Urdu Deccan

Sunday, September 26, 2021

اعزاز احمد آذر

 یوم پیدائش 25 سپتمبر 1942


ان اجڑی بستیوں کا کوئی تو نشاں رہے 

چولھے جلیں کہ گھر ہی جلیں پر دھواں رہے 


نیرو نے بنسری کی نئی تان چھیڑ دی 

اب روم کا نصیب فقط داستاں رہے 


پانی سمندروں کا نہ چھلنی سے ماپیے 

ایسا نہ ہو کہ سارا کیا رائیگاں رہے 


مجھ کو سپرد خاک کرو اس دعا کے ساتھ 

آنگن میں پھول کھلتے رہیں اور مکاں رہے 


کاٹی ہے عمر رات کی پہنائیوں کے ساتھ 

ہم شہر بے چراغ میں اے بے کساں رہے 


آذرؔ ہر ایک گام پہ کاٹا ہے سنگ جبر 

ہاتھوں میں تیشہ سامنے کوہ گراں رہے


اعزاز احمد آذر


ماہناز بنجمن

 اک داغِ عشق یوں مری چادر میں آ گیا

سوچا نہیں تھا جو وہ مقدر میں آ گیا


بے اختیار ،عشق سے ، ۔پردہ اٹھا گیا

"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"


جب جب یہ زندگی مجھے بے آسرا لگی

سایہ کسی کے ہاتھ کا منظر میں آگیا


خوشبو سی آرہی ہے یہ کس کی قریب سے

دیکھوں تو اب یہ کون برابر میں آگیا


چشمِ طلب میں پیاس کی جب انتہا ہوئی

صحرا بھی چل کے آپ سمندر میں آگیا


رکھی تھی میں نے خود پہ بھی اتنی کڑی نظر

غدار کوئی کس طرح لشکر میں آگیا


مہمان جان کر اسے کیسے کروں وداع

"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"


ماہناز بنجمن


غلام بھیک نیرنگ

 یوم پیدائش 26 سپتمبر 1876


کٹ گئی بے مدعا ساری کی ساری زندگی

زندگی سی زندگی ہے یہ ہماری زندگی


کیا ارادوں سے ہے حاصل؟ طاقت و فرصت کہاں

ہائے کہلاتی ہے کیوں بے اختیاری زندگی


اے سر شوریدہ اب تیرے وہ سودا کیا ہوئے

کیا سدا سے تھی یہی غفلت شعاری زندگی


درد الفت کا نہ ہو تو زندگی کا کیا مزا

آہ و زاری زندگی ہے بے قراری زندگی


آرزوئے زیست بھی یاں یاں آرزوئے دید ہے

تو نہ پیارا ہو تو مجھ کو ہو نہ پیاری زندگی


اور مرجھائے گی تیری چھیڑ سے دل کی کلی

کر نہ دوبھر مجھ پہ اے باد بہاری زندگی


یاں تو اے نیرنگؔ دونوں کے لیے ساماں نہیں

موت بھی مجھ پر گراں ہے گر ہے بھاری زندگی


غلام بھیک نیرنگ


جتندر موہن سنہا رہبر

 یوم پیدائش 24 سپتمبر 1911


جیے جا رہا ہوں تجھے یاد کر کے

تصور کی دنیا کو آباد کر کے


پشیماں ہیں ہم عرض روداد کر کے

کرم ہی کیا تم نے بیداد کر کے


مجھے اس کی مطلق شکایت نہیں ہے

ستم پر ستم لاؤ ایجاد کر کے


کہاں رہیے اپنوں سے کر کے کنارا

ملا کیا ہے غیروں سے فریاد کر کے


ہمیں واسطہ ایسے صیاد سے ہے

کہ جو صید رکھتا ہے آزاد کر کے


برا کر رہے ہیں ترا نام لے کر

خطا کر رہے ہیں تجھے یاد کر کے


محبت سی شے اس نے مجھ کو عطا کی

کہ خوش خوش چلوں عمر برباد کر کے


جو چاہو شمار اپنا اہل سخن میں

پڑھو شعر رہبرؔ کو استاد کر کے


جتیندر موہن سنہا رہبر



سلمان ظفر

 یوم پیدائش 25 سپتمبر 1987


دنیا کا ذرہ ذرہ میاں عشق عشق ہے 

ادنیٰ ہو یا ہو آلا یہاں عشق عشق ہے 


جس روز ہم نے خواب میں دیکھا تھا آپ کو 

اس روز سے ہمارا مکاں عشق عشق ہے 


دنیا اسی لیے تو سمجھ ہی نہیں سکی 

یارو ہمارے دل کی زباں عشق عشق ہے 


آنسو جو تیری یاد میں ٹپکا تھا ایک شب 

رخسار پر جو ہے یہ نشاں عشق عشق ہے 


سلمانؔ کیسے لکھے گا اس کے جمال کو 

انکار سے بھی جس کے عیاں عشق عشق ہے


سلمان ظفر


بلراج کومل

 یوم پیدائش 25 سپتمبر 1928


دل کا معاملہ وہی محشر وہی رہا

اب کے برس بھی رات کا منتظر وہی رہا


نومید ہو گئے تو سبھی دوست اٹھ گئے

وہ صید انتقام تھا در پر وہی رہا


سارا ہجوم پا پیادہ چوں کہ درمیاں

صرف ایک ہی سوار تھا رہبر وہی رہا


سب لوگ سچ ہے با ہنر تھے پھر بھی کامیاب

یہ کیسا اتفاق تھا اکثر وہی رہا


یہ ارتقا کا فیض تھا یا محض حادثہ

مینڈک تو فیل پا ہوئے اژدر وہی رہا


سب کو حروف التجا ہم نذر کر چکے

دشمن تو موم ہو گئے پتھر وہی رہا


بلراج کومل


عروج زیدی بدایونی

 یوم پیدائش 25 سپتمبر 1912


خواب کا عکس کہاں خواب کی تعبیر میں ہے

مجھ کو معلوم ہے جو کچھ مری تقدیر میں ہے


میری روداد محبت کو نہ سننے والے

تجھ میں وہ بات کہاں جو تری تصویر میں ہے


پیکر خاک بھی ہوں باعث کونین بھی ہوں

کتنا ایجاز نمایاں مری تفسیر میں ہے


پھول بن کر بھی یہ احساس شگوفے کو نہیں

میری تخریب کا پہلو مری تعمیر میں ہے


حسن کے ساتھ تجھے حسن وفا بھی ملتا

اسی حلقے کی ضرورت تری زنجیر میں ہے


وسعت دامن رحمت کی قسم کھاتا ہوں

عذر تقصیر بھی داخل حد تقصیر میں ہے


ایک تہہ دار یہ مصرع ہے جواب خط میں

کس قدر شوخ بیانی تری تحریر میں ہے


کیا تماشا ہے یہ اے پائے جنون رسوا

کبھی زنجیر سے باہر کبھی زنجیر میں ہے


جانے کب اس پہ اجالے کو ترس آئے گا

وہ سیہ پوش فضا جو مری تقدیر میں ہے


گفتگو ہوتی ہے اکثر شب تنہائی میں

ایک خاموش تکلم تری تصویر میں ہے


میری نظروں میں یہی حسن تغزل ہے عروجؔ

شعر گوئی کا مزا پیروی‌‌ میرؔ میں ہے


عروج زیدی بدایونی


زبیر حمزہ

 یوم پیدائش 24 سپتمبر 


ستم شعار زمانے نے حوصلے نہ دیے

رہِ سیاہ پہ پھینکا ، مگر دیے نہ دیے


بہت سے واقعے ایسے گزر گئے ہیں کہ جو

ترے جمال کی عادت نے دیکھنے نہ دیے


"ہمارے بعد مزارِ وفا کو دیکھو تو ،،

کہیں نہ پھول نہ خوشبو نہ طاقچے نہ دیے


جدائیاں بھی نہ پندارِ دل مٹا پائیں

کہ راستے تو دیے دل نے ، واسطے نہ دیے


بھرے جہان سے چن کر مجھے مقدر نے

جو چند لوگ دیے بھی ، تو کام کے نہ دیے


زبیر حمزہ


سنگم جبلپوری

 یوم پیدائش 24 سپتمبر 1954


دلکشی تھی زندگی کے ساز میں

جب تیری لے تھی میری آواز میں


بے اثر ہے تیرا اندازِ بیان

بات کہہ کچھ تو نئے انداز میں


وہ پرندے آج تک لوٹے نہیں

جو ہمارے ساتھ تھے پرواز میں


اب ہر ایک چہرے پہ ہیں چہرے کئی

کیسے پہچانو گےتم آغاز میں


میں نے نام اس کا قیامت رکھ دیا

وہ ملا سنگھم اسی انداز میں 


سنگم جبلپوری


کرامت علی کرامت

 یوم پیدائش 23 سپتمبر 1936


گلاب مانگے ہے نے ماہتاب مانگے ہے

شعور فن تو لہو کی شراب مانگے ہے


وہ اس کا لطف و کرم مجھ غریق عصیاں سے

گناہ مانگے ہے اور بے حساب مانگے ہے


ہوس کی باڑھ ہر اک باندھ توڑنا چاہے

نظر کا حسن مگر انتخاب مانگے ہے


کہاں ہو کھوئے ہوئے لمحو! لوٹ کر آؤ

حیات عمر گزشتہ کا باب مانگے ہے


مرے کلام میں طاؤس بھی ہے شاہیں بھی

سناں کے ساتھ مرا فن رباب مانگے ہے


چڑھا رہا ہے صلیبوں پہ ہم کو صدیوں سے

زمانہ پھر بھی مقدس کتاب مانگے ہے


نہ جانے کتنی گھٹائیں اٹھی ہیں راہوں میں

مگر ہے پیاس کہ ہر دم سراب مانگے ہے


ہے زخم خوردہ مرے دل کا آئنہ ایسا

خرد کی تیغ سے تھوڑی سی آب مانگے ہے


وہ میری فہم کا لیتا ہے امتحاں شاید

کہ ہر سوال سے پہلے جواب مانگے ہے


بکھر گیا تھا جو کل رات کرچیوں کی طرح

مری نگاہ وہ ٹوٹا سا خواب مانگے ہے


کرامت اس سے جو پوچھوں کہ زندگی کیا ہے

جواب دینے کے بدلے حباب مانگے ہے


کرامت علی کرامت


نور محمد یاس

 کون ہے مجھ میں یہ خدشات کا بونے والا

ذہن کے پھول میں کانٹے سے چبھونے والا


انتقام ایسا لیا ذوقِ متانت نے کہ اب

ہنسنے والا ہے کوئی مجھ پہ نہ رونے والا


کروٹیں لیتے ہیں معصوم زمانے مجھ میں

جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا


ہارنے والے پہ اتنا ہی سکوں طاری ہے

جتنا مسرور ہے مغلوب نہ ہونے والا


اجنبی رہ نہیں سکتا کسی صورت لوگو!

اپنی خوشبو مری سانسوں میں پرونے والا


میں اُسے یاد رکھوں گا وہ بُھلا دے گا مجھے

اور کچھ اس کے علاوہ نہیں ہونے والا


یاسؔ کی چال سے اے سطح نشینو! بچنا

تہہ میں پہنچاکے وہ تمکو ہے ڈبونے والا


نور محمد یاس


اسامہ بابر ماحی

 وفاؤں کا مری وہ یوں صلہ دے گا

ہنسا دے گا کبھی مجھ کو رلا دے گا


اسے بھیجی تھی جب سوچا کہاں تھا یار

مری تصویر کو ظالم جلا دے گا


وہ آئے گا رقیبوں کو لئے ہمراہ

خبر کیا تھی مری نیندیں اڑا دے گا


محبت تھی مجھے جس سے قسم اس کی

کبھی لگتا نہ تھا ایسے دغا دے گا


امیدوں پر مری پورا وہ اترا ہے

مجھے معلوم تھا پاگل بنا دے گا


جہاں تک ہو سکا میں نے وفا کی ہے

مجھے اس کا اجر میرا خدا دے گا


جسے جینا سکھایا تھا کبھی ماحی

وہی اب خود کشی کا مشورہ دے گا


اسامہ بابر ماحی


نائلہ راٹھور

 شوق جنوں کہاں سے ستمگر میں آگیا 

نکلا تھاسوئے صحرا مرے گھر میں آگیا 


جب تک چھپا رہا مری عزت بنی رہی 

ظاہر ہوا جو راز تو منظر میں آگیا 


جراءت پہ اسکی رہ گئ ہو کر میں دم بخود 

"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا "


مدت کے بعد آج وہ آیا جو سامنے

اک حوصلہ مرے دل مضطر میں آگیا 


منزل کو پا سکے گا نہ پھر قافلہ کبھی

رہزن کا خوف گر دل رہبر میں آگیا 


نائلہ راٹھور


زاہد خانزادہ

 یوم پیدائش 23 سپتمبر 1991


 کائناتِ حسین کا مرکز

 میں زمان و زمین کا مرکز


تو تدبر کی آخری حد ہے

تو خیالِ حسین کا مرکز


یا خدا حرفِ مدعا بھی تو

تو ہی عین الیقین کا مرکز


یہ رہائش ہے میرے یاروں کی

یہ مری آستین کا مرکز


بعد کِھلنے کے تیرا جُوڑا ہے

ہر گلِ عنبرین کا مرکز


خانقاہوں میں آ بسی دنیا

لٹ گیا صالحین کا مرکز


 فلسفہ فلسفی میں ڈوب گیا

 بن گیا عشق دین کا مرکز

 

 آنکھ کا اور دل دماغ کا بھی

 ایک ہے میرے تین کا مرکز

 

 میرا مرکز زمین تھی پہلے

 اب کہ میں ہوں زمین کا مرکز

  

 آستانہ ہوں میں فقیروں کا

 میں نہیں کم ترین کا مرکز

ز اہد خانزادہ


عمر انصاری

 یوم پیدائش 23 سپتمبر 1912


ہیں سارے جرم جب اپنے حساب میں لکھنا

سوال یہ ہے کہ پھر کیا جواب میں لکھنا


برا سہی میں پہ نیت بری نہیں میری

مرے گناہ بھی کار ثواب میں لکھنا


رہا سہا بھی سہارا نہ ٹوٹ جائے کہیں

نہ ایسی بات کوئی اضطراب میں لکھنا


یہ اتفاق کہ مانگا تھا ان سے جن کا جواب

وہ باتیں بھول گئے وہ جواب میں لکھنا


ہوا محل میں سجایا تھا تم نے جب دربار

کوئی غریب بھی آیا تھا خواب میں لکھنا


نہ بھولنا کہ عمرؔ ہیں یہ دوستوں کے حساب

کبھی نہ پڑھنا جو دل کی کتاب میں لکھنا


عمر انصاری


عجیب ساجد

 وفا کے موڑ پہ بِچھڑے تو ہمسفر نہ ملے

ہم ایک شہر میں رہ کر بھی عمر، بھر نہ ملے 


ہوئے ہیں ایسے ترے بعد خیر خواہ ترے

بھرے جہاں میں جنہیں اپنی بھی،خبر نہ ملے 


وفا سے پال کے پودے کو ہم نے کیا کرنا

پڑے جو وقتِ ضرورت کبھی، ثمر نہ ملے


چلے تھے قافلے دل سے جو لے کے اپنوں کو

وہ جب سفر سے ہیں پلٹے تو ان کو،گھر نہ ملے 


بہت عجیب سی حالت میں ہم وہاں پہنچے 

کہا بھی دل نے اُسے مل لیں ہم ،مگرنہ ملے 


عجیب ساجد


گلفام نقوی

 فطرت کا حُسن جب کسی منظر میں آ گیا

نظم حیات مرکز و محور میں آ گیا


اس نے نظر نظر سے ملائی تو رنگ و نور

پُھولوں میں آ گیا مہہ و اختر میں آ گیا


دل میں ہجوم درد جو دیکھا تو یُوں لگا 

دل میرا جیسے عرصہ ء محشر میں آ گیا


اقرار عشق اس نے کیا مجھ سے جس گھڑی

ایسے لگا جہاں مر ی ٹھوکر میں آ گیا


دیوانگی کہوں کہ اسے سادگی ؛ وہ شخص

"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آ گیا"


پھر کون ھو گا موتیوں ہیروں کا قدر دان

گوہر کا عکس گر کسی کنکر میں آ گیا


دیکھے ھیں ٹی وی پر وہ مناظر کے الاماں

طوفانِ بدتمیزی ہر اک گھر میں آ گیا


گلفام دشمنی بھی تو لگتی ھے دوستی

سودائے عشق جب سے مرے سر میں آ گیا


گلفام نقوی


جاوید احمد خان جاوید

 یوم پیدائش 22 سپتمبر 


بڑے یقیں سے اُدھر یہ ہوا نکلتی ہے

لئے چراغ کا جیسے پتہ نکلتی ہے


غُرور کُچھ بھی نہیں ہے بلندی کا اُس کو 

گو زندگی مِرے قد سے ذرا نکلتی ہے  


فضا میں رقص کرے ، دل لُبھائے وہ لیکن 

غُبارہ پھٹتے ہی ساری ہوا نکلتی ہے


تمام لفظ چمکتے ہیں موتیوں جیسے  

لبوں سے حق کی ہمیشہ صدا نکلتی ہے

 

قدم قدم پہ سجائی ہُوئی ہے یادوں سے 

بڑی حسین دھنک جا بجا نکلتی ہے 


وہ چاند دِن کو پُرانا کِئے گیا جاویدؔ 

یہ دُھوپ رات کو کرکے نیا نکلتی ہے 


جاوید احمد خان جاویدؔ


Tuesday, September 21, 2021

محمد عارف

 رِہ نوردِ شوق ہُوں اور رہگزر مشکل بھی ہے

مضطرب مَیں ہی نہیں ہوں مضطرب منزل بھی ہے


بچ کے آیا ہوں بھنور سے پھر بھی مَیں مشکل میں ہوں

کیونکہ میری گھات میں موجیں بھی تھیں ساحل بھی ہے


غم سے سینے کو مِرے چھلنی کیے دیتا ہے تُو

میرے سینے میں دھڑکتا دیکھ تیرا دل بھی ہے

 

دوستی کو دے رہے ہو فوقیت رشتوں پہ تم

دوستوں کے درمیاں ہی دیکھنا قاتل بھی ہے


حُسن سبقت لے گیا ہے چودھویں کے چاند پر   

فرق اِتنا ہے کہ، اُن کے رُخ پہ کالا تل بھی ہے


نہ سمجھ پایا کبھی میں غم کی اِس تفریق کو

حاصلِ غم ہی مِرا شاید غمِ حاصل بھی ہے


محمد عارف


بلال آدر

یوم پیدائش 21 سپتمبر 

سیاہ رات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں 
جو حادثات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں

مسافرانِ جنوں موت کے سمندر میں 
کبھی حیات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں

ہمارے بس میں میاں گھر تلک بنا لینا 
سو کائنات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں

محبتوں کا حسیں کھیل کھیلنے والے 
وبالِ مات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں

جہانِ غم میں وہی کامیاب ہیں آدر 
جو اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہی نہیں

بلال آدر

اکرم تلہری

 باغ دل مسکرانے والا ہے 

میرا محبوب آنے والا ہے 


مفلسی آئے گی نہ اس گھر میں 

جس میں کوئی کمانے والا ہے 


میرے مرنے کے بعد میرے لئے 

کون آنسو بہانے والا ہے 


نام دے کر کوئی محبّت کا 

میری قیمت لگانے والا ہے 


روٹھ جاتا ہوں اس لئے یارو 

کوئی مجھ کو منانے والا ہے 


میری آنکھوں سے آج کل اکرم 

کوئی نیندیں چرانے والا ہے 


اکرم تلہری


حمیرا اکبر

 جب تیرے التفات کے محور میں آگیا 

دل بھی شمارِ برتر وبہتر میں آگیا 


مستانہ چال چلتا ہوا آج پھر کوئی

"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"


آتے ہو میرے دل کونشانہ کیے ہوئے 

یہ دم کہاں سے آپ کے خنجر میں آگیا 


میں سکھ کی چادر اوڑھ کے سوئی ہی تھی کہ دکھ 

"دستک دیے بغیر میرے گھر میں آ گیا" 


میں خوش نصیب ہوں کہ مری جستجو کا خواب 

تعبیر بن کے آپ کے پیکر میں آگیا


ناکامِ راہِ شوق سمجھنا نہ تم اُسے

تھک ہار کر جو کوچہء دلبر میں آگیا


کیا جانیے کہ کس گھڑی تنہائیوں کا خوف 

"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"


یہ ہے حمیراؔ عشقِ حقیقی کا معجزہ 

جو کچھ چھپا ہوا تھا وہ منظر میں آگیا


حمیرا اکبر


شائستہ مفتی

 یوم پیدائش 21 سپتمبر 1968


یہ رقص زندگی کا لہو میں دھمال ہے

چل جائے جو زمانہ قیامت کی چال ہے


کیوں راستـے میں چھوڑ گئــے، تھے جو ہمسفر

اپنی نظر سے الجھا ہوا اک سوال ہے


کہہ دیجئے وہ بات جو اخفا ہے اب تلک

کیجے نہ کچھ خیال جو شیشے میں بال ہے


آئی بہار، عکس نظر آ گیا ہمیں!

ہاتھوں میں جیسے پھولـوں بھرا ایک تھال ہے


خوشبو کے جیسے پھیل گئی اپنی داستاں

کھولیں جو ہم زبان، کہاں یہ مجال ہے


آنکھوں میں آ کے ٹھہر گئی خواب کی تھکن

بوجھل ہے رات، چاند کی کرنوں کا جال ہے


اپنے اصول اپنے تھے، سودا نہ کر سکے

تم سے بچھڑ کے شہر میں قحط الرجال ہے


درویش ہے پڑاؤ ہے جنگل کے آس پاس

کہتے ہیں لوگ اس کو بہت مالا مال ہے


دل بستگی کا کوئی بہانہ تلاش لیں

کہہ دیں کہ اس خزاں میں بھی تیرا جمال ہے


شائستہ مفتی


ابن عظیم فاطمی

 یوم پیدائش 21 سپتمبر 


ہم اپنے رنج و الم کا حساب رکھتے ہیں

بسا ہوا کوٸی آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں


ہمارے نام پہ چہرہ ہوا ہے زرد یہ کیوں

براٸی چاہنے والے یہ تاب رکھتے ہیں


 چمن کی عمر ہی کیا خوشبوٶں کی قسمت کیا

کہ ان کے ساتھ کے رستے سراب رکھتے ہیں


ہمیں بھی ہوتا ہے دکھ آپ سے بچھڑنے کا

ہم اپنے پاس بھی اک دل جناب رکھتے ہیں


نہ جانے کون سے رستے سے لوٹ آۓ وہ

چراغ جلتے ہوۓ باب باب رکھتے ہیں


دعاۓ نیم شبی جن کا وصف رہتا ہے

وہ ہر قدم کو بہت کامیاب رکھتے ہیں


ہمارا واسطہ ان سے ہی عمر بھر کا ہے جو

"دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں"


خطا پہ اپنی ندامت انھیں نہ ہوگی عظیم

جو ترش رو ہیں جو لہجہ خراب رکھتے ہیں


(مصرع:" دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں"۔۔۔۔راحت اندوری)


ابن عظیم فاطمی


ابرار ابہام

 کمتر کے حال پر نہ سکندر کے حال پر

اُن کی نگہ ہے قلبِ منور کے حال پر 


مجھ ڈوبتے کو چھوڑ کے ساگر کے حال پر 

الزام ڈالتا ہے مقدر کے حال پر


راحت، سکون، خواہشیں سب کچھ نگل گیا 

افسوس آدمی نما اژدر کے حال پر

 

شاہِ دروغ گو سے ہیں نادان لوگ خوش

کرتا نہیں نظر کوئی بےگھر کے حال پر


حیلہ گری سے کام لیا دوستوں کے بیچ

ابہاؔم جب توجہ ہوئی گھر کے حال پر


ابرار ابہاؔم


سردار سلیم

 یوم پیدائش 20 سپتمبر 1973


کوئی زنجیرِ طلسمات نہیں چھو سکتی

سچ کو اوہام کی بہتات نہیں چھو سکتی


میری ہستی ہے اندھیروں کی پہنچ سے باہر

میں سویرا ہوں مجھے رات نہیں چھو سکتی


یہ ہتھیلی ہے وہ خوددار ہتھیلی صاحب

جس کو زردار کی خیرات نہیں چھو سکتی


آپ کے دل نے کبھی چوٹ نہیں کھائی ہے

آپ کے دل کو کوئی بات نہیں چھو سکتی


کیسے ہو سکتا ہے ہم جیسوں کے رہنے لائق

وہ نشیمن جسے برسات نہیں چھو سکتی


ہے مرا ہاتھ مرے یار کے ہاتھوں میں سلیم

غم کی پرچھائیں مرا ہاتھ نہیں چھو سکتی

سردار سلیم


عرش ملسیانی

 یوم پیدائش 20 سپتمبر 1908


خودی کا راز داں ہو کر خودی کی داستاں ہو جا

جہاں سے کیا غرض تجھ کو تو آپ اپنا جہاں ہو جا


بیان پایمالی شکوۂ برق تپاں ہو جا

گلستان جہاں کے پتے پتے کی زباں ہو جا


شریک کارواں ہونے کی گو طاقت نہیں تجھ میں

مگر اتنی تو ہمت کر کہ گرد کارواں ہو جا


تزلزل سے بری ہو تیرا استقلال الفت میں

یقین پر یقیں ہو جا گمان بے گماں ہو جا


کسی صورت تو شرح آرزوئے شوق کرنی ہے

زباں چپ ہے اگر اے دل تو آپ اپنی زباں ہو جا


زمانے پر بھروسا کر نہ راز عشق کا اے دل

جہاں تک ہو سکے تو آپ اپنا رازداں ہو جا


تجھے داغوں کے لاکھوں ماہ و انجم مل ہی جائیں گے

اٹھ اے درد دل پر آہ اٹھ کر آسماں ہو جا


کبھی تو عارضی سا اک تبسم لب پہ آنے دے

کبھی تو مہرباں مجھ پر مرے نا مہرباں ہو جا


ترے آنے پہ اے تیر نگاہ ناز میں خوش ہوں

دل بیتاب میں آ کر حساب دوستاں ہو جا


بلندی نام سے اے عرشؔ مل سکتی نہیں تجھ کو

زمین شعر پر اوج سخن سے آسماں ہو جا


عرش ملسیانی


باقی صدیقی

 یوم پیدائش 20 سپتمبر 1905


ہم چھپائیں گے بھید کیا دل کا

رنگ آنکھوں میں آ گیا دل کا


زندگی تیرگی میں ڈوب گئی

ہم جلاتے رہے دیا دل کا


تم زمانے کی راہ سے آئے

ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا


زندگی بھر کوئی پتہ نہ چلا

دور گردوں کا، آپ کا، دل کا


وقت اور زندگی کا آئینہ

نوک غم اور آبلہ دل کا


آنکھ کھلتے ہی سامنے باقیؔ

ایک سنسان دشت تھا دل کا


باقی صدیقی


عدل اشرف

 مقبول عوام کب ہوا میں 

اک ماہ تمام کب ہوا میں 


آنکھوں کا پیام کب ہوا میں 

ابرو کا غلام کب ہوا میں 


ہر بات قلم سے کرتا ہوں میں 

لہجے کا غلام کب ہوا میں 


سورج کا ستم ستم سہا ہے 

بارش کا مقام کب ہوا میں 


سب لفظ تھے ان کہے مسلسل 

اک حرف دوام کب ہوا میں 


آزاد خیال ہوگیا کیا ؟ 

اس دشت میں دام کب ہوا میں 


عادل اشرف


ریاض حازم

 تم کو ہی اپنی جان رکھنا ہے

ہم نے پھولوں کا مان رکھنا ہے


لاکھ دعوے کرے گی دنیا مگر

کون اپنا ہے دھیان رکھنا ہے


چند دشمن نہیں مجھے کافی

کم سے کم بھی جہان رکھنا ہے


عشق کی داستاں سنانی ہے

درد کو ترجمان رکھنا ہے


میرا دستورِ عشق ایسا ہے

بے وفا کو مہان رکھنا ہے


اب پرکھنا نہیں کسی کو بھی

جو بھی ہو خاندان رکھنا ہے


ریاض حازم


ایس ڈی عابد

 ابتداء کی بات کر یا انتہا کی بات کر

اوّل و آخر ہیں پیارے مُصطفیٰ کی بات کر


راستے وہ جانتے ہیں سب جہانوں کے سبھی 

بات کر تحتُ الثرٰی یا مُنتہٰی کی بات کر 


مشکلیں سب دور تیری دفعتاً ہو جائیں گی

مشکلوں میں مولاءِ مشکل کُشا کی بات کر 


زندگی پُرنور تیری دیکھنا ہو جائے گی

غم کی کالی رات میں بٙدرِالدُجٰی کی بات کر 


ہے ہدایت کی تمنا یا اماں کی آرزو

بات کر نُورِالھُدٰی کٙھفِ الوٙریٰ کی بات کر


کیوں بلندی میں نہ بدلیں گی تمہاری پستیاں

کر کے اشکوں سے وضو صدرِالعُلٰی کی بات کر


تُو اگر یہ چاہتا ہے سب سُنیں باتیں تری 

منبعءِ اخلاق پیارے مُجتبٰی کی بات کر


خیر کی خواہش اگر عابدؔ تمہارے دل میں ہے

والیءِ دونوں جہاں خیرِالورٰی کی بات کر 


 ایس،ڈی،عابدؔ


غلام جیلانی سحر

 توڑ نے ظلم کی زنجیر چلو چلتے ہیں

ہو نہ جائے کہیں تاخیر چلو چلتے ہیں


کفر کی ہر کھڑی دیوار گرا ڈالیں گے

کہہ کے پھر نعرۂ تکبیر چلو چلتے ہیں


ظلم کی اٹھ رہی گردن کو اڑانے کے لیے

لےکےاب حیدری شمشیر چلو چلتےہیں


وہ جواک خواب کئی بار ہیں دیکھے ہم نے

کرنے شرمندۂ تعبیر چلو چلتے ہیں


غلام جیلانی قمر


عجیب ساجد

 اُس سے کہنے کی چھوڑ دو خواہشں 

درد سہنے کی چھوڑ دو خواہش 


ایک صورت ہے زندہ رہنے کی 

زندہ رہنے کی چھوڑ دو خواہش 


میں تو پیتل کا لا نہیں سکتا

بیٹا گہنے کی چھوڑ دو خواہش 


جب نہیں اِذن اُس کی محفل میں

اشک بہنے کی چھوڑ دو خواہش 


اُس کے پہلو میں لوگ بیٹھے ہیں 

تم ہی رہنے کی چھوڑ دو خواہش 


عجیب ساجد


گیان چند جین

 یوم پیدائش 19 سپتمبر 1933


ڈگمگاتا لڑکھڑاتا جھومتا جاتا ہوں میں

تجھ تک اے باب فنا سینے کے بل آتا ہوں میں


شہر کی باریکیوں میں پھنس گیا ہوں اس طرح

چین کی اک سانس کی مہلت نہیں پاتا ہوں میں


جب بھی ریگستانوں میں جانے کا ہوتا اتفاق

گھٹنے گھٹنے ذات کی پرتوں میں دھنس جاتا ہوں میں


چل کے باغ‌ سیب میں اوراق‌ جمشیدی پڑھوں

اپنی کیفیت سے خود کو بے خبر پاتا ہوں میں


گوشے گوشے میں فروزاں آتش لب ہائے سرخ

اس شفق میں دم بہ دم آنکھوں کو نہلاتا ہوں میں


آہ وہ آنکھیں کہ جن کے گرد ہے اودا غبار

گہہ کنوئیں میں ڈوبتا ہوں گہہ ابھر آتا ہوں میں


گیان چند جین


خمار بارہ بنکوی

 یوم پیدائش 19 سپتمبر 1919


نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے

دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے


سکوں ہی سکوں ہے خوشی ہی خوشی ہے

ترا غم سلامت مجھے کیا کمی ہے


کھٹک گدگدی کا مزا دے رہی ہے

جسے عشق کہتے ہیں شاید یہی ہے


وہ موجود ہیں اور ان کی کمی ہے

محبت بھی تنہائی دائمی ہے


چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں

نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے


ارے او جفاؤں پہ چپ رہنے والو

خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے


مرے راہبر مجھ کو گمراہ کر دے

سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے


خمارؔ بلا نوش تو اور توبہ

تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے


خمار بارہ بنکوی


احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں : بیاد سخنور ممتاز برصغیر ضیا شہزاد مرحوم

تاریخ وفات 17 ستمبر 2021


صدمہ جانکاہ ہے رحلت ضیا شہزاد کی

لوح دل پر ثبت ہے شفقت ضیا شہزاد کی


ختم ہوسکتی نہیں ہرگز کبھی بعد از وفات

اردو دنیا میں ہے جو عظمت ضیا شہزاد کی


تھے سپہر فکرو فن پر وہ ہمیشہ ضوفگن

اس لٸے تھی ہرطرف شہرت ضیا شہزاد کی


ان کے ہیں قطعات عصری حسیت کے ترجماں

ہے نمایاں ذہن کے رفعت ضیا شہزاد کی


عصری منظرنامے میں حاصل انھیں تھا امتیاز

اس لٸے کرتے تھے سب عزت ضیا شہزاد کی


جنت الفردوس میں درجات ہوں ان کے بلند

نور سے پرنور ہو تربت ضیا شہزاد کی


تھے وہ برقی اعظمی کے ایک یار مہرباں

جاگزیں ہے قلب میں الفت ضیا شہزاد کی


احمد علی برقی اعظمی


خالد حسن قادری

 یوم پیدائش 18 سپتمبر 1927


بہت ہیں سجدہ گاہیں پر در جاناں نہیں ملتا

ہزاروں دیوتا ہیں ہر طرف ، انساں نہیں ملتا


مثال پیر تسمہ پامری گردن پہ نازل ہیں

کوئی ایسا جو بیٹھے در صف ماچاں نہیں ملتا


زمیں سے دعویٰ الفت زمیں سے دشمنی قائم

ہیں سوداگر زراعت کے کوئی دھقاں نہیں ملتا


مثال موسی عمران عصا بردار ہم بھی ہیں

مگر ہم کو کوئی فرعوں بے ساماں نہیں ملتا


خالد حسن قادری


نوح ناروی

 یوم پیدائش 18 سپتمبر 1878


آپ جن کے قریب ہوتے ہیں

وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں


جب طبیعت کسی پر آتی ہے

موت کے دن قریب ہوتے ہیں


مجھ سے ملنا پھر آپ کا ملنا

آپ کس کو نصیب ہوتے ہیں


ظلم سہہ کر جو اف نہیں کرتے

ان کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں


عشق میں اور کچھ نہیں ملتا

سیکڑوں غم نصیب ہوتے ہیں


نوحؔ کی قدر کوئی کیا جانے

کہیں ایسے ادیب ہوتے ہیں


نوح ناروی


بلند اقبال

 یوم پیدائش 18 سپتمبر 1966


لفظوں کا رنگ شعر کا لہجہ اداس ہے

تم سے بچھڑ کے روح کا گوشہ اداس ہے


مہنگا ئیوں کا ملک پہ قبضہ ہے اس طرح

جائیں جدھر بھی جیب کا سکّہ اداس ہے


جس دن سے ننھے بچوں کا ٹی وی ہے پالنا

دادی کے لب پہ پر یوں کا قصّہ اداس ہے


آئینے پہ ہے گرد نہ نظروں کا ہے قصور

کیا کیجئے حضور یہ چہرہ اداس ہے


مشکل ہوا ہے جی کو لگانا کہیں بھی یار

تیرے بغیر اپنا دسہرہ اداس ہے


تصویر شاہکار وہ لاکھوں میں بک گئی

جس میں بغیر روٹی کے بچہ اداس ہے


بلند اقبال 


سلمان ثروت

 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1977


آنکھ ہے اک کٹورا پانی کا 

اور یہ حاصل ہے زندگانی کا 


رائیگاں کر گیا مجھے آخر 

خوف ایسا تھا رائیگانی کا 


چل نکلتا ہے سلسلہ اکثر

خوش گمانی سے بد گمانی کا 


کیا ٹھکانہ غم و خوشی کا ہو 

دل علاقہ ہے لا مکانی کا 


جا کے دریا میں پھینک آیا ہوں 

یہ کیا ہے تری نشانی کا 


جس کا انجام ہی نہیں کوئی 

میں ہوں کردار اس کہانی کا 


مدعا نظم ہو نہیں پایا 

شعر دھوکہ ہے ترجمانی کا


سلمان ثروت


سمیع احمد ثمر

 سوا خدا کے کسی کا بھی ڈر نہیں رکھتے

جھکا کے اپنا کہیں پر بھی سر نہیں رکھتے


یقین کیجئے ہم تو اصول والے ہیں

پراۓ دھن پہ کبھی بد نظر نہیں رکھتے


جو ہم نے سیکھا ہے دنیا میں وہ سکھاتے ہیں

چھپا کے اپنا کبھی ہم ہنر نہیں رکھتے


نہ جانے آنے لگے کب کہاں سے سنگ کوئی

یہ سوچ کر ہی تو شیشے کا گھر نہیں رکھتے


کبھی پہنچ نہیں پائے جو اپنی منزل تک

ہم اپنے ذہن میں ایسی ڈگر نہیں رکھتے


وہ بد گمان ہوئے ہیں کسی کے کہنے سے

ارادہ ترکِ وفا کا مگر نہیں رکھتے


وہ جو بھی کہتے ہیں اکثر ہی منہ پہ کہتے ہیں 

کبھی بھی شکوہ وہ دل میں ثمر نہیں رکھتے


سمیع احمد ثمرؔ


بیخود بدایونی


 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1857


درد دل میں کمی نہ ہو جائے

دوستی دشمنی نہ ہو جائے


تم مری دوستی کا دم نہ بھرو

آسماں مدعی نہ ہو جائے


بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں

کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے


طالع بد وہاں بھی ساتھ نہ دے

موت بھی زندگی نہ ہو جائے


اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں

عاشقی بندگی نہ ہو جائے


کہیں بیخودؔ تمہاری خودداری

دشمن بے خودی نہ ہو جائے


بیخود بدایونی

ارجمند بانو افشاں

 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1962


جو راہ چلنا ہے خود ہی چن لو یہاں کوئی راہبر نہیں ہے 

یہی حقیقت ہے بات مانو تمہیں ابھی کچھ خبر نہیں ہے 


کسی کو سادہ دلی کا بدلہ ملا ہی کب ہے جو اب ملے گا 

وفا بھی دنیا میں ایک شے ہے مگر وہ اب معتبر نہیں ہے 


نہ جانے کب رخ ہوا بدل دے بھڑک اٹھیں پھر وہ بجھتے شعلے 

ہراس ہے وہ فضا پہ طاری کہیں بھی محفوظ گھر نہیں ہے 


جو چاہتے ہیں چمن کو باٹیں وہ کیسے باٹیں‌ گے فصل گلشن 

بہے گا غنچوں کا خون کتنا انہیں تو اس کا بھی ڈر نہیں ہے 


جو پشت پہ وار کر رہے ہیں کہو کہ اب سامنے سے آئیں 

جسے وہ غافل سمجھ رہے ہیں وہ اس قدر بے خبر نہیں ہے 


نہ کامیابی ملے گی تم کو ہمیں مٹانے کی کوششوں میں 

جھکے گا جو ظالموں کے آگے وہ حق پرستوں کا سر نہیں ہے 


جو بانٹتے ہیں متاع ہستی انہیں یہ افشاںؔ ذرا بتا دو 

جو میں نے مانگا ہے حق ہے میرا مجھے یہ کہنے میں ڈر نہیں ہے 


ارجمند بانو افشاں


نصرت گوالیاری

 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1972


شفق کا رنگ کا خوشبو کا خواب تھا میں بھی

پرائے ہاتھ میں کوئی گلاب تھا میں بھی


نہ جانے کتنے زمانے مرے وجود میں تھے

خود اپنی ذات میں اک انقلاب تھا میں بھی


کہانیاں تو بہت تھیں مگر لکھی نہ گئیں

کسی کے ہاتھ میں سادہ کتاب تھا میں بھی


نہ جانے کیوں نظر انداز کر دیا مجھ کو

جہاں پہ تم تھے وہیں دستیاب تھا میں بھی


اندھیرے بونے کا ان کو جنون تھا جیسے

چمک میں اپنی جگہ آفتاب تھا میں بھی


تمہی نہیں تھے سمندر کے پانیوں کی طرح

کبھی سکون کبھی اضطراب تھا میں بھی


نہ پوچھو کتنا مزا گفتگو میں آیا ہے

ذہین وہ بھی تھا حاضر جواب تھا میں بھی


نصرت گوالیاری


انجم رہبر

 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1962


جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے

ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے


چاند تارے مرے قدموں میں بچھے جاتے ہیں

یہ بزرگوں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے


ماں مجھے دیکھ کے ناراض نہ ہو جائے کہیں

سر پہ آنچل نہیں ہوتا ہے تو ڈر لگتا ہے


انجم رہبر


سید عابد علی عابد

 یوم پیدائش 17 سپتمبر 1906


چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل

وہی الجھن گھڑی گھڑی پل پل


میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی

ان کے مرنے کا نام تاج محل


کیا سہانی گھٹا ہے ساون کی

سانوری نار مدھ بھری چنچل


نہ ہوا رفع میرے دل کا غبار

کیسے کیسے برس گئے بادل


پیار کی راگنی انوکھی ہے

اس میں لگتی ہیں سب سریں کومل


بن پئے انکھڑیاں نشیلی ہیں

نین کالے ہیں تیرے بن کاجل


مجھے دھوکا ہوا کہ جادو ہے

پاؤں بجتے ہیں تیرے بن چھاگل


لاکھ آندھی چلے خیاباں میں

مسکراتے ہیں طاقچوں میں کنول


لاکھ بجلی گرے گلستاں میں

لہلہاتی ہے شاخ میں کونپل


کھل رہا ہے گلاب ڈالی پر

جل رہی ہے بہار کی مشعل


کوہ کن سے مفر نہیں کوئی

بے ستوں ہو کہیں کہ بندھیاچل


ایک دن پتھروں کے بوجھ تلے

خود بخود گر پڑیں گے راج محل


دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ

آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل


سید عابد علی عابد


شمسی مینائی

 یوم پیدائش 16 سپتمبر 1919


دیدۂ شوق لیے جذبۂ بے تاب لئے

آج تو حسن بھی ہے عشق کے آداب لئے


چشم مخمور لئے کاکل شب تاب لئے

رشک ایماں بھی ہیں وہ کفر کے اسباب لئے


ان کے ابرو پہ ہیں بل اور تبسم لب پر

میرے افسانۂ ہستی کا نیا باب لئے


اب تو یہ حال ہے دیکھے ہوئے مدت گزری

کوئی گزرا ہی نہیں خندۂ شاداب لئے


خواب کیا چیز ہے اب خواب کی تعبیر سنو

ورنہ ہر دیدۂ بے خواب ہے اک خواب لئے


راہ میں اب کوئی طوفاں کوئی سیلاب آئے

زندگی آج ہے خود فطرت سیلاب لئے


شمسی مینائی


تاج سعید

 یوم پیدائش 16 سپتمبر 1933


شہر کے دیوار و در پر رت کی زردی چھائی تھی

ہر شجر ہر پیڑ کی قسمت میں اب تنہائی تھی


جینے والوں کا مقدر شہرتیں بنتی رہیں

مرنے والوں کے لیے اب دشت کی تنہائی تھی


چشم پوشی کا کسی ذی ہوش کو یارا نہ تھا

رت صلیب و دار کی اس شہر میں پھر آئی تھی


میں نے ظلمت کے فسوں سے بھاگنا چاہا مگر

میرے پیچھے بھاگتی پھرتی مری رسوائی تھی


بارشوں کی رت میں کوئی کیا لکھے آخر سعیدؔ

لفظ کے چہروں کی رنگت بھی بہت دھندلائی تھی


تاج سعید


صہیب فاروقی

 یوم پیدائش 16 سپتمبر 1969


ہوس کی حکم رانی ہو رہی ہے 

محبت پانی پانی ہو رہی ہے 


بسر یوں زندگانی ہو رہی ہے 

کہ جیسے لن ترانی ہو رہی ہے 


سخنور ہو زباں اپنی سنبھالو 

سخن میں بد زبانی ہو رہی ہے 


پرایا ہے وہ اب میرا نہیں ہے 

کسی کو خوش گمانی ہو رہی ہے 


بلا کر مجھ کو محفل سے نکالا 

یہ کیسی میزبانی ہو رہی ہے 


بسا رکھی ہے دل میں ایک دنیا 

پشیماں زندگانی ہو رہی ہے 


یہ کس کا ذکر آیا ہے غزل میں 

یہ کیسی گل فشانی ہو رہی ہے 


حساب زندگی دینا پڑے گا 

رقم ہر اک کہانی ہو رہی ہے 


جفا اس کی کرونا کی طرح سے 

بلائے ناگہانی ہو رہی ہے 


کہاں آتی ہے مجھ کو شعر گوئی 

خدا کی مہربانی ہو رہی ہے 


کسی طوفان کا ہے پیش خیمہ 

خموشی ذو معانی ہو رہی ہے 


کوئی رنگین لمحہ ذہن میں ہے 

جو صورت زعفرانی ہو رہی ہے 


کرشمہ ہے یہ سب اس کی نظر کا 

جوانی جاودانی ہو رہی ہے 


مبرا اس سے اب کوئی نہیں ہے 

انا بھی خاندانی ہو رہی ہے


صہیب فاروقی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...