا بھی ملا ہے


صد آفریں اے عشق تری راہگزر میں

گلشن بھی ملے ہیں مجھے صحرا بھی ملا ہے


اک کیفیتِ عشق اگر ہو تو بتائیں

غم اس میں ملا،خوشیاں بھی،نشہ بھی ملا ہے


وہ،جس کو زمانہ ہوئے میں چھوڑ چکا ہوں

اس کے ہی لئے دل یہ دھڑکتا بھی ملا ہے


 ذکی طارق


حامد اقبال صدیقی

 یوم پیدائش 10 مئی 1958


ذرا سی بات ہو کیا کیا سوال کرتا ہے

مرا ہنر مجھے اکثر نڈھال کرتا ہے


وہ چاٹ لیتا ہے دیمک کی طرح مستقبل

تمہیں پتہ نہیں ماضی جو حال کرتا ہے


مرے وجود کو صدیوں کا سلسلہ دے کر

وہ کون ہے جو مجھے لا زوال کرتا ہے


بڑے قریب سے ہو کر گزر گئی دنیا

ملا نہ اس سے مرا دل کمال کرتا ہے


میں چاہتا ہوں مراسم بس ایک سمت چلیں

مگر وہ خود ہی جنوب و شمال کرتا ہے


دعا کا در تو سبھی کے لئے کھلا ہے مگر

جسے یقین ہو اس پر سوال کرتا ہے


حامد اقبال صدیقی


مجنوں گورکھپوری

 یوم پیدائش 10 مئی 1904

نظم بلبل


چمن میں لائی ہے پھولوں کی آرزو تجھ کو

ملا کہاں سے یہ احساس رنگ و بو تجھ کو

تری طرح کوئی سرگشتۂ جمال نہیں

گلوں میں محو ہے کانٹوں کا کچھ خیال نہیں

خزاں کا خوف نہ ہے باغباں کا ڈر تجھ کو

مآل کار کا بھی کچھ خطر نہیں تجھ کو

خوش اعتقاد و خوش آہنگ خوش نوا بلبل

جگر کے داغ کو پر نور کر دیا کس نے

تجھے اس آگ سے معمور کر دیا کس نے

یہ دل یہ درد یہ سودا کہاں سے لائی ہے

کہاں کی تو نے یہ طرز فغاں اڑائی ہے


تجھے بہار کا اک مرغ خوش نوا سمجھوں

کہ درد مند دلوں کی کوئی صدا سمجھوں

سوا اک آہ کے سامان ہست و بود ہے کیا

تو ہی بتا ترا سرمایۂ وجود ہے کیا

وہ نقد جاں ہے کہ ہے نالۂ حزیں تیرا

نشان ہستیٔ موہوم کچھ نہیں تیرا

اسے بھی وقف تمنائے یار کر دینا!

نثار جلوۂ گل جان زار کر دینا!


ہزار رنگ خزاں نے بہار نے بدلے

ہزار روپ یہاں روزگار نے بدلے

تری قدیم روش دیکھتا ہوں بچپن سے

ہے صبح و شام تجھے کام اپنے شیون سے

اثر پذیر حوادث ترا ترانہ نہیں؟

دیار عشق میں یا گردش زمانہ نہیں؟

نہ آشیانہ کہیں ہے نہ ہے وطن تیرا

رہے گا یوں ہی بسیرا چمن چمن تیرا


ترا جہان ہے بالا جہان انساں سے

کہ بے نیاز ہے تو حادثات امکاں سے

ترا فروغ فروغ جمال جاناں ہے

ترا نشاط نشاط گل و گلستاں ہے

تری حیات کا مقصد ہی دوست داری ہے

ترا معاملہ سود و زیاں سے عاری ہے

ازل کے دن سے ہے محو جمال جانانہ

رہے گی تا بہ ابد ماسوا سے بیگانہ

تجھے کس آگ نے حرص و ہوا سے پاک کیا

تمام خرمن ہستی جلا کے خاک کیا 


مجھے بھی دے کوئی داروئے خود فراموشی

جہاں و کار جہاں سے رہے سبکدوشی

متاع ہوش کو اک جستجو میں کھونا ہے

مجھے بھی یعنی ترا ہم صفیر ہونا ہے

''تو خوش بنال مرا با تو حسرت یاری است

کہ ما دو عاشق زاریم و کار ما زاری است


مجنوں گورکھپوری


قمر جمیل

 یوم پیدائش 10 مئی 1927


شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا

پھول بھی کیسے پھول تھے جن کو سخن کا حق نہ تھا


یار عجیب یار تھا جس کے ہزار نام تھے

شہر عجیب شہر تھا جس میں کوئی طبق نہ تھا


ہاتھ میں سب کے جلد تھی جس کے عجیب رنگ تھے

جس پہ عجیب نام تھے اور کوئی ورق نہ تھا


جیسے عدم سے آئے ہوں لوگ عجیب طرح کے

جن کا لہو سفید تھا جن کا کلیجہ شق نہ تھا


جن کے عجیب طور تھے جن میں کوئی کرن نہ تھی

جن کے عجیب درس تھے جن میں کوئی سبق نہ تھا


لوگ کٹے ہوئے ادھر لوگ پڑے ہوئے ادھر

جن کو کوئی الم نہ تھا جن کو کوئی قلق نہ تھا


جن کا جگر سیا ہوا جن کا لہو بجھا ہوا

جن کا رفو کیا ہوا چہرہ بہت ادق نہ تھا


کیسا طلسمی شہر تھا جس کے طفیل رات بھی

میرے لہو میں گرد تھی آئینۂ شفق نہ تھا


قمر جمیل


شمشاد شاؔد

 اپنی آغوش میں پالے ہیں پیمبر اس نے

باعثِ فخر ہے عورت کے لئے ماں ہونا 


شمشاد شاؔد


عقیل آسرا

 تمہاری انجمن میں بس خفا خفا ہوں میں

ہیں سب ملے جلے فقط جدا جدا ہوں میں


ہے مثلِ روشنی یہاں سبھی کے پیرہن

مرا بدن بجھا بجھا، بجھا بجھا ہوں میں


دوانگی مجھے یہاں خراب ہی رکھے

جنونیت میں کر رہا خدا خدا ہوں میں


مصیبتوں کی بارشیں تمام روک دیں

ابھی تو ایک عارضی سا بلبلا ہوں میں


یہ زندگی مری فقط ہے ناؤ نوحؑ کی

کہ جس کا سام حام اور ناخدا ہوں میں


فرشتے کیوں نہ رشک میری ذات پے کرے

غلامِ مصطفی ﷺغلامِ مرتضیﷺہوں میں


اے سو برس کے آسراؔ ذرا تو رک کے آ

کہ وقت ہے ابھی، ابھی ابھی رکا ہوں میں


عقیل آسراؔ


شمیم دانش

 یوم پیدائش 09 مئی 


اشک غم کر دیے دامن کے حوالے ہم نے

ہائے افسوس یہ موتی نہ سنبھالنے ہم نے


کوئی مشکل نہ تھا دشمن سے نمٹنا لیکن

آستینوں میں کئی سانپ جو پالے ہم نے


یہ بھی تیری ہی عطا تھی جو خدایا تیرے

حالت مرگ بھی احکام نہ ٹالے ہم نے


اب ہمارے لئے پھرتا ہے وہ نشتر لے کر

جن کے تلوؤں سے کبھی خار نکالے ہم نے


شمیم دانش


عنبر بہرائچی

 یوم وفات 07 مئی 2021


آج پھر دھوپ کی شدت نے بڑا کام کیا

ہم نے اس دشت کو لمحوں میں کنول فام کیا


میرے حجرے کو بھی تشہیر ملی اس کے سبب

اور آندھی نے بھی اس بار بہت نام کیا


روز ہم جلتی ہوئی ریت پہ چلتے ہی نہ تھے

ہم نے سائے میں کجھوروں کے بھی آرام کیا


دل کی بانہوں میں سجاتے رہے آہوں کی دھنک

ذہن کو ہم نے رہ عشق میں گم نام کیا


شہر میں رہ کے یہ جنگل کی ادا بھول گئے

ہم نے ان شوخ غزالوں کو عبث رام کیا


اپنے پیروں میں بھی بجلی کی ادائیں تھیں مگر

دیکھ کر طور جہاں خود کو سبک گام کیا


شاہراہوں پہ ہمیں تو نہیں مصلوب ہوئے

قتل مہتاب نے خود کو بھی لب بام کیا


جانے کیا سوچ کے پھر ان کو رہائی دے دی

ہم نے اب کے بھی پرندوں کو تہہ دام کیا


ختم ہو گی یہ کڑی دھوپ بھی عنبرؔ دیکھو

ایک کہسار کو موسم نے گل اندام کیا


عنبر بہرائچی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...